حضور
ﷺ کی صدیق اکبر سے محبت از بنت محمد اشفاق،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

حضور ﷺ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بے پناہ محبت
فرماتے تھے اور ان کو اپنے تمام صحابہ میں سب سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔آپ ﷺ نے
انہیں اپنی زندگی میں کئی مواقع پر اپنے ساتھ رکھا،جیسے غار ثور میں اور حوض کوثر
پر۔آپ ﷺ نے اپنی زندگی میں ہی انہیں اپنی جگہ پر نماز پڑھانے اور امیر حج بنانے کا
حکم دیا۔ایک روایت کے مطابق،آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابو بکر سے محبت کرنا اور ان کا شکر
ادا کرنا میری پوری امت پر واجب ہے۔حضور ﷺ کی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے
محبت پر بے شمار احادیث موجود ہیں جن میں سے چند ملاحظہ فرمائیں:
(1) جنت میں پہلے داخلہ: حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جبریل امین علیہ السّلام میرے پاس آئےاور میرا
ہاتھ پکڑ کر جنّت کا وہ دروازہ دکھایاجس سے میری امّت جنّت میں داخل ہوگی۔حضرت ابو
بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی:یارسول اللہ!میری یہ خواہش ہے کہ میں بھی اس وقت
آپ کے ساتھ ہوتا،تاکہ میں بھی اس دروازے کو دیکھ لیتا۔رحمت عالم ﷺ نے فرمایا:ابو
بکر!میری امّت میں سب سےپہلے جنّت میں داخل ہونے والے شخص تم ہی ہوگے۔ (ابو داود،
4/280، حدیث: 4652)
(2)گھر کے صحن میں مسجد:ہجرت سے قبل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کے صحن میں مسجد
بنائی ہوئی تھی چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:میں نے ہوش سنبھالا تو
والدین دین اسلام پر عمل کرتے تھے،کوئی دن نہ گزرتا مگر رسول اللہ ﷺ دن کے دونوں
کناروں صبح و شام ہمارے گھر تشریف لاتے۔پھر حضرت ابو بکر کو خیال آیا کہ وہ اپنے
گھر کے صحن میں مسجد بنالیں،پھر وہ اس میں نماز پڑھتے تھے اور (بلند آواز سے) قرآن
مجید پڑھتے تھے،مشرکین کے بیٹے اور ان کی عورتیں سب اس کو سنتے اور تعجب کرتےاور
حضرت ابو بکر کی طرف دیکھتے تھے۔ (بخاری، 1/180، حدیث: 476)
(3)تین لقمے اور تین مبارک بادیں:ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے کھانا تیار کیا اور صحابۂ کرام
رضی اللہ عنہم کو بلایا،سب کو ایک ایک لقمہ عطا کیا جبکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی
اللہ عنہ کو تین لقمے عطا کئے۔حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اس کی وجہ پوچھی تو ارشاد
فرمایا:جب پہلا لقمہ دیا تو حضرت جبرائیل علیہ السّلام نے کہا:اے عتیق!تجھے مبارک
ہو،جب دوسرا لقمہ دیا تو حضرت میکائیل علیہ السّلام نے کہا:اے رفیق!تجھے مبارک ہو،تیسرا
لقمہ دیا تو اللہ کریم نے فرمایا:اے صدیق!تجھے مبارک ہو۔ (الحاوی للفتاویٰ، 2/51)
(4) خاص تجلی:پیارے حبیب ﷺ غار ثور تشریف لے جانے لگے تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے
اونٹنی پیش کرتے ہوئے عرض کی:یا رسول اللہ!اس پر سوار ہوجائیے۔آپ ﷺ سوار ہوگئے پھر
آپ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوکر ارشاد فرمایا:اے ابو بکر!اللہ
پاک تمہیں رضوان اکبر عطا فرمائے۔عرض کی:وہ کیا ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا:اللہ پاک تمام
بندوں پر عام تجلّی اور تم پر خاص تجلّی فرمائے گا۔ (ریاض النضرۃ، 1/166)
حضور
ﷺ کی صدیق اکبر سے محبت از بنت اشرف صادق،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

جانشین مصطفےٰ، خلیفہ اوّل،امیر المومنین حضرت صدیق اکبر رضی
اللہ عنہ کا نام پاک:عبد اللہ،کنیت:ابو بکر اور لقب:صدیق و عتیق ہے۔سبحٰن اللہ!صدیق
کا معنی ہے:بہت زیادہ سچ بولنے والا۔آپ رضی اللہ عنہ ہمیشہ سچ بولتے تھے اور عتیق
کا معنی ہے:آزاد۔سرکار عالی وقار،مدینے کے تاجدار ﷺ نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ
عنہ کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا:انت عتیقٌ مّن
النّار یعنی اے ابو بکر!تم جہنم سے آزاد ہو۔ (معجم کبیر، 1/20، حدیث:9)
آپ وہ عاشق رسول ہیں جو ہر وقت ہر گھڑی حضور کے ساتھ رہے آپ
کا غار کا واقعی مشہور ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِلَّا
تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا
ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا
تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَاۚ-فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلَیْهِ وَ
اَیَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِیْنَ كَفَرُوا
السُّفْلٰىؕ-وَ كَلِمَةُ اللّٰهِ هِیَ الْعُلْیَاؕ-وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۴۰) (پ 10، التوبۃ:
40) ترجمہ کنز الایمان: اگر تم محبوب کی مدد نہ کرو تو بیشک اللہ نے ان کی مدد
فرمائی جب کافروں کی شرارت سے انہیں باہر تشریف لے جانا ہوا صرف دو جان سے جب وہ
دونوں غار میں تھے جب اپنے یار سے فرماتے تھے غم نہ کھا بےشک اللہ ہمارے ساتھ ہے
تو اللہ نے اس پر اپنا سکینہ(اطمینان)اتارا اور ان فوجوں سے اس کی مدد کی جو تم نے
نہ دیکھی اور کافروں کی بات نیچے ڈالی اللہ ہی کا بول بالا ہے اور اللہ غالب حکمت
والا ہے۔
حدیث مبارکہ میں ہے: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے
روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:حضرت ابوبکر صدیق رضی
اللہ عنہ ہمارے سردار ہیں، ہم میں سب سےبہتر اور رسول اللہ ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب
ہیں۔ (ترمذی،5/372، حدیث:3676)
حضرت موسی بن شداد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے
امیر المؤمنین حضرت علی المرتضی شیر خدا کرّم اللہ وجہہ الکریم کو یہ فرماتے ہوئے
سنا: ہم سب صحابہ میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سب سے افضل ہیں۔ (الریاض
النضرۃ، 1/138)
حضور ﷺ کی آپ سے محبت پر احادیث مبارکہ:
(1) ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے کھانا تیار کیا اور صحابۂ کرام
رضی اللہ عنہم کو بلایا،سب کو ایک ایک لقمہ عطا کیا جبکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی
اللہ عنہ کو تین لقمے عطا کئے۔حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اس کی وجہ پوچھی تو ارشاد
فرمایا:جب پہلا لقمہ دیا تو حضرت جبرائیل علیہ السّلام نے کہا:اے عتیق!تجھے مبارک
ہو،جب دوسرا لقمہ دیا تو حضرت میکائیل علیہ السّلام نے کہا:اے رفیق!تجھے مبارک ہو،تیسرا
لقمہ دیا تو اللہ کریم نے فرمایا:اے صدیق!تجھے مبارک ہو۔ (الحاوی للفتاویٰ، 2/51)
(2) پیارے حبیب ﷺ غار ثور تشریف لے جانے لگے تو حضرت ابو
بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اونٹنی پیش کرتے ہوئے عرض کی:یا رسول اللہ!اس پر سوار
ہوجائیے۔آپ ﷺ سوار ہوگئے پھر آپ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ
ہوکر ارشاد فرمایا:اے ابو بکر!اللہ پاک تمہیں رضوان اکبر عطا فرمائے۔عرض کی:وہ کیا
ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا:اللہ پاک تمام بندوں پر عام تجلّی اور تم پر خاص تجلّی فرمائے
گا۔ (الریاض النضرۃ، 1/166)
(3) جس قوم میں ابو بکر موجو د ہوں تو ان کے لئے مناسب نہیں
کہ کوئی اور ان کی امامت کرے۔ (ترمذی،5/379،حد یث:3693)
(4) مجھے کسی مال نے وہ نفع نہ دیا جو ابو بکر کے مال نے
دیا۔(ابن ماجہ،1/72،حدیث:94)
(5) اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابو بکر کو بناتا لیکن وہ
میرا بھائی اور دوست ہے۔ (مسلم، ص 998، حدیث: 6172)
(6) ہم نے ابو بکر کے سوا سب کے احسانات کا بدلہ دے دیا ہے
البتّہ ان کے احسانات کا بدلہ اللہ کریم قیامت کے دن خود عطا فرمائے گا۔(ترمذی،5/374،حدیث:3681)
(7) بارگاہ رسالت میں عرض کی گئی:لوگوں میں سے آپ کو زیادہ
محبوب کون ہے؟فرمایا:عائشہ۔دوبارہ عرض کی گئی:مردوں میں سے کون؟ارشاد ہوا:ان کے
والد(یعنی ابو بکر صدّیق رضی اللہ عنہ)۔ (بخاری، 2/519، حدیث:3662)
(8) نبی کریم ﷺ نے اپنے آخری ایام میں حکم ارشاد فرمایا:مسجد(نبوی)میں
کسی کا دروازہ باقی نہ رہے،مگر ابو بکر کادروازہ بند نہ کیا جائے۔
ان احادیث کے علاوہ بہت سی احادیث مبارکہ ایسی ہیں جو آپ رضی
اللہ عنہ سے محبت پر دلالت کرتی ہیں۔
حضور
ﷺ کی صدیق اکبر سے محبت از بنت محمد انور، جامعۃ المدینہ تلواڑہ مغلاں سیالکوٹ

محبت رسول:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تم میں سے کوئی شخص(کامل)مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک میں
اسے اس کے نزدیک اس کی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔(دس اسلامی عقیدے،ص 56)
بے شک کسی بھی شخص کا ایمان کامل نہیں ہوتا جب تک وہ اپنی
جان سے بڑھ کر حضور ﷺ کو محبوب نہ سمجھے لیکن اگر وہ محبوب دو عالم ﷺ کسی سے محبت
رکھیں،کسی کے فضائل بیان فرمائیں،اس کو دیگر لوگوں سے ممتاز و اعلیٰ بنا دیں تو اس
سے بڑھ کر خوش نصیبی کیا ہوگی! اور یہی مقام حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے
حصہ کرم میں آیا ہے۔آپ ہی وہ عظیم شخصیت ہیں جن کو اسلام کے پہلے خلیفہ ہونے کا
اعزاز حاصل ہے۔آئیے! نبی کریم ﷺ کی آپ سے محبت کی چند روشن مثالیں ملاحظہ کیجئے:
ایمان میں سبقت:حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سب سے پہلے اسلام لانے والے مرد ہیں۔انہوں نے
بلا تردد یعنی بغیر کسی دلیل کے اسلام قبول کیا۔جیسا کہ محمد بن اسحق رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں:مجھ سے محمد بن عبد الرحمن رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے کہ رسول
پاک ﷺ نے فرمایا:جب میں نے کسی کو اسلام کی دعوت دی تو اس کو تردد ہوا علاوہ ابو
بکر کے کہ جب میں نے ان پر اسلام پیش کیا تو انہوں نے بغیر تردد کے قبول کر لیا۔ (تاریخ
مدینۃ دمشق ،44/30)
یار غار بھی تو۔!حضر کے ساتھ سفر میں بھی آپ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کے رفیق سفر رہے اور بروز
قیامت بھی آپ حضور کے ساتھ ہوں کیونکہ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ
عنہ سے فرمایا:غار ثور میں تم میرے ساتھ رہے اور حوض کوثر پر بھی تم میرے ساتھ رہو
گے۔(ترمذی،5/378، حدیث: 3690)
سب سے زیادہ نفع:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: سارے
انسانوں میں مجھ پر بڑا احسان کرنے والے اپنی صحبت اپنی محبت و مال میں ابو بکر
ہیں اور اگر میں کسی کو دلی دوست بناتا تو میں ابو بکر کو دوست بناتا لیکن اسلام
کا بھائی چارا اور اس کی دوستی ہے۔دوسری روایت میں یوں ہے کہ اگر میں اپنے رب کے
سوا کسی کو دوست بناتا تو ابو بکر کو دوست بناتا۔(مشکاۃ المصابیح،2/415، حدیث:6019)
اسی طرح کی ایک روایت کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ
اللہ علیہ لکھتے ہیں:یہاں احسان سے یا تو وہ بدنی،مالی،وطنی اولاد کی قربانیاں
مراد ہیں جو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ برابر کرتے رہے یا حضرت بلال رضی اللہ
عنہ کو خرید کر آزاد کرنا مراد ہے کہ حضور ﷺنے فرمایا کہ صدیق نے مجھ پر احسان کیا
کہ بلال کو آزاد کروایا ۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی خریداری پر حضور ﷺ نے حضرت صدیق
اکبر رضی اللہ عنہ کے لئے فرمایا تھا
اے ابو بکر!بلال کی خریداری میں ہم کو بھی اپنے ساتھ ملالو،آدھی
قیمت ہم سے لے لو،ہم تم دونوں ان کے خریدار ۔تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تڑپ
گئے اورقدموں پر فدا ہو کر بولے:حضور!میں بھی آپ کا غلام،بلال بھی آپ کے غلام۔حضور
میں نے انہیں آپ کے لئے خریدا ہے،میں نے انہیں آزاد کر دیا۔ حضرت بلال رضی اللہ
عنہ نے جب چہرۂ مصطفےٰ دیکھا تو چہرۂ پاک دیکھتے ہی غش کھا گئے اور بے ہوش ہو گئے۔
حضور ﷺنے اپنی چادر سے چہرے کا گرد و غبار صاف کیا اور فرمایا:اے بلال!تجھے اللہ
پاک کی راہ میں بڑی اذیتیں پہنچیں۔اے صدیق!تم پر لاکھوں سلام کہ تم نے ہم سب
مسلمانوں کے آقا حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو آزاد کیا۔تم نے ہمارے آقا حضرت بلال
رضی اللہ عنہ کو آزاد کیا۔تم ہمارے آقا کے آقا ہو۔ (مراۃ المناجیح، 8/352)
خلیل یا تو بنا ہے خلت خ کے پیش سے بمعنی دلی دوست جس کی
محبت دل کی گہرائی میں اتر جائے۔حضور کا ایسا محبوب صرف اللہ ہی ہے،یا بنا ہے خلت
خ کے فتحہ سے بمعنی حاجت یعنی وہ دوست جس پر توکل کیا جائے اور ضرورت کے وقت اس سے
مشکل کشائی حاجت روائی کرائی جائے،حضور انور ﷺ کا ایسا کار ساز حاجت روا محبوب
سواء خدا کے کوئی نہیں ورنہ اصل محبت حضور ﷺ کوجناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے بہت
زیادہ ہے۔(مراۃ المناجیح،8/347،346) نیزصوفیاء کے نزدیک خلیل وہ
ہے جس کی محبت میں دل رہے اور رفیق وہ ہے جس کی محبت دل میں رہے ۔(مراۃ المناجیح،8/352)
اللہ کریم اور حضور ﷺ کی محبت و عنایت حضرت ابو بکر رضی
اللہ عنہ کے فضائل پر مشتمل روایات سے واضح ہے ملاحظہ کیجیے:
آپ ﷺ نے لوگوں کو حکم دیا کہ ابو بکر کے پیچھے نماز پڑھیں
مگر اتفاق سے اس وقت حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ موجود نہ تھے تو حضرت عمر رضی اللہ
عنہ آگے بڑھے تاکہ لوگوں کو نماز پڑھائیں لیکن نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:نہیں،نہیں۔اللہ
اور مسلمان ابو بکر سے ہی راضی ہیں اور وہی لوگوں کو نماز پڑھائیں گے۔ (خلفائے
راشدین، ص 11) اسی روایت سے حضور ﷺ کا علم غیب دیکھنے کو ملتا ہے کہ آپ کے بعد حرف
با حرف یہ بات ثابت ہوئی کہ خلافت کے معاملے میں اللہ اور لوگ ابو بکر کے علاوہ
کسی سے راضی نہ ہوں گے اسی طرح آپ پہلے خلیفہ مقرر ہوئے اور حضور ﷺ نے آپ کو آگے
بڑھایا مصلے پر کھڑا کیا تو بھلا پھر کون آپکو پیچھے کرسکتا تھا؟
میرے یار کا مرتبہ تم کیا جانو؟ حضرت مقدام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر رضی
اللہ عنہ سے حضرت عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کچھ سخت کلامی کی مگر حضرت ابو
بکر رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ کی قرابت داری کا خیال کرتے ہوئے حضرت عقیل کو کچھ
نہیں کہا اور حضور ﷺ کی خدمت میں پورا واقعہ بیان کیا۔ حضرت ابو بکر سے پورا ماجرا
سن کر رسول ﷺ مجلس میں کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے لوگو! سن لو میرے دوست کو میرے لئے
چھوڑ دو تمہاری حیثیت کیا ہے؟ اور ان کی حیثیت کیا ہے؟تمہیں کچھ معلوم ہے؟خدا کی
قسم!تم لوگوں کے دروازوں پر اندھیرا ہے مگر ابو بکرکے دراوزے پر نور کی بارش ہورہی
ہے، خدائے ذوالجلال کی قسم!تم لوگوں نے مجھے جھٹلایا اور ابو بکر نے میری تصدیق کی
تم لوگوں نے مال خرچ کرنے میں بخل سے کام لیا ابو بکر نے میرے لئے اپنا مال خرچ
کیا اور تم لوگوں نے میری مدد نہیں کی مگر ابو بکر نے میری غمخواری کی اور میری
اتباع کی۔ (خلفائے راشدین، ص 36، 37)
آپ کی محبت واجب ہے: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا:ابو بکر سے محبت اور
ان کا شکرادا کرنا میری پوری امت پر واجب ہے۔ (تاریخ الخلفاء، ص 40)
حضور
ﷺ کی صدیق اکبر سے محبت از بنت عارف حسین، جامعۃ المدینہ تلواڑہ مغلاں سیالکوٹ

حضور ﷺ کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بے پناہ محبت
تھی۔یہ محبت صرف ذاتی تعلق کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ اس میں دین اسلام کی سر بلندی
اور آپ کے مشن کی تکمیل کا جذبہ کارفرما تھا۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے
ہمیشہ حضور ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری میں اپنی جان و مال کو قربان کیا۔حضور ﷺ نے
بھی ان پر بھرپور اعتماد کیا اور انہیں اپنے قریبی ساتھیوں میں شمار کیا۔کچھ اہم
باتیں جو حضور ﷺ کی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے محبت کو ظاہر کرتی ہیں پیش
خدمت ہیں:
غار ثور میں رفاقت:ہجرت کے موقع پر حضور ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ رکھا
اور غار ثور میں بھی ان پر بھروساکیا۔
امامت نماز:حضور ﷺ نے اپنی بیماری کے دوران حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نماز
پڑھانے کا حکم دیا،جو آپ ﷺ کے بعد مسلمانوں کی قیادت کے لئے ان کی اہلیت کا واضح
ثبوت تھا۔
خلافت:حضور ﷺ کے
وصال کے بعدمسلمانوں نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا،جو اس
بات کا ثبوت ہے کہ حضور ﷺ ان پر کتنا اعتماد کرتے تھے۔
احادیث میں ذکر:بہت سی احادیث میں حضور ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور
مقام کو بیان کیا ہے۔
ذاتی تعلق:حضور ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے درمیان ایک گہرا اور ذاتی تعلق
تھا جو کہ دوستی،محبت اور احترام پر مبنی تھا۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ میں اہل جنت کی چار
صفات: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:(1)آج تم میں سے کس نے روزہ رکھا
ہے؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: میں نے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: (2)آج
تم میں سے کون جنازے کے ساتھ گیا؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: میں۔آپ ﷺ
نے دریافت فرمایا:(3)آج تم میں سے کس نے مسکین کو کھانا کھلایا؟حضرت ابو بکر رضی
اللہ عنہ نے عرض کی:میں نے ۔آپ ﷺ نے دریافت فرمایا:(4)آج تم میں سے کس نے بیمار کی
عیادت کی؟حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی:میں نے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جس آدمی
میں بھی یہ تمام باتیں جمع ہو گئیں وہ جنت میں ضرور داخل ہو گا۔(مسلم، ص398، حدیث
: 2374)
احسان ابو بکر :حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ منبر پر بیٹھے
اور فرمایا:اللہ پاک کا ایک بندہ ہے جس کو اللہ پاک نے اختیار دیا ہے کہ چاہے دنیا
کی دولت لے چاہے اللہ پاک کے پاس رہنا اختیار کرے۔پھر اس نے اللہ پاک کے پاس رہنا
اختیار کیا۔یہ سن کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ روئے اور سمجھ گئے کہ آپ ﷺ کی
وفات کا وقت قریب ہے اور بہت روئے۔پھر کہا:ہمارے باپ دادا ہماری مائیں آپ ﷺ پر
قربان ہوں۔پھر معلوم ہوا کہ اس بندے سے مراد خود رسول اللہ ﷺ ہیں۔حضرت ابو بکر
صدیق رضی اللہ عنہ ہم سے زیادہ علم رکھنے والے تھے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سب لوگوں سے زیادہ مجھ پر حضرت ابو بکر صدیق رضی
اللہ عنہ کا احسان ہے ،مال کا بھی ہے اور صحبت کا بھی ۔ اگر میں کسی کو
خلیل بناتا تو ابو بکر کو بناتا لیکن اسلام کی اخوت یعنی بھائی چارہ قائم ہے۔مسجد
میں کسی کا دروازہ نہ کھلا رہے سب بند کر دئیے جائیں پر ابو بکر کے گھر کا دروازہ کھلا
رہے۔(مسلم،ص998،حدیث:6170)
شان صدیق اکبر رضی اللہ عنہ:حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ
نے ارشاد فرمایا: میرے دو وزیر آسمان میں ہیں اور دو وزیر زمین میں ہیں۔میرے آسمان
کے دو وزیر حضرت جبرائیل علیہ السلام اور حضرت میکائیل علیہ السلام ہیں اور زمین
میں دو وزیر حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔(ترمذی،5/382،حدیث:
3700)
حضرت ابو بکر تمام صحابہ سے افضل ہیں: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ہم رسول
اللہ ﷺ کے زمانے میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو سب سے افضل شمار کرتے تھے ، ان
کے بعد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اور ان کے بعد حضرت عثمان بن عفان رضی
اللہ عنہ کو۔(بخاری،2/518،
حدیث:3655)
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی کے مال نے کبھی مجھے اتنا نفع
نہیں دیا جتنا ابو بکر کے مال نے دیا ہے۔ (ترمذی،5/609،حدیث:3661)
حضور
ﷺ کی صدیق اکبر سے محبت از بنت سید ابرار حسین، جامعۃ المدینہ پاکپورہ سیالکوٹ

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا نام مبارک عبد اللہ بن
عثمان ہے۔آپ کی کنیت ابو بکر ہے۔آپ رضی اللہ عنہ نام کی بجائے کنیت سے مشہور ہیں۔
عربی میں ابو کے معنی ہوتے ہیں:والا اور بکر کے معنی ہیں:اولیت۔تو
ابو بکر کے معنی ہوئے:اولیت والے۔ آپ اسلام لانے،مال خرچ کرنے،جان لٹانے، ہجرت
کرنے، قیامت کے دن آقا ﷺ و انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد سب سے پہلے قبر کھلنے
وغیرہ ہر معاملے میں اولیت رکھتے ہیں۔آپ رضی اللہ عنہ بہت نیک و پاک سیرت تھے۔آپ
نے زمانۂ جاہلیت میں بھی نہ کبھی شرک کیا،نہ ہی شراب پی، نہ کبھی کوئی بیہودہ شعر
کہا۔آپ رضی اللہ عنہ وہ خوش قسمت ہیں کہ جن کو سب سے پہلے آقا ﷺ پر ایمان لانے اور
آپ کی مدد کرنےوغیرہ معاملات میں اولیت حاصل ہے۔آپ زبان مصطفےٰ سے صدیق و عتیق
فرمائے گئے۔آپ رضی اللہ عنہ کے فضائل و اوصاف بےشمار ہیں۔البتہ!اہل سنت کا اس بات
ہر اجماع ہے کہ انبیا و رسل بشر و رسل ملائکہ علیہم السلام کے بعد سب سے افضل حضرت
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہیں۔آپ رضی اللہ عنہ یار غار و یار مزار ہیں اور حوض کوثر
پر بھی پیارے آقا کریم ﷺ کے ساتھ ہوں گے۔چنانچہ حدیث مبارک میں ہے:حضرت ابن عمر
رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے راوی ہیں کہ حضور ﷺ نے حضرت ابو بکر
رضی اللہ عنہ سے فرمایا:تم میرے غار میں ساتھی ہو اور حوض پر میرے ساتھی ہو۔(ترمذی،
5/ 378 ، حدیث: 3690)
آئیے! آقا ﷺ کی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے محبت سے
متعلق احادیث ملاحظہ فرمائیے۔چنانچہ
رسول اللہ ﷺ کو پیارے:حضرت عمرو ابن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے انہیں ذات سلاسل کے
لشکر پر امیر بنا کر بھیجا۔فرماتے ہیں کہ میں حضورکے پاس آیا،میں نے کہا:لوگوں میں
آپ کو زیادہ پیارا کون ہے؟فرمایا:عائشہ۔میں نے کہا:مردوں میں؟فرمایا:ان کے والد۔میں
نے عرض کی:پھر کون؟فرمایا:عمر ۔پھر حضور نے چند حضرات گنوائے تو میں چپ ہوگیا اس
خوف سے کہ مجھے ان سب کے آخر میں کردیں۔(بخاری،3/126،حدیث:4358)
رسول اللہ ﷺ کو سب سے پیارے:حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ
ہمارے سردار،ہم سب سے بہتر اور ہم سب میں رسول اللہ ﷺ کو پیارے ہیں۔ (ترمذی، 5/372،
حدیث:3676)
حضرت صدیق اکبر ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی
میں رہے:سولہ برس کی عمر میں حضور پر نور،سید عالم ﷺ کے قدم پکڑے کہ
عمر بھر نہ چھوڑے،اب بھی پہلوئے اقدس میں آرام کرتے ہیں،روز قیامت دست بدست حضور(ہاتھ
میں ہاتھ ڈالے)اٹھیں گے،سایہ کی طرح ساتھ ساتھ داخل خلد بریں ہوں گے۔ جب حضور اقدس
ﷺ مبعوث ہوئے فوراً بے تامل(بغیر غور و فکر کے)ایمان لائے۔لہٰذا سید نا امام ابو الحسن
اشعری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:لم يزل ابو بكر بعين
الرضا منہ یعنی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہمیشہ سرکار اقدس ﷺکی
خوشنودی میں رہے۔(فتاویٰ رضویہ، 28/ 457)
آقا ﷺ اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بعثت نبوی سے قبل
بھی دوست تھے۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور نبی کریم،رؤف رحیم ﷺ کے مابین
ایسی گہری دوستی تھی کہ رسول اللہ ﷺ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے گھر روزانہ
تشریف لاتے تھے۔چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ
کوئی دن ایسا نہ گزرتا تھا جس کی صبح و شام رسول اللہ ﷺہمارے گھر تشریف نہ لاتے
ہوں۔(بخاری،1/180،حدیث:476)
اگر رسول اللہ ﷺ کسی کو اللہ کے سوا خلیل بناتے
تو ابو بکر کو بناتے:حضرت عبد اللہ ابن مسعود سے
روایت ہے،وہ نبی ﷺ سے راوی،فرمایا:اگر میں کسی کو دوست بناتا تو ابو بکر کو دوست
بناتا لیکن وہ میرے بھائی اور میرے ساتھی ہیں اور اللہ نے تمہارے صاحب کو دوست
بنایا۔(مسلم،ص1299، حدیث:2383)
ابو بکر کے احسان کا بدلہ اللہ پاک بروز قیامت
انہیں عطا فرمائے گا:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے، فرماتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:ہم پر کسی کا احسان نہیں مگر ہم نے
اس کا بدلہ چکا دیا سوائے ابو بکر کے کہ ہم پر ان کا احسان ہے کہ اللہ انہیں اس کا
بدلہ قیامت کے دن دے گا۔مجھے کسی کے مال نے اتنا نفع نہ دیا جتنا ابو بکر کے مال
نے نفع دیا۔ اگر میں کسی کو دوست بناتا تو ابو بکر کو دوست بناتا۔خیال رکھو کہ
تمہارے صاحب اللہ کے دوست ہیں۔(ترمذی،5/374،حدیث:3681) اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو
اور ان کے صدقے ہماری بلا حساب مغفرت ہو۔امین
اللہ پاک ہمیں حضرت صدیق اکبر و عاشق اکبر رضی اللہ عنہ کے صدقے
کامل،مومنہ،متقیہ،سچی پکی عاشقۂ رسول بنائے،ایمان پر استقامت اور دونوں جہانوں
میں بھلائیاں عطا فرمائے۔تمام جائز مرادوں پر رحمت کی نگاہ فرمائے۔ امین بجاہ خاتم
النبیین ﷺ
حضور
ﷺ کی صدیق اکبر سے محبت از بنت فضل الحق عطاریہ، جامعۃ المدینہ پاکپورہ سیالکوٹ

محبت ازل سے چلتی آ رہی ہے جو سب سے پہلے اللہ پاک نے اپنے
پیارے حبیب ﷺ سے فرمائی یہاں تک کہ اس دنیا کو حضور جان جاناں ﷺ کے لئے ہی پیدا
فرمایا ۔چنانچہ حدیث قدسی ہے:حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ
اللہ پاک نے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی طرف وحی فرمائی:يا عيسٰى آمن بمحمّدٍ و امر من ادركہ من امّتك ان يّؤمنوا بہٖ فلولا محمّدٌ ما
خلقت آدم و لو لا محمّدٌ ما خلقت الجنّة و لا النّار یعنی اےعیسیٰ!محمد عربی پر ایمان لاؤ اور اپنی امّت میں سے ان کا زمانہ پانے
والوں کو بھی ان پر ایمان لانے کا حکم دو۔اگر محمد نہ ہوتے تو میں نہ آدم کو پیدا
کرتا اور نہ ہی جنت و دوزخ بناتا۔
(مستدرک،3 / 516،حدیث:4285)
اسی طرح پیارے آقا ﷺ نے بھی اللہ پاک سے محبت فرمائی اور اللہ
پاک کی خاطر دوسروں سے محبت فرمائی جن میں سے ایک ہستی حضور ﷺ کے اصحاب میں سے
نمایاں شخصیت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں جو انبیائے کرام علیہم السلام کے
بعد تمام مخلوق میں سب سے افضل ہیں۔ جو عتیق بھی ہیں،صدیق بھی ہیں،صادق بھی ہیں،صدیق
اکبر بھی ہیں،جو حضور ﷺ کی حیات طیبہ میں ان کے رفیق ہیں اور مزار پر انوار میں
بھی ان کے رفیق ہیں۔آپ وہ بلند ہستی ہیں جن کے اوصاف و احسانات خود رسول کریم ﷺ نے
بیان فرمائے۔آپ رضی اللہ عنہ کی شخصیت آقا ﷺ کی رفاقت میں ہے۔یہ ہستی تو دل و جان
سے جان جاناں ﷺ پر فدا تھی ۔آئیے! اب جانتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ ان سے کیسی محبت
فرماتے تھے ۔ چنانچہ
حضرت عمرو ابن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں حضور ﷺ کے
پاس آیا،میں نے کہا:لوگوں میں آپ ﷺ کو زیادہ پیارا کون ہے؟فرمایا:عائشہ!میں نے کہا:مردوں
میں؟فرمایا:ان کے والد!میں نے عرض کی: پھر کون؟فرمایا:عمر،پھر حضور ﷺ نے چند حضرات
گنائے تو میں چپ ہو گیا اس خوف سے کہ مجھے ان سب کے آخر میں کر دیں۔(بخاری،3/126،حدیث:4358)
آپ نے پڑھا کہ مذکورہ روایت میں حضور ﷺ نے مردوں میں سب سے
پہلے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ذکر فرمایا،اس کے علاوہ بھی کثیر احادیث
میں پیارے آقا ﷺ کی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے محبت کی جھلکیاں دیکھنے کو
ملتی ہیں۔حضرت صدیق اکبر حضور ﷺ کے دوست بھی کہلاتے ہیں۔دنیاوی لحاظ سے دیکھا جائے
تو ہر کسی کی کسی نہ کسی سے دوستی ہوتی ہے، کسی کی دنیا دار سے تو کسی کی دین دار
سے،کسی کی دوستی دنیاوی غرض پر مبنی ہوتی ہے تو کسی کی اخروی،لیکن کسی سے وفا ملنا
مشکل ترین امر ہے، کسی نہ کسی لحاظ سے انسان کو ٹھوکر لگ ہی جاتی ہے،دل آزاریوں اور
بے وفائیوں کی بھرمار ہوتی ہے،لیکن پیارے آقا ﷺ اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی
دوستی ایسی با کمال تھی کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ زمانۂ جاہلیت و زمانۂ
اسلام دونوں میں رسول اللہ ﷺ کے دوست رہے،جس وقت سب نے آقا ﷺ کو جھٹلایا آپ رضی اللہ
عنہ نے اس وقت بھی آقا ﷺ کی تصدیق فرمائی تھی،آپ رضی اللہ عنہ سفر ہجرت کے دوست،پھر
یار غار اور ایسے یار کہ آقا ﷺ کی خاطر اپنی جان کی بھی پروا نہ کریں،اسے کہتے ہیں
حقیقی دوستی ۔
دوستی اور مصاحبت ہمیشہ نیک،صالح اور قرآن و سنت کے احکام
پر عمل پیرا ہونے والوں کی ہی اختیار کرنی چاہئے،کیونکہ صحبت اثر رکھتی ہے،اچھے
اور برے دوست کی مثال اس حدیث پاک سے سمجھئے۔چنانچہ فرمان مصطفےٰ ﷺ ہے:اچھے برے
ساتھی کی مثال مشک کے اٹھانے اور بھٹی دھونکنے(آگ بھڑکانے)والے کی طرح ہے،مشک
اٹھانے والا یا تجھے ویسے ہی دے گا یا تو اس سے کچھ خرید لے گا یا اس سے اچھی
خوشبو پائے گا اور بھٹی دھونکنے والا یا تیرے کپڑے جلادے گا یا تو اس سے بدبو پائے
گا۔
( مسلم،ص،1084،حدیث:6692)
فرمان آخری نبی:آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے۔لہٰذا تم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ وہ
دیکھے کس سے دوستی کر رہا ہے۔(ابو داود ،4/341
، حدیث:4833)
حضور
ﷺ کی صدیق اکبر سے محبت از بنت محمد وسیم ظفر، جامعۃ المدینہ صدر راولپنڈی

اسلام کے پہلے خلیفہ،افضل البشر بعد الانبياء،یار غار و یار
مزار،تمام صحابہ میں سب سے افضل،جناب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام مبارک
مشہور قول کے مطابق عبد اللہ،والد کا نام ابو قحافہ ہے۔ آپ کی کنیت ابو بکر اور
مشہور القاب میں صدیق اکبر اوریار غار ہیں۔آپ رضی اللہ عنہ واقعۂ فیل کے 2 سال
چار ماہ بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔مردوں میں سب سے پہلے اسلام لائے۔سفر،حضر،بازار،گھر
ہر وقت نبی کریم ﷺ کے ساتھ رہتے۔بقول شاعر :
ہر وقت آقا کے ساتھ رہتے سفر و حضر میں بازار و
گھر میں
اب بھی لحد میں ان کے برابر صدیق اکبر صدیق اکبر
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور نبی کریم ﷺظہور اسلام سے
قبل بھی ایک دوسرے کے دوست تھے۔
دوستی کی وجوہات:نبی کریم ﷺ اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی دوستی کی کئی وجوہات تھیں:
1۔دونوں ہم عمر تھے۔
2 ۔دونوں ہی کی طبیعت نہایت نفیس تھی۔
3۔آپ رضی اللہ عنہ مکہ پاک کے اس محلے میں رہتے تھے جہاں
مکہ کے رئیس رہائش پذیر تھے۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کے بعد نبی کریم ﷺ
بھی اسی محلے میں تشریف لے آئے تھے تو محلے داری کی بنا پر بھی دوستی قائم ہوئی۔
حضور اکرم ﷺ کا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے محبت
کا انداز:ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑے
تھے کہ اتنے میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے۔نبی کریم ﷺ نے آگے بڑھ
کر ان سے مصافحہ فرمایا اور پھر گلے لگا کر منہ چوم لیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ
سے فرمایا: اے ابو الحسن!میرے نزدیک ابو بکر کا وہی مقام ہے جو رب کے یہاں میرا
مقام ہے۔(الریاض النضرة، 1/185)
(فیضان صدیق اکبر،ص 571)
جنگ احد میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبد
الرحمن جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے مقابلہ کے لئے للکارا تو نبی کریم ﷺ نے
انہیں بٹھا دیا،یار غار رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ!مجھے اجازت عطا
فرمائیں،میں ان کے اول دستے میں گھس جاؤں گا۔ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:اے ابو بکر!ابھی
تو ہم نے تمہاری ذات سے بہت سے فائدے اٹھانے ہیں اور تمہیں معلوم نہیں کہ میرے
نزدیک تمہاری حیثیت بمنزلہ کان اور آنکھ کے ہے۔(تفسیر روح البیان،9/413)(تفسیر روح
المعانی،الجزء: 28)(الریاض النضرة،1/186،185)
رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:مجھ پر جس کسی کا احسان تھا میں
نے اس کا بدلہ چکا دیا ہے مگر ابو بکر کے مجھ پر وہ احسانات ہیں جن کا بدلہ اللہ
پاک ان کو آخرت میں عطا فرمائے گا۔ (ترمذی، 5/374، حدیث: 3681)
ایک بار حضرت ابو بکر اور حضرت عقیل بن ابی طالب رضی اللہ
عنہما کے درمیان شکررنجی ہو گئی،حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے ان
کی قرابت داری کی وجہ سے روگردانی کرتے رہے۔البتہ! سارا معاملہ نبی پاک ﷺ کو بیان
کر دیا۔سارا معاملہ دریافت فرمانے کے بعد نبی کریم ﷺ لوگوں میں تشریف لائے اور
فرمایا:تم لوگوں کا اور ابو بکر کا کیا موازنہ؟خدا کی قسم!تم میں سے ہر ایک کے دل
پر اندھیرا ہے سوائے ابو بکر کے دل کے کہ اس کا دل نور سے معمور ہے۔(تاریخ
مدینۃ دمشق،30/110)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:ابو بکر دنیا اور آخرت میں میرا بھائی
ہے۔اللہ اس پر رحم فرمائے اور اپنے رسول کی طرف سے اسے بہتر جزا دے کہ اس نے اپنی
جان ومال سے میری مدد کی۔(الریاض النضرۃ،1/131)
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی شخص نے ابو قحافہ کے بیٹے
سے بڑھ کر اپنی جان ومال سے مجھے امن نہیں دیا۔اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابو
بکر کو بناتا مگر اسلام کی اخوت قائم ہے۔ مسجد کا ہر دروازہ بند کر دو مگر ابو بکر
کا دروازہ کھلا رہنے دو۔(بخاری، 2/591،حدیث:3904)
فرمایا:ابو بکر سے بڑھ کر کسی نے مجھ پر احسان نہیں کیا۔انہوں
نے مجھ پر احسان کیا اور اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کیا۔(معجم اوسط،3/50،حدیث:3835)
ارشاد فرمایا:ابو بکر کے مال جیسا نفع مجھے کسی کے مال نے
نہیں دیا۔(ابن
ماجہ،1/72،حدیث:94)اور آپ ان کے
مال میں اس طرح تصرف فرماتے جیسے اپنے مال میں تصرف فرماتے تھے۔(مصنف
عبد الرزاق، 10/222،
حدیث:4848)
ارشاد فرمایا:مجھے کسی کے مال نے اتنا نفع نہ دیا جتنا ابو
بکر کے مال نے دیا ۔اس پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ رو پڑے اور کہا:میں اور
میرا مال آپ ہی کا ہے۔ (ابن ماجہ،1/72،حدیث:94)
اللہ پاک ہمیں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور نبی کریم ﷺ
کی باہمی محبت کے صدقے میں قیامت کے میدان میں سرخرو فرمائے ۔آمین
حضور
ﷺ کی صدیق اکبر سے محبت از بنت ظہیر شاہ، جامعۃ المدینہ جوہر آباد خوشاب

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا
کہ خاتم النبیین ﷺ حضرت علی المرتضیٰ،شیر خدا کرم اللہ وجہہ کریم کے ساتھ کھڑے تھے
،اتنے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے ،رسول اللہ ﷺ نے آگے بڑھ کر
ان سے مصافحہ فرمایا،پھر گلے لگا کر آپ کے منہ کو چوم لیا اور حضرت علی المرتضیٰ،شیر
خدا کرم اللہ وجہہ الکریم سے ارشاد فرمایا:اے ابو الحسن!میرے نزدیک ابو بکر کا وہی
مقام ہے جو اللہ کے ہاں میرا مقام ہے۔(الریاض النضرة،1/185)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنگ
احد میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبد الرحمن کو جو اس وقت تک
مسلمان نہیں ہوئے تھے اور کفار کی طرف سے لڑ رہے تھے مقابلے کے لئے للکارا تو رسول
اللہ ﷺ نے آپ کو بیٹھنے کا حکم ارشاد فرمایا،آپ نے سرکار مدینہ ﷺ کی بارگاہ میں
عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ!مجھے اجازت دیجئے میں ان کے اول دستے میں گھس جاؤں گا،تو
نبی کریم ﷺ نے آپ سے ارشاد فرمایا:اے ابو بکر!ابھی تو ہمیں تمہاری ذات سے بہت
زیادہ فائدہ اٹھانے ہیں وہ تمہیں معلوم ہے نہیں کہ میرے نزدیک تمہاری حیثیت بمنزلہ
کان اور آنکھ کے ہے۔(تفسیر روح البیان،9/413)(تفسیر روح المعانی،الجزء: 28)(الریاض
النضرة،1/186،185)
حضور ﷺ ممبر پر جلوہ افروز ہوئے تو ارشاد فرمایا:کسی شخص نے
ابوبکر سے بڑھ کر اپنی جان و مال سے مجھے امن نہیں دیا۔اگر میں کسی کو خلیل بناتا
تو ابو بکر کو بناتا مگر اسلامی بھائی چارہ قائم ہے۔ مسجد کا ہر دروازہ بند کر دو
مگر ابو بکر کا دروازہ کھلا رہے۔(بخاری، 2/591،حدیث:3904)اللہ پاک ہمیں بھی حضرت صدیق
اکبر رضی اللہ عنہ جیسی محبت کرنے کی سعادت نصیب فرمائے۔اٰمین
حضور
ﷺ کی صدیق اکبر سے محبت از بنت امیرعطاریہ،جامعۃ المدینہ جوہر آباد خوشاب

اس دنیا میں لا تعداد انسانوں نے جنم لیا اور بالآخر موت نے
انہیں اپنی آغوش میں لے کر ان کا نام و نشان تک مٹا دیا۔دیکھئے!جنہوں نے دین اسلام
کی بقا وسر بلندی کے لئے اپنی جان،مال اور اولاد کی قربانیاں دیں،جن کے دلی جذبات
اسلام کے نام پر مر مٹنے کے لئے ہمہ وقت پختہ تھے تاریخ کے اوراق پر ان کے تذکرے
سنہری حروف سے لکھے ہوئے ہیں۔ان اکابرین کے کارناموں کا جب ذکر کیا جاتا ہے تو
دلوں پر عجیب کیفیت طاری ہو جاتی ہے بالخصوص امیر المومنین حضرت صدیق اکبر رضی
اللہ عنہ کا نام رقت و سوز کے ساتھ جذبہ اظہار و قربانی کو ابھارتا ہے۔حضرت صدیق
اکبر رضی اللہ عنہ نے جس شان کے ساتھ اپنی جانی اور مالی قربانی کے نذرانے پیش کئے
تاریخ ان کی مثال بیان کرنے سے قاصر ہے۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ وہ ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ
کی دعوت پر مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔
حضرت ابن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ نے ایک حدیث روایت کی ہے کہ
حضور ﷺ نے فرمایا:سوائے ابو بکر کے اور کوئی ایسا شخص نہیں کہ جو میری دعوت پر بلا
توقف وتامل ایمان لایا ہو ۔(تاریخ الخلفاء، ص 27)
یوں تو تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان مقتدیٰ بہ،ستاروں کی
مانند اور شمع رسالت کے پروانے ہیں لیکن حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ وہ ہیں جو
انبیائے کرام اور رسولوں علیہم السلام کے بعد تمام مخلوق میں افضل ہیں،جو محبوب
حبیب خدا ہیں،عتیق بھی ہیں،صادق بھی ہیں،صدیق بھی ہیں،رسول اللہ ﷺ کے دوست،رسول
اللہ ﷺ کی خاطر اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کرنے والے ہیں،جن کے والدین صحابی،اولاد
صحابی، اولاد کی اولاد صحابی ہے۔
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی رسول اللہ ﷺ سے دوستی:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی
اللہ عنہ اور نبی کریم ﷺ ظہور اسلام سے قبل بھی ایک دوسرے کے دوست تھے۔(الریاض
النضرہ، 1 / 84)
حضرت صدیق اکبر کے گھر رسول اللہ ﷺ کی روزانہ آمد:حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کے مابین ایسی
گہری دوستی تھی کہ رسول اللہ ﷺ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے گھر روزانہ تشریف
لاتے تھے۔چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ کوئی دن
ایسا نہ گزرتا تھا جس کی صبح و شام رسول اللہ ﷺ ہمارے گھر تشریف نہ لاتے ہوں۔(فیضان
صدیق اکبر،ص270) (بخاری،1/180،حدیث:476)
زہد و تقویٰ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مثل :حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دو عالم کے
مالک و مختارﷺ نے ارشاد فرمایا:جو زہد و تقویٰ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مثل
کسی کو دیکھنا چاہے تو وہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو دیکھ لے۔(الریاض النضرہ، 1/
52)
آپ کا سلسلۂ نسب :حضرت عروہ بن
زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ
کا نام عبد اللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تمیم بن مرہ بن کعب ہے۔
مرہ بن کعب تک آپ کے سلسلۂ نسب میں کوئی چھ واسطے ہیں اور مرہ بن کعب پر جا کر آپ
کا سلسلہ سرکار ﷺ سے جاملتا ہے۔آپ کے والد حضرت عثمان کی کنیت ابو قحافہ ہے۔آپ کی والدہ
ماجدہ کا نام ام الخیر سلمہ بنت صخر بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تمیم بن مرہ
بن کعب ہے ۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پہلے ایمان لائے :حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:سب سے پہلے اسلام قبول
کرنے والے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔( ترمذی،5/411،حدیث: 3756)
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا مقام:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:سب سے
زیادہ جس شخص نے میرا ساتھ دیا اور میری خدمت میں اور میری خوشنودی میں اپنا وقت
اور اپنا مال سب سے زیادہ لگایا وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں۔اگر میں کسی شخص کو
اپنا خلیل بناتا تو یقیناً ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ایسا دوست بناتا۔(ترمذی،5/373،حدیث:3680)
سبحان اللہ!حدیث مبارک سے معلوم ہوا کہ حضورﷺ کو حضرت صدیق
اکبر رضی اللہ عنہ سے کتنی محبت تھی کہ آپ نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اپنا
خلیل فرمایا۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا ایک اعزاز:حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی
اللہ عنہ سے یوں فرمایا:تم میرے صاحب ہو حوض کوثر پر اور تم میرے صاحب ہو غار میں۔(ترمذی،5
/ 378 ،حدیث: 3690)

آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو بکر ہے۔واضح رہے کہ آپ اپنے
نام سے نہیں بلکہ کنیت سے مشہور ہیں،نیز آپ کی اس کنیت کی اتنی شہرت ہے کہ عوام
النّاس اسے آپ کا اصل نام سمجھتے ہیں حالانکہ آپ کا نام عبد اللہ ہے۔
اسلام سے قبل بھی دوست:امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر
صدیق رضی اللہ عنہ اور نبی کریم،رؤف رحیمﷺ ظہور اسلام سے قبل بھی ایک دوسرے کے
دوست تھے۔(الریاض النضرة،1/84)
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور نبی کریم،رؤف و رحیم ﷺ
کے مابین ایسی گہری دوستی تھی کہ رسول اللہ ﷺ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے گھر
روزانہ تشریف لاتے تھے،چنانچہ امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے
روایت ہے کہ کوئی دن ایسا نہ گزرتا جس کی صبح و شام رسول اللہﷺ ہمارے گھر تشریف نہ
لاتے ہوں۔(بخاری،1/180،حدیث:476)
محبوب حبیب خدا:حضرت ابو عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض
کی:یا رسول اللہ ﷺ!لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ بڑھ کر کون محبوب ہے؟آپ نے ارشاد
فرمایا: عائشہ۔انہوں نے دوبارہ عرض کی:مردوں میں سے کون ہے؟فرمایا:عائشہ کے
والد(یعنی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ)۔(بخاری،3/ 126،حدیث:4358)
بارگاہ رسالت میں صدیق اکبر کی اہمیت:حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنگ
احد میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبد الرحمن کو(جو اس وقت
مسلمان نہیں ہوئے تھے اور کفار کی طرف سے لڑ رہے تھے)مقابلے کے لئے للکارا تو رسول
اللہ ﷺ نے آپ کو بیٹھنے کا حکم ارشاد فرمایا۔آپ رضی اللہ عنہ نے سرکار ﷺ کی بارگاہ
میں عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ!مجھے اجازت عطا فرمائیے میں ان کے اوّل دستے میں گھس
جاؤں گا۔تو نبی کریم،رؤف رّحیم ﷺ نے آپ سے ارشاد فرمایا: اے ابو بکر!ابھی تو ہمیں
تمہاری ذات سے بہت سے فائدے اٹھانے ہیں اور تمہیں معلوم نہیں کہ میرے نزدیک تمہاری
حیثیت بمنزلہ کان اور آنکھ کے ہے۔(تفسیر روح البیان،9/413)(تفسیر روح المعانی،الجزء:
28)(الریاض النضرة،1/186،185)
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے لئے رسول اللہ ﷺ کی حمایت:حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں ایک بار دو
عالم کے مالک و مختار،مکی مدنی سرکار ﷺ کی بارگاہ میں حاضر تھا،اچانک حضرت ابو بکر
صدیق رضی اللہ عنہ گھٹنوں تک دامن اٹھائے حاضر خدمت ہوئے۔رسول اللہ ﷺ نے انہیں
دیکھتے ہی ارشاد فرمایا:اے ابو بکر!کیا تمہارے دوست اور تمہارے مابین کسی بات پر
جھگڑا ہوا ہے؟تو آپ نے غمگین لہجے میں عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ!میرے اور عمر بن خطاب
رضی اللہ عنہ کے درمیان کچھ شکر رنجی (ناراضی)ہو گئی تھی،میں نے ان سے کچھ سخت
کلامی کر دی،پھر میں نے نادم ہو کر ان سے معافی بھی مانگی مگر انہوں نے معاف نہیں
کیا۔اس لئے میں آپ کے حضور حاضر ہوا ہوں۔آپ ﷺ نے تین بار فرمایا:ابو بکر اللہ
تمہیں معاف کرے۔اس کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو بھی ندامت ہوئی تو وہ ابو
بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مکان پر گئے تو معلوم ہوا کہ وہ تو بارگاہ رسالت میں گئے
ہوئے ہیں،لہٰذا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی وہیں پہنچ گئے،جیسے ہی آپ وہاں
پہنچے تو انہیں دیکھ کر نبی کریم،رؤف رّحیم ﷺ کے رخ انور پر جلال کے آثار ظاہر ہو
گئے،حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ یہ دیکھ کر ڈر گئے اور آپ ﷺ کے گھٹنوں پر ہاتھ
رکھ کر عاجزانہ عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ!عمر کے ساتھ سخت کلامی میں نے کی تھی۔دوبارہ
یہی کہا تو سرکار والا تبار،ہم بے کسوں کے مددگار ﷺ نے ارشاد فرمایا:اے لوگو!اللہ
پاک نے مجھے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا تو تم نے مجھے جھٹلایا،مگر ابو بکر نے
میری تصدیق کی،پھر اس نے اپنا جان و مال سب کچھ مجھ پر فدا کردیا تو کیا تم میرے
دوست کے معاملے کو میری وجہ سے برداشت نہیں کر سکتے؟آپ نے دو بار یہ ارشاد فرمایا۔اس
کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کسی نے ایذا نہ دی۔
(بخاری،2/519، حدیث:3661)
بیاں ہو کس زباں سے مرتبہ صدیق اکبر کا ہے یار غار،محبوب
خداصدیق اکبر کا
الٰہی! رحم فرما!خادم صدیق اکبر ہوں تری رحمت کے صدقے،واسطہ صدیق اکبر
کا
(فیضان صدیق اکبر،ص597)