انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے بعد کائنات میں سب سے افضل ہستی حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہیں۔یہ عقیدہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بھی تھا خود مولا علی رضی اللہ عنہ سے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے کئی فضائل مروی ہیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔

1۔حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اپنے والد ماجد مولیٰ علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں ’’میں خدمت اقدس حضور افضل الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر تھا کہ ابوبکر و عمر سامنے آئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ علی! یہ دونوں سردار ہیں اہلِ جنت کے سب بوڑھوں اور جوانوں کے بعد انبیاء و مرسلین کے۔

(ترمذی کتاب المناقب باب فی مناقب ابی بکر وعمر، 375,376/5)

2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حضرت محمد بن حنفیہ صاحبزادہ ٔجناب امیر المومنین علی رضی اللہ عنہما سے راوی: قَالَ: قُلْتُ ِلاَبِیْ: اَیُّ النَّاسِ خَیْرٌ بَعْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ؟ قَالَ: اَبُوْ بَکْرٍ، قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: عُمَرُ۔ ’’یعنی میں نے اپنے والد ماجد امیر المومنین مولیٰ علی رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب آدمیوں سے بہتر کون ہیں ؟ ارشاد فرمایا:ابوبکر۔ میں نے عرض کیا: پھر کون؟ فرمایا: عمر۔(بخاری حدیث:3671)

3۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: لَا اَجِدُ اَحَدًا فَضَّلَنِیْ عَلٰی اَبِیْ بَکْرٍ وَ عُمَرَ اِلاَّ جَلَدْتُہٗ حَدَّ الْمُفْتَرِیْ۔ ترجمہ :’’جسے میں پاؤں گا کہ شیخین (حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) سے مجھے افضل بتاتا (اور مجھے ان میں سے کسی پر فضیلت دیتا )ہے اسے مُفتری (افتراء و بہتان لگانے والے) کی حد ماروں گا کہ اَسّی(80) کوڑے ہیں ۔‘‘

(فتاویٰ رضویہ ، 29/367)

4۔حضرت سیدناابو شریحہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ میں نےحضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ کومنبر پر یہ فرماتے ہوئےسنا کہ حضرت سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا دل بہت مضبوط ہے۔‘‘(الریاض النضرۃ، ج:1، ص:139)

5۔حضرت سیدناموسی بن شداد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے امیر المؤ منین حضرت سیدناعلی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سناکہ :ہم سب صحابہ میں حضرت سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سب سےافضل ہیں ۔(الریاض النضرۃ، 1/138)

6۔حضرت سیدناعلی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ دو جہاں کے تاجور، سلطانِ بحرو بَر صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اللہ پاک ابو بکر پر رحم فرمائےکہ انہوں نے اپنی بیٹی کانکاح مجھ سے کیا، اور مجھے دار الہجرت تک پہنچایا نیز اپنے مال سے بلال کو آزاد کیا۔‘‘

(سنن الترمذی ، کتاب المناقب ، مناقب علی بن ابی طالب، الحدیث : 3734، ج:5، ص:397)

7۔حضرت سیدناعلی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ ارشادفرماتے ہیں : ’’میں توحضرت سیدنا ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کی تمام نیکیوں میں سے صرف ایک نیکی ہوں ۔

(تاریخ مدینۃ دمشق،30/383، کنز العمال، الحدیث : 35631، ج:6، الجزء : 12، ص:224)


جس کسی چیز یا ذات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت ہو جائے وہ چیز اور وہ ذات پہاڑ افضلیت کی چوٹی کو چھونے لگتی ہے جس طرح شہر تو اور بھی ہزاروں ہوں گے لیکن جو مزہ مدینہ کی فضاؤں میں ہے وہ اور کہاں، اسی طرح پانی تو اور بھی بہت ہیں لیکن جو پانی پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک انگلیوں سے جاری ہوا اس کے کیا کہنے، بلکل اسی طرح صحابی بھی کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار ہیں لیکن جو اونچی پرواز افضلیت میں یار غار سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ہے اسکا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ اہل حق اہلسنت کا اس بات پر اجماع ہے کہ انبیاء و رسلِ بشر اور رسلِ ملائکہ علیہم الصلوۃ والسلام کے بعد سب سے افضل ذات، ذات یار غار سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ہے۔

حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی اس اونچی پرواز کو بیان کرنے کے لئے مختلف آیاتِ قرآنیہ، احادیثِ نبویہ اور صحابہ کرام و بزرگان دین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ارشادات و اقوال وارد ہیں جن میں سے چند ایک موضوع کی مناسبت سے پیش کیے جاتے ہیں:

(1) اعلانیہ اظہار کرتی ہے: حضرت سیدنا علی المرتضی حیدر کرّار رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:خدا کی قسم! حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حیات طیبہ کا ایک لمحہ آل فرعون کے مومن جیسے شخص کے ہزار لمحات سے بہتر ہے، ارے! وہ شخص تو اپنے ایمان کو چھپایا کرتا تھا اور یہ پاکیزہ ہستی اپنے ایمان کا اعلانیہ اظہار کرتی ہے۔ (فیضان صدیق اکبر، ص: 652)

مذکورہ بالا روایت میں آل فرعون کے جس مومن کا تذکرہ ہوا وہ قبطی قوم کا ایک فرد تھا،جو حضرت موسی علیہ السلام پر ایمان لا چکا تھا لیکن اس نے اپنا ایمان چھپایا ہوا تھا۔

(فیضان صدیق اکبر، ص: 652، ملخصاً،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

(2) تمام نیکیوں میں ایک نیکی: حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں: میں تو حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی تمام نیکیوں میں سے ایک نیکی ہوں۔

(فیضان صدیق اکبر، ص: 656،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

(3) چار باتوں میں سبقت: مولا مشکل کشا شیر خدا رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ بلا شبہ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ان چار باتوں میں مجھ سے سبقت لے گئے:

1: انہوں نے مجھ سے پہلے اسلام کا اظہار کیا۔

2: مجھ سے پہلے ہجرت کی۔

3: سید عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے یارِ غار ہونے کا شرف پایا۔

4: سب سے پہلے نماز قائم فرمائی۔ 


علی ہیں اس کے دشمن اور وہ دشمن علی کا ہے

جو دشمن عقل کا، دشمن ہوا صدیق اکبر کا

حضرت سیدنا صدیق اکبر اور حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہما کی باہمی عقیدت و محبت:

حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ایک دن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کا شانہ نبوی میں حاضری کیلئے آئے۔ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا: دروازہ پر آپ دستک دیجیے ۔ حضرت ابو بکر صدیق نے کہا: آپ آگے بڑھیے ۔

حضرت علی المرتضی نے کہا: میں ایسے شخص سے آگے نہیں بڑھ سکتا جس کے بارے میں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے سنا:ما طلعت شمس ولا غربت من بعدى على رجل أفضل من ابي بكر الصديق۔ کسی شخص پر سورج طلوع و غروب نہ ہوگا جو میرے بعد ابوبکر صدیق سے افضل ہو۔ (یعنی میرے بعدابو بکر صدیق سب سے افضل ہیں ۔ )

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ایسے شخص سے بڑھنے کی جرات کیسے کرسکتا ہوں جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أعطيت خير النساء بخير الرجال۔ میں نے سب سے بہتر عورت کو سب سے بہتر شخص کے نکاح میں دیا۔

حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ایسے شخص سے کیسے آگے بڑھوں جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہو : من اراد ان ينظر الى صدر ابراهيم الخليل فلينظر إلى صدر ابی بکر ۔ جو شخص ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام کے سینہ مبارک کی زیارت کرنا چاہئے وہ ابو بکر کے سینہ کو دیکھ لے۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا:میں بھلا آپ سے کیسے تقدم کروں جن کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سنا ہے: من اراد ان ينظر إلى صدر ادم والى يوسف وحسنه والى موسى وصـلـوتـه وإلى عيسى وزهده وإلى محمد (صلى الله عـليـه وسلم) وخلقه فلينظر إلى عليّ ، جو شخص حضرت آدم کا سینہ مبارک ، حضرت یوسف اور ان کا حسن و جمال، حضرت موسی اور ان کی نماز ، حضرت عیسٰی اور ان کے زہد وتقوی اور حضرت محمد مصطفی علیہ التحیۃ والثناء اور آپ کے خلق عظیم کو دیکھنا چاہئے وہ علی المرتضی کو دیکھ لے۔

حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ایسی شخصیت سے پیش قدمی کی جرات کیسے کروں جس کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمائیں:إذا اجتمع العالم في عرصات القيامة يوم الحسرة، والندامة ،ینادي مناد مـن قبل الحق عز وجل يا أبا بكر أدخل أنت ومحبوبك الجنة۔جب میدان محشر میں حسرت و ندامت کے دن تمام لوگ جمع ہوں گے ،ایک منادی اللہ پاک کی جانب سے ندا کرے گا ،اے ابوبکر ! تم اپنے محبوب کی معیت میں جنت میں داخل ہو جاؤ۔

حضرت سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے کہا:میں ایسے شخص سے تقدیم کیسے کرسکتا ہوں جس کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر اور حنین کے موقع پر جب آپ کی خدمت میں دودھ اور کھجور کا ہدیہ کیا تو فرمایا:ھذہ ھدیۃمن الطالب الغالب لعلی بن ابی طالب

یہ ہدیہ طالب وغالب کی طرف سے علی بن ابی طالب کے لئے ہے۔

حضرت سید نا علی مرتضی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں آپ سے کیوں کر آگے بڑھوں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کیلئے یہ فرمایا ہو :أنت يا ابا بکرعینی۔ ترجمہ:ابوبکر تم میری آنکھ ہو۔

حضرت ابو بکر صدیق نے کہا: میں ایسی شخصیت سے کیونکر آگے بڑھوں جس کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:روز قیامت علی جنتی سواری پر آئیں گے تو کوئی ندا کرنے والا ندا کرے گا۔:يا محمد كان لك في الدنيا والد حسن واخ حسن اما الوالد الحسن فابوك ابراهيم الخليل واما الأخ فعلي بن أبي طالب رضى الله تعالى عنه،اے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم! دنیا میں آپ کے ایک بہت اچھے والد ، ایک بہت اچھے بھائی تھے، والدابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اور بھائی علی المرتضی رضی اللہ عنہ

حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ایسی شخصیت پر کیسے فوقیت حاصل کرسکتا ہوں جس کی بابت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:إذا كان يوم القيامة يجيئ رضوان خازن الجنان بمفاتيح الجنةومفاتيح النار ويقول يا أبا بكر الرب جل جلالہ يقرئك السلام ويقول لك هذه مفاتيح الجنة و هذه مفاتيح النار إبعث من شئت إلى الجنة وابعث إلى النّار۔روز محشر جنت کا خازن رضوان جنت اور دوزخ کی چابیاں لے کر ابوبکرصدیق کی خدمت میں پیش کرے گا اور کہے گا اے ابوبکر ! رب کریم جلّ جلالہ آپ کو سلام فرماتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ یہ جنت اور دوزخ کی چابیاں اپنےپاس رکھ لو، جسے چاہو جنت میں بھیج دو اور جسے چاہو دوزخ میں بھیج دو۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ایسے شخص پر تقدم کیوں کروں جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:إن جبريل عليه السّلام أتاني فقال لي يا محمد إن الله يقرئك السلام ويقول لك أنا أحبك وأحب علیا فسجدت شکرا۔

جبریل امین علیہ السلام نے مجھے آ کر بتایا کہ اللہ پاک آپ کو سلام کے بعد فرماتا ہے کہ میں تم سے اور علی سے محبت کرتا ہوں ۔ اس پر میں نے سجدہ شکر ادا کیا پھر کہا: اللہ پاک فرماتا ہے ۔ میں فاطمہ سے بھی محبت کرتا ہوں ، میں سجدہ شکر بجالایا۔ پھر کہا میں حسن و حسین سے بھی محبت کرتا ہوں ۔ میں نے سجدہ شکر ادا کیا۔

حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ایسے بزرگ سے کیسے آگے بڑھوں جس کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لو وزن إيمان أبي بكر بايمان أهل الأرض لرجح عليهم ،اگر روئےزمین کے تمام لوگوں کے ایمان کا ابوبکر کے ایمان کے ساتھ وزن کیا جائے تو ابوبکر کا ایمان سب سے وزنی ہوگا۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ایسی محبوب شخصیت سے کیسے آگے بڑھوں جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر دی ہو

" قیامت کے دن علی المرتضی ، ان کی اہلیہ اور اولاد اونٹوں پر سوار ہوکر آئیں گے تو لوگ کہیں گے : یہ کون ہیں؟ منادی کہے گا: یہ اللہ پاک کے حبیب ہیں یہ علی بن ابی طالب ہیں"

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: بھلا میں ایسی محترم شخصیت سے کیونکر آگے بڑھوں جن کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : اہل محشر جنت کے آٹھوں دروازوں سے یہ آواز سنیں گے:ادخل من حيث شئت أيها الصديق الأكبر ،صدیق اکبر جنت کے جس دروازے سے جی چاہے تشریف لائیں‘‘۔

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس شخص سے آگے نہیں بڑھوں گا جس کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہو :بين قصري وقصر إبراهيم الخليل قصر على

علی کا محل میرے اور ابراھیم علیہ السلام کے محلوں کے درمیان ہوگا:

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اس وجیہ مرد سے کیسے آگے بڑھوں جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے: إن أهل السموات من الكروبيين والروحانيين والملاء الأعلى لينظرون في كل يوم إلى أبي بكر رضى الله تعالى عنه ، آسمانوں کے فرشتے ، کروبین ، روحانیان اور ملاء اعلی روزانہ ابو بکر کو تکتےرہتے ہیں۔

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ایسی شخصیت پر تقدم کیوں کروں جس کے گھر والوں اور خود اس کے حق میں اللہ پاک نے یہ آیت نازل فرمائی ہو:وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا(۸) اور کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور اسیر کو۔

(پ 29،الدھر:8)

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ایسے متقی پر کیسے فائق ہوسکتا ہوں جس کے بارے میں اللہ پاک کا یہ فرمان والا شان ہو:وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(۳۳) وہ جو سچ لے کر تشریف لائے اور جنہوں نے ان کی تصدیق کی یہی وہ لوگ ہیں جو پرہیز گار ہیں۔۔(پ 24،الزمر:33)

دونوں شخصیات کا باہمی اعزاز واکرام دیدنی تھا۔ ان کا محبت بھرا مکالمہ جاری تھا کہ جبریل امین علیہ السلام رب العالمین کی طرف سے رسول صادق وامین صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی :یارسول اللہ ! اللہ پاک آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ ساتوں آسمانوں کے فرشتے اس وقت ابو بکر صدیق اور علی المرتضی رضی اللہ عنھما کی زیارت کر رہے ہیں اور ان کی ادب واحترام پر مبنی گفتگو سن رہے ہیں ۔ اللہ پاک نے ان دونوں حضرات کے حسن ادب، حسن اسلام ،اور حسن ایمان کے باعث اپنی رحمت ورضوان سے ڈھانپ لیا ہے۔ آپ ان کے پاس ثالث کی حیثیت سے تشریف لے جائیں۔ چنانچہ حضور تشریف لائے ۔ دونوں کی باہمی محبت دیکھ کر ان کی پیشانی کو بوسہ دیا اور فرمایا: قسم ہے اس (رب) کے حق کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد کی جان ہے، اگر سارے سمندر سیاہی ہو جائیں ، درخت قلمیں بن جائیں اور زمین و آسمان والے لکھنے بیٹھ جائیں پھر بھی تمہاری فضیلت اور اجر بیان کرنے سے عاجز رہ جائیں۔

(شان صدیق اکبر بزبان فاتح خیبر بحوالہ تاریخ الخلفا)


صحابیتِ صدیق اکبر کا ذکرقرآن مجید میں :

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت و رفاقت قرآن کریم سے ثابت ہے اور اس کا انکار ، قرآن پاک کا انکار ہے۔ اس فضیلت وعظمت کا تذکرہ فرماتے ہوئے حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: تمام لوگوں کی اللہ نے مذمت کی ہے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی یوں تعریف کی ہے :اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَاۚ

ترجَمۂ کنزُالایمان: اگر تم محبوب کی مدد نہ کرو تو بیشک اللہ نے ان کی مدد فرمائی جب کافروں کی شرارت سے انہیں باہر تشریف لے جانا ہوا صرف دو جان سے جب وہ دونوں غار میں تھے جب اپنے یار سے فرماتے تھے غم نہ کھا بےشک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔

حدیث شریف کی روشنی میں:

(1)فرشتوں کی امداد :

حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ بدر کے دن مجھ سے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” تم میں سے ایک کے ساتھ جبرئیل ہیں اور ایک کے ساتھ میکائیل ہیں‘‘۔ (شان صدیق اکبر بزبان فاتح خیبر، ص: 13)

امامت سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ اللہ کے حکم سے:

(1) حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کوفضیلت و امامت اللہ کے حکم سے عطا ہوئی تھی چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سَأَلْتُ اللّٰهَ أَنْ يُقَدِّمَكَ ثَلاثًا فَابٰى عِلىَّ أِلَّا تَقْدِیْمَ أَبِیْ بَکْرٍ ، ”میں نے اللہ پاک کی بارگاہ میں تین بارسوال کیا کہ تمہیں امام بناؤں مگر وہاں سے انکار ہوا اور ابو بکر ہی کو امامت کا حکم ہوا ۔(ایضاً)

(3)ہر نیک کام میں سبقت لے جانے والے :

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ہر نیک کام میں آگے بڑھنے کی صفت بیان کرتے

ہوئے حضرت علی شیر خدارضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ میں نے جس کام میں بھی سبقت کا ارادہ کیا اس میں حضرت ابوبکررضی عنہ ہی سبقت لےگئے ۔

(شان صدیق اکبر بزبان فاتح خیبر ،ص: 19)

(4)اللہ کوسب سے پیارے صدیق اکبر :

حضرت علی شیر خدارضی عنہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کے پاس سے گزرے اس حالت میں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر صرف ایک کپڑا تھا۔ یہ عالم دیکھ کر حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:مَا أَحَدٌ َلقِىَ اللّٰهَ بِصَحَيْفِةٍ أَحَبُّ مِنْ هٰذا المَسْجِىْ۔

کوئی صحیفہ والا اللہ کواتنا محبوب نہیں جتنا یہ ایک کپڑے والا اس کو محبوب ہے(حوالہ ایضاً)


قرآن مجید کی روشنی میں:

(1)صداقت صدیق اکبر کی جانب قرآن پاک کا اشارہ: قرآن حکیم کی سورۃ الزمر میں اللہ پاک نے حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی شان میں ارشادفرمایا:وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(۳۳)اور وہ جویہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے ان کی تصدیق کی یہی ڈروالے ہیں ۔(پ 24،الزمر:33)

اس آیت کی تشریح و توضیح میں حضرت سید ناعلی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:والذي جاء بالحق محمد وصدق به ابوبكر الصديق”وہ جوحق یعنی دین اسلام لے کر آئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور جنہوں نےان کی تصدیق کی وہ ابو بکر صدیق ہیں‘‘۔

حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ برسرمنبرعلی الاعلان حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے مقام صدیقیت کا تذکرہ فرماتے تھے۔ چنانچہ ابویحیی کہتے ہیں: لاَ أُحْصِى كَم سَمِعْت عـليـا يـقـول عَلَى الْمِنْبَرِ : إنَّ اللَّهَ سَمَّى ابوبکر على لسان نبيه صديقاً۔ ”میں نے بار ہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کومنبر پر یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ پاک نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نام صدیق رکھا‘‘۔

یونہی حکیم بن سعد روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک بار قسم اٹھا کریہ فرماتے ہوئے سنا:أَنْزَلَ اللَّهُ اسْمُ أَبِي بَكْرٍ مِنْ السَّمَاءِ الصِّدِّيق’’اللہ پاک نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کانام صدیق آسمان سے نازل فرمایا ہے۔

شان صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بزبان فتح خیبر رضی اللہ عنہ ازقلم حافظ محمدعطاءالرحمن رضوی صفحہ نمبر 9 مکتبہ اعلی حضرت حدیث کی روشنی میں:

(1)عن الشعبي عن علی رضی الله عنہ عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : " أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ، مَا خَلَا النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ، لَا تُخْبِرْهُمَا يَا عَلِيُّ اخرجه في كشف الاستار عن زوائد البزار

امام شعبی مولی علی رضی اللہ عنہ سے راوی کہ حضور نبی کریم علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم نے ارشاد فرمایا''ابوبکروعمر انبیاء و مرسلین کے اور تمام اگلے پچھلے جنتی بوڑھوں کے سردار ہیں ۔اے علی! آپ ان کو اس بات سے باخبر نہ کیجئے گا۔ اس کو کشف الاستارعن زوائد البزار میں روایت کیا۔( کشف الاستارعن زوائد البزار : 2492، مناقب ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ )

افضلیت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ مصنف محمد ہاشم ٹھٹوی سندھی رحمۃ اللہ علیہ صفحہ نمبر 198میں امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: فرماتے ہیں ۔( شان صدیق اکبر بزبان فتح خیبر، ص11)

یہ دونوں ہیں سردار دو جہاں

اے مرتضی عتیق و عمر کو خبر نہ ہو

حضرت علی شیر خدا نے خبر غیب دیتے ہوئے فرمایا :جو مجھے ابوبکر وعمر سے افضل کہے گا میں ایسے شخص کو کوڑے لگا کر دردناک سزادوں گا۔ عنقریب آخر زمانہ میں ایسے لوگ ہوں گے جو ہماری محبت کا دعوی کر یں گے۔(والتشيع فينا)

اور ہمارے گروہ میں ہونا ظاہر کر یں گے دولوگ اللہ پاک کے شریربندوں میں سے ہیں جو ابوبکر وعمر کو برا کہتے ہیں۔(شان صدیق اکبر بزبان فتح خیبر عطاء الرحمن رضوی، ص: 30)


پیارے پیارے اسلامی بھائیو یقیناً صحابہ کرام علیہم الرضوان کا مقام و مرتبہ ساری امت سے افضل واعلیٰ ہے۔ اب قیامت تک چاہے کوئی کتنی ہی عبادت وریاضت کرے، ان کے برابر نہیں ہوسکتا۔  یہ شان ہر صحابی کوحاصل ہے تو پھر ذرا سوچئے کہ امام الصحابہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے برابرکون ہوسکتا ہے؟ جنہوں نے مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ پھر دعوت اسلام کی راہ میں آنے والی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ سفر ہجرت میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت و معیت کا شرف حاصل کیا۔

صداقت صدیق اکبر کی جانب قرآن پاک کا اشارہ:

قرآن حکیم کی سورۃ الزمر میں اللہ پاک نے حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی شان میں ارشاد فرمایا:وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(۳۳)ترجمہ کنز العرفان: اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جس نے ان کی تصدیق کی یہی پرہیزگار ہیں۔(پ 24،الزمر:33)

اس آیت کی تشریح و توضیح میں حضرت سیدناعلی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: والذي جاء بالحق محمد وصدق به ابوبكر الصديق ترجمہ:وہ جو حق یعنی دین اسلام لے کر آئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور جنہوں نےان کی تصدیق کی وہ ابو بکر صدیق ہیں ۔

شان غار یار احادیث مبارکہ سے:

حضرت سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کی شان میں وارد ہونے والی احادیث پاک کی تعدادتقریبا 316 ہے۔ یہاں پر موضوع کی مناسبت سے ہم صرف وہی احادیث پاک نقل کر رہے ہیں جو حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ ہیں ۔

اہل جنت کے سردار:

(1) حدیث پاک میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا تو حضرت ابوبکر صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما اچانک آتے نظر آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا:هذان سيدا كهول أهل الجنة من الأولين والآخرين إلّا النّبيين والمرسلين لا تخبرهما يا عليّترجمہ: یہ دونوں نبیوں اور رسولوں کے سوا سب اولین و آخرین ادھیڑ عمر جنتیوں کے سردار ہیں۔ اے علی ! تم انہیں نہ بتانا۔کلام الامام امام کلام ، امام احمد رضا خان ، اس حدیث پاک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

فرماتے ہیں یہ دونوں ہیں سردار دوجہاں

اے مرتضی عتیق و عمر کو خبر نہ ہو

دعائے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم:

(2) حضرت علی المرتضی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

رحم الله ابابكر زوجنى بنته، و حملني إلى دار الهجرة واعتق بلالاً من ماله،ترجمہ:اللہ پاک ابوبکر پر رحم فرمائے کہ انہوں نے اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کیا، اور دارالہجرت یعنی مدینہ تک پہنچایا اور اپنے مال سے بلال کو آزاد کروایا۔

اللہ کو سب سے پیارے صدیق اکبر:(3)حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق ان کے پاس سے گزرےاس حالت میں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ پر صرف ایک کپڑا تھا۔ یہ عالم دیکھ کر حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ما احد لقى الله بصحيفة أحب من هذا المسجى،ترجمہ: کوئی صحیفہ والا اللہ کواتنا محبوب نہیں جتنا یہ ایک کپڑے والا اس کومحبوب ہے۔

اسی کوڑوں کی سزا:(4) حضرت علی شیر خدا نے اعلان فرمایا:لا يفضلني أحد على ابی بکر و عمر إلا جلدته حد المفتریترجمہ: جو شخص بھی مجھے ابوبکر وعمر پرفضیلت دے گا۔ میں اس کو مفتری کی سزا ( اسی کوڑے) لگاؤں گا۔

سب سے بڑے بہادر ،سیدنا صدیق اکبر:

ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے دریافت کیا : بتاؤ کہ سب سے زیادہ بہادرکون ہے؟ حاضرین نے جواب دیا: کہ آپ سب سے زیادہ بہادر ہیں ۔ آپ نے فرمایا:میں تو ہمیشہ اپنے برابر کے جوڑ سے لڑتا ہوں پھر میں سب سے بہادر کیسے ہوا؟ تم یہ بتاؤ کہ سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟ لوگوں نے کہا: جناب ہمیں نہیں معلوم آپ ہی ارشادفرمائیں ۔ جواباً حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ بہادر (اشجع الناس ) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔سنو! جنگ بدر میں ہم نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ایک سائبان بنایا۔ ہم نےآپس میں مشورہ کیا کہ ( اس سائبان کے نیچے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کون رہے گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی مشرک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کر دے۔ خدا کی قسم ! ہم میں سے کوئی بھی آگےنہیں بڑھا تھا کہ اتنے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ شمشیر برہنہ ہاتھ میں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہو گئے اور پھر کسی مشرک کو آپ کے پاس آنے کی جرات نہ ہوسکی۔اگر کسی نے ایسی جرات کی بھی تو آپ فورا اس پر ٹوٹ پڑے۔اس لئے آپ ہی سب سےزیادہ بہادر تھے۔

شیر خدا نے اس کو کہا اشجع الناس

کیا اس سے بڑھ کے اس کی شجاعت کی ہو سند

اس کے ثبات و عزم پر قربان جائیے

دین مبیں پہ آنے نہ دی جس نے کوئی زد

(بحوالہ شان صدیق اکبر بزبان فاتح خیبر)


صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان کے مابین محبّت و الفت کی بہت پیاری فضا تھی، اسی کا ایک مظہر خلیفۂ اوّل حضرت سیدنا ابوبکر صدّیق رضی اللہُ عنہ اور خلیفہ ٔ چہارم حضرت سیّدنا علیُّ المرتضیٰ رضی اللہُ عنہ کے درمیان محبت کا رشتہ تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت سیدنا علیُّ المرتضیٰ رضی اللہُ عنہ کئی مواقع پر شانِ صدّیقِ اکبر بیان فرمایا کرتے تھے جیسا کہ ایک موقع پر حضرت علی رضی اللہُ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ کی بہادری کے بارے میں فرماتے ہیں:

بدر کے روز ہم نے حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت اور حفاظت کے لئے سائبان بنایا، ہم میں سے کوئی بھی آگے نہ بڑھا سوائے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ کے جوننگی تلوار لئے حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس کھڑے ہو گئے اور کوئی کافر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قریب نہ پھٹکا اسی لئے ہم میں سب سے زیادہ بہادر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ ہیں۔ ( کنز العمال، 6/235،حدیث:35685 ملخصاً)

حضرت علی رضی اللہُ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ کے جذبہ ٔ ایمان کے بارے میں فرماتے ہیں:خدا کی قسم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ کی حیاتِ طیّبہ کا ایک لمحہ آلِ فرعون کے مؤمن جیسے شخص کے ہزاروں لمحات سے بہتر ہے۔ ارے وہ شخص (آل فرعون کا مؤمن) تو اپنے ایمان کو چھپایا کرتا تھا اور یہ پاکیزہ ہستی اپنے ایمان کا علانیہ اظہار کرتی تھی۔

( مسند البزار،3/15،حدیث:761 ملخصاً)

دینی اور دنیاوی معاملات میں بھی حضرت علی رضی اللہُ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ کو فوقیت دیتے تھے چنانچہ فرماتے ہیں کہ حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ کو لوگوں کی امامت کا حکم دیا جبکہ میں اس وقت موجود تھا اور بیمار بھی نہیں تھا، ہم دنیاوی امور کے لئے اس شخصیت کے انتخاب پر راضی ہوگئےجس پر حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمارے لئے دینی امور میں رضا مندی کا اظہار فرمایا۔

(کنز العمال،6/230،حدیث:35665)

جب خلافت کی بات آئی تو حضرت سیدنا علیُّ المرتضیٰ رضی اللہُ عنہ نے واضح طور پر ارشاد فرمایا:غور سے سُن لو! ہم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ کو ہی خلافت کا اہل سمجھا ہے۔

(المستدرک4/27،حدیث:4519ملخصاً)

شیرِ خدا کے بیٹے حضرت سیدنا محمد بن حنفیہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد گرامی سے پوچھا: نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد لوگوں میں سب سے افضل کون ہے ارشاد فرمایا :ابوبکر رضی اللہُ عنہ۔ (بخاری،2/522،حدیث:3671)

ظاہر ہے کہ کسی کی محبت دل میں ہو تو ہی تعریف کی جاتی ہے اور ان پاک ہستیوں سے تو جھوٹی تعریف کا گمان ہی نہیں کیا جا سکتا لہٰذا ان تمام فرامینِ شیرِ خدا سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت سیّدنا علیُّ المرتضیٰ کو حضرت سیّدنا صدیق اکبر سے بےپناہ محبت تھی جو حضرت صدّیقِ اکبر کی شان بیان کرنے پر ابھارتی تھی۔ رضی اللہُ عنہما

اللہ پاک ہمیں ان دونوں ہستیوں اور تمام صحابہ واہلِ بیت کی پکی سچی محبت عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم