پی آئی بی کالونی کی اسلامی بہنوں کو ہفتہ وار
سنتوں بھرے اجتماع کی دعوت
اسلامی بہنوں کو علمِ دین سکھانے اور اُن کی
دینی و اخلاقی تربیت کرنے والی عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت
پچھلے دنوں نگرانِ عالمی مجلسِ مشاورت اسلامی بہن نے ذمہ داران کے ہمراہ P.I.B کالونی کادورہ کیا۔
دورانِ دورہ نگرانِ عالمی مجلسِ مشاورت اسلامی
بہن نے گھر گھر کر جاکر اسلامی بہنوں کو نیکی کی دعوت پیش کی اور انہیں دعوتِ
اسلامی کے تحت منعقد ہونے والے ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات میں شرکت کرنے کی
ترغیب دلائی جس پر اسلامی بہنوں نے اچھی اچھی نیتیں کیں۔
بھنبھور ڈویژن صوبۂ سندھ کی ڈویژن اور ڈسٹرکٹ نگران اسلامی بہنوں کا مدنی
مشورہ
صوبۂ سندھ کے بھنبھور ڈویژن میں پچھلے دنوں
دعوتِ اسلامی کے تحت بذریعہ انٹرنیٹ مدنی
مشورہ ہوا جس میں ڈویژن و ڈسٹرکٹ نگران اسلامی بہنیں شریک ہوئیں۔
اس دوران نگرانِ پاکستان مجلسِ مشاورت اسلامی
بہن نے راولپنڈی شہر سےآن لائن ذمہ داران کی تربیت و رہنمائی کرتے ہوئے سالانہ ڈونیشن
کی کارکردگی کا جائزہ لیا ۔
میر پور خاص ڈویژن صوبۂ سندھ کی ڈویژن اور ڈسٹرکٹ نگران اسلامی بہنوں کا
مدنی مشورہ
اشاعتِ علمِ دین کا جذبہ رکھنے والی عاشقانِ
رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت پچھلے دنوں دینی کام کرنےوالی ذمہ دار اسلامی بہنوں کا آن لائن مدنی مشورہ ہوا
جس میں میر پور خاص ڈویژن صوبۂ سندھ کی
ڈویژن اور ڈسٹرکٹ نگران اسلامی بہنیں شریک ہوئیں۔
معلومات کے مطابق دورانِ مدنی مشورہ نگرانِ
پاکستان مجلسِ مشاورت اسلامی بہن نے راولپنڈی شہر سے ذمہ
داران کی تربیت و رہنمائی کرتے ہوئے سالانہ ڈونیشن کی کارکردگی کا جائزہ لیا ۔
نگرانِ
پاکستان مجلسِ مشاورت نے سابقہ سال کے
ڈونیشن کو جلد از جلد مکمل کرنے اور اپنی کوششوں کو بڑھانے کی ترغیب دلائی جس پر
ذمہ دار اسلامی بہنوں نے اچھی اچھی نیتیں کیں۔
نوابشاہ ڈویژن صوبۂ سندھ کی ڈویژن اور ڈسٹرکٹ نگران اسلامی بہنوں کا
مدنی مشورہ
عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت
گزشتہ روز ذمہ دار اسلامی بہنوں کا آن لائن مدنی مشورہ ہوا جس میں نوابشاہ ڈویژن
صوبۂ سندھ کی ڈویژن اور ڈسٹرکٹ نگران
اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔
نصر اللہ عطّاری (دورۂ حدیث جامعۃُ المدینہ جی الیون اسلام آباد پاکستان)
پیارے اسلامی بھائیو! استاد
کو ہر زمانے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ استاد کی اہمیت اور ان کا مقام و
مرتبہ کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ہماری شخصیت سازی اور کردار سازی میں مدد
گار ہوتا ہے استاد ہر طالب علم کو ویسے ہی سنوارتا ہے جیسے ایک سُنار دھات کے ٹکڑے
کو سنوارتا ہے۔ اس اعتبار سے استاد کے حقوق بھی ہمارے اوپر لازم ہوتے ہیں۔ آئیے
پانچ حقوق ملاحظہ کیجیے:۔
(1) استاد کا ادب
کرنا: استاد کے حقوق میں سے
پہلا حق یہ ہے کہ ان کا ادب و احترام کیا جائے ، ان کے ساتھ عزت و عاجزی کے ساتھ
پیش آنا جائے ، ان کا کہنا مانیں اور جو تعلیم وہ دیں ان پر عمل پیرا ہوں کیونکہ
تحصیلِ علم میں جس طرح درس گاہ و کتاب کی اہمیت ہے اسی طرح حصولِ علم میں استاد کا
ادب و احترام شاگرد پر لازم ہے۔ لہذا ہمیں بھی چاہئے کہ ان کا ادب و احترام کریں۔
(2) ان کی باتوں کو
توجہ سے سننا: استاد کے حقوق میں سے یہ
بھی ہے کہ جب وہ پڑھا رہے ہوں تو ان کی گفتگو کو توجہ سے سنا جائے۔ اور اپنی سوچ و
فکر کو ان کی طرف رکھا جائے کیونکہ جو طلبا استاد کی گفتگو کی طرف توجہ رکھتے ہیں
یقیناً وہ علم و دانش کے موتیوں کو چننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور جو طلباء
استاد کے تجربات اور مطالعے سے استفادہ حاصل کرتے ہیں وہ کئی مرتبہ بہت سی کتابوں
کے مطالعے سے بڑھ کر علمی نکات جمع کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
(3) ان کے کام کرنا :
استاد کے حقوق میں سے یہ
بھی ہے کہ ضرورت کے وقت ان کے کام کرنا ہے۔ اسلام جہاں ہمیں دوسرے مسلمانوں سے خیر
خواہی اور معاونت کا حکم دیتا ہے وہی ہمارے قرب و جوار میں رہنے والے لوگوں میں سے
استاد ہماری توجہات کے بہت زیادہ حقدار ہیں کیونکہ بہت سے استاد کئی مرتبہ مالی
مشکلات یاکسی بیماری کا شکار ہوتے ہیں ایسے مواقع پر ہم مالی مشکلات کے دوران انکی
مالی معاونت کریں اور بیماری کی صورت میں تیمارداری کریں۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے
کہ جب استاد بیمار ہو جاتے ہیں۔ تو وہ اکیلے ہو جاتے ہیں جہاں ان کو دیگر لوگ نظر
انداز کرتے ہیں وہی ان کے شاگرد بھی ان کا خیال نہیں رکھتے۔ لہذا ہمیں ایسے مواقع
پر ان کی جانی و مالی خدمت کرنی چاہئے۔
(4) دعا کرنا : استاد کے حقوق میں سے یہ بھی
ہے کہ ان کے لیے دعا کی جائے ۔ مسلمانوں کو جہاں پر دوسرے مسلمانوں کے لئےدعا کرنی
چاہئے وہی پراپنی دعاؤں میں اپنے محسنین اور اساتذہ کو بھی یاد کرنا چاہئے ۔اگر
استاد زندہ ہو تو ان کے لیے لمبی عمر و صحت کی دعا کرنی چاہئے اور اگر وہ فوت ہو
گئے ہوں ۔ تو ان کے لیے مغفرت کی دعا کرنی چاہئے۔
(5)استاد کے لیے اچھے
کلمات کہنا: استاد کے حقوق میں سے یہ
بھی ہے کہ ان کے لیے اچھے کلمات کا انتخاب کرنا چاہئے کیونکہ بہت سارے طلباء اپنے
استاد کے احسانات کو فراموش کر کے ان کو اچھے الفاظ سے یاد نہیں کرتے اور ان کا
استہزا کرتے ہیں۔ یہ رویہ ہر لحاظ ہے سے قابلِ مذمت ہے ۔ انسان کو اپنے استاد کی
عدمِ موجودگی میں ان کے لیے اچھے کلمات کہنے چاہئے ۔
الله پاک ہمیں علم اور
علم سکھانے والوں کی قدر کرنے اور ان کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی
توفیق کر عطا فرمائے۔ اٰمین
مزمل حسین ملتانی(درجہ خامسہ جامعۃُ المدینہ اشاءت الاسلام ملتان پاکستان)
جس طرح والدین کے احسانات
کا بدلہ ادا نہیں کیا جا سکتا۔ بالکل اسی طرح اساتذہ کے احسانات کا بدلہ بھی ادا
نہیں کیا جا سکتا جس طرح حقیقی والدین کے حقوق ہوتے ہیں اسی طرح روحانی والدین
یعنی اساتذہ کے بھی حقوق ہوتے ہیں۔ استاد کے اپنے شاگرد پر بہت سے حقوق ہیں ان میں
سے چند درج ذیل ہیں۔
(1) استاد کی تعظیم :
طالب علم نہ تو اس وقت تک
علم حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہی اس علم سے نفع اٹھا سکتا ہے جب تک وہ علم ، اہل علم
اور اپنے استاد کی تعظیم و توقیر نہ کرتا ہو۔ کسی شاعر نے کہا ہے:
مَا وَصَلَ مِنْ وَصْلٍ اِلاّ بِالْحَرْمَةِ وَمَا سَقَطَ مِنْ سَقْطٍ
اِلاّ بِتَرْكَ الْحُرْمَةِ
یعنی جس نے جو کچھ پایا
ادب و احترام کرنے کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے
کے سبب ہی کھویا۔(کامیاب طالب علم کون؟، ص56)
(2) استاد کو اپنا
روحانی باپ سمجھنا: استاد باپ کا روحانی درجہ رکھتا ہے۔ والدین ہمیں اس دنیا میں لاتے ہیں اور
استاد ہمیں زندگی گزارنے کا ڈھنگ یعنی طریقہ سکھاتے ہیں۔ لہٰذا شاگرد کو چاہئے کہ
وہ اپنے استاد کو اپنے حقیقی باپ سے بڑھ کر مخلص جانے تفسیر کبیر میں ہے کہ: استاد
اپنے شاگرد کے حق میں ماں باپ سے بڑھ کر شفیق ہوتا ہے کیونکہ والدین اسے دنیا کی
آگ اور مصائب سے بچاتے ہیں اور اساتذہ اسے نار و دوزخ اور آخرت کے مصائب سے بچاتے
ہیں۔ (تفسیر کبیر ،1/401)
(3) اہم معاملات میں
راہنمائی لینا: استاد علم کا سر چشمہ
ہوتا ہے قوموں کی تعمیر و ترقی میں استاد بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے استاد زمانہ
طالب علمی سے گزر کر آچکا ہوتا ہے اس وجہ سے جب بھی کوئی اہم فیصلہ کرنا ہو تو
طالب علم کو چاہئے کہ وہ اپنے استاد سے ایک مرتبہ مشورہ لازمی کرلے۔ استاد آپ کو
کبھی کوئی غلط مشورہ نہیں دے گا استاد آپ کو وہی مشورہ دے گا جس میں آپ کی بہتری
ہو جس میں قوم اور ملت کی بہتری ہو۔
ہماری درس گاہوں میں جو یہ استاد ہوتے ہیں۔
حقیقت میں ہی تو قوم کی بنیاد ہوتے ہیں۔
یہی رکھتے ہیں شہر علم کی ہر راہ کی روشن
ہمیں منزل پر پہنچا کر یہ کتنا شاد ہوتے ہیں۔
(4)استاد کا حکم
ماننا : طالب علم کے لیے یہ بھی
ضروری ہے کہ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے استاد کی ہر بات مانے ،استاد کی ہر بات
پر لبیک کہتا ہوا حاضر خدمت ہو جائے ،استاد جس بات سے منع کر دے اس سے رک جانا اور
جس بات کا حکم دیں اس کام کو کرنا بھی طالب علم پر لازم ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ
کا بڑا مشہور قول ہے کہ : جس نے مجھے ایک حرف سکھا یا میں اس کا غلام ہوں چاہیے۔
اب وہ مجھے فروخت کر دے ، چاہے تو آزاد کر دے اور چاہے تو غلام بنا کر رکھے۔ (راہ
علم ص 29)
جتنی بھی زمانے سے مجھے داد ملی ہے۔
میرا یقین ہے سب باعثِ استاد ملی ہے۔
(5) استاد کے سامنے
سچ بولنا : طالب علم کو چاہیئے کہ
استاد کے سامنے بالخصوص اور دیگر مسلمانوں کے سامنے بالعموم سچ ہی بولے کہ جھوٹ
بولنے والوں پر اللہ نے لعنت فرمائی ہے۔ اللہ قراٰن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: لَّعْنَتَ اللّٰهِ
عَلَى الْكٰذِبِیْنَ(۶۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: جھوٹوں
پر اللہ کی لعنت ڈالیں۔ (پ3،اٰل عمرٰن:61) اور استاد سے جھوٹ بولنا باعثِ محرومی
ہے۔ استاد سے چھوٹ بولنے سے علم کی برکات حاصل نہیں ہو سکتی۔ اور جھوٹ بولنے والے
کے بارے میں خود معلم کائنات نے فرمایا کہ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو فرشتہ اس کی بو
سے ایک میل دور ہو جاتا ہے۔ (سنن ترمذی ،حدیث:1972)
استاد کی عظمت کو ترازو میں نہ تو لیں۔
استاد تو ہر دور میں انمول رہا ہے۔
دیگر اساتذہ کا
احترام : جس ادارے میں آپ پڑھ رہے
ہیں اس ادارے کے دیگر اساتذہ کا احترام بھی ملحوظ خاطر رکھیں۔ ایسا نہ ہو کر صرف
انہیں اساتذہ کا ادب کریں جن سے آپ نے اسباق پڑھے ہوں۔
اللہ رب العزت ہمیں اپنے
اساتذہ کا ادب و احترام کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمارے جو اساتذہ دنیا سے
رخصت ہو گئے ان کی علمی خدمات کے عوض انہیں جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے اور جو
حیات ہیں انہیں نیکیوں بھری طویل زندگی عطا فرمائے۔ اٰمین
محمد مدنی رضا عطّاری(درجہ خامسہ ما ڈل جامعۃُ
المدینہ اشاعت الاسلام ملتان پاکستان)
معلم ( teacher) کوئی عام منصب
نہیں بلکہ یہ ایسا منصب ہے جو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھی عطا کیا
گیا جیسا کہ ارشاد ہے : میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ (ابن ماجہ ، 1/150، حدیث:
229)
استاد روحانی باپ ہوتا
ہے۔ کیونکہ والد تو اس کی تربیت اور اخلاقی کو درست کرتا ہے۔ لیکن استاد اسے جہالت سے نکال کر نور یعنی علم کی راہ پر گامزن ( چلاتا) کرتا ہے۔
جس طرح والدین کے حقوق بے شمار ہیں اور بندہ ان کو ادا نہیں کر سکتا اس طرح استاد
کے حقوق بھی بہت سارے ہیں۔ ادب علم کی پہلی سیڑھی ہے۔ اگر انسان علم حاصل کرنا
چاہتا ہے تو سب سے پہلے ادب کا ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ جس کو جو کچھ ملا وہ صرف ادب
کرنے کی وجہ سے ملا اور جس نے جو کچھ کھویا بے ادبی کی وجہ سے کھویا جس طرح شیطان نے
نبی کی تعظیم نہیں کی اور بے ادبی کی تھی تو وہ قیامت تک مردود و ملعون ہوا ۔ ادب میں
سب سے پہلے استادوں کا ادب، کتابوں کا ادب اور جس جگہ وہ علم حاصل کرتا ہے اس کا
ادب آتا ہے ۔ اگر استاد کا ادب و احترام نہ کیا جائے تو بندہ علم کی حقیقی جانشینی
نہیں پاسکتا۔ استاد کا ادب نہ کرنے والے پہلے تو کامیاب نہیں ہوتے اگر کامیابی مل
بھی جائے تو علم کی روحانیت ان کے قریب نہیں آتی کیونکہ ایک مشہور مقولہ ہے: با
ادب بانصیب بے ادب بے نصیب ۔ استاد کے ادب کے ساتھ اس کے حقوق بھی ادا کرنے چاہیے۔
ذیل میں کچھ استاد کے حقوق بیان کیے جاتے ہیں تاکہ بندہ اس پر عمل کر کے کامیابیوں
کی بلندی سے ہمکنار ہو سکے۔
(1) استاد کی ناشکری
سے بچنا : محسن (احسان کرنے والوں)
کا شکریہ ادا کرنا یہ کامیاب اور نیک لوگوں کی نشانی ہے۔ استاد کی ناشکری کرنا علم
کی روحانیت کو ختم (Finish)
کر دیتی ہے۔
حدیث پاک میں آتا ہے: جو
شخص لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکریہ بھی ادا نہیں کرتا۔ (سنن ترمذی
)
(2) استاد کے سامنے عاجزی کرنا: اگر شاگرد چاہے کتنا ہی
مرتبہ کیوں نہ پالے لیکن اسے اپنے استاد کے سامنے ادب اور عاجزی و انکساری سے پیش
آنا چاہیے ۔ حدیث پاک میں آتا ہے کہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں
کہ حضور نبی اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: علم سیکھو اور علم کے لئے ادب و احترام سیکھو، جس استاد نے
مجھے علم سکھا یا اس کے سامنے عاجزی اور انکساری اختیار کرو۔ (معجم الاوسط )
(3) استاد کی نشست گاہ
پر بیٹھے سے بچنا: شاگرد پر استاد کے ادب کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ استاد کی نشست گاہ پر نہ
بیٹھے ۔ ردالمحتار میں ہے کہ عالم کا حق جاہل پر اور استاد کا حق شاگرد پر برا بر
ہے وہ یہ ہے کہ اس سے پہلے بات نہ کرے اور اس کی جگہ پر نہ بیٹھے اگرچہ وہ موجود
نہ ہو اور انکی بات کو رد نہ کرے اور چلنے میں اس سے آگے نہ بڑھے۔ (ردالمحتار، 10/522)
استاد اور شاگرد میں واضح فرق ہونا چاہیے کہ استاد کی نشست اونچی ہو اور شاگرد نیچے
ہو۔
(4) استاد کے آگے بات
کرنے اور آگے چلنے سے بچنا : شاگرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ استاد کے بات کرنے میں اس سے
آگے نہ بڑھے اور اگر استاد اور شاگرد دونوں آپس میں اکھٹے چل رہے ہوں تو شاگرد
استاد سے آگے نہ بڑھے۔
(5) استاد کی گفتگو
کو غور سے سننا : شاگرد کے لئے ضروری ہے کہ
وہ اپنے استاد کی بات غور سے سنے اور اسے کہنے کے مطابق عمل بجا لائے اپنی سوچ اور
عقل کو استاد کے سامنے کمزور جانے اگر شا کرد کامیاب ہونا چاہتا ہے تو وہ استاد کی
باتوں کو بہت غور سے سنے اور اس کے خاص نکات کو نوٹ کرتا جائے ۔ تب وہ کامیابیوں
کی بلندی کو چھوئے گا اور ترقی یافتہ لوگوں میں اس کا شمار ہوگا۔ استاد جب بات کر
رہا ہو اور طالب علم اِدھر اُدھر دیکھ رہا ہو اور استاد کی بات غور سے نہ سنے تو
یہ بہت بڑی بے ادبی ہے۔
پیارے پیارے اسلامی
بھائیو ! استاد کا ادب و احترام جتنا بھی کیا جائے اتنا کم ہے۔ ہمارے اسلاف بزرگان
دین اپنے استادوں کے بہت زیادہ ادب کیا کرتے تھے۔ امام احمد بن حنبل کے بارے میں
آتا ہے کہ آپ ادب کی وجہ سے استاد کو انکے نام سے نہیں بلکہ کنیت سے پکارا کرتے
تھے ۔ اور امام اعظم کے بارے میں آتا ہے کہ آپ کو اپنے استاد سے اتنا زیادہ پیار
تھا کہ آپ نے اپنے بیٹے کا نام بھی استاد کے نام پر رکھا۔ آپ کے استاد کا نام شیخ
حماد تھا تو آپ نے اپنے بیٹے کا نام بھی حماد رکھا۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ
ہمیں استاد کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور بے ادبی جیسی گندی
بیماری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین
کہا جاتا ہےکہ دنیا میں
تقریباً ساڑے سات ارب آبادی ہے۔ اور سب مختلف العقول ہیں (یعنی سب کی الگ الگ سوچ
ہے ) لیکن کوشش سب کی ایک ہی کی طرف ہوتی ہے اور وہ ہے کامیابی، چاہے وہ دین میں
ہو یا دنیا میں۔ اس کو کچھ یوں سمجھئے کہ انسان جب دنیا میں آتا ہے تو ایک وقت آتا
ہے وہ سوچتا ہے کہ وہ دنیا میں کچھ کرے تاکہ کامیابی اس کے قدم چومے اعلیٰ سے اعلیٰ
مشکل سے مشکل ہنر بھی اس کو حاصل ہو جائے پھر وہ دن بھی آجاتا ہے کہ وہ اس منزل پر
پہنچ جاتا ہے جس کا اسے بے صبری سے انتظار ہوتا ہے۔ وہ اسے پانے کے بعد ایک سکون
محسوس کرتا ہے اور لوگوں کا رخ اس کی طرف ہو جاتا ہے کہ لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے
رہتے ہیں۔
ہر انسان چاہے وہ مفتی ہو،
عالم ہو، ڈاکٹر ہو، انجینئر ہو، منسٹر ہو، حتیٰ کہ ہر کامیاب شخص کے پیچھے ایک
شخصیت کا ہاتھ ہوتا ہے محنت ہوتی ہے شفقت ہوتی ہے۔ کوشش ہوتی ہے کہ جن کی دعا شفقت
اور احسان کی وجہ سے مشکل راستوں کو طے کر کے اپنی منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہے۔
کیا آپ جاننا چاہیں گے کہ
وہ شخصیت، وہ محسن وہ مہربان کون ہے ؟ تو سنئے وہ شخصیت وہ ہیں کہ جن کو انگلش میں
ٹیچر کہا جاتا ہے استاد وہ پھول ہے جس کی خوشبو سے دل علم و حکمت سے بھر جاتا ہے۔
استاد وہ چراغ ہے جو اندھیری راتوں میں روشنی کے وجود کو برقرار رکھتا ہے ۔
استاد یعنی علم سکھانے
والے کے فضائل قراٰن و حدیث میں بھی موجود ہیں جیسا کہ جامع کی حدیث ہے : سرکار
مدینہ قرار قلب و سینہ فیض گنجینہ صاحب معطر پسینہ باعث نزول سکنہ شہنشاہ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دعا
فرمائی کہ میرے نائبوں پر اللہ پاک کی رحمت ہو۔ کسی نے عرض کی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نائبین کون
لوگ ہیں؟ ارشاد فرمایا: وہ جو میری سنت سے محبت کرتے اور اسے اللہ پاک کے بندوں کو
سکھاتے ہیں۔(جامع بیان العلم و فضلہ،ص66)
اسی طرح سیدنا ابن عباس
رضی اللہ عنہما نے فرمایا: لوگوں کو علم دین سکھانے والے کے لئے ہر چیز حتیٰ کہ سمندر
میں مچھلیاں بھی استغفار کرتی ہیں۔(سنن دارمی،1/111)
پیارے اسلامی بھائیو! جس
طرح قراٰن و حدیث نے استاد کے فضائل بیان کیے ہیں اسی طرح ان کے حقوق بھی بیان کیے
ہیں۔ جس طرح والدین کے حقوق اولاد پر پڑوسیوں کے حقوق پڑوسیوں پر رشتے داروں کے
حقوق قرباء پر ہوتے ہیں اسی طرح استاد کے حقوق بھی شاگرد پر ہوتے ہیں:
اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ
علیہ بیان فرماتے ہیں : عالم کا حق جاہل پر اور استاد کا حق شاگرد پر یکساں ہے
مزید اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں استاد کے حق کو اپنے ماں باپ سے مقدم
۔استاذ کے حقوق میں سے پانچ حقوق پیش خدمت ہیں:
(1) علم کی برکات سے محروم: استاد صاحب کو اپنی جانب
سے سی قسم کی اذیت نہ پہنچنے دے (جس سے اس کے استاد صاحب کو کسی قسم اذیت پہنچے وہ
علم کی برکات سے محروم رہے گا) شاگر د کو لائق نہیں !
(2) شاگر کو لائق نہیں: جب استاد صاحب کو کسی شے کی حاجت ہو
اسے فوراً پیش کر دے۔ (شاگرد کو یہ لائق نہیں کہ وہ استاد صاحب کی مدد سے باز رہے)
(3) اسلام کی رسی کھول دی !: اپنے استاد صاحب پر کسی
کو ترجیح نہ دے (اگر ایسا کیا تو اس نے اسلام کی رسیوں میں سے ایک رسی کھول دی)(والدین
،زوجین اور اساتذہ کے حقوق،ص76)
(3) پوری توجہ ان کی طرف: استاد صاحب جب موجود ہوں تو پوری توجہ
انہیں کی جانب ہو غیر کی طرف مشغول نہ ہو۔
(4) مسند پر نہ بیٹھے! استاد صاحب کی غیر موجودگی میں بھی
ان کی مسند پر نہ بیٹھے۔
پیارے اسلامی بھائیو! یہ پانچ حقوق بیان کیے
ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی حقوق ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم ان کا اہتمام کرنا ضروری
سمجھیں ان کے حقوق ادا کریں جتنا ہوسکے ہم ان کے آگے تواضع ہی کرتے رہیں کبھی بھی
ان کے حقوق پامال نہ کریں کیونکہ ان کا مرتبہ بہت بلند ہے علما فرماتے ہیں: عالم
ہر مسلمان کے حق میں عموماً اور استاد علم دین اپنے شاگرد کے حق میں خصوصاً نائب حضور
علیہ الصلاۃ ہے و السّلام ہے۔
اگر ان کے حق ادا نہ کرے
تو ایک شاگرد اپنی مراد کو کیسے پالے گا۔ اللہ پاک ہمیں اپنے اساتذہ کرام علیہم
الرضوان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین
محمد زبیر (درجۂ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان عبد اللہ شاہ غازی کراچی،پاکستان)
استاد (یعنی معلم ) ہونا
بہت بڑی بات ہے جیسا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔
ہمارے پیار لے آقا صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس منصب کی نسبت اپنی ذات اقدس کی طرف کر کے اسے عزت و
کرامت کا تاج عطا فرمایا ہے۔ چنانچہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے ۔ میرے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا جس نے کتاب اللہ میں سے ایک آیت سکھائی یا علم کا ایک باب سکھایا تو اللہ
تعالٰی اس کے ثواب کو قیامت تک کیلئے جاری فرما دیتا ہے ۔(کنز العمال، كتاب العلم ،الباب
الاول )
آدمی کا علم حاصل کرنا اس
پر عمل کرنا اور دوسروں کو سکھانا بھی صدقہ ہے (کنز العمال ، کتاب العلم ، الباب
الاول تقسیم، 10/68،حدیث: 28810 ) آج کل تو علم حاصل کرنا بہت ضروری ہے جس طرح سے
فتنوں کا دور دورہ ہے اور ان فتنوں سے اُس وقت ہی بچا جا سکتا ہے جب ہم علم دین کے
ساتھ منسلک رہیں گے اور اپنے اساتذہ کرام سے فیض حاصل کرتے رہیں گے
استاد کے حقوق کا انکار
جو کہ مسلمانوں بلکہ تمام عقل کے اتفاق کے خلاف ہے اور یہ بات نا شکری سے جدا ہے
کیونکہ ناشکری تو یہ ہے کہ احسان کے بدلے کوئی نیکی نہ کی جائے اور یہاں تو اصل ہی
کا انکار ہے۔ اور یہ کہنا کہ استاد نے تو مجھے صرف ابتدا میں پڑھایا تھا اس شخص کے
لئے کچھ مفید نہیں کیونکہ اس بات پر اجماع ہے اور حدیث میں ہے کہ جس نے تھوڑے
احسان کا شکر ادا نہیں کیا اس نے زیادہ کا بھی شکر نہیں کیا ۔ (والترغیب، كتاب
الصدقات ،الحديث:8 ،2/46)
اپنے آپ کو استاذ سے افضل
قرار دیتا ہے اور یہ خلاف مامور ہے۔ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: علم سیکھو اور علم کیلئے ادب و احترام سیکھو جس نے تجھے علم سکھایا ہے۔ اس
کے سامنے عاجزی اور انکساری اختیار کرو۔( المعجم الاوسط ،حدیت:6184، 4/342)
علمائے کرام فرماتے ہیں :
استاد کاشا گر د پر یہ بھی حق ہے کہ استاد کے بسترپر نہ بیٹھے اگر چہ استاذ موجود
نہ ہو (رد المحتار، 1/522 ) علمائے کرام فرماتے ہیں شاگرد کو چلنے میں استاد کے
آگے نہیں چلنا چاہیئے۔
علمائے کرام فرماتے ہیں
استاد کے حق کو والدین کے حق پر مقدم رکھنا چاہیے کیونکہ والدین کے ذریعے بدن کی
زندگی ہے اور استاد روح کی زندگی کا سبب ہے۔ طبرانی نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ
عنہ سے روایت کی کہ سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں جس نے کسی
آدمی کو قراٰن مجید کی ایک آیت پڑھائی وہ اس کا آقا ہے اور حضرت علی المرتضی رضی
اللہُ عنہ کے اس کے قول سے لگایا جاسکتا ہے۔ کہ آپ رضی اللہُ عنہ نے ارشاد فرمایا
: انا عبد من علمنى حرفًا وَاحِدَ
وإِنْ شَاءَ بَاع وَإِنْ شاء استرق یعنی میں اس شخص کا غلام ہوں جو مجھے ایک حرف بھی سکھا دے ۔
اگر وہ چاہے تو مجھے بیچ دے اور اگر چاہے تو مجھے آزاد کر دے ۔ (تعليم المتعلم،ص
78) اہم شمس الدین سماری مقاصد حسنہ میں حدیث کے امیر المومنین نصر بن حجاج رحمۃُ اللہِ علیہ سے روایت کرتے ہیں انھوں
نے فرمایا جس سے میں نے چار یا پانچ حدیثیں لکھیں میں اس کا تاحیات غلام ہوں(
المعجم الكبير، 1/112 ،حدیث: 7528)
ہم اللہ پاک کی بارگاہ اقدس
میں دعا کرتے ہیں اللہ پاک ہمیں اساتذہ
کرام کا ادب واحترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اور میں اساتذہ کرام کی بے ادبی سے
محفوظ فرمائے۔ اللہ پاک ہمارے اسا تذہ کرام کو نیکیوں بھری طویل زندگی عطا فرمائے ۔اٰمین
تمام تعریفیں اس مالک و
مولیٰ عزوجل کیلئے جس نے بے کسی معلم کے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کو علم عطا فر مایا اور درود و سلام ہو اس نبی آخر الزماں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم پر جو تمام امت کے معلم بنا کہ کر بھیجے گئے اور آپ کی آل و اصحاب پر استاد
وہ شخصیت ہے جو اپنے شاگرد کو اخلاص کے ساتھ علم کے زیور سے مزین کرتا ہے اور اپنے
سائے میں رکھ کر اسے کامیابی کے زینے پروان چڑھاتا ہے۔
جس طرح ہم پر اللہ پاک نے
اپنے حقوق کو لازم فرمایا اسی طرح بندوں کے آپس کے حقوق کو بھی مقرر فرمایا ۔
انہیں حقوق میں سے استا دو شاگرد کے مقدس رشتے کے حقوق ہیں جن میں سے شاگرد کو
اپنے حقوق ادا کرنا لازم ہے۔ اگر وہ ان حقوق ادا کرے گا تو علم نافع کی دولت سے
مالا مال ہوگا اور دنیا و خرت میں کامیابی حاصل کرے گا ورنہ وہ ناکامی کا سامنا
کرنا پڑے گا استاد کے طالبعلم پر درج ذیل حقوق ہیں ۔
(1) استاد کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے حق سے
مقدم رکھے۔ عین العلم میں ہے : والدین کے ساتھ نیکی کرنی چاہیے کیونکہ انکی
نافرمانی بہت بڑا گناہ ہے اور استاد کے حق کو والدین کے حق پر مقدم رکھنا چاہیے
کیونکہ وہ روح کی زندگی کا ذرہ بھر ہے ۔ (الحقوق لطرح العقوق بنام والد ین ، زوجین
اور اساتذہ کے حقوق، ص 91) علامہ مناوی تیسیر شرح جامع الصغیر میں نقل فرماتے ہیں
کہ " جو شخص لوگوں کو علم سکھائے وہ بہترین باپ ہے ، کیونکہ وہ بدن کا نہیں
روح کا باپ ہے" (التيسير حرف الهمزة ،تحت الحديث : 2580 ، 2/ 454)
حضرت علی المرتضی رضی
اللہُ عنہ کے اس کے قول سے لگایا جا سکتا ہے۔ کہ آپ رضی اللہُ عنہ نے ارشاد فرمایا
: انا عبد من علمنى حرفًا وَاحِدَ
وإِنْ شَاءَ بَاع وَإِنْ شاء استرق یعنی میں اس شخص کا غلام ہوں جو مجھے ایک حرف بھی سکھا دے ۔
اگر وہ چاہے تو مجھے بیچ دے اور اگر چاہے تو مجھے آزاد کر دے ۔ (تعليم المتعلم،ص
78) استاد نے کوئی سا بھی علم پڑھایا ہو ، تھوڑا پڑھایا ہو یا زیادہ بہر حال شاگرد
استاد کے ادب کو اپنے اوپر لازم کرلے۔ کسی شاعر نے کہا ہے:
مَا وَصَلَ مِنْ وَصْلٍ اِلاّ
بِالْحَرْمَةِ وَمَا
سَقَطَ مِنْ سَقْطٍ اِلاّ بِتَرْكَ الْحُرْمَةِ
یعنی جس نے جو کچھ پایا
ادب و احترام کرنے کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے
کے سبب ہی کھویا۔(کامیاب طالب علم کون؟، ص55) الخیرات الحسان میں ہے: کروڑوں
حنفیوں کے امام ، امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ زندگی بھر اپنے استاد محترم سیدنا امام
حماد علیہ رحمۃ اللہ الجواد کے مکان عظمت نشانی کی طرف پاؤں پھیلا کر نہیں لیٹے حالانکہ
آپ رضی اللہ عنہ کے مکان عالی شان اور استاد محترم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کے مکان
عظیم الشان کے درمیان تقریبا سات گلیاں پڑتی تھیں ۔ (الخیرات الحسان، ص 82)اللہ
پاک ان کے صدقے ہمیں بھی بے ادب بنائے۔ آمین
(2) اگر کوئی استاد صاحب بیمار ہو جائیں تو انکی عیادت
کرے اور بیمار کی عیادت کرنے کا ثواب حاصل کرے ۔ جیسا کہ حدیث میں ہے : جو مسلمان کسی
مسلمان کی عیادت کیلئے صبح کو جائے تو شام تک اس کیلئے ستر ہزار فرشتے استغفار
کرتے ہیں اور شام کو جاتے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں اور اس کیلئے
جنت میں ایک باغ ہوگا ۔ (جامع الترمذی ، الحدیث:47 ، ج2 ، ص 290)
(3) طالبعلم کو چاہیے کہ کوئی
بھی اہم فیصلہ کرتے وقت استاد سے مشورہ ضرور کرے ۔ مشورہ کرنا حضور صلی اللہ علیہ
کی سنت بھی ہے اور آپ علیہ السلام کو مشورہ کرنے کا حکم بھی دیا گیا جیسا کہ سورہ
آل عمران آیت نمبر 159 میں ہے ترجمہ کنز الایمان : اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔
(4) اگر کسی استاد کے ساتھ
کوئی سانحہ پیش آجاے تواسکی غمخواری کرے۔ جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جو کسی غمزدہ شخص سے
تعزیت دینی اسکی غمخواری) کرے گا اللہ پاک سے تقوی کا لباس پہنائے گا اور روحوں کے
درمیان اسکی روح پر رحمت فرمائے گا اور جو کسی مصیبت زدہ سے تعزیت کرے گا اللہ پاک
اسے جنت کے جوڑوں میں دو ایسے جوڑے پہنائے گا جن کی قیمت دنیا بھی نہیں ہو سکتی۔
(المعجم الاوسط للطبرانی، الحديث:929 )
سمجھدار شاگرد کو استاد
کے ان حقوق کی پاسداری کرنی چاہیے تا کہ شاگرد کو علم نافع عطا ہو اللہ پاک ان
حقوق کی پاسداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔
دانیال سہیل عطاری ( درجۂ سادسہ جامعۃُ المدینہ
فیضانِ عطار اٹک پاکستان)
کوئی کام بغیر سیکھے یا
کوئی علم بغیر پڑھے حاصل نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی یہ کہے کہ ہم بغیر سیکھے ، بغیر
پڑھے علم حاصل کرلیں گے تو یہ ان لیے ممکن نہیں ، مگر جسے رب العالمین توفیق عطا
فرمائے ۔ بغیر استاذ سے پڑھے علم حاصل کرنا انبیا علیہم السّلام کا خاصہ ہے جیسے
محبوب کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا لقب "امی" ہے ، کہ محبوب
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کسی سے پڑھا نہیں بلکہ تمام علوم مالک
کائنات نے قلبِ محبوب کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں اتار دیئے تھے ۔
استاذ کے شاگرد پر بہت
حقوق سے ہیں اگر ان کو حقوق کو زیر بحث لایا جائے تو ایک ضخیم کتاب کا مجموعہ تیار
ہو جائے گا۔ آج ہم چند حقوق تحریر فرمائیں گے ۔ استاذ ایک بہت بڑی نعمت ہے جو فقیر
کو بادشاہ اور غریب کو غنی کر دیتا ہے۔ اس لئے جو مقام استاذ کا وہ کسی اور کا
نہیں ۔ وہ کیا حسین مناظر و لمحات تھے۔ جب " معلم " محبوب کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور "طالب علم" اصحاب رسول تھے۔ پڑھانے والے
اور پڑھنے والے دونوں ہی باکمال ہستیاں تھیں۔
(1) استاذ کا مرتبہ والد سے زیادہ ہے کیوں کہ والد کے
ذریعے بچے کا جنم ہوتا ہے جبکہ استاذ کے ذریعے بچے کی تربیت ہوتی ہے اسی تربیت کی
وجہ سے معاشرے میں اس بچے کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ استاذ بچے کا روحانی باپ ہوتا
ہے ، اس لیے بچے کو چاہیے جتنی عزت وہ اپنے والد کی کرتا ہے اتنی ہی عزت و تکریم
اپنے استاذ کی کرے۔
(2) طالب علم کو چاہیے کہ جب استاذ اسے کوئی حکم دے تو سب
سے پہلے استاذ کے حکم کو پورا کرے پھر دیگر امور کی طرف متوجہ ہو اگر کئی اساتذہ
نے بیک وقت ایک ہی طالب علم کو کسی کام کا حکم دیا ، تو پھر ان میں جو مرتبہ میں
زیادہ ہے پہلے ان کو فوقیت دے مثلاً ، اگر کوئی سید ہیں تو ان کو ترجیح دیں پھر جو
علم میں زیادہ ہیں۔
(3) استاذ اگر بچے کو ڈانٹ دے تو بچہ اس میں عار محسوس نہ
کرے بلکہ اس کو ناز ہونا چاہیے کہ میری غلطیوں پر مجھے کوئی سیدھی راہ دیکھانے
والا موجود ہے۔ کوئی تو ہے جو میری غلطیوں کو درست کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے استاذ کی
ڈانٹ ڈپٹ کو طالب علم اپنے لیے تمغہ امتیاز سمجھے کہ اسی تمغے کی بدولت میں ( یعنی
طالب علم ) نے غلطی کو درست کرنا سیکھا۔
(4) جیسے استاذ کی تعظیم
کرنا طالب علم پر لازم یوں ہی اساتذہ کی نشستوں کی اور دیگر منسوب اشیاءکی بھی
تعظیم کرنا ضروری ہے۔ خصوصاً اساتذہ کے بیٹھنے کی جگہ ( نشست ) کا خاص خیال و ادب
کیا جائے، اور اساتذہ کی کتب کی تعظیم کی جائے کہ اسی میں نجات اور کامیابی ہے۔ کوشش
کرنے والا اگر ایک گنا پائے گا، تو ادب و تعظیم کرنے والا 10 گنا لائے گا۔
(4) اساتذہ کے اساتذہ کا بھی ویسا ہی ادب کرنا چاہیے جیسے
اپنے استاذ کا ادب کرتے ہیں۔ کیوں کہ جو فیض آپ نے اپنے استاذ سے حاصل کیا حقیقت
میں وہ فیض آپ کے دادا استاذ کی جانب سے ملنے والا فیض ہے اور یہ لڑی یوں ہی چلتی
رہتی ہے یہاں تک کہ کسی عظیم ہستی سے جا ملتی ہے۔ اس لیے اساتذہ کے اساتذہ کا ادب
کیا جائے ۔ جیسے ہم اپنے دادا پَڑدادا کا ادب کرتے ہیں ویسے اساتذہ کے اساتذہ کا
ادب کریں۔ استاذ کا ایک حق طالب علم پر یہ بھی ہے کہ جب بھی طالب علم دیکھے کہ
اسکا استاذ اپنے جوتے ہاتھ میں اٹھائے یا پھر کوئی اور سامان اٹھائے جا رہا ہے تو
طالب علم فوراً وہ سامان لے لے تاکہ اساتذہ کو مشقت نہ اٹھانی پڑے اور یوں اساتذہ
کی دعاؤں سے آپکی دنیا و آخرت سنور جائے گی۔
رب العالمین ہمیں اساتذہ
کا حقیقی ادب کرنے کی اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین
قراٰن کریم میں ارشاد
باری ہے : ترجمہ :انسان کو اللہ پاک نے وہ سکھایا جسے وہ جانتا نہ تھا۔ (العلق: 5)
انسان کو فرشتوں اور دیگر
مخلوقات سے جو فضیلت حاصل ہے وہ علم کی بنا پر ہے ۔اسی لیے رسول کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم تحصیلِ علم کے لیے لوگوں کو تاکید فرماتے رہے ، اور یہ بات
ظاہر ہے کہ کسی بھی علم کو حاصل کرنے کے لیے کسی نا کسی استاد کی ضرورت ہوتی ہے ،
بغیر استاد کے تحصیلِ علم ناممکن ہے ، اور طالب علم یہ بات پیشِ نظر رکھے کہ
کتابوں سے زیادہ علم استاد کے پاس ہوتا ہے ، جسے وہ مہارت اور وسیع معلومات کے
ذریعے طالب علم کو وقتاً فوقتاً فراہم کرتا رہتا ہے ۔شاگرد جس قدر استاد کے قریب
رہ کر تحصیلِ علم کر سکتا ہے کسی اور ذریعے سے اس کا حصول مشکل ہے ۔
دور حاضر میں اس رشتے کی اہمیت بہت کم دیکھنے کو
ملتی ہے ، جبکہ ہمارےاسلاف رحمہم اللہ (استاد و شاگرد) کا نام سنتے ہی ان کے ذہنوں
میں رشتوں کا تقدس ، تعلقات کی پاکیزگی اور احترام و محبت کے جذبات کی اعلٰی تصویر
بن جاتی تھی ، دورِ حاضر میں اس اہمیت کے کم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری
بہت سی اخلاقی و روحانی قدریں کم ہوگئی ہیں جس کی بنا پر ہم اس عظیم رشتے کی اہمیت
سے دور ہو کر بیٹھے ہیں ۔ اسی وجہ سی دور حاضر میں استاد کی عزت بہت کم دیکھنے کو
ملتی ہے ۔ جس طرح شاگرد کے کچھ فرائض ہوتے ہیں اسی طرح استاد کے بھی کچھ حقوق ہوتے
ہیں جن کی ادائیگی ایک طالب علم کے لیے بہت ضروری ہے ۔بغیر اس کے تحصیلِ علم نا
ممکن ہے آئیے ملاحظہ کیجئے ۔
(1)استاد کا احترام کرنا : طالب علم کو چاہیے کے وہ اپنے استاد
کا احترام کریں اور استاد کی دل آزاری سے اجتناب کریں ۔
(2)استاد کی بات کو توجہ کے ساتھ سننا:طالب علم کو چاہیے کے وہ
اپنے استاد کی بات کو بغور توجہ کے ساتھ سنیں اور اِدھر اُدھر دیکھنے سے اجتناب
کریں ۔
(3)استاد کی درس گاہ کا احترام کرنا: طالب علم کو چاہیے کے وہ
اپنے استاد کی درس گاہ کا احترام کریں اور درس گاہ کی بےادبی سے اجتناب کریں ۔
(4)استاد کی خدمت کرنا: طالب علم کو چاہیےکے وہ اپنے استاد
کی آگے بڑھ کر خدمت کرنے کا شرف حاصل کریں کہ یہ طالب علم کے لیے باعث برکت ہے۔
(5)استاد کے لیے دعائے خیر کرنا:تمام طالب علم کو چاہیے
کہ سبق کے اختتام پر استاد کا شکریہ ادا کریں اور استاد کے لیے دعا مغفرت کرے ۔
لہذا ہر طالب علم کو
چاہیے کے وہ استاد کے قریب رہ کر علم کو سمندر کی لہر کی طرح اپنے سینے میں سما لے
اور استاد کو اپنی ذہنی صلاحیتوں کی طرف متوجہ کر کے استاد کا دل اپنی طرف مائل
کرے ۔