فرعونیو ں پر عذابات کیوں آئے؟:

جب فرعون اور اس کی قوم کی سرکشی یہاں تک پہنچ گئی کہ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے صاف صاف کہہ دیا ’’ اے موسیٰ! تم ہمارے اوپر جادو کرنے کیلئے کیسی بھی نشانی ہمارے پاس لے آؤ ،ہم ہرگز تم پر ایمان نہیں لائیں گے،جس بات کا ذکر سورۃ الاعراف کی آیت 132 میں کیا گیا ہے چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ قَالُوْا مَهْمَا تَاْتِنَا بِهٖ مِنْ اٰیَةٍ لِّتَسْحَرَنَا بِهَاۙ-فَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِیْنَ(۱۳۲) (سورۃ الاعراف ،آیت 132)

ترجمہ کنز لایمان: اور بولے تم کیسی بھی نشانی لے کر ہمارے پاس آؤ کہ ہم پر اس سے جادو کرو ہم کسی طرح تم پر ایمان لانے والے نہیں۔

جب فرعونی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہ لائے اور ان کی سرکشی بہت زیادہ ہو گئیں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اُن کے خلاف دعا کی کہ یارب! فرعون زمین میں بہت سرکش ہوگیا ہے اور اس کی قوم نے بھی عہد شکنی کی ہے انہیں ایسے عذاب میں گرفتار کر جو اُن کے لئے سزا ہو اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت و نصیحت ہو، ، آپ علیہ السلام چونکہ مستجابُ الدعوات تھے اس لئے آپ کی دعا قبول ہوئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعائے ضرر کے بعد فرعون اور اس کی قوم پر جو عذاب آئے ان کا ذکر سورۃالاعراف آیت 133 یوں بیان کیا گیا ہےاللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(۱۳۳)ترجمہ کنزالایمان:تو بھیجا ہم نے ان پر طوفان اورٹِیڑی اور گھن اور مینڈک اور خون جدا جدا نشانیاں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی (پ 9،الاعراف:133)

اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کے بعد اللہ پاک نے فرعونیوں پر لگاتار پانچ عذابوں کو مسلط فرما دیا۔ وہ پانچوں عذاب یہ ہیں۔

(1) طوفان کا عذاب

(2) ٹِڈِّی کا عذاب

(3) گھن (یا کلنی یا جوئیں) کا عذاب

(4) مینڈک کا عذاب

(5) خون کا عذاب

ان پانچ عذابات کی تفصیل درج ذیل ہے:

(1) طوفان کا عذاب: جب جادوگروں کے ایمان لانے کے بعد بھی فرعونی اپنے کفر وسرکشی پر جمے رہے تو اُن پر اللہ پاک کی نشانیاں پے درپے وارد ہونے لگیں کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی تھی تواللہ پاک نے طوفان ور پانی اُن کی گردنوں کی ہنسلیوں تک آگیا، اُن میں سے جوبیٹھا وہ ڈوب گیا، یہ لوگ نہ ہل سکتے تھے نہ کچھ کام کرسکتے تھے۔ ہفتہ کے دن سے بھیجا ، ہوا یوں کہ بادل آیا، اندھیرا ہوا اور کثرت سے بارش ہونے لگی ۔قبطیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا یہاں تک کہ وہ اس میں کھڑے رہ گئے الے کر دوسرے ہفتہ تک سات روز اسی مصیبت میں مبتلا رہے اور باوجود اس کے کہ بنی اسرائیل کے گھر اُن کے گھروں سے متصل تھے اُن کے گھروں میں پانی نہ آیا۔ جب یہ لوگ عاجز ہوئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی: ہمارے لئے دعا فرمائیے کہ یہ مصیبت دور ہو جائے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ بھیج دیں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی تو طوفان کی مصیبت دور ہو گئی، زمین میں وہ سرسبزی وشادابی آئی جو پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ کھیتیاں خوب ہوئیں اور درخت خوب پھلے ۔ یہ دیکھ کر فرعونی کہنے لگے ’’یہ پانی تو نعمت تھا اور ایمان نہ لائے۔

( بغوی/ تفسیر صراط الجنان، الاعراف، تحت الآیۃ: 133)

(2) ٹِیڑی(ٹِڈِّی) کا عذاب:

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کے بعدایک مہینہ تو عافیت سے گزرا جب فرعونی ایمان نہ لائے تو ،پھر اللہ پاک نے ٹڈی بھیجی وہ کھیتیاں اور پھل، درختوں کے پتے، مکان کے دروازے، چھتیں ،تختے، سامان، حتّٰی کہ لوہے کی کیلیں تک کھا گئیں اور قبطیوں کے گھروں میں بھر گئیں لیکن بنی اسرائیل کے یہاں نہ گئیں۔ اب قبطیوں نے پریشان ہو کر پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا، اس پر عہد و پیمان کیا ۔سات روز یعنی ہفتہ سے ہفتہ تک ٹڈی کی مصیبت میں مبتلا رہے،پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا سے نجات پائی۔ کھیتیاں اور پھل جو کچھ باقی رہ گئے تھے انہیں دیکھ کر کہنے لگے ’’یہ ہمیں کافی ہیں ہم اپنا دین نہیں چھوڑتے چنانچہ ایمان نہ لائے، عہد وفا نہ کیا اور اپنے اعمالِ خبیثہ میں مبتلا ہوگئے ۔ ( بغوی/ تفسیر صراط الجنان، الاعراف، تحت الآیۃ: 133)

(3) گھن (یا کلنی یا جوئیں) کا عذاب:

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کے بعدایک مہینہ عافیت سے گزرا جب فرعونی ایمان نہ لائے تو ،پھراللہ پاک نے قُمَّل بھیجے، اس میں مفسرین کا اختلاف ہے’’ بعض کہتے ہیں کہقُمَّل گُھن ہے، بعض کہتے ہیں جوں ،بعض کہتے ہیں ایک اور چھوٹا سا کیڑا ہے۔ اس کیڑے نے جو کھیتیاں اور پھل باقی رہے تھے وہ کھالئے، یہ کیڑا کپڑوں میں گھس جاتا تھا اور جلد کو کاٹتا تھا، کھانے میں بھر جاتا تھا ،اگر کوئی دس بوری گندم چکی پر لے جاتا تو تین سیر واپس لاتا باقی سب کیڑے کھا جاتے ۔یہ کیڑے فرعونیوں کے بال، بھنویں ،پلکیں چاٹ گئے ،ان کے جسم پر چیچک کی طرح بھر جاتے حتّٰی کہ ان کیڑوں نے اُن کا سونا دشوار کردیا تھا۔ اس مصیبت سے فرعونی چیخ پڑے اور اُنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی:ہم توبہ کرتے ہیں ، آپ اس بلا کے دور ہونے کی دعا فرمائیے۔ چنانچہ سات روز کے بعد یہ مصیبت بھی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا سے دور ہوئی، لیکن فرعونیوں نے پھر عہد شکنی کی اور پہلے سے زیادہ خبیث تر عمل شروع کر دئیے۔( بغوی/ تفسیر صراط الجنان، الاعراف، تحت الآیۃ: 133)

(4) مینڈک کا عذاب:

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کے بعدجب فرعونی ایمان نہ لائے تو ایک مہینہ امن میں گزرنے کے بعد پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی تو اللہ پاک نے مینڈک بھیجے اور یہ حال ہوا کہ آدمی بیٹھتا تھا تو اس کی مجلس میں مینڈک بھر جاتے، بات کرنے کے لئے منہ کھولتا تو مینڈک کود کر منہ میں چلا جاتا، ہانڈیوں میں مینڈک ،کھانوں میں مینڈک ، چولھوں میں مینڈک بھر جاتے تو آگ بجھ جاتی تھی، لیٹتے تھے تو مینڈک اوپر سوار ہوتے تھے، اس مصیبت سے فرعونی رو پڑے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی: اب کی بار ہم پکی توبہ کرتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اُن سے عہد و پیمان لے کر دعا کی تو سات روز کے بعد یہ مصیبت بھی دور ہوئی ۔( بغوی/ تفسیر صراط الجنان، الاعراف، تحت الآیۃ: 133)

(5) خون کا عذاب:حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کے بعد ایک مہینہ عافیت سے گزرا ،لیکن پھر اُنہوں نے عہد توڑ دیا اور اپنے کفر کی طرف لوٹے ۔پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی تو تمام کنوؤں کا پانی، نہروں اور چشموں کا پانی، دریائے نیل کا پانی غرض ہر پانی اُن کے لئے تازہ خون بن گیا۔ اُنہوں نے فرعون سے اس کی شکایت کی تو کہنے لگاکہ ’’ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جادو سے تمہاری نظر بندی کردی ہے۔ اُنہوں نے کہا: تم کس نظر بندی کی بات کر رہے ہو؟ ہمارے برتنوں میں خون کے سوا پانی کا نام و نشان ہی نہیں۔ یہ سن کر فرعون نے حکم دیا کہ’’ قبطی بنی اسرائیل کے ساتھ ایک ہی برتن سے پانی لیں۔ لیکن ہوا یوں کہ جب بنی اسرائیل نکالتے توپانی نکلتا ،قبطی نکالتے تو اسی برتن سے خون نکلتا، یہاں تک کہ فرعونی عورتیں پیاس سے عاجز ہو کر بنی اسرائیل کی عورتوں کے پاس آئیں اور اُن سے پانی مانگا تو وہ پانی اُن کے برتن میں آتے ہی خون ہوگیا۔ یہ دیکھ کر فرعونی عورت کہنے لگی کہ’’ تو پانی اپنے منہ میں لے کر میرے منہ میں کلی کردے ۔ مگر جب تک وہ پانی اسرائیلی عورت کے منہ میں رہا پانی تھا، جب فرعونی عورت کے منہ میں پہنچا تو خون ہوگیا ۔فرعون خود پیاس سے مُضْطَر ہوا تواس نے تر درختوں کی رطوبت چوسی ، وہ رطوبت منہ میں پہنچتے ہی خون ہوگئی۔ سات روز تک خون کے سوا کوئی چیز پینے کی میسر نہ آئی تو پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی یہ مصیبت بھی دور ہوئی مگر وہ ایمان پھر بھی نہ لائے۔( بغوی/ تفسیر صراط الجنان، الاعراف، تحت الآیۃ: 133)

درسِ عبرت:حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم پر بہت مہربان تھے۔اسی لئے آپ ہر عذاب کے بعد اللہ سے دعا فرماتے اور ان سے عذاب دور ہو جاتا مگر اس کے باوجود بنی اسرائیل ایمان نہ لائے اور سر کشی میں اضافہ کررہے رہے۔ ہمیں پچھلی اُمّتوں  پر آنے والے عذابات سے عبرت حاصل کرنی چاہئے۔بنی اسرائیل کے شریر لوگوں کا شمار بھی اُنہی لوگوں میں ہوتا ہے جنہیں اللہ پاک نے بے شمار نعمتیں عطا فرمائی تھیں مگر  افسوس!اِس کے باوجود اُنہوں نے اللہ پاک اور اُس کے رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دل کھول کر نافرمانیاں کیں،دن رات گناہوں میں لگے رہے جس کے نتیجے میں اُن پر پانچ درد ناک عذابات آتے رہے۔اور آجر کار فرعون اور اس کی قوم کو سمندر میں غرق کر کے ہلاک کر دیا گیا او ر فرعون کی لاش کو قیامت تک کے لوگوں کے لئے عبرت کا نشان بنا کر رکھ دیا۔