انسانوں کو فرشتوں اور دوسری مخلوقات ہر برتری اور فضیلت علم کی وجہ سے دی گئی، اس لئے سب سے پہلے وحی میں اللہ پاک نے اپنے جس کرم کا اظہار فرمایا وہ علم ہی ہے۔ارشادِ ربانی ہے: عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْؕ(۵) (پ 30، العلق:5) ترجمہ: اللہ نے انسان کو وہ سکھایا جس سے وہ واقف نہ تھا۔اس لئے رسول اللہ ﷺ تحصیلِ علم کے بارے میں تاکید فرماتے ہیں:علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔ (ابن ماجہ، 1/146، حدیث: 224) اللہ پاک نے اپنے آخری نبیﷺ کی معلم ہونے کی حیثیت سے تعریف فرمائی جن سے غافل انسانوں نے علم حاصل کیا۔اس لئے معلمی منصب نبوت قرار پایا۔ظاہر ہے کہ کسی علم کو حاصل کرنے کے لئے کسی استاد سے استفادہ کرنا پڑتا ہے کہ اس کے بغیر حصول علم ممکن نہیں۔اس وجہ سے استاد اور معلم ہی ہمیں اس فضیلت سے سرفراز کرنے والا ہے اور علم حاصل کرنے کے لئے استاد کے حقوق کو پورا کرنا ضروری ہے۔

استاد کے 5 حقوق:

1)ادب و احترام:شاگرد کا اولین فرض ہے کہ وہ اپنے استاد کا ادب و احترام کرے۔نبیِ کریم ﷺ کے فرمان کی روشنی میں استاد روحانی باپ ہے چانکہ روح کو جسم پر فوقیت حاصل ہے اس لئے استاد کا مادی باپ سے بھی زیادہ عزت و احترام کا مستحق ہے۔امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں:میرے استاد حماد رحمۃ اللہ علیہ جب تک زندہ رہے میں نے ان کے مکان کی طرف کبھی پاؤں نہ پھیلائے۔

با ادب با نصیب بے ادب بد نصیب

2)اطاعت و فرمانبرداری:شاگرد کا فرض ہے کہ وہ اپنےا ستاد کی پوری طرح اطاعت و فرمانبرداری کرے۔طالبِ علم کو چاہئے کہ استاد جن باتوں کا حکم دے ان پر عمل کرے اور جن باتوں سے منع کرے ان سے رک جائے۔

3)عجز و انکساری:طالبِ علم کا فرض ہے کہ وہ عجز و انکساری کو اپنا شیوہ بنائے۔اپنے استاد سے کبھی تکبر و غرور سے پیش نہ آئے۔طالبِ علم کو استاد کے سامنے اس طرح ہونا چاہئے جس طرح مردہ زمین پر بارش ہوتی ہے تو وہ زندہ ہوجاتی ہے۔

4)استاد سے حسنِ ظن:طالبِ علم کا فرض ہے کہ وہ اپنے استاد سے حسنِ ظن رکھے۔اگر استاد کسی وقت سختی کرے تو شاگرد اس سختی کو برداشت کرےکیونکہ استاد کی سختی بھی خیر خواہی کے جذبے سے ہوتی ہے۔

5)معاشی تحفظ:چونکہ معاشرہ کی ترقی میں استاد کا کردار بڑا اہم ہوتا ہے،اس لئے استاد کا حق ہے کہ اسے معاشی تحفظ اور بلند معاشرتی مقام دیا جائے۔قدیم دور میں سلاطین و رؤسا اپنے بچوں کے اثالیق کی مکمل طور پر مالی سرپرستی کرتے تھے۔اب بھی ترقی یافتہ ممالک میں استاد کی قدر کی جاتی ہے اور اسے بھرپور معاشی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔

6)معذرت:اگر استاد کسی وجہ سے ناراض ہوجائے تو شاگرد کے لئے لازم ہے کہ وہ استاد سے معذرت کرےا ور استاد کی ناراضی دور کرنے کی کوشش کرے۔استاد کے سامنے ادب کے ساتھ بیٹھنا اور ایسا طریقہ اور رویہ اختیار کرنا شاگرد کی ذمہ داری ہے کہ کسی طرح بے ادبی کی فضا پیدا نہ ہو اور اس کے لئے ہمارے سامنے مجلسِ نبوی اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا اس میں باادب بیٹھنا ہےا ور تعلیم حاصل کرنا بہترین مثال ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں:ہم مسجدِ نبوی میں اس طرح بیٹھے تھے کہ گویا ہمارے سر پر چڑیاں بیٹھی ہوں اور ذرا سی حرکت سے اڑجائیں گی۔ (بخاری، 2/266، حدیث: 2842) اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے اساتذہ کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


طالبِ علم کے لئے استاد کا ہونا بڑی سعادت کی بات ہے۔طالبِ علم اور استاد کے درمیان رشتہ انتہائی مقدس ہوتا ہے۔طالبِ علم کے لئے استاد کا کردار ایک باغبان کی مثل ہے۔ جس طرح کسی باغ کے پودوں کی افزائش و حفاظت باغبان کی توجہ اور کوشش کے بغیر نہیں ہوسکتی اسی طرح طالبِ علم کی تربیت کے لئے استاد کی توجہ اور کوشش بے حد ضروری اور اہمیت کا حامل ہے۔شاگرد کو چاہئے کہ وہ استاد کا دل و جان سے ادب و احترام کرے کیونکہ کسی عربی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔

استاد کسے کہتے ہیں:استاد وہ جو اپنا علم جو دل و دماغ میں ہوتا ہے اس کو شاگرد کی طرف ٹرانسفر کرتا ہے اس کو استاد کہتے ہیں۔

استاد کے حقوق:اعلیٰ حضرت امام احمد ضاخان استاد کے حقوق بیان فرماتےہیں:عالم کا جاہل پر اور استاد کا شاگرد پر ایک سا حق ہے اور وہ یہ ہے کہ

(1)شاگرد استاد سے پہلے گفتگو نہ کرے۔

(2)شاگرد استاد کی جگہ پر اس کی غیر موجودگی میں نہ بیٹھے۔

(3)شاگرد کو چاہئے کہ چلتے وقت استاد کےآگے نہ بڑھے۔

(4)اپنے مال میں سے کسی چیز سے استاد کے حق میں بخل سے کام نہ لے یعنی جو کچھ اسے درکار ہو بخوشی حاضر کردے اور اس کے قبول کرلینے میں اس کا احسان اور اپنی سعادت تصور کرے۔

(5)استاد کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے حق سے مقدم رکھے۔

(6)اگر استاد گھر کے اندر ہو تو باہر سے دروازہ نہ بجائے بلکہ خود اس کے باہر آنے کا انتظار کرے۔

(7)استاد کو اپنی جانب سے کسی قسم کی اذیت نہ پہنچنے دے کہ جس سے اس کے استاد کو کسی قسم کی اذیت پہنچی وہ علم کی برکات سے محروم رہے گا۔(کامیاب طالب علم کون؟ ص 54)

(8)شاگرد کو چاہئے کہ جب استاد بیمار ہو تو اپنے استاد کی سنت کے مطابق عیادت کرے۔

(9)شاگرد کو چاہئے کہ کوئی اہم فیصلہ کرتے وقت اپنے استاد سے مشورہ کرے۔

استاد کا ادب:حضرت سہل بن عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ سے کوئی سوال کیا جاتا تو آپ پہلو تہی فرمالیا کرتے تھے۔ایک مرتبہ اچانک دیوار سے پشت لگا کر بیٹھ گئے اور لوگوں سے فرمایا:آج جو کچھ پوچھنا چاہو مجھ سے پوچھ لو!لوگوں نے عرض کی:حضور!آج یہ کیا ماجرا ہے؟آپ تو کسی سوال کا جواب ہی نہیں دیا کرتے تھے؟فرمایا:جب تک میرے استاد حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ حیات تھے ان کے ادب کی وجہ سے جواب دینے سے گریز کیا کرتا تھا۔لوگوں کو اس جواب سے مزید حیرانگی ہوئی کیونکہ ان کے علم کے مطابق حضرت ذو النون مصری ابھی حیات تھے۔بہرحال آپ کے اس جواب کی بنا پر فوراً وقت اور تاریخ نوٹ کرلی گئی،جب بعد میں معلومات لی گئیں تو واضح ہوا کہ آپ کے کلام سے تھوڑی دیر قبل ہی حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ کا وصال ہوا ہے۔(تذکرۃ الاولیا،1/229)

اللہ کریم ہمیں حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ کا صدقہ اپنے استادوں کا ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اللہ کریم ہمیں دل و جان سے ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی ناراضی سے اللہ کریم ہمیں بچائے۔اٰمین اللھم اٰمین


استاد کو روحانی باپ کا درجہ دیا جاتا ہے کہ وہ طالبِ علم کو دنیاوی اور دینوی دونوں کا علم سیکھاتا ہے۔ استادہی وہ شخص ہے جو ہمیں زندگی کے رنگ ڈھنگ سیکھاتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ زندگی میں آگے کیسے بڑھنا ہے۔وہ ہمیں دنیا میں سر اٹھا کر جینے کا طریقہ سیکھاتا ہے۔ہر وہ شخص جس نے ایک لفظ کی تعلیم بھی دی ہو وہ بھی استاد ہوتا ہے اور اسے استاد کا درجہ ہی دینا چاہیے۔استاد کی ہر بات کو توجہ سے سننا چاہیے اور استاد کے سامنے اونچی آواز میں نہیں بولنا چاہیے۔ استاد کا ادب و احترام کرنا چاہیے۔نبیِ کریم ﷺ کا ارشاد ہے: میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ (ابن ماجہ، 1/150، حدیث: 229) تو اس کو بھی مدِّ نظر رکھنا چاہیے۔ استاد کے بارےمیں ارشادِ باری ہے: وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا (پ 1، البقرۃ: 31) ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے۔

استاد کے بارے میں احادیثِ مبارکہ ملاحظہ ہوں کہ استاد کا کیا رتبہ ہے:

1)نبی ِکریم ﷺ نے فرمایا:جو شخص لوگوں کو علم سکھائے وہ بہترین باپ ہے کیونکہ وہ بدن کا نہیں روح کا باپ ہے۔

(التيسير، 2/454،تحت الحدیث:2580)

2)نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے کسی کوقرآنِ مجید کی ایک آیت پڑھائی وہ اس کا آقا ہے۔(معجم كبیر، 8/112، حدیث:7528)

3)نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:عالم کا حق جاہل پر اور استاذ کا حق شاگرد پر برابر ہے وہ یہ ہے کہ اس سے پہلے بات نہ کرے اور اس کی جگہ پر نہ بیٹھے اگرچہ وہ موجود نہ ہو اور اس کی بات کو رد نہ کرنے اور چلنے میں اس سے آگے نہ بڑھے۔ (ردالمحتار، 10/522)

4)علم سیکھو اور علم کے لیے ادب و احترام سیکھو جس استاد نے تجھے علم سکھایا ہے اس کے سامنے عاجزی اور انکساری اختیار کرو۔(معجم اوسط،4/342،حدیث: 6184)

5)استاد کا شاگرد پر یہ بھی حق ہے کہ شاگرد کو بات کرنے اور چلنے میں استاذ سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔ (الحقوق لطرح العقوق، ص 98)

احادیثِ پاک سے معلوم ہوا !استاد کتنے بڑے رتبے کا مالک ہے! شاگرد کو بھی چاہیے کہ استاد کا ادب و احترام کرے، استاد کی ہر بات پر عمل کرے اور استاد کے سامنے ہمیشہ نظریں جھکا کر رکھے کیونکہ استاد روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی استاد کا ادب و احترام اور ہر بات پر عمل کرنے والا شاگرد بنائے۔ ہمیں عالمِ دین بنائے اور ایمان پر خاتمہ ہو۔آمین


استاذ( یعنی معلِّم ) ہونا بہت بڑی سعادت ہے کہ ہمارے پیارے مدنی آقاﷺنے اس منصب کی نسبت اپنی ذات اقدس کی طرف کر کے اسے عزت وکرامت کا تاج عطا فر مایا ہے، چنا نچہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:انما بعثت معلما یعنی مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔(ابن ماجہ، 1/150)ایک اور مقام پر پیارے آقا، مکی مدنی مصطفٰےﷺنے ارشاد فرمایا:جس نے کتابُ اللہ میں سے ایک آیت سکھائی یا علم کا ایک”باب“ سکھایا تو اللہ پاک اس کے ثواب کو قیامت تک کے لئے جاری فرمادیتا ہے۔(کنز الایمان، 10/61) استاذ کی اہمیت جاننے کے بعد آئیے! استاذ کےحقوق کا مطالعہ کرنے کی سعادت حاصل کرتی ہیں:

1۔طالبِ علم کو چاہیے کہ وہ اپنے استاد کا ادب کرے:کسی عربی شاعر نے کہا ہے:مَاوَصَلَ مِنْ وَصْلٍ اِلاَّ بِالْحُرْمَةِ

وَمَا سَقَطَ مِنْ سَقَطٍ اِلَّا بِتَرْكِ الْحُرْمَةِیعنی جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔امام شعبی نے روایت کیا کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے ایک جنازے پر نماز پڑھی۔ پھر سواری کا خچر لایا گیا، تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضى الله عنہما نے آگے بڑھ کر رکاب تھام لی۔ یہ دیکھ کر حضرت زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اے رسول الله ﷺ کے چچا کے بیٹے ! آپ ہٹ جائیے۔ اس پر حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:علما و اکابر کی اسی طرح عزت کرنی چاہیے۔(جامع بیان العلم و فضلہ، ص116)

2۔استاذ کو اپنا روحانی باپ سمجھے:استاذ روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے۔ لہٰذا طالب العلم کو چاہیے کہ اسے اپنے حق میں حقیقی باپ سے بڑھ کر مخلص جانے۔تفسیر کبیر میں ہے:استاذ اپنے شاگرد کے حق میں ماں باپ سے بڑھ کر شفیق ہوتا ہے کیونکہ والدین اسے دنیا کی آگ اور مصائب سے بچاتے ہیں جبکہ اساتذہ اسے نارِ دوزخ اور مصائبِ آخرت سے بچاتے ہیں۔(تفسیر کبیر، 1/401)

3۔بیمار ہونے پر عیادت کرے:اگر کوئی استاذ بیمار ہو جائے تو سنت کے مطابق اس کی عیادت کرے اور بیمار کی عیادت کرنے کا ثواب لوٹے جیسا کہ حضرت علی کرم اللهُ وَجْهَهُ الكَرِيم سےروایت ہے کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا:” جو مسلمان کسی مسلمان کی عیادت کے لیے صبح کو جائے تو شام تک اس کے لیے ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں اور شام کو جائے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں اور اس کے لیے جنت میں ایک باغ ہوگا۔

(ترمذی،2/290، حدیث 971)

4۔استاد کی غم خواری کرے:اگر کسی استاذ کے ساتھ کوئی سانحہ پیش آجائے مثلاً اس کے حقیقی والد یا کسی عزیز کی وفات ہو جائے یا اس کا کوئی نقصان ہوگیا ہو تو اس کی غم خواری کرے اور حدیثِ پاک میں بیان کردہ ثواب حاصل کرے جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عَنْہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جوکسی غمزدہ شخص سے تعزیت (یعنی اس کی غم خواری) کرے گا اللہ پاک سے تقویٰ کا لباس پہنائے گا اور روحوں کے درمیان اس کی روح پر رحمت فرمائے گا اور جو کسی مصیبت زدہ سے تعزیت کرے گا اللہ پاک اسے جنت کے جوڑوں میں سے دو ایسے جوڑے پہنائے گا جن کی قیمت دنیا بھی نہیں ہو سکتی۔ (معجم اوسط،6/429، حدیث:9292)

5۔اہم معاملات میں استاذ سے راہ نمائی لے: طالبُ العلم کو چاہیے کہ کوئی بھی اہم فیصلہ کرتے وقت اپنے استاذ سے ضرور مشورہ کرلے۔ امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہوئے اور فقہ میں کتابُ الصلوۃ سیکھنے لگے۔ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے جب ان کی طبیعت میں فقہ میں عدم دلچسپی اور علمِ حدیث کی طرف رغبت دیکھی تو ان سے ارشاد فرمایا:تم جاؤ اور علمِ حدیث حاصل کرو کیونکہ آپ نے اندازہ لگالیا تھا کہ ان کی طبیعت علمِ حدیث کی طرف زیادہ مائل ہے۔ پس جب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے استاذ کا مشورہ قبول کیا اور علمِ حدیث حاصل کرنا شروع کیا تو دیکھنے والوں نے دیکھا کہ آپ تمام ائمہ حدیث سے سبقت لے گئے۔ (تعلیم المتعلم طریق التعلم،ص55)

باادب با نصیب بےادب بدنصیب

اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے اساتذہ کرام کا ادب و احترام کرتے ہوئے ان کے حقوق بجالانے کی توفیق عطا فرمائے اور دنیا و آخرت میں حقیقی کامیابیوں سے نوازے۔آمین بجاہ خاتم النبیینﷺ

علم کے بارے میں حدیثِ مبارکہ: آقاﷺنے ارشاد فرمایا:علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔(ابن ماجہ، 1/146، حدیث: 224) ایک اور حدیث میں فرمایا:میرے بعد سب سے بڑا سخی وہ ہے جس نے علم حاصل کیا اور پھر اسے پھیلایا۔ (مسند ابی یعلیٰ، 3/16، حدیث: 2782) نبیِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:میں علم کا شہر ہوں ابو بکر اس شہر کی بنیاد ہے۔عمر اس کی دیوار ہے۔عثمان اس کی چھت ہے اور علی اس کا دروازہ ہے۔ (تاریخ مدینہ دمشق، 9/20)

اُستاد کے اوصاف: استاد بنیاد کی وہ اینٹ ہے جو پوری عمارت کا بوجھ اُٹھاتی ہے مگر کسی کو نظر نہیں آتی۔استاد معاشرے کا وہ نمک ہے جو تھوڑی مقدار میں ہونے کے باوجود ذائقہ بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔استاد شمع ہے جو خود جل کر دوسروں کوروشنی دیتی ہے۔ اُستاد وہ ماں ہے جو سراسر محبت ہےاور بذاتِ خود ٹھنڈی جگہ لیٹ کر بچے کو خشک اور گرم بستر مہیا کرتی ہے۔اُستاد شعور ذات کے سفر میں رہنمائی کرنے والا اور علم و دانش کا رکھوالا ہے۔رسولِ پاک ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے: علم کی روشنائی شہید کے خون سے مقدس تر ہے۔ (جامع صغیر، ص 571، حدیث: 9619)

اُستاد کے حقوق: امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں: میں نے کبھی اپنے استاد کے گھر کی طرف پاؤں دراز نہیں کیے حالانکہ ان کے اور میرے گھر کے درمیان سات گلیوں کا فاصلہ ہے۔ڈاکٹر اقبال کا اپنے استاد سے عشق کا یہ حال تھا کہ جب ان کے اُستاد کا ذکر ہوتا تو ان کی آنکھیں نم ہو جاتیں۔ امام شافعی فرماتے ہیں:ادب و احترام کی وجہ سے میں اپنے استاد کے سامنے کتاب کا ورق بھی آہستہ الٹتا تھا۔استاد علم دینے کا وعدہ کرتا ہے اور شاگرد ادب کرنے کا، اگر شاگرد ادب چھوڑ دے تو علم سے محروم ہو جانا اس کا مقدر ہے۔

اُستاد کے لیے ہمیشہ دعا کیجئے: ابو حنیفہ فرماتے ہیں: میں ہر نماز کے بعد اُستاد کے لیے دعا کرتا ہوں۔اپنے اُستاد سے محبت کرو کیوں کہ اسی کی بدولت آج تم یہ عبارت پڑھنے کے قابل ہو!اگر استاد بظاہر نالائق بچے میں فقط یہ یقین پیدا کر دے کہ وہ لائق ہو سکتا ہے تو بچے کی تقدیر بدل جاتی ہے۔امام برهان الدین زرنوجی فرماتے ہیں: ایک طالبِ علم اس وقت تک علم حاصل نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس سے نفع اُٹھا سکتا ہے جب تک کہ وہ علم، اہلِ علم اور اپنے استاد کی تعظیم و توقیر نہ کرتا ہو۔ (راہِ علم، ص 28) ادب کرنے والوں کو اساتذۂ کرام کے دل سے دعائیں ملتی ہیں اور بزرگوں کی دعائیں انسان کو بڑی اونچی جگہ لے جاتی ہیں۔ 


طالبِ علم نہ اس وقت علم حاصل کرسکتا ہے اور نہ ہی کسی کام میں کامیابی حاصل کرسکتا ہے جب تک اس کے دل میں اپنے استاد کی عزت و احترام نہ آجائے۔ہمارے بزرگانِ دین اور اولیائے عظام نے بہت بلند مراتب حاصل کئے اور کامیابی کی سیڑیاں پار کیں وہ صرف اس لئے کہ وہ اپنے اساتذہ کا ادب و احترام کرتے،ان کی عزت کرتے،جس کام کا انہیں ان کے استاد حکم دیتے اس کام میں ذرا سی تاخیر سے بھی بچتے اور فوراً سے وہ کام کرکے برکتیں حاصل کرنے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔جس سے انہوں نے ایک حرف بھی پڑھا یا ہوتا اس کی بھی اتنی ہی تعظیم کرتے تھے جتنی اس استاد کی کرتے جس نے انہیں بے شمار علم سے نوازا ہوتا جیسا کہ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جس نے مجھے ایک حرف سکھایا میں اس کا غلام ہوں چاہے مجھے فروخت کردے،چاہے تو آزاد کردے اور چاہے تو غلام بنا کر رکھے۔ (راہِ علم، ص 28) اس فرمان سے معلوم ہوا!جیسے ہمارے بزرگ اور علمائے دین اساتذہ کا ادب و احترام کرتے تھے ویسے ہم بھی اپنے استاد کا ادب کریں،ان کی تعظیم کریں اور ان کے ہر حکم پر لبیک کہتے ہوئے برکتیں حاصل کریں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انہی کی رضا میں اللہ پاک اور رسول ﷺ اور پیر و مرشد کی رضا میں ہے بشرطیکہ وہ کوئی خلافِ شرع حکم نہ دیں اور اگر کوئی ایسا کوئی حکم دیں جو خلافِ شریعت ہو تو اس پر عمل نہیں کیا جائے گا کیونکہ اللہ پاک کی نافرمانی میں مخلوق کی فرمانبرداری جائز نہیں۔اس کے علاوہ ہر وہ حکم جس میں خدا و رسول ﷺ کی نافرمانی ہو اس کو ماننا لازم ہے اور نہ ماننے کی صورت میں دنیا و آخرت برباد ہونے کا خطرہ ہے۔ہمیں اپنے اساتذہ کے تمام حقوق پورے کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ان تمام حقوق میں سے پانچ حقوق درج ذیل ہیں:

1)اگرچہ کسی استاد سے ایک ہی حرف پڑھا ہو اس کی بھی تعظیم بجالائیے کہ حدیثِ پاک میں ہے:سیدِ عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس نے کسی کو قرآنِ کریم کی ایک آیت پڑھائی وہ اس کا آقا ہے۔ (معجم کبیر،8/112،حدیث:7828)

2) استاد کی ناشکری سے بچتے رہئے کیونکہ یہ ایک کوفناک بلااور تباہ کن مرض ہے اور علم کی برکتوں کو ختم کر دیتی ہے،چنانچہ حضور پاک ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے:جس نے لوگوں کو شکریہ ادا نہیں کیا اس نے اللہ پاک کا شکر ادا نہیں کیا۔(ترمذی،3/384،حدیث:1962)

3)استاد کی سختی کو اپنے لئے باعثِ رحمت اور کامیابی کی علامت جانتے ہوئے صبر سے کام لے۔کبھی بھی استاد کی کسی بھی بات کا غصہ نہ کرے۔کیونکہ قول مشہور ہے:جو استاد کی سختیاں نہیں جھیل سکتا اسے زمانے کی سختیاں جھیلنے پڑتی ہیں۔

4)جب بھی استاد کلام کر رہے ہوں درمیان میں اپنی بات شروع نہ کرے بلکہ ان کی بات دھیان سے سنے اور نہ ہی ان کے کلام سے پہلے بلا ضرورت خود کلام شروع کرے۔استاد کے سامنے زیادہ بولنے سے گریز کرے۔ایک قول ہے:مرشد کے سامنے اور استاد کے سامنے زبان قابو میں رکھو۔

5)استاد کے سامنے جھوٹ بولنے سے علم کی برکتیں ختم ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔لہٰذا جب بھی استاد کوئی بات پوچھے تو فوراً سچ بات بتادیجئے،ہمیشہ ان سے سچ بولئے۔اللہ پاک ہمیں ہمیشہ اپنے استاد کی تعظیم کرنے،ان کی ناشکری سے بچنے،ان کی سختیوں کو اپنی کامیابیوں کا ذریعہ جاننے اور ہمیشہ ان سے سچ بولنے کی توفیق عطا فرمائے۔

استاد کی کرتی رہوں ہر دم میں اطاعت ماں باپ کی عزت کی بھی توفیق خدا دے

میں جھوٹ نہ بولوں کبھی گالی نہ نکالوں اللہ مرض سے تو گناہوں سے شفا دے

اٰمین بجاہ النبی الامین ﷺ


استاد کی تعریف:تعلیم میں استاد،معلم وہ ہے جو متعلم یا طالبِ علم کی مدد و معاونت و راہ نمائی کرتا ہے۔کوئی بھی درس گاہ ہو معلم کے بغیر درس گاہ کا تقدس ایسا ہی ہے جیسا کہ ماں کے بغیر گھر۔

استاد کی عظمت قرآن کی روشنی میں:اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْؕ(۵) (پ 30، العلق:5) ترجمہ: اللہ نے انسان کو وہ سکھایا جس سے وہ واقف نہ تھا۔اللہ پاک نے انسان کو پہلے قدرتی چیزوں کے بارے میں علم فرمایا اور پھر اس کی تفصیلات اس نے اپنے پیغمبر کے ذریعے ترسیل فرمائی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ خود رسول اللہ ﷺ ایک معلم ہیں۔

استاد کی عظمت حدیثِ مبارکی روشنی میں:رسول اللہ ﷺ وہ لوگ بہتر ہیں جو علم حاصل کرتے ہیں اور دوسروں کو سکھاتے ہیں۔

استاد کے 5 حقوق:

(1)استاد کے احترام و حقوق میں سب سے اہم یہ ہے کہ انتہائی ادب و احترام کے ساتھ اپنے استاد کی بتائی گئی ہر بات کو بغور سن کر اس کو دھن نشین کر کے اس پر عمل کرے اور اپنے علم کو دوسروں تک بھی پہنچائے اور خود پوری لگن کے ساتھ علم کے حصول کے لئے پوری جدو جہد کرے۔ایک استاد کو حقیقی کوشی تب ملتی ہے جب ان کا شاگرد اونچے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔

قول:مشہور قول ہے کہ جس نے معالج کی عزت نہ کی وہ شفا سے محروم رہا اورجس نے استاد کی عزت نہ کی وہ علم سے محروم رہا۔یتیم وہ نہیں جس کا باپ فوت ہوگیا بلکہ یتیم تو وہ ہے جو علم اور ادب کی دولت سے محروم ہوگیا۔

(2)استاد روحانی والدین ہوتے ہیں۔جس طرح والدین کا ادب و احترام کرنا ہم پر لازم ہے اسی طرح استاد کا ادب و احترام بھی لازم ہے۔استاد کے سامنے اپنی نگاہیں جھکا کر گفتگو کی جائے۔ان کی آواز سے اونچی اپنی آواز نہ کی جائے۔استاد کے ہر جائز حکم پر فوراً لبیک کہنا چاہئے۔استاد کی عزت ماں باپ سے زیادہ کرو کیونکہ وہ تمہاری روح کی اصلاح کرتا ہے۔مرشد اور استاد کے سامنے زبان قابو میں رکھیں۔

(3)استاد کی غیبت کرنا،استاد کی نقل اتارنا،استاد پر بہتان باندھنا ان سب کاموں سے بچنا چاہئے۔استاد کے ساتھ کبھی جھوٹ نہیں بولنا چاہئے۔اگر استاد کے ساتھ جھوٹ بولیں گے تو اس میں نقصان بھی اپنا ہی ہوگا۔ استاد کی کبھی بھی گستاخی نہ کی جائے۔استاد کے سامنے جھوٹ بولنے سے علم کی برکت ضائع ہوجانے کا اندیشہ ہے۔

(4)استاد کے آگے نہ چلیں۔استاد کو اگر آتا دیکھیں تو ادب سے ان کے سامنے کھڑے ہوجائیں۔اگر کسی مجلس میں استاد کی تشریف آوری ہو تو ان کے لئے آگے بڑ کر اچھی نشست کا انتظام کیجئے۔استاد کی نشست گاہ پر بیٹھنے کی بے ادبی سے بھی بچیں۔

یہ غم کھاتا چلا جاتا ہے مجھ کر مجھے اس خوف سے فرصت نہیں

کہیں برکت نہ اٹھ جائے وہاں سے جہاں استاد کی عزت نہیں ہے

(5)استاد کا احترام یہ ہے کہ استاد کی عدم موجودگی میں استاد کا نام سنتے ہی شاگرد مؤدب کھڑا ہوجائے۔استاد کا ایک احترام یہ بھی ہے کہ کبھی بھی استاد کا نام نہ لیا جائے بلکہ ان کی کنیت سے پکاریں۔ استاد کے سامنے احتراماً نگاہیں جھکا کر چلنے والا ہمیشہ سر اٹھا کر چلتا ہے۔

استاد کی تعظیم کا منظر:فرشتوں کے سردار حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لاتے ہیں اور انبیائے کرام کے سردار معلمِ انسانیت کے پاس جب علم حاصل کرنے بیٹھتے ہیں تو با ادب اپنے زانوں سمیٹ کر بیٹھتے ہیں۔

استاد کے لئے دعا:حضور ﷺ نے استاد کے لئے دعا فرمائی کہ اللہ پاک اس شخص کو خوش وخرم رکھے جس نے میری کوئی بات سنی اور اسے یاد رکھا اور اس کو جیسا سنا اسی طرح لوگوں تک پہنچایا۔(ترمذی، 4/298، حدیث: 2665)

الغرض استاد کا جتنا ادب و احترام کیا جائے اتنا کم ہے،جتنے الفاظ لکھے جائیں اتنے کم ہیں۔ استاد کا ادب و احترام قلم میں نہیں سما سکتا۔اللہ پاک ہمیں صحیح معنیٰ میں اپنے اساتذہ کرام کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی دعاؤں سے حصہ پانے کی توفیق عطا فرمائے۔آج تک ہم سے جانے انجانے میں جتنی بات بھی استاد کی بے ادبی ہوئی اللہ پاک ہمیں معاف فرمائے اور ہمیں استاد کا زیادہ سے زیادہ ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اللہ پاک ہمارے تمام اساتذہ کرام کو مرشد کے سنگ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی با ادب حاضری نصیب فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین ﷺ


دنیا کے حسین ترین رشتوں میں سے ایک استاد اور شاگرد کا رشتہ بھی ہے۔استاد شاگرد کا روحانی باپ ہوتا ہے۔استاد علم سکھانے کے ساتھ ساتھ شاگرد کا بہترین دوست بھی ہوتا ہے جو اسے مشکل وقت میں نصیحت کرتا ہے اور اگر کبھی شاگرد بھٹکنے لگے تو اسے بچا کر راہِ راست پر لے آتا ہے۔کائنات کے بہترین استاد جانِ عالم ﷺ اپنے شاگردوں پر کمال مہربان و شفیق تھے۔آپ کے وارثین علما اب تک آپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے علم سکھانے کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔استاد چونکہ روح کا باپ ہے،لہٰذا والدین کی طرح استاد کے بھی بے شمار حقوق ہیں۔جن میں سے چند کا ذکر کیا جائے گا۔

(1)ادب و احترام:شاگرد کو چاہئے کہ ہمیشہ استاد کا با ادب رہےا ور احترام سے پیش آئے۔حضور ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے:علم سیکھو اور علم کے لئے ادب و احترام سیکھو۔جس استاد نے تجھے علم سکھایا ہے اس کے سامنے عاجزی و انکساری اختیار کرے۔(فتاویٰ رضویہ،24/424)اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:عقلمند اور سعادت مند اگر استاد سے بڑھ بھی جائیں تو اسے استاد کا فیض اور اس کی برکت سمجھتے ہیں اور پہلے سے بھی زیادہ استاد کے پاؤں کی مٹی پر سر ملتے ہیں۔(فتاویٰ رضویہ،24/424)

(2)والدین کے حقوق پر استاد کے حقوق مقدم رکھے:والدین جسم کی پرورش کرتےکھلاتے پلاتے ہیں مگر استاد روح کی تربیت کرتا،اچھے اخلاق سکھاتا اور کردار سنوارتا ہے،لہٰذا استاد کا رتبہ والدین سے بڑھ کر ہوا۔عین العلم شریف میں ہے:استاد کے حق کو ماں باپ کے حق پر مقدم رکھے کہ وہ زندگی روح کا سبب ہے۔(فتاویٰ رضویہ،19/451-452)

(3)پوشیدہ عیوب تلاش نہ کرے:اللہ پاک قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَجَسَّسُوْا (الحجرات: 12) ترجمہ:اور پوشیدہ باتوں کی جستجو نہ کرو۔مسلمانوں کے عیب تلاش کرنا منافقین کا شعار ہے اور جب استاد کے عیوب تلاش کئے جائیں گے تو یہ مزید قبیح اور مذموم تر ہوجاتا ہے کہ اپنے محسن کی ٹوہ میں لگ جائے اور اس کی عزت اچھالنے کی کوشش کرے۔

(4)استاد سے آگے نہ بڑھے:فتاویٰ بزازیہ و فتاویٰ عالمگیری میں ہے:عالم کا جاہل پر اور استاد کو شاگرد پر برابر حق ہے کہ اس سے پہلے بات نہ کرے،وہ موجود نہ ہو جب بھی اس کی جگہ نہ بیٹھے،اس کی کوئی بات نہ الٹے نہ ہی اس سے آگے چلے۔(فتاویٰ رضویہ،19/452)

(5)امتحاناً سوال نہ کرے:طالبِ علم کو چاہئے کہ استاد کے علم کو جانچنے کے لئے اس سے امتحاناً سوال نہ کرے کہ یہ سخت بے ادبی ہے۔استاد کو کوئی بھی بات کہے تو ناقص رائے کے طور پر کہے اور اس کے سامنے محکوم بن کر رہے۔امیرِ اہلِ سنت نے طلبہ و طالبات کے لئے نیک اعمال کے رسالے میں سوال کی صورت میں امتحاناً سوال کرنے سے بچنے کا ذہن دیا ہے۔

امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم استاد کے حقوق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:عالم کے حقوق میں سے ہے کہ تم اس سے زیادہ سوال نہ کرو،جواب میں اس پر سختی نہ کروموہ تھک جائے تو اصرار نہ کرو،جب وہ اٹھنے لگے تو اس کے کپڑے نہ پکڑو،اس کے بھید نہ کھولو،اس کے سامنے کسی کی غیبت نہ کرو،اس کے عیب نہ ڈھونڈو،اگر لغزش کرے تو اس کا عذر قبول کرو،جب تک وہ دین کی حفاظت کرے تب تک اللہ پاک کے لئے تم پر اس کی تعظیم و توقیر واجب ہے۔اس کے آگے نہ بیٹھو اور جب اسے کوئی حاجت ہو تو سب سے پہلے اس کی خدمت کرو۔(احیاء العلوم،1/179)

مشہور مقولہ ہے:با ادب با نصیب بے ادب بد نصیب۔دارین کی بھلائیاں ادب میں پوشیدہ ہیں۔بے ادب اگرچہ جتنی چاہئے تعلیم حاصل کرلیں علم کی حلاوت نہیں پا سکتے۔با ادب اگرچہ کم علم حاصل کر پائے وہ علم اور استاد کے فیضان کا حق دار ہوتا ہے۔اللہ کریم تمام طلبہ کا استاد کا با ادب بنائے۔اٰمین بجاہ خاتم المرسلین ﷺ


حضرت عیسیٰ علیہ السلام بے شمار اچھے اوصاف و کمالات اور خصائل کے مالک تھے جن میں سے کچھ کا بیان قرآن کریم میں بھی ہے۔

1 تا 4۔ آپ دنیا و آخرت میں خدا کی بارگاہ میں بہت معزز و مقرب بندے ہیں آپ نے بڑی عمر کے علاوہ بہت چھوٹی عمر میں بھی لوگوں سے کلام کیا اور آپ اللہ کے خاص بندوں میں سے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَۙ(۴۵) وَ یُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۴۶) (پ 3، اٰل عمران: 45-46) ترجمہ کنز الایمان: رو دار ہوگا دنیا اور آخرت میں اور قرب والا اور لوگوں سے بات کرے گا پالنے میں اورپکی عمر میں اور خاصوں میں ہوگا۔

5 تا 9۔ آپ نماز کے پابند اور امت کو ادائے زکوٰۃ کی تاکید کرنے والے تھے آپ کی ذات بڑی برکت والی تھی آپ اپنی والدہ سے اچھا سلوک کرنے والے تھے نیز تکبر سے دور اور شقاوت سے محفوظ تھے۔ قرآن پاک میں ہے: وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَكًا اَیْنَ مَا كُنْتُ۪-وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّاﳚ(۳۱) وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَتِیْ٘-وَ لَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا(۳۲) (پ 16، مریم: 31-32) ترجمہ: اور اس نے مجھے مبارک بنایا ہے خواہ میں کہیں بھی ہوں اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کی تاکید فرمائی ہے جب تک میں زندہ رہوں اور مجھے اپنی ماں سے اچھا سلوک کرنے والا بنایا اور مجھے متکبر و بدنصیب نہ بنایا۔

10۔ آپ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا بندہ بننے میں کسی طرح کا شرم و عار محسوس نہیں فرماتے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: لَنْ یَّسْتَنْكِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّكُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰهِ وَ لَا الْمَلٰٓىٕكَةُ الْمُقَرَّبُوْنَؕ-وَ مَنْ یَّسْتَنْكِفْ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ یَسْتَكْبِرْ فَسَیَحْشُرُهُمْ اِلَیْهِ جَمِیْعًا(۱۷۲) (پ 6، النساء: 172) ترجمہ: تو مسیح اللہ کا بندہ بننے سے کچھ عار کرتا ہے اور نہ مقرب فرشتے اور جو اللہ کی بندگی سے نفرت و تکبر کرے تو عنقریب وہ ان سب کو اپنے پاس جمع کرے گا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَ یَوْمَ اَمُوْتُ وَ یَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا(۳۳) (پ 12، مریم: 33) ترجمہ: اور وہی سلامتی مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن زندہ اٹھایا جاؤں گا۔

اللہ کریم ان ہستیوں کے فیضان سے ہم سب کو فیضیاب فرمائے اور ان کے صدقے ہمارا سینہ مدینہ بنائے۔ آمین


اللہ پاک نے مخلوق کی ہدایت کے واسطے مختلف انبیائے کرام کو اس دنیا میں بھیجا جنہوں نے بھٹکی انسانیت کو ایک اللہ واحد قہار کی طرف بلایا انہیں راہِ نجات یعنی جنت کی طرف راہنمائی کی اور راہِ ہلاکت یعنی دوزخ سے بچایا انہیں ڈرایا انہی میں سے ایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ہیں، آئیے ہم قرآن و تفسیر کی روشنی میں 10 صفاتِ عیسی سنتے ہیں:

1۔ مسیح: آپ چونکہ مس کر کے بیماروں کو شفا دیتے تھے اسی لیے مسیح کہلائے۔

2۔ کلمۃ اللہ: آپ کے جسم شریف کی پیدائش کلمہ کن سے ہوئی، ماں و باپ کے نطفہ سے نہ ہوئی اسی لیے آپ کو کلمۃ اللہ کہا جاتا ہے،(تفسیر صراط الجنان، 1/476) فرمانِ باری تعالیٰ ہے: اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَؕ-خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ(۵۹) (پ 3، اٰل عمران: 59) ترجمہ: بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے جسے اللہ نے مٹی سے بنایا پھر اسے فرمایا: ہو جا! تو وہ فورا ہوگیا۔

3۔ روح اللہ: اللہ نے آپ کو اپنی طرف سے ایک خاص روح فرمایا، اس بناء پر آپ کو روح اللہ بھی کہا جاتا ہے، ارشاد باری ہے: اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَ كَلِمَتُهٗۚ-اَلْقٰىهَاۤ اِلٰى مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْهُ٘-(پ 6، النساء: 171) ترجمہ: بے شک مسیح مریم کا بیٹا عیسیٰ صرف اللہ کا رسول اور اس کا ایک کلمہ ہے جو اس نے مریم کی طرف بھیجا اور اس کی طرف سے ایک خاص روح ہے۔ (سیرت الانبیاء، ص 793)

4۔ حلیہ مبارکہ: نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں نے حضرت عیسیٰ، موسیٰ و ابراہیم علیہم السلام کو دیکھا حضرت عیسیٰ سرخ رنگ، گھونگھریالے بالوں اور چوڑے سینے والے تھے۔

5۔ بغیر باپ کے پیدا ہونا۔

6۔ جھولے میں کلام کرنا۔

7۔ معجزات کا دیا جانا: مٹی سے بنے پرندے کو پھونک مار کر حقیقی پرندہ بنادینا جیسا کہ آپ نے بنی اسرائیل کے کہنے پر مٹی سے چمگادڑ کی صورت بنائی پھر اس میں پھونک ماری تو وہ اللہ کے حکم سے اڑنے لگی۔

8۔ پیدائشی اندھوں کو آنکھوں کا نور عطا کرنا اورکوڑھیوں کو شفایاب کرنا: آپ اپنا دست اقدس پھیر کر پیدائشی نابینا افراد کو آنکھوں کا نور عطا کر دیتے اور اس مریض کو بھی شفا دیتے جس کا برص بدن میں پھیل گیا ہو اور طبیب اس کے علاج سے عاجز ہوں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: میں مردے زندہ کرتا ہوں میں لاعلاج بیماروں کو اچھا کرتا ہو، میں غیبی خبریں دیتا ہوں، حقیقت میں یہ تمام کام رب العٰلمین کے ہیں لیکن آپ نے اپنی طرف منسوب کیے، اس سے معلوم ہوا کہ حقیقی شفا دینے والا و مشکلات دور کرنے والا اللہ پاک ہی ہے، لیکن اس کے دیئے ہوئے اختیار سے عطا سے کوئی دوسرا کچھ کر سکتا ہے۔

9۔ مردوں کو زندہ کرنا: حضرت عیسی نے اللہ کی عطا سے 4 مردوں کو زندہ کیا: عازر، ایک بڑھیا کا لڑکا، ایک لڑکی اور سام بن نوح۔ (سیرت الانبیاء، ص 794-795)

10۔ عاجزی و انکساری: آپ تکبر سے دور اور عاجزی و انکساری کے پیکر تھے جس کی گواہی خود رب العٰلمین نے دی ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا: نہ تو مسیح اللہ کا بندہ بننے سے کچھ عار کرتا ہے اور نہ مقرب فرشتے اور جو اللہ بندگی سے نفرت اور تکبر کرے تو عنقریب وہ ان سب کو اپنے پاس جمع کرے گا۔

خود عجز و انکسار کے پیکر ہونے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیاکرتے تھے۔ (سیرت الانبیاء، ص 800)

اللہ پاک ہمیں بھی فیضانِ عیسیٰ سے حصہ عطا فرمائے۔ آمین


بلاشبہ قرآن کریم میں گزشتہ انبیائے کرام کے واقعات اور معجزات اور اوصاف بیان کیے گئے اور ان کی مدح و ستائش بیان کی گئی ہے، قرآن کریم میں ان انبیائے کرام کے اوصاف حمیدہ کو بہت احسن طریقے سے بیان کیا گیا ہے اور ان کے اوصاف کو ایسے روشن کیا جیسے سارا آسمان جھلملاتے ستاروں سے روشن ہے۔ انہیں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ہیں، آپ دنیا و آخرت میں عزت و وجاہت والے اور رب کریم کے مقرب بندے ہیں، چنانچہ حضرت عیسیٰ کے اوصاف کے بارے میں چند آیات مبارکہ ملاحظہ ہوں:

1۔ کلمۃ اللہ ہونا: حضرت عیسیٰ کا ایک وصف قرآن کریم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ آپ کو کلمۃ اللہ کہا جاتا ہے کہ آپ کے جسم شریف کی پیدائش کلمہ کُن سے ہوئی باپ اور ماں کے نطفہ سے نہ ہوئی،(تفسیر صراط الجنان، 1/476) جیسا کہ سورہ اٰل عمران کی آیت نمبر 45 میں ارشاد ہے: اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓىٕكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُۙ-ترجمہ: اور یاد کرو جب فرشتوں نے مریم سے کہا کہ اے مریم اللہ تجھے بشارت دیتا ہے اپنے پاس سے ایک کلمہ کی۔

فرمایا کہ وہ اللہ کا کلمہ ہیں کیونکہ آپ کا کوئی باپ ہوتا تو یہاں آپ کی نسبت ماں کی طرف نہ ہوتی بلکہ باپ کی طرف ہوتی۔ (صراط الجنان، 1/476)

2۔ مسیح ہونا: اللہ پاک قرآن پاک میں حضرت عیسیٰ کا ایک اور وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: اسْمُهُ الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ (پ 3، اٰل عمران: 45) ترجمہ: جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہوگا۔ اس آیت مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ کا نام عیسیٰ اور لقب مسیح ہے کیونکہ آپ مس کر کے یعنی چھوکر شفا دیتے تھے، حضرت عیسیٰ پیدائشی اندھوں کو آنکھوں کا نور عطا فرما دیتے، کوڑھ کے مریضوں کو چھو کر شفایاب کر دیتے، مردوں کو اللہ کے نام سے زندہ کر دیتے، یہ سب کام باذن اللہ کرتے تھے۔ (تفسیر صراط الجنان، 1/476)

3۔ حضرت مریم کا بیٹا ہونا: اللہ پاک پارہ 3 سورۂ اٰل عمران میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَؕ-خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ(۵۹) (پ 3، اٰل عمران: 59) ترجمہ: بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے جسے اللہ نے مٹی سے بنایا پھر اسے فرمایا: ہو جا! تو وہ فورا ہوگیا۔ یہ آیت مبارکہ نجران کے عیسائیوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے آقا ﷺ سے کہا کہ آپ گمان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ اللہ کے بندے ہیں، فرمایا: ہاں، اس کے بندے اور اس کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جو اس نے کنواری پاک مریم رضی اللہ عنہا کو عطا فرمایا، عیسائی یہ سن کر بہت غصہ میں آئے اور کہنے لگے: اے محمد! کیا تم نے کبھی بے باپ کا انسان دیکھا ہے؟ اس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ وہ خدا کے بیٹے ہیں (معاذ اللہ) اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور یہ بتایا گیا کہ حضرت عیسیٰ تو صرف بغیر باپ کے پیدا ہوئے جبکہ حضرت آدم علیہ السلام تو ماں اور باپ دونوں کے بغیر مٹی سے پیدا ہوئے تو جب انہیں اللہ کا مخلوق اور بندہ مانتے ہو تو حضرت عیسیٰ کو اللہ کا مخلوق و بندہ ماننے میں کیا تعجب ہے، لہٰذا یہ معلوم بھی ہو گیا کہ حضرت آدم بغیر نطفہ کے بنے ایسے ہی حضرت عیسیٰ بغیر باپ کے کنواری مریم سے پیدا ہوئے اس لیے تو ان کو عیسیٰ بن مریم کہا جاتا ہے۔ (صراط الجنان، 1/489)

4۔ دنیا و آخرت میں عزت والا ہونا: اللہ پاک پارہ 3 سورہ اٰل عمران آیت نمبر 45 میں ارشاد فرماتا ہے: وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَۙ(۴۵) ترجمہ کنز الایمان: رو دار ہوگا دنیا اور آخرت میں اور قرب والا۔ اس آیت مبارکہ میں دنیا میں عزت والا ہونا کہ قرآن کے ذریعے سارے عالم میں ان کے نام کی دھوم مچا دی گئی، آخرت میں خصوصی عزت والا ہونا بہت سے طریقوں سے ہوگا ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ قیامت میں انہی کے ذریعہ مخلوق کو حضور اقدس ﷺ تک رہنمائی ملے گی۔

بارگاہ الٰہی میں بہت زیادہ قرب و منزلت رکھنے والا ہونا وغیرہ، معلوم ہوا کہ انبیا کی نعت خوانی سنت الٰہیہ ہے، اللہ پاک اس کی توفیق عطا فرمائے۔ (صراط الجنان، 1/477-478) 


آپ علیہ السلام کا مبارک نام عیسیٰ اور آپ کا نسب حضرت داود سے جا ملتا ہے، آپ کی کنیت ابن مریم ہے اور تین القابات یہ ہیں:مسیح، کلمۃ اللہ اور روح اللہ۔

آپ چونکہ مس کر کے بیماروں کو شفا دیتے تھے اس لیے آپ کو مسیح کہا جاتا ہے۔

آپ کے جسم شریف کی پیدائش کلمہ کُن سے ہوئی باپ اور ماں کے نطفے سے نہ ہوئی اس لیے آپ کو کلمۃ اللہ کہا جاتا ہے۔(تفسیر صراط الجنان، 1/476)

اللہ پاک نے آپ کو اپنی طرف سے ایک خاص روح فرمایا اس بنا پر آپ کو روح اللہ بھی کہا جاتا ہے۔ (سیرت الانبیاء، ص 793)

آپ پر آسمانی کتاب انجیل کا نزول ہوا۔

آئیے آپ کے اوصاف کے بارے میں کلام کرتے ہیں، آپ بے شمار اچھے اوصاف و کمالات کے مالک تھے جن میں سے چند یہاں ذکر کرتے ہیں:

1۔ آپ دنیا و آخرت میں خدا کی بارگاہ میں بہت معزز و مقرب بندے ہیں، قرآن کریم میں ہے: وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَۙ(۴۵) (پ 3، اٰل عمران: 45) ترجمہ کنز الایمان: رو دار ہوگا دنیا اور آخرت میں اور قرب والا۔

2۔ آپ نے بہت چھوٹی عمر میں لوگوں سے کلام کیا۔ قرآن کریم میں ہے: وَ یُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۴۶) (پ 3، اٰل عمران: 46) ترجمہ کنز الایمان: اور لوگوں سے بات کرے گا پالنے میں اورپکی عمر میں اور خاصوں میں ہوگا۔

3۔ آپ نماز کے پابند اور ادائے زکوٰۃ کی تاکید کرنے والے تھے۔ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَكًا اَیْنَ مَا كُنْتُ۪-وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّاﳚ(۳۱) (پ 16، مریم: 31) ترجمہ: اور اس نے مجھے مبارک بنایا ہے خواہ میں کہیں بھی ہوں اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کی تاکید فرمائی ہے جب تک میں زندہ رہوں۔

4۔ آپ اپنی والدہ سے اچھا سلوک کرنے والے تھے نیز تکبر سے دور اور شقاوت سے محفوظ تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَتِیْ٘-وَ لَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا(۳۲) (پ 12، مریم: 32) ترجمہ: اور مجھے اپنی ماں سے اچھا سلوک کرنے والا بنایا اور مجھے متکبر و بدنصیب نہ بنایا۔

5۔ آپ اللہ کا بندہ بننے میں کسی طرح کا شرم و عار محسوس نہیں فرماتے تھے، ارشاد باری ہے: لَنْ یَّسْتَنْكِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّكُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰهِ وَ لَا الْمَلٰٓىٕكَةُ الْمُقَرَّبُوْنَؕ-وَ مَنْ یَّسْتَنْكِفْ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ یَسْتَكْبِرْ فَسَیَحْشُرُهُمْ اِلَیْهِ جَمِیْعًا(۱۷۲) (پ 6، النساء: 172) ترجمہ: تو مسیح اللہ کا بندہ بننے سے کچھ عار کرتا ہے اور نہ مقرب فرشتے اور جو اللہ کی بندگی سے نفرت و تکبر کرے تو عنقریب وہ ان سب کو اپنے پاس جمع کرے گا۔

6۔ اللہ نے آپ کو نبوت عطا فرما کر احسان فرمایا اور آپ کو بنی اسرائیل کے لیے اپنی قدرت کا حیرت انگیز نمونہ بنایا۔ اللہ پاک نے فرمایا: اِنْ هُوَ اِلَّا عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَیْهِ وَ جَعَلْنٰهُ مَثَلًا لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ(۵۹) (پ 25، الزخرف: 59) ترجمہ: عیسیٰ تو نہیں ہے مگر ایک بندہ جس پر ہم نے احسان فرمایا ہے اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کے لیے ایک عجیب نمونہ بنایا۔

7۔ اللہ کریم نے حضرت عیسیٰ کو آپ کی رسالت حق ہونے پر روشن نشانیاں عطا کیں۔ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ (البقرۃ: 87) ترجمہ: اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو کھلی نشانیاں عطا فرمائیں۔

8۔ اللہ پاک نے آپ کو مخلص حواری عطا فرمائے جنہوں نے آپ کے ارشادات دل و جان سے تسلیم کیے، ارشاد ربانی ہے:وَ اِذْ اَوْحَیْتُ اِلَى الْحَوَارِیّٖنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِیْ وَ بِرَسُوْلِیْۚ-قَالُوْۤا اٰمَنَّا وَ اشْهَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ(۱۱۱) (پ 7، المائدۃ: 111) ترجمہ: اور جب میں نے حواریوں کے دل میں یہ بات ڈالی کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ تو انہوں نے کہا: ہم ایمان لائے اور (اے عیسیٰ) آپ گواہ ہو جائیں کہ ہم مسلمان ہیں۔

9۔ آپ کے آسمان سے دوبارہ زمین پر تشریف لانے کو قیامت کی ایک نشانی بتایا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَ اتَّبِعُوْنِؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(۶۱) (پ 25، الزخرف: 61) ترجمہ: اور بے شک عیسیٰ ضرور قیامت کی ایک خبر ہے تو ہرگز قیامت میں شک نہ کرنا اور میری پیروی کرنا یہ سیدھا راستہ ہے۔

10۔ اللہ کریم نے آپ کو تورات اور انجیل سکھائی۔ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ یُعَلِّمُهُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَۚ(۴۸) (پ 3، اٰل عمران: 48) ترجمہ: اور اللہ اسے کتاب اور حکمت اور توریت اور انجیل سکھائے گا۔

اللہ کریم ہمیں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی سیرت مبارکہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین