اللہ پاک کا احسان عظیم ہے کہ اس نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا لیکن یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو باطنی قوتیں عطا فرمائی ہیں ایک کا نام عقل ہے اور دوسری کا نام شہوت ہے پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے مددگار بھی مقرر فرمائے عقل کا مددگار انبیاء کرام (علیہم السلام) ،فرشتوں اور نیک لوگوں کو بنایا جبکہ شہوت کا مددگار نفس و شیطان اور برے لوگوں کو بنایا ہے' عقل کا نور انسان کو سیدھی راہ کی طرف چلانے کی کوشش کرتا ہے جبکہ شہوت کا فتور انسان کو گناہوں کی دلدل میں پھنسا دیتا ہے۔ کتنا بدنصیب ہے وہ انسان جو شہوت کی پیروی کرکے اپنے خالق حقیقی کی نافرمانی کرتا ہے شہوت کی پیروی کرکے طرح طرح کے گناہوں میں ملوث ہوجاتا ہے۔

یاد رہے گناہ دو طرح کے ہیں : 1:صغیرہ گناہ 2:کبیرہ گناہ 1

صغیرہ گناہ: ایسے گناہ ہیں جو نماز ،روزہ ،حج ،زکوة وغیرہ سے معاف ہو جاتے ہیں یہ بات یاد رہے کہ صغیرہ گناہ پر اصرار (ہمیشگی) اسے کبیرہ بنا دیتا ہے اور جن گناہوں کا تعلق بندوں کے حقوق کے ساتھ ہے ان میں توبہ کے ساتھ ساتھ تلافی کی خاطر حق کی ادائیگی یا صاحب حق سے معاف کروانا ضروری ہے

2: کبیرہ گناہ : یہ ایسے گناہ ہیں جو بغیر توبہ کیے معاف نہیں ہوتے کبیرہ گناہ سے معافی کے لیے توبہ شرط ہے انہیں کبیرہ گناہوں میں سے کسی انسان کو ناحق قتل کرنا بھی ہے.قتل ناحق کی مذمت اللہ پاک نے قرآن پاک میں کئی مقامات پہ فرمائی اور اسی طرح قتل ناحق کی مذمت میں حضور علیہ السلام کے بہت سے فرمان موجود ہیں

اللہ عزوجل قتل ناحق کی مذمت میں ارشاد فرماتا ہے 1:ومَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا( پارہ 5 آیت نمبر 93)

ترجمہ کنزالایمان :"اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب"

2:قتل ناحق کی مذمت میں احادیث :

(1)حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ایک مومن کا قتل کیا جانا اللہ عزوجل کے نزدیک دنیا کے تباہ ہوجانے سے زیادہ بڑا ہے ۔(نسائی،کتاب تحریم الدم،باب تعظیم الدم ،ص652،حدیث:3992)

(2)حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا بڑے گناہوں میں سے اللہ عزوجل کے ساتھ کسی کو شریک کرنا ، ناحق قتل کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا ہے۔(بخاری ،کتاب الایمان والنذور،باب الیمین الغموس،4/295،حدیث:6675)

(3)فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے امید ہے کہ ہر گناہ کو اللہ عزوجل بخش دے گا مگر وہ شخص جو کفر کی موت مرا ہو یا جس شخص نے جان بوجھ کر کسی مسلمان کو (ناحق )قتل کیا ہو۔(نسائی،کتاب تحریم الدم،باب:1،ص652حدیث:3990)

(4)فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے آدمی اپنے دین میں کشادگی ووسعت میں رہتا ہے جب تک حرام خون کو نہ پہنچے (یعنی جب تک کسی کو ناحق قتل نہ کرے)۔(بخاری،کتاب الدیات،باب قول اللہ:ومن یقتل مومنا...الخ،4/356،حدیث:6862)

(5)آدمی اپنے دین میں کشادگی ووسعت میں رہتا ہے جب تک وہ خون حرام سے آلودہ نہ ہو۔(بخاری،کتاب الدیات،4/356حدیث:6862)

(6)فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے میرے بعد کافر مت ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو (بخاری کتاب العلم،باب الانصات للعلماء1/63،حدیث 121)

(7)فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو کسی عہد و پیمان والے کو قتل کردے وہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھ سکے گا حالانکہ اس کی خوشبو 40سال کی راہ سے محسوس کی جائے گی۔ (بخاری2/365،حدیث 3166)

(8)فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو جان بھی ظلما قتل کی جاتی ہے حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے (قابیل)پر اس کے خون میں سے حصہ ہے کیونکہ وہ پہلا شخص ہے جس نے قتل ایجاد کیا۔ یہ حدیث بخاری و مسلم دونوں میں ہے (بخاری،کتاب احادیث الانبیاء،باب خلق آدم و ذریتہ413/حدیث 3335)

(9)جب دو مسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ باہم ٹکراتے ہیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں۔عرض کی گئی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ایک تو قاتل ہے لیکن مقتول کا کیا قصور ہے؟ارشاد فرمایا: وہ بھی اپنے مقابل کو قتل کرنے پر حریص ہوتا ہے۔(بخاری،کتاب الایمان23/1حدیث:31 )

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔