اللہ پاک نے انسان کو
پیدا فرمایا اور اس کو اشرف المخلوقات کا مرتبہ عطا فرمایا اس کو بےشمار خوبیوں سے
نوازا۔ ان میں سے ایک خوبی حسنِ اخلاق ہے۔ اللہ پاک نے یہ وصف اپنے محبوب صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو عطا فرمایا۔ اس کا تذکرہ قراٰن پاک میں فرمایا یہاں تک
کہ آپ کے اس وصف کا ذکر تورات و انجیل میں بھی ملتا ہے۔
حسنِ اخلاق انسان کی ذات
کو خوبصورت بناتا ہے اور اس کے سبب معاشرہ میں اس کا ایک بہترین مقام ہوتا ہے۔ لوگ
حسنِ اخلاق کے پیکر سے محبت کرتے ہیں اس کی بات سنتے اور مانتے ہیں۔حسنِ اخلاق کی
جس قدر اہمیت ہے اس کے برعکس بداخلاقی کو اتنا ہی برا سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ بد
اخلاقی کے دینی و دنیاوی دونوں طرح کے نقصانات ہیں۔
میاں بیوی میں بد اخلاقی
کے سبب طلاق تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔دوستوں میں لڑائیاں ہو جاتی ہیں۔ بہن بھائیوں
میں محبت ختم ہو جاتی ہے اور خاندانوں میں جدائیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ آئیے بد
اخلاقی کے متعلق نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ارشادات ملاحظہ کرتے
ہیں۔
چنانچہ نبی پاک صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بد اخلاقی اگر انسانی شکل میں ہوتی تو
وہ بہت برا آدمی ہوتا۔(کنزالعمال،کتاب الاخلاق،الفصل الاول،حدیث: 7351)
ایک اور مقام پر نبی پاک صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک کے نزدیک سب سے بڑی بُرائی بُرے
اَخْلاق ہیں۔(جامع الاحادیث، 19/406،حدیث: 14922)
مزید فرمایا: بے شک بے
حیائی اور بد اخلاقی کا اسلام کی کسی چیز سے کوئی تعلق نہیں۔(مسند احمد حدیث ابی
عبد الرحمن، 7/431،حدیث: 20997)
بد اخلاق انسان اس صفتِ
بد کے سبب گناہوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اور اگر ایک گناہ سے توبہ کرتا ہے تو اس
صفت بد کے سبب اس سے بڑے گناہ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں: بداَخْلاق ایک گُناہ سے تَوبہ کرتا ہے تو
اُس سے بدتَر گُناہ میں گِرفتار ہوجاتا ہے۔(جامع الاحادیث للسیوطی، قسم الاقوال،2/
375، حدیث: 6064)
بد اخلاقی ایسی منحوس صفت
ہے کہ خود نبی کریم علیہ الصلوۃ والسّلام نے بھی اپنی دعا میں اس سے پناہ طلب
فرمائی ہے۔
چنانچہ ترمذی شریف کی
حدیث مبارکہ میں ہے: كَانَ
النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ
بِكَ مِنْ مُنْكَرَاتِ الأَخْلاَقِ، وَالأَعْمَالِ وَالأَهْوَاءِ ترجمہ۔ نبی پاک صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ میں برے اخلاق، برے
اعمال اور بری خواہشات سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔(الترمذی، محمد بن عيسى، سنن الترمذی
،ت بشار،5/467)
ایک حدیث مبارکہ میں تو
بداخلاق کو بدترین بندہ کہا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،
سیدُ المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں اللہ
پاک کے بد ترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ بد اخلاق اور متکبر ہے۔ (مسند
امام احمد، مسند الانصار، حدیث حذیفۃ بن الیمان عن النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم، 9/ 120، حدیث: 23517)
پیارے اسلامی بھائیو! ان
احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ بداخلاقی کتنی بری صفت ہے اور دنیا و آخرت میں
تباہی و بربادی کا سبب ہے۔ اللہ پاک تمام مسلمانوں کو اس کی نحوست سے محفوظ
فرمائے۔
لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق
سے پیش آنا تمام انبیا علیہم السّلام کی سنت ہے۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا ایک وصف "خلق عظیم "بھی ہے ۔اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ اِنَّكَ
لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک تم یقیناً عظیم اخلاق پر ہو ۔ (پ29،القلم:4)
اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ کیا خوب فرماتے ہیں:
ترے خُلق کو حق نے عظیم کہا
تری خِلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا ترے
خالقِ حسن واَدا کی قسم
نبی آخرالزماں صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمیں بھی اچھے اخلاق سے پیش آنے کی تعلیم ارشاد فرمائی ہے۔ اس
کے برعکس بداخلاقی کی مذمت بیان فرمائی ہے۔بداخلاقی کی مذمت بیان کرنے سے قبل اس کی
تعریف جان لیتے ہیں۔
بداخلاقی کی تعریف: امام غزالی رحمۃُ اللہ
علیہ فرماتے ہیں: اگر نفس میں موجود ایسی کیفیت ہو کہ اس کے باعث اچھے افعال اس
طرح ادا ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر پسندیدہ ہوں تو اسےحسنِ اخلاق کہتے ہیں
اور اگر اس سے بُرے اَفعال اس طرح ادا ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر نا پسندیدہ
ہوں تو اسے بداخلاقی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(احیاء العلوم،3/165،مکتبۃ المدینہ)
یعنی ایسے افعال کا صدور
جو شرعاً ناپسندیدہ ہوں بداخلاقی کہلاتا ہے۔
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ہمیں حسنِ اخلاق سے پیش آنے اور بداخلاقی سے بچنے کا حکم ارشاد
فرمایا ہے اور بداخلاقی کی مذمت بیان فرمائی ہے۔
ذیل میں چند احادیث طیبہ
اس کے متعلق ذکر کی جاتی ہیں۔
(1)آقا کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: خَصْلَتَانِ
لَا تَجْتَمِعَانِ فِي مُؤْمِنٍ: الْبُخْلُ، وَسُوءُ الْخُلُقِ ترجمہ! دو خصلتیں مؤمن
میں اکھٹى نہیں ہوسکتیں، بخل اور بداخلاقى ۔ (جامع الترمذى ،باب ما جا ٕ فی الخیل،
حدیث: 1962) یعنی یہ دو ایسی مکروہ و مذموم صفات ہیں کہ کسی کامل ایمان والے میں
جمع نہیں ہو سکتیں۔
(2)حضور جان جاناں صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اَلْخُلُقُ
الْحَسَنُ یُذِیْبُ الْخَطَایَا کَمَا یُذِیْبُ الْمَائُ الْجَلِیْدَ وَالْخُلُقُ
السُّوْ ءُ یُفْسِدُ الْعَمَلَ کَمَا یُفْسِدُ الْخَلُّ الْعَسَلَ ترجمہ! حسنِ اخلاق خطاؤں
کو اس طرح پگھلاتا ہے جیسے پانی برف کو پگھلاتا ہے جبکہ بداخلاقی عمل کو اس طرح
برباد کرتی ہے جیسے سرکہ شہدکو خراب کر دیتا ہے۔ (معجم کبیر ، 10 / 319 ، حدیث : 10777)
بد زبانی بھی برے اخلاق
میں سے ہے اور اس کے متعلق وعید شدید حدیث نبوی میں وارد ہوئی ہے۔
(3)آقا حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مَا
شَيْءٌ أَثْقَلُ فِي مِيزَانِ الْمُؤْمِنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ خُلُقٍ
حَسَنٍ، وَإِنَّ اللَّهَ لَيُبْغِضُ الْفَاحِشَ الْبَذِيءَ ترجمہ: قیامت کے دن مؤمن
کے میزان میں اخلاق حسنہ سے بھاری کوئی چیز نہیں ہو گی اور اللہ پاک بےحیا، بدزبان
سے نفرت کرتا ہے۔(جامع الترمزی،ابواب البر والصلۃ،حدیث :2002)
ذکر کردہ احادیث سے یہ
امر واضح ہے کہ بداخلاقی ایسی بری صفت ہے جو کامل مؤمن میں نہیں ہو سکتی اور اللہ
پاک بھی اس صفت سے متصف اشخاص سے نفرت فرماتا ہے۔ اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے
کہ وہ ہمیں برے اخلاق سے بچائے اور اخلاق حسنہ سے مالامال فرمائے۔ اٰمین بجاہ
النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد عطاء بن محمد شہزاد(درجہ خامسہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ جمالِ مصطفی ،کراچی،
پاکستان)
کسی بھی معاشرے کی ترقی و
بقا اور استحکام کے لیے اخلاق کی وہی اہمیت ہے جو انسانی جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی،
کہ جس معاشرے سے اخلاق ختم ہو جاتے ہیں تو وہ کبھی بھی تہذیب و ترقی اور استحکام
حاصل نہیں کر سکتا دنیا میں ترقی اچھے اخلاق والوں کا ہی مقدر ہوتی ہے جبکہ برے
اخلاق والے اکثر ناکام ہو جاتے ہیں۔
اخلاق کے ساتھ معاشرے کے
امن و سکون اور بگاڑ کا بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے کہ اچھے اخلاق سے بگڑے ہوئے لوگ بھی
سدھر جاتے ہیں جبکہ برے اخلاق سدھرے ہوئے لوگوں کو بھی بگاڑ دیتے ہیں۔
ہمارے پیارے نبی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اخلاق کے ایسے بلند مرتبے پر فائز تھے کہ لوگ آپ کے حسنِ
اخلاق کی وجہ سے ایمان لے آتے تھے، چنانچہ اللہ پاک نے اپنے محبوب صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے اخلاق کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک تم یقیناً
عظیم اخلاق پر ہو ۔ (پ29،القلم:4)
رحمتِ کونین صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی دنیا میں تشریف آوری کا ایک مقصد اخلاق کی تکمیل بھی تھا
چنانچہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود ارشاد فرمایا: مجھے اچھے اخلاق
کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ،2/466،حدیث:4866)
مگر افسوس! آج اخلاق کی
کمی ہماری زندگی کے ہر شعبے میں نظر آتی ہے خواہ وہ عبادات سے تعلق رکھتا ہو یا
معاملات سے، صدق و عدل کا ہو یا تعلیم و تربیت کا تقریباً ہر جگہ یہ فقدان دکھائی
دیتا ہے یاد رکھیے! جب بد اخلاقی کسی انسان کے کردار میں داخل ہو جاتی ہے تو وہ نہ
صرف اسے بلکہ اس کی آخرت بھی برباد کر دیتی ہے بد اخلاقی ایک ایسی آفت ہے کہ اس کے
ہوتے ہوئے نیکیوں کی کثرت بھی نفع نہیں دیتی۔
بد اخلاقی صرف کسی کو
گالی دینے کا نام نہیں بلکہ جھوٹ، غیبت، دھوکہ دینا نیز اللہ پاک کی ہر نافرمانی
بد اخلاقی ہی کی قسم ہے۔
احادیث مبارکہ میں بد
اخلاقی کی مذمت کچھ یوں بیان کی گئی ہے:
(1)حضرت جابر رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بے شک تم
میں سے مجھے سب سے زیادہ پیارے اور قیامت کے دن میرے نزدیک تر وہ لوگ ہوں گے جو تم
میں سے سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے ہیں۔ اور تم میں سے مجھے سب سے زیادہ ناپسند
اور قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ دور وہ لوگ ہونگے جو برے اخلاق والے ہیں، جو
زیادہ باتیں کرنے والے منہ پھٹ، باچھیں اور منہ بھر کر باتیں کرنے والے ہیں (سنن
ترمذی، ص 488 ،حدیث:2018)
(2) حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن مؤمن کے میزان میں حسنِ اخلاق
سے زیادہ بھاری کوئی شے نہیں ہوگی، بیشک اللہ پاک فحش گوئی کرنے والے کو ناپسند
فرماتا ہے۔ (سنن ترمذی،ص486،حدیث:2002)
(3) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: حیا ایمان سے ہے اور ایمان والا جنت میں جائے
گا اور فحش گوئی برائی سے ہے اور برائی والا جہنم میں جائے گا۔ (سنن ترمذی،ص487،حدیث:
2009)
(4) حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے آخری نبی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: متکبر اور بد اخلاق جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
(سنن ابی داؤد، 2/554، حدیث:4801)
(5) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے عرض کی یا رسول
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نحوست کیا ہے؟ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا: بد اخلاقی۔ (شعب الایمان، 10/378،حدیث:7657)
اے عاشقانِ رسول! زبان کی
حفاظت بہت ضروری ہے کیونکہ اکثر نقصانات اسی کی وجہ سے ہوتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ
زبان میں ہڈی نہیں ہوتی مگر ہڈیاں تڑوا دیتی ہے، زبان تلوار نہیں مگر خون بہا دیتی
ہے۔
اللہ پاک ہمیں زبان کی
آفتوں اور بد اخلاقی جیسی نحوست سے محفوظ فرمائے۔
محمد احمد رضا عطاری(درجہ ثانیہ جامعۃُ المدینہ: فیضانِ خلفائے راشدین بحریہ
ٹاؤن اسلام آباد،پاکستان)
(1)شہنشاہِ خوش خصال پیکرِ
حسن و جمال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان: بداخلاقی عمل کو اس
طرح برباد کر دیتی ہے جیسے سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔ (کشف الخفاء ،1/522،حدیث:1498)
(2)حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :بد اخلاقی برا شگون ہے، عورتوں کی اطاعت
ندامت ہے اور درگزر کرنا اچھی عادت ہے۔
(3) رسول اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :بداخلاقی برا شگون ہے اور تم میں بدترین
وہ ہے جس کا اخلاق سب سے برا ہے۔
(4)نبی کریم رؤف الرحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
فرمانِ عالیشان ہے : جب تم یہ بات سنو کہ کوئی پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ گیا ہے تو اس
بات کی تصدیق کر دو اور جب یہ سنو کہ کسی شخص نے اپنا اخلاق بدل لیا ہے تو ہر گز
اس بات کی تصدیق نہ کرنا کیونکہ بندہ اپنی عادت پر ہی قائم رہتا ہے۔
(5)سیدالمبلغین صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :بے شک ہر گناہ کی توبہ ہے مگر بداخلاق کی
توبہ نہیں، کیونکہ جب وہ کسی ایک گناہ سے توبہ کرتا ہے تو اس سے بڑے گناہ میں پڑ
جاتا ہے۔ (جامع الاحادیث للسیوطی، قسم الاقوال،2/375،حدیث:6064)
(6)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے اللہ پاک کے نزدیک بد اخلاقی کے علاوہ ہر گناہ
کی توبہ ہے کیونکہ بداخلاق آدمی جب ایک گناہ سے توبہ کرتا ہے تو اس سے بڑے گناہ کا
مرتکب ہوجاتا ہے۔ (کنزالعمال کتاب اخلاق قسم الاقوال فصل الترہیب،3/178، حدیث: 7352)
عبدالرحمٰن سلیم عطاری (درجہ خامسہ جامعۃُ المدینہ فیضان عثمان غنی کراچی،پاکستان)
بد اخلاقی دنیاوی اور
اخروی دونوں اعتبار سے ہی بہت بری خصلت ہے ۔بداخلاق انسان کی ہر مہذب معاشرے میں
مذمت کی جاتی ہے ۔اور بلاشبہ اسلامی معاشرہ تو تمام معاشروں میں سب سے زیادہ مہذب
اور خوبصورت معاشرے میں سے ہیں ۔اسی وجہ سے ہمارے اسلام نے ہمیں اچھے اخلاق اپنانے
اور برے اخلاق چھوڑنے کی بھی تعلیم دی ہے ۔آئیں ان تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں
۔لیکن اس سے پہلے ہم بداخلاقی کی تعریف ذہن نشین کر لیتے ہیں کہ بد اخلاقی کہتے
کسے ہیں ۔ چنانچہ امام غزالی (رحمۃُ اللہ علیہ) فرماتے ہیں: اگر نفس میں موجود
ایسی کیفیت ہو کہ اس کے باعث اچھے افعال اس طرح ادا ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور
پر پسندیدہ ہوں تو اسے حسنِ اخلاق کہتے ہیں اور اگر اس سے بُرے اَفعال اس طرح ادا
ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر نا پسندیدہ ہوں تو اسے بداخلاقی سے تعبیر کیا جاتا
ہے۔(احیاء العلوم،3/165،مکتبۃ المدینہ)
بداخلاق کی مذمت پر
احادیث طیبہ:(1) حسنِ اخلاق کے پیکر، اللہ
پاک کے آخری نبی (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)نے ارشاد فرمایا: تم میں سے مجھے
سب سے پیارا اور قیامت کے دن مجھ سے بہت قریب تم میں سے اچھے اخلاق والا ہے اور تم
میں سے مجھ کو بہت ناپسند اور مجھ سے بہت دور برے اخلاق والے ہیں جو زیادہ بولنے و
الے منہ پھٹ فراخ گو متکبر ۔(مراة المناجیح، جلد 6 ،حدیث: 4797)شرح حدیث :مفسر شہیر حکیم الامت
مفتی احمد یار خان (رحمۃُ اللہِ علیہ)
نے حدیث پاک کے اس حصہ(اور تم میں سے مجھ کو بہت ناپسند اور مجھ سے بہت دور برے
اخلاق والے ہیں)کے تحت تحریر فرمایا: کیونکہ بدخلق اکثر بدعمل ہوتے ہیں بدخلقی خود
بھی بدعملی ہے اور بہت سے بدعملیوں کا ذریعہ۔جھوٹ، خیانت، وعدہ خلافی، بدمعاملگی سب
ہی بد اخلاقی کی شاخیں ہیں۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 ،حدیث:4797 )
(2)حسنِ اخلاق کے پیکر، تمام
نبیوں کے سرور، اللہ کے آخری نبی (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)نے ارشاد فرمایا:
حسنِ اخلاق خطاؤں کو اس طرح پگھلاتا ہے جیسے پانی برف کو پگھلاتا ہے جبکہ بداخلاقی
عمل کو اس طرح برباد کر دیتی ہے جیسے سرکہ شہدکو خراب کر دیتا ہے۔ (معجم کبیر ، 10
/ 319 ، حدیث : 10777)حضرت علامہ مولانا عبدالرؤف مناوی شافعی (علیہ رحمۃُ اللہ
القوی) اس حدیثِ پاک کے تحت تحریر فرماتے ہیں : اس کی وجہ یہ ہے کہ حسنِ اخلاق کی
بدولت انسان سے بھلائی کے کام صادر ہوتے ہیں ، بھلائی کے کام نیکی ہیں اور نیکیاں
گناہوں کو مٹا دیتی ہیں۔ اس فرمانِ عالیشان میں یہ اِشارہ ہے کہ بندہ حسنِ اخلاق
کی بدولت ہی تمام بھلائیوں اور بلند مقامات کو پانے پر قادر ہوتا ہے۔ اس حدیثِ پاک
کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ جَوَامِعُ
الْکَلِم (یعنی جامع ترین احادیث)
میں سے ہے۔ (فیض القدیر ، 3 / 675 ، تحت الحدیث : 4137)
(3) اللہ کریم کے آخری نبی (صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نے ارشاد فرمایا: دو خصلتىں مومن مىں اکھٹى نہىں ہو سکتى،
وہ بخل اور بداخلاقى ہىں۔(جامع الترمذى ابواب البروالصلۃ ، باب ماجا فى الخىل،4/343،
حدیث: 1962)
پیارے و محترم قارئین ہم
جس آخری نبی (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)کے امتی ہیں ان کے اخلاق کریمہ کے
بارے میں قراٰنِ کریم میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک تم یقیناً
عظیم اخلاق پر ہو ۔ (پ29،القلم:4)اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام الشاہ امام احمد رضا
خان (علیہ رحمۃُ الرحمٰن)نے حدائق بخشش میں کیا خوب نعت بیان کی ہے کہ ۔
ترے خُلق کو حق نے عظیم کہا تری خِلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا ترے خالقِ حسن واَدا کی قسم
ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی
اپنے آخری نبی(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)کے اخلاقِ عظیمہ کی پیروی کریں اور
دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں ۔اٰمین
محمد جمال قادری (درجہ ثالثہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ کنزالایمان، ممبئی، ہند)
آج دنیا میں چاروں طرف بد
اخلاقی کا دور دورہ ہے مرد ہو یا عورت، لڑکا ہو یا لڑکی، جوان ہو یا بوڑھا، الغرض
ہر طرف خوب زور و شور سے یہ برائی پھیلی ہوئی ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو بداخلاقی جیسی
گندی بیماری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین
آئیے پہلے بد اخلاقی کی
تعریف سنتے ہیں : اگر نفس میں موجودہ کیفیت ایسی ہو کہ اس کے باعث اچھے افعال اس
طرح ادا ہوں کہ وہ کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر پسندیدہ ہوں تو اسے حسنِ اخلاق کہتے
ہیں اور اگر اس سے برے افعال اس طرح ادا ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر ناپسندیدہ
ہوں تو اسے بد اخلاقی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(احیاء العلوم ، 3 / 165 ،مکتبۃ
المدینہ)
اب آئیے حدیث پاک کی
روشنی میں ملاحظہ فرماتے ہیں ۔(1) بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی: یا رسول اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نحوست کیا ہے؟ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: برے اخلاق۔(المسند للامام احمد بن حنبل ، مسند السیدۃ عائشۃ رضی اللہ عنہا
، 9/ 369، حدیث : 24601)
(2) ایک شخص نے بارگاہِ رسالت
میں عرض کی: یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم!مجھے نصیحت فرمائیے! تو آپ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :تم جہاں بھی ہو اللہ پاک سے ڈرتے
رہو۔ اس نے عرض کی: مزید کچھ فرمائیے! ارشاد فرمایا: برائی کے بعد نیکی کرلو کہ وہ
برائی کو مٹادے گی۔ عرض کی: کچھ اور فرمائیے! ارشاد فرمایا: لوگوں کے ساتھ اچھے
اَخلاق سے پیش آؤ ۔ ( احیاء العلوم،3/154)
(3) حضرت سیدنا فضیل بن عِیاض
رحمۃُ الله علیہ سے مروی ہے کہ بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی: ایک عورت دن میں
روزہ رکھتی اور رات میں قیام کرتی ہے لیکن وہ بد اخلاق ہے ،اپنی زبان سے پڑوسیوں
کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اس
میں کوئی بھلائی نہیں وہ جہنمیوں میں سے ہے۔ (احیاء العلوم،3/155)
(4)حضرت سیدنا جریر بن
عبداللہ رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ سے ارشاد فرمایا:( اے جَرِیْر!)اللہ پاک نے تمہاری
صورت کو اچھا بنایا تو اپنے اخلاق کو بھی اچھا رکھو۔
(5)حضرت سیدنا بَراء بن
عازِب رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب سے
زیادہ حسین اور سب سے بڑھ کر حسنِ اخلاق کے مالک تھے۔
(6)حضرت سیدنا ابو مسعود بدری
رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یوں دُعا کیا
کرتے تھے: اَللَّھُمَّ حَسَّنْتَ
خَلْقِیْ فَحَسِّنْ خُلُقِیْ یعنی اے اللہ پاک! تو نے میری صورت اچھی بنائی ہے پس میرے
اخلاق کو بھی اچھا کر دے۔
محمد ارشد عطاری(درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ کنزالایمان، ممبئی، ہند)
آج کل اس میں ترقی کے دور
میں فحش فنشن و فحش کلامی و بد اخلاقی و بدزبانی و بے حیائی وغیرہ اتنا عام ہو گیا
ہے کہ نہ بڑے چھوٹوں سے نہ چھوٹے بڑوں سے صحیح طریقے سے بات کرتے نظر آتے ہیں ۔ حالانکہ
دینِ اسلام جہاں محبت و بھائی چاره و برداشت و احسان و قربانی و سچائی و ایمان
داری سکھاتا ہے وہی یہ پیارا اسلام ہم کو دوسروں کی عزت و اکرام کرنا بھی سکھاتا ہے
بھر چاہے وہ کافر ہوں یا مشرک کسی سے بھی بداخلاقی کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن افسوس
لوگوں نے دین اسلام کی تعلیمات کو بھلا دیا اور بداخلاقی کی ایسی مثال پیش کرتے
ہوئے نظر آتے ہیں کہ جو کوئی سچا مسلمان کبھی بھی نہیں کر سکتا ۔
آیئے اس کے تحت بداخلاقی
کی مذمت پر احادیث مبارکہ پیش کرتا ہوں تاکہ ہم اور آپ اس سے نصیحت حاصل کرے ۔
بد اخلاقی ایسی مذموم صفت
ہے جس کے سبب انسان کا وقار معاشرے میں ختم ہو کر رہ جاتا ہے ۔ حضرت سیدنا
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حیا ایمان سے ہے اور ایمان جنت میں لے جانے
والا ہے فحش گوئی بد اخلاقی کی ایک شاخ ہے اور بد اخلاقی جہنم میں لے جانے والی ہے
۔(جامع الترمذی کتاب البر والصلہ )
نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ بد اخلاقی ایسا گناہ ہے جس کی بخشش نہیں ہوگی اور بد
گمانی ایسی خطا ہے کہ اس سے اور گناہ پیدا ہوتے ہیں ۔ (احیاء العلوم)
ایک اور جگہ نبی اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ بیشک بندہ اپنے برے اخلاق کی وجہ سے جہنم کے
سب سے پچھلے گڑھے میں پہنچ جاتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ سے رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: دو خصلتیں
ایسی ہیں کہ جو منافق میں کبھی جمع نہیں ہو سکتی ہے اچھے اخلاق اور دین کی سمجھ ۔
(جامع ترمذی )
اے میرے اسلامی بھائیوں
آپ نے ابھی ابھی احادیثِ رسول کو سماعت فرمایا ۔ کہ بد اخلاقی کے ساتھ پیش آنے اور
بد اخلاق شخص کوآخرت و دنیا میں کیا ہوگا۔ ہمیں بھی چاہئے کے ہم ایک دوسرے کے ساتھ
اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آئے اور دینِ اسلام کی تعلیمات کو اپنے بچوں اور دوسروں کو
بھی سکھائے اور بداخلاقی سے خود بھی بچے اور دوسروں کو بھی بچائے۔ اللہ پاک سے دعا
ہے کہ ہمیں اور آپ کو دین اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین
بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
عارف رضا عطّاری(درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ
فیضانِ کنزالایمان، ممبئی، ہند)
بداخلاقی ایک ایسا قبیح و
مذموم فعل ہے جس کو معاشرے میں ہر طبقہ ، ہر مذہب ، ہر جگہ مرد ہو یا عورت بچہ ہو
یا بوڑھا ہر ایک اس بد اخلاقی کو ناپسند کرتا ہے ۔ آج ہمارے معاشرے میں ایک عجیب
فضا قائم ہوتی جا رہی ہے کہ جن کے بچے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں وہی اپنے ماں باپ یا
گھر والوں سے بد تمیزی و بداخلاقی سے پیش آتے دکھائی دے رہیں ہیں ، غرباء سے زیادہ
امراء کی یہ حالت ہے امیر حضرات غریبوں سے حتی کہ کسی بھی نچلے طبقے والے سے
بداخلاقی سے پیش آتے دکھائی دیتے ہیں چاہے وہ اس کے گھر کا خادم ہو یا بواب ، اسی
طرح اسکول یا یونیورسٹیز کا بھی یہی حال ہے کہ بچہ کبھی اپنے ٹیچرز سے بداخلاقی و
بد تمیزی سے بات کرتا دکھائی دیتا ہے تو کبھی ٹیچرز اپنے اسٹوڈینٹ سے ۔ الغرض آپ
جس بھی شعبے میں جائیں وہاں کا یہی حال پائیں گے۔
الحمد للہ ہم مسلمان ہیں
اور دین اسلام میں بد اخلاقی سے بچنے اور حسنِ اخلاق سے پیش آنے کی بہت زیادہ
تاکید کی گئی ہے ۔ نیز خوش اخلاقی کی برکتیں اتنی زیادہ ہیں کہ غیر مسلم اس سے
متاثر ہوکر مشرف بہ اسلام ہو جاتے ہیں۔
حضور رحمۃ للعلمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : مومنین
میں سے کامل ایمان والا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں ۔
حسنِ اخلاق کے پیکر صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ
اپنے بھائی کی طرف ایسی نظر سے دیکھے جو اس کے لئے تکلیف کا باعث ہو۔
پہلی حدیث شریف سے تو ہمیں اچھے اخلاق سے پیش
آنے کی فضیلت معلوم ہوئی مگر دوسری حدیث شریف ہمارے لئے عبرت کا انبار ہے کیونکہ
جس شخص کو یہ روا نہیں صرف کہ وہ کسی مسلمان کو ایسی نظر سے دیکھے جس سے اس کو تکلیف
ہو تو ذرا غور تو کریں کہ اس کے لئے کیا حکم ہوگا جو مسلمانوں کو گالیاں دیتا ہے،
برا بھلا کہتا ہے، ذرا ذرا سی بات پر مار دھاڑ کرے یا کسی سے بد اخلاقی سے پیش آئے
۔ ہمیں چاہئے کہ کسی سے بداخلاقی و غصہ و طنز بھری نگاہوں سے دیکھنے اور گالیاں
دینے وغیرہ سے باز رہیں ۔
اللہ پاک سے دعا: ہمیں
بداخلاقی سے بچتے ہوئے زندگی گزارنے اور حسنِ اخلاق سے پیش آنے کی توفیق عطا فرما
کر ہمیں با ادب بنا دے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
پیارے اسلامی بھائیو!
ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تشریف آوری کا ایک مقصد یہ بھی
ہے کہ لوگوں کے اخلاق و معاملات کو درست کریں، ان کے اندر سے بُرے اخلاق کی جڑیں
اکھاڑیں اور ان کی جگہ بہتر اخلاق پیدا کریں چنانچہ حضور نبی پاک صاحب لو لاک سیاح
افلاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے :مجھے اچھے اخلاق کی
تکمیل کے لئے بھیجا گیاہے۔ (السنن الكبرى للبیہقی ، 343/10 ،حدیث: 20782)
جو لوگ ہر وقت گال پھلائے اور پیشانی پر بل ڈالے
ہوئے تیوری چڑھائے ہوئے ہر آدمی سے بداخلاقی کے ساتھ پیش آتے ہیں وہ بہت ہی بری خصلت
کے حامل ہوتے ہیں اور وہ دنیا و آخرت کی سعادتوں اور خوش نصیبیوں سے محروم ہیں
جبکہ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اور مسکراتے ہوئے لوگوں سے ملنا جلنا بہت بڑی سعادت
اور خوش نصیبی اور ثواب کا کام ہے۔ بد اخلاقی میں کراہیت ہی کراہیت اور خوش اخلاقی
میں حسن ہی حسن ہے لہذا ہر اسلامی بھائی کو چاہئے کہ اپنے گھر والوں ، رشتہ داروں
اور پڑوسیوں بلکہ ہر ملنے جلنے والے کے ساتھ خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آئے۔ افسوس!
آج کل ہم میں سے اکثر کے گھروں میں مدنی ماحول بالکل نہیں ہے اس میں کافی حد تک
ہمارا اپنا بھی قصور ہے، گھر والوں کے ساتھ ہماری بے انتہا بے تکلفی ہنسی مذاق ،
تو تراق اور بد اخلاقی وغیرہ اس کے اسباب ہیں۔
ہم ہر ایک کے ساتھ خوش روئی اور خوش اخلاقی کے
ساتھ پیش آنا چاہیے، یہ وہ صفت ہے جس کے بارے میں حضور اکرم نور مجسم، سرور عالم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بلا شبہ تم سب مسلمانوں میں سب سے زیادہ
مجھے وہ شخص محبوب ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب صفة
النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، 489/2،حديث: 350)
اسی طرح ایک شخص نے
بارگاہ رسالت میں عرض کی: یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب سے
بہترین چیز جو اللہ پاک نے انسان کو عطا فرمائی ہے وہ کیا چیز ہے؟ تو آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اچھے اخلاق۔ (شعب الایمان للبیہقی، 200/2، حدیث: 1529)
سب سے زیادہ وزن دار نیکی
حضور اکرم نور مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن
مومن کے میزان عمل میں سب سے زیادہ وزن دار نیکی اچھے اخلاق ہوں گے۔ (سنن الترمذى
كتاب البر والصلة باب ماجاء في حسن الخلق )
اچھے اخلاق گناہ مٹا دیتے
ہیں حضور نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : بے شک اچھے
اخلاق گناہ کو اس طرح مٹا دیتے ہیں جس طرح سورج برف کو پگھلا دیتاہے۔(شعب الايمان
للبیہقی ، 247/1 ،حديث : 8032)
وزیر خان عطاری (درجہ دورۂ حدیث جامعۃُ المدينہ فیضان اولیا احمدآباد، ہند)
خلق کی تعریف: خلق (عادت) نفس میں راسخ
ایسی کیفیت کا نام ہے ۔جس کی وجہ سے اعمال بآسانی صادر ہوتے ہیں۔ غور و فکر کی
حاجت نہیں ہوتی۔(احیاء العلوم، 3 /
165 ،مکتبۃ المدینہ)
امام غزالی کے نزدیک حسنِ
اخلاق اور بد اخلاقی کی تعریف :اگر نفس میں موجودہ کیفیت ایسی ہو کہ اس کے باعث اچھے افعال
اس طرح ادا ہوں کہ وہ کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر پسندیدہ ہوں تو اسے حسنِ اخلاق
کہتے ہیں اور اگر اس سے برے افعال اس طرح ادا ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر
ناپسندیدہ ہوں تو اسے بد اخلاقی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(احیاء العلوم ، 3 / 165 ،مکتبۃ
المدینہ)
بد اخلاقی ایک بہت بری
اور رذیل صفت ہے۔ جسے ہر کوئی شخص نا پسند کرتا ہے جس کی وجہ سے لوگ اس سے کنارہ
کش اختیار کرتے ہیں ۔ لوگوں کے نزدیک اس کا مرتبہ و وقار گر جاتا ہے ہر کوئی اس کے
شر سے بچنے کی وجہ اس کے منہ نہیں لگتا۔ احادیث مبارکہ میں بھی اس مذمت وارد ہوئی
ہے ۔
(1)حضرت ابو ہریرہ سے روایت
ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم عرض کی گئی فلاں عورت رات کو قیام
کرتی ہے اور دن کو روزہ رکھتی ہے۔ اور صدقہ کرتی ہے اور اپنی زبان سے پڑوسیوں کو
تکلیف دیتی ہے۔ تو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ وہ
جہنمیوں میں سے ہے۔( شعب الایمان، 12 /
84 ،ناشر مکتبۃ الرشد للنشر والتوزیع)
(2) حضورصلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان کو گالی دینا فسق اور قتل کرنا کفر
ہے۔(مشکٰوۃ المصابیح ،حدیث: 4814) اس حدیث پاک کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی
فرماتے ہیں کہ یہاں کفر بمعنی کفرانِ نعمت یعنی ناشکری ہے ایمان کا مقابل یعنی بلا
قصور مسلمان کو برا بھلا کہنا اور بلا قصور اس سے لڑنا بھڑنا ناشکری ہے یا کفار سا
کام ہے۔ اسے مسلمان ہونے کی وجہ سے مارنا پٹنا یا ناجائز جنگ کو حلال سمجھ کر کرنا
کفر و بے ایمانی ہے۔ (مرآت المناجیح، 6 /
355 ،نعیمی کتب خانہ گجرات)
(3) حضرت عائشہ صدیقہ رضی
اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ و سلَّم نے ارشاد
فرمایا کہ بد اخلاقی بے برکتی ہے اور تمہارے برے اخلاق وہ ہیں جو زیادہ بد اخلاق
ہیں ( کنز العمال کتاب البر ،حدیث: 7345)
(4) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ برے اخلاق ایمان کو اس طرح برباد کر دیتے ہیں جیسے
سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔ (شعب الایمان، 10 /
386 ،ناشر مکتبۃ الرشد للنشر والتوزیع)
(5) پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرمایا کہ مومن میں دو
خصلتیں جمع نہیں ہو سکتی ہیں: بخل اور بداخلاقی۔ (جامع ترمذی ، 2 / 18 مجلسِ
البرکات الجامعۃ الاشرفیہ)
معاشرے میں اس کے
اثرات: بد اخلاقی وجہ سے آج ہر
رشتہ ٹوٹتا ہوا نظر آتا ہے بھائی بھائی سے جدا ہے بچے والدین سے دور بھاگتے ہیں ۔
ہر ما تحت اپنے افسر کے پاس جانے سے خوف کھاتا ہے کوئی بھی انسان دوسرے کی ترقی کو
پسند نہیں کرتا اور علما کی بد اخلاقی کی وجہ سے دین کا بہت بڑا نقصان ہو رہا ہے ۔
تعلیم کا معیار کم ہو رہا ہے ۔
ان کا حل: انسان کو چاہیے کہ اچھا
رویہ اختیار کرے خندہ پیشانی سے ملاقات کرے۔ عالم دین مسئلہ بتانے میں نرم لہجہ
اختیار کرے برائی کا جواب اچھائی سے دیا جائے پڑوسیوں سے حسن سلوک کیا جائے ۔ اور
نیکی کی دعوت کو عام کیا جائے اور برائی سے منع کیا جائے۔
محمد ناظم عطاری (درجہ سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضان امام احمد رضا حیدر آباد،
ہند)
بد اخلاقی ایسی مذموم صفت
ہے جو معاشرہ میں بغض، حسد، کینہ پیدا کرتی ہے اس کی وجہ سے بسا اوقات میاں بیوی
کے درمیان طلاق کی نوبت آجاتی ہے، بد اخلاق سے کوئی بھی شریف آدمی بات کرنا پسند
نہیں کرتا احادیث کریمہ میں بھی بد اخلاقی کی مذمت بیان کی گئ ہے جن میں سے چند
ملاحظہ ہوں۔
بد اخلاق جہنمی ہے : حضرت سیدنا فضیل بن
عِیاض رحمۃُ الله علیہ سے مروی ہے کہ بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی: ایک عورت دن
میں روزہ رکھتی اور رات میں قیام کرتی ہے لیکن وہ بد اخلاق ہے ،اپنی زبان سے
پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
اس میں کوئی بھلائی نہیں وہ جہنمیوں میں سے ہے۔ ( شعب الایمان ،باب فی اکرم الجار،
7/78، حدیث: 9545)
بد اخلاقی نحوست ہے: بارگاہِ رسالت میں عرض کی
گئی: یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نحوست کیا ہے؟ تو آپ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: برے اخلاق۔(المسند للامام احمد بن حنبل ،
مسند السیدۃ عائشۃ رضی اللہ عنہا ، 9/ 369، حدیث : 24601)
بد اخلاقی کفر کو تقویت
دیتی ہے: جب اللہ پاک نے ایمان کو
پیدا فرمایا تو اس نے عرض کی اے رب مجھے تقویت دے تو اللہ پاک نے اسے حسنِ اخلاق
اور سخاوت کے ذریعہ تقویت دی اور جب اللہ پاک نے کفر کو پیدا کیا تو اس نے کہا اے
رب مجھے تقویت دے تو اللہ پاک نے اسے بخل اور بد اخلاقی کے ذریعہ تقویت دی۔ (احیاء
العلوم، 3 / 153)
بد اخلاقی عمل کو
خراب کر دیتی ہے : نبی کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : سُوْءُ الخُلْقِ یُفْسِدُ العَمَلَ کَمَا یُفْسِدُ الخَلُّ العَسَلَ یعنی بد اخلاقی عمل کو
ایسے ہی خراب کردیتی ہے جیسے سرکہ شہد کو خراب کردیتا ہے۔ ( شعب الایمان باب فی
حسن الخلق، 6 / 247 ،حديث: 8036)
بد اخلاق اپنے آپ کو
عذاب میں جھونکتا ہے: حضرت سیدنا حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جس انسان کا اخلاق برا ہوتا
ہے وہ اپنے آپ کو عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔( احیاء العلوم ، 161/3)
حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں: انسان اپنے حسنِ اخلاق کے سبب جنت کے اعلی درجات پالیتا ہے حالانکہ وہ کوئی
عبادت گزار نہیں ہوتا اور انسان اپنے برے اخلاق کے سبب جہنم کے سب سے نچلے طبقات
تک پہنچ جاتا ہے با وجود یہ کے وہ عبادت گزار ہوتا ہے۔ (احیاء العلوم، 161/3)
بد اخلاق کی مثال : حضرت سیدنا وہب بن منبہ
رضی اللہ فرماتے ہیں: بد اخلاق انسان کی مثال اس ٹوٹے ہوئے گھڑے کی طرح ہے جو قابل
استعمال نہیں رہتا۔(احياء العلوم ، 161/3)
با اخلاق فاسق بد
اخلاق عابد سے زیادہ پسندیدہ ہے : حضرت سیدنا فضیل بن عیاض رحمۃُ الله علیہ فرماتے ہیں: اگر کوئی
اچھے اخلاق والا فاسق میرا رفیق سفر ہو یہ مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ کوئی بد
اخلاق عابد میرا رفیق سفر ہو۔( احياء العلوم، 161/3)
بد اخلاقی آفت ہے: حضرت سیدنا یحی بن معاذ
رازی رحمۃُ الله علیہ فرماتے ہیں : بد اخلاقی ایک ایسی آفت ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے
نیکیوں کی کثرت بھی فائدہ مند نہیں ہوتی اور حسنِ اخلاق ایک ایسی نیکی ہے کہ جس کے
ہوتے ہوئے بہت سی برائیاں بھی باعث نقصان نہیں ہوتیں۔ (احياء العلوم، 161/3)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ
پاک ہمیں بد اخلاقی جیسے عظیم گناہ سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ سید المرسلین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مصطفیٰ رضا عطاری (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ اولیا احمدآباد، ہند)
پیارے پیارے اسلامی
بھائیو! اخلاقیات کا انسان کی زندگی میں بڑا کردار ہے جہاں اچھے اخلاق انسان کو
دنیا اور آخرت میں فائدہ دیتے ہیں اسی طرح برے اخلاق کی وجہ سے انسان دنیا میں بھی
اور آخرت میں بھی کافی نقصان اٹھاتا برے اخلاق کی مذمت کے بارے چند احادیث ملاحظہ
فرمائیں۔
(1) حضرت فضیل بن عیاض رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی کے۔ ایک عورت دن میں روزہ رکھتی ہے اور رات میں قیام
کرتے ہیں لیکن و بد اخلاق ہے اپنی زبان سے پڑوسیوں کے تکلیف پہنچاتی ہے تو آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اس میں کوئی بھلائی نہیں و جہنمیوں میں
سے ہے۔(شعب الايمان،باب فی اکرام الجار 7/78 ، حدیث : 9545 )
(2)بد اخلاقی عمل کی اس طرح
خراب کر دیتی ہے جس طرح سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔ (شعب الايمان،باب فی حسن
الخلق 6/247، حدیث 8036)
(3) بد اخلاقی ایک ایسا گناہ
ہے جس کی مغفرت نہ ہوگی۔ (مساویٔ الاخلاق للخرائطی باب ما جاء فی سوء الخلق ص 20 ،حدیث7
)
(4)انسان اپنے برے اخلاق
کی وجہ سے جہنّم کے سب سے نچلے طبقے میں پہنچ جاتا ہے۔ (مساویٔ الاخلاق للخرائطی
باب ما جاء فی سوء الخلق، ص 22 ،حدیث 12)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! برے اخلاق کی وجہ سے
معاشرہ میں بہت بگاڑ پیدا ہوتا ہے اسی طرح بد اخلاق آدمی کو لوگ پسند نہیں کرتے بد
اخلاق آدمی دنیا میں تو نقصان اٹھاتا ہی ہے لیکن آخرت میں بھی اس کے لیے سخت وعید
آئی ہے بد اخلاقی سے چھٹکارا پانے اور اچھے اخلاق اپنانے کے لئے صحبت بڑی اثر کرتی
ہے اس پُر فتن دور میں اچھے اخلاق پانے کے لیے دعوتِ اسلامی کا مدنی ماحول بہترین ذریعہ
ہے اس ماحول سے وابستہ ہو جائیے ان شاء اللہ رب کی رحمت سے اچھے اخلاق بھی میسر
ہونگے اور خوب نیکیوں کا جذبہ ملےگا اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے وہ صاحبِ حسنِ
اخلاق صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے میں ہمارے اخلاق کو اچھا کردے۔ اٰمین۔