اولاد کے لیے پہلی درسگاہ اس کے والدین خصوصاً (ماں) ہے۔ والدین بچوں کے قریب شعور ہوتے ہی ان کو آداب زندگی سکھانے کی کوشش کے ساتھ عملاً خود بھی ان کے لیے مثالی بنیں تاکہ وہ معاشرے میں بھی بہتر اور فعّال افراد بن کر ابھریں۔ اولاد کو سدھارنے کے متعلق چند نکات پیش کیے جاتے ہیں ملاحظہ کیجئے:

1)بچوں کو دینی تعلیم سے مربوط کرنا: تعلیم کا مقصد بچے میں شعور و احساس پیدا کرنا اور اسے مہذب بنانا ہوتا ہے لہٰذا اس کے لیے اسے بہتر دینی تعلیم سے مربوط رکھا جائے یوں وہ اپنے مقصد حیات کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی زندگی پر نافذ کرے گا جو کہ سب سے پہلی چیز ہے جو اس بچے کے سدھرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔

2) بچوں کی حوصلہ افزائی کرنا: والدین کو چاہیے کہ بچے کوئی بھی اچھا فعل بجا لائیں چاہے وہ بظاہر چھوٹا ہی ہو اس کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ اس میں مزید شوق بڑھے اور وہ دلچسپی کے ساتھ نیک اعمال و آداب کی طرف توجہ مرکوز کرتے ہوئے انہیں عمل میں لائے اور یوں معاشرے کا فعال فرد بننے کے ساتھ ساتھ اچھا انسان بن کر سامنے آئے۔

3) بچوں کی صلاحیتوں کو ابھارنا: والدین کو چاہیے کہ بچوں میں اگر کوئی صلاحیت کی کرن نمودار ہو تو اسے بچوں پر واضح کریں۔ انہیں ایسے کاموں کی اجازت دیں اور ان پر اکسائیں جن سے ان کی مخفی صلاحیتیں کھل کر سامنے آسکیں اور مستقبل میں بھی وہ کامیاب ہو سکیں کیونکہ اس طرح ان میں شوق و ولولہ بڑھے گا اور جذبے و لگن سے وہ جو بھی اچھا کام کریں گے وہ ان کی کامیاب کا ہی ذریعہ بنے گا۔

4) بات بات پر ڈانٹنے سے بچنا: بچوں میں لچکدار رویوں کو پروان چڑھانا چاہیے تاکہ وہ بات کو ماننے کی طرف آئیں بصورت دیگر بچے ضدی ہو جاتے ہیں اور ہر بات نظر انداز کر دیتے ہیں اس کے لیے والدین کو خود بھی بطور نمونہ نرم لہجے و رویے اپنانے ہوں گے تاکہ اس سے بچوں میں بھی سدھرنے کی فضا قائم ہو۔

5) بچوں میں ہمدردی و احساس پیدا کرنا: موجودیت دور میں بچے اپنا وقت سوشل میڈیا پر گزارنے کی وجہ سے قوت برداشت کم رکھتے ہیں۔ اس سے معاشرتی اقدار بھی متاثر ہوتی ہیں لہٰذا والدین کو چاہیے کہ اپنی مصروفیات کو محدود کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ وقت بچوں کو دیں۔ ان میں ہمدردی کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے انہیں فطرت کے قریب کریں۔

اگر ان کا نا مناسب رویہ ہو بھی تو انہیں ڈانٹنے کی بجائے نرمی سے غلطی کا احساس دلائیں تاکہ ان کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو اور آہستہ آہستہ اچھے رویے ان کی فطرت بن جائیں اور وہ انسانیت کے لیے ہمدردی و احساس کے جذبے کے عادی ہو جائیں۔

یاد رکھیے کہ بچوں کی بہترین تربیت میں والدین کا سب سے بڑا کردار ہے۔ اس کے لیے بعض اوقات والدین کو خود اپنے اندر کے کچھ نامناسب عادات و اطوار کو چھوڑنا پڑتا ہے لہذا بچوں کی اصلاح کا آغاز اپنی اصلاح سے کیجیے۔

آخر میں اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے کہ ہمیں مہذب دینی علوم سیکھنے اور انہیں اپنی زندگیوں پر نافذ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔تا کہ ہم خود بھی اور اپنی اولاد کو بھی معاشرے کے فعال افراد بنانے میں کامیاب ہو سکیں۔ آمین