حضور
ﷺ کی صدیق اکبر سے محبت از بنت فضل الحق عطاریہ، جامعۃ المدینہ پاکپورہ سیالکوٹ
محبت ازل سے چلتی آ رہی ہے جو سب سے پہلے اللہ پاک نے اپنے
پیارے حبیب ﷺ سے فرمائی یہاں تک کہ اس دنیا کو حضور جان جاناں ﷺ کے لئے ہی پیدا
فرمایا ۔چنانچہ حدیث قدسی ہے:حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ
اللہ پاک نے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی طرف وحی فرمائی:يا عيسٰى آمن بمحمّدٍ و امر من ادركہ من امّتك ان يّؤمنوا بہٖ فلولا محمّدٌ ما
خلقت آدم و لو لا محمّدٌ ما خلقت الجنّة و لا النّار یعنی اےعیسیٰ!محمد عربی پر ایمان لاؤ اور اپنی امّت میں سے ان کا زمانہ پانے
والوں کو بھی ان پر ایمان لانے کا حکم دو۔اگر محمد نہ ہوتے تو میں نہ آدم کو پیدا
کرتا اور نہ ہی جنت و دوزخ بناتا۔
(مستدرک،3 / 516،حدیث:4285)
اسی طرح پیارے آقا ﷺ نے بھی اللہ پاک سے محبت فرمائی اور اللہ
پاک کی خاطر دوسروں سے محبت فرمائی جن میں سے ایک ہستی حضور ﷺ کے اصحاب میں سے
نمایاں شخصیت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں جو انبیائے کرام علیہم السلام کے
بعد تمام مخلوق میں سب سے افضل ہیں۔ جو عتیق بھی ہیں،صدیق بھی ہیں،صادق بھی ہیں،صدیق
اکبر بھی ہیں،جو حضور ﷺ کی حیات طیبہ میں ان کے رفیق ہیں اور مزار پر انوار میں
بھی ان کے رفیق ہیں۔آپ وہ بلند ہستی ہیں جن کے اوصاف و احسانات خود رسول کریم ﷺ نے
بیان فرمائے۔آپ رضی اللہ عنہ کی شخصیت آقا ﷺ کی رفاقت میں ہے۔یہ ہستی تو دل و جان
سے جان جاناں ﷺ پر فدا تھی ۔آئیے! اب جانتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ ان سے کیسی محبت
فرماتے تھے ۔ چنانچہ
حضرت عمرو ابن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں حضور ﷺ کے
پاس آیا،میں نے کہا:لوگوں میں آپ ﷺ کو زیادہ پیارا کون ہے؟فرمایا:عائشہ!میں نے کہا:مردوں
میں؟فرمایا:ان کے والد!میں نے عرض کی: پھر کون؟فرمایا:عمر،پھر حضور ﷺ نے چند حضرات
گنائے تو میں چپ ہو گیا اس خوف سے کہ مجھے ان سب کے آخر میں کر دیں۔(بخاری،3/126،حدیث:4358)
آپ نے پڑھا کہ مذکورہ روایت میں حضور ﷺ نے مردوں میں سب سے
پہلے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ذکر فرمایا،اس کے علاوہ بھی کثیر احادیث
میں پیارے آقا ﷺ کی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے محبت کی جھلکیاں دیکھنے کو
ملتی ہیں۔حضرت صدیق اکبر حضور ﷺ کے دوست بھی کہلاتے ہیں۔دنیاوی لحاظ سے دیکھا جائے
تو ہر کسی کی کسی نہ کسی سے دوستی ہوتی ہے، کسی کی دنیا دار سے تو کسی کی دین دار
سے،کسی کی دوستی دنیاوی غرض پر مبنی ہوتی ہے تو کسی کی اخروی،لیکن کسی سے وفا ملنا
مشکل ترین امر ہے، کسی نہ کسی لحاظ سے انسان کو ٹھوکر لگ ہی جاتی ہے،دل آزاریوں اور
بے وفائیوں کی بھرمار ہوتی ہے،لیکن پیارے آقا ﷺ اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی
دوستی ایسی با کمال تھی کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ زمانۂ جاہلیت و زمانۂ
اسلام دونوں میں رسول اللہ ﷺ کے دوست رہے،جس وقت سب نے آقا ﷺ کو جھٹلایا آپ رضی اللہ
عنہ نے اس وقت بھی آقا ﷺ کی تصدیق فرمائی تھی،آپ رضی اللہ عنہ سفر ہجرت کے دوست،پھر
یار غار اور ایسے یار کہ آقا ﷺ کی خاطر اپنی جان کی بھی پروا نہ کریں،اسے کہتے ہیں
حقیقی دوستی ۔
دوستی اور مصاحبت ہمیشہ نیک،صالح اور قرآن و سنت کے احکام
پر عمل پیرا ہونے والوں کی ہی اختیار کرنی چاہئے،کیونکہ صحبت اثر رکھتی ہے،اچھے
اور برے دوست کی مثال اس حدیث پاک سے سمجھئے۔چنانچہ فرمان مصطفےٰ ﷺ ہے:اچھے برے
ساتھی کی مثال مشک کے اٹھانے اور بھٹی دھونکنے(آگ بھڑکانے)والے کی طرح ہے،مشک
اٹھانے والا یا تجھے ویسے ہی دے گا یا تو اس سے کچھ خرید لے گا یا اس سے اچھی
خوشبو پائے گا اور بھٹی دھونکنے والا یا تیرے کپڑے جلادے گا یا تو اس سے بدبو پائے
گا۔
( مسلم،ص،1084،حدیث:6692)
فرمان آخری نبی:آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے۔لہٰذا تم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ وہ
دیکھے کس سے دوستی کر رہا ہے۔(ابو داود ،4/341
، حدیث:4833)