حضور
ﷺ کی صدیق اکبر سے محبت از بنت عارف حسین، جامعۃ المدینہ تلواڑہ مغلاں سیالکوٹ
حضور ﷺ کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بے پناہ محبت
تھی۔یہ محبت صرف ذاتی تعلق کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ اس میں دین اسلام کی سر بلندی
اور آپ کے مشن کی تکمیل کا جذبہ کارفرما تھا۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے
ہمیشہ حضور ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری میں اپنی جان و مال کو قربان کیا۔حضور ﷺ نے
بھی ان پر بھرپور اعتماد کیا اور انہیں اپنے قریبی ساتھیوں میں شمار کیا۔کچھ اہم
باتیں جو حضور ﷺ کی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے محبت کو ظاہر کرتی ہیں پیش
خدمت ہیں:
غار ثور میں رفاقت:ہجرت کے موقع پر حضور ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ رکھا
اور غار ثور میں بھی ان پر بھروساکیا۔
امامت نماز:حضور ﷺ نے اپنی بیماری کے دوران حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نماز
پڑھانے کا حکم دیا،جو آپ ﷺ کے بعد مسلمانوں کی قیادت کے لئے ان کی اہلیت کا واضح
ثبوت تھا۔
خلافت:حضور ﷺ کے
وصال کے بعدمسلمانوں نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا،جو اس
بات کا ثبوت ہے کہ حضور ﷺ ان پر کتنا اعتماد کرتے تھے۔
احادیث میں ذکر:بہت سی احادیث میں حضور ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور
مقام کو بیان کیا ہے۔
ذاتی تعلق:حضور ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے درمیان ایک گہرا اور ذاتی تعلق
تھا جو کہ دوستی،محبت اور احترام پر مبنی تھا۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ میں اہل جنت کی چار
صفات: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:(1)آج تم میں سے کس نے روزہ رکھا
ہے؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: میں نے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: (2)آج
تم میں سے کون جنازے کے ساتھ گیا؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: میں۔آپ ﷺ
نے دریافت فرمایا:(3)آج تم میں سے کس نے مسکین کو کھانا کھلایا؟حضرت ابو بکر رضی
اللہ عنہ نے عرض کی:میں نے ۔آپ ﷺ نے دریافت فرمایا:(4)آج تم میں سے کس نے بیمار کی
عیادت کی؟حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی:میں نے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جس آدمی
میں بھی یہ تمام باتیں جمع ہو گئیں وہ جنت میں ضرور داخل ہو گا۔(مسلم، ص398، حدیث
: 2374)
احسان ابو بکر :حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ منبر پر بیٹھے
اور فرمایا:اللہ پاک کا ایک بندہ ہے جس کو اللہ پاک نے اختیار دیا ہے کہ چاہے دنیا
کی دولت لے چاہے اللہ پاک کے پاس رہنا اختیار کرے۔پھر اس نے اللہ پاک کے پاس رہنا
اختیار کیا۔یہ سن کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ روئے اور سمجھ گئے کہ آپ ﷺ کی
وفات کا وقت قریب ہے اور بہت روئے۔پھر کہا:ہمارے باپ دادا ہماری مائیں آپ ﷺ پر
قربان ہوں۔پھر معلوم ہوا کہ اس بندے سے مراد خود رسول اللہ ﷺ ہیں۔حضرت ابو بکر
صدیق رضی اللہ عنہ ہم سے زیادہ علم رکھنے والے تھے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سب لوگوں سے زیادہ مجھ پر حضرت ابو بکر صدیق رضی
اللہ عنہ کا احسان ہے ،مال کا بھی ہے اور صحبت کا بھی ۔ اگر میں کسی کو
خلیل بناتا تو ابو بکر کو بناتا لیکن اسلام کی اخوت یعنی بھائی چارہ قائم ہے۔مسجد
میں کسی کا دروازہ نہ کھلا رہے سب بند کر دئیے جائیں پر ابو بکر کے گھر کا دروازہ کھلا
رہے۔(مسلم،ص998،حدیث:6170)
شان صدیق اکبر رضی اللہ عنہ:حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ
نے ارشاد فرمایا: میرے دو وزیر آسمان میں ہیں اور دو وزیر زمین میں ہیں۔میرے آسمان
کے دو وزیر حضرت جبرائیل علیہ السلام اور حضرت میکائیل علیہ السلام ہیں اور زمین
میں دو وزیر حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔(ترمذی،5/382،حدیث:
3700)
حضرت ابو بکر تمام صحابہ سے افضل ہیں: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ہم رسول
اللہ ﷺ کے زمانے میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو سب سے افضل شمار کرتے تھے ، ان
کے بعد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اور ان کے بعد حضرت عثمان بن عفان رضی
اللہ عنہ کو۔(بخاری،2/518،
حدیث:3655)
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی کے مال نے کبھی مجھے اتنا نفع
نہیں دیا جتنا ابو بکر کے مال نے دیا ہے۔ (ترمذی،5/609،حدیث:3661)