آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو بکر ہے۔واضح رہے کہ آپ اپنے
نام سے نہیں بلکہ کنیت سے مشہور ہیں،نیز آپ کی اس کنیت کی اتنی شہرت ہے کہ عوام
النّاس اسے آپ کا اصل نام سمجھتے ہیں حالانکہ آپ کا نام عبد اللہ ہے۔
اسلام سے قبل بھی دوست:امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر
صدیق رضی اللہ عنہ اور نبی کریم،رؤف رحیمﷺ ظہور اسلام سے قبل بھی ایک دوسرے کے
دوست تھے۔(الریاض النضرة،1/84)
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور نبی کریم،رؤف و رحیم ﷺ
کے مابین ایسی گہری دوستی تھی کہ رسول اللہ ﷺ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے گھر
روزانہ تشریف لاتے تھے،چنانچہ امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے
روایت ہے کہ کوئی دن ایسا نہ گزرتا جس کی صبح و شام رسول اللہﷺ ہمارے گھر تشریف نہ
لاتے ہوں۔(بخاری،1/180،حدیث:476)
محبوب حبیب خدا:حضرت ابو عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض
کی:یا رسول اللہ ﷺ!لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ بڑھ کر کون محبوب ہے؟آپ نے ارشاد
فرمایا: عائشہ۔انہوں نے دوبارہ عرض کی:مردوں میں سے کون ہے؟فرمایا:عائشہ کے
والد(یعنی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ)۔(بخاری،3/ 126،حدیث:4358)
بارگاہ رسالت میں صدیق اکبر کی اہمیت:حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنگ
احد میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبد الرحمن کو(جو اس وقت
مسلمان نہیں ہوئے تھے اور کفار کی طرف سے لڑ رہے تھے)مقابلے کے لئے للکارا تو رسول
اللہ ﷺ نے آپ کو بیٹھنے کا حکم ارشاد فرمایا۔آپ رضی اللہ عنہ نے سرکار ﷺ کی بارگاہ
میں عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ!مجھے اجازت عطا فرمائیے میں ان کے اوّل دستے میں گھس
جاؤں گا۔تو نبی کریم،رؤف رّحیم ﷺ نے آپ سے ارشاد فرمایا: اے ابو بکر!ابھی تو ہمیں
تمہاری ذات سے بہت سے فائدے اٹھانے ہیں اور تمہیں معلوم نہیں کہ میرے نزدیک تمہاری
حیثیت بمنزلہ کان اور آنکھ کے ہے۔(تفسیر روح البیان،9/413)(تفسیر روح المعانی،الجزء:
28)(الریاض النضرة،1/186،185)
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے لئے رسول اللہ ﷺ کی حمایت:حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں ایک بار دو
عالم کے مالک و مختار،مکی مدنی سرکار ﷺ کی بارگاہ میں حاضر تھا،اچانک حضرت ابو بکر
صدیق رضی اللہ عنہ گھٹنوں تک دامن اٹھائے حاضر خدمت ہوئے۔رسول اللہ ﷺ نے انہیں
دیکھتے ہی ارشاد فرمایا:اے ابو بکر!کیا تمہارے دوست اور تمہارے مابین کسی بات پر
جھگڑا ہوا ہے؟تو آپ نے غمگین لہجے میں عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ!میرے اور عمر بن خطاب
رضی اللہ عنہ کے درمیان کچھ شکر رنجی (ناراضی)ہو گئی تھی،میں نے ان سے کچھ سخت
کلامی کر دی،پھر میں نے نادم ہو کر ان سے معافی بھی مانگی مگر انہوں نے معاف نہیں
کیا۔اس لئے میں آپ کے حضور حاضر ہوا ہوں۔آپ ﷺ نے تین بار فرمایا:ابو بکر اللہ
تمہیں معاف کرے۔اس کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو بھی ندامت ہوئی تو وہ ابو
بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مکان پر گئے تو معلوم ہوا کہ وہ تو بارگاہ رسالت میں گئے
ہوئے ہیں،لہٰذا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی وہیں پہنچ گئے،جیسے ہی آپ وہاں
پہنچے تو انہیں دیکھ کر نبی کریم،رؤف رّحیم ﷺ کے رخ انور پر جلال کے آثار ظاہر ہو
گئے،حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ یہ دیکھ کر ڈر گئے اور آپ ﷺ کے گھٹنوں پر ہاتھ
رکھ کر عاجزانہ عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ!عمر کے ساتھ سخت کلامی میں نے کی تھی۔دوبارہ
یہی کہا تو سرکار والا تبار،ہم بے کسوں کے مددگار ﷺ نے ارشاد فرمایا:اے لوگو!اللہ
پاک نے مجھے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا تو تم نے مجھے جھٹلایا،مگر ابو بکر نے
میری تصدیق کی،پھر اس نے اپنا جان و مال سب کچھ مجھ پر فدا کردیا تو کیا تم میرے
دوست کے معاملے کو میری وجہ سے برداشت نہیں کر سکتے؟آپ نے دو بار یہ ارشاد فرمایا۔اس
کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کسی نے ایذا نہ دی۔
(بخاری،2/519، حدیث:3661)
بیاں ہو کس زباں سے مرتبہ صدیق اکبر کا ہے یار غار،محبوب
خداصدیق اکبر کا
الٰہی! رحم فرما!خادم صدیق اکبر ہوں تری رحمت کے صدقے،واسطہ صدیق اکبر
کا
(فیضان صدیق اکبر،ص597)