
یوں تو اللہ پاک کے تمام انبیا عظیم ترین اور انسانوں میں
ہیروں جیسی ہستیاں ہیں،لیکن سرورِ انبیا ﷺ کی شان نرالی ہے کہ خود خالقِ کائنات نے
حضورﷺ کے اوصاف ذکر فرمائے،ان میں سے چند نہایت اختصار کے ساتھ پیشِ خدمت ہیں:
1)حضور خاتمُ النبیین
ہیں: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ
اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-
(الااحزاب:40) ترجمہ:محمد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں،لیکن
اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں۔
تفسیر:آپ پر نبوت ختم ہو گئی ہے اور اس کے بعد کسی کو نبوت نہیں
مل سکتی۔ (صراط الجنان،8/47) 2)حضور دونوں
جہان کیلئے رحمت بنائے گئے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً
لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ 17، الانبیاء:107)ترجمہ:اور
ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔
تفسیر:عالمین
پر آپ کی رحمت کبھی منقطع نہ ہوگی۔ دنیا میں کبھی آپ کا دین منسوخ نہ ہوگا اور
آخرت میں ساری مخلوق حتی کہ انبیا بھی آپ کی شفاعت کے محتاج ہوں گے۔(روح البیان،5/528)
3)مقامِ محمود سے سرفراز ہوں گے: عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ
رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا(۷۹) (بنی
اسرائیل:79) ترجمہ:قريب ہے کہ آپ کا رب آپ
کو ایسے مقام پر فائز فرمائے گا کہ جہاں سب تمہاری حمد کریں۔
تفسیر: مقامِ محمود،مقامِ شفاعت ہے۔(صراط الجنان،5/498)اس وقت اولین و آخرین میں
حضورﷺ کی حمد کا غلغلہ پڑ جائے گا۔ہر شخص حضورﷺ کی افضلیتِ کُبریٰ
وسیادت ِعظمیٰ پر ایمان لائے گا۔ (فتاویٰ رضویہ، 30 /170-171)
4)حضور کا دین کامل فرما دیا گیا: اَلْیَوْمَ
اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ (المائدۃ:3) ترجمہ:آج میں نے تمہارے لئے
تمہارا دین کامل کردیا۔
تفسیر: یعنی یہ دین قیامت تک باقی رہے گا۔(تفسیر خازن، 1/464)اسی آیت کے متعلق یہودی نے
بارگاہِ فاروقی میں عرض کی:اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس کے نازل ہونے
کے دن عید مناتے۔(بخاری، 1/28،حدیث:45)
5) آپ کی بارگاہ میں حاضری بخشش کا سبب
ہے: وَ لَوْ
اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ
اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴) (النساء:64) ترجمہ:وہ جو اپنی جانوں پر ظلم کریں پھر تیرے
پاس حاضر ہو کر خدا سے بخشش چاہیں اور رسول ان کی مغفرت مانگے تو ضرور خدا کو توبہ
قبول کرنے والا مہربان پائیں۔
تفسیر:فرمانِ اعلیٰ حضرت:اللہ تو ہر جگہ سنتا ہے،اس کا
علم،سمع(سننا)،شُہود(دیکھنا) سب جگہ ایک سا ہے،مگر حکم یہی فرمایا کہ میری طرف
توبہ چاہو تو میرے محبوب کے حضور حاضر ہو۔(صراط الجنان، 2/262)
6)آپ کی رضا کو اللہ نے اپنی رضا قرار دیا: وَ لَسَوْفَ
یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰىؕ(۵) (الضحىٰ:5) ترجمہ: بیشک قریب ہے کہ تمہارا
رب تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہوجاؤ گے۔
تفسیر:وہ اس حبیب ﷺ کو راضی کرنے کے لئے عطا عام کرتا ہے۔(
خزائن العرفان،ص1109)
خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالَم خدا چاہتا ہے رضائے
محمد
7) آپ نے حالتِ بیداری میں اللہ پاک سے
ملاقات کا شرف پایا: سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ
الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ
( بنی
اسرائیل: 1) ترجمہ: پاکی ہے اسے جو راتوں رات اپنے بندے کو لے گیا مسجدِ حرام سے
مسجدِ اقصیٰ تک جس کے گرد ہم نے برکت رکھی۔
تفسیر:
اس سے مراد معجزۂ معراج ہے۔ یہ حضور ﷺ کا ایسا کمالِ قربِ ظاہر ہے جو اور کسی کو میسر
نہیں۔ (صراط الجنان،5/314)
8) آپ کے وسیلے سے حضرت آدم کی توبہ قبول
ہوئی: فَتَلَقّٰۤى
اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْهِؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ
الرَّحِیْمُ(۳۷) (البقرۃ:37) ترجمہ: پھر سیکھ لیے
آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی۔
تفسیر:اللہ نے فرمایا:تم اس کے وسیلے سے مجھ سے دعا کرو میں
تمہیں معاف کردوں گا۔(صراط الجنان، 1/118)
9)ربِ کائنات آپ پر درود بھیجتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ
وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ (الاحزاب:56) ترجمہ: بیشک اللہ اور اس کے
فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں
تفسیر: یہاں اللہ کے درود سے مراد ایسی رحمت فرمانا ہے جو تعظیم
کے ساتھ ملی ہوئی ہو۔ (صاوی، 5/ 1654)
10) آپ کو خیر کثیر عطا فرمائی گئی: اِنَّاۤ
اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ(۱) (الکوثر: 1) ترجمہ
کنز العرفان:اے محبوب! بےشک
ہم نے تمہیں بےشمار خوبیاں عطا فرمائیں۔
تفسیر: یعنی
آپ ﷺ کو نسبِ عالی،حوضِ کوثر،کثرتِ امت و فتوحات،غلبہ وغیرہ اور وہ فضیلتیں عطا کیں
جن کی انتہا نہیں۔(خازن،4/413-414)یہ انتہائی مختصر کچھ اوصافِ حمیدہ ذکر کئے۔اللہ
کریم ان کی برکتوں سے مالامال فرمائے۔ آمین بجاہِ خاتمِ النبیین ﷺ

کتنے ہی پیغمبر
اللہ پاک کا پیغام لے کر اس کائناتِ ارضی پر تشریف لائے۔ کسی کا کوئی وصف ہے تو
کسی کا کوئی کمال۔کوئی حسن میں کمال،کوئی آواز میں، کوئی کلام میں، کوئی رفتار میں
باکمال،کوئی شجاعت میں، کوئی عدل میں باکمال ہے۔لیکن ہمارے نبی اکرم ﷺ تمام اوصاف
کے جامع ہیں۔ ہمارے پیارے نبی ﷺ کے اوصاف اعلیٰ سے اعلیٰ ہیں۔حضور کی توصیف میں
قرآنِ پاک میں کئی آیاتِ مبارکہ نازل ہوئیں۔ ان میں سے ایک آیت مبارکہ پیش کرنے کی
سعی کرتی ہوں:
وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا
رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ
17، الانبیاء:107)ترجمہ:اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔یہ
نبی اکرم ﷺ کا ایک پیارا اور خوبصورت وصف ہے کہ اللہ پاک نے آپ کو رحمت کے ساتھ
مزین فرمایا۔ آپ سراپا رحمت ہیں۔ آپ ﷺ تمام مخلوق پر رحمت فرماتے ہیں اور جس نے آپ
کی رحمت عامہ سے حصہ پایا وہی درحقیقت دین ودنیا میں ہر بُرائی سے نجات یافتہ اور
دونوں جہان میں بامراد ہے۔
آیت ِمبارکہ
کے ساتھ ساتھ کئی واقعات میں بھی آپ کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں۔چنانچہ روایت ہے کہ
ایک شخص حضور اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کی:یارسول اللہ!میں نے
اپنی بیٹی کا نکاح کردیا ہے اور میں اسے خاوند کے گھر بھیجنا چاہتا ہوں اورمیرے
پاس کوئی خوشبو نہیں۔ آپ کچھ عنایت فرمادے۔سرکار نے فرمایا: میرے پاس موجود نہیں
مگر کل صبح ایک چوڑے منہ والی شیشی اورکسی درخت کی لکڑی میرے پاس لے آنا۔ دوسرے
روز وہ شخص شیشی اور لکڑی لے کر حاضرِ خدمت ہوا۔ آپ نے اپنے دونوں بازوؤں سے اس
میں اپنا پسینہ مبارک ڈالنا شروع کیا یہاں تک کہ وہ بھر گئی۔پھر فرمایا: اسے لے کر
جا !اپنی بیٹی سے کہہ دینا کہ اس لکڑی کو تر کر کے مل لیا کرے۔ پس جب وہ پسینہ
مبارک کو لگایا کرتی تو تمام اہلِ مدینہ کو اس کی خوشبوں پہنچتی یہاں تک کہ اس گھر
کا نامبیتُ المطیبین(خوشبوں والا گھر)ہوگیا۔ اللہ
اکبر!میرے نبی کے پسینے کی کیا بات ہے!
واللہ
جو مل جائے مرے گُل کا پسینہ مانگے
نہ کبھی عطر نہ پھر چاہے دلہن پھول
اگر عام انسان
کو دیکھا جائے تو اس کے پسینہ سے بو آتی ہے اور وہ اس بدبو کو دور کرنے کے لئے طرح
طرح کی خوشبو استعمال کرتا ہے۔ لیکن ہمارے پیارے آقا ﷺ کا جسم ِاقدس معطر معطر تھا
اور مہکتا ہی رہتا تھا۔
اگر نبیِ اکرم
ﷺ کے اوصاف پر بات کی جائے تو اتنے زیادہ ہیں کہ انہیں ہم شمار نہیں کرسکتیں۔آپ کی
پیدائش سے لے کر بلکہ اس سے پہلے بھی آپ کے اوصاف بیان کئے جارہے ہیں اور اب بھی
ہورہے ہیں اور قیامت تک بیان ہوتے رہیں گے۔اتنے علمائے کرام،سلف صالحین اور شاعر
بھی بیان کر رہے ہیں لیکن ان کی زندگیاں ختم ہوگئیں مگر آپ کے اوصاف کو شمار نہیں
کرسکے۔ اگر دنیا کے تمام سمندروں کو سیاہی اور درختوں کو قلم بنالیں اور ا سے
اوصافِ سرکار کو شمار کرنے میں لگا دیا جائے تو وہ سب کے سب ختم ہوجائیں لیکن نبی
اکرم ﷺ کے اوصاف شمار نہ ہوسکیں گے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا!

اوصاف تو سب
نے پائے ہیں پر حُسنِ سراپا کوئی نہیں
آدم سے جنابِ عیسیٰ تک سرکار کے جیسا کوئی نہیں
حضور خاتمُ
النبیین، رحمۃ للعالمین ﷺ کے مبارک اوصاف کا شمار انسانی طاقت سے وراء ہے۔ آپ تمام
کمالاتِ انبیا کے جامع ہیں اور آپ کے اوصاف و کمالات تمام انبیائے کرام علیہم
السلام سے زیادہ ہیں۔نیز آپ کے اوصافِ حمیدہ ختم ہونے کے عیب سے بھی پاک ہیں۔
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ بارگاہِ رسالت میں عرض کرتے ہیں:
تیرے
تو وصف عیبِ تناہی سے ہیں بری حیراں
ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے
یہاں ذیل میں
دس اوصافِ سرکار درج کیے جاتے ہیں:
1۔ آپ تمام
مخلوق کیلئے رسول ہیں اور کل جہاں آپ کی اُمت ہے۔(صراط الجنان)
2۔ وَ لٰكِنْ
رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ- (پ22، الاحزاب: 40) ترجمہ:ہاں
اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے۔
3۔ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-(پ5، النسآء: 80) ترجمہ:جس نے
رسول کا حکم مانا بے شک اس نے اللہ کا حکم مانا۔
4۔ آپ ﷺ امت
کو کتاب یعنی قرآنِ پاک اور حکمت یعنی سنت،احکامِ شریعت اور اسرار وغیرہ سکھاتے
ہیں۔(صراط الجنان)
5۔ آپ ﷺ لوگوں کے نفوس کا تزکیہ فرماکر انہیں
گناہوں کی آلودگیوں،شہوات و خواہشات کی آلائشوں اور ارواح کی کدورتوں سے پاک و صاف
کرکے آئینہ دل کو تجلیات و انوارِ الہٰیہ دیکھنے کے قابل بناتے ہیں تاکہ اسرارِ الٰہی
اور انوارِ باری ان میں جلوہ گر ہوسکیں۔ (صراط الجنان)
6۔ فَبِمَا
رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْۚ- (ال عمرٰن: 159) ترجمہ کنز
الایمان: تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لیے نرم دل ہوئے۔
7۔ لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ
مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) (التوبۃ: 128)ترجمہ
کنز العرفان:بے شک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لائے جن پر تمہارا
مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے،وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں
پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔
8۔آپ ﷺ امت کی
بھلائی اور ان کی خیر خواہی پر حریص ہیں۔ (صراط الجنان)
9۔ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (پ21، الاحزاب:21) ترجمہ:بیشک تمہیں رسولُ الله
کی پیروی بہتر ہے۔
10۔آپ ﷺ کے
فیصلہ فرمادینے کے بعد کسی مسلمان مرد و عورت کو اپنے معاملے کا کوئی اختیار نہیں
رہتا۔ نیز آپ ﷺ کا حکم نہ ماننے والا گمراہ ہے۔
آپ ﷺ کے
اوصافِ حمیدہ کے بارے میں یقیناً یہ کہا جاسکتا ہے کہ
اُسے
ایک اللہ نے ایک بنایا وہ
ہر وصف میں لَاشَرِیْکَ لَہٗ ہے
نیز آپ ﷺ کے
مبارک اوصاف کے بارے میں ایک شاعر نے بہت خوب کہا ہے کہ

اللہ
کریم فرماتا ہے:اِنَّ اللّٰهَ وَ
مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶)(پ22،الاحزاب:56)ترجمہ
کنز الایمان: بےشک اللہ اور
اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود
اور خوب سلام بھیجو۔
تفسیر روح البیان میں ہے کہ اس آیتِ مبارکہ کے نازل ہونے
کے بعد محبوبِ کریم ﷺ کا چہرۂ انور خوشی سے نور کی کرنیں لٹانے لگا اور فرمایا: مجھے
مبارکباد پیش کرو کیونکہ مجھے وہ آیتِ مبارکہ عطا کی گئی ہے جو مجھے دنیا و مافیہا
(یعنی دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اس )سے زیادہ محبوب ہے۔آج ہم بھی ان ہی نبیِ کریم
ﷺ کے اوصاف جاننے کی سعادت حاصل کریں گی۔
1-ایک
حدیثِ پاک میں”توریت شریف“سے مالک و مختار نبی ﷺ کے یہ اصاف یعنی خوبیاں منقول ہیں:
میرے بندے احمد مختار ﷺ اُن کی پیدائش کی جگہ مکہ مکرمہ اور جائے ہجرت مدینہ طیبہ
ہے۔ اُن کی امت ہر حال میں اللہ پاک کی کثیر حمد( یعنی بہت تعریف) کرنے والی ہے۔ قیامت
کے دن مرتبۂ شفاعتِ کُبریٰ سرورِ کائنات ﷺ کی خصوصیات میں سے ہے کہ جب تک حضور
شفاعت کا دروازہ نہ کھولیں گے کسی کی مجالِ شفاعت نہ ہوگی بلکہ حقیقتاً جتنے شفاعت
کرنے والے ہیں حضور کے دربار میں شفاعت لائیں گے۔ شفاعتِ کُبریٰ مومن، کافر،
فرمانبردار،گنہگار سب کے لیے ہےکہ وہ قیامت کاحساب شروع ہونے کا انتظار جو سخت جان
لیوا ہوگا اُس کے لیے لوگ تمنائیں کریں گے کہ کاش! جہنم میں پھینک دیئے جاتے اور
اس انتظار سے نجات پاتے۔ اس مصیبت سے چھٹکارا کفار کو بھی حضور کے صدقے سے ملے گا
جس پر پہلے اور بعد میں آنے والے موافقین و مخالفین مؤمنین و کافرین سب حضور کی
تعریف کریں گے اسی کا نام مقام ِمحمود ہے۔
2-آپ کے اوصاف
میں ایک وصف یہ بھی ہے:آپ کا نام محمد اللہ پاک کے اسمِ مبارک محمود سے نکلا ہے۔
آپ کی شان ہے کہ آپ کے (ستر) نام مبارک وہ ہیں جو اللہ پاک کے ہیں۔ پہلے کی جو
آسمانی کتابوں میں احمد نام ذکر ہے وہ آپ ہیں۔آپ کا لعابِ دہن کھا رے پانی کو میٹھا
بنا دیتا ہے اور شیرِ خوار بچوں کے لیے دودھ کا کام دیتا ہے۔ بیماروں کو شفا دیتا
ہے اور زہر کا اثر زائل کر دیتا ہے۔
3-آپ ایسے بشر
ہیں جن کا سایہ نہ تھا کیونکہ آپ نور ہیں اور نور کا سایہ نہیں ہوتا ہے۔
4-اللہ پاک نے
آپ کو اپنی شریعت کا مختارِ کُل بنا دیا ہے۔آپ جس کے لیے جو چاہیں حلال فرما دیں
اور جس کے لیےجو چاہیں حرام فرما دیں۔
5-رسول اللہ ﷺ
اپنے رب کی عطا سے مالکِ جنت ہیں۔ جنت عطا فرمانے والے ہیں۔ جسے چاہیں عطا فرمائیں۔
بخاری شریف نمبر71 میں فرمانِ مصطفٰے ﷺ ہے: انما
انا قاسم واللّٰه معطی یعنی الله عطا کرتا ہے اور میں تقسیم کرتا ہوں۔
رب ہے
معطی یہ ہیں قاسم
رزق اُس کا ہےکھلاتے یہ ہیں
اس کی
بخشش ان کا صدقہ دیتا وہ
ہےدلاتے یہ ہیں
6-اللہ پاک کی
عطا سے مالک و مختار،اللہ کے کرم سے غیبوں پر خبر دار نبی ﷺ نے سورج کو حکم دیا کہ
کچھ دیر رک جائے وہ فوراً ٹھہر گیا۔
7-جب دودھ
پیتے تھے جھولے میں چاند ان کی غلامی کرتا تھایعنی بات مانتا تھا۔ جدھر اشارہ فرماتے
اسی طرف جھک جاتا تھا۔
چاند
اشارے کا ہلا حکم کا باندھا سورج واہ
کیا بات شہا تیری توانائی کی
اللہ کی عطا
سے آپ ﷺ چاند کے ٹکڑے کر دیں۔ آپ چاہیں تو ڈوبا سورج پلٹادیں۔آپ تو پانی میں پتھر
تیرا دیں۔ آپ چاہیں تو لکڑیاں بلب کی طرح روشی دینے لگیں۔ آپ چاہیں تو انگلیوں سے
پانی کے چشمے بہا دیں۔ آپ چاہیں تو درختوں اور پتھروں سے کلام کریں۔ آپ چاہیں تو
درخت آپ کی بارگاہ میں حاضری دیں۔آپ چاہیں تو تھوڑا سا دودھ بہتّر (72)آدمیوں کو کافی ہو جائے۔ آپ چاہیں تو
تھوڑا کھانا کثیر جماعت کو کافی ہو جائے۔ آ پ چاہیں تو جانور انسانی بولی بولنے لگیں۔
الغرض اللہ کی عطا سے آپ کے پاس سب اختیارات موجود ہیں۔
سب سے
اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی سب
سے بالا و والا ہمارا نبی
(اسلامی
بیانات،جلد7)
10 اوصاف ِسرکار از بنتِ عنایت علی،فیضانِ
خدیجۃ الکبریٰ پی آئی کالونی کراچی

الله پاک نے
پوری کائنات کو تخلیق فرما کر اپنے لئے تمام انبیائے کرام میں سے ہمارے آقا،محمدِ
مصطفٰے ﷺ کا انتخاب فرما کر سب سے اعلیٰ مقام و اوصاف عطا فر مائے۔
خاتمُ
النبیین کے 10 اوصاف:حضور اکرم ﷺ کے ان گنت(Uncountable)اوصاف
میں سے چند درج ذیل ہیں:
1-
بے
شمار خوبیاں:اللہ پاک قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:اِنَّاۤ
اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ(۱) (پ 30،الکوثر:1) ترجمہ کنز العرفان: اے
محبوب ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فر مائیں۔اس کی تفسیر میں مفسرین کے اقوال
کا خلاصہ ہے کہ اے محبوب!بیشک ہم نے تمہیں تمام مخلوق پر افضل کیا۔آپ کو حسنِ
ظاہری عطا کیا اور حسنِ باطنی بھی،عالی نسب بھی،نبوت بھی،کتاب بھی،حکمت بھی،شفاعت بھی،حوضِ
کوثربھی الغرض بے شمار نعمتیں اور فضیلتیں عطا کیں جس کی انتہا نہیں۔(تفسیر خازن،4/414-413 ملتقطاً)
2-
اخلاقِ کریمہ:الله
پاک اپنے محبوب کے اخلاقِ مبارکہ کو قرآنِ مجید میں کچھ اس طرح بیان فرماتا ہے:وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) (پ
29، القلم: 4) ترجمہ کنز العرفان:اور بے شک تم یقیناً عظیم اخلاق پر ہو۔حضور اکرم
ﷺ علم اور عمل دونوں اعتبار سے اعلیٰ اور کامل ہیں۔
ترے خُلق
کو حق نے عظیم کہا تری خِلق کو
حق نے جمیل کیا
کوئی
تجھ سا ہو ا ہے نہ ہوگا شہا تیرے
خالقِ حُسن و ادا کی قسم
3- جود و کرم اور سخاوت: حضرت جابر
رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ سے جب کبھی
کوئی سوال کرتا تو آپ ”لا“ یعنی ”نہیں“ کبھی نہ فرماتے تھے۔ ( بخاری،1/32-31) اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:
مانگیں
گے مانگے جائیں گے منہ مانگی پائیں گے سرکار
میں نہ ”لا“ ہے نہ حاجت ”اگر“ کی ہے
4-شجاعت و بہادری:حضور اکرم ﷺ کی شجاعت و بہادری اس مرتبہ
تک تھی کہ کوئی اس سے ناواقف نہ تھا یعنی مشہور تھی۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما
فرماتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺسے بڑھ کر کسی کو بہادر، صاحب ِحوصلہ،سخی اور ہر
معاملے میں خوش نہ دیکھا۔ (مقدمہ دارمی،1 / 30)
5۔فصاحت
و بلاغت:آپ
ﷺ کو فصاحت و بلاغت میں بھی اعلیٰ مقام حاصل تھا کہ بڑے بڑے فُصَحَا و بُلَغَا بھی آپ کے
کلام کو سن کر دنگ رہ جاتے۔رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:میں عربوں میں سب سے زیادہ
فصیح ہوں،جامع کلمات دے کر بھیجا گیاہوں۔ (مشکوۃ، ص512)
تیرے
آگے یوں ہیں دبے لچے فصحاء عرب کے بڑے بڑے
کوئی
جانے منہ میں زبان نہیں نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں
6۔
دیدارِ الٰہی:حدیثِ
مبارکہ میں ہے:ترجمہ:اور اللہ پاک قریب ہوا،پھر اور قریب ہوا،یہاں تک کہ آپ اللہ
سے دو کمانوں کی مقدار بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب ہوئے۔(بخاری،1/581،حدیث:7517)
آپ ﷺ معراج کی
رات جو دیدارِ الٰہی سے فیضیاب ہوئے،اس میں راجح مذہب کے مطابق دیدارِ الٰہی سر کی
آنکھوں سے ہوا۔
7۔شفاعت:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد
فرمایا کہ یہ فخر نہیں اور میں ہی وہ پہلا شخص ہوں گا جو جنت میں شفاعت کرے گا اور
میرےا متی سب سے زیادہ ہوں گے۔ (مسلم،1 / 188 )
پیشِ حق
مُژدہ شفاعت کا سناتے جائیں گے
آپ روتے جائیں گے ہم کو ہنساتے جائیں گے
8۔حوضِ
کو ثر:حضرت
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرمﷺ نےاپنے ربِّ کریم کی عنایتوں کے تذکرے
میں فرمایا:مجھ کو عنایت کردہ کوثر جنت میں ایک نہرہے اور میرے حوض میں بہتی ہے۔(تفسیر
ابنِ جر بر، 30/ 149)
9۔لواء ُالحمد:رسولِ اکرم،نور
مجسم ﷺ نے ارشاد فرمایا:میں ہی قیامت کے دن لواءُ الحمد کا جھنڈا اُٹھانے والا ہوں
جس کے نیچے آدم علیہ السلام اور ان کے علاوہ (ساری مخلوق ) ہوگی۔ فخر نہیں ہے۔ (
مشکوۃ،ص 313 )
جس کے
زیرِ لواء آدم و مَن سَوا اس
سزائے سعادت پہ لاکھوں سلام
10۔خاتم
النبیین: مروی
ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں نے ہی اس جگہ کو مکمل کیا اور اس محل کی
آخری اینٹ میں ہی ہوں اور خاتم النبیین ہوں۔(مشکوٰۃ،ص511)مختصر یہ کہ حضور اکرم ﷺ کے
اوصافِ مبارکہ کو شمار (Count) کرنا نا ممکن ہے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا !
زندگیاں
ختم ہوئیں اور قلم ٹوٹ گئے
تیرے اوصاف کا ایک باب بھی پورا نہ ہو ا
خاتمُ
النبیین کے 10 اوصاف:حضور اکرم ﷺ کے ان گنت(Uncountable)اوصاف
میں سے چند درج ذیل ہیں:
1-
بے
شمار خوبیاں:اللہ پاک قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:اِنَّاۤ
اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ(۱) (پ 30،الکوثر:1) ترجمہ کنز العرفان: اے
محبوب ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فر مائیں۔اس کی تفسیر میں مفسرین کے اقوال
کا خلاصہ ہے کہ اے محبوب!بیشک ہم نے تمہیں تمام مخلوق پر افضل کیا۔آپ کو حسنِ
ظاہری عطا کیا اور حسنِ باطنی بھی،عالی نسب بھی،نبوت بھی،کتاب بھی،حکمت بھی،شفاعت بھی،حوضِ
کوثربھی الغرض بے شمار نعمتیں اور فضیلتیں عطا کیں جس کی انتہا نہیں۔(تفسیر خازن،4/414-413 ملتقطاً)
2-
اخلاقِ کریمہ:الله
پاک اپنے محبوب کے اخلاقِ مبارکہ کو قرآنِ مجید میں کچھ اس طرح بیان فرماتا ہے:وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) (پ
29، القلم: 4) ترجمہ کنز العرفان:اور بے شک تم یقیناً عظیم اخلاق پر ہو۔حضور اکرم
ﷺ علم اور عمل دونوں اعتبار سے اعلیٰ اور کامل ہیں۔
ترے خُلق
کو حق نے عظیم کہا تری خِلق کو
حق نے جمیل کیا
کوئی
تجھ سا ہو ا ہے نہ ہوگا شہا تیرے
خالقِ حُسن و ادا کی قسم
3- جود و کرم اور سخاوت: حضرت جابر
رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ سے جب کبھی
کوئی سوال کرتا تو آپ ”لا“ یعنی ”نہیں“ کبھی نہ فرماتے تھے۔ ( بخاری،1/32-31) اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:
مانگیں
گے مانگے جائیں گے منہ مانگی پائیں گے سرکار
میں نہ ”لا“ ہے نہ حاجت ”اگر“ کی ہے
4-شجاعت و بہادری:حضور اکرم ﷺ کی شجاعت و بہادری اس مرتبہ
تک تھی کہ کوئی اس سے ناواقف نہ تھا یعنی مشہور تھی۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما
فرماتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺسے بڑھ کر کسی کو بہادر، صاحب ِحوصلہ،سخی اور ہر
معاملے میں خوش نہ دیکھا۔ (مقدمہ دارمی،1 / 30)
5۔فصاحت
و بلاغت:آپ
ﷺ کو فصاحت و بلاغت میں بھی اعلیٰ مقام حاصل تھا کہ بڑے بڑے فُصَحَا و بُلَغَا بھی آپ کے
کلام کو سن کر دنگ رہ جاتے۔رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:میں عربوں میں سب سے زیادہ
فصیح ہوں،جامع کلمات دے کر بھیجا گیاہوں۔ (مشکوۃ، ص512)
تیرے
آگے یوں ہیں دبے لچے فصحاء عرب کے بڑے بڑے
کوئی
جانے منہ میں زبان نہیں نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں
6۔
دیدارِ الٰہی:حدیثِ
مبارکہ میں ہے:ترجمہ:اور اللہ پاک قریب ہوا،پھر اور قریب ہوا،یہاں تک کہ آپ اللہ
سے دو کمانوں کی مقدار بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب ہوئے۔(بخاری،1/581،حدیث:7517)
آپ ﷺ معراج کی
رات جو دیدارِ الٰہی سے فیضیاب ہوئے،اس میں راجح مذہب کے مطابق دیدارِ الٰہی سر کی
آنکھوں سے ہوا۔
7۔شفاعت:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد
فرمایا کہ یہ فخر نہیں اور میں ہی وہ پہلا شخص ہوں گا جو جنت میں شفاعت کرے گا اور
میرےا متی سب سے زیادہ ہوں گے۔ (مسلم،1 / 188 )
پیشِ حق
مُژدہ شفاعت کا سناتے جائیں گے
آپ روتے جائیں گے ہم کو ہنساتے جائیں گے
8۔حوضِ
کو ثر:حضرت
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرمﷺ نےاپنے ربِّ کریم کی عنایتوں کے تذکرے
میں فرمایا:مجھ کو عنایت کردہ کوثر جنت میں ایک نہرہے اور میرے حوض میں بہتی ہے۔(تفسیر
ابنِ جر بر، 30/ 149)
9۔لواء ُالحمد:رسولِ اکرم،نور
مجسم ﷺ نے ارشاد فرمایا:میں ہی قیامت کے دن لواءُ الحمد کا جھنڈا اُٹھانے والا ہوں
جس کے نیچے آدم علیہ السلام اور ان کے علاوہ (ساری مخلوق ) ہوگی۔ فخر نہیں ہے۔ (
مشکوۃ،ص 313 )
جس کے
زیرِ لواء آدم و مَن سَوا اس
سزائے سعادت پہ لاکھوں سلام
10۔خاتم
النبیین: مروی
ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں نے ہی اس جگہ کو مکمل کیا اور اس محل کی
آخری اینٹ میں ہی ہوں اور خاتم النبیین ہوں۔(مشکوٰۃ،ص511)مختصر یہ کہ حضور اکرم ﷺ کے
اوصافِ مبارکہ کو شمار (Count) کرنا نا ممکن ہے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا !
زندگیاں
ختم ہوئیں اور قلم ٹوٹ گئے
تیرے اوصاف کا ایک باب بھی پورا نہ ہو ا

اللہ پاک نے
اپنے پیارے حبیب ﷺ کو ایسے بے شمار اوصاف اور خوبیاں عطا فرمائی ہیں جو کسی اور کے
حصے میں نہیں آئیں۔حقیقتاً ہر کمال،ہر فضل، ہر خوبی میں عموماً اطلاقاً انہیں تمام
انبیا، مرسلین اور اللہ پاک کی تمام مخلوق پر تفصیلِ تام و عام مطلق(یعنی ہرطرح کی
برتری )حاصل ہے کہ جو کسی کو ملا انہیں سے ملا اور جو انہیں ملا وہ کسی کو نہ ملا
اسے تُو
جانے یا خدا جانے پیشِ حق
رتبہ کیا ہے تیرا
تمام انبیا میں
سب سے بڑا مرتبہ اللہ کے آخری نبی ﷺ کا ہے۔ آپ کوجو خوبیان اور اوصاف عطا کیے گئے
ان میں سے چند کا ذکر کرنے کی سعادت حاصل کرتی ہوں۔
1- اللہ پاک
نے تمام مخلوق سے پہلے اپنے حبیب ﷺ کے نور کو پیدا فرمایا اور پھر اس نور سے دیگر
مخلوق کی تخلیق فرمائی۔
خدا
نے نورِ مولیٰ سے کیا مخلوق کو پیدا سبھی
کون و مکان مشتق ہوئے اس ایک مصدر سے
2- صحاح ِستہ
(یعنی احادیثِ مبارکہ کی 6 اہم کتابوں) میں سے مشہور کتاب ترمذی شریف میں ہے:اللہ
پاک کے پیارے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:میرے دو وزیر جبرئیل اور میکائیل(علیہما
السلام)آسمان میں ہیں اور میرے دو وزیر ابو بکر و عمر (رضی اللہ عنہما ) زمین میں
ہیں۔
اس حدیثِ پاک سےمعلوم
ہوا !حضور پُر نور ﷺ زمین و آسمان کی سلطنت کے عظیم الشان بادشاہ ہیں۔ کیونکہ وزیر
بادشاہ ہی کے ہوا کرتے ہیں۔ آپ کی بادشاہت بھی ایسی عظمت و شان والی ہے کہ خود
حضور ارشاد فرماتے ہیں: اعطیت مفاتیح خزائن الارض یعنی مجھے زمینی
خزانوں کی چابیاں عطا کی گئیں۔ (بخاری، حدیث: 1344 )
انہیں
خدا نے کیا اپنے ملک کا مالک انہی
کے قبضے میں رب کے خزانے آئے ہیں
3-حضرت محمد ﷺ کا حسن بے مثال تھا۔خوبصورتی
میں تمام لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت اور اخلاق میں سب لوگوں سے بڑھ کر اچھے
اخلاق والےتھے۔حضرت
بی بی اُمِّ معبد رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:تاجدارِ رسالت ﷺ دور سے نہایت خوبصورت
اور قریب سے نہایت شیریں یعنی میٹھے میٹھے اور حسین لگتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے حضور سے زیادہ حسین و جمیل کسی کو نہیں دیکھا۔
نامہ
قدرت کا حسن دستکاری واہ واہ
کیا ہی تصویر اپنے پیارے کی سنواری واہ واہ
4- پیارے آقا ﷺ
کا مبارک پسینہ کستوری سے زیادہ خوشبو دار تھا۔
اسی
سے ہوئے عنبر و مشک مشتق ہے
خوشبو کا مصدر پسینہ تمہارا
5- سرکارِ
نامدار ﷺ نور ہیں۔ اس لیے سورج کی دھوپ اور چاند کی چاندنی میں آپ کا سایہ زمین پر
نہیں پڑتا تھا۔
اس قدِ
پاک کا سایہ نظر آتا کیونکر نور
ہی نور ہیں اعضائے رسولِ عربی
6-پارہ 30 سورۂ کوثر کی آیت نمبر 1 میں ارشاد ِباری
ہے: اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ(۱)ترجمہ کنز
العرفان: اے محبوب بے شک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں۔حضرت علامہ
مولانا مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ اس آیتِ کریمہ کے تحت
فرماتے ہیں: (اے محبوب!بے شک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں اور فضائلِ
کثیرہ عنایت کرکے تمام خلق(مخلوق)پر(تمہیں) افضل کیا۔حُسنِ ظاہر بھی دیا،حُسنِ
باطن بھی عطا فرمایا۔نسبِ عالی بھی دیا،نبوت کا اعلیٰ مرتبہ بھی،کتاب بھی عطا فرمائی۔
حکمت بھی، سب سے زیادہ علم بھی(دیا اور سب سے پہلے) شفاعت( کرنے کا اختیار )بھی،حوضِ
کوثر( جیسی عظیم نعمت)بھی دی اور مقام ِمحمود بھی۔کثرت ِاُمّت بھی( آپ کا حصہ ہے
اور) اعدائے دین(دشمنانِ اسلام) پر غلبہ بھی (آپ کو عطا کیا )کثرتِ فتوح(کثرت کے ساتھ فتوحات)بے شمار نعمتیں اور فضیلتیں(آپ
کو ہی عطا فرمائیں)جن کی نہایت(انتہا) نہیں۔
صلوا
على الحبیب! صلی
اللہ علی محمد
یقیناً ہمارے آقا ومولیٰ ﷺ کی شان تو بے مثال
ہے۔ یقیناً جس ذاتِ بابرکت پر الله پاک کا فضلِ عظیم ہو اس کی فضیلت کو کون شمار
کر سکتا ہے! اللہ پاک ہمیں اپنا اور آقا کریم ﷺ کا حقیقی فرمانبردار بنائے اور ایسے
کام کرنے کی توفیق عطا فر مائے جو دنیا اور آخرت میں نجات کا باعث ہوں۔آمین

اوصافِ
نبی:
1.2.3.4-اللہ پاک کے پیارے نبی ﷺ نے ارشادفرمایا:
جبریل نے حاضر ہو کر مجھے یوں سلام کیا: السلام علیک یا ظاھر،السلام
علیک یا باطن !میں
نے کہا:اے جبریل!یہ صفات تو اللہ پاک کی ہیں کہ اُسی کو لائق ہیں۔ مجھ سی مخلوق کو
کیونکرہو سکتی ہیں! جبریل نے عرض کی:اللہ پاک نے آپ کو ان صفات سے فضلیت دی اورتمام
انس ومر سلین ( علیہم السلام) پر انہیں خصوصیت بخشی اور اپنے نام و وصف(یعنی صفت و
خوبی ) سے آپ کا نام و وصف نکالا ہے۔اللہ پاک نے آپ کا نام”اوّل“رکھا کیونکہ آپ سب
انبیائے کرام سے پیدائش کے اعتبار سےاوّل یعنی پہلے ہیں اور آپ کا نام”آخر“ رکھا کیونکہ
آپ سب انبیائے کرام کے زمانے سے آخرمیں تشریف لانے والے اور آپ آخری امت کے آخری
نبی ہیں۔
اللہ پاک نے
آپ کانا م باطن رکھا کیونکہ اللہ پاک نے اپنے نام کے ساتھ آپ کانام سنہرے نور سے
عرش کے پائے پر حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے ہمیشہ ہمیشہ
کے لیے لکھا۔ پھر مجھے آپ پر درود شریف بھیجنے کا حکم دیا تو میں نے آپ پر ہزار
سال درود اور ہزار سال سلام بھیجا یہاں تک کہ اللہ کریم نے آپ کو خوش خبری اور ڈر
سناتا اور اللہ کی طرف اُس کے علم سے بلاتا اور چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجا۔اللہ
پاک نے آپ کا نام”ظاہر“ رکھا کہ اس نے آپ کو تمام دینوں پر غلبہ عطافرمایا اورآپ کی
شریعت وفضیلت کو تمام زمین و آسمان والوں پر ظاہر کیا تو کوئی ایسا نہ رہا جس نے
آپ پر درود نہ بھیجا۔اللہ پاک آپ پر درود( یعنی رحمت) بھیجے۔پس آپ کا رب محمود(یعنی
تعریف کیا گیا )ہے اور آپ محمد(یعنی تعریف کیے گئے ہیں۔ )آپ کا رب اول و آخر، ظاہر
و باطن ہے اور آپ بھی اپنے رب کی عطاسے اول و آخر، ظاہر و باطن ہیں(یہ سن کر) میں
نے کہا: تمام تعریفیں اسی کےلیے ہیں جس نے مجھے تمام انبیائے کرام(علیہم السلام )پر
فضلیت عطا فرمائی یہاں تک کہ میرےنام و صفت میں (بھی سب پر فضلیت دی)۔
5- وَ
لَلْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰىؕ(۴) (پ 30،
الضحی: 4) ترجمہ:اے محبوب آپ کی آنے والی ہر گھڑی آپ کی پچھلی گھڑی سے بہتر ہے۔
6- اللہ پاک
نے میرے لئے کمالِ اختصار فرمایا:تو ہم سب سے آخری اور قیامت کے دن ہم سب سے پہلے ہیں۔
حدیثِ پاک کے اس حصے(کمالِ اختصارفر مایا)کے ایک معنی یہ ہیں کہ مجھے اختصارِ کلام(یعنی
خوبیوں بھری مختصر بات کرنے کا کمال) بخشا کہ تھوڑے لفظ ہوں اور معنی کثیر۔
7-پیارے آقا ﷺ
نے فرمایا:مجھے چھ وجہ سے انبیائے کرام علیہم السلام پر فضیلت دی گئی ہے اور مجھے جامع
کلمات عطا کئے گئے ہیں۔
8-میری مدد رُعب سے کی گئی ہے۔
9-میرے لیے غنیمتوں
کو حلال کر دیا گیا ہے۔
10- تمام روئے
زمین کو میرے لیے طہارت و نماز کی جگہ بنا دیا گیا ہے۔
11-مجھے تمام
مخلوق کی طرف( نبی بنا کر) بھیجا گیا ہے۔
12- اورمجھ پر
نبیوں (کے سلسلے) کو ختم کیا گیا ہے۔
کتابِ
حضرت موسیٰ میں وصف ہیں ان کے
کتابِ عیسیٰ میں ان کے فسانے آئے ہیں
انہی
کی نعمت کے نغمے زبورسے سن لو
زبانِ قرآں پہ ان کے ترانے آئے ہیں

حقیقت یہ ہے
کہ اگر قرآن کو بنظر ِایمان دیکھیں تو اس میں اول تا آخر حضور کے فضائل ہیں۔قرآن
کا ہر موضوع اپنے لانے والے حبیبﷺ کے محامد اور اوصاف کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔
زندگیاں
ختم ہوئیں اور قلم ٹوٹ گئے تیرے
اوصاف کا اک باب بھی پورا نہ ہوا
1-قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ
مُّبِیْنٌۙ(۱۵) (پ6،المائدۃ:15) ترجمہ:بے شک اللہ کی طرف سے
تمہارے پاس نور آیا اور روشن کتاب۔ اس آیتِ مبارکہ میں حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلم کا ایک وصف بیان ہوا اور وہ ہے نور۔اللہ پاک نے آپ کو نور فرمایا۔نو ر وہ
ہوتا ہے جو خود تو ظاہر ہو اور دوسری کو ظاہر کردے۔دیکھو! آفتاب(سورج) نور ہے کہ
سورج کو دیکھنے کے لیے کسی روشنی کی ضرورت نہیں وہ خود روشن ہے اور جس پر اس نے
خود توجہ کردی وہ بھی چمک گیا۔دنیا میں کوئی اپنے خاندان،پیشہ،سلطنت کی وجہ سے
مشہور ہوتا ہے۔لیکن حضور ﷺ کسی کی وجہ سے نہیں چمکتے، وہ تو خود نور ہیں !ان کو
کون چمکاتا !بلکہ ان کی وجہ سے سب چمک گئے۔
سورج کی روشنی
کم و بیش ہوتی رہتی ہے۔صبح کو ہلکی،دو پہر کو زیادہ،شام کو پھر کم،رات کو غائب مگر
نورِ محمدی کبھی کم نہیں۔سورج ہر وقت آدھی زمین کو روشن کرتا ہے۔مگر نورِ حبیب ساری
زمین بلکہ فرش و عرش کو، سورج بدن کے ظاہر کو چمکاتا ہے اور نور ِرسول دل و دماغ
کو خیال کو غرضیکہ سب کو ہی چمکاتا ہے۔( شانِ حبیب الرحمن،ص79تا81)
2- وَ مَاۤ
اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ 17،
الانبیا: 107) ترجمہ:اور ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر سارے جہاں کے لیے رحمت بنا کر۔ اس
آیت میں ایک خاص صفت رحمۃ للعلمین کا ذکر ہے۔ لیکن
آیت کے طریقہ بیان اور طرزِ ادا پر غور کرو کہ حضور کی رحمت کی وسعت کتنی ہے! یہاں
چار باتیں قابلِ بحث ہیں:(1) کون رحمت ہے؟ (2) کس پر رحمت ہے؟ (3) کب سے رحمت ہے؟(4)
اور کب تک رحمت ہے؟
کون
رحمت ہے ؟اس
کو بیان فرمایا وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ نے یعنی تمام
جہانوں کے لیے رحمت ہونا آپ ہی کی صفت ہے۔ اور کسی کو یہ درجہ عنایت نہ ہوا۔
کس
پررحمت ہیں؟
اس کو
لِّلْعٰلَمِیْنَ
نے بیان کر دیا۔ رب کی صفت ہےرَبُّ الْعٰلَمِیْنَ اور حضورﷺکی
صفت ہے رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ یعنی
جس کا خدا رب ہے اس کے لیے حضور رحمت ہیں۔
کب
سے حضور رحمت ہیں؟اس
کو بھی لِّلْعٰلَمِیْنَ نے بیان
کیا کہ جب سے عالم ہے تب سےحضور رحمت ہیں۔ حضور کب تک
رحمت ہیں؟اس کو بھی لِّلْعٰلَمِیْنَ نے بیان
فرمایا کہ جب تک یہ عالم ہے تب تک رحمتِ مصطفٰے ہے۔ ( شانِ حبیبُ الرحمن،ص1 15 تا
154)
3– وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴)(پ29،القلم:4)ترجمہ:اور بے شک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔ صاحبِ
روح البیان نے لکھا ہے:اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں ہے کہ حضور کو شکرِ نوح، خلتِ
ابراہیمی، اخلاصِ موسیٰ،حضرت اسمعیل کا سچ، حضرت یعقوب و ایوب کا صبر،حضرت داؤد کا
عذر اور حضرت سلیمان و عیسیٰ کی تواضع اور سارے انبیا کے اخلاق عطا فرمائے۔ تمام
انبیائے کرام کی صفات کے آپ جامع ہوئے۔بعض حضرات نے کہا:حضور کے اخلاق رب کو اختیار
کرنا، مخلوق سے کنارہ کرنا ہیں۔( شانِ حبیب الرحمن،ص262)
4-یٰۤاَیُّهَا
النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) وَّ
دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) (پ
21، الاحزاب: 45-46) ترجمہ: اے غیب کی خبریں بتانے والے بے شک ہم نے تم کو بھیجا
حاضر و ناظر خو شخبر ی دیتا اور ڈر سناتا اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والااور
چمکا دینے والا چراغ۔
اس آیت میں تین
صفتوں کا ذکر ہے: خوشخبریاں دینا، ڈرانا اوراللہ کی طرف بلانا۔اگرچہ پہلے انبیا نے
بھی یہ کام انجام دئیے مگر ان کی اور حضور ﷺ کی تبلیغ میں تین فرق ہیں:(1)وہ انبیا
سن کر تبلیغ کرتے اور حضور دیکھ کر۔ (2)وہ خاص امتوں کے نبی، بشر و نذیر تھے اور
حضور تمام عالم کے بشیرو نذیر۔(3) پیغمبر خاص وقت تک مبلغ اور بشیر و نذیر رہے مگر
حضور قیامت تک کے لیے۔
5-وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰىۙ(۱) مَا
ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غَوٰىۚ(۲) وَ
مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ(۳) اِنْ
هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰىۙ(۴) (پ27،النجم: 1تا4) ترجمہ: اس پیارے چمکتے تارے محمد کی قسم جب یہ معراج سے اُترےتمہارے صاحب نہ بہکے
نہ بے راہ چلےاور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتےوہ تو نہیں مگر وحی جو اُنہیں
کی جاتی ہے۔مفسرین کا اس آیت میں اختلاف ہے کہ نجم سے کیا مراد ہے اور
ھوی سے کیا مقصود ہے؟بعض نے فرمایا:نجم حضور کی صفت ہے۔ اس کا مطلب ہے ستارہ اور
وہ سرکار ﷺ کی ذات ہے۔کیونکہ نجم کا کام ہے ہدایت دینا مسافروں کو دریا میں بھی
اور جنگل میں بھی اور یہ ذاتِ کریم بھی ہادیِ خلق ہے۔
آیت میں ایک
صفت وَ مَا
یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىبیان ہوئی۔ہمارے نبی اپنی خواہش سے کلام نہیں
فرماتے وہ جو کچھ فرماتے ہیں وہ رب کی وحی ہوتی ہے۔ (شانِ حبیب الرحمن،ص 239 تا
240 )
6- یٰۤاَیُّهَا
الْمُزَّمِّلُۙ(۱) قُمِ
الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًاۙ(۲)
(پ29،المزمل:1تا2) ترجمہ: اے جھرمٹ مارنے والے ر ات میں قیام
فرما سوا کچھ رات کے۔اس آیت میں وصف مزمل بیان ہوا۔تفسیرروح البیان میں
اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ رات کو محبوب چادر اوڑھ کر آرام فرما رہے تھے۔ رب
العالمین نے چاہا کہ اس وقت ہمارے محبوب ہم سے مناجات اور راز و نیاز کی باتیں کریں
تو آپ کو ندا دے کر جگایا کہ اے آرام فرمانے والے محبوب ہم سے باتیں کرو۔ (شان
حبیب الرحمن،ص266)
7-یٰۤاَیُّهَا
الْمُدَّثِّرُۙ(۱) قُمْ
فَاَنْذِرْﭪ(۲) وَ رَبَّكَ
فَكَبِّرْﭪ(۳) وَ ثِیَابَكَ
فَطَهِّرْﭪ(۴) (پ
29، المدثر: 1 تا 4) ترجمہ: اے بالا پوش اوڑھنے والےکھڑے ہوجاؤ پھر ڈر سناؤاور اپنے
رب ہی کی بڑائی بولواور اپنے کپڑے پاک رکھو۔
اس آیت میں وصف
مدثر کا تذکرہ ہوا۔حضور فرماتے ہیں کہ میں غارِ حرا میں تھا اور فرشتہ وحی لایا،اس
وقت پیارے آقا ہیبت سے حضرت خدیجہ کے پاس آئے اور حکم دیا کہ ہم کو چادر اوڑھا دو۔
جب چادر اوڑھی تب یہ وحی آئی کہ اے چادر اوڑھنے والے محبوب اٹھو اور کاموں میں
مشغول ہو جاؤ۔ تبلیغِ دین کردو۔تکبیر پڑھو اور کپڑوں کو پاک رکھو۔ (شان حبیب
الرحمن،ص 270 )
8- یٰسٓۚ(۱) وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِۙ(۲) (پ 22، یٰسٓ:
1-2) ترجمہ:قسم ہے قرآن کی جو حکمت سے بھرا ہوا ہے۔ (تفسیرمظہری) اس آیت میں حضورﷺ
کا ایک وصف بیان ہوا۔کلمہ یٰسٓ مشابہات میں سے ہےیعنی اس کا صحیح معنی رب اور اس
کا حبیب جانے مگر مفسرین نے کچھ تاویلیں فرمائی ہیں۔(اول) یٰسٓ حضورﷺ کا اسم شریف
ہے اور اس میں ندا پوشیدہ ہے یعنی اے یٰسٓ۔(دوم) ندا کا حرف ہے۔ اس سے مراد سید
العالمین ہیں یعنی اے جہاں والوں کے سردار۔(سوم) یہ سورۃ کا نام ہے۔ (شان حبیب
الرحمن،ص211)

اعلیٰ حضرت
امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:ارشاد ہوتا ہے:اے محبوب ہمارے!میں جو
کتاب نازل کروں گا کہ سننے والوں کے دل بے اختیار تمہاری طرف جھک جائیں اور نادیدہ
تمہارے عشق کی شمع ان کے کانوں، سینوں میں بھڑک اٹھے گی۔
1-حضور
نور ہیں:قرآنِ
مجید حضور کے وجودِ مسعود کو سراپا نور قرار دیتا ہے۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔قَدْ
جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵)(پ5،المائدة:15)
ترجمہ:بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور ( یعنی حضرت محمد ﷺ) آگیا ہے اور ایک
روشن کتاب (یعنی قرآنِ مجید۔)(عقائد و مسائل) تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہاں
نور سے مراد ذاتِ مصطفٰے ہے۔
2-نبی
ِکریم کا خلقِ عظیم:کائنات میں سب سے اعلیٰ اخلاق پر فائز ذات بھی مصطفٰے
ﷺ کی ہے۔جن کے اخلاق کے عظیم ہونے کی گواہی خود الله پاک نے دی۔اللہ پاک نے ارشاد
فرمایا:وَ اِنَّكَ
لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ (۴) (القلم:4) ترجمہ:بے
شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں۔(سیرتِ رسولِ عربی)
3-حضور
کو جوامع الکلم کا عطیہ بخشا گیا:نبیِ کریم ﷺنے ارشاد فرمایا:اُعْطِیْتُ
جَوَامِعُ الْکَلِم یعنی مجھے مختصر الفاظ اور معانی کا بحر بے پیدا
کنار عطا کیا گیا۔ (مسلم،1/ 199)
4-آپ
کو خزانوں کی کنجیاں دی گئیں:اللہ پاک نے اپنے تمام خزانوں کی کنجیاں
حضور ﷺکو بخش دیں۔ دنیا اور دین کی سب نعمتوں کا دینے والا خدا ہے اور بانٹنے والے
حضور ﷺ ہیں۔حدیث میں ہے:اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللہُ مُعْطِی اللہ
دینے والا اور میں بانٹنے والا ہوں۔(قانونِ شریعت)
5-حضور
مبشر و نذیر ہیں:وَمُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) (الاحزاب:
45 )ترجمہ:اور خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے
والا۔ آیتِ مبارکہ کےاس حصے میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ پاک نے اپنے حبیب ﷺ کو سچے
دل سے ایمان لانے والوں کو جنت کی خوشخبری سنانے والا اور کافروں کو جہنم کے عذاب
کا ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔
6-آپ
رحمۃ للعلمین ہیں:ہمارے
پیارے آقا ﷺ تمام جہانوں کے لیے رحمت ہیں۔جیسا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً
لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷)(پ17،الانبیاء:107) ترجمہ:اور ہم نے
تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔
7-حضور
کو معراج عطا فر مائی:اللہ پاک نے اپنے حبیب ﷺ کو بے شمار نعمتوں سے
نوازا ہے۔انہی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت سفرِ معراج بھی ہے۔جو منفرد معجزہ
ہے۔آپ ﷺ کو عرش پر بلایا اور اپنا دیدار آنکھوں سے کرایا۔ الله پاک ارشاد فرماتا
ہے: فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰىۚ(۹)(پ27،النجم:9)
ترجمہ:تو اس جلوے اور اس محبوب میں دو ہا تھ کا فاصلہ رہا بلکہ اس سے بھی کم۔ (دس
اسلامی عقیدے)
8-حضور
کو حوضِ کوثر عطا کیا گیا:فرمانِ باری ہے: اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ(۱) فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْؕ(۲) اِنَّ
شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ۠(۳) (پ 30،الکوثر:1تا3)ترجمہ:
اے محبوب !بیشک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں تو تم اپنے رب کے لیے نماز
پڑھو اور قربانی کرو۔ بیشک جو تمہارادشمن ہے وہی ہر خیر سے محروم ہے۔
کوثر کا لفظ
کثرت سے نکلا ہے۔ اس کا معنی ہے”بہت ہی زیادہ۔ لفظِ کوثر میں بہت کچھ داخل ہے۔ایک
قوی قول یہ ہے کہ کوثر سے مراد جنت کی ایک نہر ہے اور یہ ہمارے آقا ﷺ کو عطا ہوئی۔
9-حضور
شفاعت فرمانے والے ہیں: الله پاک فرماتا ہے:عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ
رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا (۷۹) (بنی اسرائیل:
79) ترجمہ:قریب ہے کہ تہیں تمہارا رب ایسی جگہ کھڑا کرے جہاں سب تمہاری حمد کریں۔
حدیث شریف میں
ہے: نبیِ پاک ﷺ سے عرض کی گئی: مقام ِمحمود کیا ہے؟فرمایا:وہ شفاعت ہے۔
10-حضور
کو علمِ غیب عطا فر مایا گیا:الله پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا
ہے:وَ عَلَّمَكَ
مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا(۱۱۳)
(پ5،النساء:113) ترجمہ کنز الایمان:اور تمہیں سکھا دیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے اور
الله کا تم پر بڑا فضل ہے۔یہ آیتِ مبارکہ ہمارے نبیِ کریم ﷺ کی عظیم مدح اور تعریف
پر مشتمل ہے۔اللہ کریم نے اپنے حبیب کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی اور آپ کو دین کے
امور، شریعت کے احکام اور غیب کے وہ تمام علوم عطا فرمادئیے جو آپ نہ جانتے تھے۔

اس
شان سے اللہ نے اتارے ہیں محمدﷺ ہر
دور میں ہر شخص کو پیارے ہیں محمدﷺ
حضرت محمد،خاتم
النبيين ﷺ امتِ مسلمہ کے لیے مشعلِ راہ، نورِ ہدایت،اندھیروں میں روشن چراغ کی
مانند، حق کی طرف رہنمائی کرنے والے،اللہ کے چنے ہوئے خاص بندے اور رسول ہیں۔ آپ کی
ذات مبارکہ بے شمار خوبیوں سے بھر پور ہے۔آپ معلم بنا کر بھیجے گئے اور ایسے بے
مثال معلم کہ حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:میرے ماں باپ آپ پر
قربان!میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد آپ سے بہتر کوئی معلم(سکھانے والا ) نہیں دیکھا۔(مسلم،حدیث:
1199) لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ
رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ
یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۚ- (اٰل عمرٰن:164)
ترجمہ کنزالایمان: بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں
سے ایک رسول بھیجا جو ان پراس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انھیں پاک کرتا اور انھیں
کتاب و حکمت سکھاتاہے۔
یہ اللہ پاک
کا کروڑ ہا کروڑ شکر و احسان ہے کہ اس قدر بلند مرتبہ، شفیق و مہرباں ہستی کو ہم
پر مبعوث فرمایا کہ آپ نہایت نرم دل اور اعلیٰ اخلاق کے مالک ہیں۔ ترجمہ کنز الایمان:
تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لئے نرم دل ہوئے اور اگر تند
مزاج سخت دل ہوتے تو وہ ضرور تمہارے گرد سے پریشان ہو جاتے۔ (ال عمرٰن: 159) آپ ﷺ
کے ساتھیوں کی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو صحابہ کرام کو نبی کریم ﷺسے والہانہ عشق
و محبت تھا اور یہ اللہ رحمن و رحیم کی مہربانی سے آپ کے حسنِ اخلاق کی بدولت ہی
ہے۔ وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) (القلم:4)ترجمہ
کنز العرفان:اور بے شک یقیناً تم عظیم اخلاق پر ہو۔
آپ کا اخلاق ہو بہو قرآن کا آئینہ تھا۔حضرت سعد
بن ہشام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا:
اے ام المومنین! مجھے رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کے بارے میں بتائیے۔ حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنہا نے فرمایا:کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟ میں نے عرض کی:کیوں نہیں ! تو
آپ نے ارشاد فرمایا:رسول اللہ ﷺ کا خلق قرآن ہی تو ہے۔( مسلم،ص374،حدیث: 476)
آپ کا ایک وصف
خیر خواہی کا جذبہ ہے۔ آپ کی ذاتِ مبارک مومنوں پر انتہائی لطف و کرم فرمانے والی
سرپا شفقت و رحمت ہے۔ لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ
عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ
رَّحِیْمٌ(۱۲۸)
(التوبۃ: 128)ترجمہ کنز العرفان:بے شک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف
لائے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے،وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے
والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔
سید العالمینﷺ
کی ذاتِ مبارکہ صبر،علم اور عفو و درگزر کا عملی نمونہ تھی۔کفار کے بے حد ظلم وستم
کے باوجودحضور پر نور ﷺ نے فتحِ مکہ کے موقع پر انہیں معاف فرما دیا اور فرمایا کہ
آج کے دن تم پر کچھ مواخذہ نہیں! تم سب آزاد ہو۔ (تفسیرصراط الجنان )
حضور پر نور ﷺ
اپنی قوم کو گمراہی اور اخلاقی پستی سے نکالنا چاہتے تھے اور اپنی امت کو گمراہی میں
دیکھ کر اپنی امت کے لیے شدید رنج و غم میں مبتلا رہے۔ فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ
عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا(۶) (الكہف: 6) ترجمہ
کنز الایمان: تو کہیں تم اپنی جان پر کھیل جاؤ گے ان کے پیچھے اگر وہ اس بات پر ایمان
نہ لائیں غم سے۔
رسول اللہ ﷺ
نے فرمایا:میری اور میری امت کی مثال اس آدمی جیسی ہے جس نے آگ جلائی تو مکھیاں
اور پتنگے اس میں پڑنے لگے ( یہی حال تمہارا اور ہمارا ہے ) میں تمہاری کمر پکڑ
پکڑ کر تمہیں بچا رہا ہوں اور تم ہو کہ اس میں (جہنم کی آگ میں ) بلا سوچے سمجھے
گھسے چلے جا رہے ہو۔( بخاری، 4 / 232،حديث:6483)
رسول الله ﷺحقیقت
پر مبنی دلائل اور نشانیوں کے ساتھ اللہ قادر مطلق کی حدود میں رہنے والوں کو
باغات اور اللہ کی خوشنودی کی خوش خبری دینے والے اور گمراہی میں پڑ کر اپنی جان
پر ظلم کرنے والوں کو جہنم کی دہکتی آگ اور اللہ پاک کی ناراضی سےڈرانے والے ہیں۔ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًاۙ- (البقرہ:
119) ترجمہ کنز الایمان:بیشک ہم نے تمہیں حق کے ساتھ بھیجا خوشخبری دیتا اور ڈر
سناتا۔
رسول اللهﷺ
تمام عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے۔ آپ عذاب سے آڑ ہیں۔ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ
وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ- (الانفال:33) ترجمہ: اور اللہ ایسا نہ کرے گا کہ ان
میں آپ کے ہوتے ہوئے ان کو عذاب دے۔
آپ اللہ پاک کی
تمام مخلوقات پر کمال رحم فرمانے والے ہیں۔ وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ 17، الانبیاء:107)ترجمہ:اور
ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔
حضور پر نور ﷺ بہت با حیا اور لحاظ کرنے والے
تھے۔ آپ ﷺ کی ذات پر کوئی بات گراں گزرتی تو آپ اسے بیان فرمانے میں بھی حیا
فرماتے۔ اِنَّ
ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘- (پ22، الاحزاب:53)
ترجمہ: بےشک اس میں نبی کو ایذا ہوتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ کی ایک صفت اُمّی ہے۔ آپ نے اللہ کے
سوا کسی سے علم حاصل نہیں کیا بلکہ صرف اور صرف اللہ پاک کی تعلیمات کا عملی نمونہ
تھے۔ لَقَدْ كَانَ
لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (پ21،
الاحزاب:21) ترجمہ: بیشک تمہیں رسولُ الله کی
پیروی بہتر ہے۔ اعلیٰ
حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کیا خوب فرماتے ہیں:
ایسا
امی کس لئے منت کشِ استاد ہو کیا
کفایت اس کواِقْرَاْ رَبُّكَ الْاَكْرَم نہیں
رسولِ کریم ﷺ نے صبر و شکر کی اعلیٰ مثالیں قائم
کیں۔صبر کی بات کی جائے تو اپنے لختِ جگر حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات پر آپ
نے فرمایا: آنکھ آنسو بہا رہی ہے، دل غمگین ہے اور ہم وہی کہہ رہے ہیں جو ہمارے رب
کو پسند آئے۔ (ابو داود، 3126)
اور شکر کا
جذبہ دیکھا جائے تو حضور نماز میں رات بھر کھڑے رہے یہاں تک کہ آپ کے دونوں پاؤں
سوج گئے۔ آپ سے عرض کیا گیا:اللہ پاک نے تو آپ کی اگلی پچھلی تمام خلافِ اولیٰ
باتوں معاف کر دی ہیں ! رسول مقبول ﷺنے فرمایا: کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں
؟(مسلم، حدیث:7124)
نیز زندگی کے
ہر شعبے میں رسولِ امین ﷺ نے ہمارے لیے عظیم مثالیں قائم کی ہیں۔اللہ ہمیں رسول
اللہﷺ کے اسوۂ حسنہ کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین يارب
العالمين
10 اوصاف سرکار از بنتِ ظہیر عباس، فیضانِ
خدیجۃ الکبریٰ کنگ سہالی گجرات

اے
رضا خود صاحبِ قرآن ہے مدَّاحِ حضور
تجھ سے کب ممکن ہے پھر مدحت رسول اللہ کی
حقیقت یہ ہے
کہ اگر قرآنِ مجید کو بنظر ِایمان دیکھا جائے تو اس میں شروع سے لے کر آخر تک حضور
کے اوصاف ہی معلوم ہوتے ہیں۔حمدِ الہٰی ہو یا عقائد کا بیان،سابقہ قوموں کے واقعات
ہوں یا احکام غرض قرآنِ مجید کا ہر موضوع حضور کے اوصاف بیان کرتا ہے۔حضور کو اللہ
پاک نے ایسے فضائل کےساتھ مخصوص کیا ہے جس کا احاطہ ممکن نہیں۔ ان اوصاف میں سے
بعض اوصاف وہ ہیں جن کی تصریح اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں فرمائی ہے۔چونکہ ہمارا
موضوع اوصافِ سرکارہے۔لہٰذا دس اوصاف درج ذیل ہیں:
آیت نمبر1-مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-وَ
مَنْ تَوَلّٰى فَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ عَلَیْهِمْ حَفِیْظًاؕ(۸۰) (پ5،النساء:
80) ترجمہ کنز العرفان:جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا اور جس
نے منہ موڑا تو ہم نے تمہیں انہیں بچانے کیلئے نہیں بھیجا۔اس آیت میں اللہ پاک نے
حضور کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا۔ حضور کو بارگاہِ الٰہی میں وہ تقرب حاصل ہے
کہ فرمایا:اے محبوب جس نے تیری پیروی کی گویا اس نے میری ہی اطاعت کی۔ اور حضورﷺ کی
اطاعت کو شرط بنا کرپہلےبیان فرماکراور بعد میں اپنی اطاعت کو بطورِ جزاء بیان
فرمایا۔
آیت
نمبر2:وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ
اَنْتَ فِیْهِمْؕ-وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۳۳)
(پ9،الانفال:33) ترجمہ کنز العرفان:اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ انہیں عذاب دے۔جب
تک اے حبیب تم ان میں تشریف فرما ہو۔اس آیت میں حضورﷺ کے رحمتِ عالم ہونے کا ذکر
ہے۔ارشاد فرمایا:اے حبیب!جب تک تم ان میں تشریف فرما ہو تب تک کفار کو عذاب نہیں دیا
جائے گا کیونکہ آپ رحمۃ للعلمین بنا کر بھیجے گئے ہیں۔
اَنْتَ فِیْهِمْنے عدو کو بھی
لیا دامن میں عیشِ
جاوید مبارک تجھے شیدائی دوست
آیت نمبر3: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷)(پ17،الانبیاء:107) ترجمہ کنز
العرفان:اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا۔ آقاﷺ کی ایک صفت
رحمۃ للعلمین بھی ہے جس کا اس آیتِ مبارکہ میں ذکر ہوا۔ آپ ﷺ رسولوں،نبیوں،فرشتوں،انسانوں،
جنات،مومن کافر حتی کہ حیوانات، نباتات اور جمادات کیلئے بھی رحمت ہیں۔
آیت
نمبر4:لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ
اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ(پ21،الاحزاب:21)ترجمہ کنز العرفان: بیشک
تمہارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے۔اس آیت میں بھی آقا ﷺ کی تعریف بیان
کی گئی کہ آپ کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے اور ساتھ ہی مسلمانوں کی ہدایت
کا طریقہ بھی بتایا گیا کہ اگر آخرت کی بہتری چاہیے تونبیِ کریم ﷺ کے نقشِ قدم پر چلو۔
(شانِ حبیب الرحمن،ص 176 )
آیت
نمبر5:مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ
رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-(پ22،الاحزاب:40)ترجمہ
کنز العرفان:محمد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں۔لیکن اللہ کے رسول ہیں
اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں۔اس آیت میں اللہ پاک نے آقا ﷺ کو
خاتم النبیین کے دلنشین لقب سے نوازا ہے اور آپ کا یہ وصف بیان فرمایا ہے کہ آپ
انتہا میں سے آخری ہیں۔آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا۔
آیت
نمبر6:وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ
لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۠(۸)
(المنافقون:8)ترجمہ کنز العرفان:عزت تو صرف اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کے
لئے ہے مگر منافقوں کو معلوم نہیں۔ اس آیت میں حضورﷺکی عزت کا خطبہ ارشاد ہوا ہے
اور ساتھ ہی آقا ﷺکے صدقے میں مسلمانوں کی عزت کا اظہار بھی فرمایا گیا۔(شانِ حبیب
الرحمن،ص253 )
آیت نمبر 7:اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَكَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ
اللّٰهَؕ-یَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْۚ-(پ26،الفتح:10) ترجمہ کنز العرفان: بیشک جو لوگ تمہاری بیعت کرتے ہیں۔ وہ
تو الله ہی سے بیعت کرتے ہیں ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔یہ آیت حضور ﷺ کے
اوصاف کا مجموعہ ہے کہ اللہ پاک نے اس آیت میں حضور کی اطاعت کو اپنی اطاعت،حضور کی
بیعت کو اپنی بیعت بلکہ حضور کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قراردے دیا۔
آیت
نمبر 8: وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ(۴) (پ30،الم
نشرح:4)ترجمہ کنز العرفان:اور ہم نے تمہاری خاطر تمہارا ذکر بلند کیا۔ یہ آیت
بظاہر مختصر ہے مگر اس میں آقا ﷺکی وہ نعت بیان ہے کہ جس کے بیان سے قلم قاصر ہے۔ فرمایا:
اے ہمارے محبوب ! ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کیا کہ جہاں ہماری یاد ہوگی
وہاں تمہارا بھی چرچا ہو گا اور ایمان بھی تمہاری یاد کے بغیر پورا نہ ہوگا۔
آیت
نمبر9: وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) (پ29،القلم:4)ترجمہ
کنز العرفان:اور بے شک تم یقیناً عظیم اخلاق پر ہو۔ اس آیت میں بھی حضورﷺ کی صفت بیان
کی گئی ہے اور حضور کے اخلاقِ کریمانہ کو عظیم فرمایا گیا ہے۔
تیرے
خُلق کو حق نے عظیم کہا
تیری خِلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی
تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا تیرے خالقِ حسن و ادا کی
قسم
10 اوصاف سرکار از بنتِ محمد عارف، فیضانِ
خدیجۃ الکبریٰ کنگ سہالی گجرات

بلا شبہ قرآنِ
کریم حضور ﷺ کی حمد و ثنا کا رنگا رنگ اور حسین وجمیل گلدستہ اور حضور کی مدح و
ستائش کا ایک عظیم الشان دفتر ہے۔سارے قرآنِ کریم میں آپ کی نعت وصفات کی آیاتِ بینات
اسی طرح جگمگا رہی ہیں جیسے سارا آسمان جھلملاتے ستاروں سے روشن ہے۔اس ضمن میں چند
آیاتِ مبارکہ ملاحظہ فرمائیے:
1-حضور رحمۃ للعلمین ہیں: حضور ﷺکا ایک
وصف قرآنِ کریم نے یوں بیان فرمایا ہے کہ حضور جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے
ہیں جیسے سورۃ الانبیاء، آیت نمبر 107 میں ارشادِ باری ہے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً
لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷)ترجمہ:اورہم نے تم کو نہ بھیجا مگر
رحمت بنا کر سارے جہان کے لیے۔اس آیتِ مبارکہ نے حضور ﷺ کی نعت کے وہ پھول کھلائے
ہیں جس سے دماغ و ایمان معطر ہو گیا۔حضورﷺ کو رب نے بے شمار صفات سے نوازا ہے۔ انہی
میں سے ایک وصف یہ بھی ہے کہ آپ رحمۃ للعلمین ہیں۔ اس آیت میں اس خاص وصف کا ذکر
ہے۔
2-حضور
خاتم النبیین ہیں:الله
پاک سورۃ الاحزاب آیت نمبر40 میں حضور ﷺکا یہ وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ
النَّبِیّٖنَؕ-ترجمہ
کنز العرفان:لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں۔آیتِ
کریمہ کے اس حصے میں فرمایا گیا ہے کہ محمد مصطفٰے ﷺ آخری نبی ہیں کہ اب آپ کے بعد
کوئی نبی نہیں آئے گا اور نبوت آپ پر ختم ہوگئی ہے اور آپ کی نبوت کے بعد کسی کو
ہرگز نبوت نہیں مل سکتی۔ (شان حبیب الرحمن)
3-حضور
بے مثال ہیں:حضور
ﷺ کا ایک وصف قرآنِ پاک میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ آپ بے مثل و بے نظیر
ہیں۔سورۃ البقرہ آیت نمبر23میں ارشادِ ربانی ہے: فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ۪-تر
جمہ:تو تم اس طرح کی ایک سورت تو لے آؤ۔ مفسرین نے آیت کے اس حصے کے ایک معنی یہ
بھی بیان کیے ہیں کہ مِثْلِهٖکی ضمیر
حضورﷺکی طرف لوٹتی ہے تو آیت کے معنی یہ ہوئے کہ ایک سورت ہی ایسی لے آؤجو کہ محمد
رسول اللہ ﷺ جیسی عظیم ذات کے دہنِ مبارک سے نکلی ہو، یعنی اولاً تو کوئی ایسی شان
والا محبوب دنیا میں ڈھونڈوپھر اس کے منہ سے ایسی آیت پڑ ھوا کر سنو۔ (تفسیر خازن)(
شانِ حبیب الرحمن، ص31)
4
-حضور الله کے رسول ہیں: الله پاک پارہ 26 سورۃ فتح کی آیت نمبر 29 میں ارشاد
فرماتا ہے: مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ- ترجمہ
کنز العرفان: محمد الله کے رسول ہیں۔ اس آیت میں اللہ پاک اپنے حبیب کی پہچان کروا
رہا ہے کہ محمد مصطفٰےﷺ اللہ پاک کے رسول ہیں۔ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں: اگر چہ حضور کی صفات بے شمارہیں لیکن رب کریم نے آیت کے اس حصے میں
اپنے حبیب کو رسالت کی صفت سے یاد فرمایا ہے اور کلمہ میں بھی یہ ہی وصف بیان فرمایا
ہے۔ (تفسیر صراط البنان،9/385)
5
-حضور نورہیں:قرآنِ
کریم نے حضور ﷺکا ایک وصف نور بھی بیان فرمایا ہے،چنانچہ قرآن ِکریم کی سورہ مائدہ
آیت نمبر 15 میں ارشادِ باری ہوتا ہے:قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵)ترجمہ:
بے شک اللہ کی طرف سے تمہارے پاس نور آیا اور روشن کتاب۔ یہ آیتِ کر یمہ حضور ﷺ کی
عظیم الشان نعت ہے۔ اس آیت میں حضور ﷺ کو نور فرمایا گیا ہے۔نوروہ ہے جو خود تو ظا
ہر اور چمک دار ہو اور دوسروں کو بھی چمکادے۔دنیا میں کوئی اپنے خاندان سے مشہور
ہوتا ہے۔کوئی پیشے کی وجہ سے، کوئی سلطنت کی وجہ سے، لیکن حضور ﷺ کسی وجہ سے نہیں چمکے
وہ تو خود نورہیں۔ ان کو کون چمکاتا؟بلکہ ان کی وجہ سے سارا عالم چمک گیا۔ (شان
حبیب الرحمن،ص 77)
حضور
نور ہیں، محمود ہیں، محمد ہیں
جگہ جگہ نئے عنوان ہیں ثنا کے لیے
6-پیارے
آقا شاہد ہیں: یہاں
بھی حضور ﷺ کا ایک عظیم وصف بیان کیا گیا ہے کہ آپ شاہدہیں۔ سورۃ الاحزاب آیت نمبر
45 میں ارشادِ باری ہے:یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ
نَذِیْرًاۙ(۴۵) ترجمہ
کنز العرفان:اے نبی بیشک ہم نے تمہیں گواہ بنا کر بھیجا۔آیت کے اس حصے میں نبیِ کریم
ﷺ کو شاہد فرمایا گیا ہے۔شاہد کا ایک معنی ہے:حاضر و ناظر یعنی مشاہدہ فرمانے والا
اور ایک معنی ہے:گواہ۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے شاہد کامعنی حاضر وناظر فرمایا
ہے۔ اس بارے میں سید مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
شاہد کا ترجمہ حاضر و ناظر بہت بہترین ترجمہ ہے کہ اگر اس کا معنی گواہ کیا جائے
تو بھی مطلب وہی بنے گا کیونکہ گواہ کو بھی اس لئے شاہد کہتے ہیں کہ وہ مشاہدہ کے
ساتھ جو علم رکھتا ہے اس کو بیان کرتا ہے اور سر کار ﷺ چونکہ د وعالم کی طرف مبعوث
فرمائے گئے ہیں اور آپ کی رسالت عام ہے۔ اس لئے حضور پر نور ﷺ قیامت تک ہونے والی
ساری مخلوق کے شاہد ہیں اور ان کے اعمال، افعال،احوال، ہدایت و گمراہی سب کا
مشاہدہ فرمانے والے ہیں۔ (تفسیرصراط الجنان،6/56)
7-8
-حضور مبشرونذ یرہیں:یہاں حضور ﷺکے دو اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔سورۃ
الاحزاب آیت نمبر45 میں فرمانِ رحمن ہے:وَ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵)ترجمہ کنز العرفان:اورخو شخبری
دینے والا اور ڈر سنانے والا۔ آیت ِکریمہ کے اس حصےمیں فرمایا گیا ہے کہ اللہ پاک
نے اپنے حبیبﷺ کو ایمانداروں کو جنت کی خوشخبری سنانے والا اور کافروں کو جہنم کے
عذاب کا ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا۔