بچے معاشرے کا سرمایہ ہوتے ہیں اگر یہی بگڑ جائیں تو معاشرے کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ فتنہ و فسادات عام ہو جاتے ہیں۔ بچوں میں ضد اور غلط حرکتیں کرنے کی عادت ہوتی ہے اگر یہ بڑھ جائے تو انہیں شفقت کے ساتھ سمجھانا چاہیے ورنہ غلط طریقے سے برتاؤ کرنے کے برے نتائج ہوسکتے ہیں۔

تربیت میں تدریجی انداز اختیار کرنا چاہیے، چنانچہ غلطی پر تنبیہ کی ترتیب یوں ہونی چاہیے: 1:سمجھانا۔2:ڈانٹ ڈپٹ کرنا۔3:مارکے علاوہ کوئی سزا دینا۔4:مارنا۔5: قطع تعلق کرنا۔ یعنی غلطی ہوجانے پر بچوں کی تربیت حکمت کے ساتھ کی جائے، اگر پہلی مرتبہ غلطی ہو تو اولاً اسے اشاروں اور کنایوں سے سمجھایا جائے، صراحۃً برائی کا ذکر کرنا ضروری نہیں۔ اگربچہ بار بار ایک ہی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل میں یہ بات بٹھائیں کہ اگر دوبارہ ایسا کیا تو اس کے ساتھ سختی برتی جائے گی، اس وقت بھی ڈانٹ ڈپٹ کی ضرورت نہیں ہے، نصیحت اور پیار سے اسے غلطی کا احساس دلایاجائے۔ بچہ کی پیارومحبت سے تربیت واصلاح کا ایک واقعہ حضرت عمر بن ابی سلمہ سے منقول ہے،

فرماتے ہیں کہ میں بچپن میں رسول اللہ ﷺ کی زیرتربیت اور زیرکفالت بچہ تھا، میرا ہاتھ کھانے کے برتن میں ادھر ادھر گھوم رہا تھا، یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: اے لڑکے! اللہ کا نام لے کر کھانا شروع کرو اور دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنی طرف سے کھاؤ۔ (بخاری، 3/521، حدیث: 5376) اگر نصیحت اور آرام سے سمجھانے کے بعد بھی بچہ غلطی کرے تو اسے تنہائی میں ڈانٹا جائے اور اس کام کی برائی بتائی جائے اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا کہا جائے۔

ہمارے پیارے آقاﷺ ہر کام میں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں اس لیے بچوں کی تربیت کے معاملے میں حضور پاک ﷺ کا انداز تربیت پیش نظر ہونا چاہیے۔

رسول پاک ﷺ کی شفقت کو دیکھا جائے تو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے دس سال رسول پاک ﷺ کی خدمت میں گزارے لیکن کبھی بھی انہیں ڈانٹا نہیں گیاجس کی گواہی حضرت انس رضی اللہ عنہ خود دیتے ہیں۔ (مسلم، ص 972، حدیث 2309)

نبی کریم ﷺ اچھی باتو ں کی تر غیب دلاتے،ایک بار حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے میرے بیٹے! اگر تم سے ہوسکے تو صبح و شام ایسے رہو کہ تمہارے دل میں کسی کی طرف سے کینہ نہ ہو، اے میرے بیٹے! یہ میری سنّت ہے اور جس نے میری سنّت سےمحبّت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنّت میں ہوگا۔

اگر اولاد میں گستاخی اور نافرمانی کا رویہ دیکھیں تو فوری اللہ سے رجوع کریں اور یہ عمل شروع کردیں۔بعد از نماز عشا اول آخر اسم ربی یا نافع اکتالیس سو بار اکیس دن تک پڑھیں اور اللہ کے حضور اسکے راہ راست پر آنے کی دعا کریں،انشا ء اللہ بگڑے ہوئے بچوں کی اصلاح ہوگی۔

تربیت کی دو قسمیں: تربیت دو قسم کی ہوتی ہے: 1:ظاہری تربیت،2:باطنی تربیت۔ظاہری اعتبار سے تربیت میں اولاد کی ظاہری وضع قطع، لباس، کھانے، پینے، نشست وبرخاست، میل جول،اس کے دوست واحباب اور تعلقات و مشاغل کو نظر میں رکھنا،اس کے تعلیمی کوائف کی جانکاری اور بلوغت کے بعد ان کے ذرائع معاش وغیرہ کی نگرانی وغیرہ امور شامل ہیں، یہ تمام امور اولاد کی ظاہری تربیت میں داخل ہیں۔اور باطنی تربیت سے مراد ان کے عقیدہ اور اخلاق کی اصلاح ودرستگی ہے۔ اولاد کی ظاہری اور باطنی دونوں قسم کی تربیت والدین کے ذمہ فرض ہے۔

ماں باپ کے دل میں اپنی اولاد کے لیے بے حد رحمت وشفقت کا فطری جذبہ اور احساس پایا جاتا ہے۔ یہی پدری ومادری فطری جذبات واحساسات ہی ہیں جو بچوں کی دیکھ بھال، تربیت اور ان کی ضروریات کی کفالت پر انہیں ابھارتے ہیں۔ماں باپ کے دل میں یہ جذبات راسخ ہوں اور ساتھ ساتھ اپنی دینی ذمہ داریوں کا بھی احساس ہو تو وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریاں احسن طریقہ سے اخلاص کے ساتھ پوری کرسکتے ہیں۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں اولاد کی تربیت کے بارے میں واضح ارشادات موجود ہیں۔

اللہ پاک ہمیں اچھے انداز میں اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین