اسلام کے پہلے خلیفہ،افضل البشر بعد الانبياء،یار غار و یار مزار،تمام صحابہ میں سب سے افضل،جناب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام مبارک مشہور قول کے مطابق عبد اللہ،والد کا نام ابو قحافہ ہے۔ آپ کی کنیت ابو بکر اور مشہور القاب میں صدیق اکبر اوریار غار ہیں۔آپ رضی اللہ عنہ واقعۂ فیل کے 2 سال چار ماہ بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔مردوں میں سب سے پہلے اسلام لائے۔سفر،حضر،بازار،گھر ہر وقت نبی کریم ﷺ کے ساتھ رہتے۔بقول شاعر :

ہر وقت آقا کے ساتھ رہتے سفر و حضر میں بازار و گھر میں

اب بھی لحد میں ان کے برابر صدیق اکبر صدیق اکبر

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور نبی کریم ﷺظہور اسلام سے قبل بھی ایک دوسرے کے دوست تھے۔

دوستی کی وجوہات:نبی کریم ﷺ اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی دوستی کی کئی وجوہات تھیں:

1۔دونوں ہم عمر تھے۔

2 ۔دونوں ہی کی طبیعت نہایت نفیس تھی۔

3۔آپ رضی اللہ عنہ مکہ پاک کے اس محلے میں رہتے تھے جہاں مکہ کے رئیس رہائش پذیر تھے۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کے بعد نبی کریم ﷺ بھی اسی محلے میں تشریف لے آئے تھے تو محلے داری کی بنا پر بھی دوستی قائم ہوئی۔

حضور اکرم ﷺ کا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے محبت کا انداز:ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑے تھے کہ اتنے میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے۔نبی کریم ﷺ نے آگے بڑھ کر ان سے مصافحہ فرمایا اور پھر گلے لگا کر منہ چوم لیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے ابو الحسن!میرے نزدیک ابو بکر کا وہی مقام ہے جو رب کے یہاں میرا مقام ہے۔(الریاض النضرة، 1/185)

(فیضان صدیق اکبر،ص 571)

جنگ احد میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبد الرحمن جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے مقابلہ کے لئے للکارا تو نبی کریم ﷺ نے انہیں بٹھا دیا،یار غار رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ!مجھے اجازت عطا فرمائیں،میں ان کے اول دستے میں گھس جاؤں گا۔ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:اے ابو بکر!ابھی تو ہم نے تمہاری ذات سے بہت سے فائدے اٹھانے ہیں اور تمہیں معلوم نہیں کہ میرے نزدیک تمہاری حیثیت بمنزلہ کان اور آنکھ کے ہے۔(تفسیر روح البیان،9/413)(تفسیر روح المعانی،الجزء: 28)(الریاض النضرة،1/186،185)

رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:مجھ پر جس کسی کا احسان تھا میں نے اس کا بدلہ چکا دیا ہے مگر ابو بکر کے مجھ پر وہ احسانات ہیں جن کا بدلہ اللہ پاک ان کو آخرت میں عطا فرمائے گا۔ (ترمذی، 5/374، حدیث: 3681)

ایک بار حضرت ابو بکر اور حضرت عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کے درمیان شکررنجی ہو گئی،حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے ان کی قرابت داری کی وجہ سے روگردانی کرتے رہے۔البتہ! سارا معاملہ نبی پاک ﷺ کو بیان کر دیا۔سارا معاملہ دریافت فرمانے کے بعد نبی کریم ﷺ لوگوں میں تشریف لائے اور فرمایا:تم لوگوں کا اور ابو بکر کا کیا موازنہ؟خدا کی قسم!تم میں سے ہر ایک کے دل پر اندھیرا ہے سوائے ابو بکر کے دل کے کہ اس کا دل نور سے معمور ہے۔(تاریخ مدینۃ دمشق،30/110)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:ابو بکر دنیا اور آخرت میں میرا بھائی ہے۔اللہ اس پر رحم فرمائے اور اپنے رسول کی طرف سے اسے بہتر جزا دے کہ اس نے اپنی جان ومال سے میری مدد کی۔(الریاض النضرۃ،1/131)

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی شخص نے ابو قحافہ کے بیٹے سے بڑھ کر اپنی جان ومال سے مجھے امن نہیں دیا۔اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابو بکر کو بناتا مگر اسلام کی اخوت قائم ہے۔ مسجد کا ہر دروازہ بند کر دو مگر ابو بکر کا دروازہ کھلا رہنے دو۔(بخاری، 2/591،حدیث:3904)

فرمایا:ابو بکر سے بڑھ کر کسی نے مجھ پر احسان نہیں کیا۔انہوں نے مجھ پر احسان کیا اور اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کیا۔(معجم اوسط،3/50،حدیث:3835)

ارشاد فرمایا:ابو بکر کے مال جیسا نفع مجھے کسی کے مال نے نہیں دیا۔(ابن ماجہ،1/72،حدیث:94)اور آپ ان کے مال میں اس طرح تصرف فرماتے جیسے اپنے مال میں تصرف فرماتے تھے۔(مصنف عبد الرزاق، 10/222، حدیث:4848)

ارشاد فرمایا:مجھے کسی کے مال نے اتنا نفع نہ دیا جتنا ابو بکر کے مال نے دیا ۔اس پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ رو پڑے اور کہا:میں اور میرا مال آپ ہی کا ہے۔ (ابن ماجہ،1/72،حدیث:94)

اللہ پاک ہمیں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور نبی کریم ﷺ کی باہمی محبت کے صدقے میں قیامت کے میدان میں سرخرو فرمائے ۔آمین