دعوت
اسلامی کے شعبہ علاقائی دورہ(اسلامی
بہنیں ) کے
زیر اہتمام گزشتہ دونوں ساؤتھ افریقہ کے مختلف علاقوں ویلکم، ڈربن، پیٹرمیزبرگ اور
جوہانسبرگ میں نیکی کی دعوت کا سلسلہ ہوا۔
ذمہ دار اسلامی بہنوں نے مقامی اسلامی بہنوں کے گھر گھر جا کر نیکی کی
دعوت دی جس میں اسلامی بہنوں کو ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کرنے کی دعوت
دی ۔
ساؤتھ
افریقہ میں شعبہ اصلاح اعمال کے تحت ہونے والے دینی کاموں کی ماہانہ کارکردگی
دعوت
اسلامی کے شعبہ اصلاح اعمال(اسلامی بہنیں) کے زیر
اہتمام اکتوبر 2021ء میں ساؤتھ افریقہ میں ہونے والے دینی کاموں کی ماہانہ کارکردگی
ملاحظہ فرمائیں :
تقسیم
ہونے والے نیک اعمال کے رسائل کی تعداد: 636
وصول
ہونے والے نیک اعمال کے رسائل کی تعداد:608
ماہ میں
14،15 روزے رکھنے والی اسلامی بہنوں کی تعداد: 45
ماہ میں
7،8 روزے رکھنے والی اسلامی بہنوں کی تعداد: 92
ماہ میں
4،5 روزے رکھنے والی اسلامی بہنوں کی تعداد: 412
رسالہ
خاموش شہزادہ پڑھنے سننے والی اسلامی بہنوں کی تعداد:824
یوم
قفل مدینہ منانے والی اسلامی بہنوں کی تعداد:262
ساؤتھ
افریقہ کی اسلامی بہنوں کی رسالہ” لاکھوں نیکیاں اور لاکھوں گناہ“پڑھنے / سننے کی کارکردگی
امت
مسلمہ کو علم دین سے مستفید کرنے وعلم دین سکھانے کے آسان ذرائع فراہم کرنے کےلئے
ہفتہ وار مدنی مذاکرے میں امیر اہل سنت دَامَتْ بَرْکَاتُہُمُ
الْعَالِیَہْ
کسی ایک مدنی رسالے کےمطالعے کی ترغیب ارشاد فرماتے ہیں اور رسالہ پڑھنے /سننے والوں
کو اپنی دعاؤں سے بھی نوازتے ہیں۔
پچھلے
ہفتے امیر اہل سنت دَامَتْ بَرْکَاتُہُمُ الْعَالِیَہْ نے رسالہ” لاکھوں نیکیاں اور لاکھوں گناہ“پڑھنے
/ سننے کی ترغیب دلائی۔
اسی سلسلے میں ساؤتھ افریقہ میں کم وبیش 2ہزار
875 اسلامی بہنوں نے رسالہ”لاکھوں نیکیاں اور لاکھوں گناہ“ پڑھنے /سننے کی
سعادت حاصل کی ۔
شعبہ
اسلامی بہنوں کے مدرسۃ المدینہ کے زیر اہتمام
یوپین یونین ریجن کی ذمہ دار اسلامی بہنوں کا مدنی مشورہ
دعوت
اسلامی کے شعبہ اسلامی بہنوں کے مدرسۃ المدینہ کے زیر اہتمام یوپین یونین ریجن کی ذمہ دار اسلامی بہنوں
کا آن لائن مدنی مشورہ ہوا جس میں رکن
عالمی مجلس شعبہ اسلامی بہنوں کے مدرسۃ
المدینہ کی ذمہ دار اسلامی بہن نے مدنی مشورے میں شریک اسلامی بہنوں کی عملی جدول
و کارکردگی کا فالواپ کیا نیزپاکستان میں ذمہ دار اسلامی بہنوں کا سنتوں بھرا اجتماع
برائے شعبہ بین الاقوامی امور اور سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کے حوالے سے بات چیت کی۔
امیراہل
سنّت دَامَتْ
بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی جانب سے
عطاکردہ
ہفتہ
وار رسالہ
اِس رسالے کی چندخصوصیات:
٭دیدہ زیب ودِلکش سرورق (Title) وڈیزائننگ (Designing) ٭عصرحاضرکے تقاضوں کے پیشِ نظرجدید کمپوزنگ وفارمیشن ٭عبارت کے معانی ومفاہیم سمجھنے کیلئے
’’علاماتِ ترقیم‘‘(Punctuation Marks) کا اہتمام ٭اُردو،
عربی اور فارسی عبارتوں کو مختلف رسم الخط (Fonts)میں لکھنے کا اہتمام ٭پڑھنے والوں کی دلچسپی برقرار رکھنے کیلئے عنوانات (Headings) کا قیام ٭بعض جگہ عربی عبارات مع ترجمہ کی
شمولیت ٭آیات کے ترجمہ میں کنزالایمان کی شمولیت ٭حسب
ضرورت مشکل اَلفاظ پر اِعراب اور بعض پیچیدہ اَلفاظ کے تلفظ بیان کرنے کا اہتمام ٭قرآنی آیات مع ترجمہ
ودیگر تمام منقولہ عبارات کے اصل کتب سے تقابل(Tally) کا اہتمام ٭آیات، اَحادیث،توضیحی عبارات، فقہی جزئیات کےحوالوں (References) کا خاص اہتمام ٭ اغلاط کوکم سے کم کرنے کےلئے
پورے رسالے کی کئی بار لفظ بہ لفظ پروف ریڈنگ۔
17صفحات پر مشتمل یہ رسالہ2021ءمیں اردو زبان کے1st ایڈیشن میں50ہزار کی تعداد میں پرنٹ ہو
چکا ہے۔
مکتبۃ المدینہ کی کسی بھی شاخ سے18روپے ہدیۃ پر حاصل کیجئے اوردوسرو ں کو بھی ترغیب دلائیے۔
اس رسالے کی PDF
دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ سے مفت ڈاؤن لوڈ بھی کی جاسکتی ہے۔
ایصال ثواب ہمارے
اطراف میں رائج ایک عمل خیر ہے جو صدیوں سے سے مختلف طریقوں سے چلتا آ رہا ہے یہاں تک کہ زمانہ رسالت میں بھی صحابہ کرام مختلف طریقوں سے ایصال ثواب فرمایا کرتے تھے ۔
ایصال ثواب کا ثبوت مختلف احادیث سے بھی ملتا ہے چنانچہ بخاری شریف کی ایک حدیث پاک میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ایک
شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی خدمت میں عرض کیا کہ میری والدہ کا اچانک انتقال ہوگیا اور میرا
گمان ہے کہ اگر وہ کچھ کہتی تو صدقے کا
کہتی پس اگر میں انکی طرف سے صدقہ کروں تو کیا انہیں ثواب پہنچے گا نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا
" ہاں"
(صحیح البخاری، کتاب الجنائز ،باب موت الفجاة البغۃ،1/468،
حديث :1388)
ہمارے زمانے میں مختلف طریقوں سے ایصال ثواب رائج ہے۔ چند طریقے حاضر خدمت ہیں:
1) فوت ہونے والے مسلمانوں کے ایصال ثواب کے لئے تیجہ دسواں ،چالیسواں
اور برسی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جس میں قرآن خوانی، محفل ذکر ونعت وغیرہ کا
اہتمام کیا جاتا ہے اگر یہ انتقال کے تین
دن بعد کریں تو تیجہ دس دن بعد ہو تو دسواں، چالیس دن بعد ہو تو چالیسواں اور ایک
سال کے بعد ہو تو برسی کہتے ہیں ۔
2) محفل میلاد: یہ بھی مسلمانوں میں رائج ایصال ثواب کا
بہترین طریقہ ہے جس میں قرآن خوانی، نعت خوانی، درود خوانی اور بیانات وغیرہ کا
اہتمام کرکے اس کا ثواب نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ عالیہ میں ایصال
کیا جاتا ہے ۔
3) گیارہویں شریف کی نیاز:
11 ربیع الآخر کو سرکار بغداد حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ کے ایصال ثواب کی
نیت سے کافی مقدار میں بہترین خانہ پکا کر تقسیم کیا جاتا ہے یہ بھی ایصال ثواب کا
ایک اچھا طریقہ ہے جو لوگوں میں رائج ہے جو کہ بزرگان دین سے محبت کی زندہ دلیل ہے۔
4) محرم شریف کی سبیل لگانا :محرم شریف کے مہینے میں اور
بعض جگہ پورے سال امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کے ایصال ثواب کی نیت سے
پانی کی سبیل لگائی جاتی ہے یہ بھی ہمارے اطراف رائج ایصال کا ایک طریقہ ہے ۔
5) ہمارے اطراف جو طریقہ سب سے زیادہ رائج ہے وہ مختلف
مواقع پر کھانے یا دیگر چیزوں پر مختلف آیات وغیرہ پڑھ کر ایصال ثواب کرتے ہیں
خصوصاً ایک بار سورہ کافرون تین بار سورہ اخلاص ایک ایک بار سورہ ناس سورہ فلق اور
سورہ فاتحہ اور الٰم سے مفلحون تک پڑھ کر پھر
مزید کچھ آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں اور اس کو خصوصاً جس کے نام سے فاتحہ خوانی کر
رہے ہیں ان کے لئے اور بالعموم سارے مسلمانوں کو ایصال ثواب کرتے ہیں۔یہ سارے طریقے
جائز بلکہ کار ثواب ہیں۔
اللہ پاک ہمیں بھی بزرگانِ دین کے طریقوں پر چلتے ہوئے ایصال
ثواب کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین
محمد اکمل کمال (درجہ
دورۃ الحدیث جامعۃ المدینہ فیضان عطار، ناگپور)
مذہب اسلام میں عبادت کی بہت اہمیت ہے خواہ وہ بدنی عبادت
ہو جیسے نماز روزہ وغیرہ ،یا مالی ہو جیسے کہ صدقات و خیرات، یا پھر ان دونوں کا
مجموعہ ہو جیسے حج و عمرہ وغیرہ اور عبادتوں کا ایصال ثواب کرنا اہل سنت والجماعت
حنفی مسلک میں جائز ہے ۔
ایصال ثواب کسے کہتے ہیں؟
تو اس کی تعریف یہ
ہے کہ اپنے کسی نیک عمل کا ثواب کسی دوسرے مسلمان کو پہنچانا ایصال ثواب کہلاتا ہے۔
ایصال ثواب کے جائز ہونے پر کئی ساری دلیلیں ہیں، حدیث سے دلیل جیسے کہ حضرت معقل بن یسار رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: " اقرؤوا ”یسین“ علی
موتاکم"ترجمہ : تم اپنے مردوں کے کے پاس یاسین پڑھو۔
(ابو داؤد شریف ،کتاب
الجنائز ،باب قراءۃعند اھل المیت ،حدیث: 3121)
اور درس نظامی میں داخل نصاب کتاب ہدایہ کے مصنف علامہ
برہان الدین مرغینانی حنفی کا بھی یہی نظریہ ہے کہ ایصال ثواب جائز ہے ۔ جیسا کہ
انہوں نے خود اپنی کتاب ہدایہ میں لکھا ہے : ان الانسان
له ان یجعل ثواب عمله لغيره صلاة او صوما او صدقه او غيرها عند اهل السنه والجماعۃ،ترجمہ اہل سنت و الجماعت کے نزدیک انسان کے لئے جائز ہے کہ
وہ اپنے عمل نماز روزہ صدقہ وغیرہ کا ثواب دوسرے کو بخش دے۔ (ہدایہ 2/445 باب الحج
عن الغیر)
اور علامہ بدر الدین
عینی شارح بخاری کا بھی یہی نظریہ ہے ملاحظہ ہو:
فرماتے ہیں کہ
انسان اپنے عمل کا ثواب دوسرے کو بخش سکتا ہے خواہ وہ عمل جس کا ثواب دوسرے کو
بخشا نمازہو،روزہ ہو ،صدقہ ہو یا ان کے علاوہ ہو جیسے حج ،تلاوت قرآن ، انبیاء،
شہداء، اولیا اور صالحین کی قبروں کی زیارت مردوں کو کفن دینا، اور نیکی کی تمام
اقسام یعنی ان سب اعمال کا ایصال ثواب
کرسکتا ہے۔(بنایہ شرح ہدایہ، 4/466 ،باب الحج عن الغیر)
ان ساری تفاصیل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ایصال ثواب کرنے کے لئے کوئی سا بھی عمل ہو اس کا ایصال ثواب دوسرے مسلمان کو
کر سکتے ہیں خواہ نماز کی صورت میں ہو یا پھر روزہ کی صورت میں اور یہ بھی ہے کہ
ہم جو بھی نیک عمل کرتے ہیں جیسے کہ شجر کاری، نیکی کی دعوت،برائی سے منع کرنا
،مدنی قافلہ، درس نظامی کرنا الغرض سبھی کا ایصال ثواب کیا جا سکتا ہے۔اور ایصال
ثواب کرنے کا مقصد اللہ پاک کی رضا اور ثواب کا حصول ہو۔
ایصال ثواب ہمارے
اطراف میں رائج ایک عمل خیر ہے جو صدیوں سے سے مختلف طریقوں سے چلتا آ رہا ہے یہاں تک کہ زمانہ رسالت میں بھی صحابہ کرام مختلف طریقوں سے ایصال ثواب فرمایا کرتے تھے ۔
ایصال ثواب کا ثبوت مختلف احادیث سے بھی ملتا ہے چنانچہ بخاری شریف کی ایک حدیث پاک میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ایک
شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی خدمت میں عرض کیا کہ میری والدہ کا اچانک انتقال ہوگیا اور میرا
گمان ہے کہ اگر وہ کچھ کہتی تو صدقے کا
کہتی پس اگر میں انکی طرف سے صدقہ کروں تو کیا انہیں ثواب پہنچے گا نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا
" ہاں"
(صحیح البخاری، کتاب الجنائز ،باب موت الفجاة البغۃ،1/468،
حديث :1388)
ہمارے زمانے میں مختلف طریقوں سے ایصال ثواب رائج ہے۔ چند طریقے حاضر خدمت ہیں:
1) فوت ہونے والے مسلمانوں کے ایصال ثواب کے لئے تیجہ دسواں ،چالیسواں
اور برسی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جس میں قرآن خوانی، محفل ذکر ونعت وغیرہ کا
اہتمام کیا جاتا ہے اگر یہ انتقال کے تین
دن بعد کریں تو تیجہ دس دن بعد ہو تو دسواں، چالیس دن بعد ہو تو چالیسواں اور ایک
سال کے بعد ہو تو برسی کہتے ہیں ۔
2) محفل میلاد: یہ بھی مسلمانوں میں رائج ایصال ثواب کا
بہترین طریقہ ہے جس میں قرآن خوانی، نعت خوانی، درود خوانی اور بیانات وغیرہ کا
اہتمام کرکے اس کا ثواب نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ عالیہ میں ایصال
کیا جاتا ہے ۔
3) گیارہویں شریف کی نیاز:
11 ربیع الآخر کو سرکار بغداد حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ کے ایصال ثواب کی
نیت سے کافی مقدار میں بہترین خانہ پکا کر تقسیم کیا جاتا ہے یہ بھی ایصال ثواب کا
ایک اچھا طریقہ ہے جو لوگوں میں رائج ہے جو کہ بزرگان دین سے محبت کی زندہ دلیل ہے۔
4) محرم شریف کی سبیل لگانا :محرم شریف کے مہینے میں اور
بعض جگہ پورے سال امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کے ایصال ثواب کی نیت سے
پانی کی سبیل لگائی جاتی ہے یہ بھی ہمارے اطراف رائج ایصال کا ایک طریقہ ہے ۔
5) ہمارے اطراف جو طریقہ سب سے زیادہ رائج ہے وہ مختلف
مواقع پر کھانے یا دیگر چیزوں پر مختلف آیات وغیرہ پڑھ کر ایصال ثواب کرتے ہیں
خصوصاً ایک بار سورہ کافرون تین بار سورہ اخلاص ایک ایک بار سورہ ناس سورہ فلق اور
سورہ فاتحہ اور الٰم سے مفلحون تک پڑھ کر پھر
مزید کچھ آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں اور اس کو خصوصاً جس کے نام سے فاتحہ خوانی کر
رہے ہیں ان کے لئے اور بالعموم سارے مسلمانوں کو ایصال ثواب کرتے ہیں۔یہ سارے طریقے
جائز بلکہ کار ثواب ہیں۔
اللہ پاک ہمیں بھی بزرگانِ دین کے طریقوں پر چلتے ہوئے ایصال
ثواب کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین
عبد الوحید رضا عطاری ( درجہ ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان عثمان غنی ،بارشی ،مہاراشٹرا )
ایصال ثواب کا معنی ثواب پہنچانا خود عمل کیا اور دوسروں تک
ثواب پہنچایا جائے اسی میں ایک بخاری شریف کی احادیث پیش کرتا ہوں۔
حضرت سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں اللہ کے آخری نبی مکی مدنی محمد
عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک صحابی حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا : میرے والدہ کا انتقال ہوگیا صحابی سوال کرتے ہیں
کیا میں ان کی طرف سے کوئی صدقہ کرو تو انہیں فائدہ پہنچتا ہے؟ تو اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
ارشاد فرمایا :ہاں انہیں فائدہ ہوگا ۔
حضرت سعد بن عباده
رضی اللہ عنہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آئے اور سوال عرض کیا میرے امی کا انتقال ہوگیا ہے تو میں کون سا صدقہ کرو تو ان کو زیادہ ثواب ملے گا تو نبی کریم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :پانی تو آپ رضی اللہ عنہ ہو نے ایک پانی کا کنواں کھدوایا اور اور کہا کہ
یہ کنواں سعد کی ماں کے لئے ہے۔
ایصال ثواب کے 5 طریقے :
(1) ایصال ثواب یعنی ثواب پہنچانے کے لئے دل میں نیت کرنا کافی ہے مثلا آپ نے کسی
کو ایک روپیہ خیرات کیا یا کسی پر انفرادی
کوشش کی یا درود شریف پڑھا یا سنتوں بھرا
بیان کیا یا رضائےالہی والے کام کیا الغرض آپ نے کوئی بھی نیک کام کیا آپ دل ہی دل
میں اس طرح نیت کیجئے مثلا میں نے ابھی جو
درود پاک پڑھا اس کا ایصال ثواب سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نذر یا تحفہ
پیش کرتا ہوں تو ان شاءاللہ ثواب پہنچ جائے گا مزید جن کی بھی نیت کرے ان کو بھی
ثواب پہنچے گا لیکن زبان سے کہنا افضل ہے۔
(2) مروجہ فاتحہ کا
طریقہ:آج کل مسلمانوں میں خصوصاً کھانے پر ایصال ثواب وہ بہت اچھا ہے جن کھانوں کا ایصال ثواب کرنا
ہے ان سب کو سامنے رکھ دے یا ان میں سے کچھ تھوڑا تھوڑا سامنے رکھ دے نیز ایک گلاس
پانی بھی سامنے رکھ دے اب اعوذ بالله
من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم پھر ایک بار قل یا ایہا
الکافرون پڑھیں پھر تین
مرتبہ سورہ اخلاص پڑھےپھر ایک مرتبہ سو رۃ الفلق پڑھیں پھر ایک مرتبہ سورۃ الناس پڑھی پھر ایک مرتبہ سورۃ
الفاتحہ پڑھیں پھر ا لٰم سے لیکر المفلحون تک پڑھیں پھر یہ
پانچ آیت پڑھیں :
وَ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الرَّحْمٰنُ
الرَّحِیْمُ۠(۱۶۳) (پ 2،البقرہ :163)
اِنَّ
رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ(۵۶)(پ
8،الأعراف:56)
وَ
مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ 17،الانبیا:107)
مَا
كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ
خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) (پ 22،الأحزاب:40)
اِنَّ
اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (پ 22،الأحزاب:56)
اب فاتحہ پڑھنے والا بلند آواز سے کہے: الفاتحہ تو تمام لوگ
آہستہ یعنی اپنے کانوں کو سنے اتنی آواز میں
سورہ فاتحہ پڑھے پھر جو ایصال ثواب کرنے والا ہے وہ کہے کہ میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو آپ نے جو کچھ
پڑھا میرے ملک کرے ۔اب فاتحہ پڑھنے والا تمام کا ایصال ثواب کریں ۔
(3 ) اعلی حضرت کے
فاتحہ کا طریقہ: ایصال ثواب کے الفاظ لکھنے سے قبل اعلی حضرت امام اہلسنت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خاں علیہ
الرحمۃ والرضوان فاتحہ سے پہلے جو سورت پڑھتے تھے وہ یہ ہیں :سورۃ الفاتحہ اور آیۃ الکرسی اور تین مرتبہ سورۃ الاخلاص
(4)ایک مرتبہ سورہ فاتحہ اور تین مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے ۔
(5)کوئی بھی نیک عمل رضائے الہی کے لئے کریں اور اس کا ثواب اپنے مرحومین کو
کر سکتے ہیں ۔
عبدالرووف خاور (درجہ سابعہ مرکزی جامعۃ المدینہ
فیضانِ مدینہ فیصل آباد )
فرعونیوں
کا یہ طریقہ کار تھا کہ اچھائی کو اپنا کمال اور برائی کو بدشگونی کے طور پر سیدنا
موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے۔ اس پر انھیں طوفان، ٹڈیوں، جوؤں، مینڈکوں،
خون وغیرہ کے عذابات میں مبتلا کیا گیا۔ جب بھی وہ عذاب میں مبتلا ہوئے تو موسیٰ
علیہ السلام سے کہا ہم سے عذاب ٹل جائے تو ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو آزاد
کریں گے۔ لیکن موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے عذاب ٹل جانے کے بعد فرعونی اپنے وعدے
سے پھر جاتے تو الله پاک نے بھی انھیں سمندر میں غرق فرما دیا۔ الله پاک نے کمزور
لوگوں کو مشرق و مغرب کا وارث بنایا اور بنی اسرائیل سے کیا ہوا وعدہ وفا فرمایا۔
1)پانی کا عذاب :اتنی بڑی
طوفانی بارش ہوئی کہ کہ فرعونیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا اتنا کہ ان کے گلے گلے
جتنا ہوگیا اور جو بھی بیٹھتا وہ ڈوب جاتا درحال کہ بنی اسرائیل والے اس سے محفوظ تھے۔تب فرعون کی قوم نے موسیٰ
علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر ایمان لانے کا وعدہ کیا لیکن طوفان ختم ہو
جانے کے بعد ایمان نہ لائے۔
2)ٹڈیوں کا عذاب
:نافرمانی کے ایک ماہ بعد فرعونیوں پر ٹڈیوں کا عذاب آیا۔ جو فرعونیوں کے کھیت،
گھروں کی چھتیں، سامان، کیلیں وغیرہ تک کھا گئیں۔ یہ قوم پھر موسیٰ علیہ السلام کے
پاس حاضر ہوئے ایمان لانے کا وعدہ کیا آپ علیہ السلام کی دعا سے یہ عذاب بھی رفع
ہو گیا لیکن ایمان نہ لائے۔
3)گھن کا عذاب:ایمان نہ
لانے کے ایک ماہ بعد پھر ان پر گھن یا جوں کا عذاب مسلط کیا گیا یہ کیڑے فرعونیوں
کے جسم تک چاٹ گئے دس( 10) بوری چکی پر جاتیں تو بمشکل تین (3) کلو آٹا آتا
پھر سیدنا موسیٰ کلیم الله علیہ السلام کے
پاس نادم ہوکر آئے۔ یہ عذاب بھی رفع گیا۔ لیکن ایمان نہ لائے۔
4)مینڈک کا عذاب
:جوؤں کے عذاب کے ماہ بعد مینڈکوں کا عذاب نازل ہوا جہاں بھی فرعونی بیٹھتے وہاں
مینڈک ہی مینڈک ہو جاتے کھانوں میں، پانی میں، چولہوں میں، مینڈک ہی مینڈک تھے۔ یہ عذاب بھی ان پر ایک
ہفتہ رہا۔ پھر سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام سے وعدہ کیا لیکن وفا نہ کیا اور
ایمان نہ لائے۔
5)خون کا عذاب :بعد اس کے
ان پر خون کا عذاب آیا کہ کنوئیں، چشمے، سالن،روٹی وغیرہ سب میں تازہ خون پیدا
ہوگیا۔ اگر اسرائیلی کے برتن سے پانی قبطیوں کے برتن میں ڈالتے تو خون ہو جاتا۔ (تفسیر
نور العرفان صفحہ 263 سورة الأعراف آیت 133 فرید
بک ڈپو)
الله
پاک سے دعا ہے کہ ہم سب کو انبیاء کرام علیہم السلام کی نافرمانی سے محفوظ فرمائے
اور سیدنا خاتم النبيين صلى الله علیہ وسلم کا سچا مطیع اور فرمانبردار بنائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
جب
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اژدھا بن کر جادوگروں کے سارے سانپوں کو نگل گیا تو
وہ جادوگر تو سجدے میں گر گئے اور اللہ پاک
نے انہیں ایمان کی دولت عطا فرمائی لیکن فرعون اور اس کی قوم کفر پر اڑی رہی اور
حضرت موسٰی علیہ السلام اور ان کی قوم کو تکلیفیں پہنچانا شروع کردیں جن سے تنگ دل
ہو کر موسٰی علیہ السلام نے یوں دعا فرمائی کہ: اے میرے رب! فرعون زمین میں بہت ہی
سرکش ہوگیا ہے اور اس کی قوم نے عہد شکنی(وعدہ خلافی) کی ہے لہذا تو انہیں ایسے
عذابوں میں گرفتار فرمالےجو ان کے لئے
سزاوار ہوں، اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت
ہوں۔ (صراط الجنان،جلد 3، صفحہ نمبر 414،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
آپ
علیہ السلام مستجاب الدعوات تھے، دعا قبول ہوئی اور اللہ پاک نے فرعونیوں پر
لگاتار پانچ عذابوں کو مسلّط فرمادیا۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ
الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ-
فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(۱۳۳)ترجمہ کنزالعرفان: تو ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی
اورپِسُو(یا جوئیں ) اور مینڈک اور خون کی جدا جدا نشانیاں بھیجیں تو انہوں نے
تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی۔
(پ 9،الاعراف:133)
(1)طوفان: ناگہاں(اچانک)ایک
اَبَر(بادل) اور ہر طرف اندھیرا چھا گیا پھر انتہائی زوردار بارش ہونے لگی یہاں تک
کہ طوفان آگیا اور فرعونیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا اور وہ اس میں کھڑے رہ گئے
اور پانی ان کی گردنوں تک آ گیا ان میں سے جو بھی بیٹھا وہ ڈوب کر ہلاک ہو گیا۔
(2) ٹڈیاں: پھر اللہ پاک نے
اپنے قہروعذاب کو ٹڈیوں کی شکل میں بھیجا کہ چاروں طرف سے ٹڈیوں کے جُھنڈ(گروہ) کے
جُھنڈ آئے جو ان کی کھیتوں اور باغوں یہاں تک کہ ان کے مکانوں کی لکڑیوں تک کو
کھا گئیں اور فرعونیوں کے گھروں میں ٹڈیاں بھر گئیں جس سے ان کا سانس لینا مشکل ہو
گیا۔
(3) گھن: ٹڈیوں کے بعد
قُمّل کا عذاب مسلّط کیا گیا یہ ایک چھوٹا سا کیڑا تھا، جو کھیتوں کی تیار فصلوں
کو چٹ کر گیا اور ان کے کپڑوں میں گھس کر ان کے چمڑوں کو کاٹ کاٹ کر انہیں تڑپانے
لگا، یہاں تک کہ ان کے سر کے بالوں، داڑھی، مونچھوں، بھنوؤں، پلکوں کو چاٹ چاٹ کر
اور چہروں کو کاٹ کاٹ کر انہیں چیچک کی طرح بنادیا۔
(4) مینڈک: اب مینڈکوں کی
باری آئی، فرعونیوں کی بستیوں اور گھروں میں اچانک بے شمار مینڈک پیدا ہو گئے ان
ظالموں کا حال یہ ہو گیا تھا کہ جو آدمی جہاں بھی بیٹھتا اس کی مجلس میں ہزاروں
مینڈک بھر جاتے، کوئی آدمی بات کرنے یا کھانے کے لئے منہ
کھولتا تو اس کے منہ میں مینڈک کود کر گھس جاتے، ہانڈیوں میں مینڈک، ان کے جسموں
پر سینکڑوں مینڈک سوار رہتے۔
(5) خون: اتنے سخت
عذابات کے باوجود بھی جب فرعون اور اس کی قوم نے توبہ نہ کی اور اسلام نہ لاۓ
اور کفر پر ڈٹے رہے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے ان لوگوں کے کے تمام
کنوؤں، نہروں کا پانی خون ہو گیا تو ان لوگوں نے فرعون سے فریاد کی، تو اس نے حکم
دیا کہ تم لوگ مومنین کے ساتھ ایک ہی برتن سے پانی نکالو! مگر خدا کی شان کہ
مومنین اسی برتن سے پانی نکالتے تو نہایت ہی صاف، شفاف اور شیریں پانی نکلتا اور
فرعونی جب اسی برتن سے پانی نکالتے تو تازہ خون نکلتا یہاں تک کہ اگر ایک ہی برتن
سے منہ لگا کر پانی پیا جاتا تو جو مومنین کے منہ میں جاتا وہ پانی ہوتا اور جو
فرعونیوں کے منہ میں جاتا وہ خون ہوتا اور اگر فرعونی درختوں کی جڑیں اور چھالیں
چبا چبا کر چوستے تو اس کی رطوبت بھی ان کے منہ میں جاکر خون ہو جاتی تھی۔
(عجائب القرآن مع غرائب القرآن، صفحہ
100-97،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
فرعونیو ں پر عذابات کیوں آئے؟:
جب فرعون اور اس کی قوم کی سرکشی یہاں تک پہنچ گئی کہ انہوں نے
حضرت موسیٰ علیہ السلام سے صاف صاف
کہہ دیا ’’ اے موسیٰ! تم ہمارے اوپر جادو کرنے کیلئے کیسی بھی نشانی ہمارے پاس لے
آؤ ،ہم ہرگز تم پر ایمان نہیں لائیں گے،جس بات کا ذکر سورۃ الاعراف کی آیت 132
میں کیا گیا ہے چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ
قَالُوْا مَهْمَا تَاْتِنَا بِهٖ مِنْ اٰیَةٍ لِّتَسْحَرَنَا بِهَاۙ-فَمَا نَحْنُ
لَكَ بِمُؤْمِنِیْنَ(۱۳۲) (سورۃ الاعراف ،آیت 132)
ترجمہ کنز لایمان: اور بولے تم کیسی بھی نشانی لے کر ہمارے پاس
آؤ کہ ہم پر اس سے جادو کرو ہم کسی طرح تم پر ایمان لانے والے نہیں۔
جب فرعونی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہ لائے اور
ان کی سرکشی بہت زیادہ ہو گئیں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اُن کے خلاف دعا کی
کہ یارب! فرعون زمین میں بہت سرکش ہوگیا ہے اور اس کی قوم نے بھی عہد شکنی کی ہے
انہیں ایسے عذاب میں گرفتار کر جو اُن کے لئے سزا ہو اور میری قوم اور بعد والوں
کے لئے عبرت و نصیحت ہو، ، آپ علیہ
السلام چونکہ مستجابُ الدعوات تھے اس لئے آپ کی دعا قبول ہوئی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعائے ضرر کے بعد فرعون اور اس کی قوم پر جو
عذاب آئے ان کا ذکر سورۃالاعراف آیت
133 یوں بیان کیا گیا ہےاللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ
الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ
فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(۱۳۳)ترجمہ کنزالایمان:تو بھیجا ہم نے ان پر طوفان اورٹِیڑی اور گھن اور مینڈک اور خون جدا جدا نشانیاں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی (پ 9،الاعراف:133)
اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کے بعد اللہ پاک نے فرعونیوں پر
لگاتار پانچ عذابوں کو مسلط فرما دیا۔ وہ پانچوں عذاب یہ ہیں۔
(1) طوفان کا عذاب
(2) ٹِڈِّی کا عذاب
(3) گھن (یا کلنی یا جوئیں) کا عذاب
(4) مینڈک کا عذاب
(5) خون کا عذاب
ان پانچ عذابات کی تفصیل
درج ذیل ہے:
(1) طوفان کا عذاب: جب جادوگروں کے ایمان لانے کے بعد بھی فرعونی اپنے کفر وسرکشی
پر جمے رہے تو اُن پر اللہ پاک کی نشانیاں پے درپے وارد
ہونے لگیں کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی تھی تواللہ پاک نے
طوفان ور پانی اُن کی گردنوں کی ہنسلیوں تک آگیا، اُن میں سے جوبیٹھا وہ ڈوب گیا،
یہ لوگ نہ ہل سکتے تھے نہ کچھ کام کرسکتے تھے۔ ہفتہ کے دن سے بھیجا ، ہوا یوں کہ
بادل آیا، اندھیرا ہوا اور کثرت سے بارش ہونے لگی ۔قبطیوں کے گھروں میں پانی بھر
گیا یہاں تک کہ وہ اس میں کھڑے رہ گئے الے کر دوسرے ہفتہ تک سات روز اسی مصیبت میں
مبتلا رہے اور باوجود اس کے کہ بنی اسرائیل کے گھر اُن کے گھروں سے متصل تھے اُن
کے گھروں میں پانی نہ آیا۔ جب یہ لوگ عاجز ہوئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے
عرض کی: ہمارے لئے دعا فرمائیے کہ یہ مصیبت دور ہو جائے تو ہم آپ پر ایمان لے
آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ بھیج دیں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ
السلام نے دعا فرمائی تو طوفان کی مصیبت دور ہو گئی، زمین میں
وہ سرسبزی وشادابی آئی جو پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ کھیتیاں خوب ہوئیں
اور درخت خوب پھلے ۔ یہ دیکھ کر فرعونی کہنے لگے ’’یہ پانی تو نعمت تھا اور
ایمان نہ لائے۔
( بغوی/ تفسیر صراط
الجنان، الاعراف، تحت الآیۃ: 133)
(2) ٹِیڑی(ٹِڈِّی) کا
عذاب:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کے بعدایک مہینہ تو عافیت
سے گزرا جب فرعونی ایمان نہ لائے تو ،پھر اللہ پاک نے ٹڈی بھیجی وہ کھیتیاں اور پھل، درختوں کے پتے، مکان کے
دروازے، چھتیں ،تختے، سامان، حتّٰی کہ لوہے کی کیلیں تک کھا گئیں اور قبطیوں کے
گھروں میں بھر گئیں لیکن بنی اسرائیل کے یہاں نہ گئیں۔ اب قبطیوں نے پریشان ہو کر
پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے دعا کی درخواست کی
اور ایمان لانے کا وعدہ کیا، اس پر عہد و پیمان کیا ۔سات روز یعنی ہفتہ سے ہفتہ تک
ٹڈی کی مصیبت میں مبتلا رہے،پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کی دعا سے نجات پائی۔ کھیتیاں اور پھل جو کچھ باقی رہ گئے تھے
انہیں دیکھ کر کہنے لگے ’’یہ ہمیں کافی ہیں ہم اپنا دین نہیں چھوڑتے چنانچہ ایمان
نہ لائے، عہد وفا نہ کیا اور اپنے اعمالِ خبیثہ میں مبتلا ہوگئے ۔ ( بغوی/
تفسیر صراط الجنان، الاعراف، تحت الآیۃ: 133)
(3) گھن (یا کلنی یا
جوئیں) کا عذاب:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کے بعدایک مہینہ عافیت سے
گزرا جب فرعونی ایمان نہ لائے تو ،پھراللہ پاک نے قُمَّل بھیجے، اس میں مفسرین کا اختلاف ہے’’ بعض
کہتے ہیں کہقُمَّل گُھن ہے، بعض کہتے ہیں جوں ،بعض کہتے ہیں ایک اور چھوٹا سا
کیڑا ہے۔ اس کیڑے نے جو کھیتیاں اور پھل باقی رہے تھے وہ کھالئے، یہ کیڑا کپڑوں
میں گھس جاتا تھا اور جلد کو کاٹتا تھا، کھانے میں بھر جاتا تھا ،اگر کوئی دس بوری
گندم چکی پر لے جاتا تو تین سیر واپس لاتا باقی سب کیڑے کھا جاتے ۔یہ کیڑے
فرعونیوں کے بال، بھنویں ،پلکیں چاٹ گئے ،ان کے جسم پر چیچک کی طرح بھر جاتے حتّٰی
کہ ان کیڑوں نے اُن کا سونا دشوار کردیا تھا۔ اس مصیبت سے فرعونی چیخ پڑے اور
اُنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی:ہم توبہ کرتے ہیں ، آپ اس بلا کے
دور ہونے کی دعا فرمائیے۔ چنانچہ سات روز کے بعد یہ مصیبت بھی حضرت
موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا سے دور ہوئی، لیکن
فرعونیوں نے پھر عہد شکنی کی اور پہلے سے زیادہ خبیث تر عمل شروع کر
دئیے۔( بغوی/ تفسیر صراط الجنان، الاعراف، تحت الآیۃ: 133)
(4) مینڈک کا عذاب:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کے بعدجب فرعونی ایمان نہ
لائے تو ایک مہینہ امن میں گزرنے کے بعد پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا
کی تو اللہ پاک نے مینڈک بھیجے اور یہ حال ہوا کہ آدمی بیٹھتا تھا تو اس
کی مجلس میں مینڈک بھر جاتے، بات کرنے کے لئے منہ کھولتا تو مینڈک کود کر منہ میں
چلا جاتا، ہانڈیوں میں مینڈک ،کھانوں میں مینڈک ، چولھوں میں مینڈک بھر
جاتے تو آگ بجھ جاتی تھی، لیٹتے تھے تو مینڈک اوپر سوار ہوتے تھے، اس مصیبت
سے فرعونی رو پڑے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی: اب کی بار ہم پکی
توبہ کرتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اُن سے عہد و پیمان لے کر دعا کی
تو سات روز کے بعد یہ مصیبت بھی دور ہوئی ۔( بغوی/ تفسیر صراط الجنان،
الاعراف، تحت الآیۃ: 133)
(5) خون کا عذاب:حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کے بعد ایک مہینہ عافیت سے
گزرا ،لیکن پھر اُنہوں نے عہد توڑ دیا اور اپنے کفر کی طرف لوٹے ۔پھر حضرت
موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی تو تمام کنوؤں کا پانی، نہروں اور چشموں
کا پانی، دریائے نیل کا پانی غرض ہر پانی اُن کے لئے تازہ خون بن گیا۔
اُنہوں نے فرعون سے اس کی شکایت کی تو کہنے لگاکہ ’’ حضرت موسیٰ علیہ
السلام نے جادو سے تمہاری نظر بندی کردی ہے۔ اُنہوں نے کہا: تم کس نظر بندی کی بات
کر رہے ہو؟ ہمارے برتنوں میں خون کے سوا پانی کا نام و نشان ہی نہیں۔ یہ سن کر
فرعون نے حکم دیا کہ’’ قبطی بنی اسرائیل کے ساتھ ایک ہی برتن سے پانی لیں۔
لیکن ہوا یوں کہ جب بنی اسرائیل نکالتے توپانی نکلتا ،قبطی نکالتے تو اسی برتن سے
خون نکلتا، یہاں تک کہ فرعونی عورتیں پیاس سے عاجز ہو کر بنی اسرائیل کی
عورتوں کے پاس آئیں اور اُن سے پانی مانگا تو وہ پانی اُن کے برتن میں آتے ہی
خون ہوگیا۔ یہ دیکھ کر فرعونی عورت کہنے لگی کہ’’ تو پانی اپنے منہ میں لے کر
میرے منہ میں کلی کردے ۔ مگر جب تک وہ پانی اسرائیلی عورت کے منہ میں رہا
پانی تھا، جب فرعونی عورت کے منہ میں پہنچا تو خون ہوگیا ۔فرعون خود پیاس
سے مُضْطَر ہوا تواس نے تر درختوں کی رطوبت چوسی ، وہ رطوبت منہ میں پہنچتے
ہی خون ہوگئی۔ سات روز تک خون کے سوا کوئی چیز پینے کی میسر نہ آئی تو پھر حضرت
موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی یہ مصیبت بھی دور ہوئی مگر وہ
ایمان پھر بھی نہ لائے۔( بغوی/ تفسیر صراط الجنان، الاعراف، تحت
الآیۃ: 133)
درسِ عبرت:حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم پر بہت مہربان تھے۔اسی لئے آپ ہر عذاب کے بعد اللہ سے دعا فرماتے اور ان سے عذاب دور ہو جاتا مگر اس کے
باوجود بنی اسرائیل ایمان نہ لائے اور سر
کشی میں اضافہ کررہے رہے۔ ہمیں پچھلی اُمّتوں پر آنے والے عذابات سے عبرت حاصل کرنی چاہئے۔بنی
اسرائیل کے شریر لوگوں کا شمار بھی اُنہی لوگوں میں ہوتا ہے جنہیں اللہ پاک نے بے شمار نعمتیں عطا فرمائی تھیں مگر افسوس!اِس کے باوجود اُنہوں
نے اللہ پاک اور اُس کے رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دل کھول کر نافرمانیاں کیں،دن رات
گناہوں میں لگے رہے جس کے نتیجے میں اُن پر پانچ درد ناک عذابات آتے رہے۔اور آجر
کار فرعون اور اس کی قوم کو سمندر میں غرق کر کے ہلاک کر دیا گیا او ر فرعون کی لاش کو قیامت تک کے
لوگوں کے لئے عبرت کا نشان بنا کر رکھ
دیا۔
پانی کا عذاب:حضرت موسٰی
علیہ السلام کے عصا مبارک کا اثددہا بن جانا دیکھ کر فرعون کے خوش نصیب جادوگر
حضرت موسٰی علیہ السلام پر ایمان لے آئے۔ لیکن فرعون اور اس کی سرکش قوم اپنے کفر
سے باز نہ آئی۔ حضرت موسٰی علیہ السلام نے یہ سر کشی دیکھ کر ان کے حق میں بد دعا
فرما دی اور عرض کیا کہ: ”الٰہی فرعون بہت سر کش ہو گیا ہے اور اس کی قوم بھی عہد
شکن اور مغرور ہو گئی ہے۔ اس لئے انہیں عذاب میں گرفتار کر جو ان کے لئے سزا ہو۔ اور میری قوم اور بعد
والوں کے لئے عبرت۔“
حضرت
موسٰی علیہ السلام کی یہ دعا قبول ہو گئی۔ اور اللہ نے فرعونیوں پر ایک طوفان
بھیجا۔ ابر آیا۔ اندھیرا چھا گیا اور کثرت سے بارش ہونے لگی۔ فرعونیوں کے گھر میں
پانی ان کی گردنوں تک آگیا۔ اس میں جو بیٹھا وہ ڈوب گیا۔ نہ ہل سکتے تھے نہ کچھ
کام کر سکتے تھے۔ فرعونی سات دن تک اسی مصیبت میں مبتلا رہے اور قدرت خدا وندی کا
کرشمہ دیکھئے کہ باوجودیکہ بنی اسرائیل کے گھر فرعونیوں کے گھروں سے متصل تھے مگر
بنی اسرائیل کے گھروں میں پانی نہ آیا۔ جب یہ لوگ عاجز ہوئے تو حضرت موسٰی علیہ
السلام سے عرض کیا کہ ہمارے لئے اس مصیبت کے ٹل جانے کے لئے اللہ سے دعا کیجئے۔ اب
ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئیں گے۔ چنانچہ حضرت موسٰی علیہ السلام نے دعا
فرمائی تو طوفان کی مصیبت رفع ہو گئی۔
ٹڈی دل کا عذاب:فرعون کی قوم
نے حضرت موسٰی علیہ السلام کو ستایا۔ تو حضرت موسٰی علیہ السلام کی بددعا سے ان پر
پانی کا عذاب آ گیا۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کی دعا سے ان پر سے پانی کا عذاب ٹل
گیا اور وہی بارش کا پانی رحمت کی شکل میں تبدیل ہو کر زمین کی سر سبزی و شادابی
کا موجب بن گیا۔ کھیتیاں خوب ہوئیں۔ درخت خوب پھلے اس طرح کی س سبزی پہلے کبھی نہ
دیکھی تھی۔ فرعونی کہنے لگے کہ یہ پانی تو نعمت تھا، ہمیں موسٰی پر ایمان لانے کی
کیا حاجت۔ چنانچہ وہ مغرور ہو گئے اور اپنے وعدے سے پھر گئے تو موسٰی علیہ السلام
نے پھر ان کے لئے بد دعا کی تو اللہ تعالٰی نے ان پر ٹڈیوں کا عذاب نازل کر دیا۔
یہ ٹڈیاں کھیتوں اور درختوں کے پھل حتی کہ فرعونیوں کے دروازے اور چھتیں بھی کھا
گئیں۔ اللہ کی قدرت کا کرشمہ دیکھئے کہ ٹڈیاں فرعونیوں کے گھروں میں تو گھس گئیں
مگر بنی اسرائیل کے گھروں میں مطلق نہ گئیں۔ تنگ آ کر ان سر کش لوگوں نے پھر حضرت
موسٰی علیہ السلام سے عذاب کے ٹل جانے کی درخواست کی اور پھر وعدہ کیا کہ یہ بلا
ٹل جائے تو ہم ضرور ایمان لے آئیں گے۔ چنانچہ حضرت موسٰی علیہ السلام کی دعا کی
برکت سے یہ عذاب بھی ان پر سے ٹل گیا لیکن وہ پھر نا فرمان کفر پر اٹکے رہے۔
جوئیں اور مینڈک کا عذاب:ٹڈیوں
کے عذاب ک ٹل جانے کے بعد بھی فرعونی اپنے کفر پر قائم رہے اور سر کش ہو رہے۔ حضرت
موسٰی علیہ السلام نے پھر ان کے لئے بد دعا فرمائی اور فرعونیوں پر جوؤں کا عذاب
نازل ہو گیا۔ یہ جوئیں فرعونیوں کے کپڑوں میں گھس کر ان کے جسموں کو کاٹتیں اور ان
کے کھانے میں بھر جاتیں اور گھن کی شکل میں ان کی گہیوں کی بوریوں میں پھیل کر ان
کے گہیوں کو تباہ کرنے لگیں۔ اگر کوئی دس بوری گندم چکی پر لے جاتا تو تو تین سیر
واپس لاتا۔ اور فرعونیوں کے جسموں میں اس کثرت سے چلنے لگیں کہ ان کے بال،
بھنوئیں، پلکیں چاٹ کر ان کے جسموں پر چیچک کی طرح داغ کر دیتیں اور انہیں سونا
دشوار کر دیا۔ یہ مصیبت دیکھ کر پھر انہوں نے حضرت موسٰی علیہ السلام سے دعا کی
درخواست کی اور کہا کہ اب کی بار ہم پر سے یہ عذاب ٹل جائے تو ہم ضرور ایمان لے
آویں گے۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کی دعا سے جوؤں کا عذاب ٹل گیا تو یہ لوگ پھر
اپنے وعدے سے پھر گئے۔ حضرت موسٰی علیہ السلام نے پھر ان کے لئے بد دعا کی تو اب
کے بار ان پر مینڈکوں کا عذاب نازل ہو گیا۔ اور حال یہ ہوا کہ آدمی بیٹھتا تھا تو
اس کی گود میں مینڈک بھر جاتے تھے۔ بات کرنے کے لئے منہ کھولتے تو مینڈک کود کر
منہ میں جا گھستے۔ ہانڈیوں میں مینڈک ، کھانوں میں مینڈک، اور چولہوں میں مینڈک
بھر جاتے اور آگ بجھ جاتی تھی۔ لیٹتے تو مینڈک اوپر سوار ہو جاتے۔
اس مصیبت سے فرعونی رو پڑے اور حضرت موسٰی علیہ
السلام سے عرض کیا کہ اب کی بار ہم اپنے عہد پر قائم رہیں گے اور پکی توبہ کرتے
ہیں، ہم پر سے اس مصیبت کو ٹالئیے۔ حضرت موسٰی علیہ السلام نے پھر دعا فرمائی اور
ان پر سے یہ عذاب بھی رفع ہوا۔ لیکن وہ لوگ عذاب کے ٹل جانے کے بعد پھر سر کش ہو
گئے اور حضرت موسٰی علیہ السلام کے رب پر ایمان لانے سے انکار کر دیا۔ پھر حضرت
موسٰی علیہ السلام نے ان کے لئے بد دعا فرمائی تو ان پر خون کا عذاب نازل ہو گیا۔
جس کا ذکر نیچے آ رہا ہے۔
خون ہی خون:حضرت موسٰی
علیہ السلام کی بد دعا سے فرعونیوں پر جوؤں اور مینڈکوں کا عذاب نازل ہوا۔ پھر آپ
کی دعا سے ان پر سے وہ عذاب بھی دور کر دیا گیا مگر فرعونی ایمان نہ لائے اور اپنے
کفر پر قائم رہے۔ حضرت موسٰی علیہ السلام نے پھر ان کے لئے بد دعا فرمائی تو کنوؤں
کا پانی، نہروں اور چشموں کا پانی، دریائے نیل کا پانی، غرض ہر پانی ان کے لئے
تازہ خون بن گیا۔ اور وہ اس نئی مصیبت سے بہت ہی پریشان ہوئے۔ جو پانی بھی اٹھاتے
ان کے لئے خون بن جاتا۔ اور رب جلیل کی قدرت کا کرشمہ دیکھئے کہ بنی اسرائیل کے
لئے پانی پانی ہی تھا مگر فرعونیوں لے لئے ہر پانی خون بن گیا۔
آخر کار تنگ آ کر فرعونیوں نے بنی اسرائیل کے
ساتھ ایک ہی برتن سے پانی لینے کا ارادہ کیا۔ تو جب بنی اسرائیل نکالتے تو پانی
نکلتا۔ اور جب فرعونی نکالتے تو اسی برتن سے خون نکلتا۔ یہاں تک کہ فرعونی عورتیں
پیاس سے تنگ آ کر بنی اسرائیل کی عورتوں کے پاس آئیں اور ان سے پانی مانگا۔ تو وہ
پانی ان کے برتن میں آتے ہی خون ہو گیا تو فرعونی عورتوں نے بنی اسرائیل کی عورتوں
سے کہا کہ اپنے منہ میں پانی ڈال کر ہمارے منہ میں انڈیل دو، جب تک پانی بنی
اسرائیل کی عورت کے منہ میں رہتا تب تک پانی ہی رہتا، جیسے ہی وہ پانی بنی اسرائیل
کی عورت کے منہ میں جاتا تو وہ پانی خون بن جاتا۔ فرعون خود پیاس سے لاچار ہوا تو
اس نے درختوں کی رطوبت چوسی۔ وہ رطوبت منہ میں پہنچتے ہی خون بن گئی۔ اس قہر الٰہی
سے عاجز آ کر فرعونیوں نے پھر حضرت موسٰی علیہ السلام سے التجا کی کہ ایک مرتبہ اور
دعا کیجئے۔ اور اس عذاب کو بھی ٹالئیے۔ پھر ہم ضرور کے ضرور ایمان لے آئیں گے۔
حضرت موسٰی علیہ السلام نے پھر ان کے لئے دعا فرمائی تو ان پر سے عذاب ٹل گیا مگر
وہ بے ایمان پھر بھی اپنے عہد پر قائم نہ رہے۔
فرعون اور اس کی قوم دریا میں غرق ہو گئی:آخر
کار اتنی سر کشی اور کفر پر ڈٹے رہنے پر اللہ پاک کے حکم سے سارے فرعونی دریائے
نیل میں غرق کر دئیے گئے۔ جب سارے فرعونی اور خود فرعون بنی اسرائیل کا پیچھا کرتے
ہوئے جب دریائے نیل کے کنارے پہنچے تو حضرت موسٰی نے اللہ کے حکم سے اپنا عصا
دریائے نیل کے پانی پر مارا تو دریا میں راستہ بن گیا، کچھ روایتوں میں ہے کہ بارہ
راستے بن گئے۔ اور بنی اسرائیل ان راستوں سے دریا کے پار چلی گئی۔ لیکن جن فرعون
اور اس کی قوم انہیں راستوں سے دریا پار کرنے لگی تو رب جلیل کے حکم سے دریا کا
پانی آپس میں مل گیا اور فرعون اپنی قوم سمیت دریا میں غرق ہو گیا اور دنیا کی
عبرت کے لئے دریا نے اس کی لاش کو باہر پھینک دیا۔
سبق: ہمیں ہر حال
میں اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہنا چاہئے اور
اللہ کی نا فرمانی سے ہر حال میں بچنا چاہئے کیونکہ اس کا عذاب بڑا سخت اور دردناک
ہے لیکن ہم یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی نصیحت نہیں پکڑتے۔ اللہ اپنے بندوں پر گزری
قوموں کے حالات بیان فرماتا ہے تا کہ لوگ اس کے عذاب سے ڈر کر نصیحت پکڑیں، خوش
قسمت ہیں وہ لوگ جو اللہ کی آیتوں کو سن کر نصیحت پکڑتے ہیں اور سیدھے راستے پر چل
نکلتے ہیں۔ یہی لوگ آخرت میں کامیاب ہونے والے ہیں۔
رب
کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمارے پتھر دلوں کو موم کر دے اور ہمیں ہدائیت عطا فرمائے تا
کہ اس چند روزہ امتحان کی دنیا میں ہم اللہ کی رحمت اور نظر کرم سے کامیاب ہو
جائیں تا کہ آخرت میں اللہ کریم کے عظیم وعدے کے مطابق ہم بخشش پانے والے خوش
نصیبوں میں شامل ہو جائیں۔ آمین۔ ثم آمین
(حوالہ: قرآن کریم پارہ 9 ،دیگر
کتب: خزائن العرفان ، روح البیان)