آج کا کام کل پر مت چھوڑیں

Thu, 10 Jun , 2021
3 years ago

حضرت عبد اللہبن عمر رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : جب تم شام کرو تو صبح کا انتظار مت کرنا اور جب صبح کرو تو شام کا انتظار مت کرنا، اپنی صحت و تندرستی کو بیماری سے پہلے غنیمت جانو اور اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔ (بخاری )

ہم اپنی روز مرّہ زندگی کے بہت سے کام کل پر ڈال دیتے ہیں اور وقتی طور پر سکون حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن درحقیقت یہ اپنے آپ ہی کو آزمائش میں ڈالنا ہے کہ اگلے دن وقت کی کمی کی وجہ سے کام پورا نہیں ہو پاتا یا سخت تھکاوٹ و پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لحاظہ ہمیں اس بری عادت سے بچنا چاہیے کہ آج نہیں تو کل اس مشکل مرحلے سے ضرور گزرنا ہوگا اور چاہے کیسا ہی مشکل کام ہو اسے وقت پر کرنا چاہیے ، تاکہ زندگی کی مشکلات سے بھی لڑنا آئے ۔ آج کا کام کل پر ڈالنا وقت کے ضائع کرنے کا بھی سبب ہے کہ سستی و کاہلی کی وجہ سے مشکل کام کو کرنے سے جی چرانے اور ٹال مٹول کرتے رہنےسے نہ صرف وقت ضائع ہوتا ہے بلکہ نیکی کے کاموں میں سستی کی وجہ سے ثواب سے محرومی بھی ہے۔ اسی لیے وقت کی قدر و اہمیت کو سمجھنا ضروری ہے ۔

زندگی کی ہر سانس ”انمول ہیرا“ ہے، کاش! ایک ایک سانس کی قدر نصیب ہو جائے کہ کہیں کوئی سانس بے فائدہ نہ گزر جائے ۔ (انمول ہیرے ، ص ١٥)

وقت کی قدروقیمت کی اہمیت اسوقت حاصل ہوتی ہے جب وہ ہاتھ سے نکل جائے اور پچھتاوے کے سوا کچھ نہ رہے۔ کیونکہ وقت ایک ایسا پرندہ ہے جو ایک مرتبہ اُڑھ جائے تو لوٹتا نہیں ۔

اللہ تعالٰی کی تمام نعمتوں میں سے ایک نعمت وقت ہے اورنعمت کی قدر اس کے زوال (یعنی ختم ہونے ) کے بعد ہوتی ہے لہٰذا اس وقت کو قیمتی بناتے ہوئے نیکیوں میں گزاریئے ۔ (امیر اہل سنت )

وقت کی اصلی قدر جاننے کے لیے بزرگانِ دین کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو انکی کثرتِ عبادت وریاضت ، دینی خدمات اور قربِ خداوندی پانے میں وقت کی پابندی کرنا بھی ایک سبب تھا ۔

اعلٰی حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کی عادتِ مبارکہ تھی کہ وقت بالکل ضائع نہیں فرماتے تھے ، بلکہ اکثر علمی کاموں میں ہی مصروف رہتے ۔(حیاتِ اعلٰی حضرت ، ٢٠٦/١ بتغیر قلیل )

اللہپاک ہمیں بھی وقت کی قدر کرنے اور اپنے کاموں کو اپنے وقت پرکرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


آج کا کام کل پر مت چھوڑو

Thu, 10 Jun , 2021
3 years ago

اللہ پاک نے انسان کو اشرفُ المخلوقات بنایا، اسے شعور سمیت ایسی بےشمار صلاحیتوں سے نوازا جن سے دیگر مخلوقات محروم ہیں۔ ان صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے انسان نے بڑے بڑے کارنامے سر انجام دئیے۔ یوں تو دنیا میں ہر انسان کامیابی کا متلاشی اور کامیابی کے راز ڈھونڈنے کی جستجو میں رہتا ہے لیکن اگر دینی و دنیاوی شعبہ جات میں کامیاب ترین لوگوں کی کامیابی (Success) کے راز ڈھونڈے جائیں تو ان کی کامیابی میں پابندیِ وقت، کام کو کل پر موقوف نہ کرنا، نمایاں نظر آئیں گے۔

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں کسی بھی کام کو فوراً سرانجام دینے کے بجائے آئندہ پر موقوف کرنے کا مرض عام ہوچکا ہے۔ ہم اپنے اِردگِرد اگر نظر دوڑائیں تو بیسیوں ایسے کام سامنے آئیں گے جنہیں ہم نے ”کل کروں گا“ کہہ کر ٹال دیا تھا لیکن ہماری وہ ”کل“ دوبارہ نہ آسکی۔ اس ناپسندیدہ عادت کو ختم کرنے کیلئے 5 مفید مدنی پھول پیش کئے جاتے ہیں: (1)احساس: کوئی بھی کام جب آپ کو سونپا جائے تو اسے سنجیدگی سے قبول کیجئے اور اس کام کو اپنے وقت میں کرنے کی منصوبہ بندی (Planning) کیجئے۔ ٹال مٹول، بعد میں کر لوں گا، ابھی بہت ٹائم ہے جیسے فضول خیالات پر دھیان دینے کے سبب ہی کام ادھورے رہ جاتے ہیں (2)کاموں کی فہرست بنائیں: ہر کام کی ایک فہرست بنالی جائے کہ کون سا کام زیادہ ضروری ہے اور کون سا کام جلد سے جلد نپٹانا ہے۔ یوں فہرست بنانے سے آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ فلاں وقت فلاں کام کے لئے ہے (3)سُستی و کاہلی کو دُور کیجئے: ہر کام میں سب سے بڑی رکاوٹ سُستی و کاہلی ہے۔ ”ابھی بہت ٹائم ہے“ کا بہانہ بنا کر ہر کام کو بعد کے لئے موقوف کردیا جاتا ہے لیکن بعد میں دیگر مصروفیات اس کام کو سَر انجام دینے میں آڑے آجاتی ہیں۔ لہٰذا مستعد ہوکر ہر کام اپنے وقت پر کرنے کی عادت بنائیں(4)لمبی امیدیں نہ باندھئے: لمبی امیدیں باندھنا سمجھ دار لوگوں کا کام نہیں۔ کامیاب لوگ موجودہ وقت کو غنیمت سمجھتے ہوئے اپنا کام اپنے وقت میں سر انجام دیتے ہیں جبکہ ناکام لوگ کل کے آسرے اور ”جب ٹائم ملے گا تو کر لوں گا“ جیسے بہانے کر کے دل کو تسلی دے دیتے ہیں(5)قدر کریں: جو وقت آپ کے پاس ہے اس کو غنیمت جانتے ہوئے اس کی قدر کیجئے بعد میں کام کا موقع ملے نہ ملے زندگی رہے نہ رہے کسے معلوم ہے؟

محترم قارئین! مشہور مقولہ ہے کہ ”کل کبھی نہیں آتی“ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ حدیثِ پاک کے مطابق فرصت کو مشغولیت سے پہلے غنیمت جانتے ہوئے ہر کام اپنے وقت پر سرانجام دیں۔ اللہ کریم عمل کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

اے رضاؔ ہر کام کا اِک وقت ہے دل کو بھی آرام ہو ہی جائے گا


نبی رحمت ، شفیع امت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :فرصت کو غنیمت جانو۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ، 19 ، 57 ، حدیث : 35460)

مزید یہ کہ اسلام کے پہلے مجدد ، امیر المومنین حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے ایک مرتبہ عرض کی یہ کام کل تک مؤخر کردیجئے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا میں ایک دن کا کام بمشکل کرتا ہوں پھر اگرآج کا کام کل پرچھوڑ وں گا تو دون کا کام ایک دن میں کیسے کرسکوں گا۔ ( وقت ہزار نعمت ہے، صفحہ 54 )

پیارے اسلامی بھائیو! مذکورہ بالا جملے حکمت و دانائی سے بھرے مدنی پھول ہیں جو ہمیں اپنا کام اس کے صحیح وقت پر کرنے اور دوسرے دن پر نہ ڈالنے کا درس و پیغام دے رہے ہیں۔

مزید یہ کہ آج ہمارا معاشرہ جہاں کئی بری خصلتوں و صفات کامرکز بنا ہوا ہے، انہیں رذیل خصلتوں میں سے ایک خصلت آج کا کام کل پر چھورنا بھی ہے یہ صفت ذمیمہ نہ صرف دنیا بلکہ آخرت کو بھی تباہ و برباد کرنے والی اور انسان کو ناکامی کے عمیق کنویں میں پہنچانے والی ہیں۔

آئیے اب ٹال مٹول کی کچھ مثالوں پر نظر ڈالتے ہیں، مثلا قضا نمازوں کی ادائیگی میں سستی کرنا، زکاة فرض ہونے کے باوجود رمضان کا انتظار کرنا ، داڑھی آنے کے باوجود بڑے ہو کررکھنے کا بہانہ کرنا، قرض کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کرنا، فرض علوم سیکھنے میں سستی کا مظاہرہ کرنا، گھریلو اشیا کی مرمت میں گھر والوں کو کل کرانے کی جھوٹی تسلی دینا، مطالعہ کرنے سے دل چرانا، کہ ابھی جی نہیں چاہ رہا کل سے کریں گے وغیرہ وغیرہ، الغرض ایسے شخص کے تمام متعلقین اس سے نالاں نظر آتے ہیں اور نیز یہ کہ کل کی عادت لوگوں کی نظر سے اس کا وقار گرادیتی ہے، لہذا ہمیں چاہیے کہ اپنے اندر حرکت پیدا کریں ، اور اپنا کام کل پر چھوڑنے کے بجائے آج ہی کر ڈالے، کل کس نے دیکھی ہے۔ 


آج کا کام کل پر چھوڑنا، جسے انگلش میں procrastination بھی کہا جاتا ہے۔ انسان کا ایک عجیب و غریب فعل ہے کہ جو اسے اس وقت کرنا اچھا لگتا ہے لیکن بعد میں جب برے اثرات آتے ہیں تو وہی اپنا کام برا لگتا ہے۔ لیکن آگے جاکر بھی یہ عادت نہیں چھوٹتی۔ تو کسی بھی بری عادت کو چھڑانے کے لیے اس کے نقصانات، اسے چھوڑنے کے فوائد اور چھوڑنے کا طریقہ جاننا ضروری ہے۔ اس لیے آیئے تاخیر کرنے(procrastination) کے نقصانات جانتے ہیں۔

1۔ وقت کی بربادی: جب آپ ابھی کا کام بعد پر چھوڑیں گے یا آج کا کام کل پر چھوڑیں گے تو ابھی جو وقت ملا ہوا ہے اسے ضرور کسی فضول اور بے فائدہ کام پر صرف کریں گے، تو یہ وقت جو قیمتی تھا ضائع ہوگیا۔

2۔ اگلے دن ٹینشن: حضرت عمر رضی اللہُ عنہ سے کسی نے عرض کی: یہ کام چھوڑ دیں کل کر لیں گے، تو آپ نے فرمایا: کل اور کام ہوں گے، تو کل کل کے کام کریں یا آج کے؟ تو آپ نے جب اپنا آج کا کام آگے کردیا اور آگے آپ کو کچھ اور کام کرنا تھا اب وہ کام اور یہ کام دونوں متاثر(disturb) ہوں گے، اور آپ بھی پریشان(disturbed) ہو جائیں گے۔

3. ترقی کے موقع ضائع کر دیں گے: کبھی کبھار ایسے مواقع آتے (opportunities آتی) ہیں کہ آپ کی زندگی بدلنے والی ہوتی ہے مگر آپ سستی اور تاخیر(procrastination) کرکے وہ موقع ضائع کردیتے ہیں۔

4. اہداف(goals) ادھورے رہ جاتے ہیں: آپ اگر دعوتِ اسلامی کے تحت دینی کام کرتے ہیں تو نگران ہدف(target) دیتے ہیں، یا کسی کمپنی میں کام کرتے ہیں تو سیٹھ(boss) کی طرف سے ہدف ملتے ہیں یا آپ نے اپنا کوئی ہدف ذہن میں رکھا ہوتا ہے مگر تاخیر کے سبب وہ ادھورے رہ جاتے ہیں اور خود برا بھی محسوس کرتے ہیں اور دوسروں کی سننی بھی پڑھتی ہے۔

5. زندگی تبدیل ہوجاتی ہے: کبھی کبھار اس کا اثر صرف سننے تک نہیں بلکہ وہ نوکری چھوٹ جاتی ہے، یا تنظیمی ذمہ داری واپس لے لی جاتی ہے، یا اپنا بہت بڑا نقصان ہوجاتا ہے جس سے اب واپسی ممکن نہیں ہوتی۔

6. خود اعتمادی میں کمی: اپنے ہی ہاتھوں جب اتنے بڑے نقصانات ملتے ہیں تو اب خود پر سے اعتماد بھی اٹھ جاتا ہے اور اب زندگی تنزلی میں ہی جانے لگتی ہے۔ تو اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ

1۔ اپنے ماحول کو تبدیل کریں: آج کل چونکہ اکثر گھر پر کام اور پڑھائی ہورہی ہے تو جہاں سوتے ہیں وہیں پر اپنا کام اور پڑھائی کرنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ درست نہیں ہے کیونکہ جہاں آپ سوتے ہیں نفسیاتی طور پر ذہن میں یہ اثر آجاتا ہے کہ یہ سونے کی جگہ ہے نتیجۃً سستی بھی آجاتی ہے، لہذا اپنا ماحول "کام" والا بنائیں۔

اپنے کام کو تقسیم کردیں: یہ بھی ہوتا ہے کہ کام بہت زیادہ لگ رہا ہوتا ہے تو دل بھی نہیں کرتا کہ کام کروں، تو یوں تاخیر(procrastination) کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تو اپنے کام کوحصوں میں تقسیم کردیں۔ جیسے بیان تیار کرنا ہے تو مطالعہ، نوٹس، بیان کی ترتیب، الفاظ کا چناؤ، چیکنگ۔

وقت میں تقسیم: آپ نے اپنے کام کے حصے کردیئے اب اسے وقتوں پر تقسیم کردیں کہ اس میں فلاں کام میں اس وقت سے اس وقت کروں گا۔ جیسے ایک دن میں بیان تیار کرنا ہے تو: صبح 9 سے 12 بجے تک مطالعہ، پھر بریک، 2 سے 4 بجے تک نوٹس لکھے، اور بیان کو ترتیب دیں ، اس کے بعد 30 منٹ بیان کے انداز میں الفاظ کو تبدیل کیا، اب آپ کے پاس آدھا دن ہے چیک کرنے کے لیے۔ خود کریں یا کسی عالم صاحب سے چیک کروائیں۔ اگر یہ نہ کرتے تو پورا دن یہ سوچنے میں لگ جاتا کہ بیان کیا کروں۔

آڑیں(distractions): بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کچھ چیزیں کام کرنے سے روکتی ہیں تو انہیں دور کریں جیسے موبائل۔ اگر اسے بند کردیں یا کسی کو دے دیں کہ یہ کام کرلوں تب تک نہیں دینا۔ اسی طرح شور ہوتا ہے تو جگہ بدل لی۔ کبھی لوگ کام کرنے نہیں دیتے تو ان سے معذرت کرلیں۔ اس طرح اپنے کاموں میں آنے والی رکاوٹیں دور کردیں۔

اپنے اوپر نگران مقرر کریں: موبائل جس طرح آپ نے کسی اور کے حوالے کیا، اسے اپنے آپ کو بھی حوالے کردیں، یعنی کسی کو نگران بنادیں کہ وہ آپ کو نظروں میں رکھے اور وہ آپ کو آپ کے کام کے لیے جوابدہ رکھے گا۔

تاخیر(procrastination) سے بچنے کے فوائد: چونکہ آپ اپنے کام وقت پر کرنے لگے ہیں تو اب آپ خود کو آزاد محسوس کریں گے، تر و تازہ رہیں گے، اپنے اوپر اعتماد بڑھے گا پھر بڑے بڑے کام کرنے لگیں گے، اور کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔


آج کا کام کل پر مت چھوڑیں

Thu, 10 Jun , 2021
3 years ago

ایک اور دھوکہ ہے جو انسان کو وقت ضائع کرنے پر ندامت اور افسوس سے بچاتا رہتا ہے اور وہ کل ہے، کہا گیا کہ انسان کی زبان میں کوئی لفظ ایسا نہیں ہے جو کل کے لفظ کی طرح اتنے گناہوں ، اتنی غفلتوں ، اتنی بے پرواہیوں اور اتنی برباد ہونے والی زندگیوں کیلئے جواب دہ ہو، کیوں کہ اس کی آنے والی کل آتی نہیں۔ بلکہ وہ قیامت یا گزری ہوئی کل یعنی زیر وزبر بن جاتی ہے اور پچھلی کل کو کبھی واپس نہیں کرسکتے ، ان دونوں قسم کی کل کو ہم آج میں تبدیل نہیں کرسکتے۔

ذرا سوچیں تو سہی کہ ہم کب سے روز وعدہ کرتے ہیں کہ کل سے یہ کام کریں گے اور کل ، کل کرتے ، ہر کل آج ہوتی چلی جارہی ہے۔ جب ہم نے آج ہی نہیں کیا، تو کل کیسے کرپائیں گیں ؟ ہمیں شاید معلوم نہیں کہ جو کل آچکی ہے وہ گزشتہ دن کے حکم میں ہے۔ جو کام ہم آج نہیں کرسکے تو کل اس کا کرنا ہمارے لیے اور بھی مشکل ہے۔

لہذا اگر ہم آج عاجز ہیں تو کل بھی عاجز ہوں گے ، اس لئے کہا گیا ہے کہ وقت جب ایک دفعہ مرگیا تو اس کو پڑا رہنے دیں ، اب اس کے ساتھ اور کچھ نہیں ہوسکتا سوائے اس کے کہ اس کی قبر پر آنسو بہائے جائیں۔ لہذا! انسان کو آج کی طرف لوٹ آنا چاہیے مگر لوگ اس کی طرف لوٹتے نہیں ہیں۔ اور داناؤں کے رجسٹر میں کل کا لفظ کھوج سے بھی نہیں ملتا۔

وقت در حقیقت عمر ِ رواں ہے ، وقت کو سستی اور غفلت میں ضائع کرنا اپنی عمر کو ضائع کرنا ہے۔ باشعور اور باحکمت لوگ اپنے وقت کی حفاظت کرتے ہیں۔ اور بیکار گفتگو اور لایعنی کاموں میں وقت کو ضائع نہیں کرتے ، بلکہ اپنی زندگی کے قیمتی اوقات کو غنیمت جانتے ہوئے اچھے اور نیک کام کرتے رہتے ہیں۔ ایسے کام جن سے اللہ پاک کی رضا اور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا قرب حاصل ہو نیز جن سے عوام الناس کو فائدہ پہنچے۔

اور کامیابی اسی کا مقدر بنی ہے جس نے اپنے وقت کی قدر کی ہے ، وقت کو غنیمت جان کر ایک ایک منٹ کو اچھے کاموں میں صرف کیا۔ اپنے وقت کو فضولیات میں نہیں گزارا۔

جس نے وقت کو ضائع کیا ، وقت نے اس شخص کو ضائع کر دیا۔ کیونکہ عربی کا مقولہ ہے کہ الوقت کالسیف ان لم تقطعه قطعك یعنی وقت تلوار کی مثل ہے اگر آپ نے وقت کو صحیح طرح استعمال نہ کیا تو وقت آپ کو برباد کردے گا۔ جو دن زندگی کا آپ کو نصیب ہوا اسی کو غنیمت جان کر کچھ کرو۔ کل کا انتظار مت کرو۔ کیونکہ کل کس نے دیکھی ہے؟ یہ بھی کسی کو پتہ نہیں ہوتا کہ کل لوگ مجھے "جناب" کہ کرکے پکارے گیں یا "مرحوم" کہ کرکے پکاریں گے ، تو پھر کل کا انتظار کیوں ۔ جب آپ کو کل کا ہی معلوم نہیں۔ ایک اٹل حقیقت ہے کوئی بھی اس کا انکار نہیں کرسکتا کہ ایک دن مرنا ہے ، ضرور مرنا ہے۔


دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام  گزشتہ دنوں ساؤتھ افریقہ ڈربن کابینہ میں قائم فیضان مدینہ فونکس میں ذمہ دار اسلامی بہنوں کا مدنی مشورہ ہوا جس میں ذمہ دار اسلامی بہنوں سمیت مدرستہ المدینہ کے مدرسات نے شرکت کی۔

کابینہ نگران اسلامی بہن نے مدنی مشورے میں شریک اسلامی بہنوں کی کارکردگی فالواپ کرتے ہوئے تربیت کی دینی کاموں میں کو مزید بڑھانے اور اس میں بہتری لانے کی ترغیب دلائی نیز دیگر اسلامی بہنوں کو بھی دینی کاموں میں عملی طورپر شرکت کروانے کا ذہن دیا۔


دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام  گزشتہ دنوں ساؤتھ افریقہ کے علاقے کیپ ٹاؤن میں ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع کا انعقاد کیا گیا جس میں مقامی اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

مبلغۂ دعوتِ اسلامی نے” دینی علم حاصل کرنے“ کے موضوع پر سنتوں بھرا بیان کیا اور اجتماعِ پاک میں شرکت کرنے والی اسلامی بہنوں کو رسالہ نیک اعمال کے ذریعے آخرت کی تیاری کرنےکی ترغیب دلائی۔


دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام  گزشتہ دنوں ساؤتھ افریقہ کے علاقے جوہانسبرگ میں ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع کا انعقاد کیا گیا جس میں مقامی اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

مبلغۂ دعوتِ اسلامی نے” ثواب اور دینی علم حاصل کرنے“ کے موضوع پر سنتوں بھرا بیان کیا اور اجتماعِ پاک میں شرکت کرنے والی اسلامی بہنوں کو ہفتہ وار رسالہ پڑھنے اور دینی کاموں میں حصہ لینے کی ترغیب دلائی۔


دعوت اسلامی کے شعبہ اصلاحِ اعمال للبنات کے زیر اہتمام  گزشتہ دنوں جنوبی افریقہ لیسوتھو کابینہ آن لائن ذمہ دار اسلامی بہنوں کا مدنی مشورہ ہوا جس میں 20 اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

مدنی مشورے میں شریک اسلامی بہنوں کی کارکردگی فالواپ کیا گیا اور ان کی تربیت کی گئی نیز شعبے کے دینی کاموں کو مزید بڑھانے اور اس میں بہتری لانے کے حوالے سے نکات فراہم کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ عاملاتِ نیک اعمال تیار کرنے کا ذہن دیا۔


دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام  گزشتہ دنوں ساؤتھ افریقہ پیٹرماریٹزبرگ کابینہ میں شخصیات خواتین سے ملاقات کا سلسلہ ہوا جس میں کابینہ نگران اسلامی بہن نے دو نئی اسلامی بہنوں سے ملاقات کی اور انہیں نیکی کی دعوت پیش کی اور دعوت اسلامی کے دینی کاموں میں عملی طور پر شرکت کرنے ،ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کرنے اور آن لائن فیضان اکیڈمی میں شمولیت کرنے کی ترغیب دلائی۔


دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام  گزشتہ دنوں ساؤتھ افریقہ لیسوتھو کابینہ میں مختلف شعبہ جات کی ذمہ دار اسلامی بہنوں کا مدنی مشورہ ہوا جس میں کابینہ سطح کی کفن دفن ذمہ دار اسلامی بہن اور شعبہ علاقائی دورہ کی ذمہ دار اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

لیسوتھو کی کابینہ نگران اسلامی بہن نے مدنی مشورے میں شریک اسلامی بہنوں کی کارکردگی فالواپ کرتے ہوئے تربیت کی شعبہ جات کے دینی کاموں کو مزید بڑھانے اور اس میں بہتری لانے کے حوالے سے نکات فراہم کئے۔ 


دعوت اسلامی کے شعبہ اصلاحِ اعمال للبنات کے زیر اہتمام گزشتہ دنوں ساؤتھ افریقہ کی ملک نگران اسلامی بہن کا شعبہ اصلاحِ اعمال کی ملک سطح  ذمہ دار اسلامی بہن کے ہمراہ مدنی مشورہ ہوا جس میں افریقہ کی ملک نگران اسلامی بہن نے ان کی تربیت کی اور شعبے کے دینی کاموں کو مزید بڑھانے اور اس میں بہتری لانے کے حوالے سے نکات فراہم کئے۔