حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ہیں۔ آپ ان اکبر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ہیں جنھوں نے دین اسلام کا جھنڈا اپنے کندھوں پر اٹھایا اور اسلام کی سربلندی کے لئے تحمل و برداشت سے کام لیا۔ آپ کا نام ”عبداللہ“ہے، کنیت ”ابو قحافہ“ ہے اور ”صدیق“ آپ کا لقب ہے۔ تمام صحابہ دل و جان سے آپ کی تعظیم کرتے۔

چنانچہ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اے لوگو! مجھے خبر دو کہ سب سے بہادر اور شجاع کون شخص ہے؟ لوگوں نے کہا: آپ ہیں۔ فرمایا: میں ہمیشہ اپنے برابر کے جوڑ کے ساتھ لڑتا ہوں میں کوئی بہادر نہیں ہوں، تم میں سب سے بہادر شخص کا نام بتلاؤ، عرض کیا: ہمیں معلوم نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: سب سے شجاع اور بہادر حضرت ابوبکر صدیق ہیں۔ جنگ بدر میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ہم نے ایک سائبان بنایا تھا۔ ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کی حفاظت کیلئے کون شخص رہے گا؟ اللہ کی قسم! ہم میں سے کسی کو بھی ہمت نہ ہوئی ،مگر حضرت ابوبکر صدیق ننگی تلوار ہاتھ میں لے کر کھڑے ہو گئے اور کسی کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک نہ پہنچنے دیا، اگر کوئی آپ پر حملہ کرتا تو آپ فورا اس پر جھپٹ پڑتے اور حملہ کر دیتے ۔ لہذا آپ سب سے زیادہ بہادر تھے۔ (اس کو بزار نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔)

حضرت محمد بن علی المرتضی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد ماجد حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کون افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: حضرت ابوبکر صدیق ۔ میں نے کہا: ان کے بعد تو فرمایا : حضرت عمر ۔ ان کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا نام لیتے ہوۓ ڈرا اور عرض کیا کہ پھر آپ افضل ہیں آپ نے فرمایا: میری کیا ہستی ہے؟ میں تو ایک معمولی مسلمان ہوں ۔ امام احمد کہتے ہیں کہ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے متواتر چند مرتبہ منقول ہے کہ اس امت میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق سب سے افضل ہیں۔

حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق پر مجھ کو جو بھی فضیلت دے گا میں اس کو تہمت کی حد اسی (80) کوڑے لگاؤں گا ۔

(ابن عساکر)

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما کی شان میں فرمایا کہ یہ دونوں انبیاء مرسلین کے علاوہ تمام اولین و آخرین سن رسیدہ شخصوں کے جنت میں سردار ہوں گے ۔ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح روایت ہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں اس امت کے نبی کے بعد سب سے اچھے شخص کے بارے میں خبر نہ دے دوں ۔وہ ابوبکر ہیں۔ پھر فرمایا۔ ابو بکر کے بعد اس امت کے سب سے اچھے شخص کے بارے میں تمہیں خبر نہ دے دوں۔ فرمایا عمر۔

حضرت یحیی بن حکیم بن سعد سے مروی ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قسم اٹھاتے ہوئے سنا کہ اللہ کی قسم! حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نام "صدیق" آسمان سے نازل کیا گیا۔

حضرت عبدالخیر سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا، "مصاحف میں اجر کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے بڑھ کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ یہ وہ ہیں جنھوں نے سب سے پہلے قرآن مجید کو تختیوں میں جمع کروایا۔

حاصل کلام یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بالخصوص اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بالعموم حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا دل و جان سے احتراز کرتے تھے۔ تمام صحابہ کرام میں باہم الفت و محبت تھی۔ تمام صحابہ کرام ہمارے سر کے تاج ہیں۔ ان کی محبت اور احترام ہم پر لازم ہے۔ پھر چاہے وہ حضرت ابوبکر صدیق ہوں یا حضرت علی یا حضرت امیر معاویہ یا کوئی بھی صحابی رضی اللہ عنہم ہوں، ہمارا ان کے بارے میں یہ عقیدہ ہے:۔

(تاریخ خلفا،اخوة على و ابوبكر، المجلد اول)

ہر صحابی نبی جنتی جنتی