استاد اپنے شاگرد کی زندگی میں بہت بڑا کردار ادا کرتا ہے اسے معاشرے کا قابل فرد بناتا ہے اس کے لئے دن رات کوششوں میں لگا رہتا ہے کہ کسی طرح اس کا مُستقبِل روشن ہو اور اس کے اصل مقصد میں کامیابی حاصل ہو۔

تفسیر کبیر میں ہے: استاد اپنے شاگرد کے حق میں ماں باپ سے بڑھ کر شفیق ہوتا ہے کیونکہ والدین اسے دنیا کی آگ اور مصائب سے بچاتے ہیں جبکہ اساتذہ اسے نارِ دوزخ اور مصائبِ اٰخرت سے بچاتے ہیں۔(تفسیر کبیر،1/401)

استاد روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے لہذا طالبُ العلم کو چاہیٔے کہ اسے اپنے حق میں حقیقی باپ سے بڑھ کر مخلص جانے اور اس کا ادب بجا لانے میں ہرگز کوتاہی سے کام نہ لے بلکہ جتنا ہو سکے اسے خوش رکھنے کی کوشش کرے کیونکہ جو شاگرد یا مُرید، استاد یا پِیر و مُرشد کا زیادہ باادب اور خِدمت کرنے والا ہو وہ اس کے عِلم کا زیادہ وارِث ہوگا۔(حسن التنبہ،1/384)

استاد کا ادب و احترام کرنے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب طالب علم بننے کے لئے ان کے حقوق کا ادا کرنا بھی بہت ہی زیادہ ضروری ہے یہاں لفظِ {مدینہ} کے پانچ (5) حروف کی نسبت سے استاد کے 5 حقوق پیشِ خدمت ہیں۔

(1) استاد سے پہلے گفتگو شروع نہ کرنا۔

(2)استاد کی جگہ پر اس کی غیر موجودگی میں بھی نہ بیٹھے۔

(3)چلتے وقت اس سے آگے نہ بڑھے۔

(4) استاد کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے حق سے زیادہ مقدم رکھے۔

(5) استاد کو اپنی جانب سے کسی قسم کی اذیّت نہ پہنچنے دے۔(فتاویٰ رضویہ،24/412 ملخصًا)

لہذا طالب علم کو چاہیٔے کہ استاد کے ان حقوق کو ادا کرے اور ان کا ادب و احترام کرنے کے ساتھ ان سے دعائیں کرواتا اور خود ان کے حق میں دعائے خیر کرتا رہے ۔مزید معلومات کے لیے کتاب (کامیاب طالب علم کون) کا مطالعہ کرنا نہایت مفید ثابت ہوگا ۔اِنْ شَاءَاللّٰہُ الْکَرِیْم۔

امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ نے لباب الاحیاء میں شاگرد کے 7 آداب بیان فرمائے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اپنے علم پر تکبُّر نہ کرے اور نہ اپنے استاد پر حکم چلائے۔(ملخص از لباب الاحیاء،ص35)۔ کسی شاعر نے کہا ہے:

مَا وَصَلَ مِنْ وَصْلٍ اِلاّ بِالْحَرْمَةِ وَمَا سَقَطَ مِنْ سَقْطٍ اِلاّ بِتَرْكَ الْحُرْمَةِ

یعنی جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کرنے کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔(کامیاب طالب علم کون؟، ص55)

ادب کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ طالب علم اگر دھوپ کے وقت اپنے استاد کے ساتھ ایسے راستے میں چلے جس میں دھوپ بھی ہو اور چھاؤں بھی تو خود دھوپ والے راستے پر چلے اور سایہ والی جگہ استاد کے لیے چھوڑ دے اور اگر سارا راستہ دھوپ والا ہے تو جدھر استاد کا سایہ پڑ رہا ہو اس طرف نہ چلے بلکہ دوسری جانب چلے تاکہ استاد محترم کے سایہ پر قدم نہ پڑیں اور جب استاد کے ساتھ کوئی دوسرا شخص ہو تو سب سے پہلے استاد سے مصافحہ کرے۔(معالم ارشادیہ،ص226 تا 227 ملخصًا)

اللہ پاک ہمیں اساتذہ کا ادب و احترام کرنے ان کے حقوق ادا کرنے اور ان سے خوب فُیوض و برکات حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اٰمین بِجاہِ النَّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 

مُعلِّمْ(استاذ)بننا بہت ہی سعادت کی بات ہے کیوں کہ استاذ ہونا وہ عظیم منصب ہے جس کو نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی ذات اقدس سے سرفراز فرمایا ہے۔ جیسا کہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود ارشاد فرمایا: اِنّما بعثتُ معلماً ترجمہ : یعنی مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب السنہ، باب فضل العلماء)

طلبہ کو سنوارنے اور ان کی کردار سازی میں استاذ کا ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ استاذ کی عظمت بیان کرتے ہوئے آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: (1)جس نے کتاب اللہ میں سے ایک آیت سکھائی یا علم کا ایک باب سکھایا تو اللہ تعالی اس کے ثواب کو قیامت تک کے لئے جاری فرما دیتا ہے۔(کنزالعمال،کتاب العلم،الباب الاول،رقم 28700 ،ج10،ص61 ) (2)تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو خود قراٰن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔ (صحیح البخاری، کتاب: فضائل القراٰن،حدیث: 50271) طالب علم پر استاذ کے کچھ حقوق ہوتےہیں جن میں سے چند یہاں مندرجہ ذیل ہیں۔

(1)استاذ سے پہلے گفتگو شروع نہ کرے۔بغیر اجازت کلام میں ابتدا نہ کرے اور نہ ہی بغیر اجازت کے سامنے زیادہ کلام کرے۔(راہ علم، ص30)

(2)استاذ کی جگہ پر استاذ کی غیر موجودگی میں بھی نہ بیٹھے۔

(3)چلتے وقت استاذ کے آگے نہ بڑھے۔

(4) استاذ کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کی حق سے مقدم رکھے۔

حضرت شیخ شمش الائمہ حلوانی رحمۃُ اللہِ علیہ نے کسی حادثے کی وجہ سے بخارا سے نکل کر ایک گاؤں میں سکونت اختیار کی اس عرصے میں ان کے شاگرد ملاقات کے لئے حاضر ہوتے رہے مگر ان کے ایک شاگرد شمش الائمہ زَرَنْجِی رحمۃُ الله علیہ ملاقات کے لئے حاضر نہ ہوسکے جب شمش الائمہ حلوانی رحمۃُ اللہِ علیہ کی ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ان سے پوچھا کہ تم ملاقات کے لئے کیوں نہیں آئے تو انہوں نے عرض کی عالی جاہ:میں اپنی والدہ کی خدمت میں مشغول تھا اس لئے حاضر نہ ہوسکا تو آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا کہ تمہیں درازئ عمر تو عطا ہوگی لیکن تم رونق درس سے محروم رہو گے اور ایسا ہی ہوا کہ ان کا اکثر وقت دیہاتوں میں گزرا اور یہ کہیں بھی درس وتدریس کا انتظام نہ کر سکے(راہ علم، ص31 )

(5) اگر استاذ گھر کے اندر ہو تو باہر سے دروازہ نہ بجائے بلکہ خود استاذ صاحب کے باہر آنے کا انتظار کرے(کامیاب طالب علم کون؟ :ص55)

استاذ اور طالب علم کا رشتہ انتہائی مقدس ہوتا ہے طالب علم کو چاہئے کہ استاذ کے تمام تر حقوق کو بجا لائےتاکہ دنیاو آخرت میں کامیابی ضمانت ہو۔ایک مقولہ ہے : با ادب بانصیب بے ادب نصیب۔

اللہ پاک ہمیں استاذ کے حق کو بجا لانے اور انکا ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین


استاد اور طالب علم کا رشتہ انتہائی مقدس ہوتا ہے لہذا طالب علم کو چاہیے کہ وہ استاد کا ادب و احترام اور ان کے حقوق ادا کر کے ثواب کا حقدار بنے اور اگر ہم دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو تمام اساتذہ کرام کا ادب و احترام کرنا چاہیے۔کسی نے کہا: ماوصل من وصل آلا بالحرمۃ وما سقط من سقط الابترک الحرمین یعنی جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کرنے کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔

حضرت سہل بن عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ سے کوئی سوال کیا جاتا تو آپ پہلوتہی فرما لیا کرتے تھے ایک مرتبہ اچانک دیوار سے پشت لگاکر بیٹھ گئے اور لوگوں سے فرمایا آج جو کچھ پوچھنا ہو مجھ سے پوچھ لو، لوگوں نے عرض کی :حضور آج یہ کیا ماجرہ ہے آپ تو کسی سوال کا جواب ہی نہیں دیا کرتے تھے؟ فرمایا جب تک میرے استاد حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ حیات تھے ان کے ادب کی وجہ سے جواب دینے سے گریز کیا کرتا تھا لوگوں کو اس جواب سے مزید حیرت ہوئی کیونکہ ان کے علم کے مطابق حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ ابھی حیات تھے۔ بہرحال آپ کے اس جواب کی بنا پر فوراً وقت اور تاریخ نوٹ کر لی گئی جب بعد میں معلومات کی گئی تو واضح ہوا کہ آپ کے کلام سے تھوڑی دیر قبل ہی حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہو گیا تھا ۔(تذکرۃالاولیاء،ج1،ص229)

پیارے اسلامی بھائیو ! اس سے ہمیں پتا چلا کہ ہمارے بزرگان دین بھی اپنے اساتذہ کا ادب و احترام کرتے ہیں اور ان کے حقوق بھی بجا لاتے ہیں لہذا ہمیں چاہیے کہ استاذ کے تمام حقوق بجالائے ان کی تعظیم کرتے ہوئے ان سے بات کرتے وقت نگاہیں یعنی آنکھیں نیچی رکھیں جو حکم ارشاد فرمائیں اس کو پورا کرے جو سبق دے اسے اچھے سے اچھا یاد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اگر ہمیں کسی بات پر ڈانٹ دے اور ہماری اس میں غلطی بھی نہ ہو پھر بھی ہمیں ان کے سامنے اچھے سے پیش آنا ہے بجائے اس کے کہ ان سے ناراض ہو جائے ان کے سامنے آنکھیں نکالتے ہوئے بات کرنا ان کے ادب کا لحاظ نہ کرنا ان کی پیچھے سے برائیاں اور ان کی غلطیاں ڈھونڈنا اگر ہم نے ایسا کیا تو کامیابی کے بجائے ناکامی ملے گی ہر طرف سے رسوائیاں ہونگی۔ذلیل و خوار پھرتے رہو گے کیونکہ مشہور محاورا ہے :با ادب با نصیب بے ادب بے نصیب۔

آیئے پیارے اسلامی بھائیو ہم استاد کا ادب و احترام اور ان بابرکت ہستیاں (اساتذہ کرام) کے پانچ5 حقوق سماعت کرتے ہیں:

اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن کتب معتبرہ کے حوالے سے استاد کے حقوق بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ عالم کا جاہل پر اور استاد کا شاگرد پر ایک سا حق ہے اور وہ یہ کہ

(1)اس سے پہلے گفتگو شروع نہ کریں

(2) اس کی جگہ پر اس کی غیر موجودگی میں بھی نہ بیٹھے

(3) چلتے وقت اس سے آگے نہ بڑھے

(4)اس کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے حق سے مقدم رکھے

(5) (اسے اپنی جانب سے کسی قسم کی اذیت نہ پہنچنے دے کہ) جس سے اس کے استاد کو کسی قسم کی اذیت پہنچی وہ علم کی برکات سے محروم رہے گا۔(فتاویٰ رضویہ، 10/ 96)

محترم قارئین! ہم نے استاد محترم کے چند حقوق پڑھے لیکن ان کے علاوہ ان حضرات کے اور بھی حقوق ہے۔اللہ پاک ہمیں اپنے حقوق کے ساتھ اساتذہ کرام کے حقوق بھی ادا کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


استاد کى عظمت سب سے زىادہ ہے، ہر طالب علم کو چاہىے کہ استاد کى تعظیم و توقیر کو اپنے اوپر لازم کرلے، اسى مىں طالب علم کے لىے دنیا و آخرت مىں کامىابى ہے، کوئى طالب علم اس وقت نہ علم حاصل کرسکتا ہے اور نہ اس سے نفع حاصل کرسکتا ہے جب تک کہ استاد کى تعظیم نہ کرے۔منقول ہے کہ : بوڑھے مسلمان، عالمِ دین، حافظِ قراٰن، عادل بادشاہ اور استاد کى عزت کرنا تعظیم خدا وندى مىں داخل ہے۔ امام بُرھان الدّین زرنوجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ایک طالبِ علم اس وقت تک علم حاصل نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس سے نفع اٹھاسکتا ہے جب تک کہ وہ علم ،اہلِ علم اور اپنے استاد کی تعظیم و توقیر نہ کرتا ہو ۔ ( راہ علم )

(1) علم کے لئے سفر کرنا اللہ پاککے نبی علیہ السّلام کی سنت ہے۔(2) استاد کے پاس جانا اور اسے گھر نہ بلانا سنت ہے۔(3) استاد کا ادب کرنا ضروری ہے۔(4) استاد کی بات پر اعتراض نہ کرنا چاہیے۔(5) علم صرف کتا ب سے نہیں آتا بلکہ استاد کی صحبت سے بھی آتا ہے۔(6) بزرگوں کی صحبت کیمیا کا اثر رکھتی ہے۔(پارہ 15،سورہ کھف ، آیت ، 60 تفسیر صراط الجنان)

(7) ہمیشہ استاد کے احسانات کو پیش نظر رکھنا چاہىے۔(8) استاد کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے عمل پر مقدم رکھو۔(9)اپنے استاد کے سامنے عاجزى کا اظہار کرو۔(10)ان سے پہلے گفتگو نہ کرے۔(11) چلتے وقت ان سے آگے نہ بڑھے۔(12)ہر اس کام سے بچے جس مىں بے ادبى کا اندیشہ ہو۔(13) اپنے مال میں سے کسى چیز سے استاد کے حق میں بخل نہ کرے یعنى جو کچھ درکار ہو بخوشى حاضر کردے۔( صراط الجنان ، راہ علم، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا رسالہ الحقوق لطرح العقوق)


دینِ اسلام میں استاذ کو وہ فضیلت حاصل ہے جو اس کے علاوہ کو حاصل نہیں ۔ایک مشہور قول ہے: جس نے معالج کی عزت نہ کی، وہ شفا سے معدوم رہا اور جس نے استاذ کی عزت نہ کی ،وہ علم سے محروم رہ گیا ۔

استاذ کا مرتبہ و مقام :علم کا حقیقی مالک اللہ پاک ہے جس نے حضرت آدم علیہ اسلام کو علم کی بنا پر فرشتوں سے اونچا مقام عطا کیا ۔ اور پھر انبیا کے ذریعے انسان علم سے آراستہ ہوا، استاذ کی تعظیم کرنا بھی علم ہی کی تعظیم ہے ۔حضرت علی رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں :جس نے مجھے ایک حرف سکھایا میں اس کا غلام ہوں چاہے اب وہ مجھے فروخت کردے،چاہے تو آزاد کردے اور چاہے تو غلام بنا کر رکھے۔(راہ علم ،ص29)

طالب علم اس وقت تک نہ تو علم حاصل کرسکتا ہے اور نہ ہی اس سے نفع اٹھا سکتا ہے جب تک کہ وہ ،اہل علم اور اپنے استاذ کی تعظیم و توقیر نہ کرتا ہو۔ کسی نے کہا ہے کہ ''جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کر نے کے سبب ہی سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا''۔

استاذ کے 5 حقوق : استاذ اور طالب العلم کا رشتہ انتہائی مقدس ہوتا ہے۔ لہذا طالب العلم کو چاہئے کے استاذ کے حقوق اچھے انداز میں سر انجام دے:

(1) اعلی حضرت مجد دین ملت و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی متوفی (1340)ھ رحمۃاللہ کتب معتبرہ کے حوالے سے بیان فرماتے ہیں فتاوی رضویہ جلد24 صفحہ 413 پر استاذ کے حقوق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں فتاوی عالمگیر میں ،نیز امام حافظ الدین کردی سے ہے: فرمایا امام زندویستی نے عالم کا حق جاہل پر اور استاذ کا حق شاگرد پر یکساں ہے اور وہ یہ کہ اس سے پہلے بات نہ کرے اور اس کے بیٹھنے کی جگہ اس کی غیبت (عدم موجودگی) میں بھی نہ بیٹھے اس کی بات کو نہ رد کرے اور چلنے میں اس سے آگے نہ بڑھے۔(فتاوی عالمگیری:5/373 کتاب الکراہیۃ)

(2) آدمی کو چاہئے کہ اپنے مال میں سے کسی چیز سے استاذ کے حق میں بخل سے کام نہ لے یعنی جو کچھ اسے درکار ہو بخوشی حاضر کردے اور اس کے قبول کر لینے میں اس کا احسان اور اپنی سعادت تصور کرے۔

(3)جس نے اسے اچھا علم سکھایا اگرچہ ایک ہی حرف پڑھایا ہو اس کے لیے تواضع کرےگا اور لائق نہیں کہ کسی وقت اس کی مدد سے باز رہے اپنے استاذ پر کسی کو ترجیح نہ دے اگر ایسا کرےگا تو اس نے اسلام کی رسیوں سے ایک رسی کھولدی۔

(4) استاذ گھر کے اندر ہو اور یہ حاضر ہو تو اس کا دروازہ نہ کھٹکھٹائے بلکہ اس کے باہر آنے کا انتظار کرے۔اللہ پاک فرماتا ہے : اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ (۴) وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) ترجمۂ کنزالایمان: بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم آپ اُن کے پاس تشریف لاتےتو یہ اُن کے لیے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے (پ26،الحجرات:4، 5)

اس آیت سے اشارة معلوم ہوا کہ جب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے مقرب بندوں اور باعمل علما کی بارگاہ میں حاضر ہوں تو ان کے آستانے کا دروازہ بجا کر جلدی بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ انتظار کرنا چاہئے تاکہ وہ اپنے معمول کے مطابق آستانے سے باہر تشریف لے آئیں۔ ہمارے بزرگان دین کا یہی طرز عمل ہوا کرتا تھا، چنانچہ بلند پایا عالم حضرت ابو عبید رحمۃُ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے :میں نے کبھی بھی کسی استاذ کے دروازہ پر دستک نہیں دی بلکہ میں ان کا انتظار کرتا رہتا اور جب وہ خود تشریف لاتے تو میں ان سے استفادہ حاصل کرتا۔(صراط الجنان،پ 26،ص 408)

(5)(استاد کو اپنی جانب سے کسی قسم کی اذیت نہ پہنچنے دے کہ)جس سے اس کے استاذ کو کسی قسم کی اذیت پہنچی، وہ علم کی برکت سے محروم رہےگا۔(فتاوی رضویہ جلد 10۔ص 96،97)


آج کے نوجوان کی تعلیم و تربیت نہایت اہم ذمہ داری ہے جس ذمہ داری پر ہر شخص قادر نہیں ہوتا سوائے پختہ ارادہ رکھنے والے کے اور استاذ ہی وہ ہستی ہے جو اس اہم کام کو انجام دیتا ہے اس لئے کہ وہ اپنے طلبہ کی علمی، اخلاقی، اجتماعی طورپر تربیت کرکے نیک شہری بناتا ہے کہ جن پر آنے والے دنوں میں عوام امید کرسکتی ہے استاذ ہی خوشی و غمی میں امت کا سرمایہ ہوتا ہے جن کے ذریعہ علم کا پھول کھلتا ہے آئیے اس موضوع پر کچھ پڑھنے سے پہلے استاذ کی تعریف ملاحظہ کرتے ہیں : جو کسی کو علم و حکمت کی تعلیم دے ،یا جس نے ہم کو کچھ بھی سکھایا یا پڑھایا ہو، یا جس سے ہم نے خود کچھ سیکھا ہو اسی کو استاذ کہتے ہیں۔

( 1 ) استاذ کا ادب و احترام: استاذ کا پہلا حق ہے کہ اس کے شاگرد اس کا ادب و احترام کریں ، کیونکہ استاذ کا ادب ہی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے چنانچہ ہمارے اسلاف کا ادب دیکھئے کہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے کہ میں نے کبھی اپنے اساتذ کے گھر کی طرف پاؤں دراز نہیں کیے اور امام شافعی رضی اللہ عنہ فرماتے کہ ادب و احترام کی وجہ سے میں اپنے استاذ کے سامنے کتاب کا ورق آہستہ الٹتا تھا ۔

ادب تعلیم کاجو ہر ہے زیور ہے جوانی کا وہی شاگرد ہیں جو خدمتِ استاد کرتے ہیں

( 2 ) استاذ کا حق :اپنے شاگردوں پر اتنا ہی ہے، جتنا ایک باپ کا اولاد پر بلکہ ایک اعتبار سے باپ سے بھی زیادہ، کیوں کہ روح کو جسم پر فضیلت حاصل ہے، والد اگرصلبی وجسمانی باپ ہے تواساتذہ روحانی باپ ،اساتذہ کے معلّم و مربّی ہونے کی وجہ سے اسلام نے انہیں "روحانی باپ” کا درجہ عطا کیا ہے جیسا کہ معلّم انسانیت حضور نبی رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے :انما انا لکم بمنزلۃ الوالد،اعلّمکم۔یعنی میں تمہارے لئے والد کے درجے میں ہوں، کیونکہ میں تمہیں تعلیم دیتا ہوں( ابن الصلاح (ت 643)، فتاوى ابن الصلاح65 )

( 3)اچھا سلوک: استاد بہترین سلوک کا حق دار ہے شاگردوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کے ساتھ بہترین سلوک کرتے ہوئے ان باتوں کا خیال رکھیں۔ استاد کے ساتھ عاجزی و انکساری کے ساتھ پیش آئیں،اس کا کہنا مانیں اور جو تعلیم وہ دے اس پر عمل پیرا ہوں گفتگو میں ادب و احترام کو ملحوظ رکھیں۔ کیونکہ استاذ کے سامنے احتراماً نگاہ جھکانے والا ہمیشہ سر اٹھا کر جیتا ہے استاد کی صحبت میں زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں، تاکہ ان کی علمیت سے استفادہ کیا جاسکے۔ امام شافعی نے حصول علم کیلئے چھ چیزوں کا ذکر فرمایا :أَخي لَن تَنالَ العِلمَ إِلّا بِسِتَّةٍ سَأُنبيكَ عَن تَفصيلِها بِبَيانِ ذَكاءٌ وَحِرصٌ وَاِجتِهادٌ وَبُلغَةٌ وَصُحبَةُ أُستاذٍ وَطولُ زَمانِ ۔جن میں سے ایک استاذ کی صحبت بھی ہے ۔

( 4 ) قوم کا محسن:استاد کی معاشرتی خدمات کے عوض اس کا حق ہے کہ اسے سوسائٹی میں اعلیٰ مقام دیا جائے۔کیونکہ استاذ افراد کی کردار سازی کا کام کرتا ہے ۔ افراد ہی سے قوم بنتی ہے اس لئے استاذ پوری قوم کا محسن ہوتا ہے ۔

علم کسی بھی نوعیت کا ہو اس کا عطا کرنے والا بہرحال اللہ رب العزت ہے یقیناً ہر مذہب اور ہر سماج میں اساتذہ کو بڑا احترام حاصل رہا ہے کیونکہ استاذ بنیاد کی وہ اینٹ ہے جو پوری عمارت کا بوجھ اٹھاتا ہے مگر کسی کو نظر نہیں آتی بلاشبہ استاذ ہی وہ شمع ہے جو خود جل کر دوسروں کو روشنی دیتا ہے اللہ کریم عزوجل ہمیں اپنے اساتذہ کا ادب کرنے والا بنائے آمین بجاہ طٰہٰ و یٰسن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


پیارے محترم اسلامی بھائیو! اسلام وہ عظیم دین ہے، جس نے حصولِ علم یعنی علم طلب کرنے کو ایک دینی فریضہ قرار دیا ہے۔ اس کی اہمیت اس سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ ہمارے آقا و مولا محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر جو پہلی وحی نازل ہوئی وہ "اِقراء" یعنی پڑھیے پر مشتمل ہے۔ جس سے اسلام میں علم کی عظمت و اہمیت کا پتا چلتا ہے۔ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اللہ پاک نے معلّم بنا کرمبعوث فرمایا۔ اس سے واضح ہوا کہ علم کی عظمت و اہمیت اپنی جگہ ،تاہم معلّم کا مقام و مرتبہ سب سے بلند ہے۔معلم یعنی استاذ بلاشبہ عظیم ہستی اور انسانیت کی محسن ذات ہے، استاذ کی بڑی شان اور عظمت ہے، دنیا نے چاہے استاذ کی حقیقی قدر و منزلت کا احساس کیا ہو یا نہ کیا ہو، لیکن اسلام نے بہت پہلے ہی اس کی عظمت و شان کو اجاگر کیا، اس کے بلند مقام سے انسانوں کو آشنا کیا اور خود اس کائنات کے عظیم محسن میرے پیارے آقا مدینے والے مصطفی محمد رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے طبقہ ٔ اساتذہ کو یہ کہہ کر شرف بخشا کہ

"میں معلم بناکر بھیجا گیا ہوں"۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر سب سے پہلے جو وحی نازل ہوئی اس میں علم اور تعلیم ہی کا ذکر تھا۔” قراٰن پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَۚ(۱) خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍۚ(۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا ۔(پ30،العلق:1، 2)

استاد ہونا ایک بہت بڑی نعمت اور عظیم سعادت ہے ۔معلّم کو اللہ اور اس کی مخلوقات کی محبوبیت نصیب ہوتی ہے، پیارے آقا مدینے والے مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے استاذ کی محبوبیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ لوگوں کو بھلائی سکھانے والے پر اللہ پاک ،اس کے فرشتے ، آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں پانی میں رحمت بھیجتی اور دعائیں کرتی ہیں۔(ترمذی ،حدیث:2675)

یوں تو استاذ کے شاگردوں پر بہت سارے بہت سارے احسانات ہوتے ہیں جس کی بنا پر ایک شاگرد کامیابیوں کے منازل طے کرتا ہوا نظر آتا ہے بلاشبہ شاگرد کے اپنے استاذ پر بہت سارے حقوق ہے یہاں پانچ حقوق پیش کئے جا رہے ہیں :

(1) استاد کا پہلا حق یہ ہے کہ اس کے شاگرد اس کا ادب و احترام کریں۔

(2) اس کے ساتھ عزت، عاجزی و انکساری کے ساتھ پیش آئیں۔

(3)اس کا کہنا مانیں اور جو تعلیم وہ دے، اس پر عمل پیرا ہوں۔

(4) استاذ کی ادنیٰ سی بے ادبی سے بھی اپنے آپ کو بچائے اس کے ہر حکم کی فوراً تعمیل کرے۔

(5) امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تعالٰی وجہَہُ الکریم فرماتے ہیں کہ’’ جس نے مجھے ایک حرف سکھایا میں اس کا غلام ہوں چاہے اب وہ مجھے فروخت کردے، چاہے تو آزاد کر دے اور چاہے تو غلام بنا کر رکھے۔ آپ رضی اللہ عنہ مزید فرماتے ہیں: میں استاذ کے حق کو تمام حقوق پر مقدم سمجھتا ہوں اور ہر مسلمان پر اس کی رعایت واجب مانتا ہوں۔

حق تو یہ ہے کہ استاذ کی طرف ایک حرف سکھانے پر تعظیماً ایک ہزار درہم کا تحفہ بھیجا جائے۔ (راہ علم،ص29)

اللہ تبارک وتعالٰی سے دعا ہے کہ ہمیں اساتذہ کرام کا صحیح معنوں میں ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے صدقے سے ہمیں دین ودنیا کے ثمرات و فوائد نصیب فرمائے۔ آمین۔

ان ہی سے معطر ہوئے افکار ہمارے استاذ یہ قوموں کے ہے معمار ہمارے


استاذ علم کا سر چشمہ، معلم و مربی، علم کے فروغ کا ذریعہ اللہ پاک کا انعام و احسان ہے، دنیا میں بہت سارے رشتے ہوتے ہیں جو انسان سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں اور کچھ رشتے روحانی ہوتے ہیں انہی میں سے ایک استاذ کا رشتہ ہے۔ ایک استاذ ہی ہے جو ماں، باپ کے بعد اصل زندگی کے معنی سکھاتے ہیں اور ہمیں اچھی زندگی جینے کا ڈھنگ سکھاتے ہیں، صحیح اور غلط کا پہچان کرنا سکھاتے ہیں۔ دنیا میں جتنے رشتے ہیں ان سب میں سے ایک مقدس رشتہ استاذ اور شاگرد کا مانا جاتا ہے۔

لہٰذا استاذ کی اہمیت اور ان کے مقام و مرتبہ کا اندازہ حضرت علیُّ المرتضیٰ رضی اللہُ عنہ کے اس قول سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ رضی اللہُ عنہ نے ارشاد فرمایا: اَنَا عَبْدُ مَنْ عَلَّمَنِیْ حَرْفًا وَّاحِدًا اِنْ شَآءَ بَاعَ وَاِنْ شَآءَ اَعْتَقَ وَاِنْ شَآءَ اسْتَرَقَّ یعنی جس نے مجھے ایک حرف سکھایا میں اس کا غلام ہوں چاہے اب وہ مجھے فروخت کردے، چاہے تو آزاد کر دے اور چاہے تو غلام بنا کر رکھے۔ (تعليم المتعلم طريق التعليم،ص78) ایک جگہ میرے آقا کريم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے استاذ کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: جن سے تم علم حاصل کرتے ہو ان کیلئے عاجزی اختیار کرو اور جن کو تم علم سکھاتے ہو ان کے لئے بھی تواضع اختیار کرو اور سرکش عالم نہ بنو۔(الجامع ا لاخلاق الراوی، 1/138، حدیث:42)

چنانچہ اسلاف کے ادب و احترام اور تعظیم کے بے شمار آثار اور واقعات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دلوں میں استاذ کی اہمیت کیا تھی۔ آج بھی مدارس اسلامیہ کی فضا میں استاذ کا ادب و احترام باقی ہے ان کی عزت و عظمت کی جاتی ہے اور مدارس کے طلبہ کے ذہن و دل پر یہ نقش ہے کہ استاذ کی شان میں معمولی درجہ کی بے ادبی نعمتِ علم اور سعادتِ دارین سے دوری کا سبب بن سکتی ہے۔ شاگرد کے لئے بےحد ضروری ہے کہ وہ اپنے استاذ کے حقوق کو پہچانے اور وہ اپنے استاذ کا ادب و احترام آخری دَم تک کرتا رہے۔

اسلام نے استاذ کے بہت سے حقوق متعین کئے ہیں جن میں یہاں پانچ حقوق بیان کئے جاتے ہیں:

(1)استاد کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ شاگرد ان کا ادب و احترام کریں ان کے ساتھ عزت، عاجزی اور انکساری سے پیش آئیں، ان کا کہنا مانیں اور وہ جو تعلیم دیں ان پر عمل پیرا ہوں۔

(2)استاذ سے بحث، ضد، غصے اور ناراضگی سے پرہیز کرنا، ان کی سختی اور ڈانٹ کو برداشت کرنا بلکہ نعمت سمجھنا۔

(3)گفتگو میں ادب و احترام کو ملحوظ رکھا جائے ان کی اجازت کے بغیر سوالات نہ کئے جائيں۔

(4)بغیر اجازت ان کی مجلس، درس یا کلاس سے باہر نہ جائیں، نہ ان کی قیام گاہ پر بیٹھا جائے۔

(5)استاذ کو تنگ کرنے کے لئے لَایعنی سوالات سے اجتناب کیا جائے ان کی عیب جوئی، غیبت یا بہتان درازی سے پر ہیز کیا جائے۔

مشورۃً عرض ہے کہ اپنے اساتذۂ کرام کے لئے دعائے خیر کرتے رہیں یہ بڑی سعادت مندی اور بڑی پسندیدہ بات ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو اپنے اساتذۂ کرام کی عزت، ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جو اساتذۂ کرام حیات ہیں اللہ پاک اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقہ و طفیل ان کے علم و عمل میں بے پناہ برکتیں عطا فرمائے اور انہیں درازیِ عمر بالخیر عطا فرمائے۔ اور جو اساتذۂ کرام دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے اور ان کی علمی خدمات کے عوض انہیں جنّتُ الفردوس میں بہترین انعام و اکرام سے نوازے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


جشنِ ولادتِ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کے موقع پر افتتاحِ بخاری کا سلسلہ ہوگا

”دورۃ الحدیث شریف“ درسِ نظامی (عالم کورس)کی وہ عظیم کلاس ہے جس میں طلبائے کرام کو احادیثِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑھنے کا موقع ملتا ہے۔اس کلاس کے آغاز میں صحاحِ ستہ کی سب سے بڑی کتاب ”بخاری شریف“ کے افتتاح اور سال کے آخر میں ختمِ بخاری کے لئے تقریب کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

ہر سال کی طرح اس سال بھی جشنِ ولادت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کے موقع پر 10 شوال المکرم 1444ھ بمطابق 30اپریل 2023ء بروز اتوار رات 09:15 بجے عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں ”افتتاح ِبخاری“کے لئے پُر وقار تقریب کا انعقاد کیا جائیگا۔ اس تقریب میں دورۃ الحدیث شریف پاکستان کے طلبائے کرام براہِ راست جبکہ دیگر مقامات پر قائم دورۃ الحدیث کے طلبہ و طالبات بذریعہ مدنی چینل شریک ہوں گے۔

افتتاحِ بخاری میں شیخِ طریقت امیر اہلسنت علامہ محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ بخاری شریف کی پہلی حدیث پڑھ کر اس کی تشریح بیان فرمائیں گے۔

واضح رہے کہ اس پروگرام کو مدنی چینل پر بھی براہ راست نشر کیا جائیگا۔


وہ شخصیت جو سنگِ راہِ گزر کو آنکھوں کا تارا بنا دیتا ہے، جس کو دنیا کا کامیاب انسان کہا جاتا ہے، جس کی خدمت کو بڑے بڑے اپنی سعادت سمجھیں وہ کوئی اور نہیں بلکہ ایک استاد ہے۔ استاد کی عزت اور عظمت کے لئے یہی بات کافی ہے کہ کائنات کی سب سے افضل شخصیت، اللہ پاک کے سب سے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:بے شک میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔(ابن ماجہ، 1/151، حدیث: 229) دنیا کا کوئی شخص استاد کے بغیر کامیاب نہ ہوا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تحصیلِ علم میں استاد کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ جہاں استاد کی اتنی اہمیت ہے وہیں اس کے کچھ حقوق بھی بیان کئے گئے ہیں۔ آئیے ان حقوق میں سے پانچ حقوق ملاحظہ کرتے ہیں:

(1)استاد کو خود پر مقدم رکھنا: اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ نقل فرماتے ہیں: عالم کا جاہل اور استاد کا شاگرد پر ایک سا حق ہے برابر اور وہ یہ کہ اس سے پہلے بات نہ کرے اور اس کے بیٹھنے کی جگہ اس کی غَیبت (یعنی غیرموجودگی) میں بھی نہ بیٹھے اور چلنے میں اس سے آگے نہ بڑھے اور اس کی بات کو رد نہ کرے۔(فتاویٰ رضویہ،23/637)

(2)استاد کو تکلیف دینے سے بچنا: طالبِ علم و شاگرد کو چاہئے کہ استاد کو تکلیف دینے سے بچے۔ جبکہ عام لوگوں کو بھی تکلیف دینے سے بچنے کا حکم ہے۔ چنانچہ قراٰنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۵۸) ﴾ ترجَمۂ کنز الایمان: اور جو ایمان والے مردوں اور عورتوں کو بے کئے ستاتے ہیں انہوں نے بہتان اور کھلا گناہ اپنے سر لیا (پ22،الاحزاب:58) جب ایک عام مسلمان کو ایذا دینے کا بڑا گناہ ہے تو استاد کو تکلیف دینا کس قدر بُرا ہوگا۔

(3)استاد کے لئے عاجزی اختیار کرنا : طالب علم کو چاہئے کہ استاد کا ادب کرے اورا س کے لئے عاجزی اختیار کرتے ہوئے اس کی تعظیم بجا لائے حدیث ِ پاک میں ہے کہ سیّد ِعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جن سے تم علم حاصل کرتے ہو ان کے لئے عاجزی اختیار کرو۔ (الجامع لاخلاق الراوی، ص230، حدیث:802)

(4)استاد کی باتیں غور سے سننا :شاگرد کو چاہئے کہ استاد کی گفتگو کو خوب توجہ اور غور سے سنے چنانچہ امیرِ اہلِ سنت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ ارشاد فرماتے ہیں: بے توجہی کے ساتھ سننے سے غلط فہمی کا سخت اندیشہ رہتا اور بسا اوقات ”ہاں “ کا ”نا“ اور ”نا“ کا ”ہاں“ سمجھ میں آتا ہے۔(علم و حکمت کے 125 مدنی پھول، ص70)

(5)استادکی شخصیت کا خیال رکھنا: استاد کا یہ حق کئی امور پر مشتمل ہے جیسا کہ مولیٰ علی رضی اللہُ عنہ کے فرمان کا خلاصہ ہے : استاد سے کثرت سوال سے بچنا، استاد کو کسی سوال کے جواب میں طعنہ نہ دینا، استاد کے تھک جانے پر اصرار نہ کرنا، استاد کے عیب ظاہر نہ کرنا، استاد کی غیبت سے بچنا، استاد کو کوئی حاجت ہو تو ا سے پورا کرنا۔(جامع بیان العلم وفضلہ، ص175)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے استاد محترم کا حق پہچاننے اور اس کو صحیح طور پر بجالا نے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


رسم بسم اللہ یا بسم اللہ خوانی:

جب بچہ یا بچی چار سال چار ماہ چار دن کے ہوجائیں تو کسی بزرگ یا کسی اچھے عالمِ دین حافظِ قرآن سے بچے کو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھوائی جائے۔

اسی سلسلے میں 26 اپریل 2023ء کو نگرانِ شوریٰ مولانا حاجی محمد عمران عطاری مُدَّ ظِلُّہُ العالی کی پوتی ایمن عطاریہ کی رسمِ بسم اللہ ہوئی ۔ رسمِ بسم اللہ میں شیخ طریقت امیر اہلسنت علامہ محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے ایمن عطاریہ کو بسم اللہ شریف پڑھائی ۔ اس موقع پر امیر اہلسنت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے دعا بھی کروائی۔


دینِ اسلام جہاں محبت و اخوت، بھائی چارہ و برداشت ،احسان و قربانی ،سچائی و ایمانداری سکھاتا ہے وہی یہ پیارا دینِ اسلام ہم کو دوسروں کی عزت و اکرام کرنا بھی سکھاتا ہے۔ کسی بھی چیز سے بچنے اور بچانے کے لیے اس کے نقصانات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے اور بد اخلاقی تو ایسی بری صفت ہے کہ اس کے دنیوی اور اُخروی دونوں طرح کے نقصانات ہیں۔

بد اخلاقی کے نقصانات بیان کرنے سے پہلے اخلاق کی تعریف ذہن نشین کرلیں۔ چنانچہ امام غزالی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اگر نفس میں موجودہ کیفیت ایسی ہو کہ اس کے باعث اچھے افعال اس طرح ادا ہوں کہ وہ کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر پسندیدہ ہوں تو اسے حسنِ اخلاق کہتے ہیں اور اگر اس سے برے افعال اس طرح ادا ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر ناپسندیدہ ہوں تو اسے بد اخلاقی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(احیاء العلوم ، 3 / 165 ،مکتبۃ المدینہ)

بد اخلاقی کی مذمت پر احادیث کریمہ ملاحظہ فرمائیں : (1)حضرت سیدنا فضیل بن عِیاض رحمۃُ الله علیہ سے مروی ہے کہ بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی: ایک عورت دن میں روزہ رکھتی اور رات میں قیام کرتی ہے لیکن وہ بد اخلاق ہے ،اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اس میں کوئی بھلائی نہیں وہ جہنمیوں میں سے ہے۔ ( شعب الایمان ،باب فی اکرم الجار، 7/78، حدیث: 9545)

(2)اَوَّلُ مَایُوْضَعُ فِی الْمِیْزَانِ حُسْنُ الْخُلُقِ وَالسَّخَآءُ یعنی میزان میں سب سے پہلے حُسنِ اخلاق اور سخاوت کو رکھا جائے گا۔( المصنف لابن ابی شيبۃ)جب اللہ پاک نے ایمان کو پیدا فرمایا تو اس نے عرض کی: اے رب! مجھے تقویت دے۔ تو اللہ پاک نے اسے حُسن اَخلاق اور سخاوت کے ذریعےتَقْوِیَت دی اور جب اللہ پاک نے کفر کو پیدا کیا تو اس نے کہا: اے رب! مجھے تقویت دے۔تو اللہ پاک نے اسے بخل اور بداخلاقی کے ذریعے تقویت دی۔

(3)سُوْ ءُالْخُـلُقِ ذَنْبٌ لَّا یُغْفَرُ وَسُوْ ءُ الظَّنِّ خَطِیْـئَةٌ تَـنُوْجُ یعنی بد اخلاقی ایک ایسا گناہ ہے جس کی مغفرت نہ ہوگی اور بد گمانی ایسی خطا ہے جو دوسرے گناہوں کا سبب بنتی ہے۔ (مساویٔ الاخلاق للخرائطی،باب ماجاء فی سوء الخلق من الکراهۃ،ص20، حدیث:7)

(4)اِنَّ الْعَبْدَ لَیَبْلُغُ مِنْ سُوْ ءِخُلُقِہٖ اَسْفَلَ دَرْکَ جَھَنَّمَ یعنی انسان اپنے بُرے اخلاق کے سبَب جَہَنَّم کے سب سے نچلے طبقے میں پہنچ جاتا ہے۔( مساویٔ الاخلاق للخرائطی،باب ماجاء فی سوء الخلق من الکراهۃ، ص22، حدیث:12)

(5)بد اخلاقی عمل کو خراب کر دیتی ہے : شعب الایمان میں ہے کہ بد اخلاقی عمل کو اس طرح خراب کر دیتی ہے۔ جس طرح سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔ (شعب الایمان،باب فی حسنِ اخلاق،6/247، حدیث:8036)