قرآن و احادیث میں علم و علما کی بہت سی فضیلتیں آئی ہیں ۔ ان میں سے چند یہاں پیش کئے جاتے ہیں ۔

اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے : شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۙ-وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ ترجمۂ کنز الایمان :  اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور  فرشتوں نے اور عالموں نے ۔(پ3،اٰل عمران: 18)اس آیتِ کریمہ میں  اللہ پاک  نے اس بات کی گواہی دینے کے بعد کہ اس کے سِوا کوئی معبود نہیں ، اپنی اس گواہی کے ساتھ ساتھ فرشتوں اور اہلِ علم کی گواہی کو ملایا ہے۔ یقیناً اس میں اہلِ علم کی خصوصیتِ عظیمہ کا بیان ہے ۔

اس کے علاوہ بھی قرآن پاک میں کئی مقامات پر علما کے فضائل بیان کئے گئے ہیں۔ چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے : وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِۚ-وَ مَا یَعْقِلُهَاۤ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ(۴۳) ترجمۂ کنزالایمان :  اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لئے بیان فرماتے ہیں اور انھیں نہیں سمجھتے مگر علم والے ۔(پ20، عنکبوت : 43)اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی متعدد مقامات پر علم کے فضائل اور علما کی شان کا بیان ہے۔ آئیے اس ضمن میں 5 فرامینِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ کرتے ہیں۔

(1) إِنَّ اللَّهَ، وَمَلَائِكَتَهُ، وَأَهْلَ السَّمَاوَاتِ، وَالْأَرَضِينَ، حَتَّى النَّمْلَةَ فِي جُحْرِهَا، وَحَتَّى الْحُوتَ ؛ لَيُصَلُّونَ عَلَى مُعَلِّمِ النَّاسِ الْخَيْرَ. ترجمہ:بے شک اللہ پاک کی رحمت متوجہ ہوتی ہے ، نیز فرشتے اور آسمان و زمین والے، یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے سوراخوں میں، حتی کہ مچھلی بھی، لوگوں کو خیر کی تعلیم دینے والے معلم کے حق میں خیر کی دعا کرتے ہیں ۔(سنن الترمذي، 4 /416)

(2) إِنَّ مَثَلَ الْعلما فِي الْأَرْضِ كَمَثَلِ النُّجُومِ فِي السَّمَاءِ، يُهْتَدَى بِهَا فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ، فَإِذَا انْطَمَسَتِ النُّجُومُ، أَوْشَكَ أَنْ تَضِلَّ الْهُدَاةُ ترجمہ: بیشک زمین پر علما کی مثال ان ستاروں کی طرح ہے جن سے کائنات کی تاریکیوں میں رَہْنُمائی حاصل کی جاتی ہے تو جب ستارے ماند پڑ جائیں تو قریب ہے کہ ہدایت یافتہ لوگ گمراہ ہو جائیں۔ (مسند امام احمد ، مسند انس بن مالک، 4/314،حدیث:12600)

(3) إِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَى سَائِرِ الْكَوَاكِبِ۔ ترجمہ: بے شک عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے چودہویں کے چاند کی تمام ستاروں پر فضیلت ہے۔(سنن ابن ماجہ، 1 /213 )

(4) مُعَلِّمُ الْخَيْرِ يَسْتَغْفِرُ لَهُ كُلُّ شَيْءٍ، حَتَّى الْحُوتُ فِي الْبَحْرِ. ترجمہ: بھلائی سکھانے والے کے لئے ہر چیز استغفار کرتی ہے؛ یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں بھی ۔ (سنن دارمى، 1/363 )

(5) والعلما ورثة الأنبياء إن الأنبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما، ولكنهم أورثوا العلم فمن أخذه أخذ بحظه، وموت العالم مصيبة لا تجبر وثلمة لا تسد، وهو نجم طمس موت قبيلة أيسر من موت عالم۔ ترجمہ:علما انبیائے کرام علیہمُ السّلام کے وارث ہیں، بیشک انبیائے کرام علیہمُ السّلام دِرہَم و دِینار کا وارث نہیں بناتے، بلکہ وہ تو علم کا وارث بناتے ہیں۔ لہٰذا جس نےعلم حاصل کیا اس نے اپنا حصہ لے لیا۔ اور عالمِ دین کی موت ایک ایسی آفت ہے جس کا ازالہ نہیں ہوسکتا اور ایک ایسا خلا ہے جسے پُر نہیں کیا جاسکتا ۔(گویا کہ ) وہ ایک ستارہ تھا جو ماند پڑ گیا، ایک قبیلے کی موت ایک عالم کی موت کےمقابلے میں نہایت معمولی ہے۔( شعب الایمان،باب فی طلب العلم،2/263،حدیث:1699)

اللہ پاک ہمیں بھی زندگی بھر طلبِ علمِ دین میں لگائے رکھے ۔ اور علم دین و علمائے کرام کا ادب کرنے والا بنائے ۔ اٰمین بجاہ سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم