خالد حسین عطاری مدنی (مدرس جامعۃُ المدینہ فیضانِ ابو عطار کراچی،پاکستان)
مشہور قول ہے کہ ’’جس نے
معالج کی عزت نہ کی، وہ شفا سے محروم رہا اور جس نے استاد کی عزت نہ کی، وہ علم سے
محروم رہ گیا۔‘‘ بلاشبہ، اسلام میں استاد کی بڑی قدرومنزلت ہے۔ خود ہمارے پیارے
اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا ’’اِنما بعثت معلماً‘‘ (ترجمہ) میں بطور معلّم (استاد) مبعوث (بھیجا) کیا
گیا ہوں۔ )۔ (ابن ماجہ، باب فضل العلماء والحث علی العلم حدیث:229)
جس طرح والدین کے احسانات
کا بدل ادا نہیں کیا جاسکتا اسی طرح استاد کے احسانات کا بھی بدل ادا نہیں ہوسکتا
اور جس طرح حقیقی والدین کے حقوق ہیں اسی طرح روحانی والدین کے حقوق بھی ہم پر
لاگو ہوتے ہیں۔ علم ہو یا کوئی فن استاد کے بغیر اس کا سیکھنا مشکل بلکہ محال ہے
اس لیے داناؤں کا کہنا ہے استاد کے بغیر ہر کام کار (کام)بے بنیاد کی حیثیت رکھتا
ہے فارسی کا مقولہ مشہور ہے کہ ہر کارے را استادے ،یعنی ہر کام کا کوئی نہ کوئی
استاد ہوتا ہے ۔
لیکن فی زمانہ جہاں دیگر
اخلاقی اعتبار سے لوگ پستی کا شکار ہیں وہیں لوگوں کی نظر میں استاد کی عزت و
اہمیت بھی گرتی چلی جا رہی ہے اسی مناسبت سے استاد کے چند حقوق پیش کیے جا رہے ہیں
تاکہ استاد کی عظمت اور ہمارے دلوں میں اجاگر ہو۔
(1) استاد کا ادب کرنا: استاد کے حقوق میں سب سے اہم حق ہے
استاد کا ادب کرنا ۔ حصول علم میں استاد کے ادب بھی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے شاگرد
کا اولین فرض یہ کہ استاد کا ادب و احترام کرے اس سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہو جس
سے استاد کوکسی قسم کی کوئی تکلیف پہنچے نافرمانی ،گستاخی،بے رخی سے شاگرد کو
ہمیشہ بچنا چاہیے۔ جب امام شافعی علیہ الرحمہ، امام مالک علیہ الرحمہ کی خدمت میں
طلب ِعلم کے لیے تشریف لے گئے ،جب کتاب کا ورقہ پلٹنے کی نوبت آتی تو اس قدر
احتیاط کرتے کہ آواز پیدا نہ ہوتی کہیں استاد کو تکلیف نہ پہنچے ۔امام ربیع علیہ
الرحمہ فرماتے ہیں حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ کی نظر کے سامنے مجھ کو کبھی پانی
پینے کی جرأت نہ ہوئی۔ (آدابِ استاد و شاگرد مفتی فیض احمد اویسی صاحب علیہ
الرحمہ)
علماء فرماتے ہیں جس سے
اس کے استاد کو کسی طرح ایذا پہنچی وہ علم کی برکت سے محروم رہے گا ۔(فتاویٰ رضویہ،
جلد، 23 ،صفحہ نمبر 639) کسی شاعر نے کہا ہے:
مَا وَصَلَ مِنْ وَصْلٍ اِلاّ
بِالْحَرْمَةِ وَمَا
سَقَطَ مِنْ سَقْطٍ اِلاّ بِتَرْكَ الْحُرْمَةِ
یعنی جس نے جو کچھ پایا
ادب و احترام کرنے کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے
کے سبب ہی کھویا۔(کامیاب طالب علم کون؟، ص55) آپ دیکھ لیجیے انسان گناہ کی وجہ سے
کافر نہیں ہوا بلکہ اسے ہلکا سمجھنے کی وجہ سے کافر ہوجاتا ہے۔ ( راہ علم ،صفحہ
نمبر 29)
جیسا کہ سیدنا امام ربانی
مجدد الف ثانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے
ہیں : الطریق کلہ ادب یعنی ادب سارے کا سارا
راہ حق ہے ۔( کامیاب طالب علم ، ص 57 )
(2) استاد کے لیے دعا کرنا :2: استاد بہت بڑا محسن ہے
اس کے احسانات کا بدلہ کسی بھی صورت چکایا نہیں جا سکتا پس ایسی شخصیت کے لیے
مکافات(بدلہ،عوض) ضروری ہے اور اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ استاد کے لیے دعا کی
جائے ۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہُ عنہ
فرماتے ہیں جو شخص تم پر احسان کرے اگر تم اس کی مکافات( بدلہ) کر سکتے ہو تو کرو
ورنہ اس کے لیے دعا کرو یہاں تک کہ تم سمجھ لو اسکی مکافات کرلی ۔ یہی وجہ ہے کہ
امام ابو یوسف علیہ الرحمہ ہمیشہ اپنے استاد کے لیے دعا کرتے تھے اور فرماتے تھے
میں نے جب بھی کوئی فرض یا نفل نماز پڑھی تو اپنے استاد کے لیے دعا ضرور کی اور
فرماتے ہیں کہ اپنے والدین سے پہلے اپنے استاد امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃُ اللہ
علیہ کے لیے ہر نماز کے ساتھ دعا کو واجب جانتا ہوں۔ امام احمد بن حنبل رحمۃُ اللہ
علیہ فرماتے ہیں تیس سال سے میری کوئی ایسی رات نہیں گزری جس میں امام شافعی رحمۃ
اللہ علیہ کے لیے دعا نہ کی ہو ۔
اس لیے طالب علم کو چاہیے
کہ اپنے استادوں کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھے اور خلوصِ دل سے اسکی مغفرت اور دیگر
معاملات کے لیے دعا کرے ۔( کامیاب طالب علم: صفحہ نمبر 68/69)
(3) استاد کی عزت کا خیال کرنا :کیونکہ یہی چیز علم میں
پختگی ،فلاح وکامرانی ،حصولِ علم میں مددگار ثابت ہوگی۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے پیارے اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا: عَنْ عُبَادَةَ بْنِ
الصَّامِتِ ، أَنَّ رسول اللہ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَيْسَ
مِنْ أُمَّتِي مَنْ لَمْ يُجِلَّ كَبِيرَنَا، وَيَرْحَمْ صَغِيرَنَا، وَيَعْرِفْ
لِعَالِمِنَا "یعنی جو ہمارے
بڑوں کی عزت نہ کرے ،اورہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے عالم کو نہ پہچانے
وہ میری امت میں سے نہیں ۔ (الترغیب، حدیث: 169)
(4) وقت کی پابندی اور استاد کی بات غور سے سننا
: شاگرد کا یہ بھی فرض ہے
کہ وہ وقت کا پابند ہو اگر وقت کا پابند نہیں ہوگا تو اس کا تعلیمی نقصان زیادہ
ہوگا اور یہ چیز بھی نامناسب ہے کہ استاد تو وقت پر آئے لیکن طالب علم تاخیر سے
آئے شاگرد کی یہ غفلت و سستی کسی صورت قابل معافی نہیں کہ جو نقصان ہوگا اس کو
پورا نہیں کیا جاسکتا ۔(آدابِ استاد و شاگرد، ص 36)
اسی طرح استاد کی بتائی
گئی ہر بات کو بغور سن کر اس کو ذہن نشین کرکے اس پر عمل کرے اور علم کو دوسروں تک
پہنچائے اور خود پوری لگن کے ساتھ علم کے حصول کے لیے پوری جدوجہد کرے، کیوں کہ
ایک استاد کو حقیقی خوشی تب ملتی ہے جب اس کا شاگرد اونچے مقام پر پہنچ جاتا ہے
(5) استاد پر الزام لگانے سے بچانا :طالب ِعلم کی یہ بھی ذمہ
داری ہے کہ وہ اسباق میں غیر حاضری سے اجتناب کرے، ناغہ کرنےسے اس کے علم
واستعداد(صلاحیت) میں کمی آئے گی اور غیر اخلاقی حرکات سے بھی اپنے آپ کو بچائے
خواہ تعلیمی ادارے میں ہو یا گھر یا دوستوں میں ہو ورنہ لوگ اس کے استاد ہی کو
موردِ الزام ٹھہرائیں گے، اپنے اساتذہ کو الزام آنے سے بچانا بھی استاد کے حقوق
میں سے ہے۔
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا استاد کے حقوق کے
حوالے سے بھی مجموعی خلاصہ پڑھ لیجئے اور عمل کرنے کی نیت کیجیے : عالم کا حق جاہل
اور استاد کاحق شاگرد پریکساں(برابر) ہے اور وہ یہ کہ اس سے پہلے بات نہ کرے اور
اس کے بیٹھنے کی جگہ اس کی غَیبت(عدم موجودگی)میں بھی نہ بیٹھے اور چلنے میں اس سے
آگے نہ بڑھے۔ ینبغی لرجل ان یراعی حقوق
استاذہ وآدابہ لایضن بشیئ من مالہ۔آدمی کوچاہئے کہ اپنے استاذ کے حقوق وآداب کا لحاظ رکھے
اپنے مال میں کسی چیزسے اس کے ساتھ بخل نہ کرے یعنی جوکچھ اسے درکار ہو بخوشی خاطر
حاضرکرے اور اس کے قبول کرلینے میں اس کا احسان اور اپنی سعادت جانے۔(مزید اسی
صفحہ کے آخر میں فرمایا:)عالم دین ہر مسلمان کے حق میں عموماً اور استادِ علمِ دین
اپنے شاگرد کے حق میں خصوصاً نائبِ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے ،ہاں
اگر خلافِ شرع بات کا حکم دے تو ہرگز نہ کرے۔(فتاویٰ رضویہ ،جلد24 ،صفحہ نمبر
412/11 ،رضا فاؤنڈیشن )
استاذ ہی وہ ہستی ہے جو
انسان کو اندھیرے اور اجالے کی پہچان کرواتی٬ صحیح اور غلط کا فرق بتاتی ، زندگی
گزارنے کے طریقہ سکھاتی اور راہ حق کا راہی بناتی ہے تو اتنے بڑے محسِن کو نظر
انداز کرنا کسی عقل مند کو زیب نہیں دیتا، استاذ کی قدروعزّت وتعظیم وتوقیر کے
بغیر طالب علم نہ تو علم حاصل کرسکتا ہے اور نہ ہی اس علم سے نفع اٹھا سکتاہے۔ امام
غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں
اگراستاذ علوم آخرت سکھاتا ہے یا علوم دنیا آخرت کی نیت سے سکھاتا ہے تو استاذ کا
حق ماں باپ کے حق سے زیادہ ہے۔ کیونکہ والد اس کے موجودہ وجود اور فانی زندگی کا
ذریعہ ہوتا ہے جبکہ استاذ باقی رہنے والی زندگی کا سبب ہوتا ہے اگر استاذ نہ ہو تو
باپ کے ذریعے حاصل ہونے والی چیز اسے دائمی ہلاکت کی طرف لے جائے۔استاذ کا مقام
ومرتبہ اس حدیث پاک سے ہمیں پتا چلتاہے: قال رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم :اِنّمَا اَنَالَکُم بِمَنزِلَةِالوَالِدِ اُعَلِّمُکُم۔ ترجمہ:حضورصلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایامیں تمہارےلئے باپ کی حیثیت رکھتا ہوں میں تمہیں علم
سکھاتا ہوں۔ (سنن ابی داؤد ،کتاب الطہارة ،الحدیث:8،ج1،ص37 )
استاذ کے پانچ حقوق:
(1) استاذ کا شکر ادا کرنا :استاذ کی نا شکری نہ کرنا
کہ یہ ایک خوفناک بلا اور تباہ کن بیماری ہےاور علم کی برکتوں کو ختم کرنے والی ہے
حضورصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:وہ آدمی الله کا شکر بجا نہیں لاتا
جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا (سنن ابی داؤد ،الحدیث:4811 ،ج4 ،ص335)
(2) استاذ کا مقابلہ نہ کرنا: طالب علم کبھی بھی استاذ
کا مقابلہ نہ کرے کہ یہ ناشکری سے زائد ہےکیونکہ ناشکری تو یہ ہے کہ شکر نہ کیا جائے
اور مقابلے کی صورت میں بجائے شکر کے اس کی مخالفت بھی ہے دیکھئے جو شخص احسان کو
پیش نظر نہیں رکھتا اس نے احسان کی نا شکری کی ہے۔
(3) استاذ کی تعظیم کرنا:طالب علم پر لازم ہے کہ اپنے استاذ کی
تعظیم و توقیرکرے کیونکہ بے ادبی ایک تباہ کن شے ہے کسی شاعر نے کہا ہے:
مَا وَصَلَ مِنْ وَصْلٍ اِلاّ
بِالْحَرْمَةِ وَمَا
سَقَطَ مِنْ سَقْطٍ اِلاّ بِتَرْكَ الْحُرْمَةِ
یعنی جس نے جو کچھ پایا
ادب و احترام کرنے کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے
کے سبب ہی کھویا۔(کامیاب طالب علم کون؟، ص55)
(4) اپنے آپ کو استاذ سے افضل قرار نہ دینا:عقلمند اور سعادت مند اگر
استاذ سے بڑھ بھی جائیں تو اسے استاذ کا فیض اور اس کی برکت سمجھتے ہیں اور پہلے
سے بھی زیادہ استاذ کے پاؤں کی مٹی اپنے چہرے پر ملتے ہیں۔
معلّم کائنات نبی پاک صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: علم سیکھو اور علم کے لیے ادب و احترام
سیکھوجس استاد نے تجھے علم سکھایااس کے سامنے عاجزی اور انکساری اختیار کرو۔ (معجم
الاوسط ،الحدیث6184 ،4/332)
(5) استاذ کے بستر پر نہ بیٹھنا: طالب علم کو چاہئے کہ وہ
استاذ کے بستر پر نہ بیٹھے اگرچہ استاذ موجود نہ ہو عالم کا حق جاہل پر اور استاذ
کا حق شاگرد پر برابر ہے وہ یہ ہے کہ اس سے پہلے بات نہ کرے اور اسکی جگہ پر نہ
بیٹھے اگرچہ وہ موجود نہ ہو اور اسکی بات رد نہ کرے اور چلنے میں اس کے آگے نہ ہو۔
طالب علم کو چاہئے کو
استاذ کے حقوق کی بجاآوری کرتا جائے اور ترقی کی منازل طے کرتاچلا جائے اللہ پاک
ہمیں اپنے اساتذہ اکرام کی ادب وتعظیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاه خاتم
النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مذکورہ تمام مواد مکتبۃ المدینہ
کی کتابوں احیاءالعلوم،راہ علم،والدین ،زوجین اور اساتذہ کے حقوق سے لیا گیا ہے۔
ضیاء الدین (درجۂ سابعہ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ ،حیدرآباد پاکستان)
"
استاد" فارسی کا لفظ ہے، جس کا ایک معنی ہے ''کسی کام کا آغاز کرنے والا''
یا ''موجد'' کے ہے اب جب نئی چیز بنائی جاتی ہے تو سب سے پہلے جو اہم "important " چیز ہے
کہ اس کی بنیاد "Base"
کو مضبوط بنایا جائے اگر اس کی بنیاد مضبوط ، پکی ہے تب تو کوئی مسئلہ نہیں اگر
بنیاد ہی کمزور "weak"
ہے تو اس کے اوپر ایک ستون "pillar" بھی نہیں بنا سکتے ہیں چہ جائیکہ اس پر کوئی بڑی چیز بنائی
جائی اب یہ لازمی سی بات ہے کہ وہ چیز جاندار " living " ہو یا بے جان " non living" ہو مثلاً کوئی عمارت تو یہ اس بات پر " metter" کرتا ہے
کہ اس کی بنیاد کتنی پکی ہے Strong ہے اب اس بنیاد کو مضبوط بنانے میں استاد کا اہم کردار ہے استاد
کی اس میں کلیدی حیثیت ہے کیونکہ جب نئی چیز بنائی جاتی ہے تو وہ بنانے والے کے
اوپر "dependent" کرتا ہے
کہ وہ اس میں کیا "Material"
لگاتا ہے وہ جتنا اچھا ہوگا تو اتنی دیر تک قائم رہے گی ۔ ایک چھوٹے سے بچے کو جب
مدرسے میںداخل کیا جاتا ہے تو وہ بچہ خالی برتن کی طرح ہوتا ہے ، استاد اس پر
محنت کرے گا کہ اس برتن میں کیا ڈالنا ہے جو '' theory '' نظریہ استاد اس بچے کو عطا کرتا ہے تو وہ بچہ تقریباً اپنی
بقیہ زندگی اس کے مطابق گزارے گا " A great teacher makes a great Student" ایک عظیم
استاد عظیم طالب علم بناتا ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا
کے سب سے بڑے اور ترقی یافتہ قومیں ان کے استادوں نے بنائے ہیں استادوں نے ان پر
اپنا خون پسینہ بہایا ، ان پر محنت کرکے ان کو اپنے تجربات کے ذریعے ان کی رہنمائی
کی ، کیونکہ دنیا میں واحد شخص استاد ہی ہے جو یہ چاہتا ہے کہ میرا طالب علم مجھ سے
زیادہ " successful man" کامیاب
انسان بن جائے۔ استاد کی اہمیت اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتی یہ کہ محبوب کائنات وجہ
تخلیق کائنات حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: انَّما بُعِثْتُ مُعَلِّمًا ،یعنی مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ۔(
ابن ماجہ)
بہرحال " anyway " استاد
کی بہت اہمیت و فضیلت ہے ، کیونکہ ایک اچھے معاشرے کی تشکیل میں استاد کا خون
پسینہ شامل ہوتا ہے ، جاہل سے عالم استاد بناتا ہے " Art of living" زندگی جینے کا فن استاد ہی سکھاتا ہے ۔ایک استاد زمین سے
آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے۔اس اعتبار سے یہاں استاد کے چند حقوق ذکر کئے
جاتے ہیں۔
(1) استاد کا ادب Respect of teacher:ایک طالب علم کیلئے استاد
کا ادب بہت ضروری ہے اور ادب سب سے پہلے آتا ہے کیونکہ " Respect is the first
step of success
" کامیابی کی پہلی سیڑھی ہی ادب ہے ، حسن التنبہ میں ہے کہ جو شاگرد یا مرید
، استاد یا پیر کا زیادہ با ادب اور خدمت کرنے والا ہو وہ اس کے علم کا زیادہ وارث
ہوگا۔(حسن التنبہ،ج 1 ص 384)
(2) استاد کی بات کاٹ کر اپنی بات شروع نہ کریں
: Let teacher be talked : طالب علم کے
اوپر استاد کا ایک حق یہ بھی ہے کہ وہ استاد کے درمیان کلام میں اپنی بات شروع نہ
کرے ، بعض دفعہ ایسے ہوتا ہے کہ استاد صاحب بات کررہے ہوتے ہیں تو طالب علم بیچ
میں اپنی بات شروع کرتا ہے تو اس سے ہوسکتا ہے استاد کو رنج ہو ، تو ایک طالب علم
کو ہر اس فعل سے بچنا چاہیئے جو استاد کو ناگوار گزرے ۔
(3) استاد کی غیر موجودگی میں اس کی جگہ پر نہ
بیٹھے " Don't sit on his
sate " طالب علم کے اوپر استاد کا حق ہے کہ وہ
استاد کی غیر موجودگی میں ان کی نشست گاہ کا بھی احترام کرے اور ان کی جگہ پہ نہ
بیٹھیں کیونکہ ایک طالب اس وقت تک علم کی مٹھاس نہیں پاسکتا جب تک وہ استاد کی
جلوت و خلوت میں ان کی دل و جان سے تعظیم نہ کرے ۔
(4) اپنے مال میں کسی چیز سے اس کے ساتھ بخل نہ
کرے " Don't stingy with him of
anything
" استادوں کے ساتھ بخل نہ کرے چاہے وہ کسی بھی چیز کا ہو کیونکہ استاد ہی
طالب علم کے روحانی تقاضوں کو پورا کرنے والا ہے تو ایک طالب علم کو زیب نہیں
دیتا کہ اپنے محسن کے ساتھ اس طرح کا بخل کرے۔
(5) استاد کو شکایت کا موقع نہ دے:" Don't give to the
teacher a chance to complain" ایک طالب علم کے اوپر لازم ہے کہ وہ استاد کے سامنے ایسی
کوئی حرکت نہ کرے جس سے استاد کو شکایت ہو یا وہ حرکت استاد کو پسند نہ ہو ، اسی
طرح استاد کے سامنے اپنی آواز بھی اونچی نہ کریں کہ ہو سکتا ہے کہ اس سے وہ علم کے
نور سے محروم ہوجائے ۔ تو ایک طالب علم کو چاہیئے کہ وہ استادوں کی تعظیم کرے
کیونکہ انسانی زندگی کی ضمانت فراہم کرنے والا شخص ہے
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ
وہ ہمیں کما حقہ استادوں کا ادب و تعظیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر اس کام
سے بچائے جس سے استاد کی توہین ہو ۔
کاشف امروی (درجۂ رابعہ جامعۃُ المدینہ دین
گاہ(ڈنگہ)،تحصیل کھاریاں،ضلع گجرات،پاکستان)
واضح رہے کہ شاگرد کے لیے
اپنے استاد کا ادب واحترام، ان کی عظمت کو اپنے دل میں بٹھانا اور ان کے حقوق بجا
لانا لازمی ہے۔ استاد کی بے ادبی، ان کی تحقیر اور ان کے حقوق کو بجا لائے بغیر نہ
تو ان سے صحیح معنوں میں حصولِ علم ممکن ہو گا اور نہ ہی ان سے حاصل کردہ علم میں
برکت ہو گی۔حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:"إنَمابُعِثتُ مُعَلِّماً" مجھے سکھانے والا (معلم) بنا
کر بھیجا ہے۔ ایک استاد کی اہمیت کو اس بات سے باخوبی جانا جا سکتا ہے کہ ایک
استاد طالب علم کی تربیت بھی کر دیتا ہے اور زندگی میں بہترین انسان بنا دیتا
ہے۔اس کو جینے کے گُر سکھا دیتا ہے۔ اگر استاد مہربان بھی ہوتو کوئی ہُنر بھی سکھا
دیتا ہے۔ استاد معلم و مربی ہونے کے لحاظ سے باپ کے درجے میں ہوتا ہے۔
پیارے نبی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اِنَّمَا
أَنَا لَكُمْ بِمَنْزِلَةِ الْوَالِدِ أُعَلِّمُكُمْ ترجمہ: میں تمہارے لیے والد کے مرتبے
میں ہو ں تمہیں تعلیم دیتا ہوں۔(سنن ابی داؤد،حدیث:8) اُستاد کے حقوق بجا لانےکے
سلسلے میں جن باتوں کا خاص طور پر اہتمام و التزام کرنا چاہیے ان میں سے پانچ(5)
ضروری باتیں درج ذیل ہیں:
(1)استاد کا ادب و حترام: استاد کا پہلا حق یہ ہے کہ اس کے
شاگرد اس کا ادب و احترام کریں، اس کے ساتھ عزت،عاجزی و انکساری کے ساتھ پیش آئیں۔
علم استاد کے ادب سے ہی آتا ہے۔ ایک مقولہ ہے: باادب بانصیب اور بے ادب بے نصیب۔
جو ادب کرتا ہے وہ پا لیتا ہے جو بے ادبی کرتا ہے وہ پایا ہوا بھی کھو دیتا ہے۔
(2)اس کا کہنا مانیں:استاد کی خواہش ہوتی ہے کہ میں جو
پڑھاؤں طالب علم اس کو یاد کرکے مجھے سنائیں لہذا اس کا کہنا مان کر جو وہ تعلیم
دے اس کو یاد کرے اور اس پر عمل کرے۔ (3) استاد
کو الزام آنے سے بچائے:طالب علم کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اسباق میں غیر حاضری سے بچے، ناغہ کرنے
سے علم و استعداد میں کمی آئے گی۔ اور نتیجۃً لوگ اس کے استاد کوموردِالزام
ٹھرائیں گے۔ چنانچہ اپنے استاد کو الزام آنے سے بچانا بھی استاد کے حقوق میں سے
ہے۔
(4)اگر سبق سمجھ میں نہ آئے تو پوچھ لے: طالب علم کی یہ بھی ذمہ
داری ہے کہ اگر استاد سے سبق سمجھ نہ آئے تو اس سے سوال کر کے پوچھ لے۔ رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:فَإِنَّمَا شِفَاءُ العِى السُّؤَالُترجمہ:نہ جاننے کا علاج معلوم کر لینا ہے۔(سنن ابی
داود، حدیث:336)
(5)فضول سوالات نہ کرے: طالب علم کو چاہئے کہ وہ
استاد سے فضول اور وقت ضائع کرنے والے سوالات سے پرہیز کرے۔
اللہ پاک کی بارگاہ میں
دعا ہے کہ وہ ہم کو اساتذہ کرام کا ادب و احترام کرنے ان کے حقوق کی پاسداری کرنے
کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
اللہ تعالی نے انسان کو
پیدا کیا اور مختلف مراتب عطا فرمائے ان میں سے بعض خوش نصیب لوگ وہ بھی ہیں جن کو
اللہ نے استاذ بننے کا شرف عطا فرمایا دین اسلام میں استاذ کو اللہ پاک نے بڑا
مقام و مرتبہ عطا فرمایا یہاں تک کہ استاذ کو سگے باپ پر فضیلت حاصل ہوئی کیونکہ
والد کے ذریعے بدن کی زندگی ہے جب کہ استاذ روح کی زندگی کا سبب ہے اور شریعت میں
استاذ کے حقوق بیان کیے گئے جن کو بجا لانا طلبا پر ضروری ہے آئیے ان میں سے پانچ
حقوق پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔
(1) استاذ کی ناشکری نہ کریں کہ یہ ایک خوفناک بلا اور
تباہ کر دینے والی بیماری ہے اور علم کی برکت کو ختم کر دینے والی ہے ۔حضور علیہ
الصلوة والسّلام نے ارشاد فرمایا " وہ آدمی اللہ تعالی کا شکر ادا نہیں کرتا
جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا ۔( سنن ابی داؤد ، کتاب الادب ، باب فی شکر
المعروف ، الحدیث 4811 ، جلد 4 ، صفحہ 335 )اور اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: وَ هَلْ نُجٰزِیْۤ اِلَّا الْكَفُوْرَ ترجمہ کنز العرفان : اور
ہم کسے سزا دیتے ہیں اُسی کو جو نا شکرا ہے۔( پ 22 ، سبا : 17 )
(2) استاذ کی ابتدائی تعلیم کو حقیر نہ جانیں کہ یہ معاذ
اللہ قراٰن مجید اور فقہ کی چھوٹی کتابوں کی توہین کی طرف لے جاتا ہے گویا کہ جس
نے انہیں پڑھا اس نے کچھ نہیں پڑھا۔
(3) استاذ کا کبھی بھی مقابلہ نہ کریں کہ یہ ناشکری سے
بھی زیادہ ناپسندیدہ عمل ہے کیونکہ ناشکری تو یہ ہے کہ شکر نہ کیا جائے اور مقابلہ
کرنے میں شکر کی بجائے اس کی مخالفت بھی ہے اور یہ گویا کہ ایسے ہی ہے جیسے باپ کی
نافرمانی کرنا کیونکہ استاذ کو باپ کے برابر شمار کیا گیا ہے ۔اسی لیے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا " میں تمہارے لیے باپ کی حیثیت رکھتا ہوں میں تمہیں علم سکھاتا ہوں
" ( سنن ابی داؤد ، کتاب الطہارة ، الحدیث 8 ، جلد 1 ، صفحہ 37 )بلکہ علما
فرماتے ہیں کہ استاذ کے حق کو والدین کے حق پر مقدم رکھنا چاہیئے کیونکہ والدین کے
ذریعے بدن کی زندگی ہے اور استاذ روح کی زندگی کا سبب ہے ۔
(4) استاذ کے سامنے غلام
کی طرح رہے۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ " جس نے
کسی کو قراٰن مجید کی ایک آیت پڑھائی وہ اس کا آقا ہے ۔( المعجم الکبیر ، حدیث
7528 ، 8/ 112 )مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ مولا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ
" جس نے مجھے ایک حرف سکھایا پس تحقیق اس نے مجھے اپنا غلام بنا لیا چاہے تو
بیچ دے چاہے تو آزاد کر دے "
(5) اپنے آپ کو کبھی بھی استاذ سے افضل نہ سمجھے کہ یہ خلاف
مامور ہے ۔نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا " علم
سیکھو اور علم کے لیے ادب واحترام سیکھو ، جس استاد نے تجھے علم سکھایا اس کے
سامنے عاجزی اور انکساری اختیار کرو "( المعجم الاوسط ،من اسمہ محمد ، حدیث
6184 ، 4/ 342 )
یاد رکھیں عقل مند اور
سعادت مند شاگرد اگر استاد سے بڑھ بھی جائیں تو اسے استاد کا فیض اور اسکی برکت
سمجھتے ہیں اور پہلے سے بھی زیادہ استاد کے پاؤں کی مٹی چہرے پہ ملتے ہیں ۔(ملخص
از الحقوق لطرح العقوق للامام احمد رضا)
اللہ پاک ہمیں اساتذہ
کرام کے حقوق بجا لانے اور انکا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین
بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد اسماعیل عطّاری (درجۂ خامسہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ بخاری کراچی پاکستان)
دینِ اسلام نے جس طرح
میاں بیوی، والدین، اولاد وغیرہ کے حقوق بیان فرمائے ہیں اسی طرح استاذ کے بھی حقوق
بیان فرمائے ہیں۔ جس طرح والدین اپنے بچوں کے ظاہری بدن کی تربیت و پرورش کرتے ہیں
اسی طرح ایک دینی استاذ طالب علم کی روحانی اصلاح و پرورش کرتا ہے۔ ہمیں بھی شریعت
کے مطابق استاذ کے حقوق کا خیال کرتے ہوئے اس کی تعظیم کرنی چاہئے کیونکہ استاذ کی
تعظیم کرنا بھی علم ہی کی تعظیم ہے۔ چنانچہ
پہلا حق: اپنے آپ کو استاذ سے افضل قرار نہ دینا:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: علم سیکھو اور علم کے لیے ادب و احترام
سیکھو جس استاذ نے تجھے علم سکھایا ہے اس کے سامنے عاجزی اور انکساری اختیار کرو۔ اعلیٰ
حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عقلمند اور سعادت مند اگر
استاذ سے بڑھ بھی جائے تو اسے استاذ کا فیض اور اس کی برکت سمجھتے ہیں اور پہلے سے
بھی زیادہ استاذ کے پاؤں کی مٹی پر سر ملتے ہیں۔(فتاوی رضویہ، ج24 ،ص424)
دوسرا حق: استاذ کا ادب و احترام کرنا :طالب علم کو چاہئے کہ
کبھی استاذ کے آگے نہ چلے، نہ اس کی نشست گاہ پر بیٹھے، نہ تو بغیر اجازت کلام میں
ابتدا کرے اور نہ ہی بغیر اجازت استاذ کے سامنے زیادہ کلام کرے، جب وہ پریشان ہو
تو کوئی سوال نہ کرے بلکہ وقت کا لحاظ رکھے اور نہ ہی استاذ کے دروازے کو کھٹکھٹائے
بلکہ اسے چاہئے کہ وہ صبر سے کام لے اور استاذ کے باہر آنے کا انتظار کرے الغرض
طالب علم کو چاہیے کہ ہر وقت استاذ کی رضا کو پیش نظر رکھے اور اس کی ناراضی سے
بچے اور اللہ کی نافرمانی والے کاموں کے علاوہ ہر معاملے میں استاذ کے حکم کی
تعمیل کرے ۔(راہ علم، ص30)
تیسرا حق: استاذ کی ناشکری نہ کرنا: استاذ کی ناشکری جو کہ
خوفناک بلا اور تباہ کن بیماری ہے اور علم کی برکتوں کو ختم کرنے والی ہے۔(فتاوی
رضویہ، ج24 ،ص214)
چوتھا حق: استاذ کے حقوق کا انکار نہ کرنا:اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: استاذ کے حقوق
کا انکار جو کہ مسلمانوں بلکہ تمام عقل والوں کے اتفاق کے خلاف ہے، یہ بات ناشکری
سے جدا ہے کیونکہ ناشکری تو یہ ہے کہ احسان کے بدلے کوئی نیکی نہ کی جائے اور
انکار یہ ہے کہ سِرے سے احسان ہی کو نہ مانا جائے اور یہ کہنا کہ استاذ نے تو مجھے
صرف ابتدا میں پڑھایا تھا اس شخص کے لئے کچھ مفید نہیں کیونکہ اس بات پر اتفاق ہے
اور حدیث شریف بھی ہے کہ جس نے تھوڑے احسان کا شکریہ ادا نہیں کیا اس نے زیادہ کا
بھی شکر نہیں کیا۔(فتاوی رضویہ، ج24 ،ص217/218)
پانچواں حق: استاذ کے حق کو والدین کے حق پر
مقدم رکھنا: علما فرماتے ہیں کہ استاذ
کے حق کو والدین کے حقوق پر مقدم رکھنا چاہیے کیونکہ والدین کے ذریعے بدن کی زندگی
ہے اور استاذ روح کی زندگی کا سبب ہے۔( فتاوی رضویہ، ج24 ،ص421)
اللہ
پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ان
حقوق کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین
مشہور قول ہے کہ ’’جس نے
معالج کی عزت نہ کی، وہ شفا سے محروم رہا اور جس نے استاد کی عزت نہ کی، وہ علم سے
محروم رہ گیا۔‘‘ بلاشبہ، اسلام میں معلّم (استاد) کی بڑی قدرومنزلت ہے۔ امام
الانبیا، خاتم النبیین، سیّد المرسلین، رحمۃ للعالمین، حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم جب رسالت کے عظیم منصب پر فائز ہوئے، تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کو معلّم کا منصب عطا فرمایا گیا۔ چنانچہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ’’اِنما بعثت معلما‘‘ (ترجمہ) میں بہ طور معلّم (استاد)
مبعوث کیا گیا ہوں۔ (ابنِ ماجہ) سیّدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا ’’اللہ پاک نے مجھے مشکلات میں ڈالنے والا اور سختی کرنے والا
بناکر نہیں، بلکہ معلّم اور آسانی کرنے والا بناکر بھیجا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم) حضرت
ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا ’’میں تمہارے لیے باپ کی حیثیت رکھتا
ہوں کہ تمہیں علم و حکمت سِکھاتا ہوں۔‘‘ استاد کا درجہ باپ کے برابر ہے۔حضور نبی
کریم کا ارشاد ہے کہ ’’تیرے تین باپ ہیں، ایک وہ تیرے دنیا میں آنے کا باعث بنا،
یعنی والد، دوسرا وہ، جس نے تجھے اپنی بیٹی دی، یعنی سسر اور تیسرا وہ، جس نے تجھے
علم و آگہی سے نوازا، یعنی استاد۔‘‘ امیرالمومنین سیّدنا عمر فاروق سے پوچھا گیا
’’آپ اتنی عظیم الشان اسلامی سلطنت کے خلیفہ ہیں، کیا اس کے باوجود آپ کے دل میں
کوئی حسرت باقی ہے؟‘‘ فرمایا! ’’کاش! میں ایک معلّم ہوتا۔‘‘ امیرالمومنین سیّدنا
علی مرتضیٰ کا قول ہے کہ’’ جس نے مجھے ایک حرف بھی بتایا، میں اسے استاد کا درجہ
دیتا ہوں۔‘‘
استاد کا مرتبہ و مقام: علم کا حقیقی سرچشمہ اللہ رب العزت ہے
کہ جس نے حضرت آدم علیہ السّلام کو
علم کی بِنا پر فرشتوں پر برتری دی اور پھر انبیا کے ذریعے انسانوں کو عِلم کے
زیور سے آراستہ کیا۔ نبی آخرالزماں جب منصبِ رسالت پر فائز ہوئے، تو اللہ جل
شانہ نے اپنے محبوب پر حضرت جبرائیل کے ذریعے جو پہلی وحی نازل فرمائی، وہ پڑھنے
ہی سے متعلق تھی۔ فرمایا۔ (ترجمہ) ’’پڑھو اپنے رب کے نام سے، جس نے (عالم کو) پیدا
کیا، جس نے انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا۔ پڑھو اور تمہارا رب بڑا کریم ہے، جس
نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں، جس کا اسے علم نہ
تھا۔ (سورۃ العلق)اسلام سے قبل عربوں میں لکھنا پڑھنا معیوب سمجھا جاتا تھا ۔ بعثتِ
نبوت کے وقت پورے عرب میں صرف17افراد لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ حضور نے عِلم کی
اہمیت کے پیشِ نظر اس کی ترویج و اشاعت پر خصوصی توجّہ فرمائی۔ مدینہ ہجرت فرماتے
ہی مسجد نبوی کی تعمیر کے ساتھ مسجد کے صحن میں درس و تعلیم کے لیے ایک چبوترے کی
تعمیر فرمائی، جو ’’صفّہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ دنیائے اسلام کی پہلی درس گاہ
قرار پائی، جہاں صحابہ کرام اجمعین نے حضور سے قراٰن و حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل
کرکے دنیا کی تاریکی کو اسلامی تعلیمات کی روشنی سے منور فرمایا۔ اصحابِ صفّہ، دن
رات خدمتِ دین اور حصولِ علم میں مصروف رہتے۔اللہ کے نبی بنفسِ نفیس ان اصحاب کو
درس و تعلیم دیتے اور ان کی تربیت فرماتے۔ آپ نے فرمایا ’’علم حاصل کرنا ہر
مسلمان پر فرض ہے۔‘‘ ایک اور حدیث میں فرمایا کہ ’’میرے بعد سب سے بڑا سخی وہ ہے،
جس نے علم حاصل کیا اور پھر اسے پھیلایا۔‘‘ (بیہقی)
استاد کے چند حقوق آپ
بھی پڑھئے:
پہلا حق: استاد کا ادب و
احترام:استاد کا پہلا حق ہے کہ اس کے شاگرد اس کا ادب و احترام کریں، اس کے ساتھ
عزت، عاجزی و انکساری کے ساتھ پیش آئیں۔ اس کا کہنا مانیں اور جو تعلیم وہ دے، اس
پر عمل پیرا ہوں۔ استاد روحانی باپ ہوتا ہے، اس کا حق اپنے شاگردوں پر اتنا ہی ہے،
جتنا ایک باپ کا اولاد پر۔
دوسرا
حق: یہ بھی حق ہے کہ شاگرد
کبھی بھی کسی حالت میں بھی استاد کو برا بھلا نہ کہیں اور نہ ہی استاد کی مخالفت
کریں نہ غیبت کریں نہ ہی استاد کی پیٹھ پیچھے استاد کی نقلیں اتاریں اور نہ ہی
بہتان باندھیں۔
تیسرا
حق: اور یہ بھی حق ہے کہ شاگرد
ہمیشہ ہر نماز کے بعد اپنے اساتذہ کے لیے دعا کریں اور استاد سے منسوب ہر چیز کا
ادب کرے خدا نخواستہ استاد بیمار ہو جائے تو اس کے عیادت کے لیے جائے استاد کی
اولاد کا ادب کرے۔
چوتھا
حق:یہ بھی حق ہے کہ شاگرد
استاد کی اجازت کے بغیر کلاس سے نہ اٹھے، استاد سے بحث،ضد،غصے،یا ناراضگی سے پرہیز
کیا جائے، کسی مسئلے پر استاد سے اختلاف رائے بھی ادب و احترام کے دائرے میں کیا
جائے۔
پانچواں
حق:شاگرد کو یہ چاہیے کہ
اپنی حیات میں کسی بھی مقام پر پہنچ جائے اس طرح ہی ادب کرے جس طرح پہلے ادب کرتا
تھا۔فرمان امام ابوحنیفہ رحمۃُ اللہ علیہ: میں نے کبھی اپنے ا استاد کے گھر کی طرف
پاؤں دراز نہیں کیے حالانکہ ان کے اور میرے گھر میں سات گلیوں کا فاصلہ تھا۔فرمان
امام شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ: ادب و
احترام کی وجہ سے میں استاد کے سامنے کتاب کا ورق بھی آہستہ پلٹتا تھا ۔
ابو المسعود عارف علی مدنی (مدرس جامعۃُ المدینہ فیضانِ اہل بیت ،کراچی
پاکستان)
پیارے اسلامی بھائیو!جس
شخص نے آپ کو ایک لفظ بھی سکھایا، وہ آپ کا معلم (استاذ) ہے ۔لیکن بالخصوص استاد
یا معلم کا اطلاق ان لوگوں پر کیا جاتا ہے جو متعلم یا طالب علم کی مدد، معاونت و
رہنمائی کرتا ہے ابتدائی اور ثانوی درجے کے مدارس، اسکولوں، کالجوں یا پھر اعلیٰ
ثانوی اور سند کے درجے تک کے جامعات وغیرہ میں تدریس کے فرائض سر انجام دیتا ہے۔ المختصر
یہ کہ تمام طرح کے تعلیمی اداروں میں پڑھانے والوں پر اس لفظ اطلاق ہوتا ہے۔
استاذ وہ نور ہے جس کے
ذریعے طالب علم کے عقل سے ظلمت کے پردے اٹھ جاتے ہیں،
استاذ وہ چراغ ہے جس کے ذریعے طالب علم روشنی
حاصل کرتے ہیں۔ استاذ وہ سیڑھی ہے جس کے ذریعے طالب علم کامیابی کے اونچائیوں پر
پہنچ جاتا ہے۔ استاذ کا مقام بہت بلند و برتر ہے۔
حضرت علی المرتضی رضی
اللہُ عنہ کے اس کے قول سے لگایا جاسکتا ہے۔ کہ آپ رضی اللہُ عنہ نے ارشاد فرمایا
: انا عبد من علمنى حرفًا وَاحِدَ
وإِنْ شَاءَ بَاع وَإِنْ شاء استرق یعنی میں اس شخص کا غلام ہوں جو مجھے ایک حرف بھی سکھا دے ۔
اگر وہ چاہے تو مجھے بیچ دے اور اگر چاہے تو مجھے آزاد کر دے ۔ (تعليم المتعلم،ص
78)
جس طرح استاذ کا مقام بلند
تر بالکل اسی طرح استاذ کے حقوق بھی بہت اہم ہے جن کو ادا کرنا ہم تمام پر لازم ہے۔
استاذ کے5 حروف کی نسبت سے5 حقوق:(1) ادب:استاذ کے حقوق میں سب سے
پہلا اور نہایت اہمیت کا حامل حق ادب و احترامِ : عربى مقولہ ہے: الاَدَبُ شَجَرٌ وَالعِلْمُ ثَمَرٌ فَکَیْفَ
تَجِدُوْنَ الثَّمَرَ بِدُوْنِ الشَّجَرِ ترجمہ : ادب درخت ہے اور علم پھل ہے، پھر تم بغیر
درخت کے پھل کیسے حاصل کرسکتے ہو؟ استاذ کا ادب ہی طالب علم کو کامیابی و کامرانی
کی طرف لے جاتا ہے اور استاذ کی بے ادبی سے ذہین و فطین طالب علم بھی نا مرادی کے
دہانے پر آجاتا ہے۔
خود سے چل کر یہ طرز سخن نہیں آیا ہے
پاؤں استاذ کے دابیں ہیں تو فن آیا ہے
(2) نا شکری: استاذ کے حقوق میں سے ایک حق ان کا
شکر ادا کرنا بھی ہے طالب علم کو ہمیشہ اپنے استاذ کا شکر گزار رہنا چاہیے کیونکہ
آپ کے اچھے اور کشادہ مستقبل کے پیچھے بڑا کردار استاذ محترم کا ہی ہوتا ہے استاذ
ہی وہ کاریگر ہے جو کوئلے کو چمکتے ہوئے ہیرے میں تبدیل کر دیتا ہے نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مَنْ لَا يَشْكُرُ النَّاسَ لَا يَشْكُرُ اللَّهَ ترجمہ: جو لوگوں کا شکر یہ ادا نہ کرے
وہ اللہ کا شکر ادا نہیں کرے گا۔(جامع ترمذی: حدیث:1954، سنن ابی داؤد،حدیث:4811)
(3) فوقیت:استاذ کو طالب علم پر بحیثیت استاذ
ہمیشہ فوقیت حاصل ہوتی (جبکہ غیر شرعی معاملات میں نہ پڑ جائے) لیکن ہائے افسوس!
کہ دورِ حاضر میں اساتذہ کی حق تلفی یوں ہوتے ہوے نظر آتی ہے کہ اگر کوئی طالب علم،
علم کے حصول میں استاذ سے آگے بڑھ جائے تو وہ استاذ کو فوقیت دینا بھی کم کر دیتا
ہے مثال کے طور جس طالب علم نے ماسٹر کر لیا تو وہ گریجویشن پڑھانے والے اپنے
استاذ کو اپنے سے کم تر سمجھنے لگتا ہے اسی طرح دیگر شعبہ جات کو بھی قیاس کر لیں
حالانکہ گزشتہ زمانوں میں اس طرح کی مثالیں ہیں کہ طلبا اپنی ہر کامیابی پر اپنے
اساتذہ کو یاد اور انہیں فوقیت دیا کرتے تھے۔
(4) حفظ
سبق:اساتذہ کے حقوق میں سے
ایک حق یہ بھی ہے کہ طلبائے کرام اپنے اسباق اور ہر اس عمل کو پورا کریں جس کا
استاذ صاحب نے انہیں حکم فرمایا ہے۔کیونکہ اسباق یاد نہ کرنا (home work) مکمل نہ کرنا
جہاں طلبائے کرام کے لیے نہایت نقصان دہ فعل ہے وہیں دوسری طرف وہ اساتذہ کی دل
آزاری کا بھی سبب ہے۔
(5) استاذ اور معاشی فکر: اساتذہ کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی
ہے کہ وہ معاشی فکر سے آزاد ہو کر علم کے فروغ میں مصروفِ عمل رہے۔ یہ ہماری
بدقسمتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں استاد معاشی طور پر نہایت پَس ماندگی کی زندگی
گزارنے پر مجبور ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں تعلیم کا شعبہ دیگر شعبوں کے
مقابلے میں کم تر سمجھا جاتا ہے، اسی وجہ سے شعبہ تدریس کا انتخاب اہل، ذہین اور
قابل نوجوانوں کی آخری ترجیح ہوتی ہے۔ حالانکہ قوموں کی ترقی و عروج کے حوالے سے
علم کا حصول بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ علم سے آگاہی اور اس کی ترویج ہی انسانی
تہذیب و ترقی کا ذریعہ بن کر عظمتوں اور رفعتوں سے ہم کنار کرتی ہے ہمیں اساتذہ
کرام کو معاشی فکر سے آزاد کرنا چاہیے تاکہ وہ صحیح معنوں علم کی ترویج و اشاعت کے
لیے کوشاں رہ سکیں۔
یہاں اسی پر اکتفا کیا
جاتا ہے جبکہ اس کے علاوہ بھی اساتذہ کے حقوق علمائے کرام نے بیان فرمائے ہیں اللہ
پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ بوسیلہ پیارے اور آخری نبی معلم کائنات صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیں اساتذہ کے حقوق کی معرفت اور انہیں ادا کرنے کی توفیق عطا
فرمائے آمین
یہ کامیابیاں، عزت یہ نام، تم سے ہے
دنیا میں ملا جو بھی مقام، تم سے ہے
جہاں جہاں ہوں برا سبب میں ہوں
جہاں جہاں ہے میرا نام تم سے ہے
فیصل الیاس حسین(درجۂ سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ نواب شاہ ،سندھ
،پاکستان)
استاد ایک عظیم ہستی ہے۔ یہ
وہ ذات ہے جو اپنی طویل زندگی کے تجرِبات و مشاہدات اپنے شاگرد کو قلیل عرصے میں
عطا کرتا ہے۔انتھک محنت اور جدوجہد کے بعد اپنے شاگرد کو جوہرِ نایاب بناتا ہے۔ معاشرے
میں رہنے کا سلیقہ، لوگوں سے میل جول رکھنے کا طریقہ سکھاتا ہے۔یہ و دنیا و آخرت
میں کامیابی و کامرانی کے گُر بتاتا ہے۔ ملک و ملّت کا تعلیم یافتہ،باعزت و باوقار
شہری بناتا ہے۔الغرض یہ راہبر شاگرد کی اخلاقی،سماجی،معاشرتی،معاشی،ہر لحاظ سے
زندگی سنوارتا ہے۔یہ باکمال شخص باپ سے بڑھ کر مہربان و شفیق ہوتا ہے۔یہ ہی وجہ ہے
کہ شاگرد پر استاد کے بے شمار حقوق ہیں۔
”استاد“ کے پانچ حروف کی نسبت سے پانچ حقوق
ملاحظہ کیجیے:
(1) روحانی باپ کا درجہ دے :شاگرد پر لازم ہے کہ
استاد کی تعظیم والد کی تعظیم سے بڑھ کر کرے۔یہ تعظیم و تکریم دکھاوے کے طور پر(دل
میں عزت نہ ہوتے ہوئے استاد کے سامنے نظر جھکا لینا،ہاتھ باندھ لینا،چپل ان سے لے کر
خود تھام لینا وغیرہ)نہ کرے۔دل سے عزت کرے۔اور اس دلی تعظیم و توقیر کی جھلک شاگر
کے افعال و کردار سے چھلکنی بھی چاہئے۔
(2) مَسندِ استاد کی تعظیم کرے: شاگرد استاد کی
مَسند(استاد کے بیٹھنے کی جگہ)پر بیٹھے نہ ٹیک لگائے نہ اس کی طرف پاؤں پھیلائے
اور نہ ہی مسند ہٹا کر اس جگہ آرام کرے۔بلکہ حق تو یہ ہے کہ جس کرسی وغیرہ پر
استاد صاحب ایک دفعہ تشریف فرما ہوجائیں شاگرد کوشش کرے وہاں نہ بیٹھے۔
(3) استاد کے سامنے اپنی آواز پست رکھے: شاگرد استاد کے سامنے
اپنی آواز مدہم و دھیمی رکھے۔ استاد صاحب اگر ڈانٹ دیں تو خاموش رہ کر صبر،صبر اور
صبر کرے۔ اپنے اندر برداشت و تحمُّل مزاجی پیدا کرے اور یہ بات ذہن نشین رکھے کہ
اس کے نتیجے میں وہ دنیا دار لوگوں کی ناپسندیدہ باتیں سننے سے محفوظ رہے گا۔
(4) استاد اور انکے اہلِ خانہ کے ساتھ حسنِ
سُلوک کرے: شاگرد استادِ گِرامی اور
انکے عزیزواقربا کے ساتھ صِلہ رحمی کرے۔ ان سے نرمی برتے۔ انکے اہلِ خانہ کو اپنے
اہلِ وعیال کی طرح سمجھے۔ان کی معاونت و نُصرت کے لیے ہَمہ وقت تَن مَن دَھن سے
تیار رہے۔
(5) دروازے پر دستک نہ دے: شاگرد استادِ محترم کے
باہر آنے کا انتظار کرے۔ ان کے گھر وغیرہ کا دروازہ نہ کھٹکھٹائے۔
یاد رکھیں! مستقبل کی
کامیابی و ناکامی کا دارومدار زمانہ طلبِ علم کی حرکات و سکنات پر ہوتا ہے۔لہٰذا
استاد کی حق تلفی کرنے والا اگر عالم بن بھی گیا تب بھی وہ علمِ نافع کے حصول سے
محروم رہے گا۔کماتَدین تُدان(جیسی کرنی ویسی بھرنی)کیا
کوئی ذی شعور طالبِ علم ایسا چاہے گا؟ !!
رب تعالی ہمیں حقوقِ
استاد کی پاسداری کرنے اور ان کے فرمودات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
بجاہِ خاتمِ النبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
استاد ہی دنیا کا واحد
شخص ہے جو ایک حساس مخلوق کی تربیت کا ذمہ اٹھانا ہے ورنہ دنیا میں ہر پیشہ ور کو
بے جان چیزوں سے پالا پڑتا ہے مثلا ایک انجنیئر اپنے اوزار کو بروئے کار لاتا ہے
ایک ڈاکٹر دواؤں سے علاج کرتا ہے، ایک پائلٹ اپنے حساب سے ہوائی جہاز اڑاتا ہے اس
میں کوئی مدافعت کی صلاحیت نہیں ہو تی ہے مگر ایک استاد کا پالا جو ہر انسان سے
ہوتا ہے جس میں مدافعت کی صلاحیت بھی ہوتی ہے اور اپنا ری ایکشن بھی ہوتا ہے اس
طرح سے ایک استاد دنیا کے ہر پیشہ ور سے مختلف اور ممتاز ہوتا ہے جو کہ دیگر کے
مقابلے میں نہایت ہی مشکل ہے کیوں کہ بے جان چیزوں کو اپنے حساب سے ڈھال لینا کوئی
مشکل نہیں لیکن ایک حساس چیز کو اپنی فکروں سے سانچے میں اتار کر اس کی تربیت
فرمانا نہایت مشکل ہے کیونکہ اس میں نہ صرف مدافعت بلکہ طبیعتوں کے اختلاف کے حساب
سے الگ الگ انداز کی مدافعت اور ری ایکشن موجود ہے ، جس کو ایک ماہر استاد اپنی
حکمتِ عملی تربیت سے آراستہ کرتا ہے۔ زیورِ تعلیم سے خوبصورت بناتا ہے اس کے ہر
اونچ نیچ کو برداشت کرتا ہے اس کی ترقی کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر اس پر محنت کر
کے ایک کامل انسان بناتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ شریعتِ اسلامیہ میں ایک استاد کے بہت
سارے حقوق رکھے ہیں ۔ جس میں سے چند قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
(1) عالم کا حق جاہل اور
استاد کا حق شاگرد پر یکساں ہے اور وہ یہ کہ اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے بات نہ
کرے اور اس کے بیٹھنے کی جگہ اس کی غیبت (عدم موجودگی) میں بھی نہ بیٹھے اور چلنے
میں اس سے آگے نہ بڑھے۔
(2) آدمی کو چاہئے کہ اپنے
استاد کے حقوق و آداب کا لحاظ رکھے اپنے مال میں کسی چیز کے ساتھ بخل نہ کرے یعنی
جو کچھ اسے درکار ہو بخوشی حاضر کرے اور اس کے قبول کر لینے میں اس کا احسان اور
اپنی سعادت جانے ۔
(3) یہاں تک کہ استاد کے حق
کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے حق سے مقدم دیکھے اور جس نے اسے اچھا علم
سکھایا اگرچہ ایک ہی حرف پڑھایا ہو اس کے لئے تواضع کرے اور لائق نہیں کہ کسی وقت
اس کی مدد سے باز رہے ۔
(4) اپنے استاد پر کسی کو
ترجیح نہ دے اگر ایسا کرے گا تو اس نے اسلام کی رسیوں سے ایک رسی کھول دی۔
(5) استاد کی تعظیم سے ہے کہ
وہ اندر ہو اور یہ حاضر ہو تو اس کے دروازہ پر ہاتھ نہ مارے بلکہ اس کے باہر آنے
کا انتظار کرے۔
عالمِ دین پر مسلمان کے
حق میں عموماً اور استاد علم دین اپنے شاگرد کے حق میں خصوصاً نائبِ حضور پر نور
سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے ہاں اگر کسی خلاف شرع بات کا حکم دے
ہرگز نہ کرے۔
محمد شہید حسین عطّاری(درجہ اولیٰ جامعۃُ المدینہ فیضانِ عطّار، نیپال گنج ،
نیپال)
ہر انسان کو چاہیے کہ وہ
اپنے استاد صاحب کے حقوق ادا کرے۔ کیونکہ وہ ہمارے ماں باپ سے بڑھ کر بڑے مرتبہ
والے ہوتے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھایا
ہو وہ میرا آقا ہے چاہے تو وہ مجھے فروخت کر دے یا آزاد کر دے یا غلام بنا لے۔
(راہِ علم ، ص 29 )
جب استاد کا اتنا عظیم
مرتبہ ہے تو ان کے حقوق بھی اتنا ہی عظیم ہوں جن کی ادائیگی کامیابی کی راہیں
ہموار ہوگی۔ اس لیے ذیل میں استاد کے چند حقوق تحریر کیے جا رہے ہیں ۔
(1) استاد سے پہلے کوئی کلام
شروع نہ کرے۔ بلکہ خاموشی سے بات سماعت کرے ۔ جب کوئی بات پوچھنی ہو تو وہ کلام
فرمالے تو بعدہ پو چھے اور بیچ میں بات نہ کاٹے بلکہ کسی کی بھی بات نہ کاٹے، اس
سے دل آزاری کا سبب بنتا ہے۔
(2) چلتے وقت اس سے آگے نہ
بڑھے ۔ یعنی جب راستہ وغیرہ یا کہی چلتے وقت ان سے آگے بڑھ کر نہ چلے بلکہ جب
دیکھے وہ آر ہے ہیں تو ادباً رک جائے اور اسے آگے بڑھنے دے۔
(3) اگر وہ ایک حرف پڑھائے ہو تو اس کے سامنے عاجزی کا
اظہار کرے یعنی آپ کو ایک ہی لفظ پڑھائے ہوں تب بھی اس کی تعظیم و توقیر کرے اور
اس کے سامنے پیش خدمت حاضر ہے۔
(4) جب کسی چیز کی حاجت ہو اور
مانگے تو فوراً خوشی خوشی دے دیں۔ اور اگر وہ قبول کرلے تو احسان جانے ۔
(5) اسے اپنی جانب ہے کوئی
تکلیف نہ دے۔ یعنی کوئی ایسا کام نہ کر ے کہ تکلیف پہنچے۔
پیارے اسلامی بھائیو!
واضح رہے کہ علم نور ہے اور یہ ایسا نور ہے جس کا فائدہ مرنے کے بعد بھی بندے کو
ملتا ہے۔ مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ جب آدمی مرتا ہے اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے
علاوہ تین چیزوں کے : کوئی صدقہ جاریہ چھوڑ گیا یا ایسا علم جس سے لوگوں کو نفع ہو
یا اولاد صالح کے جو مرنے والے کے لئے خیر کی دعا کرے ان تینوں چیزوں کا فائدہ
مرنے کے بعد بھی باقی رہتا ہے، اور ان چیزوں میں سے ایک اہم علم ہے، واضح رہے کہ
بندہ کو علم اسی وقت آتا ہے جب بندہ اپنے استاد کا ادب کرتا ہے، تو آئیے پیارے
اسلامی بھائیو! استاد کے کچھ حقوق سنتے ہیں:
(1) امام زندویستی نے فرمایا :عالم کا حق جاہل پر اور
استاد کا شاگرد پر یکساں ہے، وہ یہ ہے کہ اس سے پہلے بات نہ کریں، اس کے بیٹھنے کی
جگہ اس کی عدم موجودگی میں بھی نہ بیٹھے، چلنے میں اس سے آگے نہ بڑھے، استاد کی
تعظیم میں سے یہ بھی ہے کہ جب استاد روم میں ہو اور یہ حاضر ہو تو اس کے دروازے پر
ہاتھ نہ مارے بلکہ اس کے باہر آنے کا انتظار کرے۔
(2)آدمی کو چاہیے کہ اپنے استاد کے حقوق اور آداب کا لحاظ
رکھے، اپنے مال میں کسی چیز سے اس کے ساتھ بخل نہ کرے یعنی جو کچھ استاد کو درکار
ہو بخوشی خاطر (خوش دلی سے) حاضر کرے، اور اس کے قبول کر لینے میں اس کا احسان اور
اپنی سعادت جانے۔
(3)استاد کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے حق سے
مقدم رکھے، جس نے اسے اچھا علم سکھایا اگرچہ ایک ہی حرف پڑھایا ہو اس کے لیے تواضع
(عاجزی)کرے اور لائق نہیں کہ کسی وقت استاد کی مدد سے باز رہے اور اپنے استاد پر
کسی کو ترجیح نہ دے۔ اگر ایسا کرے گا تو اس نے اسلام کے رسیوں سے ایک رسی کھول دی
۔
(4)علما فرماتے ہے ہیں جس سے اس کے استاد کو کسی طرح کی ایذا
پہنچے وہ علم کی برکت سے محروم رہے گا۔ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
فرمان ہے: علم سیکھو اور علم کے لیے ادب و احترام سیکھو، جس استاد نے تجھے علم
سکھایا اس کے سامنے عاجزی اور انکساری اختیار کرو۔
عقلمند اور سعادت مند اگر
استاد سے بڑھ بھی جائیں تو اسے استاد کا فیض اور اس کی برکت سمجھتے ہیں، اور پہلے
سے بھی زیادہ استاد کے پاؤں کی مٹی چہرے پر ملتے ہیں ۔
(5)علما فرماتے ہیں استاد کا شاگرد پر یہ بھی حق ہے کہ استاد
کے بستر پر نہ بیٹھے اگر چہ استاد موجود نہ ہو۔
پیارے اسلامی بھائیو! یہ
وہ باتیں ہیں جس پر ہر طالب علم کو غور کرنا چاہیے کیونکہ بندے کو علم حاصل ہو
جاتا ہے لیکن نور علم حاصل نہیں ہوتا، نور علم کا حاصل ہونا یہ استاد کے ادب کی
برکت اور پیر و مرشد کی دعا سے حاصل ہوتا ہے ۔
اللہ پاک سے دعا ہے اللہ پاک ہمیں استاد کا ادب
نصیب فرمائے اور ہمیں ہمارے استاد کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔ اٰمین بجاہ النبی
الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم