لاہور ریجن ، گلگت بلتستان ، استور پریس کلب کے سینئر صحافیوں میں مدنی حلقے کا انعقاد
میڈیا ڈیپارٹمنٹ
آف دعوت اسلامی کے زیر اہتمام 04 جون 2021ء بروز جمعہ لاہور ریجن ، گلگت بلتستان ، استور پریس کلب کے سینئر صحافیوں میں مدنی حلقے
کا انعقاد کیا گیا جس میں استور پریس کلب صدر رفیع
اللہآفریدی
، لطف اللہ سابق صدر یونین آف جرنلسٹ، عبدالوہاب
ربانی ناصر جنرل سیکرٹری استور پریس کلب و منیجنگ ڈائیریکٹر استور نیوز ایجنسی ، سبحان
سہیل ممبر پریس کلب استور بیوروچیف بول نیوز اور میڈیا سے وابستہ دیگر افراد نے
شرکت کی۔
ایک مرتبہ کسی نے حضرت سیّدناعمر بن عبدالعزیز
رحمۃاللہ علیہ سے عرض کی، یا امیر المؤمنین!یہ کام آپ کل پر مؤخر فرما دیجئے، آپ نے اِرشاد فرمایا:" میں روزانہ کا کام ایک دن میں بمشکل مکمل کرپاتا ہوں، اگر
آج کا کام بھی کل پر چھوڑ دوں گا، تو پھر دو دن کا کام ایک دن میں کیونکر کر سکوں
گا۔"(انمول ہیرے، صفحہ نمبر 16،17)
مذکورہ واقعے سے آج کا کام کل پر نہ چھوڑنے کا جذبہ ملا، جس طرح وقت کو دُرست جدول کے ذریعے، نیز ترجیحات کو متعین کرکے اور منصوبہ بندی کرنے کے
ساتھ استعمال کرنے کے کئیں فوائد و برکات ہیں، اسی طرح آج کا کام کل پر چھوڑنے کے کئی نقصانات
ہیں، آئیے ان میں سے چند کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں:
بے ضابطگی:
آج کا کام کل پر چھوڑنے سے انسانی
زندگی کے نظم و ضبط پر کافی اثر پڑتا ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے ضروری اُمور پر توجّہ نہیں
دے پاتا۔
منتشر خیالی:
آج کا کام کل پر چھوڑنے سے انسانی خیالات منتشر
رہتے ہیں، جس کی وجہ سے انسان ڈپریشن اور
مایوسی کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔
مؤ ثر کارکردگی کا نہ ہونا:
آج کام کل پر چھوڑنے سے کارکردگی میں بہتری نہ آنے
کے ساتھ ساتھ انسان ترقی کی جانب قدم نہیں بڑھا سکتا۔
عبادات میں تاخیر:
آج کا کام کل پر چھوڑنے کی عادت اپنانے سے انسان
اللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ عبادات (نماز، روزہ، زکوۃ، وغیرہ) کو وقت پر ادا نہ کرکے کئیں عذابوں کا
حقدار ہو سکتا ہے۔
ہمارے معاشرے کا مشہور جملہ"آج
رہنے دو، کل کروں گا"، آج بہت سے افراد چاہے وہ گھر میں ہوں یا دفتر
میں، دکان میں ہوں یا اسکول میں، یہ جملہ
کہتے ہوئے نظر آتے ہیں، ایسے افراد اپنا
اور اپنے معاشرے کا نقصان کرتے ہیں، کیونکہ ہر کام کے لئے ایک وقت مقرر ہے، اگر کام کو اُس کے مقررہ وقت پر نہ کیا جائے تو
تجربے سے یہ بات ثابت ہے کہ بعد میں وہ کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے، بہت سے افراد بعض اوقات کام کو وقت پر نہ کرنے
کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں، لہذا! ہمیں ایسی ٹال مٹول سے بچنا چاہئے اور ہر
کام کو اس کے وقت پر کرنا چاہئے۔
توبہ میں تاخیر کرنا:
اگر ہم دنیاوی نقصانات سے ہٹ کر اُخروی نقصانات
دیکھیں، کام کو وقت پر نہ کرنے کے یا کام
کو کل پر چھوڑنے کے تو ہمیں صحیح معنوں
میں کام وقت پر کرنے کا جذبہ ملے گا، اس
حوالے سے حضرت سیّدنا امام محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ منہاج العابدین میں
جوانوں اور توبہ میں تاخیر کرنے والوں کو سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں:"کہ کیا تم
غور نہیں کرتے کہ تم کب سے اپنے نفس سے وعدہ کر رہے ہو کہ کل عمل کروں گا اور وہ
کل آج میں بدل گیا، کیا تم نہیں جانتے کہ
جو کل آیا اور چلا گیا، وہ گزشتہ کل میں
تبدیل ہو گیا، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ تم
آج عمل کرنے سے عاجز ہو، تو کل زیادہ عاجز
ہوگے، آج کا کام کل پر چھوڑنے اور توبہ و
اطاعت میں تاخیر کرنے والا اُس آدمی کی طرح ہے کہ جو درخت کو اُکھاڑنے سے جوانی
میں عاجز ہواور دوسرے سال کے لئے مؤخر کر دے، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ جوں جوں وقت گزرتا چلا
جائے گا، درخت زیادہ مضبوط اور پختہ ہوتا
چلا جائے گا اوراُکھاڑنے والا کمزور ہوتا چلا جائے گا، پس جو اس درخت کو جوانی میں نہ اُکھاڑ سکا، وہ بڑھاپے میں قطعاً نہ اُکھاڑ سکے گا۔"
اے عاشقانِ رسول! اِمام غزالی رحمۃ
اللہ علیہ کا یہ فرمان کس قدر فکر انگیز ہے کہ جو شخص جوانی میں اَحکامِ شرعیہ اور
اِطاعتِ الہی کی بجا آوری میں کوتاہی برتتا ہے، تو اُس سے کیسے اُمید رکھی جاسکتی ہے کہ وہ
بڑھاپے میں غلطیوں کا مداوا کر سکے گا، کیونکہ اُس وقت جسم اور اعضاء کمزوری کا شکار ہو
چکے ہوں گے، لہٰذا! جوانی کو غنیمت جانئے
اور اِسی عمر میں نفس کے بے لگام اور منہ زور گھوڑے کو لگام دے دیجئے اور توبہ
کرنے میں جلدی کیجئے، نہ جانے کس وقت
پیغامِ اجل آ جائے، کیونکہ موت تو نہ
جوانی کا لحاظ کرتی ہے، نہ ہی بچپن کی
پرواہ۔
آہ!آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر
نہیں
سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں
اے عاشقانِ رسول!ابھی اپنے گناہوں
سے توبہ کیجئے اور اپنے ربّ عزوجل کی اطاعت میں مشغول ہو جائیں، اپنے ربّ کو راضی کرنے میں لگ جائیں، اللہ پاک ہم سب
کو توبۃ النصوح کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
جدول بنانا:
دنیا میں اپنا کام وقت پر کرنے کے لئے ضروری ہے
کہ ہم جدول بنائیں، اگر ہم اپنے پیر و
مرشد حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ
کے معمولات پر غور کریں تو ہمیں نظر آئے گا تو آپ اپنا ہر کام مقررہ وقت پر کرتے
ہیں، دُنیا کے تمام کامیاب لوگوں کی
کامیابی کا انحصار وقت کی پابندی پر ہوتا ہے، جدول بنانے کی ہمیں یہ برکت نصیب
ہوگی کہ ہم بہت سے فضول کاموں سے بچ جائیں گے اور اپنی زندگی کو سُنتِ رسول صلی
اللہ علیہ وسلم کے مطابق گزاریں گے، بہت
پیاری بات کسی نے کہی ہے کہ"یہ وقت ہی ہے، جو انسان کو سونا بنا دیتا ہے اور یہ وقت ہی ہے،
جو انسان کو مٹی کر دیتا ہے۔"
اللہ پاک ہمیں اپنے وقت کی قدر
کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین
فرمان آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:"روزانہ
صبح جب سورج طلوع ہوتا ہے، تو اس وقت "دن"یہ
اعلان کرتا ہے:اگر کوئی اچھا کام کرنا ہے تو کر لو کہ آج کے بعد میں کبھی پلٹ کر
نہیں آؤں گا۔"(شعب الایمان، جلد3، صفحہ 386، حدیث نمبر 3740)
آج کا کام کل پر چھوڑنا ایک ایسی
عادت ہے، جس کی وجہ سے بسا اوقات انسان کو
نقصان اٹھانا اور پریشانی و ندامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کے باوجود انسان سُستی یا معمولی تھکاوٹ کی
وجہ سے ایسے کام کو بھی کل پر ڈال دیتا ہے، جس کا آج کرنا ضروری ہوتا ہے، اس حوالے سے ہمارے بزرگانِ دین کا انداز کتنا
محتاط ہوا کرتا تھا، اس کی ایک جھلک
ملاحظہ فرمائیں:
ایک مرتبہ حضرت عمر بن عبدالعزیز
رحمۃاللہ علیہ سے کسی نے عرض کی، یا امیر المؤمنین!یہ کام آپ کل پر مؤخر فرما
دیجئے، ارشاد فرمایا:" میں روزانہ کا کام ایک دن میں بمشکل مکمل کرپاتا ہوں، اگر
آج کا کام بھی کل پر چھوڑ دوں گا تو پھر
دو دن کا کام ایک دن میں کیونکر کر سکوں گا۔"(نیک بننے اور بنانے کے طریقے،
صفحہ 489)
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اے ابنِ
آدم! موت کی تیاری میں جلدی کر اور کل کل کی رٹ نہ لگا، جو کرنا ہے آج کرلے، کیونکہ تو یہ نہیں جانتا کہ کب تجھے اللہ پاک کی
طرف لوٹ کر جانا ہے۔"(مدنی انعامات، صفحہ7)
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ احیاء
العلوم میں فرماتے ہیں: توبہ میں تاخیر کرنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے، جسے ایک درخت کو اکھاڑنے کی حاجت ہے، لیکن جب وہ دیکھتا ہے کہ درخت مضبوط ہے اور اسے
سخت مشقت کے بغیر نہیں اُکھاڑا جا سکتا، تو کہتا ہے:میں اسے ایک سال بعد اُکھاڑوں گا، حالانکہ درخت جب تک قائم رہتا ہے، اس کی جڑیں مضبوط ہوتی جاتی ہیں اور خود اس کی
عمر جوں جوں بڑھتی ہے، یہ کمزور ہوتا جاتا
ہے، تو دنیا میں اس سے بڑھ کر اَحمق کوئی
نہیں کہ اس نے قوت کے باوجود کمزور کا مقابلہ نہ کیا اور اس بات کا منتظر رہا کہ
جب یہ خود کمزور ہو جائے گا اور کمزور شے مضبوط ہوجائے تو اس پر غلبہ پائے گا۔(احیاء
العلوم، جلد 2، صفحہ 238)
یہی معاملہ دیگر کاموں کا بھی ہے،
کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ انسان کی
مصروفیات بڑھتی اور صحت و طاقت گھٹتی ہے، لہذا! ہمیں گناہ چھوڑنے، توبہ کرنے، نیک اعمال بجا لانے،(حقوق العباد تلف ہوئے ہوں
تو) معافی تلافی کرنے، (قضانمازیں، روزے
وغیرہ ہوں تو ان کو) ادا کرنے، نیز دیگر
ضروری کاموں کو کل پر ٹالنے سے بچنا چاہئے، زندگی یقیناً بے حد مختصر ہے، جو وقت مل گیا، سو مل گیا، آئندہ وقت ملنے کی امید دھوکہ ہے، کیا معلوم آئندہ لمحے ہم موت سے ہم آغوش ہوچکے
ہوں، جیسا کہ مشہور ہے کہ "نماز پڑھو،
اس سے پہلے کہ تمہاری نماز پڑھی جائے"
لہذا! خود پر تھوڑی سختی کیجئے اور اپنے ذہن میں"آج نہیں، کل صحیح" کی جگہ"ابھی نہیں، تو کبھی نہیں" بٹھا لیجئے، مشہور مقولہ ہے:tomorrow never come, do your work today"یعنی کل کبھی نہیں آئے گا، آج ہی اپنا کام کر لیجئے" کل کی بجائے آج
اور آج کے بجائے ابھی کا ذہن بنائیں، ان شاء اللہ دونوں جہاں میں کامیابی آپ کا
مقدر ہوگی۔
ہر شخص چاہے، وہ طالب علم ہو یا معلم، مریض ہو یا ڈاکٹر، گاہک ہو یا دکان دار، کرائے دار ہو یا مالک مکان، کاریگر ہو یا سیٹھ، ماتحت ہو یا نگران، جس درجے کا شخص ہو، اس پر اس کی حالتِ وقت کے مطابق کچھ نہ کچھ ذمہ
داری عائد ہوتی ہے، جس کا اس کے وقت پر
انجام دینا ازحد ضروری ہے، مگر ہمارے
معاشرے کی سب سے بڑی خرابی جو ہے، وہ یہ
کہ ٹال مٹول کرنا، سُستی کا مظاہرہ کرنا، کسی کام کو کرنے کا ارادہ کرنا، مگر پھر یہ کہہ کر اسے مُلتوی کردینا کہ ابھی
نہیں، پھر سہی یا فلاں کام فلاں وقت پریا
فلاں دن کر لوں گا یا پھر کسی کام کو کرتے کرتے اس کو ادھورا چھوڑ دینا، یہ سب ایسی بُری عادات ہیں، جسے معاشرے میں سب ہی نا پسند کرتے ہیں، حتی کہ بخاری شریف حدیث نمبر 6223 میں ہے:"بے
شک اللہ پاک چھینک کو پسند فرماتا ہے اور جماہی کو ناپسند کرتا ہے۔"(بخاری،
کتاب الادب ما یستحب من العطاس الخ، ص1540، حدیث6223، ملتقظاً)
علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ اس کی وجہ
بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:"جماہی زیادہ کھانے کی وجہ سے ہوتی ہے اور یہ سُستی
کی علامت ہے، اس لئے اللہ پاک کو ناپسند
ہے۔"(فیض القدیر، ج2، ص367، تحت الحدیث1871) معلوم ہوا کہ اللہ پاک اور اس کے
پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سستی کی علامات کو بھی پسند نہیں فرماتے تو ایک
مسلمان شخص کیوں کر اسے پسند کرے گا۔
سُستی اصل میں ہے
کیا؟
"سستی اصل میں رفتار کا وصف ہے،
ایک کام آپ ایک گھنٹے میں کر سکتے ہیں، لیکن اس سے غفلت برت کر اسے دو، تین یا چار گھنٹے میں پورا کرتے ہیں تو یہ سُستی
ہے،" کام کرنے کو دل نہ کرنا، آج کام بلاوجہ اگلے دن پر ڈال دینا، "ابھی
کرتا ہوں" اچھا کرتا ہوں" کہہ کر کام کو مُلتوی کردینا بھی سُستی ہی کا
حصّہ ہے۔ ایک برطانوی مصنف پارکسن سن نے لکھا ہے" کہ جب ہم کسی کام کو کرنے
کے لئے بہت سا وقت مختص کریں تو وہ کام پھیل جاتا ہے۔"
سُستی کے طبی اسباب:
سُستی بعض اوقات جسمانی امراض کی
وجہ سے ہوتی ہے، مثلاً نیند پوری نہ ہو تو
سستی آتی ہے، ٹینشن ہو تو کام کی رفتار سُست
پڑ جاتی ہے، بلڈپریشر یا شوگر لیول لو(low) ہو جائے تو سستی کا سبب بنتی ہے، جسم میں خون یا وٹامن کی کمی ہوجائے، موسمی تبدیلی کا بھی ہمارے مزاج پر اثر پڑتا ہے،
ان سب کے علاوہ ایک شخص جسے جسمانی طور پر
کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، مگر یہ اس کے مزاج
کا حصّہ بن جاتی ہے، ایسی سُستی باطنی
امراض کی وجہ ہوتی ہے، جو کہ نقصان دہ
ثابت ہوتی ہے، ہم سب ہی اس بُری عادت سے
جان چھڑانا چاہتے ہیں، مگر اس سے بچنے میں
کامیاب نہیں ہو پاتے، آئیے!اپنی رہنمائی
کے لئے ہمارے بزرگانِ دین رحمہم اللہ المبین کی حیات مبارکہ سے ایک مثال ملاحظہ
کیجئے:
کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز
رحمۃاللہ علیہ سے ایک موقع پر کسی نے کہا کہ حضور یہ آج کا کام کل کے لئے رکھ دیں،
کل کر لیجئے گا، تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا:" مجھ
سے ایک دن کا کام بمشکل ہوپاتا ہے، تو کل
میں دو دن کا کام کیونکر کر سکوں گا۔" اس حکایت سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوا کہ
اگر ہم آج کے کام کو آج ہی کرنے کی عادت بنالیں تو ہمارے لئے آسانیاں ہی آسانیاں
ہوں۔
آئیے!سُستی کو دور کرنے اور
چھٹکارا پانے کے لئے چند علاج ملاحظہ کیجئے اور اس سے اپنا آج اور کل سنوارئیے:
1۔ٹال مٹول مت کیجئے:
اپنے کاموں کو آج کی بجائے کل پر ملتوی نہ کیجئے،
سستی کی سب سے اہم وجہ طول امل(لمبی امیدیں)
ہیں، جو کام آپ کل کے لئے چھوڑ رہے ہیں، اسے آج ہی بجا لائیے، کیونکہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں اور لمبی
امیدوں کا شکار ہوکر کام ادھورا چھوڑنا، خود کو دھوکہ دینے والی بات ہے۔(ابن ماجہ، کتاب:تجارت، صفحہ 357، حدیث 2236)
اسی طرح مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں
چاہئے کہ اپنے گناہوں پر نادم ہو کر آج کے آج ہی توبہ کرلیں، اس سے بالکل غفلت نہیں برتنی چاہئے، اللہ عزوجل
کے دیئے گئے قیمتی لمحات کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اسے راضی کر لینا چاہئے۔
2۔صبح جلدی اُٹھنے کی عادت بنائیے:
اللہ کے آخری نبی، رسول ِہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی"یا اللہ پاک! میری امت کے صبح کے وقت
میں برکت عطا فرما" الحمداللہ صبح کے کاموں میں برکت ہوتی ہے، لہذا! اپنی عادت بنا لیجئے کہ صبح وقت پر بیدار
ہو کر فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد اپنے تمام دن کے کاموں کا ایک سادہ اور آسان سا
جدول بنا لیجئے، شروع میں اپنے لئے تھوڑے
تھوڑے کاموں کو مختص کرکے انہیں ان کے اوقات پر بجا لانے کی کوشش کیجئے، اس طرح جب معمول کے مطابق عادت بن جائے گی، تو بڑے بڑے کاموں کو بھی باآسانی عمل میں لایا
جاسکے گا۔
3۔ محاسبہ کی عادت بنائیے:
روزانہ اپنا محاسبہ کرنے کی عادت
بنالیجئے، کہ اس سے دنیا و آخرت دونوں
جہانوں کے بے شمار فائدے حاصل ہوں گے، اس
کا بہت ہی آسان اور بہترین طریقہ ہمارے پیارے پیر و مرشد، امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کے عطاکردہ
نیک اعمال کے مطابق عمل کرتے ہوئے اپنے اعمال کا جائزہ لینا ہے، اپنے محاسبے سے ہوگا یہ کہ آپ کو اپنے بارے میں
غور و فکر کرنے کا موقع ملے گا اور آپ اللہ عزوجل کی دی ہوئی زندگی اور سانسوں کو
کن کاموں میں بجالاتے ہیں، وہ سامنے آئے
گا، اپنے روزمرہ کے کاموں میں غور و فکر کرنے سے اپنی زندگی کا اصل
مقصد سمجھ میں آئے گا۔
4۔ اچھوں کی صحبت اختیار کیجئے:
یقیناً یہ آپ سب کے علم میں ہوگا
کہ صحبت کا انسان پر کس قدر اثر ہوتا ہے، اچھوں کی صحبت اچھا اور بروں کی
صحبت بُرا بنا دیتی ہے، اپنے قیمتی وقت کی قدر کرتے ہوئے بری صحبتوں سے حتی الامکان دور رہیئے اور اپنا
وقت ان میں ضائع کرنے کے بجائے اپنے اہم اور ضروری کاموں پر صرف کیجئے، اچھے صحبت حاصل کر نے کے لئے دعوتِ اسلامی کے
مدنی ماحول سے وابستہ ہو جائیے۔
5۔موبائل کے غیر ضروری استعمال سے
بچئے:
جہاں تک ممکن ہو، موبائل کا استعمال کم سے کم کیجئے اور سوشل
میڈیا اور دیگر غیر ضروری کاموں میں موبائل کا استعمال وقت کی بربادی کا ذریعہ ہے،
اپنا وقت اس میں ضائع کرنے کی بجائے اپنے
بنائے ہوئے جدول کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کیجئے، آسانیاں ہی آسانیاں فراہم ہوں گی۔
آخر میں اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ
ہمیں اپنی عطا کی گئی نعمت زندگی کی قدر کرنے اور اس کے قیمتی لمحات کو ضائع کرنے
کے بجائے نیک اور جائز کاموں میں صرف کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
آج کا کام کل پر مت چھوڑئیے، ورنہ اس کا نقصان آپ ہی کو اٹھانا پڑے گا، کہتے ہیں" گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں"
سبق آموز حکایت:
لہذا آج کا کام آج ہی کرنا ہوگا، کیونکہ کل کل کا ہی کام کرنا ہے، جیسا کہ ایک
طالب علم سارا سال اپنی پڑھائی پر توجّہ دینے کی بجائے کہتا ہے کہ آج نہیں سبق یاد
کرنا، میں کل کرلوں گا، پھر جب کل آتی ہے، تب بھی وہ یہی جملہ کہتا ہے کہ آج نہیں کل کر
لوں گا، یوں آہستہ آہستہ سال مکمل ہو جاتا
ہے اور امتحانات سر پر آ جاتے ہیں، اب حال
یہ ہے کہ طالبعلم اپنی پڑھائی پر توجّہ نہ دے سکنے پر بہت پچھتاتا ہے اور سوائے رسوائی
کے اور کوئی چارہ نہیں ہوتا ، آخر وہ یہی
کہتا ہے کہ" کاش! میں نے روزانہ کا کام، روز کیا ہوتا، روز انہ کا سبق روز یاد کیا ہوتا تو آج یہ نوبت نہ آتی، یوں وہ سراسر نقصان
اٹھاتا ہے اور پھر کامیابی کی منزل طے نہیں کر پاتا۔" اس لئے ہمیں چاہئے کہ آج کا کام آج ہی کریں، کل پر مت چھوڑیں، وقت کی قدر کیجئے، وقت بہت ہی قیمتی اور انمول تحفہ ہے۔ آج عمل کا موقع ہے:
امیر المؤمنین حضرت سیّدنا علی المرتضیٰ شیرِخدا
کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم نے ایک مرتبہ کوفہ میں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:اے
لوگوں! بیشک تمہارے بارے میں مجھے سب سے زیادہ اس بات کا خوف ہے کہ کہیں تم لمبی
لمبی امیدیں نہ باندھ بیٹھو اور خواہشات کی پیروی میں نہ لگ جاؤ، یاد رکھو! لمبی امیدیں آخرت کو بھلا دیتی ہیں
اور خبردار! نفسانی خواہشات کی پیروی راہِ حق سے بھٹکا دیتی ہے، خبردار! دنیا عنقریب پیٹھ پھیرنے والی اور آخرت
جلد آنے والی ہے، آج عمل کا دن ہے، حساب کا نہیں، کل حساب کا دن ہوگا، عمل کا نہیں۔
کوچ ہاں اے بےخبر ہونے کو ہے
کب تلک غفلت سحر ہونے کو ہے
باندھ لے تو شہ سفر ہونے کو ہے
ختم ہر فردِ بشر ہونے کو ہے
( موت کا تصور، ص38)
فرمانِ مصطفی صلی
اللہ علیہ وسلم:
پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے
غنیمت جانو، 1۔جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، 2۔صحت کو بیماری سے پہلے، 3۔مالداری کو
تنگدستی سے پہلے، 4۔فرصت کو مشغولیت سے پہلے، 5۔زندگی کو موت سے پہلے۔(چھٹیاں کیسے
گزاریں، صفحہ نمبر 4)
وقت کی قدر کیجئے:
وقت کی قدر کرتے ہوئے آج کا کام اگر آج ہی کریں
گے تو کامیاب ہو جائیں گے، آج وقت ہے، ہمیں چاہئے کہ ہم آج ہی نیکیوں پر استقامت حاصل
کرنے کے لئے کمر بستہ ہو جائیں، پتہ نہیں
ہمیں کل کا وقت بھی مل پائے گا یا نہیں۔
بعض لوگ نماز میں سستی کرتے ہیں
کہ آج نہیں، کل سے نماز شروع کروں گا، بعض
بے باک لوگ تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ
ابھی تو میری عمر ہی کیا ہے؟، جب بوڑھا ہوں گا تو نمازیں پڑھوں گا، نمازوں کے ساتھ ساتھ تہجد بھی پڑھوں گا، دیگر عبادات بھی بجا لاؤں گا، لیکن یہ زندگی تو صرف اتنی سی ہے کہ سانس کی
مالا ٹوٹ گئی تو بس، اب کچھ کرنے کی ہمت
نہ رہی، موت کسی بھی وقت آسکتی ہے، آج تو کئیں بچے پیدا ہوتے ہی وفات پا جاتے ہیں، تو اے نادانو! ذرا سوچئے کہ آپ کس طرح یہ جملہ
کہتے ہیں کہ جب بوڑھا ہو جاؤں گا تو ہی نماز پڑھوں گا، عبادتیں کروں گا، ایسا بالکل بھی نہیں کہنا چاہئے، توبہ کیجئے، اپنی نمازیں قضا نہ کریں کہ بلاوجہ نماز قضا
کرنے والوں کا نام جہنم کے دروازے پر لکھ دیا جاتا ہے۔
آج کا کام کل پر
چھوڑنے کا ایک سبب:
"لمبی امیدیں بھی ہیں، کیونکہ لمبی امید ہوتی ہے تو اس لئے وہ کہتا ہے
کہ کل کرلوں گا، کس کو کیا پتہ؟ کل آئے گی
بھی یا نہیں، لہذا! ایسا نہ کیجئے، لمبی امیدیں نہ لگائیں، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امید کہتے کس کو ہیں۔
امید کسے کہتے ہیں"
دراز ی عمر کی آرزو اُمید ہے اور کسی چیز سے سیر
نہ ہونا، ہمیشہ زیادتی کی خوا ہش رہنا حرص
ہے، یہ دونوں چیزیں اگر تو دنیا کے لئے ہیں،
تو بری ہیں اور اگر آخرت کے لئے ہیں، تو اچھی۔ (مراٰۃ المناجیح، جلد 7، صفحہ 75)
انمول ہیرے:
دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے
مکتبۃالمدینہ کے مطبوعہ 26 صفحات پر مشتمل رسالے"انمول ہیرے" صفحہ 2 پر
شیخِ طریقت، امیر اہلسنت، بانی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال
محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں:"ایک
بادشاہ اپنے مصاحبوں کے ساتھ کسی باغ کے قریب سے گزر رہا تھا کہ اس نے دیکھا، باغ میں سے کوئی شخص سنگریزے پھینک رہا
تھا، ایک سنگریزہ خود اس کو آ کر لگا، اس نے خدّام کو دوڑایا کہ جاکر سنگریزے پھینکنے
والے کو پکڑ کر میرے پاس لاؤ، چنانچہ
خدّام نے ایک گنوار کو حاضر کر دیا، بادشاہ نے کہا" یہ سنگریزے تم نے کہاں سے حاصل کئے؟ اس نے ڈرتے ڈرتے
کہا" میں ویرانے میں سیر کر رہا تھا کہ میری نظر ان خوبصورت سنگریزوں پر پڑی، میں نے ان کو جھولی میں بھر لیا، اس کے بعد پھرتا پھراتا اس باغ میں آ نکلا اور
پھل توڑنے کے لئے ان کو استعمال کیا، بادشاہ بولا"یہ پتھر کے سنگریزے دراصل
انمول ہیرے تھے، جنہیں تم نادانی کے
سبب ضائع کر چکے"، اس پر وہ شخص افسوس کرنے لگا، مگر اب اس کا افسوس کرنا بیکار تھا کہ وہ انمول
ہیرے اس کے ہاتھ سے نکل چکے تھے۔
یہ حکایت ہمیں اپنی زندگی کے
قیمتی لمحات کی قدردانی کا سبق دے رہی ہے کہ گزرتے وقت کا ہر لمحہ ایک قیمتی ہیرا
ہے، اگر یوں ہی بیکار ضائع کر دیا تو سوائے
حسرت و ندامت کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا، وقت
کی قدر کیا ہے؟آئیے اس کو قرآن کریم کی مشہور و معروف سورہ عصر سے سمجھنے کی کوشش
کرتے ہیں:
اِرشاد ہوتا ہے، ترجمۂ
کنزالایمان:" اس زمانۂ محبوب کی قسم! بیشک آدمی ضرور نقصان میں ہے، مگر جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے اور ایک
دوسرے کو حق کی تاکید کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔"(پ30،العصر: 1-3)
سورۂ عصر ہمیں پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ ہم اپنی زندگی اور وقت کی اہمیت کو
سمجھیں۔
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے
منادی
قدرت نے گھڑی عمر کی اِک اور گھٹا
دی
آج کا کام کل پر مت ڈالئے، معلوم نہیں زندگی کا سورج کس وقت غروب ہو جائے، کیوں کہ جب بھی کسی نیک کام کاکہا جاتا ہے، تو عام طور پر یہی جواب ملتا ہے" کل سے
کروں گا"، مشہور مقولہ ہے:"tomorrow never come do your work today"یعنی کل کبھی نہیں آئے گی، آج ہی اپنا کام کر لو، یہ بات سبھی جانتے ہیں، مگر افسوس پھر بھی یہ "کل" ہمارے اور
نیک اعمال کے درمیان حائل ہے، ہمیں اپنی
زندگی سے اسی کل کے سلسلے کو ختم کرکے "جو کرنا ہے آج اور ابھی کرنا ہے"
کو اپنا مقصد بنانا ہوگا، آج کا کام کل پر
مت چھوڑئیے، کل کوئی دوسرا کام ہوگا اور
کل کل میں آج کا کام بھی نہ ہو پائے گا، لہذا کل کی بجائے آج اور آج کی بجائے ابھی کا ذہن بنانا ہوگا، کیونکہ دل کے خیالات بدلتے رہتے ہیں۔
حضرت سیّدنا امام بیہقی علیہ رحمۃ اللہ القوی
شعب الایمان میں نقل کرتے ہیں کہ تاجدارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عبرت
نشان ہے:"روزانہ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اس وقت "دن"یہ اعلان کرتا
ہے، اگر آج کوئی اچھا کام کرنا ہے تو کر
لو کہ آج کے بعد میں کبھی پلٹ کر نہیں آؤں گا۔"
اللہ عزوجل ہم
سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
بے ادبی ایسی نحوست ہے جس کے سبب انسان صرف خود
کو خراب نہیں کرتا بلکہ بعض اوقات سارے عالم میں آگ لگاتا ہے بنی اسرائیل کوآسمان
سے کھانا آتا حضرت موسی علیہ السلام کی قوم میں سے چند بے ادبوں نے کہا لہسن اور میسور
کیوں نہیں آتے؟ آسمان سے غذا آنا بند ہوگئی پھر جب سیدنا موسی علی نبینا و علیہ الصلاۃ
والسلام نے سفارش کی تو اللہ پاک نے مال غنیمت بھیجا پھر انہوں نے بعد کے لئے
بچا کر رکھ لیا حالانکہ انکو منع کیا گیا تھا سیدنا موسی کلیم اللہ نے کہا یہ ختم نہیں ہو گا صبر اور شکر کے ساتھ کھاؤ بد گمانی اور لالچ سے نا شکری ہوتی ہے
لیکن وہ باز نہ آئے ان لالچیوں کی ناشکری
کی وجہ سے رحمت کا دروازہ بند ہو گیا من و سلویٰ آنا بند ہوگیا۔
بے
ادبی اعمال کی بربادی کا سبب:
قرآن
کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ
بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان کے
حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں
تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو ۔ ( الحجرات : 02 )
تفسیرِ روح
البیان میں ہے کہ پہلے زمانے میں جب کوئی نوجوان کسی بوڑھے آدمی کے آگے چلتا تھا
تو اللہ اسے (اس کی بے ادبی کی وجہ سے) زمین میں دھنسا دیتا
تھا۔
کسی شخص نے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کی کہ میں فاقہ کا شکار رہتا
ہوں تو آپ نے فرمایا کہ تو کسی بوڑھے شخص کے آگے چلاہوگا۔ (آداب
مرشد کامل، ص 25)
محفوظ خدا رکھنا سدا بے ادبوں سے
اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے ادبی ہو
ادب
پہلا قرینہ محبت کے قرینوں میں:
حدیث پاک میں
ہے کہ اصحابِ کہف اللہ والوں سے محبت کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کتے کو انسانی شکل میں جنت میں داخل
فرمائے گا اب دیکھیں اللہ والوں سے محبت کرے، اگر نجس جانور وہ تو جنت میں
داخل ہوجائے اور بلعم بن باعورا جس نے نبی کی بے ادبی کی حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کی
شان میں گستاخی کی ، انسان ہونے کے باوجود فرمایا کہ بے ادبی کی وجہ سے یہ جہنم میں کتے کی شکل میں جائے
گا۔(الملفوظ (کامل )حصہ سوم ، صفحہ 457)
بے
ادبی کا وبال :
شیطان نے
لاکھوں سال اللہ پاک کی عبادت کی ایک قول کے مطابق چھ لاکھ سال
عبادت کی اور وہ صرف ایک بے ادبی کی وجہ سے چھ لاکھ سال کی عبادت ضائع کر بیٹھا
اور وہ بے ادبی حضرت آدم علیہ السّلام کی تعظیم نہ کرنا تھا ۔
(
ادب کی اہمیت از مفتی امین صاحب ص26 مطبوعہ جمیعت اشاعت اہلسنت)
بے
ادبی کی نحوست مولانا روم کی نظر میں:
اسلامی تعلیمات
بالخصوص قرآن و احادیث مقدسہ میں تہذیب نفس اور کردار سازی میں ادب کو جو اہمیت
حاصل ہے وہ اظہر من الشمس ہے، یہی وجہ ہے کہ صوفیاء بھی ادب کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔مولانا رومی اپنے آثار میں مختلف حکایات
کے ذریعہ ادب کی اہمیت بیان کرتے ہیں اور بے ادبی کی نحوست اور برائی کے سلسلہ میں
فرماتے ہیں :
از خدا جوئیم توفیق ادب
بے ادب محروم ماند از فضلِ رب
ہم خدا سے
ادب کی توفیق چاہتے ہیں اور بے ادب ہمیشہ خدا کے فضل سے محروم رہتا ہے
(مثنوی
مولوی، دفتر دوم)
ہم اللہ پاک سے ادب کی توفیق چاہتے ہیں اور بے آدمی کی
نحوست سے پناہ مانگتے ہیں۔
ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا
ارشاد ہے کہ وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں
کا ادب نہ کرے ۔
انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے اللہ تعالیٰ کی صفات
کا مظہر ہونا چاہیے اس بنا پر انسان سے یہ توقع کی گئی ہے کہ وہ اپنے اندر اپنے
خالق کی صفات پیدا کرلے اور اپنے قول و فعل سے ان کا اظہار بھی کرے ، مثلا اللہ
تعالیٰ کی صفت ہے کہ وہ عادل ہے اس لیے عدل کرے، اللہ در گزر کرتا ہے، انسا ن کو
بھی چاہیےکہ وہ ایک دوسرے کی خطاؤں اور غلطیوں سے در گزر کرے، رحم کرنا اللہ
تعالیٰ کی سب سے غالب صفت ہے ، نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اس حدیث میں
خاص طور پر رحمت پر زور دیا گیا ہے رحم کے حق دار ہمیشہ زیادہ چھوٹے ہوا کرتے ہیں
اور بالعموم بڑے عزت و تکریم کے حق دار ہوا کرتے ہیں، اور بالعموم بڑے عزت و تکریم
کے حقدار ہوتے ہیں اس لئے ۔
نبی کریم صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا، اور بڑوں
کی عزت نہیں کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔
یعنی وہ میرے سایہ
شفقت سے محروم رہے گا۔
بچوں کو مناسب
تعلیم و تربیت سے محروم رکھنا، انہیں شفقت سے محروم رکھنا ہےاس لیے اگر ہم حضور
اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی وعید سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمارے لیے ضروری ہے
کہ ہم بچوں کی مناسب تعلیم اور ضروری تربیت کا فر ض پورا کریں ہمیں بھی چاہیے کہ
ہم اپنے سے بڑوں کا ادب کریں اور اپنے سے چھوٹوں پر شفقت کریں۔
ادب آپ کو کسی بھی معاشرے میں مقام و مرتبہ دلا سکتاہے، بے
ادبی کی وجہ سے بنے ہوئے کام بھی بگڑ جاتے ہیں، ادب معاشرہ میں سب سے اہم چیز ہے،
ادب سے ہم کسی بھی چیز کو حاصل کرسکتے ہیں، لیکن بے ادبی کی وجہ سے ہم کوئی بھی چیز
نہیں حاصل کرسکتے ہیں، وقت ایک لازوال دولت ہے جس کا ہمیں ادب کر نا چاہیے وقت جو
ہے وہ کبھی کسی کا انتطار نہیں کرتا وقت ہی کی قدر کی وجہ سے قومیں زیادہ آباد
ہوئیں اورترقی کی ، وقت کی قدر نہ کرنے کی وجہ سے قومیں زیادہ خراب ہوئیں، اور ان
کانام و نشان ہی صفحہ ہستی سے مٹ گیا، وقت کی قدر اہمیت کسی کو بھی نظر انداز نہیں
کرنی چاہیے، وقت کی قدر کے بغیر انسان اپنی اہمیت کو بیان نہیں کرسکتا ہے، ہمیں ہر
چیز کا ادب کرنا چاہیے کہ جو چیز جہاں پر ہے وہاں رکھنی چاہیے مثل مشہور ہے کہ با
ادب با نصیب اور بے ادب بے نصیب ہوتا ہے۔
جو شخص دوسروں کی عزت نہیں کرتا اس کی کبھی عزت نہیں ہوتی
ہے، ادب کی وجہ سے انسان بہت سی برائیوں سے بچ جاتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کا محبوب
بندہ بن جاتا ہے، ادب ہی کی بدولت انسان ترقی کی منازل طے کرتا ہے، بے ادبی کی
نحوست کی وجہ سے انسان پستی کی طرف چلا جاتا ہے، جو قومیں ادب کونظر انداز کردیتیں
ہیں ان کا معاشرے میں کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا ہے، بے ادبی کی نحوست کی وجہ سے
انسان اس دنیا میں بھی اور د وسرے جہان میں بھی برباد ہوتا ہے، بے ادبی کی نحوست
انسان کو گناہوں کی طرف لے جاتی ہے، بے ادبی کی نحوست کی وجہ سے ہی مختلف قوموں کا
نام و نشان ہی اس دنیا سے مٹ گیا۔
روایت ہے کہ جب جنگ
تبوک کے موقع پر حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جنگ تبوک کے موقع پر سفر
میں قوم ثمود کے کھنڈرات دیکھے تو آپ نے فرمایا کہ خبردار کوئی شخص اس گاؤں میں
داخل نہ ہو اور نہ ہی کوئی شخص ا س گاؤں کے کنویں کا پانی پئے اور تم لوگ اس عذاب
کی جگہ سے خوفِ الہی عزوجل میں ڈوب کر روتے
ہوئے اور منہ ڈھانپے ہوئے جلد سے جلد گزر جاؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی عذاب اُتر
پڑے۔
کتابیں اور کاپیاں
جو کہ علم کا ذریعہ ہیں ہمیں ا ن کا ادب کرنا چاہیئے ، کتابوں اور کاپیوں کو ان کی
جگہ پر ہی رکھنا چاہیے دینی کتابوں کا بھی ادب کرنا چاہیے، انسان کو اپنے استاد کا
ادب احترام کرنا چاہیے ادب ہی کی بدولت انسان زندگی میں آگے بڑھ سکتا ہے، ادب اور
بے ادب میں فرق ہوتا ہے، جو انسان ادب کرتا ہے اس کی ہر جگہ پر عزت ہوتی ہے بے
ادبی انسان کے نیک اعمال کو کھا جاتی ہے،
طالبِ علم کو اپنے اساتذہ کے پیچھے چلنا چاہیے ۔
دنیا کے تمام عالم اقوام میں ان ہی قوموں نے ترقی کی ہے
جنہوں نے وقت کی اہمیت کو سمجھا او ر اپنے سے بڑے کا ادب کیا، ہر انسان کو چاہیے
کہ وقت کے مطابق کام کرے، ہر انسان اپنے ماحول بنانے کی کوشش کرے، اپنے اہل خانہ
کو اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کا ذہن دینا بھی ایک مسلمان کی اہم ذمہ
داری ہے ، عموماً گھر کے مختلف افراد کی سوچ مختلف ہوتی ہے، ان مختلف ذہنیت رکھنے
والوں کو دین کے راستے پر لانے میں گھر کی خواتین اہم کردار ادا کرسکتی ہیں، اللہ
تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔
اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے
بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔
اللہ پاک اور اس کے
رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی فرمانبرداری اختیار کرکے عبادتیں بجالا کر
گناہوں سے باز رہ کر اور گھر والوں کو نیکی کی ہدایت اور بدی سے ممانعت کرکے اور
انہیں علم و ادب سکھا کر اپنے اہل خانہ کو نیکی کی طرف مائل کرنا، گناہوں سے نفر ت
دلانا اور گھر میں دینی ماحول بنانا ہماری ایک بہت بڑی ضرورت ہے، او راس کے لیے
گھر کے افراد ہماری بات سننے پر آمادہ ہوں اور وہ کون سا طریقہ ہے جس سے گھر میں
ماں باپ، بہن بھائی ساس نند سبھی ہماری بات سنیں اور ہمارے قریب آئیں ؟ قرآن پاک
سے پتا چلتا ہے کہ نرم دلی لوگوں کو قریب کرتی ہے، اور سخت مزاجی منتفر ہونے کا
سبب ہے۔
قرآن
پاک میں ترجمہ ہے، تو کبھی کچھ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے
لیے نرم دل ہوئے اور اگر تند ومزاج سخت دل ہوتے تو وہ ضرور تمہارے گرد سے پریشان
ہوجاتے ۔
اسی
طرح رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مبارک سیرت سے بھی پتا چلتا ہے کہ
نرمی ہمارے گھر والوں کی بھلائی کا ذریعہ ہے، فرمایا: اے عائشہ نرمی اختیار کرو جب
اللہ کریم کسی گھر والوں سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو انہیں نرمی عطا فرمادیتا
ہے۔
گھر میں دینی ماحول بنانے کے لیے مزید یہ کہ گھر
میں دعا بھی کرنی چاہیے اور گھر والوں سے مخالفت اور سختی پر صبر و تحمل سے کام
لینا چاہیے کوئی بات مانے یا نہ مانے آپ ہر جائز کام میں سبھی کی بات مانیں، یہ
چھوٹی چھوٹی باتیں د وسروں کی نظر میں آپ کی اہمیت بڑھائیں گی ، اور بالاخر وہ بھی
آپ کی بات سنیں گے۔
انسانوں میں ادب و احترام کاشعور روزاول سے ہے ، اسلامی
تعلیمات ، خصوصاً قرآن وحدیث میں تہذیبِ نفس اور کردارسازی میں ادب کوجو اہمیت حاصل ہے وہ اظہر من الشمس
ہے۔
ادب ہی نسان کو حیوانوں سے جدا کرتا
ہے ۔ادب ہی انسان کی معراج اور ارتقا کا ذریعہ ہے ۔ادب ہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر انسان عزت و عظمت کی چوٹی پر پہنچ جاتا ہے اور بے ادبی وہ کھائی ہے جس میں گر کر
انسان ذلت و رسوائی کی گہرائی میں چلا
جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام میں ادب کی بڑی اہمیت ہے ، بلکہ عربی کا ایک مشہور
مقولہ ہے ۔ الدین کلہ ادب ، دین
سارے کا سارا ادب ہے ۔
الشاہ امام احمد
رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ :
کردم
ازعقل سوالے کہ بگو ایمان چیست
عقل
در گوش دلم گفت ایمان ادب است
میں نے عقل سے پوچھا کہ بتا ایمان کیا ہے ؟ عقل نے میرے
دل کے کان میں کہا ایمان ادب کا نام ہے۔ (فتاوی رضویہ ،ج۲۳، ص ۳۹۳)
ادب کی وجہ سے بعض
اوقات انسان وہ مقام و مرتبہ حاصل کر لیتا ہے جو کئی سالوں کی محنت سے بھی نہیں حاصل
کر پاتا۔اور بے ادبی کی وجہ سےانسان آن
کی آن میں بلندوبالا مقام سے پستی و ذلت کی کھائیوں میں جا گرتا ہے ۔ کسی نے کیا خوب
کہا : ما وصل من وصل الا بحرمۃ و ما سقط من سقط الا بترک الحرمۃ۔ یعنی جس
نے جو پایا ادب و احترام کی وجہ سے پایااور جس نے جو کھویا ادب و احترام نہ کرنے
کی وجہ کھویا۔ (تعلیم المتعلم و طریق
التعلم )
امام رویم رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : اجعل عملک ملحا و ادبک
دقیقا۔
اپنے عمل کو نمک اور ادب کو آٹا بناو۔ یعنی کم عمل پر زیادہ ادب کی حاجت ہے۔ (الطرر والحواشی علی الحکم العطائیہ،ص ۹۶)
تویاد رکھیں کہ جس طرح ادب سے انسان کوبلندیاں اور رفعتیں ملتی ہیں ۔ اسی طرح بے ادبی سے انسان کو نحوستیں اور ذلتیں بھی ملتی ہیں ۔ادب سے قومیں بنتی
ہیں بے ادبی سے فنا ہوتی ہیں ۔تاریخ شاہد ہے کہ گذشتہ زمانوں میں جن قوموں کو ہلاکت خیز عذاب سے
دو چار کیا گیا اور ان کو صفحہ ہستی
سے مٹا کر عبرت کا نشانہ بنایا گیا ،
اس کی وجہ صرف اللہ کی
نافرمانی ہی نہ تھی بلکہ انبیاء و رسل اوراولیاء واتقیاء کی بے حرمتی اور بے ادبی
بھی تھی۔
حضرت ذالنون مصری
فرماتے ہیں کہ : اذا
خرج المرید عن الحدالادب فانہ یرجع من
حیث جاء۔
جب مرید ادب کی حد
یں توڑدے تو وہ لوٹ کروہیں پہنچ جا تا ہے جہاں سے چلا تھا۔
(الطرر
والحواشی علی الحکم العطائیہ،ص ۹۶، رسالہ
قشیریہ)
پہلے زمانے میں
کوئی نوجوان کسی بوڑھے کے آگے چلتا
تو اللہ اسے (
بطورسزا) زمین میں دھنسا دیتا۔
(روح
البیان، پارہ ۱۷)
ایک شخص نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں
فاقہ کی شکایت کی تو فرمایا کہ ضرور تو کسی بوڑھے شخص کے آگے چلا
ہو گا۔ (روح البیان، پارہ ۱۷)
شیطان نے لاکھوں
سال اللہ کی عبادت
کی ۔ایک قول کے مطابق اس نے 6 لاکھ سال عبادت کی ۔ صرف ایک بےادبی کی وجہ سے 6
لاکھ سال کی عبادت ضائع کربیٹھا ۔
علماء فرماتے ہیں
: اپنے شیخ اورمرشد کی گستاخی و بے ادبی سلب توفیق اور خذلان کا سبب بنتی ہے اور
آخر کاریہ بے ادبی متاع ایمان کوبھی ضائع کر دیتی ہے۔(معاذ اللہ )
آج کے معاشرے کا
اگرجائزہ لیا جائے تو واضح ہے کہ لوگوں
نے کس جراءت کے ساتھ علماء اور دیندار طبقہ کی بے ادبی اور ان پر بے جا تنقید کرنے کو
اپنا شیوہ بنایا ہے۔ فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ جو شخص علماء کی توہین و بے ادبی
کرتا ہے اس پر کفر اور سوئے خاتمہ کا اندیشہ ہے۔
علامہ ابن نجیم
مصری فرماتے ہیں : الاستہزاء بالعلم
والعلماء کفر
۔علم اور علماء کی توہین کفر ہے۔
(الاشباہ
والنظائر، باب الردۃ)
بے
ادب کیلئے حدیث میں وعید :
لیس من امتی من لم یجل کبیرنا و
یرحم صغیرنا،و یعرف لعالمنا حقہ۔ حضورﷺ فرماتے ہیں جو ہمارے بڑوں کا ادب
نہ کرے ، ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے ،اور ہمارے عالم کا حق نہ پہچانے وہ میری امت
میں سے نہیں ۔(مستدرک للحاکم،مسنداحمد)
اللہ پاک ہمیں بے
ادبی اوربے ادبوں سے بچائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محفوظ
سدا رکھنا شہا بے ادبوں سے
اور
مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے ادبی ہو
دینِ اسلام ہمیں ہر ہر معاملے میں ادب کی تعلیم دیتا ہے کہ
ہم مقدس ہستیوں، متبرک مقامات اور با برکت چیزوں کا احترام کریں اور بے اَدَبی اور
بے اَدَبوں کی صحبت سے اپنے آپ کو دور رکھیں۔ جیسا کہ منقول ہے کہ :
” مَا وَصَلَ مَنْ وَصَلَ إلِّا بالحُرْمَۃ وَمَا
سَقَطَ مَنْ سَقَطَ إلَّا بِتَرْکِ الحرمۃ والتَعْظَیْمِ“ یعنی جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کے سبب سے پایا اور
جس نے جو کھویا ادب و احترام نہ کرنے کی وجہ سے ہی کھویا۔ ( تعلیم المتعلم طریق
التعلم، ص42)
اسی لیے کہا جاتا
ہے کہ " با ادب با نصیب، بے اَدَب بے نصیب " اللہ تعالیٰ نے فرمایا" وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ
اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے
کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ
ہو ۔( الحجرات : 02 )
شیطان
مردود کیوں قرا ر دیا گیا؟
شیطان نے لاکھوں سالاللہ
پاک کی عبادت کی ایک قول کے مطابق نو لاکھ
سال عبادت کی اور وہ صرف ایک بے ادبی کی وجہ سےنو لاکھ سال کی عبادت ضائع کر بیٹھا
اور اسی بے ادبی ب کے سبب وہ برباد ہوگیا
اور قیامت تک کے لئے مَردُود قرار دیا گیا۔ اور وہ بے ادبی حضرت آدم علیہ السّلام کی
تعظیم نہ کرنا تھا ۔
بے
ادبی کی وجہ سے فاقہ:
کتاب "آداب مرشد کامل " میں تفسیرِ روح البیان کے حوا لے سے ہے کہ پہلے زمانے میں جب کوئی نوجوان کسی بوڑھے
آدمی کے آگے چلتا تھا تو اللہ اسے (اس کی بے ادبی کی وجہ سے) زمین میں دھنسا دیتا
تھا۔
ایک اور جگہ ہے کہ
کسی شخص نے بارگاہ رسالت صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں عرض کی کہ میں فاقہ کا شکار
رہتا ہوں تو آپ نے فرمایا کہ تو کسی بوڑھے شخص کے آگے چلا ہوگا۔ (آداب مرشد کامل ص
25)
نبی
کی بے ادبی کے سبب جہنمی قرار:
بلعم بن باعورا جس نے اللہ کے نبی حضرتِ موسیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
شان میں گستاخی اور بے ادبی کی ، اس
کی اس گستاخی اور بے ادبی کی وجہ سے جہنم میں کتے کی
شکل میں جائے گا۔ اس کے بر عکس اللہ تعالیٰ اس کتے کو انسانی شکل میں جنت میں داخل فرمائے گا جس نے اصحابِ
کہف( جوکہ اللہ کے
نیک اولیاء میں سے تھے) کا ادب و احترام کیا ۔
اللہ کے نیک بندوں سے محبت کرنے والا ، ان کا ادب و احترام کرنے والااگرچہ ایک نجس
جانورہی کیوں نہ ہواللہ تعالیٰ اسے جنتی
بنادے ۔اور انسان اگر چہ اشرف المخلوقات ہے اللہ کے نبی
کی بے ادبی کرنے کے سبب جہنمی ہو جاتا ہے۔
اللہ
کے رسول کو ایذاء دینے والے کا انجام:
اللہ تعالیٰ نے نبی پاک صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایذاء دینے
والوں کے لئے دنیااور آخرت دونوں میں لعنت فرمائی ہے اور ان کے لیے ذلیل کرنے والا
عذاب تیار کر رکھا ہے، جیسا کہ
اللہ
تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ
یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ
الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا ترجَمۂ
کنزُالایمان: بےشک
جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت
میں اور اللہ نے اُن کے لیے ذلت کا عذاب
تیار کر رکھا ہے ۔ ( احزاب : 57 )
امیراہل
سنّت دَامَتْ
بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی جانب سے
عطاکردہ
ہفتہ وار
رسالہ
کام کے اوراد
اِس رسالے کی چندخصوصیات:
٭دیدہ زیب ودِلکش سرورق (Title) وڈیزائننگ (Designing) ٭عصرحاضرکے تقاضوں کے پیشِ نظرجدید کمپوزنگ وفارمیشن ٭عبارت کے معانی ومفاہیم سمجھنے کیلئے
’’علاماتِ ترقیم‘‘(Punctuation Marks) کا اہتمام ٭اُردو،
عربی اور فارسی عبارتوں کو مختلف رسم الخط (Fonts)میں لکھنے کا اہتمام ٭پڑھنے والوں کی دلچسپی برقرار رکھنے کیلئے عنوانات (Headings) کا قیام ٭بعض جگہ عربی عبارات مع ترجمہ کی
شمولیت ٭آیات کے ترجمہ میں کنزالایمان کی شمولیت ٭حسب
ضرورت مشکل اَلفاظ پر اِعراب اور بعض پیچیدہ اَلفاظ کے تلفظ بیان کرنے کا اہتمام ٭قرآنی آیات مع ترجمہ
ودیگر تمام منقولہ عبارات کے اصل کتب سے تقابل(Tally) کا اہتمام ٭آیات، اَحادیث،توضیحی عبارات، فقہی جزئیات کےحوالوں (References) کا خاص اہتمام ٭ اغلاط کوکم سے کم کرنے کےلئے
پورے رسالے کی کئی بار لفظ بہ لفظ پروف ریڈنگ۔
17صفحات پر
مشتمل یہ رسالہ 2021ءمیں اردو زبان کے1st ایڈیشن میں46ہزار کی تعداد میں پرنٹ ہو چکا ہے۔
مکتبۃ المدینہ کی کسی بھی شاخ سے16روپے
ہدیۃ پر حاصل کیجئے اوردوسرو ں کو بھی ترغیب دلائیے۔
اس رسالے کی PDF
دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ سے مفت ڈاؤن لوڈ بھی کی جاسکتی ہے۔