الله پاک نے انسانوں کی ہدایت کے لئے انبیائے کرام علیہم السّلام جیسی باکمال ہستیوں کے وجودِ مسعود کو تخلیق فرمایا ۔ ا نہیں ہر ایسی چیز سے دور رکھا جو ان کے دامن کو ناپاک کرنے اور ہر ایسی شے سے منزہ رکھا جو مخلوق سے عار و نفرت کا باعث ہو، تو کس طرح ان کی ہستیوں کو صفاتِ مذمومہ اور عادات متنفرہ سے مبرہ رکھا۔ یونہی ان مبارک ذوات کو صفاتِ حسنہ اور عاداتِ حسنہ سے آراستہ کیا ، ان مبارک شخصیات میں سے اللہ پاک کے پیارے نبی حضرت سیدنا موسی علیہ السّلام ہیں، جنہیں اللہ پاک نے بے شمار خصلتیں عطا فرمائیں اور قراٰنِ پاک میں کئی مقامات پر ان ذکر جمیل فرمایا ، آپ علیہ السلام کی قراٰن کریم موجود صفات یہ ہیں:۔

(1) الله سے ہم کلام ہونا: آپ علیہ السلام کو اللہ پاک نے یہ امتیازی صفت عطا فرمانی کہ آپ کے بلا واسطہ رب سے ہم کلام ہونے سے مشرف ہوئے، جیسا کہ اس مفہوم کو مختلف مقامات پر بیان کیا: وَ كَلَّمَهٗ رَبُّهٗۙ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس کے رب نے اس سے کلام فرمایا۔ (پ9،الاعراف:143 ) دوسرے مقام پر فرمایا: وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔(پ6،النساء:164) اور اسی سبب سے آپ علیہ السّلام " کلیم الله " کے لقب سے مشہور ہوئے۔

(2) چنے ہوئے: یوں تو سارے انبیائے کرام علیہم السلام چنے ہوئے ہیں مگر آپ کے حق میں اس وصف کو بالتکرار ذکر کیا گیا ، جیسا کہ ارشاد فرمایا: اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک وہ چنا ہوا تھا۔(پ 16، مریم:51) ا دوسرے مقام پر: وَ اصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِیْۚ(۴۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور میں نے تجھے خاص اپنے لیے بنایا۔ (پ16،طٰہٰ:41) اور ایک مقام پر ارشاد فرمایا: یٰمُوْسٰۤى اِنِّی اصْطَفَیْتُكَ عَلَى النَّاسِ ترجَمۂ کنزُالایمان: اے موسیٰ میں نے تجھے لوگوں سے چن لیا۔(پ9،الاعراف:144)(3) قربِ الٰہی: اسی طرح سارے ہی انبیائے کرام علیہم السلام اللہ پاک کے مقرب ہوتے ہیں، جتنا یہ رب سے قریب ہیں، کوئی ان تک نہیں پہنچ سکتا مگر حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو خاص قرب بخشا اور سرگوشی فرمانی، ارشاد فرمایا: وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسے اپنا راز کہنے کو قریب کیا۔(پ16،مریم: 52)

(4) حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی دعا سے بھائی کو نبوت ملنا: نبوت ایک اعلیٰ منصب ہے ، جو اللہ پاک کی عطا اور اس کے فضل و رحم سے ملتا ہے، مگر حضرت موسیٰ علیہ السّلام وہ نبی ہے جن کی دعا سے آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السّلام کو نبوت کا تاج عطا ہوا، ارشاد فرمایا: وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔(پ16،مریم:53) (5) حضرت موسی علیہ السّلام وجیہہ : اللہ پاک کے نزدیک سارے انبیائے کرام علیہمُ السّلام مقام و مرتبہ اور عزت و وجاہت والے ہیں، مگر حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے بارے میں اللہ پاک خصوصی طور پر ارشاد فرمایا: وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) ترجَمۂ کنزُالایمان: موسیٰ اللہ کے یہاں آبرو والا ہے ۔(پ22،الاحزاب:69) مفسرین نے وجیہہ کے مختلف معانی بیان کیے ہیں: عزت والا ، مقام و مرتبہ والا اور مستجاب الدعوات۔

الله پاک حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی صفاتِ حسنہ کے صدقہ ہمیں بھی اچھی صفات سے متصف فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم