سینئر صحافی خالد چوہدری کے والد مرحوم کے انتقال پر تعزیت اور صحافیوں کے مرحومین کے لئے ایصال ثواب کا سلسلہ
میڈیا ڈیپارٹمنٹ
آف دعوت اسلامی کے زیر اہتمام 06 جون 2021ء بروز اتوار ملتان زون میں رکن مجلس و رکن زون محمد ریاض عطاری نے خانیوال
کے سینئر صحافی خالد چوہدری کے والد مرحوم کے انتقال پر تعزیت کی اور مرحوم کے لئے دعائے مغفرت کی۔
اسلام آباد اور فیصل آباد میں قائم دارالمدینہ کی ٹیچرزکا بذریعہ زوم تربیتی سیشن کاانعقاد
دعوتِ اسلامی کے شعبہ دارالمدینہ کےتحت گزشتہ دنوں اسلام آباد اور فیصل آباد میں قائم دارالمدینہ کی ٹیچرزکا بذریعہ زوم تربیتی
سیشن کاانعقاد ہوا جس میں 437 ٹیچرز نے شرکت کی ۔
عالمی مجلس مشاورت کی رکن اسلامی بہن نے اسلامی بہنوں کو دارالمدینہ کے نظام میں مزید بہتری لانے کےحوالے سے مدنی پھول دیئے اور اسٹوڈنٹس کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنےکاذہن دیا نیز دارالمدینہ میں اپنی ذمہ داریوں کومزید خوش اسلوبی سے انجام دینے کےحوالے سے نکات
بتائے۔
دعوتِ اسلامی کے تحت 9 جون 2021 ءبروز بدھ کو کراچی ریجن اور اسلام آباد ریجن میں
بذریعہ اسکائپ مدنی مشوروں کاسلسلہ
ہوا جن میں کراچی و اسلام آباد شعبہ علا قائی دورہ کی
ریجن و زون سطح کی اسلامی بہنوں نے شرکت
کی ۔
پاکستان نگران اسلامی بہن نے ’’ ترقی کے مدنی پھول ‘‘ کے موضوع سے
چند نکات بیان کرتے ہوئے اسلامی بہنوں کو علاقائی دورہ کرنے کےحوالے سے مدنی پھول دیئے
نیز ہفتہ وار رسالہ کارکردگی بڑھانے اورتقرریاں مکمل
کرنےکاذہن دیا جبکہ ماتحت کے ماہانہ
مشورے کا فالواَپ کرنے کی ترغیب دلائی جس پر اسلامی بہنوں نے اچھی نیتوں
کااظہار کیا۔
ہمیں آج کا کام کل پر نہیں چھوڑنا
چاہئے، بلکہ ہمیں آج کا کام آج ہی کرنا
چاہئے، ہمیں کیا معلوم کہ کل ہمارے ساتھ
کیا ہوگا، ہم زندہ ہوں گے یا نہیں اور اگر
آج کا کام کل پر چھوڑیں گے، تو کل کے بھی
تو کام ہوں گے، اس طرح کل کے جو ہمارے کام ہوں گے، وہ بھی نہ ہو سکیں گے، اس طرح کرنے
سے ہمارا کل کا جدول بھی خراب ہو گا، حضرت
عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ اپنا آج کا کام کل پر نہ چھوڑتے، ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کام میں
مصروف تھے تو کچھ لوگوں نے کہا کہ آپ تھوڑی دیر کے لئے سیر و تفریح کے لئے چلے
جائیں، تو آپ نے فرمایا کہ میرا آج کا کام
تم لوگ کرو گے؟ انہوں نے کہا" کہ آپ
اپنا آج کا کام کل کر لیجئے گا"، تو
آپ نے فرمایا : کہ میں ایک دن کا کام بمشکل کرتا ہوں، تو دو دن کا کام اکٹھا کیسے کروں گا۔
ہمیں آج کا کام آج ہی کرنا چاہئے، ایسے کل کریں گے، کل کریں گے، ایسا کرنے سے بعد میں پریشانی کا سامنا کرنا
پڑتا ہے، ایسے پھر بہت سارے کام اکٹھے
ہمارے سر پر آ جاتے ہیں اور پھر ہم کر نہیں سکتے۔مثال کے طور پر اگر طالب علم اپنا
روز کا سبق یاد نہ کرے، بلکہ یہ کہتا رہے
کہ کل کر لوں گا، تو اس طرح کرنے سے
امتحان سر پر آ جائیں گے اور اسے سارا اکٹھا یاد کرنا ہوگا اور سارا سب سبق اکٹھا
یاد کر نہیں پاتا، تو اس طرح پھر امتحان
میں کامیاب نہیں ہو پاتا۔ایسے لوگ جو کہتے ہیں کہ کل کر لیں گے، کل کرلیں گے، تو کل تو کبھی آئے گا ہی نہیں اور وہ خود کو بھی
پریشان کرتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو بھی پریشان کیا ہوتا ہے، ہمیں اس طرح کرنے سے بچنا چاہئے۔
حضرت امام ابنِ جوزی رحمۃ اللہ علیہ منہاج القاصدین میں فرماتے ہیں کہ "جو شخص
یہ کہتا ہے کہ ابھی رہنے دو کل کرلیں گے، تو وہ ایک ایسا آدمی ہے جو درخت کو کاٹنے کے لئے
جاتا ہے، اور درخت کو کاٹنا چاہتا ہے، لیکن وہ دیکھتا ہے کہ درخت بڑا مضبوط ہے، اس سے کٹتا نہیں ہے، تو وہ یہ سوچ کر چلا جاتا ہے کہ اگلے سال اسے
آکر کاٹ لوں گا، آپ فرماتے ہیں کہ وہ یہ
نہیں سوچتا کہ اگلے سال جب آؤں گا، تو
درخت مزید مضبوط ہو جائے گا، اور میری عمر بڑھ جائے گی اور میرے اندر مزید کمزوری
آ جائے گی، تو پھر اسے کاٹنا دشوار اور
مشقت والا عمل ہوجائے گا۔
اس طرح بعض لوگ اپنے فرائض و
واجبات کو بھی یہی سوچ کر ترک کردیتے ہیں
کہ کل کرلیں گے، نماز نہیں پڑھتے اور یہ
کہہ کر کہ ابھی تو نوجوان ہیں، بعد میں
پڑھ لیں گے، ابھی تو پوری عمر باقی ہے، بعد میں پڑھ لیں گے۔
ایسے لوگوں کو چاہئے کہ توبہ کریں اور آج سے ہی شروع کریں، کیا معلوم کہ کس وقت
موت کا پیغام آجائے کیونکہ موت نہ تو جوانی کا لحاظ کرتی ہے، نہ بڑھاپے کا اور پھر جوانی میں جتنی طاقت ہوتی
ہے، بڑھاپے میں اتنی نہیں، بلکہ بڑھاپے میں اعضاء بھی کمزور ہوجاتے ہیں، تو بڑھاپے میں تو ہم ادا نمازیں ہی بمشکل پڑھ
سکیں گے، تو وہ جوانی والی قضاء نمازیں
کیسے لوٹائیں گے، بلکہ ہمیں ایک جدول بنا لینا چاہئے اور اس کو کہیں سامنے لگا دیں، جس پر ہر وقت ہماری نظر پڑتی رہے اور پھر ہر کام
اسی جدول کے مطابق کریں، تو ہمیں پریشانی
کا سامنا نہ کرنا پڑے گا۔اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
دعوتِ اسلامی کے شعبہ اصلاح
ِاعمال للبنات کےتحت 8 جون2021 ء بروز منگل پاکستان
کے شہر راولپنڈی اور ملتان ریجن میں بذریعہ اسکائپ مدنی مشوروں
کاانعقاد ہوا جن میں لاہور ریجن و زون ، ملتان ریجن و زون
سطح علا قائی دورہ کی ذمہ داراسلامی بہنوں نے شرکت کی ۔
پاکستان نگران اسلامی بہن نے ’’ ترقی کے مدنی پھول ‘‘کے موضوع سے
چند نکات بیان کئے اور اسلامی بہنوں کو تقرریاں مکمل کرنے ،
کارکردگی جدول کے مطابق عمل کرنے کاذہن دیا نیز سفر ی جدول بنانے ، ماہانہ مدنی مشورہ لینے اور ماتحت کے ماہانہ مدنی مشورے کا فالو اَپ کرنے کی
ترغیب دلائی اور شعبے کی ماہانہ کارکردگی فارم پُر کرنے کے حوالے سے مدنی پھول دیئے۔
جوشخص کہتا ہے"ابھی رہنے دو، ابھی رہنے دو، بعد میں کرلیں گے"ایسے
افراد ہمارے گھروں، اسکولوں، دکانوں، شہر وغیرہ میں رہ کر ہمارے معاشرے کو خراب کر رہے ہیں اور خود کو بھی مشکل
میں ڈالتے ہیں، امام ابنِ جوزی نے بڑی
پیاری بات لکھی ہے:"جو شخص کہتا ہے، ابھی رہنے دو، کل کرلیں گے، وہ ایسا آدمی ہے جو کسی درخت کو کاٹنے جاتا ہے
اور درخت مضبوط ہوتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ "چلو اسے اگلے سال کاٹ لوں
گا"، وہ یہ نہیں سوچتا کہ اگلے سال
درخت زیادہ مضبوط ہو جائے گا اور میری عمر بڑھ جائے گی اور کمزوری مجھ میں آ جائے
گی اور پھر وہ کاٹنا نہایت دشوار اور مشقت والا ہو جائے گا، اس طرح یہ جو ٹال مٹول اور سُستی کا جو معاملہ
ہے، یہ اس طرح ہے کہ آنے والے وقتوں میں
ہمارا کام مشکل سے مشکل ترین ہوتا چلا جاتا ہے۔ حضرت عبدالعزیز کے بارے میں آتا ہے
کہ آپ کو کسی نے کہا کہ آج کا کام کل پر رکھ دیں، کل کر لیجئے گا تو آپ نے فرمایا:کہ نہیں میرے سے تو ایک دن کا کام بہت مشکل
سے ہوتا ہے، کل جب دو دن کا کام جمع ہو
جائے گا تو میں وہ کیسے کروں گا۔"
امیراہلسنت کا معمول ہے کہ اگر آپ
نے مغرب اور عشاء کے درمیان کھانا نہیں کھایا، تو مثال کے طور پر اگر آپ کہیں، ابھی رہنے دو بعد میں کھالیں گے، تو جو جدول ہمارے سامنے ہے تو بعد میں کھائیں گے
کب! بعد میں کھانے کا ٹائم نہیں ہے، یہی
ایک کھانا کھانے کا وقت ہے، ایک وقت میں
اگر یہ کام نہیں کیا تو دوسرے وقت میں وہ کام کرنے کی گنجائش نہیں کہ وہ وقت تو کسی اور کام کے لئے ہم نے مخصوص کر
دیا ہے، اب یہ کہ یہ جو مزاج ہے، اس میں تبدیلی ضروری ہے، کیونکہ وقت گزر جانے کے بعد جب وہ کام کیا جاتا
ہے، تو نقصان ہوتا ہے، اگر واقعی آپ نے اپنے اندر وقت کی پابندی اور ہر
کام کو اس کے وقت پر کرنے کا مزاج پیدا
کرنا ہے، تو نماز کی عادت بنانی ہوگی، یعنی
اُسے قضا کرنے کے بجائے اس کے وقت پر پورا
کرنا چاہئے، کیونکہ یہ معمول انسان کو وقت
کا پابند بناتا ہے۔
آج کا کام کل پر چھوڑنے والے لوگ
خود بھی پریشان ہوتے اور دوسروں کو بھی پریشان کرتے ہیں، اگر آج نیک اعمال نہ کئے تو کل قیامت کو ایک ہی
پکار ہوگی:
فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا۔ ترجمۂ
کنزالایمان:"ہمیں پھر بھیج کہ نیک کام
کریں۔"(پ21، السجدۃ: 12)
غفلت سے بیدار ہونے کے بارے میں دو فرامینِ
مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:
1۔ارشاد فرمایا:" پانچ چیزوں
کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو، ٭ جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، ٭ صحت کو بیماری سے
پہلے، ٭ مالداری کو تنگدستی سے پہلے، ٭ فرصت کو مشغولیت سے پہلے، ٭ اور زندگی کو
موت سے پہلے۔"(مستدرک، کتاب الرقاق نعمتان مغبون فیھا۔۔الخ، 5/435، حدیث7916)
2۔ارشاد فرمایا:"بندے کاغیر
مفید کاموں میں مشغول ہونا، اس بات کی
علامت ہے کہ اللہ نے اس سے اپنی نظرِ عنایت پھیر لی ہے اور جس مقصد کے لئے بندے کو
پیدا کیا گیا ہے، اگر اس کی زندگی کا ایک
لمحہ بھی اس کے علاوہ گزر گیا، تو وہ اس
بات کا حقدار ہے کہ اس کی حسرت طویل ہو
جائے۔"(تفسیر روح البیان، سورہ بقرہ،
تحت الآیۃ 232، 1/363)
اے جوانو اور توبہ میں تاخیر کرنے
والو! کیا تم غور نہیں کرتے کہ تم کب سے اپنے نفس سے وعدہ کر رہے ہو کہ کل عمل
کروں گا، کل عمل کروں گا اور وہ کل آج میں
بدل گیا، کیا تم نہیں جانتے کہ جو کل آیا اور چلا گیا، وہ گزشتہ کل میں تبدیل ہوگیا، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ تم آج عمل کرنے سے عاجز
ہو تو کل زیادہ عاجز ہو گے۔
آج کا کام کل پر چھوڑنے والا اُس آدمی کی طرح ہے،
جو درخت کو اُکھاڑنے میں جوانی میں عاجز
ہو اور اسے دوسرے سال تک مؤخر کر دے، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ جوں جوں وقت گزرتا چلا جائے گا،
درخت زیادہ مضبوط اور پُختہ ہوتا جائے گا اور اُکھاڑنے والا کمزور ہوتا جائے گا، پس جو اُسے جوانی میں نہ اُکھاڑ سکا، وہ بڑھاپے میں قطعاً نہ اُکھاڑ سکے گا، جو شخص جوانی میں احکامِ شریعہ کی بجاآوری میں کوتاہی
برتتا ہے تو اس سے کیسے اُمید رکھی جاسکتی ہے کہ وہ بڑھاپے میں ان غلطیوں کا مداوا
کر سکے گا، لہذا جوانی کو غنیمت جانئے اور
اسی عمر میں نفس کو لگام دیجئے اور توبہ
میں جلدی کیجئے، نہ جانے کس وقت موت کا
پیغام آ جائے، کیونکہ موت نہ تو جوانی کا
لحاظ کرتی ہے، نہ بچپن کی پرواہ۔
ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ مجھے اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ۔ (پارہ30، العصر:2)
ترجمۂ کنز الایمان:بے شک آدمی
ضرور نقصان میں ہے۔" کا ترجمہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا، میں ثمرقند کے بازار میں گیا ، وہاں ایک آدمی
برف بیچ رہا تھا اور ساتھ آواز لگا رہا تھا کہ مجھ پر رحم کرو، مجھ سے برف خرید لو، میں ایک ایسا تاجر ہوں جس کا مال بھی پگھلا جا رہا ہے،
بزرگ فرماتے ہیں کہ میں سمجھ گیا کہ اِنَّ
الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ کامفہوم کیا ہے، جس طرح سانسیں پگھلتی جا رہی ہیں، اسی طرح زندگی بھی پگھلتی جا رہی ہے۔
اے جوانوں اور توبہ میں تاخیر کرنے والوں! اب جو مخصوص زندگی دی گئی
ہے، یہ تو گزر جانی ہے، ایک لمحہ نہیں ٹھہرے گی، اس لئے زندگی کو اس انداز سے گزارئیے کہ ہمارا
ربّ اور اس کا محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے راضی ہو جائیں، ہر سانس کے بدلے نیکیاں کمائیے،
ورنہ برف کے پگھلتے ہوئے قطروں کی طرح زندگی سانس سانس کر کے ٹوٹ رہی ہے اور ہم ہر
لمحہ موت کے قریب ہو رہے ہیں۔
اللہ کریم ہمیں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے
صدقے ہمیں ہر سانس کو بامقصد گزارتے ہوئے،
زندگی کی آخری سانس تک اخلاص و استقامت کے
ساتھ دین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :"پانچ
چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو، 1۔ جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، 2۔ صحت کو
بیماری سے پہلے، 3۔ مالداری کو تنگدستی سے پہلے، 4۔ فرصت کو مشغولیت سے پہلے، 5۔زندگی
کو موت سے پہلے۔"(المستدرک، کتاب الرقاق، جلد 5، صفحہ 435، حدیث 7916) اور فرمایا:" روزانہ
صبح جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اُس وقت دن یہ اعلان کرتا ہے کہ"اگر آج کوئی
اچھا کام کرنا ہے تو کر لو کہ آج کے بعد میں کبھی پلٹ کر نہیں آؤں گا۔"(شعب
الایمان، باب فی الصیام، ما جا ءلیلۃ
النصف من الشعبان، جلد 3، صفحہ 386، حدیث 3840، ملخصاً)
جو کام آج کا ہے، وہ آج کا ہے اور جو کل کا ہے، وہ کل کا ہے، کل کس نے دیکھی ہے، کل تو کبھی آئی ہی نہیں، ہمارے بزرگانِ دین کا معمول تھا کہ وہ روز کا
کام روز فرماتے تھے اور سُستی اور کاہلی سے بہت دور تھے، جب انہوں نے وقت کی قدر دانی کی تووقت نے بھی ان
کی قدردانی کی اور اُن کا نام ہمیشہ کے لئے روشن ہوا، ہم یہاں کچھ بزرگوں کے اِرشادات ذکر کرتے ہیں:
حضرت علی رضی اللہ عنہ:
"یہ ایّام تمہاری زندگی کے صفحات ہیں، ان کو اچھے اعمال سے زینت دو۔"
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں:
"میں اپنی زندگی کے گزرے ہوئے
اس دن کے مقابلے میں کسی چیز پر نادم نہیں ہوتا، جو دن میرا نیک اعمال میں اضافے سے خالی ہو۔"
امام رازی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
"خدا عزوجل کی قسم! کھانا
کھاتے وقت علمی مشغلہ ترک ہو جانے کا مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ وقت نہایت ہی قیمتی
دولت ہے۔"
امام شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
"میں ایک مدت تک اہلُ اللہ
کی صحبت سے فیضیاب رہا، ان کی صحبت سے
مجھے دو اَہَم باتیں سیکھنے کو ملیں:1۔ وقت تلوار کی طرح ہے، تم اس کو کاٹو ورنہ یہ تم کو کاٹ دے گا۔
2۔ اپنے نفس کی حفاظت کرو، اگر تم نے اس کو اچھے کام میں مشغول نہ رکھا تو
یہ تم کو کسی بُرے کام میں مشغول کر دے گا۔"
حضرت سیّدنا عمر بن عبدالعزیز
علیہ الرحمہ:
"ایک دن آپ رحمۃ اللہ علیہ کے
بھائی نے آپ کو مشورہ دیا کہ کبھی کبھی سیر و تفریح کے لئے بھی نکل جایا کریں، فرمایا:"پھر اس دن کا کام کس طرح انجام
پائے گا؟ انہوں نے کہا: دوسرے دن ہو جائے گا، فرمایا: میرے لئے یہی بہت ہے کہ روز کا کام روز
انجام پاجائے، دو دن کا کام ایک دن میں
کیوں کر پورا ہوگا۔"(سیرت ابنِ جوزی، ص 225، حضرت سیّدنا عمر بن عبدالعزیز کی
425 حکایات، ص423)
اللہ تعالی ان ہستیوں کے صدقے
ہمیں بھی وقت کا قدردان بنائے اور ہر دن کا کام اُسی دن کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین