قتل ناحق کے بارے میں بہت سخت وعیدین بیان ہوئی ہے۔ہمیں چاہیے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو درگزر کرنا چاہے کیونکہ چھوٹی باتوں سے ہی لڑائی کا اغاز ہوتا ہے۔ افسوس کہ آج کل ناحق قتل کرنا معمولی کام ہو گیا ہے۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دیتے ہیں۔غنڈا گردی،دہشت گردی،ڈکیتی، خاندانی لڑائی، بہت عام ہو گیا ہے۔ ہمیں ان تمام برے کاموں سے بچنا چاہیے آئیے قتل ناحق کی مذمت پر کچھ احادیث پڑھتے ہیں:

(1)دنیا تباہ ہونے سے زیادہ بڑا گناہ: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے بے شک مومن کا قتل کیا جانا الله کے نزدیک دنیا کے تباء ہو جانے سے زیادہ بڑا ہے۔ (نسائی,کتاب التحریم الدم تعظیم الدم, ص 652,حدیث 3992)

(2) جہنم میں دھکیلا جائے گا: حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے کہ اگر کسی مومن کے خون میں زمین و اسمان والے تمام شریک ہو جائیں تو اللہ ان سب کو جہنم میں دھکیل دے گا۔ (جامع الترمذی ،باب حکم فی دماء،حدیث 1398،ص 1793)

(3)بڑا کبیرہ گناہ: حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ کسی جان کو ناحق قتل کرنا ہے۔(بخاری،کتاب الديات بقول الله و من احیا تھا 358/4, حدیث 6871)

(4)قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار: حضرت ابوبکر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہو جائیں تو اللہ تعالٰی سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔ (معجم صغیر، باب العین من اسمه على,ص 605)

(5)اللہ کی رحمت سے مایوس ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے کسی مومن کے قتل میں ایک حروف جتنی بھی مدد کی وہ قیامت کے دن اس حال میں ائے گا کہ اس کے دونوں انکھوں کے درمیان لکھا ہوگا یہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے۔( ابن ماجہ, کتاب الدیات, باب تغلیظ فی قتل مسلم ظلما،363/3, حدیث 3630)

افسوس اج کل ناحق قتل عام ہو گیا ہے چھوٹی چھوٹی بات پر لوگ قتل کرنے پر اتر اتے ہیں ہمیں چاہیے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو گزر کریں اور ہمیں چاہیے کہ اپنے غصے پر قابو کریں زیادہ سے زیادہ درود پاک کی کثرت کریں اور چھوٹی چھوٹی غلطی کو در گزر کریں اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں قتل ناحق جیسے گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔