تمہید: اللہ رب العزت نے قرآن مجید برہانِ رشید میں اپنے محبوب کریم علیہ السلام کے اصحاب کا ذکر خیر اس انداز میں بیان فرمایا: رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ ترجمہ کنز الایمان :اور آپس میں نرم دل ہے۔(پ 26، الفتح:29)

صحابہ کرام آپس میں ایسے نرم دل تھے کہ ایک دوسرے سے محبت اس طرح فرماتے کہ جیسے ایک باپ اپنے بیٹے سے کرتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت میں مسلمانوں کے لئے نصیحت کے مدنی پھول ہیں، کہ ایک مسلمان اپنے مسلمان بھائی سے نفرت نہ کرے بلکہ شفقت اور نرمی سے پیش آئے۔

شان یارِ غار بزبانِ حیدرِ کرّار:

1۔ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ میں نے جس کام میں بھی سبقت کا ارادہ کیا اس میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مجھ سے سبقت لے گئے۔( مجمع الزوائد،9/29،الحدیث:14332)

2۔ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس امت میں اللہ پاک کے محبوب کے بعد اللہ پاک کے نزدیک سب سے زیادہ معزز شخص سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہیں۔ کیونکہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے قرآن مجید کو جمع کرنا شروع کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو اس کی قدیم حسن و خوبیوں کے ساتھ قائم فرمایا۔

(جمع الجوامع، مسند ابی بکر،11/39،الحدیث:157)

3۔حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ چار باتوں میں مجھ سے سبقت لے گئے:(1) انہوں نے مجھ سے پہلے اظہار اسلام کیا۔ (2)مجھ سے پہلے ہجرت کی۔ (3) سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے یارِغار ہونے کا شرف پایا۔ (4) سب سے پہلے نماز قائم فرمائی۔( الریاض النضرۃ 1/89)

4۔ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تمام نیکیوں میں سے صرف ایک نیکی ہوں۔( تاریخ مدینہ دمشق 30/383)