محبت رسول:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تم میں سے کوئی شخص(کامل)مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کے نزدیک اس کی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔(دس اسلامی عقیدے،ص 56)

بے شک کسی بھی شخص کا ایمان کامل نہیں ہوتا جب تک وہ اپنی جان سے بڑھ کر حضور ﷺ کو محبوب نہ سمجھے لیکن اگر وہ محبوب دو عالم ﷺ کسی سے محبت رکھیں،کسی کے فضائل بیان فرمائیں،اس کو دیگر لوگوں سے ممتاز و اعلیٰ بنا دیں تو اس سے بڑھ کر خوش نصیبی کیا ہوگی! اور یہی مقام حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حصہ کرم میں آیا ہے۔آپ ہی وہ عظیم شخصیت ہیں جن کو اسلام کے پہلے خلیفہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔آئیے! نبی کریم ﷺ کی آپ سے محبت کی چند روشن مثالیں ملاحظہ کیجئے:

ایمان میں سبقت:حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سب سے پہلے اسلام لانے والے مرد ہیں۔انہوں نے بلا تردد یعنی بغیر کسی دلیل کے اسلام قبول کیا۔جیسا کہ محمد بن اسحق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مجھ سے محمد بن عبد الرحمن رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا:جب میں نے کسی کو اسلام کی دعوت دی تو اس کو تردد ہوا علاوہ ابو بکر کے کہ جب میں نے ان پر اسلام پیش کیا تو انہوں نے بغیر تردد کے قبول کر لیا۔ (تاریخ مدینۃ دمشق ،44/30)

یار غار بھی تو۔!حضر کے ساتھ سفر میں بھی آپ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کے رفیق سفر رہے اور بروز قیامت بھی آپ حضور کے ساتھ ہوں کیونکہ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فرمایا:غار ثور میں تم میرے ساتھ رہے اور حوض کوثر پر بھی تم میرے ساتھ رہو گے۔(ترمذی،5/378، حدیث: 3690)

سب سے زیادہ نفع:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: سارے انسانوں میں مجھ پر بڑا احسان کرنے والے اپنی صحبت اپنی محبت و مال میں ابو بکر ہیں اور اگر میں کسی کو دلی دوست بناتا تو میں ابو بکر کو دوست بناتا لیکن اسلام کا بھائی چارا اور اس کی دوستی ہے۔دوسری روایت میں یوں ہے کہ اگر میں اپنے رب کے سوا کسی کو دوست بناتا تو ابو بکر کو دوست بناتا۔(مشکاۃ المصابیح،2/415، حدیث:6019)

اسی طرح کی ایک روایت کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:یہاں احسان سے یا تو وہ بدنی،مالی،وطنی اولاد کی قربانیاں مراد ہیں جو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ برابر کرتے رہے یا حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو خرید کر آزاد کرنا مراد ہے کہ حضور ﷺنے فرمایا کہ صدیق نے مجھ پر احسان کیا کہ بلال کو آزاد کروایا ۔

حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی خریداری پر حضور ﷺ نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے لئے فرمایا تھا

اے ابو بکر!بلال کی خریداری میں ہم کو بھی اپنے ساتھ ملالو،آدھی قیمت ہم سے لے لو،ہم تم دونوں ان کے خریدار ۔تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تڑپ گئے اورقدموں پر فدا ہو کر بولے:حضور!میں بھی آپ کا غلام،بلال بھی آپ کے غلام۔حضور میں نے انہیں آپ کے لئے خریدا ہے،میں نے انہیں آزاد کر دیا۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے جب چہرۂ مصطفےٰ دیکھا تو چہرۂ پاک دیکھتے ہی غش کھا گئے اور بے ہوش ہو گئے۔ حضور ﷺنے اپنی چادر سے چہرے کا گرد و غبار صاف کیا اور فرمایا:اے بلال!تجھے اللہ پاک کی راہ میں بڑی اذیتیں پہنچیں۔اے صدیق!تم پر لاکھوں سلام کہ تم نے ہم سب مسلمانوں کے آقا حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو آزاد کیا۔تم نے ہمارے آقا حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو آزاد کیا۔تم ہمارے آقا کے آقا ہو۔ (مراۃ المناجیح، 8/352)

خلیل یا تو بنا ہے خلت خ کے پیش سے بمعنی دلی دوست جس کی محبت دل کی گہرائی میں اتر جائے۔حضور کا ایسا محبوب صرف اللہ ہی ہے،یا بنا ہے خلت خ کے فتحہ سے بمعنی حاجت یعنی وہ دوست جس پر توکل کیا جائے اور ضرورت کے وقت اس سے مشکل کشائی حاجت روائی کرائی جائے،حضور انور ﷺ کا ایسا کار ساز حاجت روا محبوب سواء خدا کے کوئی نہیں ورنہ اصل محبت حضور ﷺ کوجناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے بہت زیادہ ہے۔(مراۃ المناجیح،8/347،346) نیزصوفیاء کے نزدیک خلیل وہ ہے جس کی محبت میں دل رہے اور رفیق وہ ہے جس کی محبت دل میں رہے ۔(مراۃ المناجیح،8/352)

اللہ کریم اور حضور ﷺ کی محبت و عنایت حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے فضائل پر مشتمل روایات سے واضح ہے ملاحظہ کیجیے:

آپ ﷺ نے لوگوں کو حکم دیا کہ ابو بکر کے پیچھے نماز پڑھیں مگر اتفاق سے اس وقت حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ موجود نہ تھے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے تاکہ لوگوں کو نماز پڑھائیں لیکن نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:نہیں،نہیں۔اللہ اور مسلمان ابو بکر سے ہی راضی ہیں اور وہی لوگوں کو نماز پڑھائیں گے۔ (خلفائے راشدین، ص 11) اسی روایت سے حضور ﷺ کا علم غیب دیکھنے کو ملتا ہے کہ آپ کے بعد حرف با حرف یہ بات ثابت ہوئی کہ خلافت کے معاملے میں اللہ اور لوگ ابو بکر کے علاوہ کسی سے راضی نہ ہوں گے اسی طرح آپ پہلے خلیفہ مقرر ہوئے اور حضور ﷺ نے آپ کو آگے بڑھایا مصلے پر کھڑا کیا تو بھلا پھر کون آپکو پیچھے کرسکتا تھا؟

میرے یار کا مرتبہ تم کیا جانو؟ حضرت مقدام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے حضرت عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کچھ سخت کلامی کی مگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ کی قرابت داری کا خیال کرتے ہوئے حضرت عقیل کو کچھ نہیں کہا اور حضور ﷺ کی خدمت میں پورا واقعہ بیان کیا۔ حضرت ابو بکر سے پورا ماجرا سن کر رسول ﷺ مجلس میں کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے لوگو! سن لو میرے دوست کو میرے لئے چھوڑ دو تمہاری حیثیت کیا ہے؟ اور ان کی حیثیت کیا ہے؟تمہیں کچھ معلوم ہے؟خدا کی قسم!تم لوگوں کے دروازوں پر اندھیرا ہے مگر ابو بکرکے دراوزے پر نور کی بارش ہورہی ہے، خدائے ذوالجلال کی قسم!تم لوگوں نے مجھے جھٹلایا اور ابو بکر نے میری تصدیق کی تم لوگوں نے مال خرچ کرنے میں بخل سے کام لیا ابو بکر نے میرے لئے اپنا مال خرچ کیا اور تم لوگوں نے میری مدد نہیں کی مگر ابو بکر نے میری غمخواری کی اور میری اتباع کی۔ (خلفائے راشدین، ص 36، 37)

آپ کی محبت واجب ہے: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا:ابو بکر سے محبت اور ان کا شکرادا کرنا میری پوری امت پر واجب ہے۔ (تاریخ الخلفاء، ص 40)

اللہ کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ کریم آپنے پیاروں سے محبت انکی پیروی ادب احترام عطا فرماے اور سیرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر عمل پیرا ہونا نصیب فرمائے۔ آمین