محمد
اشفاق عطاری(درجہ ثالثہ،جامعۃ المدینہ،فیضانِ
عطّار، نیپال گنج ، نیپال)
علمائے کرام کی فضیلت بے
شمار ہیں جس کی شان اللہ پاک نے قرآن پاک میں بھی بیان فرمایا ہے اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے اپنے اقوال مبارکہ میں بھی ذکر فرمایا اور یہی علما کی فضیلت
کے لئے کافی ہے۔ یہی علما ہیں جو ہمیں
حلال و حرام کا فرق سمجھاتا ہے۔ ورنہ ہم ناجائز فعل میں پڑ جائیں گے اور اپنی آخرت
برباد کر دینگے۔ اس لئے ہمیں علمائے کرام کی قدر کرنی چاہئے ۔آج ایک قوم ہے جو علمائے
کرام کی عزت کو پامال کرنے پر آمادہ ہے۔ یہاں ایک بات ذہن نشین رکھے اگر عالم کی
علم کی وجہ سے اگر اس کو حقیر جانتا ہے تو یہ کفر ہے۔
علما کی فضیلت میں سب سے
بڑی فضیلت یہی ہے۔ علما انبیاء کرام کے وارث ہیں۔
علما کی شان اللہ پاک خود
قرآن مجید میں بیان فرما رہا ہے : اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ
عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم
والے ہیں۔(پ 22،فاطر:28)
اور حدیث مبارکہ میں ہے : وقال النبی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم انما العلما ورثۃ الانبیاء ، وان فضل العالم علی العابد کفضلی علی ادناکم، بلکہ شرافت علم فوق
شرافت نسب مے باشد کما فی الدرالمختار لان شرفۃ العلم فوق شرف النسب والمال، کما
جزم بہ البزازی و ارتضاہ الکمال وغیرہ اگر
کسے عالم صالح ماہر رابالفاظ مذکورۃ الصدر طعنا وتحقیرا مخاطب سازدبدائر کفر
پانہادہ باشد ترجمہ : اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ علما انبیاء کے وارث ہیں اورعالم کی فضیلت
عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ادنیٰ پر۔ بلکہ علم کی شرافت نسب کی شرافت
پر فوقیت رکھتی ہے جیسا کہ درمختارمیں ہے: اس لئے کہ علم کی شرافت نسب و مال کی
شرافت سے اولٰی ہے۔ جیسا کہ اس پر بزازی نے جزم فرمایا ہے اگر کوئی شخص عالم صالح
ماہر کو الفاظ مندرجہ بالا سے طعن وتحقیر کے طورپر مخاطب کرے تو دائرہ کفر میں
پاؤں رکھے گا۔(فتاویٰ رضویہ شریف)
اس سے پتہ چلا جس طرح نبوت
سے بڑھ کر کوئی مرتبہ نہیں۔ اسی طرح نبوت کے وارث سے بڑھ کر کوئی عظمت نہیں۔
زمین و آسمان کی تمام مخلوق عالم کے لئے استغفار کرتی ہے: لہذا اس سے بڑا مرتبہ کس
کا ہوگا۔جس کے لئے زمین و آسمان کے فرشتے مغفرت کی دعا کرتے ہو، یہ اپنی ذات میں
مشغول ہیں اور فرشتے اس کے لئے استغفار میں مشغول ہیں۔
علمائے کرام کی عام لوگوں پر فضیلت : حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہُ عنہما نے فرمایا : علمائے کرام
عام مؤمنین سے 700 درجے بلند ہونگے۔ ہر درجوں کے درمیان 500 سو سال کے مسافت ہے۔(احیاء
العلوم )