محمد عرفان رضا (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ گلزار حبیب سبزہ زار لاہور،
پاکستان)

اللہ تعالٰی
نے انسان کو”بہترین مخلوق“کےاعزاز سے نوازا، فضیلت و بزرگی اور علم و شرف سے بھی
نوازا ہے۔ اور انسان کو”احسنِ تقویم“ کا تاج پہنایا اور اپنی پاک کتاب میں اس کی جان
کی حُرمت کا اعلان فرمایا۔ جیسے:اللّہ پاک نے قرآن مجید ارشاد فرمایا:وَ
لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّؕ-وَ مَنْ
قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهٖ سُلْطٰنًا فَلَا یُسْرِفْ فِّی
الْقَتْلِؕ-اِنَّهٗ كَانَ مَنْصُوْرًا۔ ترجمہ کنزالعرفان: اور جس جان
کی اللہ نے حرمت رکھی ہے اسے ناحق قتل نہ کرو اور جو مظلوم ہوکر مارا جائے تو ہم
نے اس کے وارث کو قابو دیا ہے تووہ وارث قتل کا بدلہ لینے میں حد سے نہ بڑھے۔ بیشک
اس کی مدد ہونی ہے۔
اسلام نے کئی
جہتوں سے اللہ تعالٰی کی بہترین تخلیق انسان کی حفاظت کا ذہن دیا ہے۔ اور اسلام
میں انسانی جان کی بے پناہ حرمت ہے اور کسی انسان کو قتل کرنا شدید کبیرہ گناہ ہے۔
اِسلام نہ صرف
مسلمانوں بلکہ بلا تفریقِ مذہب، رنگ و نسل اِنسانوں کے قتل کی سختی سے ممانعت کرتا
ہے۔ اِسلام میں کسی اِنسانی جان کی قدر و قیمت اور حرمت کا اندازہ اس بات سے لگایا
جا سکتا ہے کہ اس نے بغیر کسی وجہ کے ایک فرد کے قتل کو پوری اِنسانیت کا خون
بہانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ اللہ پاک نے ناحق قتل کے بارے میں قرآن مجید میں بھی
ارشاد فرمایا ہے:مَنْ
قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ
النَّاسَ جَمِيْعًا.ترجمہ کنزالعرفان:جس نے کسی جان کے بدلے یا زمین
میں فساد پھیلانے کے بدلے کے بغیر کسی شخص کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں
کو قتل کردیا۔
یہ آیتِ
مُبارَکہ اسلام کی تعلیمات کو واضح کرتی ہے کہ اسلام کس قدر امن و سلامتی کا مذہب
ہے اور اسلام کی نظر میں انسانی جان کی کس قدر اَہمیت ہے۔احادیث مبارکہ میں بھی
ناحق قتل کرنے کی مذمت بیان کی گئی ہے۔
1:
سب سے پہلے حساب اور فیصلہ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے
منقول ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : ” آدمی سے سب سے پہلے جس
چیز کا حساب لیا جائے گا ، وہ نماز ہے ۔ اور لوگوں کے درمیان سب سے پہلے فیصلہ قتل
کے بارے میں ہوگا۔ ( سنن سنائی،حدیث 3996)
2:
ناحق قتل کبیرہ گناہ: سب سے بڑے گناہ اللہ تعالٰی کے ساتھ شرک کرنا، کسی
جان کو قتل کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا ہیں۔
(بخاری،حدیث:6871) اس حدیثِ مُبارَکہ سے معلوم ہوا کہ کبیرہ گناہوں میں شرک کے بعد
سرِ فہرست کسی کی جان لینا ہے
3:
دنیا کی تباہی سے زیادہ ہولناک: حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قسم اس ذات کی جس
کے ہاتھ میں میری جان ہے! البتہ مومن کا (ناحق) قتل اللہ تعالیٰ کے ہاں ساری دنیا
کی تباہی سے زیادہ ہولناک ہے۔‘‘(سنن نسائی،حدیث 3991)
4: کبیرہ گناہ کیا ہے: حضرت ابو ایوب
انصاری رَضِيَ الله تَعَالَى عَنْهُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّى اللَّهِ
تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ”جس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت
کی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا، نماز قائم کی، زکوۃ ادا کی، رمضان کے
روزے رکھے اور کبیرہ گناہوں سے بچتا رہا تو اس کے لئے جنت ہے۔ ایک شخص نے عرض کی:
یا رسول اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ ) ، کبیرہ گناہ
کیا ہیں ؟ نبی اکرم صَلَّى الله تَعَالَى عَلَيْهِ وَاللهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد
فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، کسی مسلمان کو (ناحق) قتل کرنا اور کفار
سے جنگ کے دن میدان سے فرار ہونا۔ ( سنن نسائی حدیث 4014)
کسی کو
بلاجواز قتل کرنے والا پورے سماج اورمعاشرے پر ظلم وزیادتی کرتا ہے۔ وہ معاشرے کو
انارکی کی طرف لے جاتا ہے۔ اس جرم عظیم کے باعث قاتل کی دنیوی اور اخروی زندگی
تباہ ہوکر رہ جاتی ہے۔ اس سے سکون و چین چھین لیا جاتا ہے۔ پھر سب سے بڑی حقیقت یہ
کہ کل اس قاتل نے خود موت کا پیالہ پینا ہے اور اپنے اعمال کا مکمل جواب دینا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائیں۔آمین !
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
سرفراز غلام یسین (درجۂ ثالثہ جامعۃ المدینہ
شاہ عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)

پیارے پیارے
اسلامی بھائیوں آج میں آپ کے سامنے ناحق قتل کی مذمت لکھوں گا اللہ تبارک و تعالیٰ
سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے درست لکھنے کی توفیق عطاءفرمائے۔ الله عز و جل
فرماتا ہے یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰىؕ-اَلْحُرُّ
بِالْحُرِّ وَ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَ الْاُنْثٰى بِالْاُنْثٰىؕ-فَمَنْ عُفِیَ
لَهٗ مِنْ اَخِیْهِ شَیْءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اَدَآءٌ اِلَیْهِ
بِاِحْسَانٍؕ-ذٰلِكَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ رَحْمَةٌؕ-فَمَنِ اعْتَدٰى
بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (تفسیر صراط الجنان)پارہ 2 آیت
(178)
ترجمۂ
کنزالایمان: اے ایمان والو! تم پر فرض ہے کہ جو ناحق مارے جائیں ان کے خون کا بدلہ
لو آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت تو جس کے لئے
اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی ہوئی تو بھلائی سے تقاضا ہو اور اچھی طرح ادا یہ
تمہارے رب کی طرف سے تمہارا بوجھ ہلکا کرنا ہے اور تم پر رحمت تو اس کے بعد جو
زیادتی کرے اس کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (ترجمۂ کنز الایمان)
امام بخاری
اپنی صحیح البخارى میں ابن عباس رضی الله تعالیٰ عنہما سے راوی کر نبی کریم صل
الله عالم نے فرمایا الله تعالیٰ کے نزدیک سب لوگوں سے زیادہ مبغوض تین شخص ہیں
حرم میں الحاد کرنے والا اور اسلام میں طریقہ جاہلیت کا طلب کرنے والا اور کسی
مسلمان شخص کا ناحق خون طلب کرنے والا تاکہ اسے بہائے۔ (صحيح البخارى كتاب الديات،
حصہ 4 ص 362)
امام ترمذی
ابو سعید اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنھ سے روایت کرتے ہیں ہے کہ اگر آسمان و
زمین والے ایک مرد مومن کے خون میں شریک ہو جائیں تو سب کو الله تعالیٰ جہنم میں
اوندھا کر کے ڈال دے گا (جامع الترمذی کتاب الديات ج 3 ص 100)
ابوداود اور
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالی عنھ سے راوی رسول الله صلى الله عليه وسلم نے
فرمایا کہ مومن تیز رو اور صالح رہتا ہے جب تک حرام خون نہ کرے اور جب حرام خون کر
لیتا ہے تو اب وہ تھک جاتا ہے۔( سنن ابی داود کتاب الفتن ج 4 صے 139)
ابو داود وہ
ابو الدرداء سے اور نسائی معاویہ رضي الله عنه سے۔ راوی ھے کے رسول صلى الله عليه
وسلم نے فرمایا کہ امید ہے کہ گناہ کو اللہ بخش دے گا مگر اس شخص کو نہ بخشے گا جو
مشرک ہو تے مر جائے یا جسے نے کسے مرد مومن کو قصداً ناحق قتل کیا(سنن ابی داؤد،
کتاب الفتن، ج4، ص139)
الله تبارک
وتعالیٰ نے سے دعا ہے کہ ہم کو کسی مسلمان شخص کو ناحق قتل کرنے سے بچے، رہنے کی
توفیق عطا فرمائے
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

اسلام کے مقدس
مقامات میں کعبہ بڑی عظمت والی جگہ ہے۔یہ حرمت والا مقام ہے اور تمام انبیاء و صالحین
کا عبادت کا مقام ہے۔اس کی عظمت ،شرافت،بزرگی اور بڑائی کرنے سے ہماری زبانیں عاجز
ہیں مگر اللّٰہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے نزدیک ایک مومن کی جان و
جسم عزت و عظمت کی شرافت وعظمت کعبہ سے بھی بڑھ کر ہے ۔اور آج کل کے پرفتن دور میں
کبیرہ گناہوں میں سے ایک کبیرہ گناہ کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا ہے اور یہ بہت
برا فعل اور قابل مذمت ہے ۔یہاں پر جو ابھی احادیث مبارکہ بیان ہوں گی وہ فقط
مسلمانوں کو ڈرانے کے متعلق ہوں گی کہ مسلمان کو ڈرانا بھی جائز نہیں تو قتل تو
بہت دور کی بات ہے ۔اور علماء کرام نے صرف ڈرانے کو بھی کبیرہ گناہ شمار کیا ہے ۔
اس پر کئی
احادیث موجود ہیں ۔یہاں ان میں سے دو احادیث پیش خدمت ہیں ۔
نبئ کریم (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: لا يحل لمسلم ان يروع مسلما. ترجمہ:
کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو ڈراۓ۔ (ابو
داؤد السنن،ج7کتاب الادب،الرقم4918)۔
ایک اور مقام
پر نبئ کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: لا تروعواالمسلم فان روعة المسلم
ظلم عظيم.
ترجمہ: کسی مسلمان کو مت ڈراؤ ،بےشک مسلمان کو ڈرانا بہت بڑا ظلم ہے۔ (الھیثمی،مجمع
الزوائد ،ج6)
حضرت براء بن عازب( رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے
کہ سرور کونین (صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم)کا فرمان عبرت نشان ہے: لزوال الدنیا اھون علی
اللّٰہ من قتل مؤمن بغیر حق۔ ترجمہ:ساری دنیا کا تباہ ہو جانا
اللّٰہ کے نزدیک مومن کے نا حق قتل سے زیادہ ہلکا ہے۔(قزوینی السنن،ج3،کتاب الدیات
الرقم2628)
حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے ایک
دوسری روایت میں ہے ۔ قتل المؤمن اعظم عنداللہ من زوال الدنیا ۔ ترجمہ:
اللّٰہ کے نزدیک مومن کا قتل دنیا کے زائل ہونے سے بڑا معاملہ ہے ۔(نسائی السنن
ج6،کتاب المحاریۃ،الرقم4025)
احادیث میں
قاتل کے فرائض و نوافل کے قبول نہ ہونے کے بارے میں آیا ہے ۔چناچہ حضرت ابو عبادہ
بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم)کو
فرماتے ہوئے سنا: من
قتل مؤمنا فاغتبط بقتلہ لم یقبل اللّٰہ منہ فرضا ولا عدلا۔ ترجمہ:جس نے
کسی مومن کو قتل کیا اور پھر اس کے قتل پر خوش ہوا اللّٰہ پاک اس کی فرض اور نفلی
عبادات قبول نہیں کرے گا ۔(سجستانی ،السنن ج6،کتاب الغتن الرقم 4221)
قاتل بہت بڑی
مصیبت میں ہے ۔قتل ایسا گناہ عظیم ہے جس پر سخت سے سخت وعیدیں وارد ہیں ایک حدیث
پاک میں تو قاتل کو لازمی سزا دینے کا ذکر ہے ۔
حضرت ابو
درداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو
فرماتے ہوئے سنا: کل
ذنب عسی اللّٰہ ان یغفرہ الا رجل یموت مشرکا او یقبل مؤمنا متعمدا۔ ترجمہ:قریب
ہے کہ اللّٰہ ہر گناہ کو بخش دے مگر جو شخص مشرک ہونے کی حالت میں مرا یا جس نے
کسی مومن کو جان بوجھ کر ناحق قتل کیا (یہ ایسے گناہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی سزا
دے گا) مشرک کی مغفرت کبھی نہیں ہوگی اور قتل کا تعلق حقوق العباد سے ہے اس لیے
قاتل کی بھی مغفرت آسان نہیں ۔
جب تک مقتول
معاف نہ کرےاور وہ اپنی سزا پائے گا البتہ اگر مقتول اپنے مسلمان قاتل کو معاف کر
دے گا تو مغفرت کی امید کی جا سکتی ہے اور جس شخص نے کسی دوسرے انسان سے زندہ رہنے
کا حق ہی چھین لیا ہو وہ بھلا مقتول سے توقع رکھ سکتا ہے کہ وہ قاتل کو معاف کر دے
۔
اللّٰہ پاک سے
دعا ہے کہ ہمیں اس گناہ کبیرہ سے بچے رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے محبوب
(صلی اللہ علیہ وسلم)کے صدقے ہمارا خاتمہ بالخیر فرماۓ آمین
یارب العالمین۔
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
سکندر رضا عطّاری (درجۂ سادسہ جامعۃ المدینہ
فیضان عثمان غنی کراچی ، پاکستان)

اسلام امن
وسلامتی کا مذہب ہے اسلام کی نظر میں انسان کی عزت و حرمت بہت زیادہ ہے لیکن افسوس
کہ آج کل انسان کو قتل کرنا معمولی سا کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے
مار دینا غنڈہ گردی' دہشت گردی' ڈکیتی 'خاندانی 'لڑائی تعصب والی لڑائیاں عام ہے
اور مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جارہا ہے گروپ جتھے عسکری ونگ بنے ہوئے ہیں
جن کا کام ہی قتل کرنا ہے ۔
اللہ پاک قرآن
پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔
وَ مَنْ
یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ
غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(93) ترجمہ"
اور کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردے تو اسکا بدلہ جہنم ہے عرصہ دراز تک اس میں
رہے گا اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور پر لعنت کی اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر
رکھا ہے (سورہ النساء 93 پارہ 5 )
قتل ناحق کی
مذمت احادیث کی روشنی میں۔ آئے احادیث کی روشنی میں قتل نا حق کی مذمّت سنتے ہیں۔
(1)ناحق
قتل کبیرہ گناہ ہے: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدار
انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا" بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی
جان کو (ناحق ) قتل کرنا ہے "۔۔(صراط الجنان فے تفسیر القران ص 309 جلد 2 )
(2)جہنم
میں داخلہ کی وعید: حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے
قتل پر جمع ہو جائیں تو اللہ پاک سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے (صراط الجنان
فے تفسیر القران ص 309 جلد 2 )
(3)
اللہ کی رحمت سے مایوس : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے"حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "جس نے کسی مؤمن کے
قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو قیامت کے دن اللہ تعالٰیٰ کی بارگاہ میں اس حال
میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا ٫یہ اللہ عزوجل کی رحمت سے
مایوس ہے ۔۔(صراط الجنان فے تفسیر القران ص309 جلد 2 )
(4)اللہ
کے نزدیک قتل ناحق کی مذمت : حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے "رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا"اللہ پاک کے
نزدیک دنیا کا ختم ہو جانا ایک مسلمان کو ظلما قتل سے زیادہ سہل ہے (صراط الجنان
فے تفسیر القران ص 470جلد 2 )
(5)قاتل
مقتول دونوں جہنم میں: حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل
اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے راوی فرماتے ہیں میں نے عرض کی ۔مقتول جہنم میں
کیوں جائے گا ؟ ارشاد فرمایا اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پر مصر تھا
(صراط الجنان فے تفسیر القران ص 309جلد 2 )
اللہ پاک ہمیں
دین اسلام سمجھنے اور مسلمانوں کی عزت و احترام کی توفیق عطا فرمائے آمین
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
محمد معید (درجہ اولی جامعۃُ المدينہ فيضان ابو
عطّار ملير كراچی، پاکستان)

اللّٰہ تبارک
وتعالی نےٰ حضور پر نور رحمت دوعالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت کو دنیا میں
بھیجا اور انسان دنیا کے محبت و جذبات میں آکر ایک دوسرے کا قتل کردیتا ہے اور قتل
کرنا حرام ہے اسی وجہ کو سامنے رکھ کر چند احادیث و آیات قتل ناحق کی مذمت میں
بیان کروں گا
مسلمان
کو ناحق قتل کرنے کی مذمت: کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا
شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اور کثیر احادیث میں ا س کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے، ان
میں سے 4احادیث درج ذیل ہیں:
(1)…حضرت انس
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی
جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن
احیاہا، 4 / 358، الحدیث: 4871)
(2)…کسی
مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہو گا۔ حضرت ابو بکرہ
رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی
مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال
دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205 ، الجزء الاول)
(3)…حضرت ابو
بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں
تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی:
مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے
پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ،
1 / 23، الحدیث: 31)
(4)…حضرت ابو
ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر
ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں
آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی
رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا 3 /
242، الحدیث: 2420)
اسی طرح
اللّٰہ تعالٰی نے قرآن پاک میں بھی ارشاد فرمایا آیت مبارکہ ملاحظہ فرمائیے : وَ
مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ
غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(93) ترجمۂ
کنز الایمان اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ
مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار
رکھا بڑا عذاب۔
تفسیر صراط الجنان {وَ مَنْ یَّقْتُلْ: اور جو
قتل کرے۔} اس سے پہلی آیت میں غلطی سے کسی مسلمان کو قتل کر دینے کا حکم بیان کیا
گیا اور اس آیت میں جان بوجھ کر کسی مسلمان کو قتل کرنے کی اُخروی وعید بیان کی
گئی ہے۔ (پ4,س النساء،آیت93)
وَ مَا كَانَ
لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطَــٴًـاۚ-وَ مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا
خَطَــٴًـا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَّ دِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى
اَهْلِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّصَّدَّقُوْاؕ-فَاِنْ كَانَ مِنْ
قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍؕ-وَ
اِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍۭ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌ فَدِیَةٌ
مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖ وَ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ
مُّؤْمِنَةٍۚ-فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَهْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ٘-تَوْبَةً
مِّنَ اللّٰهِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا(92)
ترجمۂ کنز الایمان اور مسلمانوں کو نہیں پہنچتا
کہ مسلمان کا خون کرے مگر ہاتھ بہک کر اور جو کسی مسلمان کو نادانستہ قتل کرے تو
اس پر ایک مملوک مسلمان کا آزاد کرنا ہے اور خوں بہا کہ مقتول کے لوگوں کو سپرد کی
جائے مگر یہ کہ وہ معاف کردیں پھر اگر وہ اس قوم سے ہو جو تمہاری دشمن ہے اور خود
مسلمان ہے، تو صرف ایک مملوک مسلمان کا آزاد کرنا اور اگر وہ اس قوم میں ہو کہ تم
میں ان میں معاہدہ ہے تو اس کے لوگوں کو خوں بہا سپرد کی جائے اور ایک مسلمان
مملوک آزاد کرنا تو جس کا ہاتھ نہ پہنچے وہ لگاتار دو مہینے کے روزے رکھے یہ اللہ
کے یہاں اس کی توبہ ہے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ (پ 4,س النساء،آیت92)
اللّٰہ تعالٰی
سے دعا ہے کہ ہمیں حرام کام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور جو ہم نے قتل ناحق کی
مذمت میں احادیث و آیات پڑھیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی
الامین صلی اللّٰہ علیہ وسلم
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
محمد
لیاقت علی قادری رضوی (درجۂ سادسہ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ گجرات ،
پاکستان)

محترم قارئین
: افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی سا کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان
سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی، تَعَصُّب والی لڑائیاں
عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، گروپ اور جتھے اور عسکری
وِنگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارتگری کرنا ہے۔
یاد رہے : کسی
مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اور احادیث میں بکثرت اس کی
مذمت بیان کی گئی ہے،
جن میں سے چند
احادیث درج ذیل ہیں۔
(01) میں سب کو قتل کر دیتا : عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ:
أَنَّ عُمَرَ ابْنَ الْخَطَّابِ قَتَلَ نفًرًا خَمْسَةً أَوْ سَبْعَةً بِرَجُلٍ
وَاحِدٍ قَتَلُوهُ قَتْلَ غِيلَةٍ، وَقَالَ عُمَرُ: لَوْ تَمَالأَ عَلَيْهِ أَهْلُ
صَنْعَاءَ لَقَتَلْتُهُمْ جَمِيعًا حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ تعالٰی
عنہما سے روایت ہے کہ عمربن الخطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پانچ یاسات نفر(یعنی
آدمیوں ) کو ایک شخص کو دھوکا دے کر قتل کرنے کی وجہ سے قتل کر دیا اور فرمایا کہ
اگر صنعا (یمن کا دار الحکومت)کے سب لوگ اس خون میں شریک ہوتے تو میں سب کو قتل کر
دیتا۔ {’’ الموطأ ‘‘ ،للإمام مالک،کتاب العقول،باب ماجاء في الغیلۃ
والسحر،الحدیث:1671 ،ج 2 ،ص 377، مکتبہ دار المعرفۃ بیروت}
(02) تو اللہ
پاک انہیں آگ میں اوندھا ڈال دے گا : وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ
اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَوْ أَنَّ أَهْلَ السَّمَاءِ
وَالأَرْضِ اشْتَرَكُوا فِي دَمِ مُؤْمِنٍ لأَكَبَّهُمُ اللّٰهُ فِي النَّارِ۔ حضرت
ابو سعید اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہما پیارے آقا صلی اللہُ علیہ وسلم سے
روایت کرتے ہیں کہ پیارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اگر
آسمان و زمین والے ایک مرد مومن کے خون میں شریک ہو جائیں تو سب کو اللہ تعالیٰ
جہنم میں اوندھا کر کے ڈال دے گا۔ {جامع الترمذی ، کتاب الدیات،باب الحکم في
الدماء،الحدیث : 1403،ج 3 ،ص 100،مکتبہ دار الفکر بیروت }
•(03)
وہ جنت کی خوشبو نہ سونگھے گا • وَعَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ
اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : "مَنْ قَتَلَ مُعَاهِدًا لَمْ
يَرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا تُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ
أَرْبَعِينَ خَرِيفًا" حضرت عبداللہ بن عَمْرْو رضی اللہ تعالٰی
عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ نبی مکرم شفیع معظم نور مجسم صَلَّی اللہ تعالٰی
علَیہ وسلَّم نے فرمایا کہ’’ جس نے کسی معاہد (ذمی) کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو نہ
سونگھے گا اور بے شک جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک پہنچتی ہے۔ {’’ صحیح
البخاري ‘‘ ،کتاب الجزیۃوالموادعۃ،باب إثم من قتل معاھدا بغیرجرم،الحدیث : 3166 ،ج
،2،ص 365، دار الکتب العلمیہ بیروت }
•(04)
دنیا کا زوال اللہ پاک پر آسان ہے • حضرت عبداللہ بن عَمْرْو رضی اللہ
تعالٰی عنھما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تعالٰی علَیہ
وسلَّم نے فرمایا کہ ’’بے شک دنیا کا زوال اللہ پر آسان ہے۔ ایک مرد مسلم کے قتل
سے ۔‘‘ { جامع الترمذي ‘‘ ،کتاب الدیات،باب ماجاء في تشدید قتل المؤمن،الحدیث
:1400،ج 3 ،ص 99، مکتبہ دار الفکر بیروت}
•(05)
سب سے زیادہ مبغوض لوگ • حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما
سے روایت ہے کہ پیارے پیارے آقا صَلَّی اللہ تعالٰی علَیہ وسلَّم نے فرمایا: ’’
اللہ (عزوجل)کے نزدیک سب لوگوں سے زیادہ مبغوض تین شخص ہیں ۔
1-حرم میں الحاد
کرنے والا ۔
2-اسلام میں طریقۂ
جاہلیت کو طلب کرنے والا۔
03- اور کسی
مسلمان شخص کا ناحق خون طلب کرنے والاتاکہ اسے بہائے۔ { صحیح البخاری ،کتاب
الدیات،باب من طلب دم إمرء بغیرحق،الحدیث:6882،ج 4 ،ص 362، دار الکتب العلمیہ
بیروت}
•
(06) کبیرہ گناہ ۔ • حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت
ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد
فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ {بخاری، کتاب
الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، ج،4 ،ص،358، الحدیث: 6871، مکتبہ دار
الکتب العلمیہ بیروت }
•
(07) قاتل مقتول دونوں جھنم میں • (3)…حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول
دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں
جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔ {بخاری،
کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ،ج، 1،ص،23، الحدیث: 31
، مکتبہ دار الکتب العلمیہ بیروت }
•
(08) دین کے سبب کشادگی • حضرت ابنِ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی
عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں پیارے پیارے مکی مدنی مصطفیٰ صَلَّی اللہ تعالٰی
علَیہ وسلَّم نے فرمایا کہ ’’مسلمان اپنے دین کے سبب کشادگی میں رہتا ہے جب تک
کوئی حرام خون نہ کر لے۔‘‘ {صحیح البخاری ، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالی (وَ
مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا۔۔۔ إلخ ) ،الحدیث : 6862 ،ج 4
،ص 356}
ان احادیث
طیبہ سے وہ لوگ عبرت لے جو قتل نا حق کر کے اس شدید ترین کبیرہ گناہ کے مرتکب ہوتے
ہیں۔ اللہ پاک ہمیں قرآن و سنت کے روشنی میں اپنی زندگی گزارنے کی تو فیق رفیق عطا
فرمائے ۔ امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ وسلم۔
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
اسید رضا عطّاری (درجۂ سادسہ جامعۃ المدینہ
فیضانِ عثمانِ غنی کراچی ، پاکستان)

الحمدللّٰہ
اسلام ایک ایسا دین ہے جس میں ہر انسان کے حقوق بیان کیے گیۓ ہیں
اور ان حقوق کو بیان کرنے ان پر عمل کرنے کی تعلیم دی گٸ ہے
۔انسان جتنی سعادتیں پاتا اور جتنے رشتوں سے تعلق بناتا ہے ۔اسکے ذمہ ان معمولات
کے حقوق بڑھتے رہتے ہیں۔دین اسلام نے مسلمانوں کے جو حقوق بیان کیے ہیں ان میں سے
ایک مسلمان کی جان کی حفاظت کرنا بھی ہے اس کو کسی قسم کی تکیلف نہ پہنچانا ہے۔
جہاں دین اسلام میں مسلمان کی جان کی حفاظت کی تعلیم دی گی ہے اور اس پر عمل کا
حکم دیا گیا ہے وہیں کسی مسلمان کی جان کو ناحق قتل کرنے کی مذمت بھی بیان کی گی
ہے ۔چنانچہ قرآن کریم پارہ 19 سورہ فرقان میں فرمایا گیا:
وَالَّذِیْنَ
لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَایَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ
الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَایَزْنُوْنَۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ
ذٰلِكَ یَلْقَ اَثَامًا(68) ترجمۂ کنز الایمان: اور وہ جو اللّٰہ
کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پوجتے اور اس جان کو جس کی اللہ نے حرمت رکھی
ناحق نہیں مارتے اور بدکاری نہیں کرتے اور جو یہ کام کرے وہ سزا پائے گا۔
تفسیر صراط الجنان میں اس آیت کے تحت فرمایا
گیا: کامل ایمان والوں کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ وہ فضیلت والے اعمال سے
مُتَّصِف ہونے کے ساتھ ساتھ قبیح اور برے کاموں سے بھی بچتے ہیں جیسے وہ اللہ
تعالٰی کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی عبادت نہیں کرتے،شرک سے بَری اور بیزار ہیں اور
وہ اس جان کو ناحق قتل نہیں کرتے جسے قتل کرنے کو اللہ تعالٰی نے حرام فرمایا ہے
اور اس کا خون مُباح نہیں کیا جیسے کہ مومن اور معاہدہ کرنے والا کافر، یونہی وہ
بدکاری نہیں کرتے اور جو شخص بھی ان کاموں میں سے کوئی کام کرے گا تو وہ اس کی سزا
پائے گا۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: 68، ص810-811، روح البیان، الفرقان، تحت الآیۃ: 68، 6 / 246-247،
ملتقطاً)
احادیث مبارکہ
میں بھی دیگر گناہوں کے ساتھ ساتھ قتلِ ناحق کی وعیدیں ذکر کی گئی ہیں:
1:(بڑے
بڑے تین گناہ) یاد
رہے کہ اللہ تعالٰی کے ساتھ شرک کرنا،کسی جان کو ناحق قتل کرنا اور زنا کرنا بہت
بڑے گناہ ہیں،جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے
ہیں ’’میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے
سوال کیا’’ کونسا گناہ سب میں بڑا ہے؟ ارشادفرمایا ’’یہ کہ تو اللہ عَزَّوَجَلَّ
کے ساتھ کسی کو شریک کرے، حالانکہ تجھے اُس نے پیدا کیا۔ میں نے عرض کی: پھر اس کے
بعد کونسا گناہ؟ ارشادفرمایا ’’یہ کہ تو اپنی اولاد کو اس لیے قتل کر ڈالے کہ وہ
تیرے ساتھ کھائے گی۔میں نے عرض کی: پھر کونسا؟ ارشادفرمایا ’’یہ کہ تو اپنے پڑوسی
کی عورت سے زنا کرے۔ اللہ تعالٰی نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تصدیق میں یہ آیت ’’وَ الَّذِیْنَ
لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ‘‘ نازل
فرمائی۔(بخاری، کتاب الادب، باب قتل الولد خشیۃ ان یأکل معہ، 4 / 100، الحدیث: 6001)
2:(سب
سے بڑے گناہ) حضور
نبی کریم رؤوف رحیم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کبیرہ
گناہوں میں سے سب سے بڑے گناہ اللّٰہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، کسی کو ناحق قتل کرنا،
اور سود کھانا ہے۔ (مجمع الزوائد، کتاب الایمان، باب في الكبائر، الحدیث382، جلد1،
صفحہ 291)
3:(تین
قسم کے لوگ) حضور
نبی پاک صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جہنم سے ایک گردن نکلے گی جو فصیح
و بلیغ زبان میں کلام کرے گی، اس کی دو آنکھیں ہونگیں جن سے وہ دیکھے گی اور ایک
زبان ہوگی جس سے وہ کلام کرے گی وہ کہے گی:" مجھے اللّٰہ کے سوا کسی کو معبود
بنانے والے، ہر سرکش ظالم اور کسی جان کو ناحق قتل کرنے والے کے متعلق حکم دیا گیا
ہے۔" پس وہ ان (تین قسم کے لوگوں کو) دیگر تمام لوگوں سے 500 سال پہلے (جہنم
میں لے جائے گی۔) (الترغیب والترہیب، کتاب الحدود، باب الترھیب في قتل النفس
.........الخ، الحديث3735، جلد 3، صفحہ 237)
4:(جہنم
میں اوندھے منہ) حسن
اخلاق کے پیکر، محبوبِ رب اکبر صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم نے ارشاد
فرمایا: کسی مسلمان کو قتل کرنے میں اگر تمام زمین و آسمان والے شریک ہوجائیں تو
اللّٰہ عزوجل ان سب کو اوندھے منہ جہنم میں گرادے۔ (المعجم الصغير للطبراني،
الحديث566، الجزؤ الاول، صفحہ 205)
5:(ناحق
خون بہانے سے زیادہ آسان چیز) نور کے پیکر تمام نبیوں کے سرور صلی
اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم کا فرمان عالیشان ہے:" اللّٰہ کے نزدیک تمام
دنیا کا تباہ ہوجانا ناحق خون بہانے سے زیادہ آسان ہے۔ (شعب الايمان للبيهقي، باب
في تحريم النفوس والجنايات عليها، الحديث5344، جلد 4، صفحہ 345)
ان احادیث
مبارکہ سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قتلِ ناحق دنیا میں ایک ایسا عمل
ہے کہ جو انسان کی زندگی کے ساتھ ساتھ اس کی آخرت کی تباہی کا بھی باعث بنتا ہے جس
کے سبب آخرت میں طرح طرح کے عذابات کا سامنا کرنا پڑے گا!
ہم اللّٰہ
کریم کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اس عملِ قبیح کے ساتھ ساتھ ہر اس عمل
سے محفوظ رکھے جو دنیا و آخرت میں ہماری ناکامی و بربادی کا سبب بنے.آمین
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
صفی الرحمٰن عطّاری (درجۂ خامسہ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ جوہر
ٹاؤن لاہور، پاکستان)

اسلام پُر امن
و باوقار دین ہے اور یہ اپنے ماننے والوں کو امن و سلامتی کا درس دیتا ہے۔ دینِ
اسلام میں کسی مسلمان کو بلا عذر شرعی معمولی سی بھی تکلیف پہنچانے کی اجازت نہیں
چہ جائیکہ اس کو قتل کیا جائے۔
کیونکہ کسی
ایک نفس کو ظلما قتل کرنا گویا تمام انسانیت کو قتل کرنا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَ
مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ
غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(93) (پ5،
النساء :93) ترجمۂ کنزالایمان :اور جو کوئی مسلمان
کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کابدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس
پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب۔
ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:مَنْ
قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ
النَّاسَ جَمِیْعًاؕ (پ 6،
المائدۃ:32) ترجمۂ کنزالایمان:جس نے کوئی جان قتل
کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا اور
جس نے ایک جان کو جِلالیا (بچایا) اس نے سب لوگوں کو جِلالیا۔
تفسیرِ صراط
الجنان میں اس آیت کے تحت ہے: یہ آیت ِ مبارکہ اسلام کی اصل تعلیمات کو واضح کرتی
ہے کہ اسلام کس قدر امن و سلامتی کا مذہب ہے اور اسلام کی نظر میں انسانی جان کی
کس قدر اہمیت ہے۔ اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جو اسلام کی اصل تعلیمات
کو پس پُشت ڈال کر دامنِ اسلام پر قتل و غارت گری کے حامی ہونے کا بد نما دھبا
لگاتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو مسلمان کہلا کر بے قصور
لوگوں کو بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے ذریعے موت کی نیند سلا کر یہ گمان کرتے
ہیں کہ انہوں نے اسلام کی بہت بڑی خدمت سر انجام دے دی۔
مسلمان
کو قتل کرنے کا حکم ؟اگر مسلمانو ں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب
کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی
سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت ِ دراز
تک جہنم میں رہے گا۔ آیت میں ’’خَالِدًا ‘‘کا لفظ ہے اس کا ایک معنیٰ ہمیشہ ہوتا
ہے اور دوسرا معنیٰ عرصہ دراز ہوتا ہے یہاں دوسرے معنیٰ میں مذکور ہے۔(تفسیرِ صراط
الجنان, تحت آیت: 93 سورة النساء, پارہ: 5)
احادیث میں
بھی قتلِ ناحق کی کثیر مذمت بیان کی گئی ہے:
(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے
روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔
(بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 4 / 358،
الحدیث: 6871)
(2)…کسی
مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہو گا۔ حضرت ابو بکرہ
رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی
مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال
دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205 ،
الجزء الاول)
(3)…حضرت ابو
بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں
تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی:
مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے
پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، 1 / 23، الحدیث: 31)
(4)…حضرت ابو
ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر
ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں
آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی
رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3 / 262، الحدیث: 2620)
(5) رسول اﷲ
صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ممکن ہے اﷲ تعالٰی سارے گناہ بخش دے سوائے اس کے کہ
جو مشرک مرے یا جو دانستہ مؤمن کو قتل کرے۔(کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ
المصابیح جلد:5 , حدیث نمبر:3468)
(6)…حضرت براء
بن عازب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک
دنیا کاختم ہو جانا ایک مسلمان کے ظلماً قتل سے زیاد سہل ہے۔(ابن ماجہ، کتاب
الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلماً، 3 / 261،
الحدیث: 2619)
(7 )....روایت
ہے حضرت ابن عباس سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے راوی فرمایا قیامت کے دن
مقتول قاتل کو لائے گا کہ اس کی پیشانی و سر اس کے ہاتھ میں ہوگا اور مقتول کی
رگیں خون بہاتی ہوں گی اور عرض کرے گا یارب اس نے مجھے قتل کیا تھا حتی کہ اسے عرش
کے قریب کردے گا۔
(کتاب:مرآۃ
المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:5 , حدیث نمبر:3465)
(8)... روایت
ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲ نے کہ جوکسی مسلمان کے قتل پر آدھی
بات سے بھی مددکرے تو وہ اﷲ تعالٰی سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کی
درمیان لکھا ہوگا اﷲ کی رحمت سے ناامید ہے۔ (کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ
المصابیح جلد:5 , حدیث نمبر:3484)
قتل
ناحق کے متعلق ہمارے معاشرے کا کردار : قرآن پاک میں قتلِ ناحق کے
متعلق ان وعیدات اور ان آحادیث کو پڑھ، سن کر اللّٰہﷻ سے ڈر جانا چاہیے مگر افسوس
کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار
دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی، تَعَصُّب والی لڑائیاں عام
ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، گروپ اور جتھے اور عسکری وِنگ
بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارتگری کرنا ہے۔
اللہ پاک ہمارے معاشرے کو امن و سکون کا گہوارہ
بناۓ اور
اس معاشرے سے قتلِ ناحق اور خون ریزی جیسے فسادات کو ختم فرمائے۔آمین بجاہ النبی
الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
محمد اسامہ عطّاری مدنی (مرکزی جامعۃُ المدینہ
فیضانِ مدینہ کراچی ، پاکستان)

کسی مسلمان کو
جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے, اور کثیر احادیث میں اس کی بہت
مذمت بیان کی گئی ہے اور کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے
کا شکار ہوگا.
کبیرہ
گناہوں میں سے ایک گناہ: حضرت انس رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے تاجدار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بڑے کبیرہ
گناہوں میں سے ایک کسی جان کو نا حق قتل کرنا ہے۔ (بخاری,کتاب الدیات, باب قول
اللہ تعالی ومن احیایا, حدیث:871)
مسلمان
کے قتل پر جمع ہونا: حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے,نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر
جمع ہو جائیں تو اللہ پاک سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔ (معجم
صغیر, باب العین من اسمہ علی, ص:205)
مسلمان
کو ناحق قتل کرنا:فرمان
مصطفیٰ صلیٰ اللہ علیہ وسلم:اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے بے شک ایک
مسلمان کا قتل کیا جانا اللہ پاک کے نزدیک دنیا کے تباہ ہوجانےسے زیادہ بڑا ہے۔(ظاہری گناہوں
کی معلومات,ص:78)
مقتول
اور قاتل کا ٹھکانہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کوئ چخص دوسرے کے پاس جاکر اسے قتل
کردے تو مقتول جنت میں اور قاتل جہنم میں ہوگا۔(معجم
الزوائد,کتاب الفتن, باب خرمتہ الرماد المسلمین:حدیث:123)
اللہ
کی رحمت سے مایوس:حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا:جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ
پاک کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا
یہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے(ابن ماجہ, کتاب الدیات,حدیث:2620)
اللہ پاک ہمیں
قتل ناحق جیسے کبیرہ گناہوں سے محفوظ فرمائے اور دوسرے مسلمانوں کو بھی اس کبیرہ
گناہ سے باز رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

معاشرے میں
رائج بیماریوں میں سے ایک شدید بدترین، قبیح بیماری قتل و غارت ہے۔ جی ہاں خوف خدا
نہ ہونے کی وجہ سے ، صبر ، و رضا ، بھائی چارہ ، اخوت ، الغرض بنیادی علم دین نہ
ہونے کی وجہ سے ، حقوق العباد کا علم نہ ہونے کی وجہ سے ، مزید اور بھی بہت سی
اغراض ہیں جن کی وجہ سے قتل ناحق جیسی بیماری جنم لیتی ہے۔ قرآن و حدیث میں قتلِ
ناحق کی بڑی شدت سے مذمت بیان کی گی ہے ۔ جیسے کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے
وَ مَنْ
یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ ترجمہ
کنزالایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے (
پارہ 5 ، سورہ النساء ، آیت نمبر 93)
آئیے احادیث
مبارکہ کی روشنی میں ناحق قتل کی مذمت کے بارے میں جانتے ہیں :
1:
بڑے کبیرہ گناہوں میں سے : حضرت انس رضی
اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، تاجدارِ ختم نبوت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے
ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری،
کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 4 / 358،
الحدیث: 6871)
2:
بڑے خسارے کا شکار : حضرت ابو بکرہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس خاتم النبیین صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ
وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع
ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، باب العین،
من اسمہ علی، ص205 ، الجزء الاول)
3:
اللہ عزوجل کی رحمت سے مایوس لوگ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے
روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے
کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ
میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ
کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3 / 262، الحدیث: 2620)( تفسیر
صراط الجنان ، پارہ 5 سورہ النساء ، آیت نمبر ، 93)
4:
دنیا کے زوال سے بڑھ کر : حضرتِ سیدنا عَبْدُ اللہ بن عَمْرو رضی
اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور خاتم النبیین صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا: اللہ تبارک وتعالی کے نزدیک ایک مومن کا قتل دنیا کے زوال سے بڑھ
کر ہے۔ (ترمذی،کتاب الدیات، باب ماجاء فی تشدید قتل مؤمن،3/98،
حدیث:1400)
احادیث مبارکہ
میں بڑی شد و مد کے ساتھ مذمت کی گی ہے ۔ مگر افسوس کہ آج سوچے سمجھے سازشوں کے
تحت مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے ۔ چھوٹی چھوٹی بات پر، ہلکی سی نوک
جوک پر ، تو ترا سے بات قتل تک جا پہنچتی ہے ، اپنے دوست ، ہریف، رشتے داروں اہل
حق کو ہرانے کے لیے ، نیچہ دیکھانے کے لیے ، حسد و بغض اور بے جا عزت و شہرت کی
بنا پر قتل کیا جاتا ہے ۔ یاد رہے عزت دینے والی ذات ، نعمت دینے والے ذات ، اور
دیگر شر سے بچانے والی ذات اللہ تبارک وتعالیٰ کی ہے اس کی جانب رجوع کیا جائے ،
کسی کو ناحق قتل کر کے ، وہ چیز حاصل نہیں کی جا سکتی ۔ البتہ دین و دنیا کی
بربادی کا سبب بن جاتا ہے بندہ اور آخرت کا دائمی عذاب الگ ۔ پھر کہاں باقی رہی وہ
چیز جس کے لیے یہ کام کیا ؟
عموما ایسے
کام علم دین نہ ہونے کی وجہ سے ہوتے ہیں ۔ نفس کو کسی کا خوف نہ ہو تو وہ بے باکی
کا مرتکب ہوتا ہے ۔ اس برے بدترین عمل سے بچنے اور بچانے کے لیے علم دین حاصل بھی
کیا جائے اور اس کی شمع کو عام کیا جائے ، ایسی بری صحبتوں سے پرہیز کیا جائے ،
قرآن و حدیث میں وارد ترغیبات کا مطالعہ کیا جائے ۔ دائمی عذاب ہر غور کیا جائے ۔
دعوت اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ ہونے سے خوف خدا جیسی عظیم دولت حاصل ہو گی ۔
ان شاءاللہ عزوجل آپ کو دعوت ہے آئیے اور دینی ماحول سے وابستہ ہو جائیے ۔
دعا ہے کہ
اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی تمام بری حرکتوں کے مرتکب ہونے سے بچائے ، ایسی راہ سے بچتے
رہنے بلخصوص بری صحبتوں سے بچتے رہنے اور ان کاموں کے معاون و مددگار بننے سے بھی
بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
۔
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
محمد عمر فاروق عطاری ( درجہ ثانیہ جامعۃُ
المدینہ ٹاؤن شپ لاہور ، پاکستان)

معاشرتی
برائیوں میں سے ایک برائی ناحق قتل کرنا ہے کسی مؤمن کو ناحق قتل کرنا بہت بڑا
گناہ ، حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ، ناحق قتل کرنے والے پر اس کا دِین
تنگ ہوجاتا ہے اور وہ اپنے اس گناہ کے سبب تنگی میں رہتا ہے۔ناحق قتل کرنے والا
اعمال صالحہ کی توفیق سے محروم ہو جاتا ہے۔ (کتاب:فیضان ریاض الصالحین جلد:3 ,
حدیث نمبر:220) قرآنِ مجید کی کثیر آیات اور
رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
کثیر احادیث میں ناحق قتل کرنے کی مذمت آئی ہے۔
وَ مَنْ
یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ
غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا
ترجمۂ کنز الایمان اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ
کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا
اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب۔(سورہ نساء آیت 93)
احادیثِ
مبارکہ میں کئی جگہ ناحق قتل کرنے کی مذمت آئی ہے۔ چند احادیث ملاحظہ ہوں۔
آگ
میں کون: الله پاک کے سب سے آخری نبی
محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایا:’’جب دو مسلمان تلواریں لئے ایک دوسرے پر حملہ آور ہوں توقاتل ومقتول
دونوں آگ میں ہیں۔‘‘ (راوی فرماتے ہیں ) میں نے عرض کی : ’’ یا رسول الله صلی اللہ
علیہ وسلم قاتل تو واقعی اس کاحق دار ہے مگر مقتول کا کیا قصور ہے؟ ‘‘ ارشاد فر
مایا:’’ وہ بھی تواپنے مُقابِل کو قتل کرنا چاہتا تھا۔‘‘ ( بخاری ، کتاب العلم ،
باب وان طائفتان من المؤمنین … الخ ، ا/ 23 ،
حدیث: 31)
ہلاکت
کی چیز: حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں کہ
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سات ہلاکت کی چیزوں سے بچو۔لوگوں نے
پوچھا حضور وہ کیا ہیں ؟ فرمایا اللہ کے ساتھ شرک ، جادو ،اور ناحق اس جان کو ہلاک
کرنا جواللہ نے حرام کی،اور سود خوری ، یتیم کا مال کھانا ،جہاد کے دن پیٹھ
دکھادینا ،پاکدامن مؤمنہ بے خبر بیبیوں کو بہتان لگانا. (بخاری،مسلم)
بڑے
گناہ: حضرت عبداللہ ابن عمرو سے
فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شرک باللہ،ماں باپ کی
نافرمانی، جان کا قتل،جھوٹی قسم بڑے گناہ ہیں۔ ( کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ
المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:50)
دعا ہے کہ
الله پاک ہمیں قتلِ ناحق جیسے گناہِ عظیم سے بچتے رہنے کی توفیقِ رفیق عطا فرمائے
آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

قرآن و حدیث
میں قتلِ ناحق کی بڑی شدت سے مذمت بیان کی گی ہے ۔ جیسے کہ قرآن مجید میں فرمایا
گیا ہے
وَ مَنْ
یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ ترجمہ
کنزالایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے (
پارہ 5 ، سورہ النساء ، آیت نمبر 93) آئیے احادیث مبارکہ کی روشنی میں ناحق قتل کی
مذمت کے بارے میں جانتے ہیں :
بڑے کبیرہ گناہوں میں سے : حضرت
انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، تاجدارِ ختم نبوت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ
وسلم نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا
ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 4 / 358،
الحدیث: 6871)
ہزار
مرتبہ قتل: حضرتِ
سَیِّدُنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بروزِ قیامت قاتل کو ہزار
مرتبہ قتل کیا جائے گا ۔ عاصم بن اَبِی النَّجُوْد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا :اے
ابو زُرعہ ہزار مرتبہ ؟‘‘ ابو زُرعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:’’جس آلہ سے
اس نے قتل کیا اس کی ہزار ضربیں۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ، کتاب الفتن، باب من کرہ
الخروج فی الفتنۃ وتعوذ عنھا، 8/644،
حدیث:330)
دنیا کا زوال: حضرتِ
سَیِّدُنا عَبْدُ اللہ بن عَمْرو رضی اللہ تعالیٰ عنہم اسے مروی ہے کہ حضور اقدس
خاتم النبیین صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ عزوجل کے نزدیک
ایک مومن کا قتل دنیا کے زوال سے بڑھ کر ہے۔ (ترمذی،کتاب الدیات، باب ماجاء فی
تشدید قتل مؤمن،3/98، حدیث:1400)
زوال
سے بڑھ کر جرم: حضرتِ
سَیِّدُنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اللہ
عزوجل کے ہاں ایک مومن کا قتل دنیا کے زوال سے بڑھ کر ہے۔ (شعب الإیمان، باب فی
تحریم النفوس والجنایات علیہا، 4/344،
حدیث:5341) ( ماخذ از فیضان ریاض الصلاحین ، جلد 1،
حدیث نمبر 9)
میرے پیارے
دوستو اسلامی بھائیو آپ نے دیکھا کہ قرآن پاک و حدیث مبارکہ میں قتل نا حق کی کتنی
مذمت بیان کی گئی اور ہم جب تک بدلہ نہ لے لیں سکون نہیں آتا معاف کرنے والا درگزر
کرنے والا اللہ کا دوست ہے اللہ عزوجل معاف کرنے والے سے راضی ہوتا ہے۔ قتل ناحق
سے بچنے بچانے کے لیے ہمیں علم دین حاصل کرنا ہے ۔ جوکہ خوف خدا کا ایک بہترین
زریعہ ہے ۔ خوف خدا جیسی عظیم نعمت ہی ہمیں اخلاقی ، معاشی ،ظاہری باطنی الغرض ہر
طرح کی غلاظت سے بچا سکتا ہے ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ محبوب آقا کریم خاتم النبیین
صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے وسیلہ سے ہمیں اپنی پناہ عطا فرمائے اور
ہر طرح کے جرم و گناہ سے محفوظ فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وآلہ وسلم
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔