حضرتصدیقِ اکبر کا مختصرتعارف:
نام و کنیت : نامِ نامی اسمِ گِرامی عبدُاللہ آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت: ابوبکر اور صِدِّیق
وعتیق آپ رضی اللہ عنہ کے اَلقاب ہیں ۔
صدیق و عتیق کے
معنیٰ اور وجہ:
صِدِّیق کامعنی ہے :بہت زیادہ سچ بولنے والا ۔ آپ رضی اللہ عنہ زمانَۂ جاہِلیّت ہی
میں اِس لقب سے مُلَقّب ہو گئے تھے کیونکہ ہمیشہ
ہی سچبولتے
تھے اور آپ رضی اللہ عنہ کے لقبعتیق کا معنی ہے
:آزاد ۔ اس لقب کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا:اَنْتَ عَتِیْقٌ مِّنَ النَّارِ یعنی
تُو نارِ دوزخ سے آزاد ہے ۔ اِس
لئے آپ رضی اللہ عنہ کا یہ لَقَب ہوا ۔( تاریخ الخلفا، ص:22)
خاندانی
نسب:آپ رضی
اللہ عنہ قریشی ہیں اور ساتویں پُشت میں شجرۂ
نسب رسولُ الله صلی
اللہ علیہ وسلم کے
خاندانیشَجَرے سے مل جاتا ہے ۔
تاریخِ
پیدائش:آپ رضی اللہ عنہ عام ُالفیل کے تقریباً اڑھائی برس
بعد مکہ میںپیدا ہوئے ۔
تاریخِ
وصال و تدفین:2 سال7 ماہ خلافت کے منصب
پر فائز رہ کر 22جمادَی الاُخریٰ 13ہجری پیرشریف کادن گزار کر وَفات پائی۔
امیرُ المومنین
حضرت عُمر رضی اللہ عنہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور
روضۂ منوَّرہ میں حضورِ اَقْدَس رضی اللہ عنہ کے پہلوئے مقدَّس میں دَفن
ہوئے ۔
( الاکمال
فی اسماء الرجال لصاحب المشکوۃ، فصل فی الصحابہ، ابو بکر الصدیق، ص:587؛ تاریخ
الخلفا، ص26 ، 27 ماخوذا )
ابو بکر صدیق اور
قرآن :ثَانِیَ اثْنَیْنِ: اللہ پاک
نے آپ رضیَ اللہُ عنہ کیلئےقراٰنِ مجید
میں’’صَاحِبِہٖ‘‘یعنی
”نبی کے ساتھی“ اور ”ثَانِیَ
اثْنَیْنِ“(دو میں سے دوسرا)فرمایا، یہ
فرمان کسی اور کے حصّے میں نہیں آیا۔
٭
امیرُ
المؤمنین حضرت صِدِّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کو یہ
شرف حاصل ہے کہ آپ وہ صَحابی ہیں جنہوں نے آزاد مردوں میں سب
سے پہلے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رِسالت کی تصدیق کی۔
٭ آپ رضی
اللہ عنہ اِس قدَر کمالات و فضائل
والے ہیں کہ اَنبیاء ِکِرام علیہم السلامکے بعد
اگلے اور پچھلے تمام انسانوں میں سب سے اَفضل واَعلیٰ ہیں۔
٭ اورتمام جِہادوں میں مجاہدانہ کارناموں کے ساتھ
شریک ہوئے اور صُلْح وجنگ کے تمام فیصلوں میں پیارے آقا، مکی
مَدَنی مصطفے ٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے وزیر ومُشیر بن کر، زندَگی کے ہر
موڑ پر آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کا ساتھ دے کرجاں نثاری
و وفاداری کا حق ادا کیا۔
جہاں بے شمار احادیثِ نبوی میں حضرت ابو بکر صدیق رضی
اللہ عنہ کی شان و عظمت کو بیان کیا
گیا وہی بے شمار صحابہ کرام نے اپنے اقوال
میں آپ رضی اللہ عنہ کی شان مرتبہ کو واضح فرمایا ہے اُ ن
صحابہ کرام میں حضرت علی المرتضیٰ شیرِ خدا رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں چنا نچہخیر البشر بعد الانبیاء بالتحقیق کے اعزاز کے
حامل اُمت محمدیہ کے اولین امیر و خلیفۃ المسلمین حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی
اللہ عنہ کے وہ فضائل و مناقب جس خلیفہ رابع امیر المومنین حضرت سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ نے بیان فرمائے ہیں،پیش خدمت ہیں:
لوگوں میں سب سے بہترین شخص کون ہیں؟
جب حضرت سیّدنا علیُّ المرتضی رضی اللہ عنہ سے
پوچھاگیا: رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے
بعد (اس اُمّت کے) لوگوں میں سب سے بہترین
شخص کون ہیں؟ تو حضرت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: حضرت
ابو بکر صدیق رضی
اللہ عنہ ۔
(بخاری،ج2،ص522، حدیث:36717)
شانِ صدیق اکبر بزبانِ علیُّ المرتضیٰ:
حضرت اُسَیْد بن صفوان رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:جب
حضرت صِدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کاوصال ہوا تومدینے کی فضا
میں رنج وغم کے آثارتھے ، ہر شخص شِدَّتِ غم سے نڈھال
تھا، ہر آنکھ سے آنسو جاری تھے ، صحابَۂ کرام رضی
اللہ عنہم پر اسی طرح پریشانیکے آثار تھے جیسے
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے
وصالِ ظاہری کے وقت تھے ، سارا مدینہ غم میں ڈوبا ہواتھا ۔ جب
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو غسل دینے کے بعد کفن پہنایا
گیا تو حضرت علیُّ المرتضیٰ رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور کہنے لگے :آج
کے دن نبی آخرُ الزّماں صلی اللہ علیہ وسلم کے
خلیفہ ہم سے رخصت ہو گئے ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ حضرت
صِدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس کھڑے ہوگئے اور آپ رضی اللہ عنہ کی
شان و کمالات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے صِدّیقِ اکبر! اللہ پاک آپ
پر رحم فرمائے ، آپ رَسُولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے
بہترین رفیق، اچھے عاشق، بااعتماد رفیق اور محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے
رازداں تھے ۔ حضورِ اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم آپ رضی اللہ عنہ سے مشورہ فرمایا کرتے تھے ، آپ رضی
اللہ عنہ لوگوں میں سب سے پہلے مومن، ایمان میں سب سے زیادہ مخلص، پختہ یقین
رکھنے والے اور متقی و پرہیزگار تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ دین کے معاملات
میں بہت زیادہ سخی اور رَسُولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب
سے زیادہ قریبی دوست تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی صحبت سب سےاچھی تھی، آپ رضی اللہ عنہ کا مرتبہ سب سے بلند تھا، آپ رضی
اللہ عنہ ہمارے لئے بہترین واسطہ تھے
، آپ رضی اللہ عنہ کا اندازِ خیر خواہی، دعوت و تبلیغ کا طریقہ، شفقتیں اور عطائیں رَسُولُ الله صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح تھیں،
آپ رضی اللہ عنہ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت زیادہ خدمت گزار تھے
۔ اللہ پاک آپ رضی اللہ عنہ کو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی خدمت کی بہترین جزا
عطافرمائے ۔
) الریاض النضرۃ، 1 / 262تا 263 ملتقطاً(