دین اسلام میں ایک انسان کے مال و جان کی اہمیت کو بہت واضح بیان کیا گیا ہے کہ ایک جان جسے اللہ تعالٰی نے پیدا فرمایا تو بقیہ انسانوں کو بھی اس کے حقوق بیان فرماۓ اور اس انسان پر بھی بقیہ انسانوں کے حقوق رکھے تاکہ ہر کوئ حد اعتدال میں رہ کر ایک دوسرے کی ضرورتوں کو پورا کریں اور نظام زندگی چل سکے ۔ تو جس انسان کے وجود سے اللہ تعالیٰ نے نظام زندگی تشکیل دیا ہو تو یقیناً اسے نا حق قتل کرنا بہت عظیم گناہ ہو گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے

مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَ ﳎ كَتَبْنَا عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَنَّهٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ-وَ مَنْ اَحْیَاهَا فَكَاَنَّمَاۤ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًاؕ

ترجمہ کنزالایمان :اس سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا اور جس نے ایک جان کو جِلالیا اس نے گویا سب لوگوں کو جلالیا

اب چند احادیث مبارکہ سے قتل نا حق کی مذمت سنتے ہیں

(1) عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَزَوَالُالدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللّٰهِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ" روایت ہے حضرت عبداﷲ ابن عمرو سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ دنیا کا مٹ جانا اﷲ کے ہاں آسان ہے مسلمان آدمی کے قتل سے۔ مشکوٰۃ المصابیح حدیث نمبر:3462

(2) وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَوْ أَنَّ أَهْلَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ اشْتَرَكُوا فِي دَمِ مُؤْمِنٍ لأَكَبَّهُمُ اللّٰهُ فِي النَّارِ روایت ہے حضرت ابو سعید اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم سے راوی فرمایا اگر زمین و آسمان والے ایک مسلمان کے قتل میں شریک ہوجائیں 1؎ تو اﷲ تعالٰی انہیں آگ میں اوندھا ڈال دے ۔ (مشکوٰۃ المصابیح , حدیث نمبر:3464)

(3) عَنْ اَبِیْ بَکْرَۃَ نُفَیْعِ بْنِ الْحَارِثِ الثَّقَفِیْ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا الْتَقَی الْمُسْلِمَانِ بِسَیْفَیْہم ا فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُوْلُ فِی النَّارِ۔ قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللہِ ہَذَا الْقَاتِلُ فَمَا بَالُ الْمَقْتُوْلِ ؟ قَالَ إِنَّہُ کَانَ حَرِیْصًا عَلَی قَتْلِ صَاحِبِہٖ ترجمہ : حضرتِ سَیِّدُنا ابو بکرہ نُفَیْع بن حَارِث ثَقَفِی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ پیکرِ عظمت و شرافت، مَحبوبِ رَبُّ العزت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:’’جب دو مسلمان تلواریں لئے ایک دوسرے پر حملہ آور ہوں توقاتل ومقتول دونوں آگ میں ہیں۔‘‘ (راوی فرماتے ہیں ) میں نے عرض کی :’’ یَا رَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم قاتل تو واقعی اس کاحق دار ہے مگر مقتول کا کیا قصور ہے؟ ‘‘ ارشاد فر مایا:’’ وہ بھی تواپنے مُقابِل کو قتل کرنا چاہتا تھا۔‘‘ (بخاری ، کتاب العلم ، باب وان طائفتان من المؤمنین … الخ ، 1/23 ، حدیث: 31)

شرح حدیث

قاتل ومقتول کب جہنمی ہونگے ؟ حضرتِ سَیِّدُنامُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَارِی مرقاۃ شرحِ مِشْکاۃ میں اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : حرام فعل کا ارادہ کرنا ان افعال میں سے ہے جن پرمواخذہ ہے۔ اوریہ ( قاتل ومقتول دونوں کے جہنمی ہونے کا حکم ) اس وقت ہے جب دونوں ہی ایک دوسرے کے قتل کے ارادے سے حملہ آور ہوں۔ اگر ان میں سے ایک نے دِفاع کا ارادہ کیا اور اُس کی طرف سے پہل بھی نہ ہوئی مگر صرف دوسرے کے مارنے کی وجہ سے اس نے اس کو قتل کردیاتو اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہوگا،کیونکہ اس کو(اپنی جان بچانے کی) شرعااجازت دی گئی ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الدیات، باب قتل اہل الردۃ ،7/104 تحت الحدیث:3538

(4) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِِ الْعَاصِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم قَالَ : اَلْكَبَائِرُ اَلْاِشْرَاكُ بِاللَّهِ ، وَعُقُوْقُ الْوَالِدَيْنِ ، وَقَتْلُ النَّفْسِ ، وَالْيَمِيْنُ الْغَمُوسُ ترجمہ : حضرت سیدناعبداللہ بن عَمرو بن عاصرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم رؤف رحیمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا : ’’کبیرہ گناہ یہ ہیں :اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ، والدین کی نافرمانی کرنا ، کسی جان کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا ۔ ‘‘(فیضان ریاض الصالحین جلد:4 , حدیث نمبر:337)

(5) حضرت براء بن عازب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کاختم ہو جانا ایک مسلمان کے ظلماً قتل سے زیاد سہل ہے۔(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلماً، 3/261, الحدیث: 2619)

یہ آیت اور احادیث مبارکہ اسلام کی اصل تعلیمات کو واضح کرتی ہے کہ اسلام کس قدر امن و سلامتی کا مذہب ہے اور اسلام کی نظر میں انسانی جان کی کس قدر اہمیت ہے۔ اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جو اسلام کی اصل تعلیمات کو پس پُشت ڈال کر دامنِ اسلام پر قتل و غارت گری کے حامی ہونے کا بد نما دھبا لگاتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو مسلمان کہلا کر بے قصور لوگوں کو بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے ذریعے موت کی نیند سلا کر یہ گمان کرتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کی بہت بڑی خدمت سر انجام دے دی۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔