علی ہیں اس کے دشمن اور وہ
دشمن علی کا ہے
جو دشمن عقل کا، دشمن ہوا
صدیق اکبر کا
حضرت سیدنا صدیق اکبر اور حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہما کی باہمی عقیدت و محبت:
حضرت سیدنا ابوہریرہ
رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں:ایک دن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت
علی المرتضی رضی
اللہ عنہ کا شانہ نبوی میں حاضری کیلئے آئے۔ حضرت علی المرتضی رضی
اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر
صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا: دروازہ پر آپ دستک دیجیے ۔ حضرت ابو بکر صدیق
نے کہا: آپ آگے بڑھیے ۔
حضرت علی المرتضی نے کہا: میں ایسے شخص سے آگے نہیں بڑھ
سکتا جس کے بارے میں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے سنا:ما طلعت شمس ولا غربت من بعدى على
رجل أفضل من ابي بكر الصديق۔ کسی شخص پر سورج طلوع و غروب نہ ہوگا جو میرے بعد ابوبکر
صدیق سے افضل ہو۔ (یعنی میرے بعدابو بکر صدیق سب سے افضل ہیں ۔ )
حضرت ابو بکر
صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: میں
ایسے شخص سے بڑھنے کی جرات کیسے کرسکتا
ہوں جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أعطيت خير النساء بخير الرجال۔ میں نے سب سے بہتر عورت کو سب سے بہتر شخص کے
نکاح میں دیا۔
حضرت علی المرتضی
رضی اللہ عنہ نے کہا: میں
ایسے شخص سے کیسے آگے بڑھوں جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہو
: من اراد ان
ينظر الى صدر ابراهيم الخليل فلينظر إلى صدر ابی بکر ۔ جو شخص ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام کے سینہ
مبارک کی زیارت کرنا چاہئے وہ ابو بکر کے سینہ کو دیکھ لے۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا:میں
بھلا آپ سے کیسے تقدم کروں جن کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سنا
ہے: من اراد ان
ينظر إلى صدر ادم والى يوسف وحسنه والى موسى وصـلـوتـه وإلى عيسى وزهده وإلى محمد (صلى الله عـليـه وسلم) وخلقه فلينظر إلى عليّ ، جو شخص حضرت آدم
کا سینہ مبارک ، حضرت یوسف اور ان کا حسن و جمال، حضرت موسی اور ان کی نماز ، حضرت
عیسٰی اور ان کے زہد وتقوی اور حضرت محمد مصطفی علیہ التحیۃ والثناء اور آپ کے خلق
عظیم کو دیکھنا چاہئے وہ علی المرتضی کو دیکھ لے۔
حضرت علی المرتضی
رضی اللہ عنہ نے کہا: میں
ایسی شخصیت سے پیش قدمی کی جرات کیسے کروں جس کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمائیں:إذا اجتمع العالم في عرصات القيامة
يوم الحسرة، والندامة ،ینادي مناد مـن قبل الحق عز وجل يا أبا بكر أدخل أنت ومحبوبك
الجنة۔جب میدان محشر میں حسرت و ندامت کے دن تمام لوگ جمع ہوں گے ،ایک منادی اللہ
پاک کی جانب سے ندا کرے گا ،اے ابوبکر !
تم اپنے محبوب کی معیت میں جنت میں داخل ہو جاؤ۔
حضرت سیدنا
ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے کہا:میں
ایسے شخص سے تقدیم کیسے کرسکتا ہوں جس کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
خیبر اور حنین کے موقع پر جب آپ کی خدمت میں دودھ اور کھجور کا ہدیہ کیا تو فرمایا:ھذہ ھدیۃمن الطالب الغالب لعلی بن
ابی طالب
یہ ہدیہ طالب
وغالب کی طرف سے علی بن ابی طالب کے لئے ہے۔
حضرت سید نا علی
مرتضی رضی اللہ
عنہ نے کہا: میں آپ سے کیوں کر آگے بڑھوں جب رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کیلئے یہ فرمایا ہو :أنت يا ابا بکرعینی۔ ترجمہ:ابوبکر
تم میری آنکھ ہو۔
حضرت ابو بکر
صدیق نے کہا: میں ایسی شخصیت سے کیونکر آگے بڑھوں جس کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:روز
قیامت علی جنتی سواری پر آئیں گے تو کوئی ندا کرنے والا ندا کرے گا۔:يا محمد كان لك في الدنيا والد حسن
واخ حسن اما الوالد الحسن فابوك ابراهيم الخليل واما الأخ فعلي بن أبي طالب رضى
الله تعالى عنه،اے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم! دنیا میں آپ کے ایک بہت
اچھے والد ، ایک بہت اچھے بھائی تھے، والدابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اور بھائی
علی المرتضی رضی اللہ عنہ
حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں
ایسی شخصیت پر کیسے فوقیت حاصل کرسکتا ہوں جس کی بابت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی
ہے:إذا كان يوم
القيامة يجيئ رضوان خازن الجنان بمفاتيح الجنةومفاتيح النار ويقول يا أبا بكر الرب
جل جلالہ يقرئك السلام ويقول لك هذه مفاتيح الجنة و هذه مفاتيح النار إبعث من شئت
إلى الجنة وابعث إلى النّار۔روز محشر جنت کا خازن رضوان جنت اور دوزخ کی چابیاں لے کر
ابوبکرصدیق کی خدمت میں پیش کرے گا اور کہے گا اے ابوبکر ! رب کریم جلّ جلالہ آپ
کو سلام فرماتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ یہ جنت اور دوزخ کی چابیاں اپنےپاس رکھ لو،
جسے چاہو جنت میں بھیج دو اور جسے چاہو دوزخ میں بھیج دو۔
حضرت ابوبکر صدیق
رضی اللہ عنہ نے کہا: میں
ایسے شخص پر تقدم کیوں کروں جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:إن جبريل عليه السّلام أتاني فقال لي
يا محمد إن الله يقرئك السلام ويقول لك أنا أحبك وأحب علیا فسجدت شکرا۔
جبریل امین علیہ
السلام نے مجھے آ کر بتایا کہ اللہ پاک آپ کو سلام کے
بعد فرماتا ہے کہ میں تم سے اور علی سے محبت کرتا ہوں ۔ اس پر میں نے سجدہ شکر ادا
کیا پھر کہا: اللہ پاک فرماتا ہے ۔ میں فاطمہ سے بھی محبت کرتا ہوں ، میں سجدہ شکر
بجالایا۔ پھر کہا میں حسن و حسین سے بھی محبت کرتا ہوں ۔ میں نے سجدہ شکر ادا کیا۔
حضرت علی المرتضی
رضی اللہ عنہ نے کہا: میں
ایسے بزرگ سے کیسے آگے بڑھوں جس کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لو وزن إيمان أبي بكر بايمان أهل الأرض لرجح عليهم ،اگر روئےزمین کے
تمام لوگوں کے ایمان کا ابوبکر کے ایمان کے ساتھ وزن کیا جائے تو ابوبکر کا ایمان
سب سے وزنی ہوگا۔
حضرت ابو بکر
صدیق رضی اللہ
عنہ نے کہا: میں ایسی محبوب شخصیت سے
کیسے آگے بڑھوں جس کے بارے میں رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر دی ہو
" قیامت کے
دن علی المرتضی ، ان کی اہلیہ اور اولاد اونٹوں پر سوار ہوکر آئیں گے تو لوگ کہیں
گے : یہ کون ہیں؟ منادی کہے گا: یہ اللہ پاک کے حبیب ہیں یہ علی بن ابی طالب ہیں"
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: بھلا
میں ایسی محترم شخصیت سے کیونکر آگے بڑھوں جن کے بارے میں حضور صلی
اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : اہل محشر جنت کے آٹھوں دروازوں سے یہ
آواز سنیں گے:ادخل
من حيث شئت أيها الصديق الأكبر ،صدیق اکبر جنت کے جس دروازے سے جی چاہے تشریف لائیں‘‘۔
حضرت ابو بکر رضی
اللہ عنہ نے کہا: میں
اس شخص سے آگے نہیں بڑھوں گا جس کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہو :بين قصري وقصر إبراهيم الخليل قصر
على
علی کا محل میرے اور ابراھیم علیہ
السلام کے محلوں کے درمیان ہوگا:
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اس
وجیہ مرد سے کیسے آگے بڑھوں جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان
عالیشان ہے: إن أهل
السموات من الكروبيين والروحانيين والملاء الأعلى لينظرون في كل يوم إلى أبي بكر
رضى الله تعالى عنه ، آسمانوں کے فرشتے ، کروبین ، روحانیان اور ملاء اعلی
روزانہ ابو بکر کو تکتےرہتے ہیں۔
سیدنا ابوبکر
صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ایسی شخصیت
پر تقدم کیوں کروں جس کے گھر والوں اور خود اس کے حق میں اللہ پاک نے یہ آیت نازل
فرمائی ہو:وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ
مِسْكِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا(۸) اور کھانا
کھلاتے ہیں اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور اسیر کو۔
(پ 29،الدھر:8)
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں
ایسے متقی پر کیسے فائق ہوسکتا ہوں جس کے بارے میں اللہ پاک کا یہ فرمان والا شان
ہو:وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ
بِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(۳۳) وہ جو سچ لے کر تشریف لائے اور جنہوں نے ان کی تصدیق کی
یہی وہ لوگ ہیں جو پرہیز گار ہیں۔۔(پ
24،الزمر:33)
دونوں شخصیات کا
باہمی اعزاز واکرام دیدنی تھا۔ ان کا محبت بھرا مکالمہ جاری تھا کہ جبریل امین
علیہ السلام رب العالمین کی طرف سے رسول صادق وامین صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ
میں حاضر ہوئے اور عرض کی :یارسول اللہ ! اللہ پاک آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا
ہے کہ ساتوں آسمانوں کے فرشتے اس وقت ابو بکر صدیق اور علی المرتضی رضی اللہ عنھما کی زیارت
کر رہے ہیں اور ان کی ادب واحترام پر مبنی گفتگو سن رہے ہیں ۔ اللہ پاک نے ان
دونوں حضرات کے حسن ادب، حسن اسلام ،اور حسن ایمان کے باعث اپنی رحمت ورضوان سے
ڈھانپ لیا ہے۔ آپ ان کے پاس ثالث کی حیثیت سے تشریف لے جائیں۔ چنانچہ حضور تشریف لائے
۔ دونوں کی باہمی محبت دیکھ کر ان کی پیشانی کو بوسہ دیا اور فرمایا: قسم ہے اس
(رب) کے حق کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد کی جان ہے، اگر سارے سمندر سیاہی ہو جائیں
، درخت قلمیں بن جائیں اور زمین و آسمان والے لکھنے بیٹھ جائیں پھر بھی تمہاری
فضیلت اور اجر بیان کرنے سے عاجز رہ جائیں۔
(شان صدیق اکبر بزبان فاتح خیبر بحوالہ تاریخ الخلفا)