1۔ مثالی کردار بنیں: بچوں کی سب سے بڑی درسگاہ والدین ہیں۔ جب آپ اچھے اخلاق، ایمانداری، اور محنت کو اہمیت دیں گے، تو بچے خود بخود آپ سے سیکھیں گے۔

2۔ محبت اور توجہ دیں: بچوں کو محبت اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آپ اپنے بچے کے ساتھ وقت گزارتے ہیں اور اس کی باتوں کو اہمیت دیتے ہیں، تو وہ آپ سے قریب ہوں گے اور آپ کی باتوں پر زیادہ توجہ دیں گے۔

3۔ حدود اور اصول مقرر کریں: بچوں کے لئے واضح حدود اور اصول بنانا ضروری ہے تاکہ انہیں یہ سمجھ آئے کہ کون سے سلوک درست ہیں اور کون سے غلط۔

4۔ مثبت حوصلہ افزائی: جب بچہ اچھا کام کرے، تو اس کی تعریف کریں۔ اس سے بچے کی خود اعتمادی بڑھتی ہے اور وہ مزید بہتر کوشش کرتا ہے۔

5۔ سزا اور انعام کا توازن: غلط کام پر مناسب سزا اور اچھے کام پر انعام دینا ضروری ہے۔ اس سے بچے میں مثبت تبدیلی آتی ہے اور وہ اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں۔

6۔ ان کے ساتھ بات چیت کریں: بچوں کے ساتھ کھل کر بات کریں، ان کی مشکلات اور خیالات کو سمجھیں۔ اس سے آپ ان کی ذہنی حالت اور ضرورتوں کو بہتر سمجھ سکیں گے۔

7۔ تعلیمی اور اخلاقی تربیت: صرف تعلیمی ترقی نہیں بلکہ اخلاقی تربیت پر بھی توجہ دیں۔ بچوں کو ایمانداری، درگزر، اور دوسروں کے ساتھ حسن سلوک سکھائیں۔

8۔ معمولات کا تعین کریں: ایک نظم و ضبط والا دن بچوں کو بہتر سلیقے سے زندگی گزارنے میں مدد دیتا ہے۔ بچوں کو وقت کی پابندی سکھائیں اور انہیں ذمہ داری کا احساس دلائیں۔

9۔ فالتو وقت کی نگرانی: بچوں کو فالتو وقت میں ایسی سرگرمیوں میں مشغول رکھیں جو ان کی ذہنی، جسمانی اور اخلاقی نشوونما کے لئے مفید ہوں۔

10۔ صبر اور تحمل: اولاد کو سدھارنے میں وقت لگتا ہے، اس لئے صبر سے کام لیں اور تحمل کے ساتھ بچوں کی تربیت کریں۔

اولاد کی تربیت اور سدھار کے لیے قرآن اور حدیث میں بہت سی ہدایات دی گئی ہیں۔ ان ہدایات کو اپنانے سے بچوں کی اچھی تربیت ممکن ہے۔ یہاں کچھ اہم نکات پیش کی جا رہی ہیں جو قرآن اور حدیث کی روشنی میں اولاد کو سدھارنے کے طریقے ہیں:

1۔ محبت اور شفقت: اللہ تعالیٰ نے قرآن میں والدین کو اپنی اولاد کے ساتھ محبت، شفقت اور ہمدردی کا سلوک کرنے کی ہدایت دی ہے۔ قرآن میں ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، الاسراء: 23) ترجمہ: اور تیرے رب نے فیصلہ کر لیا ہے کہ تم صرف اسی کی عبادت کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہنا اور نہ انہیں ڈانٹنا، بلکہ ان کے ساتھ احترام کے ساتھ بات کرنا۔

اس آیت سے واضح ہے کہ والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ محبت اور نرم سلوک سے پیش آنا چاہیے، خاص طور پر جب وہ بڑھاپے کی حالت میں ہوں۔

2۔ تعلیم و تربیت: اولاد کی بہترین تربیت میں تعلیمی اور اخلاقی دونوں پہلو شامل ہیں۔ حدیث میں بھی بچوں کی تعلیم کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے: تم میں سے ہر شخص راع ہے اور ہر شخص سے اپنی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ (بخاری، 1/309، حدیث: 893)

اس حدیث میں والدین کو اپنی اولاد کی تربیت اور ان کے اخلاق و کردار کی نگرانی کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

3۔ سزا اور انعام: والدین کو اپنی اولاد کی تربیت میں توازن پیدا کرنا چاہیے، یعنی اچھے کاموں پر انعام اور غلط کاموں پر مناسب سزا دینی چاہیے۔ یہ دونوں طریقے بچوں کی تربیت کے لیے ضروری ہیں: جس شخص نے اپنے بچوں کو اچھی تربیت دی اور انہیں ادب سکھایا، وہ جنت میں داخل ہو گا۔

اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بچوں کو اچھے اخلاق سکھانا اور ان کی تربیت کرنا والدین کی ذمہ داری ہے، اور یہ عمل بچے کے لیے دنیا و آخرت میں فائدہ مند ہو گا۔

4۔ صبر اور تحمل: اولاد کی تربیت میں صبر بہت ضروری ہے، کیونکہ بچوں کی تربیت ایک مسلسل عمل ہے۔ قرآن اور حدیث دونوں میں صبر کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ قرآن میں ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِؕ-اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ(۱۵۳) (پ 2، البقرة: 153) ترجمہ: اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے اللہ کی مدد لو، اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

اس آیت میں صبر کا ذکر ہے جو والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت میں صبر سے کام لیں، کیونکہ تربیت کا عمل فوری نہیں ہوتا۔

5۔ دعاؤں کا اثر: والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے دعائیں کریں۔ قرآن و حدیث میں والدین کی دعاؤں کا بہت اثر بتایا گیا ہے: جب والدین اپنی اولاد کے لیے دعا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے۔

اس سے واضح ہے کہ والدین کو اپنی اولاد کے لیے دعا کرنی چاہیے، تاکہ اللہ ان کی ہدایت اور کامیابی کے لئے مدد فراہم کرے۔

6۔ پیدائش سے قبل اچھی منصوبہ بندی: اولاد کی تربیت صرف ان کے پیدا ہونے کے بعد ہی نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی شروع ہو جاتی ہے، جیسے کہ نیک زوجہ کا انتخاب اور والدین کا کردار: تمہاری دنیا میں بہترین چیز تمہاری نیک بیوی ہے۔ (مسلم، ص 595، حدیث: 3643)

اس حدیث میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اچھا خاندان اور نیک بیوی بچوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔