تمہید: اللہ رب العزت نے قرآن مجید برہانِ رشید میں اپنے محبوب کریم علیہ السلام کے اصحاب کا ذکر خیر اس انداز میں بیان فرمایا: رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ ترجمہ کنز الایمان :اور آپس میں نرم دل ہے۔(پ 26، الفتح:29)

صحابہ کرام آپس میں ایسے نرم دل تھے کہ ایک دوسرے سے محبت اس طرح فرماتے کہ جیسے ایک باپ اپنے بیٹے سے کرتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت میں مسلمانوں کے لئے نصیحت کے مدنی پھول ہیں، کہ ایک مسلمان اپنے مسلمان بھائی سے نفرت نہ کرے بلکہ شفقت اور نرمی سے پیش آئے۔

شان یارِ غار بزبانِ حیدرِ کرّار:

1۔ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ میں نے جس کام میں بھی سبقت کا ارادہ کیا اس میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مجھ سے سبقت لے گئے۔( مجمع الزوائد،9/29،الحدیث:14332)

2۔ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس امت میں اللہ پاک کے محبوب کے بعد اللہ پاک کے نزدیک سب سے زیادہ معزز شخص سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہیں۔ کیونکہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے قرآن مجید کو جمع کرنا شروع کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو اس کی قدیم حسن و خوبیوں کے ساتھ قائم فرمایا۔

(جمع الجوامع، مسند ابی بکر،11/39،الحدیث:157)

3۔حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ چار باتوں میں مجھ سے سبقت لے گئے:(1) انہوں نے مجھ سے پہلے اظہار اسلام کیا۔ (2)مجھ سے پہلے ہجرت کی۔ (3) سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے یارِغار ہونے کا شرف پایا۔ (4) سب سے پہلے نماز قائم فرمائی۔( الریاض النضرۃ 1/89)

4۔ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تمام نیکیوں میں سے صرف ایک نیکی ہوں۔( تاریخ مدینہ دمشق 30/383)


اللہ کریم نے قرآن پاک پارہ 24،سورہ زمر، آیت نمبر 33 میں ارشاد فرمایا :وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(۳۳)ترجمہ کنز العرفان: اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جس نے ان کی تصدیق کی یہی پرہیزگار ہیں۔(پ 24،الزمر:33)

اس آیت مبارکہ کی تفسیر: جب مولا علی کرّم اللہ وجہہ الکریم کو اسلام کے پہلے خلیفہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر پہنچی تو مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے گھر پر تشریف لائے اور انصار و مہاجر صحابہ کرام علیہم الرضوان کے درمیان شان صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر عظیم خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :اے صدیق رضی اللہ عنہ تم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک بمنزل سمع و بصر ( گویا آنکھ اور کان) تھے۔ تم نے اس وقت حضور علیہ الصلوۃ التسلیم کو سچّا جانا ۔جب تمام لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلاتے تھے۔ اس لئے اللہ پاک نے وحی ( قرآن) میں آپ کا نام صدیق رکھا، جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا:

وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ ،ترجمہ کنز العرفان: اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جس نے ان کی تصدیق کی ۔یعنی سچ لانے والے حضور افضل الصلوٰۃ والتسلیم ہیں اور تصدیق کرنے والے آپ صدّیق ہیں، اے ابوبکر رضی اللہ عنہ تمہاری وفات سے بڑھ کر مسلمانوں پر کبھی کوئی مصیبت نہیں پڑے گی۔( ریاض النضرہ )

حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی وہ اولاد جو حضرت فاطمۃ الزہرہ کے علاوہ آپ کے دیگر ازواج سے ہوئیں ان میں سے ایک بیٹے محمد بن حنفیہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا یعنی حضرت علی سے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے زیادہ رتبے والا کون ہے؟ تو آپ نے فرمایا :ابو بکر رضی اللہ عنہ (مشکوٰۃ، ص:555)

نیز حضرت مولا علی کرّم اللہ وجہہ الکریم نے شان صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فقط اپنی زبان سے ہی نہ کی بلکہ عملاً صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ادب و تعظیم بجا لاکر بدگمانی کے دلدل میں پھنسے ہوئے اور شیطان کے جالوں میں جکڑے ہوئے راہ سے بھٹکے ہوئے لوگوں کو عملی طور پر راہ راست دکھا دی۔

چنانچہ ایک مرتبہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کے لئے دونوں حضرات بیک وقت تشریف لائے تو بارگاہ سرکار کے دروازے پر کھڑے ہو کر مکالمہ ہونے لگا ، جناب خلیفہ اول نے مولا علی سے فرمایا: آپ پہلے تشریف لے جائیں، تو مولا علی نے جواب عرض کیا: میں اس ہستی سے آگے کیسے بڑھوں جس کے بارے میں سرکار علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: کہ جسے ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کا سینہ دیکھنا ہو، وہ آپ کا سینہ دیکھ لے، مگر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پھر فرمایا کہ آپ پہلے تشریف لے جائیں، تب مولا علی نے عرض کی میں ان ہستی سے آگے کیسے بڑھوں جن کے لئے حضور نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن ندا ہو گی "اے ابوبکر تو اور تجھ سے محبت کرنے والے جنت میں داخل ہو جائے "۔(اختصاراً نور الابصار ،ص 5)

ذرا غور فرمائیں حضرت علی شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم تو اپنی تعلیمات میں قولاً عملا ًصدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی محبت و تعظیم سکھائیں، اور آپ علیہ الرحمۃ کی صحبت کا دم بھرنے والا صدیق اکبر اسلام کے پہلے خلیفہ انبیاء کے بعد افضل البشر کے لئے دل میں بغض اور کینہ رکھے۔ خدارا اپنے حال پر رحم فرمائیں اور مولا علی کی تعلیمات سے دنیا و آخرت کا فائدہ اٹھائیں ۔

اللہ کریم حق قبول کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


 مختصر تعارف: اسلام کے پہلے خلیفہ ،افضل البشر بعد الانبیاء ( یعنی انبیاء علیہم السلام کے بعد مخلوق میں سب سے زیادہ افضل) حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی "عبداللہ " کنیت "ابوبکر "اور دو لقب زیادہ مشہور ہے "عتیق" اور "صدیق"۔

آپ رضی اللہ عنہ کے فضائل:

قرآن پاک کی متعدد آیات وہ کثیر احادیث مبارکہ و اقوال سلف صالحین میں آپ کے فضائل و مناقب مروی ہوئے ہیں۔ یہاں پر ان روایات کو بیان کیا جاتا ہے جن میں اسلام کے چوتھے خلیفہ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب کو بیان فرمایا ہے۔

(1) سب سے زیادہ رحم دل:

ایک بار حضرت سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نےحضرت سیدناعلی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر فرمایا:’’ جو شخص کسی ایسے انسان کو دیکھنا چاہتاہے کہ جونبیٔ اکرم رسول محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے قریبی رشتے دار ہو،سب سے زیادہ خصائص نبوت سے فیضیاب ہواہو اور رسولِ اَکرم، شاہ ِبنی آدم صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب ترین ہوتو وہ علی المرتضی کو دیکھ لے۔‘‘ جب حضرت سیدناعلی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ نے یہ سنا تو ارشاد فرمایا:’’ابوبکر نے میرے بارے میں اگر یہ کہا ہے تو یاد رکھو! وہ انسانوں میں سب سے زیادہ رحم دل،نبی ِّکریم صلی اللہ علیہ وسلم کےیارِ غار اور اپنے مال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ نفع پہچانےوالے ہیں۔‘‘ (الریاض النضرۃ، ج:1، ص:130)

(2) صحابہ میں سب سے افضل:

حضرت سیدناموسی بن شداد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے امیر المؤ منین حضرت سیدناعلی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سناکہ:’’ ہم سب صحابہ میں حضرت سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سب سےافضل ہیں۔‘‘ (الریاض النضرۃ، ج:1، ص:130)

(3)ہر نیک کام میں سبقت:

حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے!میں نے جس کام میں بھی سبقت کا ارادہ کیااس میں حضرت سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مجھ سے سبقت لے گئے۔

(مجمع الزوائد،کتاب المناقب،جامع فی فضلہ، الحدیث: 14332، 9/29 )

(4)تمام نیکیوں میں سے ایک نیکی:

حضرت سیدناعلی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ ارشادفرماتے ہیں: ’’میں توحضرت سیدنا ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کی تمام نیکیوں میں سے صرف ایک نیکی ہوں۔‘‘

(تاریخ مدینہ دمشق، 30/383)

(5)چار باتوں میں سبقت:

حضرت سیدناعلی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بلا شبہ حضرت سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان چار باتوں میں مجھ سےسبقت لے گئے:(۱)انہوں نے مجھ سے پہلے اظہار اسلام کیا۔(۲)مجھ سے پہلے ہجرت کی۔ (۳)سیِّد عالَم، نُورِ مُجَسَّم صلی اللہ علیہ وسلم کےیار غار ہونے کا شرف پایا۔(۴)اورسب سے پہلے نماز قائم فرمائی۔‘‘(الریاض النضرۃ ،1/89)

(6) پل صراط سے گزرنے کا اجازت نامہ:

ایک بارحضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہوئی تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر مسکرانے لگے ۔حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ’’آپ کیوں مسکرارہے ہیں؟‘‘ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےکو یہ فرماتے سنا کہ پل صراط سے وہ ہی گزرے گا جس کو علی المرتضی تحریری اجازت نامہ دیں گے۔‘‘یہ سن کر حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ بھی مسکرادئیے اور عرض کرنے لگے: ’’کیا میں آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آپ کے لئے بیان کردہ خوشخبری نہ سنائوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:پل صراط سے گزرنے کا تحریری اجازت نامہ صرف اسی کوملے گا جو ابو بکر صدیق سے محبت کرنے والا ہوگا ۔‘‘

(الریا ض النضرۃ،ج1،ص207)

نہایت متقی و پارسا صدیق اکبر ہیں

تَقِیْ ہیں بلکہ شاہِ اَتْقِیَا صدیق اکبر ہیں


پیارے اسلامی. بھائیو!

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم یعنی میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی اقتدا کروگے ہدایت پا جاؤگے۔(خلفائے راشدین،ص 2)

پیارے اسلامی بھائیو ! یوں تو تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی ہدایت کے درخشندہ ستارے ہیں لیکن خلیفہ اول ان تمام سے ممتاز ہے۔ اور آپ رضی اللہ عنہ کی شان تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بلند و افضل ہیں۔ آئیے جنابِ ابوبکر صدیق کی شان بزبان حیدر کرار سنئے:

مدارج النبوۃ میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:قدمک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فمن الذی یؤخرک، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو آگے بڑھایا تو پھر کون شخص آپ کو پیچھے کر سکتا ہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس فرمان میں اس واقعہ کی جانب اشارہ ہے جو سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی علالت کے زمانے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھایا اور آپ ہی کو تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا امام بنایا۔( خلفائے راشدین ص:10)

حضرت سیدنا محمد بن علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد گرامی یعنی حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ’’نبیٔ کریم،رءوف رَّحیم صلی اللہ علیہ وسلم کےبعدسب سے افضل کون ہے؟‘‘ارشادفرمایا:’’ابوبکر‘‘میں نے کہا:’’پھر کون؟‘‘ فرمایا:’’عمر‘‘۔مجھے خدشہ ہواکہ اگرمیں نے دوبارہ پوچھا کہ’’پھر کون؟‘‘ توشاید آپ رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا نام لے لیں گے، اس لئے میں نے فورا کہا:’’حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے بعدتوآپ رضی اللہ عنہ ہی سب سے افضل ہیں؟‘‘ارشادفرمایا:’’میں تو ایک عام سا آدمی ہوں۔‘‘( فیضان صدیق اکبر، ص 505)

طبرانی نے اوسط میں حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت کی آپ نے فرمایا :بعدِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بہتر ابوبکر وہ عمر ہے۔ میری محبت اور ابوبکر و عمر کا بغض کسی مومن کے دل میں جمع نہ ہو گا۔(سوانح کربلا ،ص 40)

ابن عساکر نے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے روایت کی کہ حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر سے افضل کہے گا تو میں اس کو مقتری (یعنی الزام لگانے والے) کی سزا دوں گا۔( سوانح کربلا ،ص:39)

حاکم نے مستدرک میں نزال بن سبرہ سے باسناد جید روایت کی کہ ہم نے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی نسبت دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ وہ شخص ہیں جن کا نام اللہ پاک نے بزبان جبریلِ امین و بزبانِ سرورِانبیا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صدیق رکھا ، وہ نمازمیں حضور کے خلیفہ تھے۔حضور نے انھیں ہمارے دین کے لئے پسند فرمایا تو ہم اپنی دنیا کے لئے ان سے راضی ہیں۔

دار قطنی وحاکم نے ابو یحییٰ سے روایت کیا کہ میں شمار نہیں کرسکتا کتنی مرتبہ میں نے علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کوبرسرِمنبر یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ پاک نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان پر ابو بکر کا نام صدیق رکھا۔

طبرانی نے بسندِجید صحیح حکیم بن سعد سے روایت کی ہے کہ میں نے علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو بحلف فرماتے سنا ہے کہ اللہ پاک نے ابوبکر کا نام صدیق آسمان سے نازل فرمایا۔

( سوانح کربلا ،ص:34)


 صحابہ کرام علیہم الرضوان کا مقام و مرتبہ ساری امت سے افضل و اعلی ہے۔ اب قیامت تک چاہے کوئی کتنی ہی عبادت وہ ریاضت کرے، ان کے برابر نہیں ہو سکتا۔ یہ شان ہر صحابی کو حاصل ہے۔ پھر ذرا سوچئے کہ امام الصحابہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے برابر کون ہو سکتا ہے جنہوں نے مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا پھر تبلیغ اسلام کی راہ میں آنے والی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ سفرِ ہجرت میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کا شرف حاصل ہوا ۔آپ عشرہ مبشرہ میں بھی شامل ہیں۔ یعنی وہ دس صحابہ جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں جنت کی خوشخبری سنائی۔

آپ کی شان اتنی بلند ہونے کے باوجود بعض لوگ آپ کو برا بھلا کہتے ہیں ان کی شان کو گھٹاتے ہیں مگراہلسنت ان کی شان کو کھل کر بیان کرتے ہیں۔

چونکہ بعض لوگ مولا علی کو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر فضیلت دیتے ہیں۔ آئیے مولا علی کے فرامین آپ کی تفسیر سے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی شان پڑھتے ہیں۔

" قرآن" کے چار حروف کی نسبت سے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے چار فضائل

1۔ قرآن کریم کی سورۃ الزمر میں اللہ پاک نے حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی شان میں ارشاد فرمایا: وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(۳۳)ترجمہ کنز العرفان: اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جس نے ان کی تصدیق کی یہی پرہیزگار ہیں۔(پ 24،الزمر:33)

اس آیت کی تشریح و توضیح میں حضرت سیدناعلی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: والذي جاء بالحق محمد وصدق به ابوبكر الصديق، ترجمہ:وہ جو حق یعنی دین اسلام لے کر آئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور جنہوں نےان کی تصدیق کی وہ ابو بکر صدیق ہیں ۔

حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ برسرمنبرعلی الاعلان حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے مقام صدیقیت کا تذکرہ فرماتے تھے۔ چنانچہ ابویحیی کہتے ہیں:”میں نے بار ہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کومنبر پر یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ پاک نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نام صدیق رکھا‘‘۔

یونہی حکیم بن سعد روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک بار قسم اٹھا کریہ فرماتے ہوئے سنا:’’اللہ پاک نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کانام صدیق آسمان سے نازل فرمایا ہے۔(شان صدیق اکبر بزبان فاتح خیبر ،ص:9)

2۔حضرت علی فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ: ابوبکر سے بہتر شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ۔(امام الامۃ ابوبکر صدیق،ص 32،33)

بیاں ہو کس سے مرتبہ صدیق اکبر کا

ہے یارِ غار محبوب خدا صدیق اکبر کا

عن علی رضی اللہ عنہ قال خیر الناس بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر و خیر الناس بعد ابی بکرٍ عمر ،یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں سے افضل ابوبکر ہیں اور ابوبکر کے بعد سب سے افضل عمر ہیں۔

( امام الامۃ ابوبکر صدیق ص:33)

4۔اہل جنت کے سردار:

چنانچہ حدیث پاک میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا تو حضرت ابوبکر صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما اچانک آتے نظر آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا: هذان سيدا كهول أهل الجنة من الأولين والآخرين إلّا النّبيين والمرسلين لا تخبرهما يا عليّ،ترجمہ: یہ دونوں نبیوں اور رسولوں کے سوا سب اولین و آخرین ادھیڑ عمر جنتیوں کے سردار ہیں۔ اے علی ! تم انہیں نہ بتانا۔

مسند امام احمد بن حنبل اور کنزالعمال میں "وشبابھا" کے الفاظ بھی موجود ہیں۔ یعنی ادھیڑ عمر جنتیوں کے ساتھ ساتھ جوانوں کے بھی سردار ہیں۔ قرآن و حدیث کے ترجمان امام احمد رضا اسی حدیث پاک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

فرماتے ہیں یہ دونوں ہیں سردار دو جہاں

اے مرتضیٰ عتیق و عمر کو خبر نہ ہو

( شان صدیق اکبر بزبان فاتح خیبر ،ص11)


 شان صدیقی میں نازل ہونے والی آیات کی علوی تفسیر:وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(۳۳)ترجمہ کنزالعرفان: اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جس نے ان کی تصدیق کی یہی پرہیز گار ہیں ۔(پ 24،الزمر:33)

اس آیت کی تشریح و توضیح میں حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: وَالَّذِىْ جَاءَ بِالْحَقِّ مُحَمَّدٌ وَصَدَّقَ بِهٖ ابوبكر الصّديق،"وہ جو حق یعنی دین اسلام لے کر آئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور جنہوں نے ان کی تصدیق کی وہ ابوبکر صدیق ہیں"

(تاریخ دمشق،ص:222)

شان صدیقی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیثیں:

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا تو حضرت ابوبکر اورعمر رضی اللہ عنہما آتے نظر آئے تو ان کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دونوں نبیوں اور رسولوں کے سوا سب اولین و آخرین، ادھیڑ عمر جنتیوں کے سردار ہیں اے علی تم انہیں نہ بتانا ۔(جامع ترمذی،ص:207)

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا سہارا لئے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے علی ! کیا تم ان دونوں سے محبت کرتے ہو؟ عرض کی: جی ہاں یا رسول اللہ۔ فرمایا: ان سے محبت رکھو جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔

( ابن عساکر، تاریخ دمشق الکبیر، 32/96)

ارشاد علی در فضیلت صدیقی:

(1) مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام لائے۔

( تاریخ الخلفا،ص:33)

(2)یقینا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بڑے درد مند، نرم دل اور خدا کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔( تاریخ دمشق،32/250)

(3) عقیدہ اہل سنت کا ثبوت اس فرمان علی میں :

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت میں حضرت ابوبکر سب سے بہتر ہے اور ان کے بعد حضرت عمر ان کے بعد حضرت عثمان اور ان کے بعد میں ہوں ۔

(تاریخ دمشق ، 61/106)

(4) خلافت صدیق اکبر کے بارے میں فرمان علی:

" پس ہم اپنے دنیاوی معاملات میں بھی ان کی قیادت پر راضی ہوگئے جس طرح رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے دین کے بارے میں ان کی امامت پر رضامندی کا اظہار فرمایا۔

(تاریخ دمشق، 32/174)

(5)گستاخانِ غار پر ضربِ حیدرِ کرار:

" جو شخص بھی مجھے ابوبکر و عمر پر فضیلت دے گا۔ میں اس کو مقتری کی سزا یعنی اسی کورے لگاؤں گا۔( تاریخ الخلفا،ص:46)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اے ہمارے رب ہمیں ایمان والی زندگی اور موت عطا فرما ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


حضرتصدیقِ اکبر کا مختصرتعارف:

نام و کنیت : نامِ نامی اسمِ گِرامی عبدُاللہ آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت: ابوبکر اور صِدِّیق وعتیق آپ رضی اللہ عنہ  کے اَلقاب ہیں ۔

صدیق و عتیق کے معنیٰ اور وجہ: 

صِدِّیق کامعنی ہے :بہت زیادہ سچ بولنے والا ۔ آپ رضی اللہ عنہ  زمانَۂ جاہِلیّت ہی میں  اِس لقب سے مُلَقّب ہو گئے تھے کیونکہ ہمیشہ ہی سچبولتے تھے اور آپ رضی اللہ عنہ  کے لقبعتیق کا معنی ہے :آزاد ۔ اس لقب کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ  کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا:اَنْتَ عَتِیْقٌ مِّنَ النَّارِ یعنی تُو نارِ دوزخ سے آزاد ہے ۔ اِس لئے آپ رضی اللہ عنہ  کا یہ لَقَب ہوا ۔( تاریخ الخلفا، ص:22)

خاندانی نسب:آپ رضی اللہ عنہ  قریشی ہیں اور ساتویں پُشت میں شجرۂ نسب رسولُ الله صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندانیشَجَرے سے مل جاتا ہے ۔

تاریخِ پیدائش:آپ رضی اللہ عنہ  عام ُالفیل کے تقریباً اڑھائی برس بعد مکہ میںپیدا ہوئے ۔

تاریخِ وصال و تدفین:2 سال7 ماہ خلافت کے منصب پر فائز رہ کر 22جمادَی الاُخریٰ 13ہجری پیرشریف کادن گزار کر وَفات پائی۔

 امیرُ المومنین حضرت  عُمر رضی اللہ عنہ  نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور روضۂ منوَّرہ میں حضورِ اَقْدَس رضی اللہ عنہ  کے پہلوئے مقدَّس میں دَفن ہوئے ۔

( الاکمال فی اسماء الرجال لصاحب المشکوۃ، فصل فی الصحابہ، ابو بکر الصدیق، ص:587؛ تاریخ الخلفا، ص26 ، 27 ماخوذا )

ابو بکر صدیق اور قرآن :ثَانِیَ اثْنَیْنِاللہ پاک نے آپ رضیَ اللہُ عنہ کیلئےقراٰنِ مجید میں’’صَاحِبِہٖ‘‘یعنی ”نبی کے ساتھی“ اور ثَانِیَ اثْنَیْنِ(دو میں سے دوسرا)فرمایا، یہ فرمان کسی اور کے حصّے میں نہیں آیا۔

٭ امیرُ المؤمنین حضرت صِدِّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ  کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ  وہ صَحابی ہیں جنہوں  نے آزاد مردوں میں سب سے پہلے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رِسالت کی تصدیق کی۔ 

٭ آپ رضی اللہ عنہ  اِس قدَر کمالات و فضائل والے ہیں کہ اَنبیاء ِکِرام علیہم السلامکے بعد اگلے اور پچھلے تمام  انسانوں  میں  سب سے اَفضل واَعلیٰ ہیں۔

٭ اورتمام جِہادوں  میں  مجاہدانہ کارناموں  کے ساتھ شریک ہوئے اور صُلْح وجنگ کے تمام فیصلوں  میں  پیارے آقا، مکی مَدَنی مصطفے ٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے  وزیر ومُشیر بن کر، زندَگی کے ہر موڑ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دے کرجاں  نثاری و وفاداری کا حق ادا کیا۔

جہاں بے شمار احادیثِ نبوی میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ  کی شان و عظمت کو بیان کیا گیا وہی بے شمار صحابہ کرام نے اپنے اقوال میں آپ رضی اللہ عنہ  کی شان مرتبہ کو واضح فرمایا ہے اُ ن صحابہ کرام میں حضرت علی المرتضیٰ شیرِ خدا رضی اللہ عنہ  بھی شامل ہیں چنا نچہخیر البشر بعد الانبیاء بالتحقیق کے اعزاز کے حامل اُمت محمدیہ کے اولین امیر و خلیفۃ المسلمین حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے وہ فضائل و مناقب جس خلیفہ رابع امیر المومنین حضرت سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ  نے بیان فرمائے ہیں،پیش خدمت ہیں:

لوگوں میں سب سے بہترین شخص کون ہیں؟

جب حضرت سیّدنا علیُّ المرتضی رضی اللہ عنہ  سے  پوچھاگیا: رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد (اس اُمّت کےلوگوں میں سب سے بہترین شخص کون ہیں؟ تو حضرت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ  نے ارشاد فرمایا: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ  ۔

(بخاری،ج2،ص522، حدیث:36717)

شانِ صدیق اکبر بزبانِ علیُّ المرتضیٰ:

حضرت اُسَیْد بن صفوان رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:جب حضرت  صِدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ  کاوصال ہوا تومدینے کی فضا میں رنج وغم کے آثارتھے ، ہر شخص شِدَّتِ غم سے نڈھال تھا، ہر آنکھ سے آنسو جاری تھے ، صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم  پر اسی طرح پریشانیکے آثار تھے جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصالِ ظاہری کے وقت تھے ، سارا مدینہ غم میں ڈوبا ہواتھا ۔ جب حضرت  صدیق اکبر رضی اللہ عنہ  کو غسل دینے کے بعد کفن پہنایا گیا تو حضرت علیُّ المرتضیٰ رضی اللہ عنہ  تشریف لائے اور کہنے لگے :آج کے دن نبی آخرُ الزّماں صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ہم سے رخصت ہو گئے ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ  حضرت صِدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ  کے پاس کھڑے ہوگئے اور آپ رضی اللہ عنہ کی شان و کمالات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے صِدّیقِ اکبر! اللہ پاک آپ پر رحم فرمائے ، آپ رَسُولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہترین رفیق، اچھے عاشق، بااعتماد رفیق اور محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے رازداں تھے ۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آپ رضی اللہ عنہ  سے مشورہ فرمایا کرتے تھے ، آپ رضی اللہ عنہ  لوگوں میں سب سے پہلے مومن، ایمان میں سب سے زیادہ مخلص، پختہ یقین رکھنے والے اور متقی و پرہیزگار تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ  دین کے معاملات میں بہت زیادہ سخی اور رَسُولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریبی دوست تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ  کی صحبت سب سےاچھی تھی، آپ رضی اللہ عنہ  کا مرتبہ سب سے بلند تھا، آپ رضی اللہ عنہ  ہمارے لئے بہترین واسطہ تھے ، آپ رضی اللہ عنہ  کا اندازِ خیر خواہی، دعوت و تبلیغ کا طریقہ، شفقتیں اور عطائیں رَسُولُ الله صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح تھیں، آپ رضی اللہ عنہ  رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت زیادہ خدمت گزار تھے ۔ اللہ پاک آپ رضی اللہ عنہ  کو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی خدمت کی بہترین جزا عطافرمائے ۔

) الریاض النضرۃ،  1 / 262تا 263 ملتقطاً(


خلیفۂ اوّل، جانَشین محبوبِ ربِّ قدیر، امیرُالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا نامِ نامی اسمِ گِرامی عبد اللہ آپ رضی اللہ عنہ کی کُنْیَت ابوبکر اور صِدِّیق و عتیق آپ رضی اللہ عنہ کے اَلقاب ہیں۔ سُبحٰنَ اللہ! صِدِّیق کا معنٰی ہے: ’’بَہُت زیادہ سچ بولنے والا‘‘۔ آپ رضی اللہ عنہ زمانۂ جاہِلیت ہی میں اِس لقب سے مُلَقَّب ہو گئے تھے کیونکہ ہمیشہ ہی سچ بولتے تھے اور عتیق کا معنٰی ہے: ’’آزاد‘‘۔ سرکارِ عالی مَرتَبَت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا ’’اَنْتَ عَتِیْقٌ مِّنَ النَّارِ یعنی تُو نارِ دوزخ سے آزاد ہے۔‘‘ اِس لئے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہ لَقَب ہوا ۔ (تارِیخُ الْخُلَفا، ص:29)

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کےارشادات:

(1) ہم میں سب سے زیادہ بہادر حضرت ِابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی تھے۔

(مسند بزار ، 3 / 14 ، رقم : 761 )

(2) یاد رکھو! وہ (یعنی حضرت ِابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ) انسانوں میں سب سے زیادہ رحم دل، نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے یارِ غار اور اپنے مال سے حضور کو سب سے زیادہ نفع پہنچانے والے ہیں۔ (الریاض النضرۃ ، 1 / 130)

(3)ہم سب صحابہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سب سےافضل ہیں۔

(الریاض النضرۃ ، 1 / 138)

(4)(قسم کھا کر ارشاد فرمایا: ) ’’اللہ پاک نےابوبکر کا نام’’صدیق‘‘ آسمان سے نازل فرمایا ہے۔ (مستدرک علی الصحیحین ، 4 / 4 ، حدیث : 4461)

(5)میں تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تمام نیکیوں میں سے صرف ایک نیکی ہوں۔ (فضائل ابی بکر الصدیق للعشاری ، ص 51 ، رقم : 29 ، تاریخ ابن عساکر ، 30 / 383)

جنت کا اجازت نامہ:

ایک بار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت مولیٰ علی شیرِ خُدا رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہوئی تو صدیق اکبر مولیٰ علی کو دیکھ کر مسکرانے لگے۔ حضرتِ علیُّ المرتضیٰ نے پوچھا : ’’آپ کیوں مسکرا رہے ہیں؟‘‘ حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا : ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ پلِ صراط سے وہی گزرے گا جس کو علیُّ المرتضیٰ تحریری اجازت نامہ دیں گے ۔‘‘ یہ سن کر حضرتِ علیُّ المرتضیٰ بھی مسکرادئیے اور کہنے لگے : “ کیا میں آپ کو رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی طرف سے آپ کے لئے بیان کردہ خوشخبری نہ سناؤں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : پل صراط سے گزرنے کا تحریری اجازت نامہ صرف اُسی کو ملے گا جو ابو بکر صدیق سے محبت کرنے والا ہوگا ۔‘‘ (الریا ض النضرۃ ، 1 / 207)

اللہ ہمیں بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے محبت کرنے اور انکے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین 


افضل البشر بعد الانبیاء بالتحقیق سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے فضائل آسمان کے ستاروں سے بھی زیادہ ہیں۔دیگر صحابہ کرام علیہم الرضوان کی طرح مولائے کائنات حیدر کرار رضی اللّٰہ عنہ بھی جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے فضائل کے گرویدہ اور ان کی افضلیت اور رفعت شان کے قصیدے پڑھا کرتے تھے۔

زبان حیدری سے شان صدیقیت کے چند نمونے ملاحظہ ہوں:

1۔حضرت محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ میں نے اپنے والد مولا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل صحابی کون ہیں؟ فرمایا: ابوبکر رضی اللہ عنہ میں نے پوچھا پھر کون ہیں؟فرمایا: عمر رضی اللہ عنہ۔

(صحیح البخاری حدیث 3671 ملتقطا)

2۔مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے،ہم جب بھی کسی بھلائی کی طرف بڑھے تو ابو بکر رضی اللہ عنہ ہم سے سبقت لے گئے۔(مجمع الزوائد حدیث 14332)

3۔مولائے کائنات رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: اللہ نے ابو بکر کو ہم سب سے بہتر جانا اور انہیں ہم پر ولایت دے دی۔(المستدرک للحاکم حدیث: 4756)

4۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا:ابوبکر سے بہتر شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا۔

(الریاض النضرہ فی مناقب العشرہ ،1 / 136)

5۔مولا مشکل کشا رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: میں جسے پاؤں گا کہ وہ مجھے ابو بکر و عمر (رضی اللہ عنہما) سے افضل کہتا ہے اسے مفتری(تہمت لگانے) کی سزا کے طور پر اسّی (80) کوڑے لگاؤں گا۔(فضائل صحابہ لاحمد حدیث 49،المؤتلف و المختلف للدارقطنی ج 3 ص 93)

اللہ پاک ہمیں صحابہ و اہل بیت علیہم الرضوان کا حقیقی عاشق بنائے۔آمین

صِدیق بلکہ غار میں جان اس پہ دے چکے

اور حفظِ جاں تو جان فروضِ غرر کی ہے


آفتابِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے درخشندہ ستاروں میں سب سے روشن نام یارِ غار ، افضل البشر بعد الانبیاء حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کا ہے۔

صحابہ و اہلبیت (رضوان اللہ علیہم اجمعین) میں سے دو اہم ہستیاں "صدیق اکبر و مولا علی" (رضی اللہ عنہما) کی آپس میں کس قدر محبت تھی اور جس سے محبت و پیار ہوتا ہے انسان اس کی تعریفیں بیان کرتا ہے اور اس کی شان بھی بیان کرتا ہے۔ مولا علی، حضرت صدیق اکبر سے کس قدر محبت فرماتے اور آپ کی شان بیان کیا کرتے تھے، اس کا اندازہ مولا علی کے فرامین سے لگایا جاسکتا ہے۔

(1) لوگوں میں سب سے بہتر: حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے بیٹے محمد بن حنفیہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں: میں نے اپنے والد محترم سے عرض کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے؟ فرمایا: ابو بکر۔ (صحیح بخاری، 5/ 7)

(2) ابو بکر کی نیکیوں میں سے ایک نیکی: ابو طالب عشّاری فضائل الصدیق میں راوی، حضرت علی فرماتے ہیں: (وَ ھَلْ اَنَا اِلاَّ حَسَنَةٌ مِنْ حَسَنَاتِ اَبِیْ بَکْرِِ) ترجمہ۔ میں کون ہوں مگر ابو بکر کی نیکیوں میں سے ایک نیکی۔ (جامع الاحادیث بحوالہ ابی طالب عشّاری، ج 16، ص 208)

(3)ابو بکر سبقت کر گئے: المعجم الاوسط کی حدیثِ پاک ہے حضرت علی سے مروی ہے، مولا علی فرماتے ہیں: قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ہم نے کبھی کسی خیر کی طرف ایک دوسرے سے بڑھ جانا نہ چاہا مگر یہ کہ ابو بکر ہم سے اس کی طرف سبقت کر گئے۔

(المعجم الاوسط، ج 5، ص 231)

(4) 80کوڑے ماروں گا: صواعق محرقہ میں حضرت ابن حجر ہیتمی روایت کرتے ہیں حضرت علی نے فرمایا: مجھے ابو بکر و عمر (رضی اللہ عنہما) پر فضیلت نہ دو، میں جسے پاؤں گا کہ مجھے ابو بکر و عمر سے افضل کہتا ہے، اسے الزام تراشی کی سزا کے طور پر اسّی (80) کوڑے ماروں گا۔

(الصواعق المحرقہ، 1/ 177)

(5) اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حق کا منکر: ابنِ عساکر سیدنا عمار بن یاسر سے راوی، مولا علی نے فرمایا: جو مجھے ابو بکر و عمر پر فضیلت دے گا وہ میرے اور تمام اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حق کا منکر ہو گا۔ (جامع الاحادیث بحوالہ ابن عساکر، 16/ 221)

(6) جس کا نام اللہ نے صدیق رکھا: امام حاکم (علیہ الرحمہ) نے مستدرک میں حضرت نزال بن سبرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا کہ ہم نے حضرت علی کی بارگاہ میں عرض کیا: یا امیر المومنین ہمیں حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کے متعلق بتائیں۔ آپ نے فرمایا وہ ایسی ذات تھی کہ جس کا نام اللہ پاک نے حضرت جبرائیل اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے صدیق رکھا۔ وہ نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ تھے اور ہم نے انہیں اپنی دنیا یعنی خلافت کیلئے پسند فرمایا۔ (تاریخ الخلفا، ص 28)

اللہ پاک ہمیں صحابہ و اہلبیت (رضوان اللہ علیہم اجمعین) دونوں سے محبت و پیار کرنے والا اور ان کی سیرت کے مطابق اپنی زندگیوں کو بسر کرنا نصیب فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔


حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ہیں۔ آپ ان اکبر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ہیں جنھوں نے دین اسلام کا جھنڈا اپنے کندھوں پر اٹھایا اور اسلام کی سربلندی کے لئے تحمل و برداشت سے کام لیا۔ آپ کا نام ”عبداللہ“ہے، کنیت ”ابو قحافہ“ ہے اور ”صدیق“ آپ کا لقب ہے۔ تمام صحابہ دل و جان سے آپ کی تعظیم کرتے۔

چنانچہ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اے لوگو! مجھے خبر دو کہ سب سے بہادر اور شجاع کون شخص ہے؟ لوگوں نے کہا: آپ ہیں۔ فرمایا: میں ہمیشہ اپنے برابر کے جوڑ کے ساتھ لڑتا ہوں میں کوئی بہادر نہیں ہوں، تم میں سب سے بہادر شخص کا نام بتلاؤ، عرض کیا: ہمیں معلوم نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: سب سے شجاع اور بہادر حضرت ابوبکر صدیق ہیں۔ جنگ بدر میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ہم نے ایک سائبان بنایا تھا۔ ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کی حفاظت کیلئے کون شخص رہے گا؟ اللہ کی قسم! ہم میں سے کسی کو بھی ہمت نہ ہوئی ،مگر حضرت ابوبکر صدیق ننگی تلوار ہاتھ میں لے کر کھڑے ہو گئے اور کسی کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک نہ پہنچنے دیا، اگر کوئی آپ پر حملہ کرتا تو آپ فورا اس پر جھپٹ پڑتے اور حملہ کر دیتے ۔ لہذا آپ سب سے زیادہ بہادر تھے۔ (اس کو بزار نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔)

حضرت محمد بن علی المرتضی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد ماجد حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کون افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: حضرت ابوبکر صدیق ۔ میں نے کہا: ان کے بعد تو فرمایا : حضرت عمر ۔ ان کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا نام لیتے ہوۓ ڈرا اور عرض کیا کہ پھر آپ افضل ہیں آپ نے فرمایا: میری کیا ہستی ہے؟ میں تو ایک معمولی مسلمان ہوں ۔ امام احمد کہتے ہیں کہ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے متواتر چند مرتبہ منقول ہے کہ اس امت میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق سب سے افضل ہیں۔

حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق پر مجھ کو جو بھی فضیلت دے گا میں اس کو تہمت کی حد اسی (80) کوڑے لگاؤں گا ۔

(ابن عساکر)

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما کی شان میں فرمایا کہ یہ دونوں انبیاء مرسلین کے علاوہ تمام اولین و آخرین سن رسیدہ شخصوں کے جنت میں سردار ہوں گے ۔ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح روایت ہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں اس امت کے نبی کے بعد سب سے اچھے شخص کے بارے میں خبر نہ دے دوں ۔وہ ابوبکر ہیں۔ پھر فرمایا۔ ابو بکر کے بعد اس امت کے سب سے اچھے شخص کے بارے میں تمہیں خبر نہ دے دوں۔ فرمایا عمر۔

حضرت یحیی بن حکیم بن سعد سے مروی ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قسم اٹھاتے ہوئے سنا کہ اللہ کی قسم! حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نام "صدیق" آسمان سے نازل کیا گیا۔

حضرت عبدالخیر سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا، "مصاحف میں اجر کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے بڑھ کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ یہ وہ ہیں جنھوں نے سب سے پہلے قرآن مجید کو تختیوں میں جمع کروایا۔

حاصل کلام یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بالخصوص اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بالعموم حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا دل و جان سے احتراز کرتے تھے۔ تمام صحابہ کرام میں باہم الفت و محبت تھی۔ تمام صحابہ کرام ہمارے سر کے تاج ہیں۔ ان کی محبت اور احترام ہم پر لازم ہے۔ پھر چاہے وہ حضرت ابوبکر صدیق ہوں یا حضرت علی یا حضرت امیر معاویہ یا کوئی بھی صحابی رضی اللہ عنہم ہوں، ہمارا ان کے بارے میں یہ عقیدہ ہے:۔

(تاریخ خلفا،اخوة على و ابوبكر، المجلد اول)

ہر صحابی نبی جنتی جنتی


وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(۳۳) وہ جو سچ لے کر تشریف لائے اور جنہوں نے ان کی تصدیق کی یہی وہ لوگ ہیں جو پرہیز گار ہیں۔(پ 24،الزمر:33)

اس آیت کی تشریح و توضیح میں حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: وَالَّذِىْ جَاءَ بِالْحَقِّ مُحَمَّدٌ وَصَدَّقَ بِهٖ ابوبكر الصّديق، "وہ جو حق یعنی دین اسلام لے کر آئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور جنہوں نے ان کی تصدیق کی وہ ابوبکر صدیق ہیں"

حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ بر سرِ منبر علی اعلان حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے مقام صدیقیت کا تذکرہ فرماتے تھے چنانچہ ابو یحییٰ کہتے ہیں:لا اُحصى كم سمعت عليا يقول على المنبر :ان اللّٰه سمى ابوبكر على لسان نبيهٖ صديقاً،"میں نے بارہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ممبر پر یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ پاک نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نام صدیق رکھا۔

یونہی حکیم بن سعد روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک بار قسم اٹھا کر یہ فرماتے ہوئے سنا: انزل اللہ اسم ابی بکر من السماء الصدیق۔ "اللہ پاک نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام صدیق آسمان سے نازل فرمایا ہے"۔

علی ہیں اس کے دشمن اور وہ دشمن علی کا ہے

جو دشمن عقل کا، دشمن ہوا صدیق اکبر کا

حضرت سیدنا صدیق اکبر اور حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنھما کی باہمی عقیدت و محبت:

حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ایک دن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کا شانہ نبوی میں حاضری کیلئے آئے ۔ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا: دروازہ پر آپ دستک دیجیے ۔ حضرت ابو بکر صدیق نے کہا: آپ آگے بڑھئے ۔ حضرت علی المرتضی نے کہا: میں ایسے شخص سے آگے نہیں بڑھ سکتا جس کے بارے میں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے سنا:ما طلعت شمس ولا غربت من بعدى على رجل أفضل من ابي بكر الصديق۔ کسی شخص پر سورج طلوع و غروب نہ ہوگا جو میرے بعد ابوبکر صدیق سے افضل ہو۔ (یعنی میرے بعدابو بکر صدیق سب سے افضل ہیں ۔ )

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ایسے شخص سے بڑھنے کی جرات کیسے کرسکتا ہوں جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أعطيت خير النساء بخير الرجال۔ میں نے سب سے بہتر عورت کو سب سے بہتر شخص کے نکاح میں دیا۔

حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ایسے شخص سے کیسے آگے بڑھوں جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہو : من اراد ان ينظر الى صدر ابراهيم الخليل فلينظر إلى صدر ابی بکر ۔ جو شخص ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے سینہ مبارک کی زیارت کرنا چاہئے وہ ابو بکر کے سینہ کو دیکھ لے۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا:میں بھلا آپ سے کیسے تقدم کروں جن کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سنا ہے: من اراد ان ينظر إلى صدر ادم والى يوسف وحسنه والى موسى وصـلـوتـه وإلى عيسى وزهده وإلى محمد (صلى الله عـليـه وسلم) وخلقه فلينظر إلى عليّ ، جو شخص حضرت آدم کا سینہ مبارک ، حضرت یوسف اور ان کا حسن و جمال، حضرت موسی اور ان کی نماز ، حضرت عیسٰی اور ان کے زہد وتقوی اور حضرت محمد مصطفی علیہ التحیۃ والثناء اور آپ کے خلق عظیم کو دیکھنا چاہئے وہ علی المرتضی کو دیکھ لے۔

حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ایسی شخصیت سے پیش قدمی کی جرات کیسے کروں جس کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمائیں:إذا اجتمع العالم في عرصات القيامة يوم الحسرة، والندامة ینـادي مـنـاد مـن قبـل الـحـق عـز وجل يا أبا بكر أدخل أنت ومحبوبك الجنة۔

جب میدان محشر میں حسرت و ندامت کے دن تمام لوگ جمع ہوں گے ،ایک منادی اللہ پاک کی جانب سے ندا کرے گا ،اے ابوبکر ! تم اپنے محبوب کی معیت میں جنت میں داخل ہو جاؤ۔

حضرت سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے کہا:میں ایسے شخص سے تقدیم کیسے کرسکتا ہوں جس کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر اور حنین کے موقع پر جب آپ کی خدمت میں دودھ اور کھجور کا ہدیہ کیا تو فرمایا:ھذہ ھدیۃمن الطالب الغالب لعلی بن ابی طالب

یہ ہدیہ طالب وغالب کی طرف سے علی بن ابی طالب کے لئے ہے۔

حضرت سید نا علی مرتضی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں آپ سے کیوں کر آگے بڑھوں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کیلئے یہ فرمایا ہو :أنت يا ابا بکرعینی۔ ترجمہ:ابوبکر تم میری آنکھ ہو۔حضرت ابو بکر صدیق نے کہا: میں ایسی شخصیت سے کیونکر آگے بڑھوں جس کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:روز قیامت علی جنتی سواری پر آئیں گے تو کوئی ندا کرنے والا ندا کرے گا:يا محمد كان لك في الدنيا والد حسن واخ حسن اما الوالد الحسن فابوك ابراهيم الخليل واما الأخ فعلي بن أبي طالب رضى الله تعالى عنه،اے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم! دنیا میں آپ کے ایک بہت اچھے والد ، ایک بہت اچھے بھائی تھے، والدابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اور بھائی علی المرتضی رضی اللہ عنہ

حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ایسی شخصیت پر کیسے فوقیت حاصل کرسکتا ہوں جس کی بابت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:إذا كان يوم القيامة يجيئ رضوان خازن الجنان بمفاتيح الجنةومفاتيح النار ويقول يا أبا بكر الرب جل جلالہ يقرئك السلام ويقول لك هذه مفاتيح الجنة و هذه مفاتيح النار إبعث من شئت إلى الجنة وابعث إلى النّار۔روز محشر جنت کا خازن رضوان جنت اور دوزخ کی چابیاں لے کر ابوبکرصدیق کی خدمت میں پیش کرے گا اور کہے گا اے ابوبکر ! رب کریم جلّ جلالہ آپ کو سلام فرماتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ یہ جنت اور دوزخ کی چابیاں اپنےپاس رکھ لو، جسے چاہو جنت میں بھیج دو اور جسے چاہو دوزخ میں بھیج دو۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ایسے شخص پر تقدم کیوں کروں جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:إن جبريل عليه السّلام أتاني فقال لي يا محمد إن الله يقرئك السلام ويقول لك أنا أحبك وأحب علیا فسجدت شکرا۔

جبریل امین علیہ السلام نے مجھے آ کر بتایا کہ اللہ پاک آپ کو سلام کے بعد فرماتا ہے کہ میں تم سے اور علی سے محبت کرتا ہوں ۔ اس پر میں نے سجدہ شکر ادا کیا پھر کہا: اللہ پاک فرماتا ہے ۔ میں فاطمہ سے بھی محبت کرتا ہوں ، میں سجدہ شکر بجالایا۔ پھر کہا میں حسن و حسین سے بھی محبت کرتا ہوں ۔ میں نے سجدہ شکر ادا کیا۔

حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ایسے بزرگ سے کیسے آگے بڑھوں جس کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لو وزن إيمان أبي بكر بايمان أهل الأرض لرجح عليهم

اگر روئےزمین کے تمام لوگوں کے ایمان کا ابوبکر کے ایمان کے ساتھ وزن کیا جائے تو ابوبکر کا ایمان سب سے وزنی ہوگا۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ایسی محبوب شخصیت سے کیسے آگے بڑھوں جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر دی ہو

" قیامت کے دن علی المرتضی ، ان کی اہلیہ اور اولاد اونٹوں پر سوار ہوکر آئیں گے تو لوگ کہیں گے : یہ کون ہیں؟ منادی کہے گا: یہ اللہ پاک کے حبیب ہیں یہ علی بن ابی طالب ہیں"

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: بھلا میں ایسی محترم شخصیت سے کیونکر آگے بڑھوں جن کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : اہل محشر جنت کے آٹھوں دروازوں سے یہ آواز سنیں گے:ادخل من حيث شئت أيها الصديق الأكبر ،صدیق اکبر جنت کے جس دروازے سے جی چاہے تشریف لائیں‘‘۔

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس شخص سے آگے نہیں بڑھوں گا جس کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہو :بين قصري وقصر إبراهيم الخليل قصر على

علی کا محل میرے اور ابراھیم علیہ السلام کے محلوں کے درمیان ہوگا:

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اس وجیہ مرد سے کیسے آگے بڑھوں جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے: إن أهل السموات من الكروبيين والروحانيين والملاء الأعلى لينظرون في كل يوم إلى أبي بكر رضى الله تعالى عنه ، آسمانوں کے فرشتے ، کروبین ، روحانیان اور ملاء اعلی روزانہ ابو بکر کو تکتےرہتے ہیں۔

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ایسی شخصیت پر تقدم کیوں کروں جس کے گھر والوں اور خود اس کے حق میں اللہ پاک نے یہ آیت نازل فرمائی ہو:وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا(۸) اور کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور اسیر کو۔(پ 29،الدھر:8)

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ایسے متقی پر کیسے فائق ہوسکتا ہوں جس کے بارے میں اللہ پاک کا یہ فرمان والا شان ہو:وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(۳۳) وہ جو سچ لے کر تشریف لائے اور جنہوں نے ان کی تصدیق کی یہی وہ لوگ ہیں جو پرہیز گار ہیں۔۔(پ 24،الزمر:33)

دونوں شخصیات کا باہمی اعزاز واکرام دیدنی تھا۔ ان کا محبت بھرا مکالمہ جاری تھا کہ جبریل امین علیہ السلام رب العالمین کی طرف سے رسول صادق وامین صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی :یارسول اللہ ! اللہ پاک آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ ساتوں آسمانوں کے فرشتے اس وقت ابو بکر صدیق اور علی المرتضی رضی اللہ عنہما کی زیارت کر رہے ہیں اور ان کی ادب واحترام پر مبنی گفتگو سن رہے ہیں ۔ اللہ پاک نے ان دونوں حضرات کے حسن ادب، حسن اسلام ،اور حسن ایمان کے باعث اپنی رحمت ورضوان سے ڈھانپ لیا ہے۔ آپ ان کے پاس ثالث کی حیثیت سے تشریف لے جائیں۔ چنانچہ حضور تشریف لائے ۔ دونوں کی باہمی محبت دیکھ کر ان کی پیشانی کو بوسہ دیا اور فرمایا: قسم ہے اس (رب) کے حق کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد کی جان ہے، اگر سارے سمندر سیاہی ہو جائیں ، درخت قلمیں بن جائیں اور زمین و آسمان والے لکھنے بیٹھ جائیں پھر بھی تمہاری فضیلت اور اجر بیان کرنے سے عاجز رہ جائیں۔

(شان صدیق اکبر بزبان فاتح خیبر بحوالہ تاریخ الخلفا)