نیک اولاد اللہ پاک کا عظیم انعام ہے۔اولاد صالح کے لئے اللہ کے پیارے نبی حضرت زکریا علیہ السلام نے بھی دعامانگی۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے: رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةًۚ-اِنَّكَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِ(۳۸) (پ 3، اٰل عمران: 38) ترجمہ کنز الایمان: اے رب میرے مجھے اپنے پاس سے دے ستھری اولاد بیشک تو ہی ہے دعا سننے والا۔

اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی آنے والی نسلوں کو نیک بنانے کی یوں دعا مانگی: رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوةِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ ﳓ (پ 13، ابراہیم:40) اے میرے رب! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنا۔

سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین کاموں کے کہ ان کا سلسلہ جاری رہتا ہے: صدقہ جاریہ، وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے اور نیک اولاد جو اس کے حق میں دعائے خیر کرے۔ (مسلم، ص 886، حدیث: 1631)

بچے اپنے والدین اور عزیز و اقارب کی امیدوں کا محور ہوتے ہیں۔ اسلامی معاشرے کا مفید فرد بنانے کے لئے ان کی بہترین تربیت بےحد ضروری ہے۔ یہی بچے کل بڑے ہوکر والدین، تاجر اور استاذ وغیرہ بنیں گے اوراس معاشرے کی باگ ڈور سنبھالیں گے، اگر یہ اپنی ذمہ داریاں شریعت کے مطابق بطریق احسن ادا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ معاشرہ امن وسکون کا گہوارہ بن جائے گا۔

بچوں کی تربیت کے انداز کو بہتر بنایا جائے: عموماً لوگ یہ بے احتیاطی کرتے ہیں کہ بچے کے سامنے لوگوں کو یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ یہ شیطانی بہت کرتا ہے، یا ہر وقت شیطانی کرتا رہتا ہے۔ امام صاحب کو کہتے ہیں کہ مولانا! یہ بہت شیطانی کرتا ہے، کوئی ایسا دم کردو کہ یہ صحیح ہوجائے۔ اس طرح بچّے کی شىطانى مىں اضافہ ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ آپ بچّے کو سب کے سامنے جھاڑنے کے بجائے شفقت اور پیار دینا شروع کریں، نیز اپنا انداز تبدیل کریں، اللہ کرے گا کہ آپ خود بہتری نوٹ کریں گے۔

بچّے کے سامنے کسی کو دعا کےلئے بھی نہ بولیں، کیونکہ اس طرح بچّہ باغی ہوجائے گا کہ میرا باپ مجھے سب کے سامنے ذلیل کرتا ہے۔ یہ بات اگر بچّے کے دماغ میں بیٹھ گئی تو پھر بہت مشکل ہوجائے گی۔

ہے فلاح و کامرانی نرمی و آسانی میں ہر بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانی میں

ڈوب سکتی ہی نہیں موجوں کی طغیانی میں جس کی کشتی ہو محمد کی نگہبانی میں

بچوں کی اصلاح کرنے کا درست انداز: امیر اہل سنّت نے فرمایا: ایک واقعہ (نگران شوریٰ) حاجی عمران کے سامنے بھی ہوا تھا۔ ایک اچھا خاصا تعلیم یافتہ شخص اپنے 15 یا 16 سال کے جوان بیٹے کے ساتھ آیا اور مجھے کہا کہ مىں اس کو آپ کے پاس لایا ہوں، اس کو صحیح کردو۔ مىں نے اس کو سمجھاىا کہ یہ جوان خون ہے، آپ نے یہ بات کہہ کر اسے بھڑکا دیا ہے، اب یہ کىسے صحىح ہوگا! بلکہ اب یہ اور نہیں سنبھلے گا کہ میرے باپ نے میرے پیر کے سامنے مجھے رسوا کیا ہے، اب میں نہیں چھوڑوں گا۔ حکمت مؤمن کا گم شدہ خزانہ ہے۔ کسی سے دعا کروانے میں حرج نہیں، لیکن یہ بات تنہائی میں بولیں، یا خاموشی سے لکھ کر دے دیں، ىہ حکمت عملى ہے۔

بچے کو دوسروں کے سامنے ذلیل کرنا بہت نامناسب اور بے حد خطرناک ہے، اس طرح بچے کے دل میں زہر بیٹھ سکتا ہے۔ گھر میں جب بچے کو سمجھاتے ہوں گے تو اس کے بہن بھائی بھی سنتے ہوں گے اور بعد میں وہ باپ کے انداز کا پریکٹیکل بھی کرتے ہوں گے۔

بچوں کی تربیت کے حوالے سے چند مفید اور اہم باتیں:

(1)بچوں کو دودھ پلانے اور کھانا کھلانے کا بھی وقت مقرر کرلیں ورنہ بچوں کاہاضمہ خراب اور معدہ کمزور ہو جاتا ہے،نتیجۃً بچہ بیمار ہوجاتا ہے۔

(2)بچوں کو صاف ستھرا ضرور رکھیں مگر بہت زیادہ بناؤ سنگھار مت کریں کہ اس سے نظر لگ جانے کا خطرہ ہے۔بلکہ ہوسکے تو قرآن پاک یہ آیت کریمہ کوئی بھی درست مخارج والا یاد کرکے بچوں پر دم کرتے رہا کریں: وَ اِنْ یَّكَادُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَیُزْلِقُوْنَكَ بِاَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَ یَقُوْلُوْنَ اِنَّهٗ لَمَجْنُوْنٌۘ(۵۱) وَ مَا هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ۠(۵۲) (پ 29، القلم: 51، 52) ترجمہ کنز الایمان: اور ضرور کافر تو ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ گویا اپنی بدنظرلگا کرتمہیں گرادیں گےجب قرآن سنتے ہیں اور کہتے ہیں یہ ضرور عقل سے دور ہیں اور وہ تو نہیں مگر نصیحت سارے جہان کے لیے۔

ان شاء اللہ نظر بد سے محفوظ رہیں گے۔بڑوں پر بھی دم کیا جاسکتا ہے۔

(3)بچے کو ہر وقت گود میں لئے رہنا یا اٹھائے پھرنا مناسب نہیں کہ بچے کمزور ہوجاتے اور دیر میں چلتے ہیں بلکہ پالنے یا جھولے وغیرہ میں سلائے رکھیں اور جب وہ بیٹھنے کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان کو بٹھانے کی کوشش کریں۔ یوہیں چلانے کی بھی کوشش ہو۔

(4)بچے ٹافیاں، گولیاں، چاکلیٹ،گولاگنڈا اور دیگر رنگ برنگی میٹھی چیزیں کھانے بلکہ بوتل COLD DRINK کے بھی شوقین ہوتے ہیں ان سے دانتوں، گلے،سینے، معدے اور آنتوں وغیرہ کو سخت نقصان پہنچنے کا خطرہ رہتا ہے۔شروع سے ہی یہ چیزیں بچوں کو نظر نہ آئیں۔ اگر بچے ضد کریں آج ان کا رونا برداشت کرلیں ورنہ بچے کے ساتھ کہیں آپ کو بھی رونا پڑسکتا ہے۔

(5) بچوں کو زیادہ اور ہر وقت کھاتے پیتے رہنے سےنفرت دلاتے رہیں کہ یہ موٹاپے بلکہ بہت سی بیماریوں سے بچانے کےلیے ضروری ہے۔

(6)بچوں کی ہر ضد پوری مت کریں کہ اس سے بچوں کا مزاج بگڑ جاتا ہے اور وہ ضدی ہو جاتے ہیں اور یہ عادت عمر بھر نقصان دیتی ہے۔

(7)بچوں کے ہاتھ سے اس کے بھائی بہنوں، دوسرے بچوں کو تحفے یا مسجد کے چندہ میں،مدنی عطیات مہم (telethon) کے موقع وغیرہ پر،صدقہ وغیرہ دلوایاکریں تاکہ سخاوت کی عادت ہو اور خود غرضی یا کنجوسی کی عادت سے حفاظت میں رہے۔

(8) چیخ کر بولنے یا جواب دينے سے ہمیشہ بچوں کو روکیں۔ ورنہ یہ عادت پڑجائے گی جو بڑے ہو کر بھی نہ جائے گی۔

(9)بات بات پر منہ پھلانے، غصہ کرنے، لڑنے جھگڑنے، چغلی کھانے، گالی بکنے جیسی عادات سے بچپن سے ہی ان کو روکا جائے کہ ان عادات کا پڑجانا عمر بھر کے لئے رسوائی کا سامان ہے۔

(10)اگر بچہ کہیں سے کسی کی کوئی چیز اٹھالائے اگر چہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو۔ اس پر سب گھر والے ایسی ناراضی کا اظہار کریں کہ بچہ عمر بھر چوری سے توبہ کرلے۔

(11) بچے، بچیوں کے تمام کام سب کے سامنے ہوں، کوئی کام چھپ چھپا کر کریں نظر رکھیں بلکہ روکیں کہ اچھی عادت نہیں۔

(12)بچوں کو پیارے آقا ﷺ،صحابہ کرام علیہم الرضوان غوث پاک،دیگر بزرگان دین رحمہم اللہ المبین اور نیک لوگوں کے مستند سچے واقعات سنائیں۔ مگر خبردار خبردار عشق مجازی کے قصے کہانیاں بچوں کے کان میں بھی نہ پڑیں۔ نہ ہی ایسی کتابیں بچوں کے ہاتھوں میں دیں جن سے اخلاق خراب ہوں۔

(13)لڑکوں اور لڑکیوں کو ضرور کوئی ایسا ہنر سکھا دیں جس سے ضرورت کے وقت وہ کچھ کما کر بسر اوقات کر سکیں۔مثلا لڑکیوں کوسلائی آتی ہو۔

(14)بچوں کو بچپن ہی سے اس بات کی عادت ڈالیں کہ وہ اپنا کام خود اپنے ہاتھ سے کریں اور اپنے سامان کو خود سنبھال کر رکھیں۔

(15)بچوں اور بچیوں کو کھانے پہننے اور لوگوں سے ملنے ملانے اور محفلوں میں اٹھنے بیٹھنے کا سلیقہ بھی سکھائیں۔