
صحابی کے اصل
معنی ساتھی اور رفیق کے ہیں لیکن یہ اسلام کی ایک مستقل اور اہم اصطلاح ہے،
اصطلاحی طور پر صحابی کا اطلاق ان لوگوں پر ہوتا ہے جنہوں نے بحالتِ ایمان حضور ﷺ
سے ملاقات کی اور ایمان ہی کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے ہوں۔
حقوقِ
صحابہ:
1۔ بے شک تمام
صحابہ کی تعظیم اور ان کے بارے میں طعن و تشنیع سے باز رہنا واجب ہے کیونکہ اللہ
پاک نے اپنی کتاب میں کئی مقامات پر ان کی تعظیم اور تعریف بیان فرمائی ہے: وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ
هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّ
نَصَرُوْۤا اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ
رِزْقٌ كَرِیْمٌ(۷۴) (پ 10، الانفال: 74) ترجمہ کنز الایمان: اور وہ جو
ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں لڑے اور جنہوں نے جگہ دی اور مدد کی
وہی سچے ایمان والے ہیں ان کے لیے بخشش ہے اور عزت کی روزی۔
سب
صحابہ سے ہمیں تو پیار ہے ان
شاء اللہ دو جہاں میں اپنا بیڑا پار ہے
2۔ رسول اللہ
ﷺ کا فرمان عظمت نشان ہے: میرے صحابہ کو برا نہ کہو کیونکہ اگر تم میں سے کوئی احد
پہاڑ سونا خیرات کرے تو میرے صحابہ میں سے کسی ایک کے نہ مد کو پہنچ سکتا ہے اور
نہ ہی مد کے آدھے کو۔ (بخاری، 2/522، حدیث:3673)
3۔ ہمارے
پیارے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کے معاملے میں میرا لحاظ کرنا کیونکہ وہ
میری امت کے بہترین لوگ ہیں۔ (حلیۃ الاولیاء، 1/311)
4۔ سرکار عالی
وقار ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس مسلمان کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی جس نے میرے صحابی
کی زیارت کا شرف حاصل کیا ہو۔(ترمذی، 5/694، حدیث:3858)اس حدیث مبارکہ سے ہمیں پتا
چلتا ہے کہ اگر صحابہ کرام کی زیارت کرنے والے کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی تو جو
صحابہ کرام کی تعظیم کرتا ہو اسے کیسا اجر ملے گا، اس لیے سب مسلمانوں کو صحابہ
کرام کی تعظیم اپنی جان سے بڑھ کر کرنی چاہیے تا کہ اس کا آخرت میں اچھا اجر ملے۔
5۔ رسول اللہ
ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب میرے صحابہ کا تذکرہ ہو تو نہایت احتیاط سے بولو۔ اس حدیث
مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کے تذکرہ میں نہایت احتیاط سے بولنا چاہیے۔
ایک جگہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بہتر لوگ اس زمانے کے ہیں جس میں میں ہوں، اس کے
بعد دوسرے زمانے کے اور اس کے بعد تیسرے زمانے کے۔ (مسلم، ص 1371، حدیث: 2533)

صحابہ کرام کی
قدر و منزلت وہی شخص جان سکتا ہے جو نبی کریم ﷺ کی عظمت و رفعت سے واقف ہوگا
کیونکہ ان کی تعظیم گویا کہ نبی کریم ﷺ ہی کی تعظیم ہے جیسا کہ حضرت امام قاضی
عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یعنی نبی پاک ﷺ کی تعظیم میں سے یہ بھی ہے کہ آپ
کے صحابہ کرام کی تعظیم کرنا، ان سے اچھا سلوک کرنا، ان کے حق کو پہچاننا، ان کی
پیروی کرنا، ان کی تعریف و توصیف کرنا اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کرنا۔ (الشفاء،
2/52)
صحابی: حضرت
علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جن خوش نصیبوں نے ایمان کی
حالت میں حضور ﷺ کی صحبت کا شرف پایا اور ایمان کی حالت پر ان کا خاتمہ ہوا انہیں
صحابی کہتے ہیں۔ (نزہۃ النظر، ص 111)
دو
عالم نہ کیوں ہو نثارِ صحابہ کہ
ہے عرش منزل وقار صحابہ
قارئین کرام!
صحابہ کرام کے ہم پر کئی حقوق ہیں جن میں سے پانچ ذکر کئے جاتے ہیں:
1۔
محبتِ صحابہ:
اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی کریم ﷺ اور ان کے حقیقی اہل بیت کو تمام صحابہ کرام سے
بے حد محبت ہے، دور حاضر کی بدبختی ہے کہ آج ایک گروہ صحابہ کے بارے میں برا بھلا
کہنے میں حد سے بڑھ گیا ہے، حالانکہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ کو برا نہ
کہو کیونکہ تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا اللہ کی راہ میں دے تو
بھی میرے صحابہ کی آدھی مٹھی کے برابر بھی نہیں ہو سکتا۔ (بخاری، 2/522،
حدیث:3673)
2۔
امت کے بہترین افراد: پیارے آقا ﷺ نے بھی صحابہ کرام کی تعظیم کا حکم
دیتے ہوئے انہیں امت کے بہترین افراد ہونے کی سند عطا فرمائی اور ارشاد فرمایا:
میرے صحابہ کی عزت کرو کہ وہ تمہارے بہترین لوگ ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/413،
حدیث: 6012) ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ میری امت میں سب سے بہتر لوگ میرے
زمانہ کے ہیں اور پھر وہ لوگ جو ان سے ملے ہوئے ہیں اور پھر ان کے بعد والے لوگ سب
سے بہتر ہیں۔ (مصنف عبد الرزاق، 10/296، حدیث: 20876)
3۔
صحابہ کے باہمی اختلافات پر زبان بند رکھنا: اہل سنت کا
اس بات پر عقیدہ ہے کہ ہر صحابی بہت بڑا پرہیزگار ہے اور ان کے آپسی معاملات پر
کیا یا کیوں کرنے کو حرام جانتے ہیں، حافظ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
صحابہ کرام کے باہمی اختلافات سے متعلق ہمارا طریقہ یہ ہے کہ اس بارے میں اپنی
زبانیں بند رکھیں اور ان حضرات کے لیے دعائے مغفرت کریں کیونکہ ہم ان کے درمیان
ہونے والے اختلافات کا ذکر نا پسندیدہ جانتے ہیں اور اس عمل سے اللہ پاک کی پناہ
مانگتے ہیں اور ہم امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرتے ہیں۔ (سیر
اعلام النبلاء، 3/39)
4۔
دفاعِ صحابہ:
اللہ پاک نے صحابہ کرام کو اپنے نبی ﷺ کی صحبت و رفاقت کے لیے منتخب فرمایا،
انبیائے کرام کے بعد صحابہ کی مقدس جماعت تمام مخلوق سے افضل و اعلیٰ ہے یہ عظمت و
فضیلت صرف صحابہ کو ہی حاصل ہے، اللہ نے انہیں دنیا میں ہی مغفرت، جنت اور اپنی
رضا کی ضمانت دی ہے، صحابہ کرام سے محبت اور نبی کریم ﷺ نے احادیث مبارکہ میں جو
ان کی فضیلت بیان کی ہے ان کو تسلیم کرنا ایمان کا حصہ ہے، حضرت علامہ مسعود بن
عمر سعد الدین تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: صحابہ کرام کا ذکر صرف خیر ہی
کے ساتھ کیا جائے کیونکہ ان کے فضائل میں احادیث صحیحہ وارد ہیں نیز ان پر نکتہ
چینی سے رکنا واجب ہے۔ (شرح عقائد نسفیہ، ص 341)
5۔
مدحِ صحابہ:
ہم اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ دنیا کا بڑے سے بڑا ولی، قطب، ابدال، غوثیت کبریٰ پر
متمکن اغواث بھی ایک ادنیٰ صحابی کے فضل و کمال تک نہیں پہنچ سکتا، حقیقت تو یہ ہے
کہ صحابہ کرام سے محبت کے بغیر رسول اللہ ﷺ سے سچی محبت نہیں ہو سکتی صحابہ کی
پیروی کے بغیر حضور کی پیروی کا تصور محال ہے کیونکہ صحابہ نے جس انداز سے اپنی
زندگی بسر کی ہے وہ عین اسلام اور اتباع سنت ہے، ان کی وفاداری و جاں نثاری کی سند
خود رب کائنات نے اپنے کلام مقدس میں دی ہے، جن کی طبیعت میں ہی گناہوں سے نفرت کی
بنیاد رکھ دی گئی ہو بھلا کیوں کر وہ کسی پر ظلم کر سکتا ہے گویا ہر صحابی کی زبان
پر بس یہی رہتا تھا:
میری
زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی میں
اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی
اے کاش ہمیں
بھی وہ جذبہ مل جائے جو صحابہ کرام کے دلوں میں موجزن تھا وہ عشق رسول وہ حوصلہ وہ
جذبہ وہ جرات مل جاتی دن رات خدمت اسلام میں مصروف رہتے مگر افسوس ہمیں دنیا کے
دھندوں سے فرصت نہیں آئیے صحابہ کے نقش قدم پر چلتی ہوئی آج ہی سے ہم دعوت اسلامی
کے ہفتہ وار اجتماع میں پابندی سے شرکت کی نیت کر لیتی ہیں اللہ پاک صحابہ کرام کے
نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

صحابہ کرام
رضی اللہ عنہم تمام جہان کے مسلمانوں سے افضل ہیں، روئے زمین کے سارے ولی، غوث،
قطب ایک صحابی کے گردِ قدم کو بھی نہیں پہنچ سکتے، صحابہ میں خلفائے راشدین
بترتیبِ خلافت افضل ہیں، پھر عشرۂ مبشرہ پھر بدر والے پھر بیعت رضوان والے، پھر
صاحب قبلتین افضل ہیں، اللہ پاک قرآن مجید میں صحابہ کرام کے بارے میں ارشاد
فرماتا ہے: وَ السّٰبِقُوْنَ
الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ
اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ
اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ
اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۰۰) (پ 11، التوبۃ:
100) ترجمہ: اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے
پیرو ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں
باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔
صحابی
کی تعریف:
صحابہ جمع ہے صاحب کی یا صحابی کی بمعنی ساتھی، شریعت میں صحابی وہ انسان ہے جو
ہوش و ایمان کی حالت میں حضور اکرم ﷺ کو دیکھے یا صحبت میں حاضر ہو اور ایمان پر
اس کا خاتمہ ہوجائے اگر درمیان میں مرتد ہو گیا پھر مسلمان ہو کر مرا تب بھی صحابی
ہے جیسے اشعث بن قیس کے متعلق مشہور ہے۔ (مراٰۃ المناجیح، 8/281) قرآن اور احادیث
میں صحابہ کرام کے بہت سے حقوق وارد ہوئے ہیں جیسے ان کی تعظیم و توقیر کرنا، ان
سے محبت کرنا، ان کے لیے دعا و استغفار کرنا وغیرہ وغیرہ۔
پہلا
حق۔ صحابہ کرام سے محبت: ان کا سب سے اہم حق یہ ہے کہ ان سے محبت کی جائے،
رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ایمان کی نشانی انصار سے محبت کرنا ہے اور نفاق کی
نشانی انصار سے بغض رکھنا ہے۔ (بخاری، 1/715، حدیث: 3787)
دوسرا
حق۔ ان کی تعظیم و توقیر کی جائے: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے
صحابہ کی عزت کرو کیونکہ وہ تمہارے بہترین ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/413، حدیث:
6012)
تیسرا
حق۔ انہیں برا بھلا نہ کہا جائے: حدیث شریف میں ہے: میرے صحابہ کو برا
بھلا نہ کہو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی
احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو وہ ان کے مد یا نصف کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔
(ابو داود، 2/296، حدیث: 4660)
چوتھا
حق۔ صحیح دلیل سے ثابت ان کے فضائل کا اقرار کیا جائے: جیسے عشرہ
مبشرہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، حضرت فاطمہ، حضرات حسنین کریمین کے فضائل
میں وارد احادیث۔
پانچواں
حق۔ ان کی عدالت کا اعتراف کیا جائے: یعنی وہ ہر قسم کے گناہ سے پیرہیز
کرتے تھے، تقویٰ کا التزام کرتے تھے، ہر معاملہ پر حق و صواب کو حرز جاں بناتے
تھے، اگر ان میں سے کسی سے کوئی غلطی ہو جائے تو وہ اجتہادی غلطی ہے یا پھر بتقائے
بشریت ہے جس پر وہ اصرار نہیں کرتے تھے۔
وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ فِیْكُمْ رَسُوْلَ
اللّٰهِؕ-لَوْ یُطِیْعُكُمْ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَ لٰكِنَّ
اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَیْكُمُ الْاِیْمَانَ وَ زَیَّنَهٗ فِیْ قُلُوْبِكُمْ وَ
كَرَّهَ اِلَیْكُمُ الْكُفْرَ وَ الْفُسُوْقَ وَ الْعِصْیَانَؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ
الرّٰشِدُوْنَۙ(۷) (پ 26، الحجرات: 7) ترجمہ کنز الایمان:
اور جان لو کہ تم میں اللہ کے رسول ہیں بہت معاملوں میں اگر یہ تمہاری خوشی کریں
تو تم ضرور مشقت میں پڑجاؤ لیکن اللہ نے تمہیں ایمان پیارا کر دیا ہے اور اسے
تمہارے دلوں میں آراستہ کر دیا اور کفر اور حکم عدولی اور نا فرمانی تمہیں ناگوار
کردی ایسے ہی لوگ راہ پر ہیں۔

حضرت علامہ
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جن خوش نصیبوں نے ایمان کی حالت
میں حضور ﷺ کی صحبت کا شرف پایا اور ایمان ہی پر خاتمہ ہوا انہیں صحابی کہتے ہیں۔
(نزہۃ النظر، ص 111)صحابہ کی جماعت امت میں سب سے افضل اور لوگوں میں سب سے بہتر
ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ کی عزت کرو وہ تمہارے بہترین لوگ ہیں۔ (مشکوٰۃ
المصابیح، 2/413، حدیث: 6012) صحابہ کرام کو اللہ پاک نے اپنے نبی کریم ﷺ کی
مصاحبت کے لیے منتخب فرمایا، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔
صحابہ کرام کے
ہم پر کچھ خاص حقوق ہیں جن کا ادا کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے، ان میں سے کچھ
حقوق یہ ہیں:
1۔
ان کے جنتی ہونے کا یقین: اللہ پاک نے قرآن مجید میں ارشاد
فرمایا: لٰكِنِ الرَّسُوْلُ وَ
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْؕ-وَ
اُولٰٓىٕكَ لَهُمُ الْخَیْرٰتُ٘-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸۸) اَعَدَّ
اللّٰهُ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ
فِیْهَاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۠(۸۹) (التوبۃ:88-89)
ترجمہ: لیکن رسول اور جو ان کے ساتھ ایمان لائے انہوں نے اپنے مالوں جانوں سے جہاد
کیا اور انہیں کے لیے بھلائیاں ہیں اور یہی مراد کو پہنچے۔ اللہ نے ان کے لیے تیار
کر رکھی ہیں بہشتیں جن کے نیچے نہریں رواں ہمیشہ ان میں رہیں گے یہی بڑی مراد ملنی
ہے۔
الخیرات سے
مراد دنیا کی بھلائیاں، قبر کی بھلائیاں، آخرت کی بھلائیاں سب ہی شامل ہیں، اس سے
معلوم ہوا کہ مجاہد کے مال و اعمال میں برکت ہوتی ہے اور قبر کے حساب و عذاب و
وحشت اور نزع کی شدت سے امن ملتا ہے اور آخرت میں درجات نصیب ہوتے ہیں۔ (تفسیر نور
العرفان، ص 242)
2۔
سارے صحابہ عادل ہیں: بعض صحابہ کرام سے گناہ اور معصیت صادر ہوئی مگر
وہ اس پر قائم نہ رہے بلکہ انہیں توبہ کی توفیق ملی لہٰذا یہ درست ہے کہ سارے
صحابہ کرام عادل ہیں۔ اللہ پاک نے ان کے بارے میں فرمایا ہے: وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ
الْحُسْنٰىؕ-
(پ 27، الحدید: 10) ترجمہ: اور ان سب سے اللہ نے سب سے اچھی چیز (جنت) کا وعدہ
فرما لیا ہے۔ اور فرماتا ہے: رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُؕ- (پ
7، المائدۃ: 119) ترجمہ کنز العرفان:ان سب سے اللہ راضی ہوا اور یہ اللہ سے راضی
ہیں۔ (تفسیر سورۂ نور، ص 35)
3۔
فضیلت کا یقین: میری
امت میں سب سے بہتر لوگ میرے زمانہ کے ہیں اور پھر وہ لوگ جو ان سے ملے ہوئے ہیں
اور پھر ان کے بعد والے لوگ سب سے بہتر ہیں۔ (بخاری، 2/515، حدیث: 3650)
4۔
تعظیم و توقیر:
میرے صحابہ کا احترام کرو کیونکہ وہ تم میں سب سے افضل ہیں۔ (نسائی الکبریٰ)
5۔
عیب جوئی نہ کی جائے: میرے صحابہ کو برا بھلا نہ کہو اس شخص پر اللہ کی
لعنت ہو جو میرے صحابہ کو برا کہے۔ (طبرانی)
حقوقِ
صحابہ از بنت سید ضمیر الحسن، فیضان خدیجۃ الکبریٰ کنگ سہالی گجرات

صحابہ کرام کے
حقوق کا خیال رکھنا بھی عقیدے کا تقاضا ہے، صحابی کسے کہتے ہیں؟ حضرت علامہ حافظ
ابن حجر عسقلانی شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جن خوش نصیبوں نے ایمان کی حالت
میں اللہ کے پیارے نبی ﷺ سے ملاقات کی ہو اور ایمان ہی پر ان کا انتقال شریف ہوا
ان خوش نصیبوں کو صحابی کہتے ہیں۔ (نخبۃ الفکر، ص 111) اکابر محدثین کے مطابق
صحابہ کرام کی تعداد ایک لاکھ سے سوا لاکھ کے درمیان تھی، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں: تمام صحابہ کرام کے نام معلوم نہیں، جن کے معلوم ہیں ان کی تعداد
تقریبا 7000 ہے۔ (ملفوظات اعلیٰ حضرت، ص 400)
صحابہ سے محبت
رکھنا کیوں ضروی ہے؟ اللہ پاک کا ارشاد ہے: وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ
الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ
بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ
جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ
الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۰۰) (پ 11، التوبۃ: 100) ترجمہ: اور سب میں
اگلے پہلے مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پیرو ہوئے اللہ ان سے راضی
اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں
ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔
تمام صحابہ
کرام اعلیٰ و ادنیٰ اور ان میں ادنیٰ کوئی نہیں سب جنتی ہیں و جہنم کی بھنک نہ سنیں
گے اور ہمیشہ اپنی من مانتی مرادوں میں رہیں گے محشر کی بڑی گھبراہٹ انہیں غمگین
نہ کرے گی فرشتے ان کا استقبال کریں گے کہ یہ ہے وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا یہ سب
مضمون قرآن عظیم کا ارشاد ہے۔ (بہار شریعت، 1/254) آئیے صحابہ کرام کے بارے میں
احادیث ملاحظہ کرتے ہیں:
انصار سے محبت رکھنا ایمان کی
نشانی ہے اور انصار سے کینہ (بغض) رکھنا نفاق کی نشانی ہے۔ (بخاری، حدیث: 17)
میرے اصحاب کو
برا بھلا مت کہو اگر کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا اللہ کی راہ میں خرچ کر
ڈالے تو ان کے ایک مد غلہ کے برابر بھی نہیں ہو سکتا اور نہ ان کے آدھے مد کے
برابر۔ (بخاری، 2/522، حدیث: 3673)
صحابہ کرام سے محبت کا تعلق رکھنا دین ایمان اور
احسان کا تقاضا ہے اس لیے صحابہ کرام کی عزت کرنا اور ان سے محبت رکھنا ہماری
ضرورت ہے خدا تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب میں ارشاد فرمایا: ان کی ہدایت کی پیروی
کرو۔ اور پہلے پارے کے اختتام پر فرمایا: پھر اگر تم بھی اسی طرح ایمان لاؤ جس طرح
وہ ایمان لائے تو ہدایت پاؤگے۔ آقا ﷺ کے اہل بیت اور آپ کے صحابہ کے بارے میں ہم
پر کیا واجب ہے صحابہ کرام کا ذکر اللہ پاک نے تورات، انجیل اور قرآن مجید میں کیا
ہے، ان کے بارے میں صحیح احادیث موجود ہیں، اہل بیت اور صحابہ کرام کے بارے میں ہم
پر واجب ہے کہ ہم ان کے بارے میں اپنے دل صاف رکھیں، اپنی زبانیں پاک رکھیں ان کے
فضائل بیان کریں ان کے اختلافات کے بارے میں خاموشی اختیار کریں، ان کی شان میں
گستاخی نہ کریں جیسا کہ بخاری کی روایت سے واضح ہوا، ان تمام باتوں پر عمل پیرا
ہونا چاہیے، یہ بات عام طور پر سمجھ نہیں آتی کہ صحابہ کرام کے درمیان جو اختلافات
تھے ان کے بارے میں ہمیں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے ہم نہیں جانتے ان معاملات کی
اصل حقیقت کو اور یہ کہ جب اللہ پاک نے لوگوں کو جنت کی بشارت دے دی اب ان کے
اختلافات کے بارے میں تذکرہ کر کے ہم کیا کر لیں گے! اس لیے ہمیں اس بارے میں
خاموشی اختیار کرنی چاہیے اور ان کی شان میں گستاخی نہیں کرنی چاہیے۔ بہارِ شریعت
میں ہے: تمام صحابہ کرام اہل خیر و صلاح (یعنی بھلائی والے) اور عادل ہیں، ان کا
ذکر جب کیا جائے تو خیر یعنی بھلائی ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے کسی صحابی کے ساتھ
سوءِ عقیدت (برا عقیدہ) بد مذہبی و گمراہی و استحقاقِ جہنم ہے کہ وہ (بد اعتقادی)
حضور اقدس ﷺ کے ساتھ بغض (دشمنی) ہے، کوئی ولی کتنے ہی بڑے مرتبے کا ہو کسی صحابی
کے رتبے کو نہیں پہنچتا۔
کیوں
نہ ہو رتبہ بڑا اصحاب و اہل بیت کا ہے
خدائے مصطفیٰ اصحاب و اہل بیت کا
آل و
اصحابِ نبی سب بادشہ ہیں بادشاہ میں
فقط ادنیٰ گدا اصحاب و اہل بیت کا

ایک بزرگ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ زبان ایک درندے کی طرح ہے اگر تم
اسے باندھ کر نہیں رکھوگے تو یہ تمہاری دشمن بن جائے گی۔(المستطرف) یاد رہے کہ ایک
مسلمان پر حق ہے کہ وہ نہ تو دوسرے مسلمان کو گالی دے اور نہ ہی بلا اجازت شرعی
کسی کو برا بھلا کہے، لیکن افسوس کہ عیب جوئی جیسی منحوس بیماری نے ہر طبقہ میں
اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں، انسان کسی کی کمزوریاں گننے بیٹھے تو خونی رشتے بھی اس
کی نظر میں بے قدر و قیمت ہو جاتے ہیں اور کبھی کبھار تو بد بختی ایسی غالب آتی ہے
کہ ہدایت کے روشن ستاروں یعنی صحابہ کرام جیسی مقدس ہستیوں پر بھی طعن و تشنیع
کرنےمیں مبتلا ہو جاتا ہے، ایسوں کو اللہ کی خفیہ تدبیر سے ڈر جانا چاہیے کیونکہ
صحابہ کرام وہ مبارک ہستیاں ہیں جن کے بارے میں ہمارا مسلمہ عقیدہ ہے کہ تمام
صحابہ کرام اہلِ خیر و صلاح ہیں اور عادل، ان کا جب ذکر کیاجائے تو خیر ہی کے ساتھ
ہونا فرض ہے۔ (بہار شریعت)
1۔ دوجہاں کے
تاجور ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو، میرے بعد انہیں
تنقید کا نشانہ نہ بنانا جس نے ان سے محبت رکھی تو اس نے میری محبت کے سبب ان سے
محبت رکھی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے مجھ سے بغض کے سبب ان سے بغض رکھا
اور جس نے انہیں اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے اللہ
پاک کو اذیت دی اور قریب ہے کہ اللہ اس کی پکڑ فرمالے۔(ترمذی، 5/463، حدیث: 3888)
2۔ میرے اصحاب
میری امت کے لیے امان ہیں اور جب وہ چلے جائیں گے تو میری امت پر وہ فتنے آجائیں
گے جن سے اس کو ڈرایا گیا ہے۔ (شرح صحیح مسلم، 6/1206)
3۔ اس مسلمان
کو آگ نہ چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا یا مجھے دیکھنے والے کو دیکھا۔ (ترمذی، 5/694،
حدیث:3858)
4۔ میرے صحابہ
کی مثال میری امت میں کھانے میں نمک کی سی ہے کہ کھانا نمک کے بغیر درست نہیں
ہوتا۔ (مراٰۃ المناجیح، جلد 8)
5۔ میرے صحابہ
کو برا نہ کہو کیونکہ اگر تم میں کوئی احد پہاڑ بھر سونا خیرات کرے تو ان کے نہ مد
کو پہنچے گا نہ آدھے کو۔(بخاری، 2/522، حدیث:3673)
امیر اہل سنت
اپنے مشہور زمانہ نعتیہ دیوان وسائل بخشش میں یوں عرض کرتے ہیں:

حضرت علامہ
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جن خوش نصیبوں نے ایمان کی حالت
میں اللہ کریم کے پیارے نبی ﷺ سے ملاقات کی اور ایمان پر ہی ان کا انتقال شریف ہوا
ان خوش نصیبوں کو صحابی کہتے ہیں۔ تمام صحابہ کی فضیلت کا اعتقاد رکھنا واجب ہے،
صحابہ کرام کے حقوق مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ حضور ﷺ نے
ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کرام کی عزت کرو کہ وہ تمہارے نیک ترین لوگ ہیں۔ (مشکوٰۃ
المصابیح، 2/413، حدیث: 6012)
2۔ میرے صحابہ
کی عزت کرو کہ وہ تم میں سے بہترین لوگ ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/413، حدیث: 6012)
3۔ جب تم
لوگوں کو دیکھو کہ وہ میرے صحابہ کرام کو براکہہ رہے ہیں تو کہو! اللہ کی لعنت ہو
تمہارے شر پر۔ (ترمذی، 5/464، حدیث: 3892)
شرحِ
حدیث:
حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں:
یعنی میرے صحابہ کرام تو خیر ہی خیر ہیں تم ان کو برا کہتے ہو تو وہ برائی تمہاری
طرف ہی لوٹتی ہے اور اس کا وبال تم پر ہی پڑتا ہے۔ (مراٰۃ المناجیح، 8/344)
4۔ میرے صحابہ
کی جس نے میری وجہ سے عزت کی تو میں بروز قیامت اس کا محافظ ہوں گا اور جس نے میرے
صحابہ کو گالی دی تو اللہ نے اس پر لعنت کی ہے۔ ( فضائل الصحابہ للامام احمد، 2 /908،
حدیث: 1733)
5۔ یعنی جب
میرے صحابہ کا ذکر آئے تو باز رہو(یعنی برا کہنے سے باز رہو)۔ (معجم کبیر، حدیث:
1427)
شرحِ
حدیث:
حضرت علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یعنی صحابہ کرام کو برا بھلا کہنے
سے باز رہو یعنی قرآن کریم میں ان کے لیے رضائے الٰہی کا مژدہ (یعنی خوشخبری) بیان
ہوچکا ہے یعنی ضرور ان کا انجام پرہیزگاری اور رضائے الٰہی کے ساتھ جنت میں ہوگا،
یہ وہ حقوق ہیں جو امت کے ذمہ باقی ہیں، لہٰذا جب ان کا ذکر کرو تو صرف صرف بھلائی
اور نیک دعاؤں کے ساتھ ہی کرو۔ (مرقاۃ المفاتیح، 9/282)
اللہ پاک ہمیں
حقیقی معنوں میں صحابہ کرام کی تعظیم کرنا اور ان کی محبت عطا فرمائے۔ آمین
صحابہ
کا گدا ہوں اور اہل بیت کا خادم یہ سب ہے آپ ہی کی تو عنایت یا رسول
اللہ

صحابی وہ خوش
نصیب مسلمان ہیں جنہوں نے ایمان اور حالت بیداری میں حضور ﷺ کی صحبت پائی پھر وہ
ایمان کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ قرآن مجید میں صحابہ کرام کے بارے میں ارشاد
ہے: رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ
رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ
خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۰۰) (پ
10، التوبۃ: 100) ترجمہ: اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار
کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی
ہے۔
1۔ رسول اللہ
ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ کی عزت کرو کہ وہ تمہارے نیک ترین لوگوں میں سے ہیں۔
(مشکوٰۃ المصابیح، 2/413، حدیث: 6012)
2۔ ایک روایت
میں ہے: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کی بھی اقتدا کروگے یعنی
پیروی کروگے تو ہدایت پاجاؤگے۔(مشکوٰۃ المصابیح، 2/414، حدیث: 6018)
3۔ ارشاد
فرمایا: میرے صحابہ کو گالی نہ دو قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان
ہے اگر تم میں سے ایک شخص احد پہاڑ کی مثل سونا خرچ کر دے تو ان کے سیر اور آدھے
سیر کو نہیں پہنچ سکے گا۔ (عقائد و مسائل، ص 98) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ
صحابہ کرام کا مقام و مرتبہ بہت بلند و اعلیٰ ہے کوئی ولی صحابہ کرام کے مرتبے تک
نہیں پہنچ سکتا۔
4۔ جو میرے
صحابہ کو برا کہے اس پر اللہ کی لعنت اور جو ان کی عزت کی حفاظت کرے میں قیامت کے
دن اس کی حفاظت کروں گا۔ (ابن عساکر، 44/222) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ
صحابہ کرام کی بارگاہ میں ادنیٰ گستاخی بھی منع ہے، کیونکہ یہ حضرات اللہ کے محبوب
ﷺ کے قریب تر ساتھی ہیں۔
5۔ حضور ﷺ نے
فرمایا: میرے صحابہ کے معاملے میں اللہ سے ڈرو میرے صحابہ کے معاملے میں اللہ سے
ڈرو! میرے بعد انہیں طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو
اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے میرے
بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں ایذا پہنچائی تو اس نے ضرور مجھے
ایذا پہنچائی اور جس نے مجھے کو ایذا پہنچائی تو ضرور اس نے اللہ پاک کو ایذا
پہنچائی تو قریب ہے کہ اللہ اس کی پکڑ فرمائے گا۔ (ترمذی، 5/463، حدیث: 3888)

صحابہ کرام وہ
عظیم ہستیاں ہیں جنہوں نے ظاہری آنکھوں سے ایمان کی حالت میں نبی کریم خاتم
النبیین ﷺ کی زیارت کی اور ایمان ہی کی حالت میں ان کا انتقال ہوا، کوئی بھی ولی،
غوث و قطب کتنے ہی اعلیٰ درجے پر کیوں نہ فائز ہو مگر صحابہ کے مرتبے تک نہیں پہنچ
سکتے، قرآن و حدیث میں صحابہ کی شان و عظمت بیان کی گئی ہے، صحابہ کرام کے بے شمار
حقوق ہیں جن کا لحاظ رکھنا بے حد ضروری ہے، ذیل میں چند حقوق بیان کئے جاتے ہیں:
1۔ صحابہ کرام
سے دل و جان سے محبت کرنا، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کے
بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو میرے بعد انہیں نشانہ مت بنانا پس جس نے ان سے محبت کی
تو اس نے مجھ سے محبت کی وجہ سے ایسا کیا اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے مجھ
سے بغض کی وجہ سے ایسا کیا۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/414، حدیث: 6014) معلوم ہوا کہ
صحابہ سے محبت نبی کریم ﷺ سے محبت ہے، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کیا خوب فرماتے
ہیں:
اہلسنت
کا ہے بیڑا پار اصحاب رسول نجم
ہیں اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی
2۔ ان کی عزت
کرنا یعنی انہیں بلند و اعلیٰ مرتبے والا سمجھنا، قرآن مجید میں اللہ پاک نے ارشاد
فرمایا: اُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاؕ-لَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ مَغْفِرَةٌ وَّ
رِزْقٌ كَرِیْمٌۚ(۴) (پ 9، الانفال: 04) ترجمہ کنز الایمان: یہی سچے
مسلمان ہیں ان کے لیے درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور بخشش ہے اور عزت کی روزی۔ رسول
اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کی عزت کرو کہ وہ تمہارے نیک ترین لوگ ہیں۔ (مشکوٰۃ
المصابیح، 2/413، حدیث: 6012)
3۔ ان کی
تعظیم کرنا یعنی ان کا ذکر احترام کے ساتھ اور اچھے انداز میں اچھے الفاظ کے ساتھ
ہی کرنا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ کو برا نہ کہو کیونکہ اگر تم میں کوئی
احد پہاڑ سونا خیرات کرے تو میرے صحابہ میں سے کسی ایک کے نہ مد کو پہنچ سکتا ہے
اور نہ ہی مد کے آدھے کو۔ (بخاری، 2/522، حدیث: 3673) ایک اور جگہ رسول کریم ﷺ نے
ارشاد فرمایا: جو میرے صحابہ کو برا کہے اس پر اللہ کی لعنت اور جو ان کی عزت کی
حفاظت کرے میں قیامت کے دن اس کی حفاظت کروں گا (یعنی اسے جہنم سے محفوظ رکھوں
گا)۔ (ابن عساکر، 44/22) نیز صحابہ کرام کی شان میں ادنیٰ سی گستاخی بھی کفر ہے۔
(بنیادی عقائد و معمولات اہلسنت) لہٰذا ہمیں چاہیے کہ جو لوگ صحابہ کے بارے میں
غلط بات کرتے ہیں ان کے سائے سے بھی دور رہیں۔
4۔ ان سب کو
قطعی جنتی جاننا، جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ
رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ
خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۰۰) (پ
10، التوبۃ: 100) ترجمہ: اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار
کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی
ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ سارے صحابہ کرام جنتی ہیں ان میں کوئی گنہگار اور فاسق
نہیں۔ (تفسیر صراط الجنان)
ہر
صحابی نبی جنتی جنتی
سب
صحابیات بھی جنتی جنتی
5۔ ان کی سیرت پر عمل کرنا ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا، حضور پاک ﷺ نے
ارشاد فرمایا: میری اور خلفائے راشدین کی سنت کو اختیار کرو۔ (مؤطا
امام مالک،3/108،حدیث:709)ایک اور جگہ رسول
کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کی بھی
اقتدا کروگے ہدایت پا جاؤگے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/414، حدیث: 6018) اس سے معلوم ہوا کہ ہمیں بھی صحابہ کرام کی بتائی
ہوئی باتوں پر عمل کرنا چاہیے ان کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے زندگی گزارنی چاہیے
تاکہ ہمیں بھی ان کا فیضان حاصل ہو۔

صحابیِ رسول
ہونا اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے۔ بڑے سے بڑا ولی صحابی کے مرتبے کو نہیں پا
سکتا۔ہر صحابی عادل اور جنتی ہے۔ کوئی شخص بھلے کتنی ہی عبادت کر لے وہ کبھی بھی
صحابی نہیں بن سکتا۔کیونکہ صحابہ کرام نے حضور انور ﷺ کی صحبت پائی۔ حضور ﷺ سے علم
و عمل حاصل کیے۔حضور ﷺ کی تربیت پائی۔
صحابہ
وہ صحابہ جن کی ہر دن عید ہوتی تھی
خدا کا قرب حاصل تھا، نبی کی دید ہوتی تھی
صحابہ کی تعریف:جن خوش نصیبوں
نے ایمان کی حالت میں اللہ کریم کے پیارے نبی ﷺ سے ملاقات کی ہو اور ایمان ہی پر
ان کا انتقال ہوا،ان کو صحابہ کہتے ہیں۔
حقوقِ
صحابہ علیہم الرضوان:
1) حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم
الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مسلمانوں کو چاہیے کہ صحابہ کرام
علیہم الرضوان کا نہایت ادب رکھے اور دل میں ان کی عقیدت و محبت کو جگہ دے۔ ان کی
محبت حضور ﷺ کی محبت ہے۔
اہلِ
سنت کا ہے بیڑا پار اصحابِ حضور نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی
(غیبت
کی تباہ کاریاں، ص 196)
2) تمام صحابہ
کرام علیہم الرضوان بھلائی والے اور عادل ہیں۔ان کا جب ذکر کیا جائے تو خیر ہی کے
ساتھ کرنا فرض ہے۔ کسی صحابی کے ساتھ سوءِ عقیدت(یعنی بُرا عقیدہ رکھنا)بد مذہبی و
گمراہی و استحقاق جہنم(جہنم کی حق داری) ہے۔(بہار شریعت،1/252 تا 253 )
3) روایت میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: میرے اصحاب
کو بُرا نہ کہو، اس لیے کہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر
دے تو ان کے ایک مُد کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا اور نہ اس مُد کے آدھے۔ ( بخاری،
2/ 522،حدیث:3673)
4) حدیثِ مبارکہ ہے: میرے صحابہ کی عزت کرو
کیونکہ وہ تم میں بہترین لوگ ہیں۔(مشکوٰۃ المصابیح، 2/413، حدیث: 6012)
آل و
اصحابِ نبی سب بادشاہ ہیں بادشاہ
میں فقط ادنٰی گدا اصحاب و اہل بیت کا
5) میرے صحابہ کی میری وجہ سے جس نے حفاظت اور
عزت کی تو میں بروزِ قیامت اس کا محافظ ہوں گا۔ اور جس نے میرے صحابہ کو گالی دی
اس پر اللہ پاک کی لعنت ہے۔ ( فضائل الصحابہ للامام احمد، 2 /908، حدیث:1733)
صحابیِ رسول
کے حق میں خدا سے ڈرو ! صحابیِ رسول کو گالیاں دینا گناہ،گناہ بہت سخت گناہ،قطعی
حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان اعلیٰ ادنیٰ
سب جنتی ہیں۔صحابہ کرام کے باہم ( یعنی آپس میں لڑائی وغیرہ کے ) جو واقعات ہوئے، ان
میں پڑنا حرام، حرام، سخت حرام ہے۔ مسلمانوں کو تو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ سب حضرات
آقائے دو عالم ﷺ کے جان نثار اور سچے غلام ہیں۔
میری
جھولی میں نہ کیوں ہوں دو جہاں کی نعمتیں میں
ہوں منگتا، میں گدا اصحاب و اہلِ بیت کا
یا
الٰہی ! شکریہ عطار کو تو نے کیا
شعر گو مدحت سرا اصحاب و اہل بیت کا

اللہ پاک نے
جس طرح اپنے پیارے حبیبﷺکو تمام رسولوں کا سردار منتخب فرمایا،اسی طرح آپ کے دین
کو کامل فرمایا اور اس دین کے حاملین کو تمام لوگوں کے درمیان منتخب فرمایا اور وہ
حضرات صحابہ کرام تھے۔اس دینِ اسلام کی خوبصورتی ہے کہ ہر کسی کے حقوق بیان فرمائے۔اسی
طرح صحابہ کرام کے بھی کچھ حقوق امت پر لاگو ہوتے ہیں۔ کچھ حقوق پیش کئے جاتے ہیں:
تذکرہ مع الخیر: تمام صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم اہلِ خیر اور صلاحِ اہل ہیں اور عادل بھی۔ ان کا جب ذکر کیا
جائے تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے۔(بہارِ شریعت،1/252،حصہ:1)حضرت ابنِ عمر فرمایا کرتے تھے:محمد(ﷺ) کے اصحاب کو
برا بھلا نہ کہو کہ ان کا گھڑی بھر قیام کرنا تمہارے عمر بھر کے اعمال سے بہتر ہے۔(
ابنِ ماجہ،1/110، حدیث:168)
خلافت
کا اقرار کرنا:تمام
انبیا و رسل کے بعد ان صحابہ کرام کا ہی درجہ اللہ کریم نے مقرر فرمایا اور ان کو
رحمۃ للعلمین ﷺ کے نائب و امت کے راہنما بنایا، ان کی خلافت کا اقرار کرنا بھی ہر
مسلمان کیلئے ضروری ہے، کیونکہ ان کی خلافت سے انکار کرنا فقہائے کرام کے نزدیک
کفر ہے۔ من سب الشیخین أو طعن فیھما کفر ولا تقبل توبته (
درمختار، 6/362)
اتباعِ
صحابہ:ان
کی سیرتِ مبارکہ پر عمل کرے کہ حضورﷺنے فرمایا:عنقریب میرے بعد تم بہت سے اختلافات
دیکھو گے۔ پس تم پر میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت لازم ہے۔(
ابنِ ماجہ،1/99، حدیث:42)
مراتب
کا اقرار:اللہ
کریم نے ان کو جو مراتب عطا فرمائے ان میں کمی بیشی نہ کرے اس طرح کہ زیادہ فضیلت
والے کو کم درجہ پر رکھے۔جو (حضرت) علی کو تین (خلفائے راشدین) پر افضل کہے وہ
رافضی ہے اور گمراہ ہے۔(تبیین الحقائق،2/358)
عقیدت
و احترام:کسی
بھی صحابی کے ساتھ سوء عقیدت،بد مذہبی و گمراہی اور استحقاقِ جہنم( جہنم کا حق دار
بنانے والی) ہے کیونکہ وہ حضور اقدس ﷺ کے ساتھ بغض ہے۔(بہارِ شریعت،1/252،حصہ:1)
حدیثِ مبارکہ
میں ہے:میرے صحابہ کے معاملے میں اللہ سے ڈرو،میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنا لو۔ (ترمذی،
5/563،حدیث:3888)ہر مسلمان تمام جانثارانِ تاجدار مدینہ
کی عقیدت و احترام رکھے اور ان کے حقوق کو بجا لائے،ایسے لوگوں کے قریب بھی نہ
جائے جو ان صحابہ کی بے ادبی یا شان میں کمی کرنے والے ہوں۔اللہ کریم ہمیں ان کی
پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ خاتم النبیینﷺ

بلاشبہ حضرات
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دین کے ترجمان،قرآنِ عظیم کے محافظ و پاسبان،سنتِ نبوی
کے عامل اور بلند سیرت کے حامل ہیں۔یہی وجہ ہے کہ امتِ مسلمہ میں ان کو بڑا اونچا
مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ صحابی اس شخص کو کہتے ہیں جس نے حالت اسلام میں آپ ﷺ کی
زیارت کی ہویااسے آپ کی صحبت نصیب ہوئی ہو،خو اہ ایک لمحے کے لیے کیوں نہ ہو۔اللہ
پاک نے قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر صحابہ کرام کے حقوق کےبارے میں ارشاد فرمایا
ہے:اِنَّمَا وَلِیُّكُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الَّذِیْنَ
اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ
رٰكِعُوْنَ(۵۵)
(پ6،المائدۃ:55)تر جمہ:تمہارے دوست تو خدا اس کے پیغمبر اور مومن لوگ ہیں جو نماز
پڑھتے اور زکوة دیتے اورخدا کے آگے جھکتے ہیں۔
اس آیتِ
مبارکہ میں اہلِ ایمان سے محبت کرنے والے کو اللہ پاک کا ولی قرار دیا گیا اور جس
وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وقت اہلِ ایمان صرف صحابہ کرام تھے۔آیاتِ قر انیہ کے
علاوہ کتبِ احادیث بھی فضائلِ صحابہ سے مالا مال ہیں:
1-آپ ﷺ نے
ارشاد فر مایا:میرے صحابہ کو گالی مت دو! اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر
بھی سونا خرچ کردے تو پھر بھی وہ ان میں سے کسی ایک کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے
برابر بھی نہیں پہنچ سکتا۔ (بخاری،2/522،حدیث: 3673 )
2-آپ ﷺ نے
ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کی عزت کرو کہ وہ تمہارے نیک ترین لوگ ہیں۔(مشکوٰۃ
المصابیح، 2/413، حدیث: 6012)
3-حدیثِ پاک
میں ہے: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں۔تم ان میں سے جس کی بھی پیروی کروہدایت پا
جاؤ گے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/414، حدیث: 6018)
4-حدیثِ پاک
میں آپ کا ارشادِ گرامی ہے: جو میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں رعایت رکھے
گا وہ میرے پاس حوضِ کوثر پر پہنچ سکے گا اور جوان کے بارے میں میری رعایت نہ کرے
گا وہ میرے پاس حوضِ کوثرتک نہ پہنچ سکے گا اور مجھے دور سے ہی دیکھے گا۔ (حکایات
صحابہ)