پیارے اسلامی بھائیو! آج اس پُر فتن دور میں ہر جگہ گناہوں کا بازار گرم ہی دکھائی دیتا ہے۔ وہ گناہ جس کی وعید اور مذمت پر قراٰنِ پاک کی بہت ساری آیات اور احادیثِ کریمہ وارد ہیں۔ ان گناہوں میں سے ایک گناہ خیانت بھی ہے۔ خیانت کی تعریف اس کا حکم اور اس کی مذمت پر چند احادیث آپ بھی پڑھئے:

خیانت کی تعریف: اجازتِ شرعیہ کے بغیر کسی کی امانت میں تصرف کرنا خیانت کہلاتا ہے۔ (عمدۃ القاری ، 1 / 347)

خیانت کا حکم: ہر مسلمان پر امانت داری واجب اور خیانت کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔(الحدیقۃ الندیۃ،1/652)

(1) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے(اور) جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔(بخارى ، 1 /24، حدیث: 33 )

(2) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جہنمیوں میں ایسے شخص کو بھی شمار فرمایا جس کی خواہش اور طمع اگرچہ کم ہی ہو مگر وہ اسے خیانت کا مرتکب کر دے۔ (مسلم، ص1184 ، حدیث:2865)

(3) حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہےکہ سرکارِ عالی وقار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو امانتدار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں اور جس میں عہد کی پابندی نہیں اس کا کوئی دین نہیں۔(مسند امام احمد ، 4 / 271، حدیث: 12386)

(4) حضرت ابو اُمامہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : مومن ہر عادت اپنا سکتا ہے مگر جھوٹا اور خیانت کرنے والا نہیں ہو سکتا ۔ (مسند امام احمد، 8 / 276، حدیث: 22232)

(5)حضرت فُضالہ بن عبید رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :تین شخص ایسے ہیں جن سے سوال نہیں ہوگا (اور انہیں حساب کتاب کے بغیر ہی جہنم میں داخل کر دیا جائے گا، ان میں سے ایک) وہ عورت جس کا شوہر اس کے پاس موجود نہ تھا اور اس (کے شوہر) نے اس کی دنیوی ضروریات (جیسے نان نفقہ وغیرہ) پوری کیں پھر بھی عورت نے اس کے بعد اُس سے خیانت کی۔ (الترغیب والترہیب، 3 / 18، حدیث: 4)

پیارے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے کہ احادیث میں خیانت کی کیسی کیسی مذمتیں وارد ہوئی ہیں، لہٰذا ہمیں چاہئے کہ خیانت کی راہ کو چھوڑ کر امانت کی راہ اختیار کریں۔ اللہ پاک ہمیں خیانت کرنے اور دھوکا دینے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ا ٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے لوگوں کی ہدایت و راہنمائی کے لئے اور گمراہی کے اندھیرے سے ہدایت کے نور کی طرف لانے اور ایمان لانے پر جنت کی بشارت اور کفر کرنے پر جہنم کی وعید سنانے کے لئے اپنے مقرب بندوں کو نبوت و رسالت کا عظیم منصب عطا فرما کر لوگوں کی طرف بھیجا ۔ ان میں سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السّلام کو رسول بنا کر بھیجا۔(مسلم، ص103، حدیث:475)آپ علیہ السّلام نے کئی سالوں تک اپنی قوم کو راہِ ہدایت پر لانے کی کوشش کی مگر چند گِنے چُنے لوگ ہی راہِ راست پر آئے۔آپ علیہ السّلام کو اللہ پاک نے عظیم اوصاف سے نوازا تھا جن میں سے چند آیاتِ قراٰنیہ کی روشنی میں یہاں ذکر کئے جاتے ہیں:

(1) شکر گزار: حضرت نوح علیہ السّلام اللہ پاک کا بہت شکر ادا کیا کرتے تھے ۔اللہ پاک نے قراٰن پاک میں ان کے اس وصف کو یوں بیان فرمایا: ﴿ اِنَّهٗ كَانَ عَبْدًا شَكُوْرًا(۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک وہ بڑا شکر گزار بندہ تھا۔(پ15، بنیٓ اسرآءِیل: 3) حضرت نوح علیہ السّلام کو بطورِ خاص شکر گزار بندہ فرمانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ علیہ السّلام جب کوئی چیز کھاتے ،پیتے یا لباس پہنتے تو اللہ پاک کی حمد کرتے اور ا س کا شکر بجا لاتے تھے۔(خازن، بنیٓ اسرآءِیل ، تحت الآیۃ: 3،3 / 117 )

(2) امانتدار: آپ علیہ السّلام امانتوں کے محافظ تھے، چنانچہ آپ علیہ السّلام نے اپنی قوم سے فرمایا: ﴿ اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ(۱۰۷)ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک میں تمہارے لیے ایک امانتدار رسول ہوں۔(پ19، الشعرآء: 107) حضرت نوح علیہ السّلام کی امانت داری آپ کی قوم کو اسی طرح تسلیم تھی جیسا کہ سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امانت داری پر عرب کو اتفاق تھا۔ ( مدارک، الشعرآء، تحت الآیۃ: 107، 2/572)

(3) کامل الایمان:آپ علیہ السّلام اللہ پاک کے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے تھے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿ اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۸۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کاملُ الایمان بندوں میں ہے۔(پ23، الصّٰٓفّٰت:81)

(4) مبلغ: آپ علیہ السّلام کا وصفِ تبلیغ قراٰنِ کریم میں یوں بیان ہوا: ﴿ اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱) ترجمۂ کنزالایمان: بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ ان کو ڈرا اس سے پہلے کہ ان پر دردناک عذاب آئے۔ (پ29،نوح:1) آپ علیہ السّلام سب سے پہلے رسول ہیں جنہوں نے کفار کو تبلیغ کی۔ (روح البیان، نوح، تحت الآیۃ: 10،1/ 171)

(5)ذکر جمیل:آپ علیہ السّلام کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے آپ کے بعد والوں (انبیا و رُسل و اُمم) میں آپ علیہ السّلام کا ذکرِ جمیل باقی رکھا۔ اللہ پاک فرماتا ہے: ﴿وَ تَرَكْنَا عَلَیْهِ فِی الْاٰخِرِیْنَ٘ۖ(۷۸)ترجمۂ کنز الایمان: اور ہم نے پچھلوں میں اس کی تعریف باقی رکھی۔ (پ23،الصّٰفّٰت:78)

پیارے اسلامی بھائیو! آپ نے پڑھا کہ حضرت نوح علیہ السّلام اللہ پاک کے بہت زیادہ شکر گزار،امانتدار ، اعلیٰ درجے کےکامل ایمان والے اور سب سے پہلے کفار کو تبلیغ فرمانے والے تھے ۔

اللہ پاک ہمیں بھی یہ اوصاف نصیب فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


8 مئی 2023ء بروز پیر فیضانِ مدینہ انصاری چوک ملتان میں مدنی مشورے کا انعقاد ہوا جس میں نگران مجلس، اراکین مجلس، صوبائی ذمہ داران نے  شرکت کی۔

مدنی مشورے میں رکنِ شوریٰ حاجی محمد فضیل عطاری نے شعبے کو اپ ڈیٹ رکھنے، دعوت اسلامی سے اپ ڈیٹ رہنے کا ذہن دیا نیز عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی میں 15 مئی 2023ء کو شروع ہونے والے مدنی تربیتی کورس کرنے کی ترغیب دلائی جس پر اسلامی بھائیوں نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔(رپورٹ: محمداحمدسیالوی عطاری رکن مجلس مدنی کورسز،کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


دنیا بھر میں  دینی کام کرنے والی عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ کے تحت 03 مئی 2023ء کو پاکستان رکن مجلس اسپیشل ایجوکیشن احمد اویس عطاری نےنابینا افراد صوبائی ذمہ دار قاری محمد خالد عطاری(پنجاب) کے ہمراہ ساہیوال میں ڈی او آفس کا وزٹ کیا۔

جہاں ذمہ داران کی ڈی او سے ملاقات ہوئی جس میں ان سے اسپیشل پرسنز کی بہتری اور تعلیم و تربیت کے اقدامات پر تبادلہ خیال ہوا، بعدازاں ان کو ساہیوال میں ہونے والے شعبہ تعلیم کے میٹ اپ میں شرکت اور کراچی فیضانِ مدینہ وزٹ کرنے کی دعوت دی، اس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔(رپورٹ: محمد زبیر عطاری ڈویژن ذمہ دار(ساہیوال)،کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


4مئی2023ءبروز جمعرات عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ  کراچی میں موجود فیضان آن لائن اکیڈمی کی برانچ میں مدنی مشورہ ہوا جس میں اجتماعی قربانی اور آن لائن اجتماعی قربانی کے حوالے سے بات چیت ہوئی۔

نگرانِ مجلس فیضان آن لائن اکیڈمی گرلز سید غلام الیاس عطاری،نگران مجلس اجارہ سید اسد عطاری، اورسیز فنانس ڈیپارٹمنٹ ذمہ دار محمد شکیل عطاری نے مدنی مشورہ لیا جس میں فیضان آن لائن کے ذمہ داران کے ساتھ اجتماعی قربانی کی پلاننگ کی اور اسکا لائحہ عمل تیار کیا۔(رپورٹ:محمد وقار یعقوب مدنی برانچ ناظم فیضان آن لائن اکیڈمی ،کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


مسلمانوں کے عقائد و نظریات کی  حفاظت کرنے والی عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کی جانب سے4 مئی 2023ء بروز جمعرات فیضانِ مدینہ شیخوپورہ موڑ بس اسٹاپ گوجرانوالہ میں مدنی مشورہ منعقد ہواجس میں صوبائی ذمہ دار حاجی رضا عطاری اور ڈویژن ذمہ دار عثمان عطاری نے رمضان ڈونیشن کارکردگی کا جائزہ لیا۔

بعدازاں صوبائی ذمہ دار نے شعبے کو مزید بہتر بنانے کے حوالے سے نکات فراہم کئے نیز سابقہ 3 ماہ کی کارکردگی کا جائزہ لیا پھر اچھی کارکردگی پر تحائف بھی پیش کئے۔ علاوہ ازیں اسلامی بھائیوں کو مدنی قافلے میں سفر کرنے اور دیگر کو ترغیب دلاکرسفر کروانے کے بارے میں حاجی رضا عطاری نے تربیت کی جبکہ عشر کے حوالے سے ملاقاتوں کا ذہن بھی دیا جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔حاضرین میں ڈویژن ذمہ دار، ڈسٹرکٹ ذمہ داران اور سٹی ذمہ داران نے شرکت کی۔(رپورٹ: محمد آفتاب عطاری شعبہ تحفظ اوراق مقدسہ گوجرانوالہ، کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)

دعوتِ اسلامی کے شعبہ اصلاح اعمال کے تحت جامع مسجد اکبر مغلپورہ لاہور میں عظیم الشان یوم ِقفل مدینہ اجتماع  کا انعقادہواجس میں مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن حاجی یعفور رضا عطاری نے عاشقانِ رسول کو زبان کی حفاظت کرنے پر مدنی پھول دیئے اور امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ کا لکھا ہوا بہت ہی پیارا رسالہ’’ خاموش شہزادہ‘‘ پڑھنے کی ترغیب دلائی۔(رپورٹ: غلام شبیر عطاری شعبہ اصلاح اعمال لاہور ڈویژن،کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


پچھلے دنوں پریس کلب کوٹ مٹھن میں ذمہ دارانِ دعوتِ اسلامی نے  وزٹ کیااور وہاں موجود صحافیوں، صدر پریس کلب ملک عاشق فریدی، جنرل سیکرٹری اے ڈی عامر تھہیم ،نائب صدر رانا ریاض سمیت دیگر صحافیوں سے ملاقاتیں کیں۔

دورانِ ملاقات ذمہ دار اسلامی بھائی نے شخصیات کو نیکی دعوت دی اور مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کا وزٹ کرنے کی دعوت پیش کی۔ اس موقع پر تحصیل نگران ناظم محمود عطاری ، ساجد رسول عطاری اور نوید الرحمن عطاری بھی تھے۔( کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


انسان کے وجود اور کمال میں 2 شخصیات کا کردار ہوتا ہے:(1)والدین:جو دنیا میں آنے کا سبب بنتے ہیں۔ (2)استاد:جو عالَم مادہ سے عالَمِ روحانیت کے ساتھ رابطہ مضبوط کرتے ہیں۔والدین بولنا سکھاتے ہیں اور استاد کب بولنا،کہاں بولنا اور کیسے بولنا سکھاتے ہیں۔والدین کے ساتھ ساتھ روحانی باپ(استاد)کا زیادہ کمال ہوتا ہے۔

حضرت امام زین العابدین نے استاد کے بہت سارے حقوق بیان کئے ہیں جن میں 6 حقوق درج ذیل ہیں:

(1)اَلتَّعْظِیْمُ لَہُ:استاد کا احترام کرو۔

(2)وَلَا تُحَدِّثُ فِیْ مَجْلِسِہٖ اَحَدًا:دورانِ کلاس استاد کے سامنے آپس میں بات نہ کرو۔

(3)وَاَنْ تَدْفَعُ عَنْہُ اِذَا ذُکِرَ عِنْدَکَ بِسُوْءٍ:اگر کوئی استاد کی برائی کر رہا ہو تو اپنے استاد کا دفاع کرو۔

(4)وَاَنْ تَسْتُرْ عُیُوْبَہُ وَتُظْھِرْ مَنَاقِبَہُ:اپنے استاد کے عیب چھپاؤ اور اپنے استاد کے اوصاف ظاہر کرو یعنی بیان کرو۔

(5)اَکْرِمِ الْاُسْتَاذَ وَلَوْ کَانَ فَاسِقًا:استاد کا احترام کرو چاہے وہ فاسق ہی کیوں نہ ہو۔

(6)وَلَا تُجِیْبَ اَحَدًا یَسْئَلُہُ عَنْ شَیْئٍ حَتّٰی یَکُوْنَ لَہُ ھُوَ الَّذِی یُجِیْبُ:استاد کی موجودگی میں اگر کوئی شخص سوال کرے تو استاد محترم سے پہلے جواب نہ دو۔

آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اپنے اساتذہ کرام کے حقوق کو یاد رکھنے اور ان کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین


دنیا میں سب سے زیادہ پاکیزہ رشتہ استاد اور شاگرد کا ہے لیکن اس رشتے میں ترقی اس وقت تک ترقی نہیں ہوسکتی جب تک استاد کے حقوق پورے نہ کئے جائیں۔استاد کا دل علم کا سمندر ہوتا ہے اور وہ اپنا علم اپنے شاگرد کو دینے میں ذرہ بھر خیانت نہیں کرتا۔

حق:کسی انسان کو وہ چیز دینا جس کا وہ مستحق ہے حق کہلاتا ہے۔

شاگرد جب تک استاد کے حقوق پورے نہ کرے وہ علم تو شاید حاصل کرلے مگر فیضانِ علم سے یقیناً محرومی ہوتی ہے۔استاد کے حقوق پورے کرنے کے لئے پہلے حقوق جاننا ضروری ہیں۔لہٰذا استاد کے حقوق پیشِ خدمت ہیں۔اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:عالم کا جاہل پر اور استاد کا شاگرد پر ایک سا حق ہے اور وہ یہ ہے کہ اس سے پہلے گفتگو شروع نہ کرے۔اس کی جگہ پر اس کی غیر موجودگی میں نہ بیٹھے۔چلتے وقت اس سے آگے نہ بڑھے۔اگر وہ اندر ہو تو دروازہ نہ بجائے بلکہ اس کے باہر آنے کا انتظار کرے۔اگرچہ اس سے ایک ہی حرف پڑھا ہو اس کے سامنے عاجزی کرے کا اظہار کرے۔اس کے حق کو اپنے ماں باپ بلکہ تمام مسلمانوں کے حق پر مقدم رکھے۔ جس سے اس کے استاد کو اذیت پہنچی وہ برکاتِ علم سے محروم رہے گا۔اپنے مال میں سے کسی چیز سے استاد کے حق میں بخل سے کام نہ لے یعنی جو کچھ اسے درکار ہو بخوشی حاضر کردے۔اور اس کے قبول کرلینے میں اس کا احسان اور اپنی سعادت سمجھے۔(کامیاب طالب علم کون؟ ص 54)

استاد کا ادب:استاد کا ادب و احترام شاگرد پر لازم ہے بغیر ادب کے وہ اپنے استاد سے فیض یاب نہیں ہوسکتا۔استاد کے ادب کی وجہ سے علم کی راہیں آسان ہوجاتی ہیں،ادب ہی وہ وصف ہے جس کی وجہ سے شاگرد اپنے معلم کے نزدیک محترم بن جاتا ہے۔ادب کا وہ مقام ہے جس سے علم بھی لا علم ہے۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اپنے استاد کے ادب کی وجہ سے استاد کا نام نہ لیتے تھے بلکہ کنیت سے پکارتے تھے۔ہمارے اسلاف کی زندگیاں اس بات کا نچوڑ ہیں کہ جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔

استاد کو اپنا روحانی باپ سمجھنا:استاد روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے لہٰذا طالبِ عالم کو چاہئے کہ وہ اسے اپنے حق میں حقیقی باپ سے بڑھ کر شفیق ہوتا ہے کیونکہ والدین اسے دنیا کی آگ اور مصائب سے بچاتے ہیں جبکہ اساتذہ اسے نازِ دوزخ اورمصائبِ آخرت سے بچاتے ہیں۔

بیمار ہونے پر عیادت:اگر استاد بیمار ہوجائے تو سنت کے مطابق اس کی عیادت کرے اور بیمار کی عیادت کرنے کا ثواب لوٹے جیسا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو مسلمان کسی مسلمان کی عیادت کے لئے صبح کو جائے تو شام تک اس کے لئے ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے رہتے ہیں اور شام کو جائے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے رہتے ہیں اور اس کے لئے جنت میں ایک باغ ہوگا۔(ترمذی، 2/290، حدیث: 971)

استاد کی غمخواری:اگر استاد کے ساتھ کوئی سانحہ پیش آجائے مثلاً اس کے والدین یا کسی عزیز کی وفات ہوجائے یا اس کا کوئی نقصان ہوگیا ہو تو اس کی غمخواری کرے اور حدیث ِ پاک میں بیان کردہ ثواب حاصل کرے جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو کسی غمزدہ سے تعزیت کرے اللہ پاک اسے تقویٰ کا لباس پہنائے گا اور روحوں کے درمیان اس کی روح پر رحمت فرمائے گااور جو کسی مصیبت زدہ سے تعزیت کرے اللہ پاک اسے جنت کے جوڑوں میں سے دو ایسے جوڑے پہنائے گا جس کی قیمت دنیا بھی نہیں ہوسکتی۔(معجم اوسط، 6/429، حدیث: 9292)

سچ بولے:طالبِ علم کو چاہئے کہ استاد کے سامنے بالخصوص اور دیگر مسلمانوں کے سامنے بالعموم سچ بولے۔استاد سے جھوٹ بولنا باعثِ محرومی ہے۔استاد کے سامنے جھوٹ بولنے والے طالبِ علم کے بارے میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ملاحظہ فرمائیے:سخن پروری یعنی دانستہ باطل پر اصرار ومکابرہ ايک کبيرہ،کلمات علماء ميں کچھ الفاظ اپنی طرف سے الحاق کر کے ان پر افترا دوسرا کبيرہ،علماء کرام اور خود اپنے اساتذہ کو دھوکہ دینا خصوصاً امر دين ميں تیسرا کبيرہ،يہ سب خصلتيں یہود لَعَنَھُمُ اللہُ تَعَالٰی کی ہيں۔ وقال اللہ تعالی: ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(۷۵) (پ1، البقرۃ:75) پھر سمجھنے کے بعد اسے دانستہ بدل دیتے ہیں۔ پس اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں استاد کے سامنے جھوٹ بولنے سے بچائے اور استاد کے حقوق پورے کرنے کی توفیق دے کیونکہ استاد ہی وہ ہستی ہے جو شاگرد کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر علم کی روشنی میں لاتا ہے۔ آج اگر آپ یہ عبارت پڑھنے کے قابل ہیں تو اس میں بھی آپ کے استاد کا ہاتھ ہے۔


استاد روحانی باپ ہوتا ہے جیساکہ علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:جوشخص لوگوں کو علم سکھائے وہ بہترین باپ ہے کیونکہ وہ بدن کا نہیں روح کا باپ ہے۔(والدین،زوجین اور اساتذہ کے حقوق،ص91)اسی حوالے سے ایک مقام پرنبیِ اکرم ﷺ نے فرمایا:میں تمہارے لیے باپ کی حیثیت رکھتا ہوں میں تمہیں علم سکھاتا ہوں۔(ابو داود، 1/37، حدیث: 8) استاد کے حقوق والدین کے حقوق کی مثل ہیں بلکہ فتاویٰ رضویہ میں تو یہ ہے کہ استاد کے حق کو اپنے والدین اور تمام مسلمانوں کے حق سے مقدم رکھے۔(فتاویٰ رضویہ، 23/638) استاد کے چند حقوق درج ذیل ہیں:

(1)اطاعت و فرمانبرداری: یہ حق تو حقوقِ واجبہ میں سے ہے کہ اپنے استاد کا ہر حکم مانے، مگر جو خلافِ شریعت حکم ہو تو ہرگز نہ مانے کہ حدیثِ مبارکہ میں ہے:لا طاعۃَ لاحد فی معصیۃ اللہ تعالی یعنی اللہ پاک کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں۔(مسند امام احمد،5/65)

(2)آدابِ مجلس:عالم کا جاہل اور استاد کا شاگرد پر ایک جیسا حق ہے اور وہ یہ کہ اس سے پہلے بات نہ کرے اور اس کے بیٹھنے کی جگہ اس کی غیر موجودگی میں بھی نہ بیٹھےاور اس سے آگے نہ بڑھے اور اس کی کوئی بات رد نہ کرے۔(فتاویٰ رضویہ، 19/452) نیز استاد کی بارگاہ میں ظاہری و باطنی مکمل توجہ کے ساتھ حاضر ہو۔

(3)حسنِ اعتقاد:شاگرد کو چاہیے کہ اپنے استاد کے بارے میں ہمیشہ مثبت سوچ رکھے۔استاد کے کسی بھی عمل کے بارے میں کوئی بدگمانی نہ کرے۔علم کا فیضان ہی تب نصیب ہوتا ہے جب ظاہری کے ساتھ باطنی طور پربھی استادکا ادب کیا جائے۔

(4) خدمت گزاری: شاگرد کو چاہیے کہ اپنے استاد کے حقوقِ واجبہ کا خیال رکھے،اپنے مال میں کسی چیز سے اس کے ساتھ بخل نہ کرے۔ (فتاویٰ ہندیہ،5/378) مزید یہ کہ جو کچھ اسے درکار ہو بخوشی پیش کرے اور اگر وہ قبول کر لے تو اسے اس کا احسان اور اپنی سعادت مندی تصور کرے۔

(5)دعائے خیر:شاگرد کو چاہیے کہ اپنے استاد کو ہمیشہ دعاؤں میں یاد رکھے۔امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:میں جب بھی اپنے والدین کے لیے دعا کرتا ہوں تو اپنے استاد کے لیےضرور دعا کرتا ہوں۔امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:میں اپنے والدین سے بھی پہلے استاد کے لیے دعا کرتا ہوں۔ (حالات، کمالات، ملفوظات امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ،ص113)ان کے علاوہ بھی استاد کے کثیر حقوق ہیں کہ روزانہ اس کا دیا ہوا سبق یاد کرے۔ استاد کی موجودگی میں آواز بلند نہ کرے اور کسی سے استاد کی برائی نہ سنے وغیرہ۔ اللہ کریم ہمیں استاد کے حقوق کما حقہ بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے اور میرے اساتذہ کو درازیِ عمر بالخیر نصیب فرمائے۔اٰمین


انسان کو فرشتوں اور دوسری مخلوقات پر برتری اور فضیلت علم کی وجہ سے دی گئی ہے،اس لئے سب سے پہلی وحی میں اللہ پاک نے اپنے جس کرم کا اظہار فرمایا وہ علم ہی ہے۔ارشادِ ربانی ہوا: عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْؕ(۵) (پ 30، العلق:5) ترجمہ: اللہ نے انسان کو وہ سکھایا جس سے وہ واقف نہ تھا۔

استاد کسے کہتے ہیں:استاد وہ جو اپنا علم جو اس کے دل و دماغ میں ہوتا ہے اس کو اپنے شاگرد کی طرف ٹرانسفر کرتا ہے۔

ما وصل من وصل الا بالحرمۃ وما سقط من سقط الا بترک الحرمۃ ترجمہ:جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کرنے کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔

استاد کے حقوق:حضرت سہل بن عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ سے کوئی سوال پوچھتا تو آپ پہلو تہی فرمایا کرتے تھے۔ایک مرتبہ اچانک دیوار سے پشت لگاکر بیٹھ گئے اور لوگوں سے فرمایا:آج جو کچھ پوچھنا چاہو مجھ سے پوچھ لو!لوگوں نے عرض کی:حضور!آج یہ کیا ماجرا ہے؟آپ تو کسی سوال کا جواب ہی نہیں دیا کرتے!فرمایا:جب تک میرےاستاد حضرت ذوالنون رحمۃ اللہ علیہ حیات تھے،اس لئے ان کے ادب کی وجہ سے جواب دینے سے گریز کیا کرتا تھا۔ لوگوں کو س جواب سے مزید حیرت ہوئی کیونکہ ان کے علم کے مطابق حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ ابھی حیات تھے۔بہرحال آپ کے اس جواب کی بنا پر فوراً وقت اور تاریخ نوٹ کرلی گئی۔جب بعد میں معلومات کی گئیں تو واضح ہوا کہ آپ کے کلام سے تھوڑی دیر قبل ہی حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہوگیا تھا۔(تذکرۃ الاولیا، 1/349)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کتبِ معتبرہ کے حوالے سے استاد کے حقوق بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:عالم کا جاہل پر اور استاد کا شاگرد پر ایک سا حق ہے اور وہ یہ ہے کہ(1)اس سے پہلے گفتگو شروع نہ کرے۔(2)اس کی جگہ پر اس کی غیر موجودگی میں بھی نہ بیٹھے۔(3)چلتے وقت اس سے آگے نہ بڑھے۔(4)اپنے مال میں سے کسی چیز سے استاد کے حق میں بخل سے کام نہ لے یعنی جو کچھ اسے درکار ہو بخوشی حاضر کردے اور اس کے قبول کرلینے میں اس کا احسان اور اپنی سعادت تصور کرے۔(5)اس کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے حق سے مقدم رکھے۔(کامیاب طالب علم کون؟ ص 54)

آدابِ مجلس:استاد کے سامنے ادب کے ساتھ بیٹھنا اور ایسا طریقہ اور رویہ اختیار کرنا شاگرد کی ذمہ داری ہے کہ جس طرح بے ادبی کی فضا پیدا نہ ہو اور اس کے لئے ہمارے سامنے مجلسِ نبوی ہے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا اس میں با ادب بیٹھنا ہے اور تعلیم حاصل کرنا بہترین مثال ہے۔اللہ پاک ہمیں اساتذہ کرام کے تمام حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین ﷺ