تمام تعریف اللہ پاک کے لئے جس نے ہمیں انسان بنایا اور وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَفرما کر ہمیں تمام مخلوق پر برتری عطا فرمایا اور درود و سلام حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر جسے اللہ نے لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فرما کر ہماری رہنمائی فرمایا۔

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس میں کسی طرح کا کوئی بھید بھاؤ نہیں جس میں کوئی اونچ نیچ نہیں۔

حدیث شریف میں ہے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمیں ایام تشریق کے درمیان دن کو خطبۃ الوداع ارشاد فرمایا اور فرمایا: لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے، آگاہ ہو جاؤ! کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سرخ رنگ والے کو کالے رنگ والے پر اور کسی سیاہ رنگ والے کو سرخ رنگ والے پر کوئی فضیلت و برتری حاصل نہیں، مگر تقویٰ کے ساتھ، جیسا کہ ارشاد باری ہے: اللہ پاک کے ہاں تم میں سے وہ شخص سب سے زیادہ معزز ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے ، خبردار! کیا میں نے (اللہ کا پیغام) پہنچا دیا ہے؟ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیوں نہیں۔ پھر فرمایا: حاضر لوگ یہ باتیں غائب لوگوں تک پہنچا دیں۔

پیارے اسلامی بھائیو! اس حدیث شریف میں اللہ کے پیارے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھید بھاؤ کو اونچ نیچ، افضل اعلی، آقا غلام، گورے کالے، عربی عجمی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا لیکن ایک انسان کو دوسرے انسان پر تقویٰ میں فرق کیا۔

تقویٰ کسے کہتے ہیں: تقوی کی ایک یہ بھی تعریف کی جاتی ہے اپنے آپ کو ہر قسم کے گناہ یعنی حرام ارتکاب اور ترک نماز و روزہ وغیرہ سے بچانا اور صغیرہ گناہوں سے محفوظ رکھنا ارتکاب مکروہ تحریمی اور ترک واجب سے بچانا اور ساتھ ہی اساءت (برائی) کے ارتکاب اور سنت مؤکدہ کے ترک سے بچانا ۔ ( کنز التعريفات، ص 24)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں تقوی کو اپنانے کا حکم دیا گیا اور بد اخلاق سے بچنے کا گناہ سے بچنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے ۔

اے میرے پیارے اسلامی بھائی بد اخلاق وہ افعال ہے جس سے خدا اور اس کے رسول عزوجل وصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ناراض ہوتے ہیں ۔ بد اخلاق سے ہر کوئی پریشان رہتا ہے اس کوئی پسند نہیں کرتا کبھی وہ کسی کا غیبت آپ کے سامنے کرتا ہے تو آپ کی چغلی کسی کے سامنے کرتا اپنے آپ کو سب سے اچھا سمجھتا ہے اور دوسرے کو نیچا دیکھنے میں لگا رہتا اگر کبھی نیکی کر لیا تو تکبّر میں پڑ جاتا جب بھی بات کرے گا تو گالی نکالتا ہے اپنے والدین کی ایک نہیں سنتا وغیرہ وغیرہ

برا اخلاق خدا اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نافرمانی کرنا نماز کو تر کرنا روزہ نہ رکھنا بد کلامی کرنا ماں باپ کی خدمت نہ کرنا۔

بے ادبی کرنا اپنی خواہش کی پیروی کرنا برے دوست رکھنا نیکیوں سے دور بھاگنا وغیرہ

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! لوگو کے درمیان اپنی بات منوانے کے لئے جھگڑا کرنا۔

حدیث پاک میں آتا :(1) إِنَّ أَبْغَضَ الرِّجَالِ إِلَى اللَّهِ الأَلَدُّالْخَصِمُ ترجمہ: بے شک اللہ کے نزدیک زیادہ ناپسندیدہ لوگ بڑے جھگڑالو ہیں۔(رواه البخاري ومسلم)

(2) إِنَّ شَرَّ النَّاسِ مَنْزِلَةٌ عِندَ اللهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَنْ تَرَكَهُ النَّاسُ إِثْقَاءَ فُحْشِه ترجمہ یقیناً قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے بدتر و شخص ہو گا جسے لوگوں نے اس کی بد زبانی سے بیچنے کی خاطر چھوڑ دیا۔(رواه البخاری ومسلم)

( 3) حضرت سیدتنا اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ خاتم المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس میں تین باتوں میں سے کوئی ایک بھی نہ پائی جائے تو وہ اپنے کسی بھی عمل کے ثواب کی امید نہ رکھے: (1) ایسا تقویٰ جو حرام کاموں سے روکے (2) ایسا ظلم جو اسے گمراہی سے روکے (3) حسنِ اخلاق جس کے ساتھ وہ لوگوں میں زندگی گزارے۔ (حسنِ اخلاق، ص 23)

(4) حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی رحمت شفیع امت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جس نے بغیر نقص و عیب کے عاجزی کی اور خوشخبری ہے اُس کے لئے جو علمائے فقہ و حکمت سے میل جول رکھے اور ذلیل اور گنہگاروں کی محبت سے دور رہے۔ خوشخبری ہے اُس کے لئے جو اپنا زائد مال راہ خدا میں خرچ کر دے اور فضول گفتگو سے باز رہے۔ خوشخبری ہے اس کے لئے جو میری سنت کو اپنائے ہوئے ہو اور سنت کو چھوڑ کر بدعت اختیار نہ کرے۔(حسنِ اخلاق، ص 20)

(5)حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیوں کے سلطان، رحمت عالمیان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بروز قیامت تم میں سے مجھے زیادہ محبوب اور میری مجلس میں زیادہ قریب وہ لوگ ہوں گے جو اچھے اخلاق والے اور عاجزی اختیار کرنے والے ہوں گے، وہ لوگوں سے اور لوگ ان سے محبت کرتے ہیں اور تم میں سے میرے نزدیک ناپسندیدہ اور میری مجلس میں مجھ سے زیادہ دُور وہ لوگ ہوں گے جو بہت زیادہ باتیں کرنے والے، بک بک کرنے والے اور تکبر کرنے والے ہوں گے ۔

(6)حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور سرورِ عالم، نُورِ مُجَسَّم، شاہ بنی آدم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: میں نے بندوں کو اپنے علم سے پیدا کیا۔ پس جس سے میں بھلائی کا ارادہ کرتا ہوں اسے اچھے اخلاق عطا کر دیتا ہوں اور جس سے بُرائی کا ارادہ کرتا ہوں اسے بُرے اخلاق دے دیتا ہوں۔

پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں بد اخلاق کے بارے میں جاننا چائے اور اس چھوڑ کر نیک حسن اعمال کرنا چاہیے ذات کو برا بنانے والے افعال بہت سارے ہیں جیسے حرص، تکبر، غیبت ،چغلی ،ریا کاری یعنی دکھاوا، عجب، حسد، بغض و کینہ، حب مدح، حب جاه ،محبت دنیا ،طلب شہرت۔

پیارے اسلامی بھائیو! آپ اس کی تفصیل مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتب باطنی بیماریوں کی معلومات میں پڑھ سکتے ہیں ۔


پیارے اسلامی بھائیو! اللہ پاک نے ہم مسلمانوں کو ایک بہت بڑی دولت اور نعمت سے نوازا ہے جو اسلام کی دعوت پہنچنے کے لئے بہترین ذریعہ ہے وہ لوگوں سے اچھے اخلاق سے پیش آنا اور بداخلاقی سے دور رہنا ہے۔

دین اسلام جہاں پر محبت و اخوت (بھائی چارگی) کا درس دیتا ہے وہاں پر ہمارا پیارا دین ہمیں لوگوں سے اچھے اخلاق سے پیش آنے کا اور بداخلاقی سے بچنے کا درس دیتا ہے مگر افسوس اس زمانہ میں بداخلاقی بہت عام ہوتی جارہی ہے ہمیں بداخلاقی سے بچنے کے لئے قراٰن و حدیث و اسلامی کتب میں جو بداخلاقی کی مذمت و نقصانات پر مشتمل مضامین ہے ان کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ ہم اس بری صفت بچیں اور حسنِ اخلاق کے پیکر بنیں۔ اب ہم ان شاء اللہ بد اخلاقی کی مذمت پر پانچ حدیث سنیں گے:۔

(1)حضرت سیدنا فضیل بن عیاض رحمۃُ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ بارگاہ رسالت میں عرض کی گئی: ایک عورت دن میں روزہ رکھتی اور رات میں قیام کرتی ہے لیکن وہ بد اخلاق ہے ، اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اس میں کوئی بھلائی نہیں وہ جہنمیوں میں سے ہے۔( شعب الایمان ،باب فی اکرم الجار، 7/78، حدیث: 9545)

(2)حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیدالمرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں اللہ پاک کے بد ترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں؟ وہ بد اخلاق اور متکبر ہے۔(مسند امام احمد، مسند الانصار،حدیث حذیفہ بن الیمان عن النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، 9 / 120، حدیث:23517)

بداخلاق انسان کی مثال: حضرت سیدنا وہب بن منبہ رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بد اخلاق انسان کی مثال اس ٹوٹے ہوئے گھڑے کی طرح ہے جو قابل استعمال نہیں رہتا۔(احیاء العلوم ، 3 ص 246)

(3)روایت ہے حضرت ابو الدرداء رضی اللہُ عنہ سے وہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے راوی فرمایا کہ بڑی بھاری چیز جو قیامت کے دن مؤمن کی ترازو میں رکھی جاوے گی وہ اچھی عادت ہے! اور اللہ پاک ناراض ہوتا ہے فحش گو بد خلق سے۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد : 6 حدیث : 5081)

(4) بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی: یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نحوست کیا ہے؟ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: برے اخلاق۔(المسند للامام احمد بن حنبل ، مسند السیدۃ عائشۃ رضی اللہ عنہا ، 9/ 369، حدیث : 24601)

(5) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اچھے اخلاق گناہوں کو اس طرح مٹا دیتے ہیں جس طرح پانی میل کو صاف کر دیتا ہے اور بُرے اخلاق اس طرح نیکیوں کو ضائع کر دیتے ہیں جس طرح سرکہ شہد کو ضائع کر دیتا ہے۔(المعجم الاوسط للطبرانى، /1482 حدیث: 850)

پیارے بھائیو! ان احادیث سے آپ کو بداخلاقی کی نحوست کا علم ہو گیا ہوگا تو ہمیں چاہیے کہ بد اخلاقی سے بچنے کے لئے اور حسنِ اخلاق حاصل کرنے کے لئے دعا کریں۔ خود نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی ہماری تعلیم کے لئے اچھے اخلاق کی دعا فرماتے تھے حالانکہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اخلاق کی تعریف تو خود اللہ پاک نے قراٰن مجید میں بیان فرمائی ہے کہ چنانچہ فرمایا: وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک تم یقیناً عظیم اخلاق پر ہو ۔ (پ29،القلم:4) لیکن اس کے باوجود خود نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بارے میں ہے کہ حضرت سیدنا ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یوں دُعا کیا کرتے تھے: یعنی اے اللہ پاک! تو نے میری صورت اچھی بنائی ہے پس میرے اخلاق کو بھی اچھا کر دے۔ (المسند للامام احمد بن حنبل، مسند السيدة عائشة رضى الله عنها، 9 / 339، حدیث: 24446) اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں بداخلاقی کی نحوست سے محفوظ رکھے۔ اٰمین


تمام تعریفیں اللہ پاک کے لئے جو تمام جہان کا پالنے والا ہے جس نے اپنی مخلوق کو نعمت عظمیٰ سے سرفراز فرمایا اور انسانی صورت کو اچھے قالب سے زینت دی۔ اسے شکل و صورت اور مقدار میں کمی و زیادتی سے محفوظ رکھا اور اخلاق کو سنوارنے کا ذمہ اپنے بندوں کو دیا اور اپنے خاص بندوں پر اخلاق کو سنوارنے کا عمل آسان فرمایا۔ اچھے اخلاق رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صفت اور صدیقین کا افضل عمل ہے اور برے اخلاق جان لیوا و زہر قاتل، ذلت و رسوائی کا سبب ہے اور بد اخلاقی شیطان کے گروہ میں ڈال دیتی ہے ۔

امام غزالی رحمۃُ اللہ علیہ کے نزدیک بد اخلاق کی تعریف نفس میں موجود وہ کیفیت ایسی ہو کہ اس کے باعث برے افعال اس طرح ادا ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر نا پسندیدہ ہو تو اسے بد اخلاقی کہتے ہیں ۔

(1)حضرت سیّدنا فضیل بن عیاض علیہ رحمۃ اللہ الوہاب سے مروی ہے کہ بارگاہ رسالت میں عرض کی گئی: ایک عورت دن میں روزہ رکھتی اور رات میں قیام کرتی ہے لیکن وہ بد اخلاق ہے اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلف پہنچاتی ہے تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اس میں کوئی بھلائی نہیں وہ جہنمیوں میں سے ہے۔ (شعب الایمان ،باب فی اکرم الجار، 7/78، حدیث: 9545)

(2)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے کہ بد اخلاقی عمل کو اس طرح خراب کر دیتی ہے جس طرح سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے (شعب الایمان ،باب فی حسن الخلق، 6/247، حدیث:8036)

(3) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:بد اخلاقی ایک ایسا گناہ ہے جس کی مغفرت نہ ہوگی اور بد گمانی ایسی خطا ہے جو دوسرے گناہوں کا سبب بنتی ہے ( مساوی الاخلاق للخرائطی،باب ماجاء فی سوءلاخلق من الکراہۃ،ص20،حدیث:7)

(4)خاتم الانبیاء صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں انسان اپنے برے اخلاق کے سبب جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں پہنچ جاتا ہے ( مساوی الاخلاق للخرائطی ،باب ماجاء فی سوءلاخلق من الکراہۃ،ص22، حدیث:12)

(5)حضرت سیّدنا عبداللہ بن مبارک رحمۃُ اللہ علیہ کے ساتھ سفر میں ایک بد اخلاق آدمی شریک ہو گیا آپ اس کی بد اخلاقی پر صبر کرتے اور اس کے خاطر مدارت کرتے جب وہ جدا ہو گیا تو آپ رونے لگے کسی نے رونے کا سبب پوچھا تو فرمایا: میں اس پر ترس کھا کر رو رہا ہوں کہ میں اس سے الگ ہو گیا لیکن اس سے بد اخلاقی اس سے الگ نہ ہوئی۔(احیاء العلوم /3 161)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو !آپ نے پڑھا کہ بد اخلاقی کیسی بری بیماری ہے جس کے سبب ذلت و رسوائی اور جہنم کے سب سے نچلے طبقے تک پہنچ جاتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ اپنے اخلاق کو سنوارے اور بزرگانِ دین کے نقشے قدم پر چلتے ہوئے اپنی زندگی کو گزارنے چاہیے۔

یا اللہ پاک ہمارے اخلاق کو اچھے بنا اور حسنِ اخلاق کی دولت سے مالا مال فرما اور ہر ایک سے خوش دلی و مسکرا کر گفتگو کرنے کی توفیق عطا فرما۔ اٰمین

بھاگتے ہیں سُن لے بد اَخْلاق انساں سے سبھی

مسکرا کر سب سے ملنا دل سے کرنا عاجزی

(وسائل بخشش مرمم،ص698)


کہتے ہیں کہ انسان کی شناخت اس کے اخلاق و کردار سے ہوتی ہے۔ اخلاق اگر اچھے ہیں تو انسان معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اچھے اخلاق کا حامل انسان عزت کی ٹوکری سر پر لیے پھرتا ہے اور جہاں جاتا ہے اس کی عزت ہوتی۔ جب کہ اخلاق اگر برے ہو تو یہی انسان لوگوں میں اپنی قدر و منزلت کھو دیتا ہے، معاشرہ اسے گری ہوئی نگاہ سے دیکھتا ہے ایسے شخص کا نہ دوست و احباب کے درمیان کوئی وقار رہتا ہے اور نہ ہی عام لوگوں کی نگاہ میں کوئی عزت۔ بلکہ ایسا شخص خود اپنے گھر، پریوار میں اپنی عزت و وقار کا جنازہ خود اپنے ہاتھوں سے نکال چکا ہوتا ہے۔

بداخلاقی ایک ایسا سنگین جرم ہے جس کی معافی نہیں ہوتی، بدکرداری جہنم میں جانے کا ذریعہ ہے۔ اس ضمن میں حدیث ملاحظہ فرمائیں:

(1) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں: بداخلاقی ایسا گناہ ہے جس کی مغفرت نہیں ہوگی اور بدگمانی ایسی خطا ہے جو دوسرے گناہوں کا سبب بنتی ہے۔(مساوئ الاخلاق للخرائطی، باب ما جاء فی سوء الخلق من الکراهۃ، ص20، بحوالہ: احیاء العلوم، 160/3، المدينۃ العلميہ)

(2) ایک اور حدیث پاک میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: انسان اپنے اخلاق کے سبب جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں پہنچ جاتا ہے۔ (بحوالہ سابق)

(3) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: حیا ایمان سے ہے اور ایمان جنت میں لے جانے والا ہے، اور فحش گوئی بداخلاقی میں سے ہے اور بداخلاقی جہنم میں لے جانے والی ہے۔(سنن الترمذی ،539/3، باب ما جاء في الحياء ، حديث:2009)

(4) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: بداخلاقی عمل کو اس طرح برباد کر دیتی ہے جیسے ایلوا شہد کو برباد کردیتا ہے۔(شعب الایمان،248/6،حديث:8036)

(5) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں عرض کی گئی کہ فلاں عورت رات میں قیام کرتی ہے، اور دن میں روزہ رکھتی ہے، اور صدقہ کرتی ہے، لیکن وہ بد اخلاق ہے، اپنی زبان سے اپنے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے، تو حضور نے ارشاد فرمایا: اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے، وہ جہنمیوں میں سے ہے۔(شعب الایمان ،78/7،باب فی اكرام الجار)

ان تمام احادیث کریمہ سے معلوم ہوا کہ زبان یا ہاتھ پاؤں وغیرہ سے کسی کو تکلیف دینا انتہائی سنگین جرم ہے اور یہ ایسا گناہ ہے جو جہنم میں لے جانے والا ہے۔ لہٰذا ایک مسلمان کو اس طرح کے تمام افعال بد سے کوسوں دور رہنا چاہیے۔

یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ بداخلاقی اعمالِ حسنہ کو برباد کر دیتی ہے۔ اس کار بد کی سیاہی اکثر نور حسنات کو سلب کر لیتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ انسان گناہوں کے باب میں اس قدر جری ہو جاتا ہے کہ وہ معرفتِ حق سے محروم ہو جاتا ہے۔ یہ ہماری کتنی بڑی حرماں نصیبی ہے کہ ہمارا معاشرہ نیک بننے کے بجائے گناہوں کے دلدل میں پھنستا چلا جارہا ہے۔ وہ مذہب اسلام اپنے ماننے والوں کو ایک خاص خدائی رنگ میں دیکھنا چاہتا ہے۔ اسی مذہب کے ماننے والے اسلامی تعلیمات کو یک لخت نظر انداز کرکے مغربی کلچر کے ایسے دلدادہ نظر آتے ہیں جیسے ان کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ وہ کونسی ایسی برائی ہے جو قوم مسلم میں نہیں پائی جاتی اور یہ سارا کچھ بداخلاقی ہی کا نتیجہ ہے جس سے دن بدن معاشرے میں نئی نئی برائیاں جنم لے رہی ہیں۔

حل: اس کا بہترین حل یہ ہے کہ معاشرے سے بد اخلاقی کو دور کیا جائے، بد اخلاق و بدکردار اشخاص کی تربیت کی جائے، لوگوں کو دین سے قریب کیا جائے، ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیاری پیاری سیرت طیبہ پر عمل کے پیغام کو عام سے عام تر کیا جائے، مسلمان اسی خاص خدائی رنگ میں رنگ جائیں جسے قراٰن نے "صبغة الله " سے تعبیر کیا ہے، بزرگان دین کی سیرت پر عمل کیا جائے، اور ایک بہترین معاشرے کی تشکیل کے لیے بے حیائی ، فحش گوئی اور دیگر اعمالِ قبیحہ سے مکمل احتراز کیا جائے۔


پیار پیارے اسلامی بھائیو! اخلاق ایک ایسی صفت حمیدہ ہے کہ معاشرے پر اس کے سب سے زیادہ اثرات ہے مثال کے طور پر اگر کوئی شخص بہت سے خوبیوں کا مالک ہے اگر وہ بداخلاق ہے تو بھی لوگ اسے برا ہی جانتے ہیں کوئی اس کی تعریف نہیں کرتا اور اگر کسی کے اخلاق اچھے ہو تو اگر چہ دوسری خوبیاں کم ہو لوگ پھر بھی اس کی تعریف کرتے ہیں۔

بد اخلاقی ایسی مذموم صفت ہے کہ ہر مذہب میں برا جانا جاتا ہے۔ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے امت کی تربیت کرتے ہوئے اس برے صفت کی مذمت بیان فرمائی ہے۔

(1)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دعا کرتے تھے اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ مخالفت کروں اور منافقت اور برے اخلاق سے۔ (ابوداؤد شریف حدیث: 1546)

(2)رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے سراقہ کیا میں تمہیں نہ بتلادوں کہ کون لوگ جنتی ہیں اور کون جہنمی ہے ۔ انہوں نے کہا: ہاں یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بد اخلاق بد مزاج اور متکبر آدمی جہنمی ہے جو لوگ دنیوی لحاظ سے کمزور اور مغلوب ہوں وہ جنتی ہیں۔(مسند احمد ،حدیث: 13188)

کچھ لوگ اپنے خادموں اور ماتحتوں و کاریگروں کے ساتھ بد اخلاقی سے پیش آتے ہیں انہیں یہ حدیث پڑھ کر خوف خدا سے لرزنا چاہیے اور توبہ کرنی چاہیے۔

(3)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا وہ شخص جنت میں نہیں جائیگا جو خادموں کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے ۔ (الترمذی، حدیث: 1946)

(4)نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا ہر گناہ کی اللہ پاک کے یہاں تو بہ ہے مگر ہے بداخلاق کے وہ جس گناہ سے توبہ کرتا ہے تو اس سے زیادہ برے میں واقع ہو جاتا ہے۔(الترغيب والترهیب کتاب الاداب وغیرہ الترغيب في الحياء وما جاء فضله جزء 2 کتاب الادب، ص 278)

(5)رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا بد اخلاقی عمل کو خراب کرتی ہے۔ جیسے سرکہ شہد کو بگاڑتا ہے۔ (کنز العمال حدیث: 1347)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اگر معاشرے میں بد اخلاقی کے نقصانات دیکھے تو لوگ بداخلاق سے نفرت کرتے ہیں بغض وکینہ و حسد کا سبب بنتا ہے میاں بیوی کے درمیان طلاق کی نوبت آجاتی ہے یو گھر کا سکون برباد ہو جاتا ہے وغیرہ جیسے بہت سی برائیاں پیدا ہوتی ہے تمام مسلمانوں کو اچھے اخلاق ولا ہونا چاہئے تاکہ وہ اس فضیلت سے حصہ پالے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اہل ایمان میں سب سے بڑھ کر کامل ایمان والا وہی ہے جو اخلاق میں سب سے بڑھ کر ہو۔(ابوداؤد شریف حدیث: 4682)اللہ پاک ہم سب کو اخلاق حمیدہ سے متصف فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


تمام تعریفیں اللہ پاک کے لیے جس نے تمام عالم کو وجود بخشا اور اشرف المخلوقات انسانوں کو وجود بخشا اور انسان کی صورت میں حسن رکھا انسانی صورت کو زینت دی اور اسے شکل و صورت اور مقدار میں رکھیں، زیادتی سے محفوظ رکھا، اخلاق کو اچھا بنانے کا کام بندے کی کوشش میں رکھا اسے ڈراتے ہوئے اخلاق سنوار نے کی ترغیب دی اور اپنی توفیق کے ذریعے اپنے خاص بندوں پر اخلاق کو سنوار دیا حسنِ اخلاق رسول اکرم شاہ بنی آدم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صفت اور صدیقین کا افضل عمل ہے۔ حسنِ اخلاق یہ نصف دین اور عبادت گزاروں کی دیانت ہے جب کہ برے اخلاق زہر قاتل جان لیوا، ذلت و رسوائی اور رب کریم کی رحمت سے دوری جیسی برائیوں پر مشتمل ہے نیز بد اخلاقی انسان کو شیطانی گروہ میں داخل کرتی ہے اور بندے کو لوگوں سے بھی دور کر دیتی ہے برے اخلاق دل کی بیماریوں میں سے ایک بیماری ہے جس کی اصلاح کرنا بہت ضروری ہے آئیے احادیث کریمہ کی روشنی میں بداخلاقی کی مذمت کے بارے میں جانتے ہیں اور اپنے دل کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں۔

(1) بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی: یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نحوست کیا ہے؟ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :برے اخلاق۔(المسند للامام احمد بن حنبل ، مسند السیدۃ عائشۃ رضی اللہ عنہا ، 9/ 369، حدیث : 24601)

(2) حضرت سیدنا فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ بارگاہ رسالت میں میں نے عرض کی گئی ایک عورت دن میں روزہ رکھتی اور رات میں قیام کرتی ہے لیکن وہ بد اخلاق ہے اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے وہ جہنمیوں سے ہے۔(شعب الایمان، باب فی الجامع الجار،7/78 ، حدیث:9545)

(3)میزان میں سب سے پہلے حسنِ اخلاق اور سخاوت کو رکھا جائے گا جب اللہ کریم نے ایمان کو پیدا فرمایا تو اس نے عرض کی یا رب کریم مجھے تقویت دے تو اللہ پاک نے اسے اخلاق و سخاوت کے ذریعے تقویت دی اور جب اللہ پاک نے کفر کو پیدا کیا تو اس نے عرض کی اے رب کریم مجھے تقویت دے تو اللہ پاک نے اسے بخل اور بد اخلاقی کے ذریعے تقویت دی۔(المصنف لابن ابی شیبہ، کتابالادب،ماذکر فی حسنِ اخلاق الخط ، 6/90، حدیث: 24 دون ذکر الاخاء)

(4) بد اخلاقی عمل کو اس طرح خراب کر دیتی ہے جس طرح سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔(شعب الایمان،باب فی حسنِ اخلاق،6/247، حدیث:8036)

(5) جس شخص میں تین یا ان میں سے کوئی بات نہ ہو اس کے عمل کو کچھ بھی شمار نہ کرو:(1)تقوٰی جو اسے اللہ پاک کی نافرمانی سے روکے۔(2)تَحَمُّل جس کے ذریعے وہ خود کو بیوقوف سے دُور کرے۔ (3)اچھے اخلاق جن کے ذریعے لوگوں میں زندگی گزارے۔(المعجم الکبیر 23/308 حدیث :695)

(6) بداخلاقی ایک ایسا گناہ ہے جس کی مغفرت نہ ہوگی اور بدگمانی ایسی خطا ہے جو دوسرے گناہوں کا سبب بنتی ہیں ۔(مساوی الاخلاق للخرائطی باب ما جاء فی سوء الخلق من الکراھۃ ص 20، حدیث: 7)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! جیسا کہ آپ نے پڑھا کی بداخلاقی کی کیسی کیسی مذمت بیان کی گئی ہے اور بد اخلاق شخص جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں پہنچ جاتا ہے ہم ان احادیث کریمہ کی روشنی میں جو بداخلاقی کی مذمت بیان کی گئی اس سے درس حاصل کر کے ہمیں اپنے اخلاق کو سنوارنے کی کوشش کرنی چاہیے آخر میں اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہم کو حسنِ اخلاق اپنانے کی توفیق دے اور بد اخلاقی سے ہمیں کوسوں دور رکھے۔ اٰمین 


آج کل ہمارے معاشرے میں بہت سی برائیاں جنم لے رہی ہیں جس سے لوگوں بد امنی بے چینی کے شکار ہو رہے ہیں اور بد عملیوں کے باعث انتہائی پریشانی میں گرفتار ہیں جس کی بڑی وجہ بد اخلاقی بھی ہیں کیوں کہ حسنِ اخلاق ایک ایسی صفت ہیں جس خیال رکھنا ایک مسلمان کے لئے بے حد ضروری اور اس سے غفلت برتنا دنیا و آخرت میں خسارہ کا سبب ہے۔

ہے فلاح و کامرانى نرمى و آسانى مىں

ہر بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانى مىں

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اگر نفس میں موجود ایسی کیفیت ہو کہ اس کے باعث اچھے افعال اس طرح ادا ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر پسندیدہ ہوں تو اسے حسنِ اخلاق کہتے ہیں اور اگر اس سے بُرے اَفعال اس طرح ادا ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر نا پسندیدہ ہوں تو اسے بداخلاقی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(احیاء العلوم، 3/165،مکتبۃ المدینہ)

(1)سرکار مدىنہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرماىا: دو خصلتىں مومن مىں اکھٹى نہىں ہوسکتى، وہ بخل اور بداخلاقى ہىں۔(جامع الترمذى ابواب البروالصلۃ ، باب ماجا فى الخىل ،343/4،حدىث 1962:)

(2)حضرت انس بن مالک رضى اللہ عنہ سے مروى ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرماىا: بد اخلاقى اىمان کو اس طرح فاسد کردىتى ہے۔ جس طرح اىلوا کھانے کو فاسد کر دىتا ہے۔(بىہقى فى الشعب، 247/2)

(3)سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حیا ایمان سے ہے اور ایمان جنت میں( لے جانے والا) ہے فحش گوئی، بد اخلاقی کی ایک شاخ ہے اوربداخلاقی جہنم میں (لے جانے والی ) ہے ۔(جامع التر مذی ،کتاب البر و الصلۃ، حدیث: 2016)

(4)حضرت سىدنا فضىل بن عىاض سے مروى ہے کہ بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں عرض کى گئى اىک عورت دن مىں روزہ رکھتى اور رات مىں قىام کرتى ہے، لىکن وہ بداخلاق ہے اپنى زبان سے لوگوں کو تکلىف پہنچاتى ہے تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرماىا، اس مىں کوئى بھلائى نہىں وہ جہنمىوں مىں سے ہے۔(احىا العلوم، 155/3)

(5)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرماىا: قىامت کے دن مىرے سب سے زىادہ قرىب وہ لوگ ہوں گے جن کے اخلاق سب سے زىادہ بہتر ہونگے اور مجھ سے دور وہ لوگ ہوں گے جن کے بدترىن اخلاق ہوں گے۔ (مشکوة ، باب البىان والشعر ،ص 10 )

الغرض یہ کہ بد اخلاقی کئی برائیاں کا مجموعہ اور دنیا و آخرت میں ہلاکت وذلت کا ذریعہ ہے لہذا ہمیں حسنِ اخلاق کو اپنانا چاہئے اللہ کرىم ہمىں بداخلاقى سے بچنے اور اپنے اخلاق سنوارنے کى توفىق عطا فرمائے۔(اٰمىن)

بھاگتے ہیں سُن لے بد اَخْلاق انساں سے سبھی

مسکرا کر سب سے ملنا دل سے کرنا عاجزی(وسائل بخشش ) 


الحمدللہ اسلام کا نور شروع سے ہی حسنِ اخلاق سے پھیلا ہے اور دیگر مذاہب کو چھوڑ کر اسلام قبول کرنے میں سب سے زیادہ اثر حسنِ اخلاق کا رہا اور آج بھی جو اپنے باطل مذہب کو چھوڑ کر کسی کے ہاتھ پر مذہب حق کو قبول کرتا ہے تو اس کے حسنِ اخلاق کے سبب اور کردار کی وجہ سے۔ اگر ہمارے اخلاق قراٰن و حدیث کے مطابق ہو جائیں تو ان شاء اللہ پھر شجرِ اسلام لہلہاتا ہوا نظر آ ئے گا ۔

وعن عائشة رضي الله عنها قالت كان رسول اللہ صلى الله عليه وسلم يقول اللهم كما احسنت فأحسن خلقي ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یہ دعا کیا کرتے تھے: اے اللہ! جس طرح تو نے میری ظاہری تخلیق خوبصورت کی ہے اسی طرح میرے اخلاق کو بھی اچھے رکھنا۔ (الترغیب والترہیب ، 3 / 13)

حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ہے ہر کام سے توبہ ہو سکتی ہے البتہ برے اخلاق والے شخص کا معاملہ مختلف ہے کیونکہ وہ کسی گناہ سے توبہ کرے گا تو اس سے زیادہ برے گناہ کا دوبارہ ارتکاب کرے گا ۔(الترغیب والترہیب، کتاب الادب وغیرہ، 3 / 130)

اصبہانی کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہے میمون بن مہران بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں برے اخلاق سے زیادہ بڑا گناہ اور کوئی نہیں ہے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کو کرنے والا شخص جب کسی ایک گناہ سے نکلتا ہے تو اور ایک گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ (الترغیب والترہیب، کتاب الادب وغیرہ ، 3 صفحہ 130 )

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یہ دعا کیا کرتے تھے:اے اللہ میں بد نصیبی منافقت اور برے اخلاق سے تری پناہ مانگتا ہوں (الترغیب والترہیب کتاب الادب وغیرہ ، 3 صفحہ 130)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ہے : یہ اخلاق اللہ تعالی کی طرف سے ہیں جس شخص کے بارے میں اللہ پاک بھلائی کا ارادہ کرلیتا ہے تو اسے اچھے اخلاق عطا کردیتا ہے اور جس شخص کے بارے میں برائی کا ارادہ کرلیتا ہے تو اسے بد اخلاق کر دیتا ہے۔(الترغیب والترہیب کتاب الادب وغیرہ ، 3 / 128)

حضرت ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ،نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ہے :تم میں میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور آخرت میں میرے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہوں گے جن کے اخلاق سب سے زیادہ عمدہ ہوں گے اور میرے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور آخرت میں مجھ سے سب سے زیادہ دور وہ لوگ ہوں گے جن کے اخلاق بد ہوں گے اور وہ لوگ جو تکلف کے ساتھ کلام کرتے ہیں اور بنا سنوار کر منہ ٹیڑھا کر کے بات کرتے ہیں۔(الترغیب والترہیب، کتاب الادب وغیرہ ، 3 / 128)

حضرت رافع بن مکیث رضی اللہُ عنہ (جنہیں صلح حدیبیہ میں شرکت کا شرف حاصل ہے) وہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اچھے اخلاق بہتری اور برے اخلاق نحوست ہیں نیکی عمر میں اضافہ کرتی ہے، اور صدقہ بری موت کو ٹال دیتا ہے۔

اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ روایت منقول ہے وہ بیان کرتے ہیں: عرض کی گئی یا رسول اللہ (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)! نحوست کیا ہے ؟آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا بد اخلاق ۔(الترغیب والترہیب کتاب الادب وغیرہ ، 3 / 129)

مذکورہ بالا احادیث کریمہ سے معلوم ہوا کہ بد اخلاق ایک ایسا قبیح عمل ہے جو سوسائٹی اور اسلامی ماحول کوپراگندہ کرنے میں کافی حد تک اثر ڈالتا ہے اور بد اخلاق ایسا شر ہے جس سے خود نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پناہ مانگتے تھے تو اس سے معلوم ہوا کہ ہمیں کتنا زیادہ بد اخلاقی سے بچنا چاہیے اور کتنا زیادہ اخلاق میں بہتری لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ مولا کریم ہم تمام مسلمانوں کو حسنِ اخلاق کی لازوال نعمت عطا فرمائے اور بد کرداری و بداخلاقی سے محفوظ فرمائے ۔ اپنی رضا والے کام کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین یارب العالمین


پیارے اسلامی بھائیو! بد اخلاقی کے متعلق کچھ معلومات پڑھنے سے پہلے مناسب ہے کہ حسنِ اخلاق اور بداَخلاقی کی تعریف سمجھ لی جائے۔

حسنِ اخلاق اور بداَخلاقی کی تعریف: بداخلاقی کی مذمت بیان کرنے سے پہلے اَخْلاق کی تعریف ذہن نشین کرلیں ۔ چنانچہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اگر نفس میں موجود ایسی کیفیت ہو کہ اس کے باعث اچھے افعال اس طرح ادا ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر پسندیدہ ہوں تو اسے حسنِ اخلاق کہتے ہیں اور اگر اس سے بُرے اَفعال اس طرح ادا ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر نا پسندیدہ ہوں تو اسے بد اخلاقی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(احیاء العلوم،3/165،مکتبۃ المدینہ) پیارے اسلامی بھائیو! آیئے اب بد اخلاقی کی مذمت ہم حدیث نبوی سے سمجھتے ہیں۔

(1) عَنْ جَابِرْ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اِذَا اسْتَفْتَحَ الصَّلَاۃَ کَبَّرَ ثُمَّ قَالَ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۱۶۲)، لَا شَرِیْكَ لَهٗۚ-وَ بِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ(۱۶۳)اَللّٰھُمَّ اھْدِنِیْ لِاَحْسَنِ الْاَعْمَالِ وَاَحْسَنِ الْاَخْلَاقِ لَا یَھْدِیْ لِاَحْسَنِھَا اِلَّا اَنْتَ وَقِنِیْ سَیِّئَ الْاَعْمَالِ وَسَیِّئَ الْاَخْلَاقِ لَا یَقِیْ سَیِّئَھَا اِلاَّ اَنْتَ ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب نماز شروع کرتے تو پہلے تکبیر تحریمہ (یعنی اللہ اکبر) کہتے پھر یہ دعا پڑھتے (اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۱۶۲)، لَا شَرِیْكَ لَهٗۚ-وَ بِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ (۱۶۳)اَللّٰھُمَّ اھْدِنِیْ لِاَحْسَنِ الْاَ عْمَالِ وَاَحْسَنِ الْاَخْلَاقِ لَا یَھْدِیْ لِاَ حْسَنِھَا اِلَّا اَنْتَ وَقِنِیْ سَیِّئَ الْاَعْمَالِ وَسَیِّئَ الْاَ خْلَاقِ لَا یَقِیْ سَیِّئَھَا اِلاَّ اَنْتَ)میری نماز میری عبادت میری زندگی اور میری موت سب کچھ پروردگار عالم ہی کے لئے ہے جس کا کوئی شریک نہیں ہے اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔ اے اللہ! نیک اعمال اور حسنِ اخلاق کی طرف میری رہنمائی کر کیونکہ بہترین اعمال و اخلاق کی طرف تو ہی رہنمائی کر سکتا ہے اور مجھے برے اعمال و بد اخلاقی سے بچا کیونکہ برے اعمال و بد اخلاق سے تو ہی بچا سکتا ہے۔ (مشکوةالمصابيح، حدیث : 784)

اور ایک حدیث شریف میں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بد اخلاقی کی مذمت بیان فرمائی ہے ۔ قَالَتْ عَائِشَةُ قَالَ رسول اللہ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشُّؤْمُ سُوءُ الْخُلُقِ ترجمہ: حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا نحوست بد اخلاقی کا نام ہے۔ (مسند احمد، حدیث : 23452)

بداَخْلاقی نحوست ہے: بداَخْلاقی خُود بھی بدعملی ہے اور بہت سی بدعملیوں کا ذریعہ ہے۔جُھوٹ،خیانت،وعدہ خلافی سب بداَخْلاقی کی شاخیں ہیں۔ بد اَخْلاقی آپس کے اختلاف کا باعث ہے۔ بد اَخْلاقی آپس میں بغض و حسد اور جدائی پیدا کرتی ہے ، بداَخْلاقی سے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پناہ طلب فرمائی بد اَخْلاقی و بدزبانی سے اللہ پاک ناراض ہوتا ہے۔ بداَخْلاقی اگر انسانی شکل میں ہوتی تو وہ بہت بُرا آدمی ہوتا۔ اللہ پاک کے نزدیک سب سے بڑی بُرائی بد اَخْلاقی ہے ۔ بےشک بے حیائی اور بد اَخْلاقی کا اسلام کی کسی چیز سے کوئی تعلق نہیں۔ بد اَخْلاقی تبلیغِ دین کی راہ میں بہت بڑی رُکاوٹ ہے۔ بد اَخْلاقی سے بسا اوقات میاں بیوی میں طلاق کی نوبت آجاتی ہے۔ بداَخْلاقی کی نحوست سے گھر کا سُکون برباد ہوجاتا ہے۔ بداَخْلاق شخص کو بارہا ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

الغرض بداَخْلاقی کثیر برائیوں کا مجموعہ اور دُنیا و آخرت میں ہلاکت و بربادی کا سبب ہے، لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم نہ صرف خود اس آفت سے بچیں بلکہ دوسرے مسلمانوں کو بھی اِس سے بچتے رہنے کی ترغیب دلائیں۔ اللہ پاک سب مسلمانوں کو اچھے اَخْلاق کی لازوال دولت نصیب فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی علیہ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ

بھاگتے ہیں سُن لے بد اَخْلاق انساں سے سبھی

مسکرا کر سب سے ملنا دل سے کرنا عاجزی

(وسائل بخشش مرمم،ص698)


بد اخلاقی باطنی بیماریوں میں سے ایک بیماری ہے اور یہ ایسی بُری صفت ہے کہ اس سے دنیاوی و اُخروی دونوں نقصانات ہیں۔ حسد، بغض، قطع تعلقی وغیرہ سب اس کی شاخیں ہیں اور بد اخلاقی سے حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پناہ مانگی اور اللہ پاک اس فعل سے ناراض ہوتا ہے،بد اخلاقی عمل کو ایسے خراب کرتی ہے جیسے سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔ اگر ہم نے اپنی باطنی بیماری کا علاج کر کے اپنے اخلاق کو نہ سنوارا تو کہیں اس کی وجہ سے ہمیں جہنم میں جانے کا حکم نہ ہو جائے۔ اللہ پاک قراٰن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ السَّیِّئَةَؕ-نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَ(۹۶) ترجَمۂ کنزُ الایمان: سب سے اچھی بھلائی سے بُرائی کو دفع کرو ہم خوب جانتے ہیں جو باتیں یہ بناتے ہیں۔ (پ18،المؤمنون:96)

بد اخلاقی کی تعریف اگر نفس میں ایسی کیفیت ہو کہ اس کے باعث برے افعال (کام) اس طرح ادا ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر ناپسند ہوں تو اس کو بد اخلاقی کہتے ہیں۔(احیاء العلوم، ص934)

آئیے بداخلاقی کے متعلق 5 فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ کیجئے :

(1)بد کلامی بد اخلاقی میں سے ہے، اور بد اخلاقی جہنم میں (جانے کا سبب ) ہے۔(ابن ماجہ ،4/461، حدیث:4184)

(2)بداخلاقی عمل کو اس طرح برباد کر دیتی ہے جیسے سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔ ( کشف الخفاء، 1/522، حدیث: 1498)

(3)بے شک بندہ اپنے بُرے اخلاق کی وجہ سے جہنم کے سب سے نچلے گڑھے میں پہنچ جاتا ہے۔( مساویٔ الاخلاق، ص23، حديث:12)

(4)بداَخلاقی اگر انسانی شکل میں ہوتی تو وہ (بہت)بُرا آدمی ہوتا۔ (کنز العمال،3/178، حدیث: 7351)

(5)اللہ پاک کے نزدیک سب سے بڑی بُرائی بُرے اَخْلاق ہیں۔ (جامع الاحادیث، 19/406،حدیث: 14922ملخصاً)

نقصانات بد اخلاق شخص اپنے خاندان سے میل جول اور بات چیت کرنے سے اکتاتا ہے۔ بد اخلاق شخص کی عزت معاشرے میں گر جاتی ہے۔ بد اخلاق شخص کو لوگ نا پسند کرتے ہیں۔ اس کی عادت اچھی نہ ہونے کی وجہ سے معاشرے میں نیکی کی دعوت دینے میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ بد اخلاق شخص کتنے ہی بڑے منصب پر فائز ہو اور کتنے ہی اچھے اچھے لباس پہن لے لوگوں کی نظروں سے گر جاتا ہے اور وہ اپنی عزت کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔

معاشرے پر اثرات پیارے اسلامی بھائیو! اس پُر فتن دور میں جن گناہوں کو گناہ نہیں سمجھا جا رہا ہے انہی میں سے تکبّر، جھوٹ، چغلی، حسد اور بد اخلاقی بھی ہے اس سے لوگوں میں نفرت اور دوری پیدا ہوتی ہیں ان سب بیماریوں کا ہمیں علاج کرنا چاہئے اور حسنِ اخلاق ایک ایسی چیز ہے کہ جس کا خیال رکھنا انسان کے لئے ضروری اور اس سے غفلت برتنے میں دنیا کے نقصان کا موجب ہے اور ہمارا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ لوگوں کے اخلاق و معاملات کو درست کر کے ان کے اندر سے بد اخلاقی کو جڑ سے اکھاڑنا ہے اس کیلئے ہمیں اچھے ماحول اور اچھی صحبت اختیار کرنی چاہئے۔ اللہ پاک ہمیں بداخلاق کی بیماری سے محفوظ فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


پیارے اور محترم اسلامی بھائیو! ہمارے پیارے آقا مدینے والے مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تشریف آوری کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ لوگوں کے اَخلاق و معاملات کو درست کریں، ان کے اندر سے بُرے اخلاق کی جڑیں اُکھاڑیں اور ان کی جگہ بہترین اخلاق پیدا کریں، چنانچہ اللہ پاک کے آخری نبی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پوری زندگی اپنے قول و عمل سے تمام اچھے اَخلاق کی فہرست مرتب فرمائی اور زندگی کے تمام شعبوں پر اسے نافذ کیا اور ہر طرح کے حالات میں ان پر کاربند رہنے کی ہدایت کی۔

بداَخلاقی ایک ایسی مذموم صفت ہے جس کے سبب انسان کا وقار معاشرے میں ختم ہوکر رہ جاتا ہے، آئیے! بداَخلاقی کی مذمت پر 5احادیثِ مبارکہ پڑھئے اور اس مذموم صفت سے بچئے:

(1)رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:دو خصلتیں (عادتیں) مؤمن میں جمع (اکٹھی) نہیں ہوسکتیں (1)بخل اور (2)بداخلاقی۔(ترمذی، 3/387، حدیث: 1969)

(2)حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:کوئی بداخلاق شخص جنّت میں نہ جائے گا۔(مسند احمد، 1/26، حدیث:31)

(3)حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہُ عنہما سے مروی ہے: بُرے اَخلاق اور بخل دو ایسے اوصاف ہیں جنہیں اللہ پاک ناپسند کرتا ہے۔ (فردوس الاخبار، 1/379، حدیث:2811)

(4)نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:اے عائشہ! اللہ پاک بداخلاق اور بدزبانی کرنے والے شخص کو پسند نہیں فرماتا۔ (ابوداؤد، 4/330، حدیث:4792)

(5)اللہ پاک کے آخری نبی، مکی مدنی، محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنّت میں ہوگا۔ اور بداخلاقی سنگدلی کا حصہ ہے اور سنگدلی جہنم میں ہوگی۔(ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)

بداخلاقی کے چند نقصانات: بداَخلاقی کے چند نقصانات درج ذیل ہیں:(1) بد اخلاق شخص سے لوگ کتراتے ہیں اور اس کے قریب آنا/ رہناپسند نہیں کرتے (2) بداخلا ق شخص کی معاشرے میں عزت نہیں ہوتی (3) بداخلاقی تبلیغِ دین میں رکاوٹ بنتی ہے (4)لوگ بداخلاق شخص کو اپنا دوست نہیں بناتے (5) بداخلاقی رشتوں کے ٹوٹنے کا سبب بنتی ہے (6) بد اخلاق شخص سے اللہ پاک ناراض ہوتاہے (7)بد اخلاق شخص سے لوگوں کو ایذا ہوتی ہے (8) بد اخلاقی آپس میں اختلافات پیدا کروادیتی ہے ۔

رزق میں تنگی کا ایک سبب:بعض حُکَما فرماتے ہیں: مَنْ سَآءَ خُلْقُہٗ ضَاقَ رِزْقُہ یعنی جس کے اخلاق بُرے ہوں اُس کا رزق تنگ ہوجاتا ہے۔(ادب الدنیا و الدین، ص383)

امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ فرماتے ہیں:

بھاگتے ہیں سُن لے بَداَخلاق سے سبھی

مُسکرا کر سب سے ملنا دل سے کرنا عاجزی

(وسائل بخشش (مرمم)، ص698)

اللہ کریم ہمیں بداَخلاقی سے بچنے اور اپنے اَخلاق سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


جس طرح اللہ پاک نے دنیا میں تمام چیزوں کو کوئی نہ کوئی صفت عطا فرمائی ہے۔ جیسے ، پانی کی یہ صفت ہے کہ وہ آگ کو بجھا دیتا ہے ، آگ کی یہ صفت ہے کہ وہ کسی بھی چیز کو راکھ کر دیتی ہے تو اسی طرح انسان جس کو اشرف المخلوقات (تمام مخلوقوں میں افضل) قرار دیا گیا اس کو اللہ پاک نے کیوں صفات عطا نہیں کی ہوگی، اور جو تمام انسانوں میں افضل انبیائے کرام علیہم السّلام۔ ان کو بھی یقیناً کئیں صفات عطا فرمائی ہیں۔ دنیا میں کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام علیہم السّلام تشریف لائے۔ جن میں سے ایک حضرت عیسیٰ علیہ السّلام ہیں، آپ کا نام عیسیٰ ہے۔ آپ بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے ، آپ پر انجیل نازل فرمائی، آپ کی وفات کے (569) برس کے بعد حضور علیہ الصلوۃ و السّلام تشریف لائے، اور اس عرصہ دراز تک درمیان میں کوئی نبی نہیں آیا۔ اللہ پاک نے قراٰن مجید میں پچیس مقامات پر حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا نام نامی اسم گرامی ارشاد فرمایا ہے۔ اسی طرح اللہ پاک نے قراٰن مجید میں بہت سے مقامات پر آپ علیہ السّلام کی صفات کا ذکر فرمایا ہے۔ جن میں سے چند اوصاف ذکر کئے جاتے ہیں۔ اللہ پاک قراٰن مجید میں آپ علیہ السّلام کے اوصاف ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ ترجمۂ کنزالعرفان: وہ دنیا و آخرت میں بڑی عزت والا ہوگا اور اللہ کے مقرب بندوں میں سے ہوگا۔ اور وہ لوگوں سے جھولے میں اور بڑی عمر میں بات کرے گا اور خاص بندوں میں سے ہوگا۔(پ3،اٰل عمرٰن‏: 45، 46)

یہاں اللہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے 3 اوصاف ذکر کئے ہیں۔ (1)دنیا و آخرت میں بڑی عزت والا ہونا۔ (2)اللہ کا مقرب بندہ ہونا (3) جھولے میں لوگوں سے کلام کرنا۔

حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اللہ پاک کے کتنے مقرب بندے تھے۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کو زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا گیا ، اور آپ بروز قیامت جامع مسجد دمشق کے مینار پر نزول فرمائیں گے ۔ پھر دجال و خنزیر کو قتل کرینگے، صلیب توریں گے، یہ صفات صرف حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے ساتھ خاص ہیں۔ اب اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ معاذ اللہ باقی تمام انبیائے کرام علیہم السّلام اللہ پاک کے مقرب بندے نہیں بلکہ تمام کے تمام اپنے اپنے درجے کے مطابق اللہ کے مقرب ہیں۔ (واللہ اعلم)

رب تعالٰی ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے، ترجمۂ کنزالعرفان: اور یاد کرو جب فرشتو ں نے مریم سے کہا، اے مریم! اللہ تجھے اپنی طرف سے ایک خاص کلمے کی بشارت دیتا ہے ۔ (پ3، آلِ عمرٰن :45)

یہاں اللہ پاک نے یہ صفات ذکر فرمائی :(1) اپنا بندہ کہاں(2) اپنا کلمہ کہاں(3) مسیح کہا (4) عیسی بن مریم کہا۔ آپ کو کلمہ اس لئے کہا گیا کیونکہ آپ کلمہ" کن" سے پیدا ہوئے۔ آپ کو مسیح اس لئے کہا گیا کہ آپ کوڑ کے مریض کو چھو کر ٹھیک کردیا کرتے تھے۔ آپ کو یہ لقب نبوت کے بعد ملا۔ آپ کو عیسیٰ بن مریم کہا (یعنی آپ کی والدہ کی طرف نسبت کری) کیونکہ اگر آپ والد کے بغیر پیدا نہ ہوتے تو آپ کے والد کی طرف نسبت کری جاتی جیسا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے۔ ترجمۂ کنزالعرفان:لوگوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو، یہ اللہ کے نزدیک انصاف کے زیادہ قریب ہے۔ (پ 21، الاحزاب :5) ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے۔ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بچے نے فرمایا: بیشک میں اللہ کا بندہ ہوں ، اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے ۔(پ16،مریم:30)یہاں عیسیٰ علیہ السّلام کا یہ وصف بیان کیا کہ آپ نے جھولے میں ہی لوگوں سے کلام کیا اور ان کو بتا دیا کہ میں الله کا بندہ ہوں، اس کانبی ہوں اس نے مجھے کتاب دی اس آیت سے یہودیوں کا یہ عقیدہ غلط ثابت ہوا کہ معاذاللہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام خدا ہیں۔ آپ نے خود ہی فرمایا: میں اللہ کا بندہ ہوں۔ کیونکہ جو خدا ہوتا ہے وہ پیدا نہیں ہوتا اور جو پیدا ہوتا ہے وہ خدا نہیں ہوتا۔ ایک اور مقام پر اللہ پاک فرماتا ہے۔ ترجمۂ کنز العرفان : اور اس نے مجھے مبارک بنایا ہے خواہ میں کہیں بھی ہوں اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کی تاکید فرمائی ہے جب تک میں زندہ رہوں ۔ اور (مجھے) اپنی ماں سے اچھا سلوک کرنے والا (بنایا) اور مجھے متکبر، بدنصیب نہ بنایا۔ (پ16، مریم:32،31)

اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے اپنا مبارک ہونا خود فرمایا ہے مگر میرے حضور علیہ السّلام کا برکت والا ہونا خود رب کریم نے قراٰن میں بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے۔ اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر جہانوں کے لئے رحمت ۔(پ17،الانبیآء:107)

ذیشان نبی ہیں سب لیکن

میرے سرکار کے جیسا کوئی نہیں

الله پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں شریعت پر عمل پیرا ہونے ، انبیائے کرام کی معصومیت کو ماننے اور اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور انبیا کرام علیہم السلام کی سیرت پر عمل کرنے والا بنائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم