فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(۱۳۳) ترجمہ کنزالعرفان: تو ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اورپِسُو(یا جوئیں ) اور مینڈک اور خون کی جدا جدا نشانیاں بھیجیں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی۔ (پ 9،الاعراف:133)

جب جادوگروں کے ایمان لانے کے بعد بھی فرعونی اپنے کفر وسرکشی پر جمے رہے تو اُن پر اللہ پاک کی نشانیاں پے درپے وارد ہونے لگیں کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ یارب! فرعون زمین میں بہت سرکش ہوگیا ہے اور اس کی قوم نے بھی عہد شکنی کی ہے انہیں ایسے عذاب میں گرفتار کر جو اُن کے لئے سزا ہو اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت و نصیحت ہو، تواللہ پاک نے طوفان بھیجا ، ہوا یوں کہ بادل آیا، اندھیرا ہوا اور کثرت سے بارش ہونے لگی ۔قبطیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا یہاں تک کہ وہ اس میں کھڑے رہ گئے اور پانی اُن کی گردنوں کی ہنسلیوں تک آگیا، اُن میں سے جوبیٹھا وہ ڈوب گیا، یہ لوگ نہ ہل سکتے تھے نہ کچھ کام کرسکتے تھے۔

ہفتہ کے دن سے لے کر دوسرے ہفتہ تک سات روز اسی مصیبت میں مبتلا رہے اور باوجود اس کے کہ بنی اسرائیل کے گھر اُن کے گھروں سے متصل تھے اُنا کے گھروں میں پانی نہ آیا۔ جب یہ لوگ عاجز ہوئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی: ہمارے لئے دعا فرمائیے کہ یہ مصیبت دور ہو جائے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ بھیج دیں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی تو طوفان کی مصیبت دور ہو گئی، زمین میں وہ سرسبزی وشادابی آئی جو پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ کھیتیاں خوب ہوئیں اور درخت خوب پھلے ۔

یہ دیکھ کر فرعونی کہنے لگے ’’یہ پانی تو نعمت تھا اور ایمان نہ لائے۔ ایک مہینہ تو عافیت سے گزرا ،پھر اللہ پاک نے ٹڈی بھیجی وہ کھیتیاں اور پھل، درختوں کے پتے، مکان کے دروازے، چھتیں ،تختے، سامان، حتّٰی کہ لوہے کی کیلیں تک کھا گئیں اور قبطیوں کے گھروں میں بھر گئیں لیکن بنی اسرائیل کے یہاں نہ گئیں۔ اب قبطیوں نے پریشان ہو کر پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا، اس پر عہد و پیمان کیا ۔سات روز یعنی ہفتہ سے ہفتہ تک ٹڈی کی مصیبت میں مبتلا رہے،پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے نجات پائی۔ کھیتیاں اور پھل جو کچھ باقی رہ گئے تھے انہیں دیکھ کر کہنے لگے ’’یہ ہمیں کافی ہیں ہم اپنا دین نہیں چھوڑتے چنانچہ ایمان نہ لائے، عہد وفا نہ کیا اور اپنے اعمالِ خبیثہ میں مبتلا ہوگئے ۔

ایک مہینہ عافیت سے گزرا ،پھراللہ پاک نے قُمَّل بھیجے، اس میں مفسرین کا اختلاف ہے’’ بعض کہتے ہیں کہ قُمَّل گُھن ہے، بعض کہتے ہیں جوں ،بعض کہتے ہیں ایک اور چھوٹا سا کیڑا ہے۔ اس کیڑے نے جو کھیتیاں اور پھل باقی رہے تھے وہ کھالئے، یہ کیڑا کپڑوں میں گھس جاتا تھا اور جلد کو کاٹتا تھا، کھانے میں بھر جاتا تھا ،اگر کوئی دس بوری گندم چکی پر لے جاتا تو تین سیر واپس لاتا باقی سب کیڑے کھا جاتے ۔یہ کیڑے فرعونیوں کے بال، بھنویں ،پلکیں چاٹ گئے ،ان کے جسم پر چیچک کی طرح بھر جاتے حتّٰی کہ ان کیڑوں نے اُن کا سونا دشوار کردیا تھا۔ اس مصیبت سے فرعونی چیخ پڑے اور اُنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی:

ہم توبہ کرتے ہیں ، آپ اس بلا کے دور ہونے کی دعا فرمائیے۔ چنانچہ سات روز کے بعد یہ مصیبت بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے دور ہوئی، لیکن فرعونیوں نے پھر عہد شکنی کی اور پہلے سے زیادہ خبیث تر عمل شروع کر دئیے۔ ایک مہینہ امن میں گزرنے کے بعد پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی تو اللہ پاک نے مینڈک بھیجے اور یہ حال ہوا کہ آدمی بیٹھتا تھا تو اس کی مجلس میں مینڈک بھر جاتے، بات کرنے کے لئے منہ کھولتا تو مینڈک کود کر منہ میں چلا جاتا، ہانڈیوں میں مینڈک ،کھانوں میں مینڈک ، چولھوں میں مینڈک بھر جاتے تو آگ بجھ جاتی تھی، لیٹتے تھے تو مینڈک اوپر سوار ہوتے تھے، اس مصیبت سے فرعونی رو پڑے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی: اب کی بار ہم پکی توبہ کرتے ہیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اُن سے عہد و پیمان لے کر دعا کی تو سات روز کے بعد یہ مصیبت بھی دور ہوئی اور ایک مہینہ عافیت سے گزرا ،لیکن پھر اُنہوں نے عہد توڑ دیا اور اپنے کفر کی طرف لوٹے ۔پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی تو تمام کنوؤں کا پانی، نہروں اور چشموں کا پانی، دریائے نیل کا پانی غرض ہر پانی اُن کے لئے تازہ خون بن گیا۔ اُنہوں نے فرعون سے اس کی شکایت کی تو کہنے لگاکہ ’’ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جادو سے تمہاری نظر بندی کردی ہے۔ اُنہوں نے کہا: تم کس نظر بندی کی بات کر رہے ہو؟ ہمارے برتنوں میں خون کے سوا پانی کا نام و نشان ہی نہیں۔

یہ سن کر فرعون نے حکم دیا کہ’’ قبطی بنی اسرائیل کے ساتھ ایک ہی برتن سے پانی لیں۔ لیکن ہوا یوں کہ جب بنی اسرائیل نکالتے توپانی نکلتا ،قبطی نکالتے تو اسی برتن سے خون نکلتا، یہاں تک کہ فرعونی عورتیں پیاس سے عاجز ہو کر بنی اسرائیل کی عورتوں کے پاس آئیں اور اُن سے پانی مانگا تو وہ پانی اُن کے برتن میں آتے ہی خون ہوگیا۔ یہ دیکھ کر فرعونی عورت کہنے لگی کہ’’ تو پانی اپنے منہ میں لے کر میرے منہ میں کلی کردے ۔ مگر جب تک وہ پانی اسرائیلی عورت کے منہ میں رہا پانی تھا، جب فرعونی عورت کے منہ میں پہنچا تو خون ہوگیا ۔فرعون خود پیاس سے مُضْطَر ہوا تواس نے تر درختوں کی رطوبت چوسی ، وہ رطوبت منہ میں پہنچتے ہی خون ہوگئی۔ سات روز تک خون کے سوا کوئی چیز پینے کی میسر نہ آئی تو پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی یہ مصیبت بھی دور ہوئی مگر وہ ایمان پھر بھی نہ لائے۔( بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: 133، 2 / 159-161)


اللہ پاک نے قرآن پاک میں گزشتہ امتوں کی نافرمانیوں اور ان پر آنے والے عذابات کو بیان فر مایا ہے تاکہ امت محمدی ان نافرمانیوں سے بچیں جنکی وجہ سے وہ قومیں ہلاک کردی گئیں۔

انہیں قوموں میں سے ایک فرعون اور اسکے متبعین بھی ہیں جنکی طرف حضرت موسیٰ علیہ السلام وحدانیت باری تعالی کا پیغام لے کر تشریف لائے مگر وہ ایمان نہ لائے اور ظلم وستم اور موسی علیہ السلام کو طرح طرح کی ایذا رسانی کرنے لگے جس سے تنگ دل ہو کر آپ نے انکے حق میں بد دعا فرمائی جسکے سبب پانچ قسم کے عذابات سات سات دن کیلئے ان پر مہینہ کے وقفہ سے آتے گئے۔

جسے اللہ پاک نے قرآن پاک میں کچھ یوں بیان فرمایا:فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(۱۳۳)ترجمہ کنزالایمان:تو بھیجا ہم نے ان پر طوفان اورٹِیڑی اور گھن اور مینڈک اور خون جدا جدا نشانیاں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی (پ 9،الاعراف:133)

1)طوفان:ان پر زور دار بارش آئی جسکی وجہ سے سخت طوفان آیا اور انکے گھروں میں انکی گردنوں تک پانی کھڑا رہا۔

2)ٹڈیاں:چاروں طرف سے ٹڈیوں کے جھنڈ کے جھنڈ آئے جو انکے کھیتوں،باغوں اور گھروں کی لکڑیوں تک کو کھا گئے۔

3)قُمَّلْ:یہ گُھن نامی ایک کیڑا تھا جو انکے پھلوں اور میووں میں لگ کر انکے تمام غلوں تک کو چٹ کر گیا اور انکے جسموں کو کاٹ کاٹ کر چیچک نما بنا دیا ۔

4)مینڈک:ان پر بے شمار مینڈک مسلط کردیئے گئے جو انکی ہانڈیوں اور کھانے، پینے کے برتنوں میں گھس گئے اور وہ بھوک پیاس سے دو چار ہوگئے۔

5)خون:انکے کنوئیں، نہریں اور کھانے، پینے کے برتن خون سے بھر گئے اور کھانے پینے کے کچھ لائق نا رہا۔(صراط الجنان، 3/414تا 415مفہوماً)

یہ تمام عذابات فرعونیوں پر نازل ہوئے اور انکے ساتھ رہنے والے بنی اسرائیل کے مومنین ان عذابات سے امن میں رہے مگر پھر بھی یہ دیکھ کر توبہ کرنے اور ایمان لانے کے بجائے انکا کفر وشرک اور ظلم و ستم پہلے کی بنسبت اور بڑھ گیا اور اس قدر یہ سرکش ہوگئے کہ معاذاللہ موسی علیہ السلام کے قتل درپے ہوگئے۔ پھر اللہ پاک نے انہیں دریائے نیل میں ڈبو کر ہلاک کردیا۔ بالآخر یہ قوم مسلسل اپنی نافرمانیوں کی وجہ سے اپنے انجام کو پہنچ کر رہتی دنیا تک کیلئے عبرت کا مقام بن گئی۔

محترم قارئین !دیکھا آپ نے کہ کیسے یہ قوم اللہ پاک کی نافرمانیوں کی وجہ سے دنیاوی عذاب میں مبتلا ہو کر ہلاک کردی گئی۔مگر افسوس ہم اللہ پاک کی نافرمانیاں کرتے وقت ذرا بھی نہیں کتراتے۔ خدارا خود کو عذاب الہی سے ڈرائیں اور رب کے حضور توبہ کریں۔

کرلے توبہ رب کی رحمت ہے بڑی

قبر میں ورنہ سزا ہوگی کڑی


اللہ پاک نے فرمایا : ترجمہ کنزالایمان : تو بھیجا ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اور قمل اور مینڈک اور خون جداجدانشانیاں ۔(پ9، الاعراف : 133)

فرعونی جب اپنی سرکشی اور کفر پر ڈٹے رہے تواللہ پاک نے ان پر پانچ عذاب نازل کیے ۔ بنی اسرائیل کے گھر جو فرعونیوں کے گھروں سے ملے ہوۓ تھے ان پر ان عذابات کا اللہ پاک کے کرم سےکوئی اثر نا ہوا ۔ جب فرعونی ایک عذاب سے تنگ آجاتے تو حضرتِ موسٰی علیہ السلام سے درخواست کرتے تو آپ علیہ السلام کی دعا سے عذاب ٹل جاتا۔ ہر عذاب ساتویں دن ٹلتا اور دو عذابوں میں ایک ماہ کا فاصلہ ہوتا۔(تفسیرِصاوی،2/803،پ9،الاعراف:133)

1) طوفان : ایک ابر آیا اور ہر طرف اندھیرا چھا گیا پھر زوردار بارش ہوئی اور طوفان آگیا۔فرعونی اس میں کھڑے رہے جو بیٹھتا ڈوب جاتا ۔ ان کے کھیت اور باغات ہلاک ہوگئے۔

2) ٹڈیاں: جب فرعونیوں کا کفروتکبر اور ظلم وستم بڑھنے لگا تو اللہ پاک کا قہر وغذب ٹڈیوں کی صورت میں نازل ہوا کہ ہر طرف ٹڈیوں کے جھنڈ جو انکے کھیتوں اور باغات یہاں تک کہ گھروں کی لکڑیاں تک کھا گئیں ۔انکے گھروں میں اس قدر ٹڈیاں بھر گئیں کہ ان کا سانس لینا مشکل ہوگیا ۔

3) قمل : قمل کے گھن،جوں یا ایک چھوٹا سا کیڑا ہونے میں اختلاف ہے ۔ یہ کیڑے فرعونیوں کی اناجوں پھلوں،میووں،تیارشدہ فصلوں کوچٹ کر گئے اور انکے بال،داڑھی، مونچھیں،بھنوؤں،پلکیں چاٹ کر اور چہرے کاٹ کر چیچک روبنادیا۔یہ کیڑے کھانے اور پانی میں گھس جاتے جس کی وجہ سے نہ کھا پی سکتے اور نہ ہی ٹھیک سے سو پاتے۔

4) مینڈک : اچانک بےشمار مینڈک پیدا ہوئے کہ جہاں بیٹھتے اس مجلس میں ہزاروں مینڈک جمع ہو جاتے ۔چلتے،پھرتے،اٹھتے،بیٹھتے سینکڑوں مینڈک ان پر سوار رہتے یہاں تک کہ بات کرنے کے لئے منہ کھولتے تو منہ میں مینڈک کودکرگھس جاتا۔

5) خون : اچانک تمام کنوؤں ،نہروں ،چشموں الغرض ہر پانی خون ہوگیا۔ مومنین پراسکا بالکل اثر نا ہوا ۔ فر مومنین اور فرعونی ایک ساتھ پانی نکالتے لیکن پھر بھی فرعونیوں کے برتن میں تازہ خون آتا۔یہانتک کہ ایک پیالے میں ایک ساتھ پیتے یا مومن اپنے منہ سے فرعونی کے منہ میں ڈالتا تو بھی فرعونیوں کی منہ میں جا کر خون بن جتا ۔ گھاس،درختوں کی جڑوں اور چھالیں بھی چوستے تو وہ رس بھی منہ میں پہنچ کر خون بن جاتا۔

(تفسیرِ الصاوی ،2/803،پ9،الاعراف:133)

اللہ پاک ہمیں اپنی اور اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


ترجمہ کنزالعرفان: تو ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اور پسو (یا جوئیں) اور مینڈک اور خون کی جدا جدا نشانیاں بھیجیں تو انہوں نے تکبر کیا اور مجرم قوم تھی

(فارسلنا : تو ہم نے بھیجا ) جب جادو گروں کے ایمان لانے کے بعد بھی فرعونی اپنے کفر وسر کشی پر جمے رہے تو ان پر اللہ پاک کی نشانیاں پے در پے وارد ہونے لگیں کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام نے دعا کی تھی کہ:" یا رب عزوجل فرعون زمین میں بہت سرکش ہو گیا ہے اور اس کی قوم نے بھی عہد شکنی کی ہے انہیں ایسے عذاب میں گرفتار کر جو کے لئے سزا ہو اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت و نصیحت ہو"۔

(صراط الجنان فی تفسیر القران ،پارہ 9 سورت الاعراف آیت نمبر 133)

تو اللہ پاک نے طوفان بھیجا، ہوا یوں کہ بادل آیا اندھیرا ہوا اور کثرت سے بارش ہونے لگی ، قبطیوں کے گھروں میں پانی گیا یہاں تک کہ وہ اس میں کھرے رہ گئے اور پانی ان کی گردنوں کی پنڈلیوں تک آگیا ، ان میں سے جو بیٹھا وہ ڈوب گیا ، یہ لوگ نہ ہل سکتے تھے نہ کچھ کام کر سکتے تھے ۔ ہفتہ کے دن سے لے کر دوسرے ہفتہ تک سات روز اسی مصیبت میں مبتلا رہے اور باوجود اس کے کہ بنی اسرائیل کے گھر ان کے گھروں سے متصل تھے ان کے گھروں میں پانی نہ آیا ۔ جب یہ لوگ عاجز ہوئے تو حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام سے عرض کی : ہمارے لئے دعا فرمائیے کہ یہ مصیبت دور ہو جائے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ بھیج دیں گے ۔ حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام نے دعا فرمائی تو طوفان کی مصیبت دور ہو گئی ، زمین میں وہ سر سبزی وشادابی آئی جو پہلے کبھی نہ دیکھی تھی ۔ کھیتیاں خوب ہوئیں اور درخت خوب پھلے ۔ یہ دیکھ کر فرعونی کہنے لگے۔ یہ پانی تو نعمت تھا اور ایمان نہ لائے۔ ایک مہینہ تو عافیت سے گزرا ۔

پھر اللہ پاک نے ٹڈی بھیجی وہ کھیتیاں اور پھل ، درختوں کے پتے ، مکان کے دروازے ، چھتیں ، تختے، سامان، حتیٰ کہ لوہے کی کیلیں تک کھاگئیں اور قبطیوں کے گھروں میں بھر گئیں لیکن بنی اسرائیل کے یہاں نہ گئیں ۔ اب قبطیوں نے پریشان ہو کر پھر حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا ، اس عہد وپیمان کیا۔ سات روز یعنی ہفتہ سے ہفتہ تک ٹڈی کی مصیبت میں مبتلا رہے ، پھر حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کی دعا سے نجات پائی ۔ کھیتیاں اور پھل جو کچھ باقی رہ گئے تھے انہیں دیکھ کر کہنے لگے : یہ ہمیں کافی ہیں ہم اپنا دین نہیں چھوڑتے چناچہ ایمان نہ لائے ، عہد وفا نہ کیا اور اپنے اعمال خبیثہ میں مبتلا ہو گئے ۔ ایک مہینہ عافیت سے گزا۔

پھر اللہ پاک نے قمل بھیجے ، اس میں مفسرین کا اختلاف ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ قمل گھن ہے ، بعض کہتے ہیں جوں ، بعض کہتے ہیں ایک اور چھوٹا سا کیڑا ہے۔ اس کیڑے نے جو کھیتیاں اور پھل باقی رہے تھے وہ کھالئے ، یہ کیڑا کپڑوں میں گھس جاتا تھا جلد کو کاٹتاتھا، کھانے میں بھر جاتا تھا ، اگر کوئی دس بوری گندم چکی پر لے جاتا تو تین سیر واپس لاتا باقی سب کیڑے کھا جاتے ۔ یہ کیڑا فرعونیوں کے بال ، بھنویں ، پلکیں چاٹ گئے، ان کے جسم پر چیچک کی طرح بھر جاتے حتیٰ کہ ان کیڑوں نے ان کا سونا دشوار کر دیا تھا ۔ اس مصیبت سے فرعونی چیخ پڑے اور انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام سے عرض کی: ہم توبہ کرتے ہیں، آپ اس بلا کے دور ہونے کی دعا فرمائیے۔ چناچہ سات روز کے بعد یہ مصیبت بھی حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کی دعا سے دور ہوئی ، لیکن فرعونیوں نے پھر عہد شکنی کی اور پہلے سے زیادہ خبیث تر عمل شروع کردئیے ۔

ایک مہینہ امن میں گزرنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام نے دعا کی تو اللہ پاک نے مینڈک بھیجے اور یہ حال ہوا کہ آدمی بیٹھتا تھا تو اس کی مجلس میں مینڈک بھر جاتے، بات کرنے کے لئیےمنہ کھولتا تو مینڈک کود کر منہ میں چلا جاتا، ہانڈیاں میں مینڈک،کھانوں میں مینڈک،چولھوں میں مینڈک بھر جاتے تو آگ بجھ جاتی تھی، لیٹتے تھے تو مینڈک اوپر سوار ہوتے تھے، اس مصیبت سے فرعونی رو پڑے اور حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام سے عرض کی: اب کی بار ہم پکی توبہ کرتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام نے ان سے عہد وپیمان لے کر دعا کی سات روز کے بعد یہ مصیبت بھی دور ہوئی اور ایک مہینہ عافیت سے گزرا ، لیکن پھر انہوں نے عہد توڑ دیا اور اپنے کفر کی طرف لوٹے ۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام نے دعا فرمائی تو تمام کنوؤں کا پانی ، نہروں اور چشموں کا پانی، دریائے نیل کا پانی غرض ہر پانی ان کے لئے تازہ خون بن گیا۔ انہوں نے فرعون سے شکایت کی تو کہنے لگا کہ :" حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام نے جادو سے تمہاری نظر بندی کر دی ہے"۔ انہوں نے کہا: تم کس نظر بندی کی بات کررہے ہو ؟ ہمارے برتنوں میں خون کے سوا پانی کا نام ونشان ہی نہیں۔

یہ سن کر فرعون نے حکم دیا کہ : قبطی بنی اسرائیل کے ساتھ ایک ہی برتن سے پانی لیں ۔ لیکن ہوایوں کہ جب بنی اسرائیل نکالتے تو پانی نکلتا ، قبطی نکالتے تو اسی برتن سے خون نکلتا ، یہاں تک کہ فرعونی عورتیں پیاس سے عاجز ہو کر بنی اسرائیل کی عورتوں کے پاس آئیں اور ان سے پانی مانگا تو وہ پانی ان کے برتن میں آتے ہی خون ہو گیا۔ یہ دیکھ کر فرعونی عورت کہنے لگی کہ تو پانی اپنے منہ میں لے کر میرے منہ میں کلی کردے ۔ مگر جب تک وہ پانی اسرائیل عورت کے منہ میں رہا پانی تھا، جب فرعونی عورت کے منہ میں پہنچا تو خون ہو گیا ۔فرعون خود پیاس سے مضطر ہوا تو اس نے تر درختوں کی رطوبت چوسی ،وہ رطوبت منہ میں پہنچتے ہی خون ہو گئی ۔سات روز تک خون کے سوا کوئی چیز پینے کی میسر نہ آئی تو پھر حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام نے دعا فرمائی یہ مصیبت بھی دور ہوئی مگر وہ ایمان پھر بھی نہ لائے ۔


سب سے پہلے اللہ پاک نے فرعونیوں کو کئی سال کے قحط ،پھلوں کی کمی اور فقر وفاقہ کی مصیبت میں گرفتار کیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ’’دیہات میں رہنے والے فرعونی قحط کی مصیبت میں گرفتار ہوئے اور شہروں میں رہنے والے (آفات کی وجہ سے) پھلوں کی کمی کی مصیبت میں مبتلا ہوئے۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’ان لوگوں پر ایک وقت ایسا آیا کہ کھجور کے درخت پر صرف ایک ہی کھجور اگتی تھی۔

(تفسیر صاوی،سورۃ الاعراف،الآیۃ:2،130)

اللہ پاک نے ان پر یہ سختیاں اس لئے نازل فرمائیں تاکہ ان سے عبرت حاصل کرتے ہوئے وہ سرکشی اور عناد کا راستہ چھوڑ کر اللہ پاک کی بندگی کی طرف لوٹ آئیں کیونکہ سختی و مصیبت دل کو نرم کر دیتی ہے اور اللہ پاک کے پاس جو بھلائی ہے اس کی طرف راغب کر دیتی ہے۔ کہتے ہیں کہ’’ فرعون نے اپنی چار سو برس کی عمر میں سے تین سو بیس سال تو اس آرام کے ساتھ گزارے تھے کہ اس مدت میں وہ کبھی درد ،بخار یا بھوک میں مبتلا ہی نہیں ہوا۔ اگر اس کے ساتھ ایسا ہوتا تو وہ کبھی رَبُوبِیَّت کا دعویٰ نہ کرتا۔ (تفسیر کبیر،سورۃ الاعراف،الآیۃ: 5،130)

فرعونی کفر میں اس قدر راسِخ ہوچکے تھے کہ ان تکلیفوں سے بھی ان کی سرکشی بڑھتی ہی رہی، جب انہیں سرسبزی و شادابی، پھلوں ،مویشیوں اور رزق میں وسعت،صحت،آفات سے عافیت و سلامتی وغیرہ بھلائی ملتی تو کہتے یہ تو ہمیں ملنا ہی تھا کیونکہ ہم اس کے اہل اور اس کے مستحق ہیں۔یہ لوگ اس بھلائی کونہ تو اللہ پاک کا فضل جانتے اور نہ ہی اس کے انعامات پر شکر ادا کرتے اور جب انہیں قحط، خشک سالی،مرض،تنگی اور آفت وغیرہ کوئی برائی پہنچتی تو اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی نحوست قرار دیتے اور کہتے کہ یہ بلائیں اُن کی وجہ سے پہنچیں، اگر یہ نہ ہوتے تویہ مصیبتیں نہ آتیں۔ (تفسیر خازن،سورۃ الاعراف،الآیہ:2،130)

جب فرعون اور اس کی قوم کی سرکشی یہاں تک پہنچ گئی کہ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے صاف صاف کہہ دیا کہ ’’ اے موسیٰ! تم ہمارے اوپر جادو کرنے کیلئے کیسی بھی نشانی ہمارے پاس لے آؤ، ہم ہرگز تم پر ایمان نہیں لائیں گے، تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اُن کے خلاف دعا کی، آپ علیہ السلام چونکہ مستجابُ الدعوات تھے اس لئے آپ کی دعا قبول ہوئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعائے ضرر کے بعد فرعون اور اس کی قوم پر جو عذاب آئے ان کا ذکر اللہ پاک قرآن مجید میں فرماتا ہے:

فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(۱۳۳)ترجمہ کنزالایمان:تو بھیجا ہم نے ان پر طوفان اورٹِیڑی اور گھن اور مینڈک اور خون جدا جدا نشانیاں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی ۔ (پ 9،الاعراف:133)

جب جادوگروں کے ایمان لانے کے بعد بھی فرعونی اپنے کفر وسَرکشی پر جمے رہے تو اُن پر اللہ پاک کی نشانیاں پے درپے آنے لگیں کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ اےربِّ کریم!فرعون زمین میں بہت سَرکشی کرنے لگ گیا ہے اور اُس کی قوم نے بھی وعدہ خلافی کی ہے،لہٰذا اُنہیں ایسے عذاب میں گرفتار کر جو اُن کے لئے سزا، میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت و نصیحت ہو، چنانچہ اللہ پاک نے طوفان بھیجا، ہوا یوں کہ بادل آیا، اندھیرا ہوا اور کثرت سے بارش ہونے لگی۔ قِبطیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا، یہاں تک کہ وہ اُس میں کھڑے رہ گئے، پانی اُن کی گردنوں کی ہنسلیوں تک آگیااور اُن میں سے جو بیٹھا وہ ڈوب گیا۔یہ لوگ نہ ہل سکتے تھے نہ کچھ کام کرسکتے تھے۔ ہفتے کے دن سے لے کر دوسرے ہفتے تک سات(7) روز اِسی مصیبت میں مُبْتَلا رہے۔ باوجود یہ کہ بنی اسرائیل کے گھر اُن کے گھروں سے ملے ہوئے تھے مگر اُن کے گھروں میں پانی نہ آیا۔

جب یہ لوگ عاجز ہوئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی: ہمارے لئے دعا فرمائیے کہ یہ مصیبت دور ہو جائے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ بھیج دیں گے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی تو طوفان کی مصیبت دور ہو گئی، زمین میں وہ ہریالی آئی جو پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ کھیتیاں خوب ہوئیں اور درخت خوب پھلے۔ یہ دیکھ کر فرعونی کہنے لگے: یہ پانی تو نعمت تھا اور ایمان نہ لائے۔ ایک مہینا تو عافیت سے گزرا ،پھر اللہ پاک نے ٹڈیاں بھیجیں جو کھیتیاں، پھل، درختوں کے پتے،مکانات کے دروازے، چھتیں، تختے، سامان،حتّٰی کہ لوہے کی کیلیں تک کھا گئیں،حتّٰی کہ قِبطیوں کے گھروں میں بھر گئیں لیکن بنی اسرائیل کے یہاں نہ گئیں۔

اب قِبطیوں نے پریشان ہو کر پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا،اِس پر عہد و پیمان کیا۔سات(7) روز یعنی ہفتے سے ہفتے تک ٹڈی کی مصیبت میں مُبْتَلا رہے،پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے نجات پائی۔ کھیتیاں اور پھل جو کچھ باقی رہ گئے تھے اُنہیں دیکھ کر کہنے لگے: یہ ہمیں کافی ہیں ہم اپنا دِین نہیں چھوڑتے چنانچہ ایمان نہ لائے، عہد وفا نہ کیا اور اپنے بُرے اعمال میں مُبْتَلا ہوگئے۔

ایک مہینہ عافیت سے گزرا، پھر اللہ پاک نے قُمَّل بھیجے،اِس میں مُفَسِّرِیْن رَحْمَۃُ الله عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کا اِختلاف ہے:بعض کہتے ہیں: قُمَّل گُھن ہے، بعض کہتے ہیں: جُوں ،بعض کہتے ہیں: ایک اور چھوٹا سا کیڑا ہے۔ اُس کیڑے نے جو کھیتیاں اور پھل باقی رہے تھے وہ کھالئے۔ یہ کیڑا کپڑوں میں گھس جاتا،جِلد کو کاٹتا اور کھانے میں بھر جاتا تھا ۔اگر کوئی دس(10) بوری گندم چکی پر لے جاتا تو تین(3) سیر واپس لاتا باقی سب کیڑے کھا جاتے۔ یہ کیڑے فرعونیوں کے بال، بھنویں ،پلکیں چاٹ گئے،اُن کے جسم پر چیچک کی طرح بھر جاتے حتّٰی کہ اُن کیڑوں نے اُن کا سونا دُشوار کردیا تھا۔اِس مصیبت سے فرعونی چیخ پڑے اور اُنہوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے عرض کی:ہم توبہ کرتے ہیں،آپ اِس بَلا کے دُور ہونے کی دعا فرمائیے۔چنانچہ سات(7) روز کے بعد یہ مصیبت بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے دُور ہوئی، لیکن فرعونیوں نے پھر وعدہ خلافی کی اور پہلے سے زیادہ بد ترین عمل شروع کر دئیے۔

ایک مہینہ امن میں گزرنے کے بعد پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دُعا کی تو اللہ پاک نے مینڈک بھیجے ۔یہ حال ہوا کہ آدمی بیٹھتا تھا تو اُس کی مجلس میں مینڈک بھر جاتے۔ بات کرنے کے لئے منہ کھولتا تو مینڈک کُود کر منہ میں چلا جاتا۔ ہانڈیوں میں مینڈک ،کھانوں میں مینڈک،چولھوں میں مینڈک بھر جاتے تو آگ بجھ جاتی تھی۔لیٹتے تھے تو مینڈک اُوپر سُوار ہوتے تھے۔

اِس مصیبت سے فرعونی رو پڑے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی:اب کی بار ہم پکی توبہ کرتے ہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اُن سے عہد و پیمان لے کر دعا کی تو سات(7) روز کے بعد یہ مصیبت بھی دور ہوئی اور ایک مہینہ عافیت سے گزرا ،لیکن پھر اُنہوں نے عہد توڑ دیا اور اپنے کفر کی طرف لوٹے ۔پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی تو تمام کنوؤں، نہروں ،چشموں اور دریائے نیل کا پانی غرض ہر پانی اُن کے لئے تازہ خون بن گیا۔ اُنہوں نے فرعون سے اِس کی شکایت کی تو کہنے لگا:حضرت موسیٰ (علیہ السلام)نے جادو سے تمہاری نظر بندی کردی ہے۔ اُنہوں نے کہا: تم کس نظر بندی کی بات کر رہے ہو؟ ہمارے برتنوں میں خون کے سوا پانی کا نام و نشان ہی نہیں۔ یہ سُن کر فرعون نے حکم دیا :”قِبطی بنی اسرائیل کے ساتھ ایک ہی برتن سے پانی لیں۔

لیکن ہوا یوں کہ جب بنی اسرائیل نکالتے توپانی نکلتا، قِبطی نکالتے تو اُسی برتن سے خون نکلتا، یہاں تک کہ فرعونی عورتیں پیاس سے عاجز ہو کر بنی اسرائیل کی عورتوں کے پاس آئیں اور اُن سے پانی مانگا تو وہ پانی اُن کے برتن میں آتے ہی خون ہوگیا۔ یہ دیکھ کر فرعونی عورت کہنے لگی: تُو پانی اپنے منہ میں لے کر میرے منہ میں کلی کردے ۔ مگر جب تک وہ پانی اسرائیلی عورت کے منہ میں رہا پانی تھا، جب فرعونی عورت کے منہ میں پہنچا تو خون ہوگیا ۔فرعون خود پیاس سے بے چین ہوا تو اس نے تَر درختوں کی رَطوبت چُوسی، وہ رَطُوبت منہ میں پہنچتے ہی خون ہوگئی۔ سات (7)روز تک خون کے سوا کوئی چیز پینے کی نہ ملی تو پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی، یہ مصیبت بھی دور ہوئی مگر وہ ایمان پھر بھی نہ لائے۔(تفسیربغوی،سورۃ الاعراف، الآیۃ: 2،133)


اللہ پاک نے انسانوں کو پیدا کیا تو ان کی راہنمائی کے لئے اللہ پاک نے انبیاء و رسل کو بھیجا۔ رب کائنات نے انسان کے سامنےنیکی اور بدی کےدونوں راستے رکھ دیےاور اسے اختیار دے دیا کہ جسے چاہے اختیار کرے۔ شیطان روز ازل سے بنی آدم کا دشمن ہے وہ فرشتوں کا استاد تھا مگر غرور و تکبر کی وجہ سے ملعون قرار پایا اور یہی غرور تکبر فرعون میں بھی تھا فرعون بڑا سرکش تھا۔ باوجود ربوبیت کے دعویٰ کے بنی اسرائیل کے بچوں کو ذبح کرواتا تھا اور بنی اسرائیل پر حد سے زیادہ ظلم کرتا رہا تو اللہ پاک نے اُس کو سمجھانے کے لئے موسیٰ علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا۔ لیکن اس نے ایمان لانے سے انکار کردیا اورحضرت موسی علیہ السلام سے باقاعدہ اُس نے مقابلہ کیا، مناظرہ کرایا۔

فرعون کے مظالم سے تنگ دل ہو کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ پاک سے دعا مانگی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کے بعد اللہ پاک نے فرعونیوں پر لگاتار پانچ عذابوں کو مسلط کیا۔وہ پانچوں عذاب یہ ہیں:۔

1)طوفان: بادل آیا ہر طرف اندھیرا چھا گیا پھر موسلادار بارش ہوئی۔ یہاں تک کہ طوفان آگیا اور فرعونیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا۔ جب فرعونیوں کو اس مصیبت کے برداشت کرنے کی طاقت نہ رہی اور وہ بالکل ہی عاجز ہو گئے

2)ٹڈیاں: اللہ پاک نے اپنے عذاب کو ٹڈیوں کی صورت میں بھیجا چاروں طرف سے ٹڈیوں کے جھنڈ آگئے جو ان کی کھیتیوں اور باغوں کو یہاں تک کہ ان کے مکانوں کی لکڑیاں کو کھا گئیں ۔

3)گھن:غرض ایک ماہ کے بعد پھر ان لوگوں پر ”قمل ” کا عذاب مسلط ہوگیا۔ بعض مفسرین کا بیان ہے کہ یہ گھن تھا جو ان فرعونیوں کے اناج میں لگ کر تمام اناج کو کھا گیا اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ ایک چھوٹا سا کیڑا تھا، جو کھیتوں کی تیار فصلوں کو چٹ کر گیا ۔

4)مینڈک:فرعونیوں کی بستیوں اور ان کے گھروں میں اچانک بے شمار مینڈک پیدا ہو ئے جو آدمی جہاں بھی بیٹھتا ادھر ہزاروں مینڈک بھر جاتے تھے۔ کوئی آدمی بات کرنے یا کھانے کے لئے منہ کھولتا تو اس کے منہ میں مینڈک کود کر گھس جاتے۔ ہانڈیوں میں مینڈک بلکہ اٹھتے، بیٹھتے، لیٹتے کسی حالت میں بھی مینڈکوں سے نجات نہ ملی۔

5)خون: ایک دم بالکل اچانک ان لوگوں کے تمام کنوؤں، نہروں کا پانی خون ہو گیا تو ان لوگوں نے فرعون سے فریاد کی، تو اس سرکش نے کہا کہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جادوگری اور نظربندی ہے۔ فرعونی جب برتن سے پانی نکالتے تو خون نکلتا۔

اسی طرح ان پر جوؤں اور قحط سالیوں کا بھی عذاب آیا۔فرعون اور قوم فرعون نے ہر مرتبہ اپنا عہد توڑا۔ یہاں تک کہ اللہ پاک کے غضب کا آخری عذاب آیاکہ سب دریائے نیل میں غرق ہو کر ہلاک ہو کر نشان عبرت بن گئے۔فرعون کی طرح قارون بھی خدائی عذاب میں گرفتار ہوا، اور اُسے زمین میں دھنسا دیا گیا۔ دنیا و آخرت دونوں تباہ ہوگئی۔


جادوگروں کے ایمان لانے کے بعد بھی فرعونی اپنی سرکشی پر جمے رہے تو ان پر اللہ پاک کی نشانیاں پے در پے وارد ہونے لگی کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کو سزا دلانے اور بعد میں آنے والوں کی عبرت کے لئے اللہ پاک سے دعا کی تھی ۔چنانچہ ان پر پانچ عذابات آئے جن کا ذکر اس آیت میں ہے: فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(۱۳۳)ترجمہ کنزالعرفان: تو ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اورپِسُو(یا جوئیں ) اور مینڈک اور خون کی جدا جدا نشانیاں بھیجیں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی۔ (پ 9،الاعراف:133)

(1)طوفان: اتنی کثرت سے بارش ہوئی کہ فرعونیوں کے گھروں میں پانی گلے گلے کھڑا ہو گیا ۔جو بیٹھا وہ ڈوب گیا، جو کھڑا رہا اس کے گلے گلے پانی رہا ۔بنی اسرائیل اس سے محفوظ رہے ۔سات دن یہ عذاب رہا ،ہفتے کے دن سے اگلے ہفتے تک۔تب فرعون نے موسیٰ علیہ السلام سے التجاء کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا۔

(2) ٹڈیوں کا عذاب: طوفان ختم ہونے کے بعد ایمان نہ لائے تو صرف ایک مہینے بعد قبطیوں (فرعونیوں) پر ٹڈی کا عذاب آیا ۔جو ان کے کھیت ،گھروں کی چھتیں، سامان اور کیلیں تک کھا گئیں۔ پھر موسیٰ علیہ السلام سے ایمان کا وعدہ کیا آپ کی دعا سے عذاب دور ہو گیا، سات دن تک ٹڈی کے عذاب میں مبتلا رہے۔

(3)قمل(گھن،جوں،پسو یا کیڑا): ایک مہینہ آرام سے گزرا پھر ایمان نہ لائے تو ان پر گھن یا جوں کا عذاب آیا۔ یہ کیڑے فرعونیوں کے جسم تک چاٹ گئے۔ دس بوری چکی پڑ جاتی تو مشکل سے تین کلو واپس آتا۔ موسیٰ علیہ السلام کے پاس شرمندگی سے گئے، پر عذاب بھی ایک ہفتہ تک رہا۔

(4) مینڈک :وعدہ سے منکر ہوگئے تو ان پر مینڈک کا عذاب آیا کہ جہاں بھی بیٹھتے وہاں مینڈک ہی مینڈک ہو جاتے، کھانوں میں، پانی میں ،چولہوں میں، چکی میں مینڈک ہی مینڈک تھے ۔یہ بھی ایک ہفتہ رہا پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس روتے ہوئے آئے ،ایمان کا وعدہ کیا تو عذاب ختم ہوا ۔

(5)خون : مکاروں نے پھر سے وعدہ خلاف کی تب خون کا عذاب آیا اس طرح کے کنویں ،چشمیں، سالن ،روٹی ،سب میں تازہ خون ہو گیا فرعون نے حکم دیا کہ اسرائیلی کے ساتھ ایک برتن میں کھائیں۔ تو اسرائیلی کی طرف شوربہ اور اس کی طرف خون ہوتا۔ اگر اسرائیلی کے برتن سے پانی قبطی کے برتن میں ڈالتے تو آتے ہی خون ہو جاتا یہاں تک کہ اسرائیلیوں سے فرعونیوں نے اپنے منہ میں کلی کروائی تو اسرائیلی کے منہ میں پانی ہوتا تھا قبطی کے منہ میں پہنچ کر خون ہو جاتا تھا۔( تفسیر نور العرفان، زیر آیت سورۃ اعراف: 133)

ہمیں بھی اللہ پاک کی نافرمانیوں سے بچتے ہوئے فرائض و دیگر نیک اعمال کرنے چاہئے تاکہ اللہ پاک و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی سے بچا جا سکے۔


 فرعون کسی شخص کا نام نہیں بلکہ مصر کے بادشاہ کا لقب تھا۔ اس نے اور اس کے پیروکار نے زمین میں فساد برپا کیا ہوا تھا۔ اور اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان کی طرف مبعوث فرمایا ۔جب جادوگر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے جب بھی فرعونی اپنی سرکشی سے باز نہ آئے۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کے خلاف دعا کی :" اے میرے رب فرعون زمین میں بہت ہی سرکش ہو گیا ہے۔ اور اس کی قوم نے عہد شکنی کی ہے لہذا تو انہیں ایسے عذابوں میں گرفتار فرما لے جو ان کے لئے سزا وار ہو اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے نصیحت ہو"۔

پھر اللہ نے فرعونیوں پر کئی عذابات نازل کئے جسے قرآن پاک میں یوں بیان فرمایا :ترجمہ کنزالعرفان: تو ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اورپِسُو(یا جوئیں ) اور مینڈک اور خون کی جدا جدا نشانیاں بھیجیں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی۔ (پ 9،الاعراف:133)

ان عذابات کی تفصیل درجہ ذیل ہے:

1)طوفان: اللہ نے سب سے پہلے طوفان کا عذاب دیا ،کثرت سے بارش برسی۔ پانی سے گھر ڈوب گئے جس کی وجہ سے وہ بیٹھ نہ سکتے تھے جو بیٹھتا تھا وہ ڈوب جاتا تھا ۔

2)ٹڈی: ٹڈیاں کھیتیاں، پھل ،درختوں کے پتے ،مکان کے دروازے یہاں تک کے لوہے کے کیلیں تک کھا جاتیں تھیں۔

3)قمل: قمل میں اختلاف ہے بعض گھن، بعض جو ں ،بعض چھوٹا سا کیڑا کہتے ہیں ۔اور یہ کپڑوں میں گھس جاتے اور جلد کو کھا جاتے تھے۔ یہ فرعونیوں کے بھنویں اور پلکیں بھی چاٹ جاتیں ۔ان کی وجہ سے فرعونیوں کا سونا دشوار ہو گیا تھا۔

4) مینڈک :مینڈک مجلس میں بیٹھ جاتے ، قبطی منہ کھولتے تو ان کے منہ بھر جاتے اور لیٹتے تو مینڈک ان پر سوار ہو جاتے تھے۔

5)خون: کنواں ،نہر ،سمندر اور دریا وغیرہ غرض ہر قسم کا پانی خالص خون ہو گیا ۔یہاں تک کہ بنی اسرائیل والوں کے منہ میں پانی ہوتا وہ جب قبطیوں کے منہ میں کلی کرتے تو ان کے منہ میں خون ہو جاتا۔ بنی اسرائیل قبطیوں کے ساتھ رہتے تھے مگر وہ محفوظ رہے ۔جب قبطیوں کو عذابات پہنچتے تو وہ عاجز ہو کر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے نجات دلانے کی درخواست کرتے جس کا ذکر قرآن میں یوں ہے: اور جب ان پر عذاب واقع ہوتا توکہتے، اے موسیٰ! ہمارے لئے اپنے رب سے دعا کرو اس عہد کے سبب جو اس کا تمہارے پاس ہے ۔بیشک اگر آپ ہم سے عذاب اٹھادو گے تو ہم ضرور آپ پر ایمان لائیں گے اور ضرور ہم بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ کردیں گے۔ (پ 9، الاعراف : 133 تا 134)

لیکن عذاب ٹلنے کے بعد ہر بار سرکشی کرتے پھر اللہ نے انہیں غرق کر دیا جسے یوں بیان کیا : پھر جب ہم ان سے اس مدت تک کے لئے عذاب اٹھالیتے جس تک انہیں پہنچنا تھا تو وہ فوراً (اپنا عہد) توڑ دیتے۔  تو ہم نے ان سے بدلہ لیا تو انہیں دریا میں ڈبو دیا کیونکہ انہوں نے ہماری آیتوں کوجھٹلایا اور ان سے بالکل غافل رہے۔(پ 9، الاعراف : 135تا 136)

درس عبرت:(1) ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد شکنی، ظلم کرنا ،کفر کرنا ،انبیاء کو جھٹلانا یہ کتنے سنگین جرم ہیں جن سے عذاب الہی نازل ہوتا ہے۔

(2) اس واقعے سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے صبر و تحمل کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ نیکی کی دعوت دینے والے اس سے اللہ کی راہ میں آنے والی مشکلات میں صبر کا درس حاصل کریں۔ یہ واقعہ اس جملے " شریف کے ساتھ شریف ،بدمعاش کے ساتھ بدمعاش "کے باطل ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔


حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تعارف :حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے پیارے نبی اور رسول ہیں۔ آپ کے ابو کا نام "عمران" جبکہ امی کا نام "یوحانذ" ہے۔ آپ مصر میں پیدا ہوئے اور "بنی اسرائیل" کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے۔ (عجائب القرآن مع غرائب القرآن، ص:176)

فرعون کا تعارف: پیارے بھائیو! پرانے زمانے میں "مصر "کے بادشاہوں کا لقب" فرعون "ہوا کرتا تھا۔ مصر کے جتنے بھی بادشاہ گزرے ان سب میں حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا فرعون سب سے زیادہ بداخلاق ،سخت دل اور ظالم تھا۔ اس کا نام "ولید بن مصعب بن ریان "تھا اور اس کا تعلق قبیلہ قبطیہ سے تھا۔ (فرعون کا خواب ص:3،4)

فرعونیوں پر لگاتار 5 عذابات: پیارے اسلامی بھائیوں جب حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام فرعون کے مظالم سے بہت تنگ دل ہوگئے تو آپ علیہ السلام نے بارگاہ خداوندی میں اس طرح دعا مانگی :"اے میرے رب فرعون زمین میں بہت ہی سرکش ہو گیا ہے۔ اور اس کی قوم نے عہد شکنی کی ہے لہذا تو انہیں ایسے عذابوں میں گرفتار فرما لے جو ان کے لئے سزا وار ہو اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت ہو"۔(تفسیر روح البیان، 3/220)اس دعا کے بعد فرعونیوں پر لگاتار پانچ عذاب نازل ہوئے:

(1)طوفان :ہوا یوں کہ بادل آیا اندھیرا ہوا اور کثرت سے بارش ہونے لگی قبطیوں کے گھر پانی سے بھر گئے یہاں تک کہ پانی ان کی گردنوں کی ہنسلیوں تک آگیا ۔ ان میں سے جو بیٹھتا ڈوب جاتا ،یہ لوگ نہ ہل سکتے تھے،نہ کچھ کام کر سکتے تھے ۔ سات دن اس مصیبت میں مبتلا رہے پھر ایمان لانے کا وعدہ کر کے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کروائی ۔دعا کی برکت سے مصیبت جاتی رہی اور خوب کھیتیاں اور پھل ہوئے۔ اب کہنے لگے یہ پانی تو نعمت تھا اور ایمان نہ لائے۔

(2)ٹڈیاں:طوفان کی مصیبت سے ایک ماہ عافیت میں رہے پھر اللہ پاک نے ٹڈیاں بھیجیں جو کہ کھیتیاں، پھل، درختوں کے پتے ،مکان کے دروازے ،تختے ،سامان حتیٰ کہ لوہے کے کیلے تک کھا گئیں ۔اور قبطیوں کے گھروں میں بھر گئیں لیکن بنی اسرائیل محفوظ رہیں۔ پھر ایمان لانے کا وعدہ کر کے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کروائی۔ جب نجات مل گئی تو پھر عہد شکنی کی اور ایمان نہ لائے۔

(3)گھن: ٹڈیوں سے نجات کے ایک ماہ بعد اللہ پاک نے ان پر" قمل" کا عذاب مسلط کیا ۔ بعض مفسرین کا بیان ہے کہ یہ گھن تھا جو فرعونیوں کے اناجوں اور پھلوں میں لگ کر سب کچھ کھا گیا ۔جب کہ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ ایک چھوٹا سا کیڑا تھا جو باقی بچی ہوئی کھیتیاں اور پھل کھا گئے۔ یہ کیڑے ان کے کپڑوں میں گھس جاتے اور جلد کو کاٹتے تھے۔ یہ کیڑے فرعونیوں کے بال، بھنویں ،پلکیں چاٹ گئے حتی کہ ان کا سونا دشوار کر دیا۔ یہ مصیبت بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کی برکت سے دور ہوئی ۔

(4) مینڈک: اب اللہ پاک نے مینڈک بھیجے۔ آدمی جہاں بیٹھتا تھا تو اس کی مجلس میں مینڈک بھر جاتے ،ہانڈیوں میں مینڈک ،کھانوں میں اور چولہوں میں مینڈک بھر جاتے اور جب لیٹتے تو مینڈک اوپر سوار ہوتے تھے ۔اب پھر ایمان لانے کا پختہ وعدہ کر کے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کروائی۔ جب نجات مل گئی پھر عہد شکنی کی اور ایمان نہ لائے۔

(5)خون:اب اللہ پاک نے ان پر خون کا عذاب نازل کیا۔ تمام کنوؤں کا پانی نہروں اور چشموں کا پانی دریائے نیل کا پانی غرض ہر پانی ان کے لئے تازہ خون بن گیا ۔آخر کار فرعونی عاجز آ گئے اور ایمان لانے کا وعدہ کیا ۔جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے مصیبت دور ہوگئی تو پھر وہ ایمان نہ لائے۔(ملخصا عجائب القرآن مع غرائب القرآن ص:94 تا 101)


قوم قبط و عمالقہ کا بادشاہ "فرعون" کہلاتا  تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں اس قوم کا جو بادشاہ تھا یعنی فرعون اس کا نام ولید بن مصعب بن ریان تھا۔ اس کی عمر 400 سال سے بھی زیادہ ہوئی۔ اسی کے متبعین ( پیروکار )فرعونی کہلاتے ہیں۔

( خزائن العرفان ،بقرہ ،آیت 49 ، ص: 18)

اس قوم کو ہدایت دینے کے لئے اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ پاک کا پیغام فرعون اور اس کے پیروکاروں تک پہنچایا تو فرعون اور اس کے پیروکاروں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جھٹلایا اور کہا کہ یہ جادوگر ہیں۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مقابلے کے لئے اس وقت کے 70 ہزار بڑے جادوگروں کو بلایا۔ چنانچہ جب سارے جادوگر اور حضرت موسیٰ علیہ السلام مع بنی اسرائیل کے جب میدان میں اترے تو جادوگروں نے طرح طرح کے شعبدے دکھائے ،اتنے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا مبارکہ زمین پر پھینکا تو وہ ایک اژدہا بن گیا اور جادوگروں کے دکھائے گئے شعبدے نگل گیا ۔یہ دیکھ کر تمام جادوگر بمع اپنے قبائل کے ایمان سے مشرف ہوئے۔ تو جب فرعونیوں نے یہ دیکھا تو آگ بگولا ہو کر کہنے لگے :اے موسیٰ تم ہمارے اوپر جادو کرنے کے لئے ہمارے پاس کیسی ہی نشانی لے آؤ ہم ہرگز تم پر ایمان لانے والے نہیں ۔(پ 9، الاعراف : 132)

اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ پاک سے ان کے خلاف دعا کی تو اللہ پاک نے ان پر پے در پے 5 طرح کے عذابات نازل فرمائے جس کو پارہ نمبر 9 سورہ اعراف آیت 133 میں یوں بیان فرمایا : فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ- فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(۱۳۳)

ترجمہ کنزالعرفان: تو ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اورپِسُو(یا جوئیں ) اور مینڈک اور خون کی جدا جدا نشانیاں بھیجیں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی۔ (پ 9،الاعراف:133)

طوفان کی شدت ایسی تھی کہ جس سے فرعونیوں کی دل دہل گئے، ٹڈی اتنی کثیر تھیں کہ انہوں نے نہ پھل نہ درخت ،نہ کھیتی ،دروازے، چھتیں کچھ نہ چھوڑا ۔قمل ( جو یا پسو )اتنا ہلاکت خیز کہ کھالوں میں گھس جاتا تھا کپڑے کھا جاتا تھا،کپڑے کھا جاتا، بھنویں، پلکیں سب چاٹ گیا۔

مینڈک اتنے زیادہ تھے کہ بیٹھو تو نیچے آجاتے، منہ کھولو تو کود کر گھس جاتے۔

خون کا عذاب تو اتنی واضح نشانی تھی کہ کرہ ارض پر موجود ہر پانی ان کے لئے خون بن گیا۔ کہ بنی اسرائیل کنویں سے پانی نکالتے تو پانی نکلتا اور فرعونی نکالتے تو خون نکلتا ،بنی اسرائیل کے برتن میں پانی ہوتا مگر جب فرعونی پینے کے لئے منہ قریب کرتا تو خون ہوجاتا۔ الغرض یہ پانچوں عذابات ایک ایک ہفتے کے لئے آتے اور تمام عذابات کے درمیان ایک ایک مہینے کا فاصلہ ہوتا تھا۔ فرعونی ان عذابات سے نجات اس طرح پاتے کہ ہر عذاب کا ایک ہفتہ پورا ہونے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کرتے کہ ہم سے اس عذاب کے دور ہونے کی دعا کریں ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے مگر جب عذاب دور ہو جاتا تو اپنی بات سے مکر جاتے اور ایمان نہ لاتے تھے۔والعیاذ باللہ من ذلک


جب جادوگروں کے ایمان لانے کے بعد بھی فرعونی اپنے کفر و سرکشی پر جمے رہے اور فرعون اور اس کی قوم کی سرکشی یہاں تک پہنچ گئی کہ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے  انہوں نے صاف صاف کہہ دیا: وَ قَالُوْا مَهْمَا تَاْتِنَا بِهٖ مِنْ اٰیَةٍ لِّتَسْحَرَنَا بِهَاۙ-فَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِیْنَ(۱۳۲) (پ 9، الاعراف :132)

ترجمہ کنز العرفان: (اے موسیٰ! )تم ہمارے اوپر جادو کرنے کے لئے ہمارے پاس کیسی بھی نشانی لے آؤ ،ہم ہرگز تم پر ایمان لانے والے نہیں ۔

تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کے خلاف دعا کی: "یا رب ! فرعون زمین میں بہت ہی سرکش ہو گیا ہے اور اس کی قوم نے عہد شکنی کی ہے لہٰذا تو انہیں ایسے عذابوں میں گرفتار فرمالے جو ان کے لئے سزا وار ہو۔ اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت ہو۔''

مفسرین کے بیان کے مطابق جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعونیوں کے خلاف دعا کی تو آپ علیہ السلام کی دعا قبول ہوئی اور یوں ہوا کہ بادل آیا، اندھیرا ہوا اور کثرت سے بارش ہونے لگی ۔قبطیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا یہاں تک کہ وہ اس میں کھڑے رہ گئے اور پانی اُن کی گردنوں کی ہنسلیوں تک آگیا، اُن میں سے جوبیٹھا وہ ڈوب گیا، یہ لوگ نہ ہل سکتے تھے نہ کچھ کام کرسکتے تھے۔ ہفتہ کے دن سے لے کر دوسرے ہفتہ تک سات روز اسی مصیبت میں مبتلا رہے اور باوجود اس کے کہ بنی اسرائیل کے گھر اُن کے گھروں سے متصل تھے اُن کے گھروں میں پانی نہ آیا۔ جب یہ لوگ عاجز ہوئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی: ہمارے لئے دعا فرمائیے کہ یہ مصیبت دور ہو جائے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ بھیج دیں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی تو طوفان کی مصیبت دور ہو گئی، زمین میں وہ سرسبزی وشادابی آئی جو پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ کھیتیاں خوب ہوئیں اور درخت خوب پھلے ۔ یہ دیکھ کر فرعونی کہنے لگے ’’یہ پانی تو نعمت تھا اور ایمان نہ لائے۔ ایک مہینہ تو عافیت سے گزرا ، پھر اللہ پاک نے ٹڈی بھیجی وہ کھیتیاں اور پھل، درختوں کے پتے، مکان کے دروازے، چھتیں ،تختے، سامان، حتّٰی کہ لوہے کی کیلیں تک کھا گئیں اور قبطیوں کے گھروں میں بھر گئیں لیکن بنی اسرائیل کے یہاں نہ گئیں۔ اب قبطیوں نے پریشان ہو کر پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا، اس پر عہد و پیمان کیا ۔سات روز یعنی ہفتہ سے ہفتہ تک ٹڈی کی مصیبت میں مبتلا رہے،پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے نجات پائی۔ جب کھیتیاں اور پھلوں کو دیکھا تو کہنے لگے ’’یہ ہمیں کافی ہیں اور ایمان نہ لائے پھر ایک مہینے کے بعد عذاب آیا پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی کہ دعا فرمادیں اس طرح ہی کرتے اور بعد میں ایمان نہ لاتے۔

قرآن پاک میں ہے:ترجمہ کنزالعرفان: تو ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اورپِسُو(یا جوئیں ) اور مینڈک اور خون کی جدا جدا نشانیاں بھیجیں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی۔ اور جب ان پر عذاب واقع ہوتا توکہتے، اے موسیٰ! ہمارے لئے اپنے رب سے دعا کرو اس عہد کے سبب جو اس کا تمہارے پاس ہے ۔بیشک اگر آپ ہم سے عذاب اٹھادو گے تو ہم ضرور آپ پر ایمان لائیں گے اور ضرور ہم بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ کردیں گے۔ پھر جب ہم ان سے اس مدت تک کے لئے عذاب اٹھالیتے جس تک انہیں پہنچنا تھا تو وہ فوراً (اپنا عہد) توڑ دیتے۔ 

(پ 9، الاعراف : 133 تا 135)

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم انہیں جو نشانی دکھاتے وہ اپنی مثل (پہلی نشانی) سے بڑی ہی ہوتی اور ہم نے انہیں مصیبت میں گرفتار کیا تاکہ وہ بازآجائیں ۔ اور انہوں نے کہا: اے جادوکے علم والے ! ہمارے لئے اپنے رب سے دعا کر، اُس عہد کے سبب جو اس نے تم سے کیا ہے ۔بیشک ہم ہدایت پر آجائیں گے۔ پھر جب ہم نے ان سے وہ مصیبت ٹال دی تواسی وقت انہوں نے عہد توڑدیا۔(پ 9، الزخرف: 48 تا 50)

فرعونیوں پر قحط اور پھلوں کی کمی کی مصیبت قرآن پاک میں ہے:

ترجمہ کنزالعرفان: اور بیشک ہم نے فرعونیوں کو کئی سال کے قحط اور پھلوں کی کمی میں گرفتار کردیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔تو جب انہیں بھلائی ملتی توکہتے یہ ہمارے لئے ہے اور جب برائی پہنچتی تو اسے موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی نحوست قرار دیتے۔ سن لو! ان کی نحوست اللہ ہی کے پاس ہے لیکن ان میں اکثر نہیں جانتے۔(پ 9، الاعراف : 130 تا 131)


فرعونیوں پر لگاتار پانچ عذاب آنے کی سبب: جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اژدہا بن کر جادوگروں کے سانپوں کو کو نگل گیا تو جادوگر سجدے میں گر کر ایمان لائے۔ مگر فرعون اور اس کے متبعین اب بھی ایمان قبول نہیں کیا بلکہ فرعون کا کفر اور اس کی سرکشی اور زیادہ بڑھ گئی اور اس نے بنی اسرائیل کے مومنین اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دل آزاری اور ایذارسانی میں بھرپور کوشش شروع کر دی اور طرح طرح سے ستانا شروع کر دیا۔ فرعون کے مظالم سے تنگ دل ہو کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خداوند قدوس کے دربار میں اس طرح دعا مانگی کہ''اے میرے رب! فرعون زمین میں بہت ہی سرکش ہو گیا ہے اور اس کی قوم نے عہد شکنی کی ہے لہٰذا تو انہیں ایسے عذابوں میں گرفتار فرمالے جو ان کے لئے سزا وار ہو۔ اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت ہو۔( عجائب القرآن ،ص 97)

پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کے بعد اللہ پاک نے فرعونیوں پر لگاتار پانچ عذابوں کو مسلط فرما دیا۔ آئیں ان عذابوں کو اللہ پاک نے قرآن میں کس طرح بیان فرمایا: فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(۱۳۳)ترجمہ کنزالعرفان: تو ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اورپِسُو(یا جوئیں ) اور مینڈک اور خون کی جدا جدا نشانیاں بھیجیں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی۔ (پ 9،الاعراف:133)

طوفان کا عذاب:ہوا یوں کہ بادل آیا، اندھیرا ہوا اور کثرت سے بارش ہونے لگی ۔قبطیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا یہاں تک کہ وہ اس میں کھڑے رہ گئے اور پانی اُن کی گردنوں کی ہنسلیوں تک آگیا، اُن میں سے جوبیٹھا وہ ڈوب گیا، یہ لوگ نہ ہل سکتے تھے نہ کچھ کام کرسکتے تھے۔ ہفتہ کے دن سے لے کر دوسرے ہفتہ تک سات روز اسی مصیبت میں مبتلا رہے اور باوجود اس کے کہ بنی اسرائیل کے گھر اُن کے گھروں سے متصل تھے اُن کے گھروں میں پانی نہ آیا۔ جب یہ لوگ عاجز ہوئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی: ہمارے لئے دعا فرمائیے کہ یہ مصیبت دور ہو جائے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ بھیج دیں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی تو طوفان کی مصیبت دور ہو گئی،تو پھر بھی ایمان نہ لائے۔

ٹڈی کا عذاب:ایک مہینہ تو عافیت سے گزرا ،پھر اللہ  پاک نے ٹڈی بھیجی وہ کھیتیاں اور پھل، درختوں کے پتے، مکان کے دروازے، چھتیں ،تختے، سامان، حتّٰی کہ لوہے کی کیلیں تک کھا گئیں اور قبطیوں کے گھروں میں بھر گئیں لیکن بنی اسرائیل کے یہاں نہ گئیں۔ اب قبطیوں نے پریشان ہو کر پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا، اس پر عہد و پیمان کیا ۔سات روز یعنی ہفتہ سے ہفتہ تک ٹڈی کی مصیبت میں مبتلا رہے،پھر حضرت موسیٰ موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے نجات پائی۔

قمل کا عذاب:فرعونیوں نے عہد وفا نہ کیا اور اپنے اعمالِ خبیثہ میں مبتلا ہوگئے ۔ ایک مہینہ عافیت سے گزرا ،پھراللہ پاک نے قُمَّل بھیجے، اس کیڑے نے جو کھیتیاں اور پھل باقی رہے تھے وہ کھالئے، یہ کیڑا کپڑوں میں گھس جاتا تھا اور جلد کو کاٹتا تھا، کھانے میں بھر جاتا تھا ،اگر کوئی دس بوری گندم چکی پر لے جاتا تو تین سیر واپس لاتا باقی سب کیڑے کھا جاتے ۔یہ کیڑے فرعونیوں کے بال، بھنویں ،پلکیں چاٹ گئے ،ان کے جسم پر چیچک کی طرح بھر جاتے حتّٰی کہ ان کیڑوں نے اُن کا سونا دشوار کردیا تھا۔ اس مصیبت سے فرعونی چیخ پڑے اور اُنہوں نے حضرت موسیٰ موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی:ہم توبہ کرتے ہیں ، آپ اس بلا کے دور ہونے کی دعا فرمائیے۔ چنانچہ سات روز کے بعد یہ مصیبت بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے دور ہوئی۔

مینڈک کی عذاب: پھر ایک مہینہ امن میں گزرنے کے بعد پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی تو اللہ پاک نے مینڈک بھیجے اور یہ حال ہوا کہ آدمی بیٹھتا تھا تو اس کی مجلس میں مینڈک بھر جاتے، بات کرنے کے لئے منہ کھولتا تو مینڈک کود کر منہ میں چلا جاتا، ہانڈیوں میں مینڈک ،کھانوں میں مینڈک ، چولھوں میں مینڈک بھر جاتے تو آگ بجھ جاتی تھی، لیٹتے تھے تو مینڈک اوپر سوار ہوتے تھے، اس مصیبت سے فرعونی رو پڑے اور حضرت موسیٰ موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی: اب کی بار ہم پکی توبہ کرتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے یہ مصیبت بھی دور ہوئی۔

خون کا عذاب: ایک مہینہ عافیت سے گزرا ،لیکن پھر اُنہوں نے عہد توڑ دیا اور اپنے کفر کی طرف لوٹے ۔پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی تو تمام کنوؤں کا پانی، نہروں اور چشموں کا پانی، دریائے نیل کا پانی غرض ہر پانی اُن کے لئے تازہ خون بن گیا۔ اُنہوں نے فرعون سے اس کی شکایت کی تو کہنے لگاکہ ’’ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جادو سے تمہاری نظر بندی کردی ہے۔ اُنہوں نے کہا: تم کس نظر بندی کی بات کر رہے ہو؟ ہمارے برتنوں میں خون کے سوا پانی کا نام و نشان ہی نہیں۔ یہ سن کر فرعون نے حکم دیا کہ’’ قبطی بنی اسرائیل کے ساتھ ایک ہی برتن سے پانی لیں۔ لیکن ہوا یوں کہ جب بنی اسرائیل نکالتے توپانی نکلتا ،قبطی نکالتے تو اسی برتن سے خون نکلتا، یہاں تک کہ فرعونی عورتیں پیاس سے عاجز ہو کر بنی اسرائیل کی عورتوں کے پاس آئیں اور اُن سے پانی مانگا تو وہ پانی اُن کے برتن میں آتے ہی خون ہوگیا۔ یہ دیکھ کر فرعونی عورت کہنے لگی کہ’’ تو پانی اپنے منہ میں لے کر میرے منہ میں کلی کردے ۔ مگر جب تک وہ پانی اسرائیلی عورت کے منہ میں رہا پانی تھا، جب فرعونی عورت کے منہ میں پہنچا تو خون ہوگیا ۔فرعون خود پیاس سے مُضْطَر ہوا تواس نے تر درختوں کی رطوبت چوسی ، وہ رطوبت منہ میں پہنچتے ہی خون ہوگئی۔ سات روز تک خون کے سوا کوئی چیز پینے کی میسر نہ آئی تو پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی یہ مصیبت بھی دور ہوئی مگر وہ ایمان پھر بھی نہ لائے۔

( صراط الجنان 3/414تا416)