احمدافتخارعطاری (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ
فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)

میٹھے میٹھے
اسلامی بھائیو کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے آج کل قتل اس قدر عام ہو
گیا ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کو قتل کر دیتے ہیں اس میں ذرا خوف
محسوس نہیں کرتے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے قتل ناحق کی کثیر
مرتبہ مذمت بیان فرمائی ہے آئیے میں آپ کے سامنے چند احادیث مبارکہ پیش کرتا ہوں
(1)7
بلاک کرنے والی چیزیں :حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی
ہے کہ سید عالم نور مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عبرت نشان ہے 7 بلاک
کرنے والی چیزوں سے بچو عرض کی گئی یا رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ کیا
ہیں۔ ارشاد فرمایا (1) الله عز وجل کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا (2) جادو کرنا (
3) کسی جان کو ناحق قتل کرنا (4) سود کھانا (5 )یتیم کا مال کھانا
(6) جھنگ کے
دن پیٹھ پھیر لینا اور (7) پاک دامن مومنہ سیدھی سادی عورتوں پر تہمت لگانا صحیح
مسلم کتاب الایمان باب الکبائر صفحہ693حدیث262۔
(2)ساری
دنیا کا تباہ ہو جانا: سرکار نامدار مدینے کے تاجدار صلی اللہ علیہ و آلہ
و سلم کا فرمان عالیشان ہے الله عز و جل کے ہاں ساری دنیا کا تباہ ہو جانا کسی
مومن کے ناحق قتل سے زیادہ آسان ہے (سنن ابن ماجه ابواب الديات باب التغليظ في قتل
مسلم ظلما الحدیث 2619صفحہ2634)
(3)اوندھے
منہ جہنم میں گرنا: حسن اخلاق کے پیکر محبوب رب اکبر صلی اللہ علیہ و
آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کسی مسلمان کو قتل کرنے میں اگر تمام زمین و آسمان والے
شریک ہو جائیں تو اللہ عزوجل ان سب اوندھے منہ جہنم میں گرادے۔ ( المعجم الصغير
لطبرانی الحدیث 566 الجزء الاول صفحہ (205)
(4)مومن
کو جان بوجھ کر قتل کرنے والے کے لئے بخشش کا نہ ہونا: حضورنبی رحمت
شفیع امت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان مغفرت نشان ہے امید ہے کہ اللہ عزوجل
ہر گناہ بخش دے گا سوائے اس شخص کے جو حالت کفر میں میرے یا مومن کو جان بوجھ کر
قتل کرے۔ ( سنن النسائی کتاب المحاربہ باب تحريم الدم الحدیث 3989 صفحہ2349تقدم
وتأخر)
(5)جہنم
سے ایک گردن کا نکلنا: تاجدار رسالت شہنشاہ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے ارشاد فرمایا جہنم سے ایک گردن نکلے گی جو فصیح و بلیغ کلام کرے گی۔ اس کی دو
آنکھیں ہوں گی جن سے وہ دیکھے گی۔ اور ایک زبان ہوگی جس سے وہ کلام کرے گی وہ کہے
گی مجھے اللہ عزوجل کے سوا کسی کو معبود بنانے والے ہر سرکش ظالم اور کسی جان کو
ناحق قتل کرنے والے کے متعلق حکم دیا گیا ہے پس وہ ان 3 قسم کے لوگوں کو دیگر تمام
لوگوں سے 500 سال پہلے جہنم میں لے جائے گی۔ ( المعجم الاوسط الحدیث 18 3 ص 103)
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

خیرخواہی
اُمّت کا جذبہ رکھ کر دنیا بھر میں دینی کام سر انجام دینے والی عاشقانِ رسول کی سنتوں بھری تحریک دعوت اسلامی کے تحت 19 اپریل 2024ء کو ذمہ داران نے اسٹیڈیم روڈ حافظ آباد میں قائم شہدائے پولیس فیملی پارک کا
وزٹ کیا۔
وہاں انچارج میونسپل کمیٹی حافظ آباد چوہدری سیف
اللہ تارڑ سمیت دیگر اتھارٹی پرسنز سے ملاقاتیں کیں اور انہیں دعوتِ اسلامی کا تعارف کرواتے ہوئے ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات میں شرکت کی دعوت دی ۔
بعدازاں ذمہ داران نے شعبہ ایف جی آر ایف کے تعاون سے اتھارٹی پرسنز کے ساتھ ملکر پارک میں پودے لگائے اور اس موقع پر ملک وقوم کے ترقی و خوشحالی کے لئے
دعا کروائی۔(رپورٹ:
محمد مدثر عطاری شعبہ رابطہ برائے شخصیات ڈسٹرکٹ حافظ آباد/گجرات ڈویژن،
کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)

گزشتہ روز دعوت اسلامی کے شعبہ رابطہ برائے شخصیات دعوت اسلامی کی جانب سے تحصیل ذمہ دار نے دیگر ذمہ داران کے ہمراہ سیالکوٹ
میں ڈپٹی کمشنر محمد ذوالقرنین، ایڈیشنل ڈپٹی
کمشنر رینیو محمد اقبال،اسسٹنٹ کمشنر غلام سرور،ڈی پی او حسن اقبال،ایس پی غلام
عباس،ڈی ایس پی صدر صابر چھٹہ،ایس پی جیل ملک بابر،ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل ملک رفاقت
اور ڈسٹرکٹ سیکیورٹی انچارچ حافظ سعید سے ملاقات کی ۔
دورانِ گفتگو ذمہ داران نے افسران کو دعوت اسلامی کے تحت دنیا بھر میں ہونے والے دینی و فلاحی سلسلوں کے
حوالے سے بتایا اور ان کو مدنی مرکز فیضان مدینہ کا وزٹ کرنے کی دعوت دی جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتیں کیں۔
٭دوسری
جانب رابطہ برائے شخصیات کی طرف سے نارووال میں شعبہ رابطہ کے تحصیل ذمہ دار نے ڈپٹی سپرینٹنڈ جیل شوکت اور 1122 کے ڈسٹرکٹ انچارچ محمد عامر سے ملاقات
کی جس میں انہیں دعوت
اسلامی کا تعارف کروایا ۔اس موقع پر انہوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اچھے تاثرات دیئے۔(رپورٹ:رابطہ برائے شخصیات
ڈسٹرکٹ نارووال،کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)
حافظ محمد حنین قادری (درجۂ ثانیہ جامعۃُ
المدینہ فیضان اوکاڑوی کراچی ، پاکستان)

حدیث:حضرت عبد
اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک موقع پر سید عالم صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا : اگر آسمان وزمین کے تمام لوگ کسی ایک مسلمان کو قتل کرنے
کیلئے جمع ہو جائیں تو اللہ تعالٰی ان سب کو گنتی اور حساب کے بغیر عذاب دے گا۔
(مجمع الزوائد، کتاب الفتن، حدیث: 12301)
حدیث: حضرت
عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک پوری دنیا کا ختم ہو جانا کسی مسلمان کے قتل سے بہتر
ہے۔ {سنن نسائی، کتاب المحاربة، حديث: 3992 (مطبوعته الا السلام)}
حدیث: حضرت
عبد الله بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: جس شخص نے کسی مومن کو ظلم سے ناحق قتل کیا تو رب تعالی اس کی کوئی نفلی
اور فرض عبادت قبول نہیں فرمائیگا۔ (ابو داؤد، کتاب الفتن، حدیث: 4270)
حدیث: حضرت
مرثد بن عبد الله رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے
پوچھا گیا کہ اگرکوئی شخص کسی کو قتل کرنے کے ارتکاب کا حکم دے تو اس کا کیا حکم
ہے؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آگ کے ستر حصےکیے جائینگے تو
قتل کا حکم دینے والے کیلئے انہتر (69) حصہ ہونگے اور قتل کرنے والے کا ایک حصہ
اور وہی اس کیلئے کافی ہو جائیگا ۔ (مجمع الزوائد، کتابالفتن، حدیث: 12320 كتاب)
حدیث: نبی
کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن قاتل مقتول دونوں کو
لایا جائیگا تو مقتول کہےگا کہ اے میرے رب اس سے پوچھ اس نے مجھے کس بات پر قتل
کیا ؟ قاتل (ایک اور شخص کی طرف اشارہ کر کے) کہے گا کہ مجھے اس نے حکم دیا تھا
چنانچہ دونوں کو ہاتھ پکڑ کر انہیں آگ میں پھینک دیا جائیگا۔ (مجمع الزوائد، کتاب
الفتن حدیث:23221)
پیارے محترم
قارئین کرام یہاں قتل ناحق سے متعلق جو مذمتیں،وعیدات احادیث مبارکہ میں آئی ہیں
آپنے چند احادیث ملاحظہ کیں، محترم حضرات! اگر ہم اور دیگر کتب احادیث کا مطالعہ
کریں تو ہمیں اس طرح قتل ناحق کی مذمت پر کئی احادیث ملیں گی یہ ایک بہت برا اور
الله ورسول کی نافرمانی والا کام ہے آج معاشرے میں اسے بالکل (لا علمی،جہالت،مال و
دولت کی ہوس، زمینوں کے کچھ ٹکڑوں وغیرہ کے حصول کیلئے ہلکا سمجھ کر جیسے دیکھیں
ایک دوسرے کے خون کا پیاسا نظر آرہا ہے لہذا قرآن و حدیث میں اس فعل(قتل ناحق) کی
جو مذمتین بیان کی گئیں انکو پیش نظر رکھتے ہوئے اس فعل بد سے بچنے اللّٰہ کریم
ہمیں قرآن وحدیث پر عمل کرنے اور ایسے افعال جو اللہ اور رسول کی نافرمانی و
ناراضی والے ہیں ان سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی
اللّٰہ علیہ وسلم
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
محمد حمزہ حمید (درجۂ سادسہ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن
لاہور، پاکستان)

دین اسلام میں
ایک انسان کے مال و جان کی اہمیت کو بہت واضح بیان کیا گیا ہے کہ ایک جان جسے اللہ
تعالٰی نے پیدا فرمایا تو بقیہ انسانوں کو بھی اس کے حقوق بیان فرماۓ اور
اس انسان پر بھی بقیہ انسانوں کے حقوق رکھے تاکہ ہر کوئ حد اعتدال میں رہ کر ایک
دوسرے کی ضرورتوں کو پورا کریں اور نظام زندگی چل سکے ۔ تو جس انسان کے وجود سے
اللہ تعالیٰ نے نظام زندگی تشکیل دیا ہو تو یقیناً اسے نا حق قتل کرنا بہت عظیم
گناہ ہو گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے
مِنْ اَجْلِ
ذٰلِكَ ﳎ كَتَبْنَا عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَنَّهٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا
بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ
جَمِیْعًاؕ-وَ مَنْ اَحْیَاهَا فَكَاَنَّمَاۤ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًاؕ
ترجمہ
کنزالایمان :اس سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس نے کوئی جان قتل کی
بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا اور جس
نے ایک جان کو جِلالیا اس نے گویا سب لوگوں کو جلالیا
اب چند احادیث
مبارکہ سے قتل نا حق کی مذمت سنتے ہیں
(1) عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ
عَمْرٍو أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:
"لَزَوَالُالدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللّٰهِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ"
روایت ہے حضرت عبداﷲ ابن عمرو سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ
دنیا کا مٹ جانا اﷲ کے ہاں آسان ہے مسلمان آدمی کے قتل سے۔ مشکوٰۃ المصابیح حدیث
نمبر:3462
(2) وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ
وَأَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
قَالَ: "لَوْ أَنَّ أَهْلَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ اشْتَرَكُوا فِي دَمِ مُؤْمِنٍ
لأَكَبَّهُمُ اللّٰهُ فِي النَّارِ روایت ہے حضرت ابو سعید اور ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ سے وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم سے راوی فرمایا اگر زمین و آسمان
والے ایک مسلمان کے قتل میں شریک ہوجائیں 1؎ تو
اﷲ تعالٰی انہیں آگ میں اوندھا ڈال دے ۔ (مشکوٰۃ المصابیح , حدیث نمبر:3464)
(3) عَنْ اَبِیْ بَکْرَۃَ
نُفَیْعِ بْنِ الْحَارِثِ الثَّقَفِیْ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اَنَّ
النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا الْتَقَی الْمُسْلِمَانِ
بِسَیْفَیْہم ا فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُوْلُ فِی النَّارِ۔ قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ
اللہِ ہَذَا الْقَاتِلُ فَمَا بَالُ الْمَقْتُوْلِ ؟ قَالَ إِنَّہُ کَانَ
حَرِیْصًا عَلَی قَتْلِ صَاحِبِہٖ ترجمہ : حضرتِ سَیِّدُنا ابو بکرہ
نُفَیْع بن حَارِث ثَقَفِی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ پیکرِ
عظمت و شرافت، مَحبوبِ رَبُّ العزت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم نے فرمایا:’’جب دو مسلمان تلواریں لئے ایک دوسرے پر حملہ آور ہوں توقاتل
ومقتول دونوں آگ میں ہیں۔‘‘ (راوی فرماتے ہیں ) میں نے عرض کی :’’ یَا رَسُوْلَ
اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم قاتل تو واقعی اس کاحق دار
ہے مگر مقتول کا کیا قصور ہے؟ ‘‘ ارشاد فر مایا:’’ وہ بھی تواپنے مُقابِل کو قتل
کرنا چاہتا تھا۔‘‘ (بخاری ، کتاب العلم ، باب وان طائفتان من المؤمنین … الخ ، 1/23
، حدیث: 31)
شرح حدیث
قاتل
ومقتول کب جہنمی ہونگے ؟ حضرتِ سَیِّدُنامُلَّا عَلِی قَارِی
عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَارِی مرقاۃ شرحِ مِشْکاۃ میں اس حدیثِ پاک کے تحت
فرماتے ہیں : حرام فعل کا ارادہ کرنا ان افعال میں سے ہے جن پرمواخذہ ہے۔ اوریہ (
قاتل ومقتول دونوں کے جہنمی ہونے کا حکم ) اس وقت ہے جب دونوں ہی ایک دوسرے کے قتل
کے ارادے سے حملہ آور ہوں۔ اگر ان میں سے ایک نے دِفاع کا ارادہ کیا اور اُس کی
طرف سے پہل بھی نہ ہوئی مگر صرف دوسرے کے مارنے کی وجہ سے اس نے اس کو قتل کردیاتو
اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہوگا،کیونکہ اس کو(اپنی جان بچانے کی) شرعااجازت دی گئی
ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الدیات، باب قتل اہل الردۃ ،7/104 تحت الحدیث:3538
(4) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ
عَمْرِو بْنِِ الْعَاصِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَسَلَّم قَالَ : اَلْكَبَائِرُ اَلْاِشْرَاكُ بِاللَّهِ ، وَعُقُوْقُ
الْوَالِدَيْنِ ، وَقَتْلُ النَّفْسِ ، وَالْيَمِيْنُ الْغَمُوسُ ترجمہ
: حضرت سیدناعبداللہ بن عَمرو بن عاصرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے
کہ حضور نبی کریم رؤف رحیمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے
ارشادفرمایا : ’’کبیرہ گناہ یہ ہیں :اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ساتھ کسی کو شریک
ٹھہرانا ، والدین کی نافرمانی کرنا ، کسی جان کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم
کھانا ۔ ‘‘(فیضان ریاض الصالحین جلد:4 , حدیث نمبر:337)
(5) حضرت براء
بن عازب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک
دنیا کاختم ہو جانا ایک مسلمان کے ظلماً قتل سے زیاد سہل ہے۔(ابن ماجہ، کتاب
الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلماً، 3/261, الحدیث: 2619)
یہ آیت اور
احادیث مبارکہ اسلام کی اصل تعلیمات کو واضح کرتی ہے کہ اسلام کس قدر امن و سلامتی
کا مذہب ہے اور اسلام کی نظر میں انسانی جان کی کس قدر اہمیت ہے۔ اس سے ان لوگوں
کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جو اسلام کی اصل تعلیمات کو پس پُشت ڈال کر دامنِ اسلام
پر قتل و غارت گری کے حامی ہونے کا بد نما دھبا لگاتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی
نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو مسلمان کہلا کر بے قصور لوگوں کو بم دھماکوں اور خود کش
حملوں کے ذریعے موت کی نیند سلا کر یہ گمان کرتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کی بہت بڑی
خدمت سر انجام دے دی۔
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
قاری محمد احمد رضا (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی
لاہور،پاکستان)

کسی مسلمان کو
جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اور کثیر احادیث میں ا س کی بہت
مذمت بیان کی گئی ہے، ان میں سے 5احادیث درج ذیل ہیں:
(1)…حضرت انس
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی
جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن
احیاہا، 2 / 853 الحدیث: 8616)
(2)…کسی
مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہو گا۔ حضرت ابو بکرہ
رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی
مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال
دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205 ، الجزء الاول)
(3)…حضرت ابو
بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں
تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی:
مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے
پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ،
1 / 23 الحدیث: 31)
(4)…حضرت ابو
ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر
ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں
آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی
رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3 /
262، الحدیث: 2620)
روایت ہے
عبادہ ابن صامت سے فرماتے ہیں کہ فرمایانبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حالانکہ آپ کے
آس پاس صحابہ کی جماعت 2؎ تھی کہ مجھ
سے اس پر بیعت کرو کہ الله کےساتھ کسی کو شریک نہ کرنا،نہ چوری کرنا اور نہ زنا،نہ
اپنی اولاد کو قتل کرنا،نہ اپنے سامنے گھڑا ہوا بہتان لگانا اور کسی اچھی بات میں
نافرمانی نہ کرنا تم میں سے جو وفائے عہد کرے گا اس کا ثواب الله کے ذمہ کرم پر ہے
اور جوان میں سے کچھ کر بیٹھے اور دنیا میں سزا پالے تو وہ سزا کفارہ ہے اور جو ان
میں سے کچھ کرلے،پھر رب اُس کی پردہ پوشی کرے تو وہ الله کے سپرد ہے۔اگر چاہے
معافی دے دے چاہے سزا دے لہذا ہم نے اس پر آپ سے بیعت کی۔( کتاب:مرآۃ المناجیح شرح
مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:18)
اللہ تعالیٰ
ہمیں قتل نا حق سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
محمد بلال منظور (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی
لاہور،پاکستان)

پیارے پیارے
اسلامی بھائیو ،آج کل قتل کرنا عام ہوتا جا رہا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے
کو قتل کر ڈالتے ہیں کسی کو نا حق قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے اور یہ اتنا سخت گناہ ہے
کہ حدیث میں فرمایا گیا کسی مسلمان کا قتل اللّٰہ عزوجل کے نزدیک دنیا کے برباد
ہونے سے بڑا ہے، اس کی اور بھی کثیر احادیث مبارکہ میں شدید ترین مذمت بیان کی گئی
ہیں جو کہ پانچ درج ذیل ہیں،
(1)... حضرت
ابو بکرہ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ سے مروی ہے ، رسولِ اکرم صَلَّى اللَّهُ
تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں
سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض
کی : مقتول جہنم میں کیوں جائے گا ؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل
کرنے پر مصر تھا۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنين اقتتلوا ۔ ۔
۔ الخ،23/1، الحدیث: (31)
(2)... حضرت
ابوہریرہ رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے، حضور پر نور صلى الله تعالى
عَلَيْهِ وَالِہ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی
بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس
کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ” یہ اللہ عزوجل کی رحمت سے مایوس ہے۔“(ابن
ماجہ، کتاب الدیات،کتاب التغلیظ،فی قتل مسلم ظلما 262/3الحدیث 2620
(3)... حضرت
انس رَضِيَ اللَّهُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّى اللهُ
تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے
ایک کسی جان کو (ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الديات، باب قول الله تعالى: ومن
احیاها ، 358/6، الحدیث: 6871
(4) کسی
مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہو گا۔ حضرت ابو بکرہ
رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ”اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہو
جائیں تو اللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، باب العین، من
اسمه على، ص 205 ، الجزء الاول)
(5)... حضرت
عبد اللہ بن مسعود رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ سے روایت ہے ، تاجدارِ رسالت
صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: مسلمان کو
گالی دینا فسق اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب بیان قول النبی
صلی اللہ علیہ وسلم : سباب المسلم - - الخ ، ص 25، الحدیث: 116
پیارے پیارے
اسلامی بھائیو ،
جیسا کہ ہم نے
سنا کہ نا حق قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے اور قتل کرنے والا قیامت کے دن اللّٰہ پاک کی
رحمت سے مایوس ہے ۔اللّٰہ پاک ہمیں اس کبیرہ گناہ سے بچنے کی توفیق عطاء فرمائے
آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
ابو ثوبان عبدالرحمن عطّاری (درجۂ سابعہ مرکزی
جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان)

اللہ پاک
اپنے پاک اور سچے کلام قرآن کریم میں قتل ناحق کی مذمت میں ارشاد فرماتا ہے: وَ
مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ
غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(سورہ
النساء:93) ترجمۂ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان
بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب
کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب۔ افسوس کہ آج کل قتل
کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی،
دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی، تَعَصُّب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون
پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، گروپ اور جتھے اور عسکری وِنگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام
ہی قتل و غارتگری کرنا ہے۔
کسی
مسلمان کو جان بوجھ کرقتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اور کثیر احادیث میں اس کی
بہت مذمت بیان کی گئی ہے، ان میں سے 7 احادیث درج ذیل ہیں:
(1)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب
الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 4 /358 ،
الحدیث:6871 )
(2) کسی
مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہو گا۔حضرت ابو بکرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اگر
زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے
منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205 ، الجزء الاول)
(3)
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں
جائیں گے۔راوی فرماتے ہیں: میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد
فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان،
باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ،1 /23، الحدیث:31)
(4)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور پر صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ
تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا
ہو گا ’’یہ اللہ پاک کی رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ
فی قتل مسلم ظلمًا، 3 /262 ، الحدیث:2620 )
(5)
حضرت امیرمعاویہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا کہ ’’امید ہے کہ گناہ کو اﷲبخش دے گا مگر اس شخص کو نہ بخشے گا جو مشرک ہی
مر جائے یا جس نے کسی مرد مومن کو قصداً (جان بوجھ کر) ناحق قتل کیا۔‘‘
(سنن
أبي داود،کتاب الفتن ۔۔۔إلخ،باب في تعظیم قتل المؤمن، الحدیث:4270 ،ج:4 ،ص:139)
(6)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’کبیرہ
گناہ یہ ہیں (1) اللہ(عزوجل) کے ساتھ شریک کرنا، (2) ماں باپ کی نافرمانی کرنا،(3)
کسی کو ناحق قتل کرنا،(4) اور جھوٹی گواہی دینا‘‘۔ (صحیح مسلم،کتاب الإیمان،باب الکبائرواکبرھا،الحدیث:144
،(88)، ص:59 )
(7)
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے مروی ہےکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے خون ناحق کے بارے میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا
جائے گا۔(صحیح البخاري،کتاب الدیات،باب قول اللّٰہ تعالٰی{ وَ مَنْ یَّقْتُلْ
مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا۔۔۔إلخ }،الحدیث:6862،ج:4 ،ص:356)
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
محمد حسان منور (درجۂ ثالثہ جامعۃ المدینہ
فیضان غوث اعظم ساندہ لاہور، پاکستان)

اسلام ایک
مکمل دین ہے ۔ جس میں زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں مکمل رہنمائی حاصل ہے ۔ اسلام
امن کا درس دیتا ہے ۔ جہاں اسلام مظلوم پر ظلم کرنے سے منع کرتا وہاں اسلام کسی مظلوم
کو نا حق قتل کرنے سے بھی منع کرتا ہے۔ احادیث میں ناحق قتل کرنے والے کے بارے میں
کافی وعیدیں ملتی ہیں ۔
پہلی
حدیث : حضرت
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا: ”گناہوں میں سب سے بڑے گناہ یہ ہیں کہ اللہ کے ساتھ شرک کیا جائے۔
کسی انسان کو (ناحق) قتل کیا جائے اور والدین کی نافرمانی کی جائے اور جھوٹ بولا
جائے۔“ (صحیح بخاری/5977)
یعنی کسی
مسلمان کو ناحق قتل کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے ۔
دوسری
حدیث : حضرت
ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلى
الله عليه وسلم کو فرماتے سنا: ”ہر معصیت وبرائی (کے مرتکب) کو اللہ تعالیٰ معاف
فرمادیں گے، سوائے اس شخص کے جو حالت شرک و کفر میں مرا یا وہ مسلمان ،جو کسی
دوسرے مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردے۔“ (سنن ابو داوٴد/4270)
اللہ اکبر!
کسی مسلمان کو بلا وجہ قتل کرنے والے کو اللہ تعالیٰ معاف نہیں فرماتا ۔ اور جس
شخص کو اللہ معاف نہیں فرمائے گا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں پائے گا۔
تیسری
حدیث : حضرت
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا: ”پوری دنیا کا ختم ہوجانا اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک مسلمان کو ناحق
قتل کرنے سے زیادہ حقیر ہے۔“ (سنن نسائی/3992)
اللہ تعالیٰ کے لیے مسلمان کا قتل کرنا پوری
دنیا کے ختم ہوجانے سے زیادہ ناپسندیدہ ہے۔اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کریں اور اس کی
نا پسندیدگی والے اعمال سے بچیں ۔
چوتھی
حدیث :حضرت
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
”مسلمان کو گالی دینا گناہ ہے اور اسے قتل کرناکفر ہے۔ کفر ۔“ (صحیح بخاری/6044)
یعنی کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا اللہ تعالیٰ
کے نزدیک کفر کرنے کے برابر ہے ۔اس حدیث سے واضح ہوتا کہ قتل ناحق بہت بڑا کبیرہ
گناہ ہے ۔
پانچویں
حدیث:حضرت
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دن بیت اللہ کو دیکھا اور اسے مخاطب کرتے ہوئے
کہا: ”اے کعبہ! تم بہت عظمت والے ہو اور تمہاری حرمت بھی بہت بڑی ہے۔ (لیکن) ایک
مومن و مسلمان (کی جان) اللہ رب العالمین کے ہاں تم سے زیادہ محترم و مکرم ہے۔“
(نضرة النعیم: 5298/11)
اس حدیث سے
واضح ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کی جان اللہ تعالیٰ کو کعبہ سے بھی زیادہ عزیز ہے اور
اس جان کو ناحق قتل کرنے سے اللہ تعالیٰ کتنا ناراض ہوگا؟
چھٹی
حدیث : حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا : ’’ سات تباہ کن گناہوں سے بچو ۔ ‘ ‘ پوچھا گیا : اے اللہ کے رسول! وہ کون
سے ہیں ؟ فرمایا : ’’ اللہ کے ساتھ شرک ، جادو ، جس جان کا قتل اللہ نے حرام
ٹھہرایا ہے اسے ناحق قتل کرنا ، یتیم کا مال کھانا ، سود کھانا ، لڑائی کے دن دشمن
کو پشت دکھانا ( بھاگ جانا ) اور پاک دامن ، بے خبر مومن عورتوں پر الزام تراشی
کرنا ۔ ‘ (صحیح مسلم /262)
اس حدیث سے
واضح ہوتا ہے کہ سات کبیرہ گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ کسی مسلمان کو نا حق قتل
کرنا ہے ۔
اسی طرح رسول
اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اکثر مقامات پر قتل نا حق کی مذمت کی۔ آپ نے
پچھلی احادیث میں پڑھا کہ اللہُ کے نزدیک انسان کی جان دنیا کے ختم ہو جانے سے
افضل ہے ۔ہمیں چاہیے کہ جب بھی ہمیں غصہ آئے یا ایسی مجلس میں ہوں جہاں اندیشہ ہو
کہ لڑائی جھگڑا ہو سکتا ہے تو ایسی مجلسوں میں مت بیٹھا کریں اور نیک لوگوں کی
صحبت اختیار کریں ۔اللہ ہمیں قتل ناحق جیسے کبیرہ گناہ سے محفوط فرمائے ۔آمین
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
ملاوی میں اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر 189 افراد
نے کلمہ طیبہ پڑھ کر اسلام قبول کرلیا

دنیا
بھر میں منظم طریقے سے دین اسلام کی تبلیغ کرنے والی عاشقانِ رسول کی دینی تحریک
دعوتِ اسلامی ابتداء سے ہی قرآن و سنت کی تعلیمات کو عام کررہی ہے اور ایک سیکنڈ
کے لئے بھی اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹی۔
انبیائے
کرام علیہم
السلام
اور اپنے اسلاف کے طریقے پر چلتے ہوئے دعوتِ اسلامی کے مبلغین ملاوی میں جھیل کے
ساحل کے قریب علاقے کیپ میکلیز (Cape
Maclear) پہنچے جہاں انہوں نے نیکی کی
دعوت کے لئے سنتوں بھرے اجتماع کا انعقاد کیا جس میں علاقے کے افراد نے شرکت کی۔
مبلغ
دعوتِ اسلامی نے حاضرین کے سامنے اسلام کی تعلیمات، اسلام کی حکمت اور اہمیت بیان
کی اور بیان کے اختتام پر شرکا کو اسلام قبول کرنے کی دعوت پیش کی۔ اسلامی تعلیمات
سے متاثر ہوکر یکدم ایک مجمع کھڑا ہوا اور
مبلغ دعوتِ اسلامی کے ہاتھ پر اپنے سابقہ مذہب سے توبہ کرتے ہوئے 189 افراد کلمہ
پڑھ کر دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئے۔
اِن
شاء اللہ عَزَّوَجَلَّ
عنقریب دعوتِ اسلامی نیو مسلمان ہونے والے افراد اور مزید دینی کام کے لئے اس
علاقے میں ایک مدنی مرکز قائم کریگی جبکہ ان کی اسلامی تربیت کے لئے مدنی قافلے کے ذریعے مبلغین بھی آتے رہیں گے۔
محمد احمد وحید عطّاری (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ گلزار حبیب سبزہ زار
لاہور، پاکستان)

یاد رہے گناہ
دو طرح کے ہیں : 1:صغیرہ گناہ 2:کبیرہ گناہ 1
صغیرہ گناہ: ایسے گناہ
ہیں جو نماز ،روزہ ،حج ،زکوة وغیرہ سے معاف ہو جاتے ہیں یہ بات یاد رہے کہ صغیرہ
گناہ پر اصرار (ہمیشگی) اسے کبیرہ بنا دیتا ہے اور جن گناہوں کا تعلق بندوں کے
حقوق کے ساتھ ہے ان میں توبہ کے ساتھ ساتھ تلافی کی خاطر حق کی ادائیگی یا صاحب حق
سے معاف کروانا ضروری ہے
2:
کبیرہ گناہ :
یہ ایسے گناہ ہیں جو بغیر توبہ کیے معاف نہیں ہوتے کبیرہ گناہ سے معافی کے لیے
توبہ شرط ہے انہیں کبیرہ گناہوں میں سے کسی انسان کو ناحق قتل کرنا بھی ہے.قتل
ناحق کی مذمت اللہ پاک نے قرآن پاک میں کئی مقامات پہ فرمائی اور اسی طرح قتل ناحق
کی مذمت میں حضور علیہ السلام کے بہت سے فرمان موجود ہیں
اللہ عزوجل قتل ناحق کی مذمت میں ارشاد فرماتا
ہے 1:ومَنْ
یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ
غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا( پارہ 5
آیت نمبر 93)
ترجمہ
کنزالایمان :"اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم
ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے
لئے تیار رکھا بڑا عذاب"
2:قتل
ناحق کی مذمت میں احادیث :
(1)حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ایک مومن
کا قتل کیا جانا اللہ عزوجل کے نزدیک دنیا کے تباہ ہوجانے سے زیادہ بڑا ہے
۔(نسائی،کتاب تحریم الدم،باب تعظیم الدم ،ص652،حدیث:3992)
(2)حضور علیہ
السلام نے ارشاد فرمایا بڑے گناہوں میں سے اللہ عزوجل کے ساتھ کسی کو شریک کرنا ،
ناحق قتل کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا ہے۔(بخاری ،کتاب الایمان والنذور،باب
الیمین الغموس،4/295،حدیث:6675)
(3)فرمان
مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے امید ہے کہ ہر گناہ کو اللہ عزوجل بخش دے گا مگر وہ
شخص جو کفر کی موت مرا ہو یا جس شخص نے جان بوجھ کر کسی مسلمان کو (ناحق )قتل کیا
ہو۔(نسائی،کتاب تحریم الدم،باب:1،ص652حدیث:3990)
(4)فرمان
مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے آدمی اپنے دین میں کشادگی ووسعت میں رہتا ہے جب تک
حرام خون کو نہ پہنچے (یعنی جب تک کسی کو ناحق قتل نہ کرے)۔(بخاری،کتاب الدیات،باب
قول اللہ:ومن یقتل مومنا...الخ،4/356،حدیث:6862)
(5)آدمی اپنے
دین میں کشادگی ووسعت میں رہتا ہے جب تک وہ خون حرام سے آلودہ نہ ہو۔(بخاری،کتاب
الدیات،4/356حدیث:6862)
(6)فرمان
مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے میرے بعد کافر مت ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں
مارنے لگو (بخاری کتاب العلم،باب الانصات للعلماء1/63،حدیث 121)
(7)فرمان
مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو کسی عہد و پیمان والے کو قتل کردے وہ جنت کی
خوشبو بھی نہ سونگھ سکے گا حالانکہ اس کی خوشبو 40سال کی راہ سے محسوس کی جائے گی۔
(بخاری2/365،حدیث 3166)
(8)فرمان
مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو جان بھی ظلما قتل کی جاتی ہے حضرت سیدنا آدم علیہ
السلام کے پہلے بیٹے (قابیل)پر اس کے خون میں سے حصہ ہے کیونکہ وہ پہلا شخص ہے جس
نے قتل ایجاد کیا۔ یہ حدیث بخاری و مسلم دونوں میں ہے (بخاری،کتاب احادیث
الانبیاء،باب خلق آدم و ذریتہ413/حدیث 3335)
(9)جب دو
مسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ باہم ٹکراتے ہیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی
ہیں۔عرض کی گئی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ایک تو قاتل ہے لیکن مقتول کا
کیا قصور ہے؟ارشاد فرمایا: وہ بھی اپنے مقابل کو قتل کرنے پر حریص ہوتا
ہے۔(بخاری،کتاب الایمان23/1حدیث:31 )
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
محمد محسن علی ( درجہ ثانیہ جامعۃ المدینہ فیضان
فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)

قتل ناحق کے
بارے میں بہت سخت وعیدین بیان ہوئی ہے۔ہمیں چاہیے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو درگزر
کرنا چاہے کیونکہ چھوٹی باتوں سے ہی لڑائی کا اغاز ہوتا ہے۔ افسوس کہ آج کل ناحق
قتل کرنا معمولی کام ہو گیا ہے۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دیتے ہیں۔غنڈا
گردی،دہشت گردی،ڈکیتی، خاندانی لڑائی، بہت عام ہو گیا ہے۔ ہمیں ان تمام برے کاموں
سے بچنا چاہیے آئیے قتل ناحق کی مذمت پر کچھ احادیث پڑھتے ہیں:
(1)دنیا
تباہ ہونے سے زیادہ بڑا گناہ: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان
ہے: اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے بے شک مومن کا قتل کیا جانا الله
کے نزدیک دنیا کے تباء ہو جانے سے زیادہ بڑا ہے۔ (نسائی,کتاب التحریم الدم تعظیم
الدم, ص 652,حدیث 3992)
(2)
جہنم میں دھکیلا جائے گا: حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا
فرمان عالی شان ہے کہ اگر کسی مومن کے خون میں زمین و اسمان والے تمام شریک ہو
جائیں تو اللہ ان سب کو جہنم میں دھکیل دے گا۔ (جامع الترمذی ،باب حکم فی
دماء،حدیث 1398،ص 1793)
(3)بڑا
کبیرہ گناہ: حضرت
انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے
فرمایا بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ کسی جان کو ناحق قتل کرنا ہے۔(بخاری،کتاب
الديات بقول الله و من احیا تھا 358/4, حدیث 6871)
(4)قیامت
کے دن بڑے خسارے کا شکار: حضرت ابوبکر سے روایت ہے کہ نبی کریم
صلی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع
ہو جائیں تو اللہ تعالٰی سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔ (معجم صغیر، باب العین
من اسمه على,ص 605)
(5)اللہ کی رحمت سے مایوس ہے: حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا جس نے کسی مومن کے قتل میں ایک حروف جتنی بھی مدد کی وہ قیامت کے
دن اس حال میں ائے گا کہ اس کے دونوں انکھوں کے درمیان لکھا ہوگا یہ اللہ کی رحمت
سے مایوس ہے۔( ابن ماجہ, کتاب الدیات, باب تغلیظ فی قتل مسلم ظلما،363/3, حدیث
3630)
افسوس اج کل
ناحق قتل عام ہو گیا ہے چھوٹی چھوٹی بات پر لوگ قتل کرنے پر اتر اتے ہیں ہمیں
چاہیے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو گزر کریں اور ہمیں چاہیے کہ اپنے غصے پر قابو کریں
زیادہ سے زیادہ درود پاک کی کثرت کریں اور چھوٹی چھوٹی غلطی کو در گزر کریں اللہ
پاک سے دعا ہے کہ ہمیں قتل ناحق جیسے گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین بجاہ
خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔