بچے اپنے والدین اور عزیز و اقارب کی امیدوں کا محور ہوتے ہیں۔ اسلامی معاشرے کا مفید فرد بنانے کے لیے ان کا بہترین تربیت بے حد ضروری ہے۔ یہی بچے کل بڑے ہو کر والدین، تاجر اور استاذ وغیرہ بنیں گے اس لیے ہمیں ان کی تربیت اچھی کرنی چاہیے۔ نیک اولاد اللہ تعالیٰ کا عظیم انعام ہے۔

یقینا وہی اولاد اخروی طور پر نفع بخش ثابت ہوگی جو نیک و صالح ہو اور یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اولاد کو نیک یابد بنانے میں والدین کی تربیت کو بڑا دخل ہوتا ہے۔ موجودہ حالات میں اخلاقی قدروں کی پامالی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ نیکیاں کرنا بے حد دشوار ہے اور ارتکاب گناہ بہت آسان۔ اس کا ایک سبب والدین کا اپنی اولاد کی مدنی تربیت سے غافل ہونا بھی ہے۔ ایسے والدین کو غور کرنا چاہیے کہ اولاد کو اس حال تک پہنچانے میں ان کا اپنا ہاتھ ہے کیونکہ انہوں نے اپنے بچوں کو ABC تو سکھایا مگر قرآن پڑھنا نہ سکھایا، مغربی تہذیب کے طور طریقے تو سمجھائے مگر رسول عربی ﷺ کی سنتیں نہ سکھائیں۔

عموماً دیکھا گیا ہے کہ بگڑی ہوئی اولاد کے والدین اس کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کر کے خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں۔ مگر یاد رکھیے اولاد کی تربیت صرف ماں یا محض باپ کی نہیں بلکہ دونوں کی ذمہ داری ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ (پ 28، التحریم:6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آ گ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔

تربیت کرنے والوں کے قول و فعل میں پایا جانے والا تضاد بھی بچے کے دین کے لئے بےحد باعث تشویش ہوگا کہ ایک کام یہ خود تو کرتے ہیں مثلا جھوٹ بولتے ہیں مگر مجھے منع کرتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اپنے بڑوں کی نصیحت اس کے دل میں گھر نہ کر سکے گی۔ الغرض تربیت اولاد کے لیے والدین کا اپنا کردار بھی مثالی ہونی چاہیے۔

یوں تو انسان کی پوری زندگی ہی قرآن وسنت کے مطابق ہونی چاہیے مگر چند امور ہیں جن کا اولاد کے وجود میں آنے سے پہلے لحاظ رکھنا بے حد ضروری ہے کیونکہ اولاد کی صالحیت (پرہیز گاری) بھی ان سے وابستہ ہے:1۔ نیک عورت کا انتخاب 2۔ اچھی قوم میں نکاح 3۔ نکاح کے لیے اچھی اچھی نیتیں کرنا 4۔ منگنی اور شادی کے موقع پر نا جائز رسومات سے بچا۔مناسب وقت ساتھ گزرنا

بچے اپنی حیثیت اجاگر کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی اس ضرورت کی تکمیل کی خاطر باپ کا بچوں کے ساتھ وقت گزارنا ضروری ہے۔ اسے چاہیے کہ بچوں کے ساتھ مختلف طریقوں سے وقت گزارے مثلاً بچوں کو سیرو تفریح کے لیے کہیں کے جانا، ان کی ساتھ کھیلنا کودنا، بچوں کو خوش کردینے والی من پسند اشیاء انہیں دینا بشرط یہ کے حد سے تجاوز نہ ہوں۔ یہ وہ ذرائع ہیں جن کے ذریعے والد بچوں کو اپنے ساتھ مانوس کر سکتا ہے، بچوں کو صرف یہ شعور ہو جائے کے باپ کو ان سے پیار ہے۔ یہی احسان ان کی بہترین نشونما کے لیے کافی ہے۔ جس سے ان کی بےشمار پوشیدہ صلاحیتوں کو پروان چڑھنے کا موقع مل سکتا ہے۔

ماں باپ کی اصل طاقت ان کی نیک اولاد ہے۔

ماں باپ کمزور،بیمار اور بوڑھے تب ہوتے ہیں جب انکی اپنی اولاد ہے ان کو پریشان رکھتی ہے۔ ماں باپ کی عزت کرو،ان کی ضروریات کا خیال رکھو تاکہ آپکی اولاد آپ کی عزت کرے کیوں کہ جو آپ کریں گے وہ ہی آپ کے ساتھ ہو گا۔

اولاد اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔ مگر اس کے ساتھ والدین پر ڈالی گئی ایک عظیم ذمہ داری بھی ہے۔