محترم قارئین کرام ! اللہ پاک نے لوگوں میں سے انبیائے کرام کو خاص کیا اور تمام لوگوں میں سے ان کو اخلاق اور مکان کی اعتبار سے بلند کیا اور انہیں میں تمام خصائص کو جمع کیا انہیں میں سے حضرت موسیٰ علیہ السّلام بھی ہیں۔ آئیے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی صفات قراٰنِ کریم کی روشنی سے پڑھتے ہیں :۔

(1) دوسروں کی مدد کرنا: حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے اوصاف میں سے یہ بھی تھا کہ آپ دوسروں کی مدد فرمایا کرتے تھے۔ جیسا کہ آپ علیہ السّلام نے دو نوجوان لڑکیوں کے جانوروں کو پانی پلایا جب کہ وہ اپنے جانوروں کو پانی پلانے کے لئے پریشان کھڑی تھیں ۔ جیسا کہ ارشادِ باری ہے : وَ لَمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدْیَنَ وَجَدَ عَلَیْهِ اُمَّةً مِّنَ النَّاسِ یَسْقُوْنَ ٘۬-وَ وَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمُ امْرَاَتَیْنِ تَذُوْدٰنِۚ-قَالَ مَا خَطْبُكُمَاؕ-قَالَتَا لَا نَسْقِیْ حَتّٰى یُصْدِرَ الرِّعَآءُٚ-وَ اَبُوْنَا شَیْخٌ كَبِیْرٌ(۲۳) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب وہ مدین کے پانی پر تشریف لائے تووہاں لوگوں کے ایک گروہ کو دیکھا کہ اپنے جانوروں کو پانی پلارہے ہیں اور ان کے دوسری طرف دو عورتوں کو دیکھاجو اپنے جانوروں کو روک رہی ہیں ۔ موسیٰ نے فرمایا: تم دونوں کا کیا حال ہے؟ وہ بولیں : ہم پانی نہیں پلاتیں جب تک سب چرواہے پلاکر پھیر نہ لے جائیں اور ہمارے باپ بہت بوڑھے ہیں ۔(پ20،القصص:23)

(2) دعویٰ و دلیل میں پختہ: حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے اوصاف میں سے ایک یہ بھی تھا کہ آپ اپنی بات اور دلیل دینے میں پختہ تھے۔ جیسا کہ جب فرعون نے ان سے کہاں کہ تم مجھ سے مقابلہ کر رہے ہو حالانکہ میں نے تمہیں پالا ہے جیسا کہ ارشادِ باری ہے : وَ تِلْكَ نِعْمَةٌ تَمُنُّهَا عَلَیَّ اَنْ عَبَّدْتَّ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ(۲۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور یہ کون سی نعمت ہے جس کا تو مجھ پر احسان جتا رہا ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا کر رکھا۔ (پ19، الشعراء: 22)

تفسیر صراط الجنان:(وَ تِلْكَ: اور یہ۔ ) فرعون نے جو احسان جتایا تھا اس کے جواب میں حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰہ و السّلام نے فرمایا : اس میں تیرا کیا احسان ہے کہ تم نے میری تربیت کی اور بچپن میں مجھے اپنے پاس رکھا، کھلایا اور پہنایا کیونکہ میرا تجھ تک پہنچنے کا سبب تو یہی ہوا کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنایا اور ان کی اولادوں کو قتل کیا، تیرے اس عظیم ظلم کی وجہ سے میرے والدین میری پرورش نہ کر سکے اور مجھے دریا میں ڈالنے پر مجبور ہوئے، اگر تو ایسا نہ کرتا تو میں اپنے والدین کے پاس ہی رہتا، اس لئے یہ بات کیا اس قابل ہے کہ اس کا احسان جتایا جائے۔ اسے دوسرے الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ کوئی شخص کسی بچے کے باپ کو قتل کر کے بچہ گود میں لے اور اس کی پرورش کرے پھر بڑا ہونے پر اسے احسان جتلائے کہ بیٹا تو یتیم و لاوارث تھا میں نے تجھ پر احسان کیا اور تجھے پال پوس کر بڑا کیا۔ تو اس کے جواب میں وہ بچہ کیا کہے گا۔ وہ یہی کہے گا کہ اپنا احسان اپنے پاس سنبھال کر رکھ۔ مجھے پالنا تو تجھے یاد ہے لیکن یہ تو بتا کہ مجھے یتیم و لاوارث بنایا کس نے تھا ۔

(3)اللہ پاک پر یقین: حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی اوصاف میں سے یہ بھی تھا کہ آپ اللہ پاک پر توکل کرنے والے اور پختہ یقین کرنے والے تھے جیسا کہ جب آپ کا مقابلہ فرعون اور اس کے لشکر سے ہوا تو آپ علیہ السّلام نے فرمایا: میرے ساتھ میرا رب ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک کا فرمان ہے:قَالَ كَلَّاۚ-اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَهْدِیْنِ(۶۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: موسیٰ نے فرمایا:ہرگز نہیں ، بیشک میرے ساتھ میرا رب ہے وہ ابھی مجھے راستہ دکھا دے گا۔ (پ19، الشعراء: 62)

(4) دوسروں کی فضیلت کا اقرار کرنا: حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے اوصاف میں سے یہ بھی تھا کہ آپ دوسروں کی فضیلت کا اقرار کرتے تھے۔ جیسا آپ علیہ السّلام نے اپنے بھائی ہارون کے لئے دعا کی۔ ارشادِ باری ہے : وَ اجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَهْلِیْۙ(۲۹) هٰرُوْنَ اَخِیۙ(۳۰) اشْدُدْ بِهٖۤ اَزْرِیْۙ(۳۱) وَ اَشْرِكْهُ فِیْۤ اَمْرِیْۙ(۳۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور میرے لیے میرے گھر والوں میں سے ایک وزیر کردے۔ میرے بھائی ہارون کو ۔ اس کے ذریعے میری کمر مضبوط فرما۔ اور اسے میرے کام میں شریک کردے۔ (پ16، طٰہٰ : 29 تا 32)

(5) وعدہ پورا کرنا: حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے اوصاف میں سے یہ بھی تھا کہ آپ علیہ السّلام وعدہ پورا کرنے والے تھے۔ جیسا کہ آپ علیہ السّلام نے دو نوجوان لڑکیوں کے والد سے کیا ہوا وعدے کو پورا کرنا کہ ان دونوں میں سے ایک کے ساتھ نکاح کرنا دس سال کی خدمت حق مہر کے طور پر۔ ارشادِ باری ہے : قَالَ اِنِّیْۤ اُرِیْدُ اَنْ اُنْكِحَكَ اِحْدَى ابْنَتَیَّ هٰتَیْنِ عَلٰۤى اَنْ تَاْجُرَنِیْ ثَمٰنِیَ حِجَجٍۚ-فَاِنْ اَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِكَۚ-وَ مَاۤ اُرِیْدُ اَنْ اَشُقَّ عَلَیْكَؕ-سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۲۷) قَالَ ذٰلِكَ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكَؕ-اَیَّمَا الْاَجَلَیْنِ قَضَیْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَیَّؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى مَا نَقُوْلُ وَكِیْلٌ۠(۲۸) فَلَمَّا قَضٰى مُوْسَى الْاَجَلَ وَ سَارَ بِاَهْلِهٖۤ اٰنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ نَارًاۚ-قَالَ لِاَهْلِهِ امْكُثُوْۤا اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّیْۤ اٰتِیْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ(۲۹) ترجمۂ کنزُالعِرفان: ان میں سے ایک نے کہا: اے میرے باپ! ان کو ملازم رکھ لو بیشک آپ کا بہتر نوکر وہ ہوگا جو طاقتور اور امانتدار ہو۔ (انہوں نے) فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ اپنی دونوں بیٹیوں میں سے ایک کے ساتھ اس مہر پر تمہارا نکاح کردوں کہ تم آٹھ سال تک میری ملازمت کرو پھر اگر تم دس سال پورے کردو تو وہ (اضافہ) تمہاری طرف سے ہوگا اور میں تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا۔ اِنْ شَاءَ الله عنقریب تم مجھے نیکوں میں سے پاؤ گے۔ موسیٰ نے جواب دیا: یہ میرے اور آپ کے درمیان (معاہدہ طے) ہے۔ میں ان دونوں میں سے جو بھی مدت پوری کردوں تو مجھ پر کوئی زیادتی نہیں ہوگی اور ہماری اس گفتگو پر الله نگہبان ہے۔ پھر جب موسیٰ نے اپنی مدت پوری کردی اور اپنی بیوی کو لے کر چلے تو کوہِ طور کی طرف ایک آگ دیکھی۔ آپ نے اپنی گھر والی سے فرمایا: تم ٹھہرو ، بیشک میں نے ایک آگ دیکھی ہے، شاید میں وہاں سے کچھ خبر لاؤں یا تمہارے لیے کوئی آگ کی چنگاری لاؤں تاکہ تم گرمی حاصل کرو۔ (پ20،القصص : 27 تا29)

اللہ پاک کی پاک بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ ہمیں بھی اس طرح کی اچھی عادات اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم