
جن خوش نصیبوں
نے ایمان کی حالت میں رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی ہو اور ایمان ہی پر ان کا انتقال
ہوا، انہیں صحابی کہتے ہیں۔ (نخبۃ الفکر، ص 111) نبیِ کریم ﷺ کے تمام صحابہ جنتی
ہیں۔ ان میں کوئی گنہگار و فاسق نہیں اور نہ ہی کسی تاریخی واقعہ کو بنیاد بناکر
قرآن و حدیث میں موجود ان عظیم اشخاص کے فضائل کا انکار کیا جاسکتا ہے۔حقیقت تو یہ
ہے کہ جس طرح اللہ پاک کی اطاعت حضور ﷺ کی پیروی کے بغیر ناممکن ہے،اسی طرح حضور ﷺ
کی پیروی صحابہ کرام علیہم الرضوان کی اتباع کے بغیر ممکن نہیں۔نیز یہی حضرات امت
تک دین پہنچانے والے ہیں۔ لہٰذا امت پر ان بزرگ افراد کے بہت سے حقوق ہیں، جن میں
سے 5 درج ذیل ہیں۔
1-صحابہ کرام علیہم الرضوان سے محبت رکھنا اور
ان سے بغض نہ رکھنا:رسولُ اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کے
معاملے میں اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میرے بعد ان کو
طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنا لینا۔ پس جس شخص نے ان سے مَحبت کی تو اس نے میری
مَحبت کی وجہ سے ان سے مَحبت کی اور جس نے ان سے بُغْض رکھا تو اس نے میرے بُغْض
کے سبب ان سے بُغْض رکھا اور جس نے انہیں اِیذا پہنچائی تو اس نے ضرور مجھے اِیذا
پہنچائی اور جس نے مجھے اِیذا پہنچائی تو ضرور اس نے اللہ پاک کو اِیذا پہنچائی تو
جس نے اللہ پاک کو اِیذا پہنچائی تو قریب ہے کہ اللہ پاک اس کی پکڑ فرمائے۔(ترمذی،
5/463،حدیث: 3888)
2-صحابہ
کرام علیہم الرضوان کی عزت و تعظیم کرنا:حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ کی عزت کرو کہ وہ تمہارے
نیک ترین لوگ ہیں۔(مشکوٰۃ المصابیح، 2/ 413، حدیث: 6012)ایک اور حدیثِ پاک میں ہے:
میرے صحابہ کے معاملے میں میرا لحاظ کرنا کیونکہ وہ میری امت کے بہترین لوگ ہیں۔
(حلیۃ الاولیاء،1/ 311)
3-صحابہ
کرام علیہم الرضوان کی اتباع و پیروی کرنا:حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:میری
اور خلفائے راشدین کی سنت کو اختیار کرو۔(مؤطا امام مالک،3/108،حدیث:709)اور
فرمایا:میرے صحابہ سِتاروں کی مانند ہیں،تم اِن میں سے جس کی بھی اِقْتدا کروگے
ہدایت پاجاؤ گے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/414، حدیث: 6018)
4-
کسی صحابی کو برا نہ کہنا اور ان کی عزت کی حفاظت کرنا:نبی ِکریم ﷺ
کا فرمانِ عظمت نشان ہے:میرے صحابہ کو بُرا نہ کہو کیونکہ اگر تم میں سے کوئی اُحد
پہاڑ سوناخیرات کرے تو میرے صحابہ میں سے کسی ایک کے نہ مُد کو پہنچ سکتا ہے اور
نہ ہی مُد کے آدھے کو۔(بخاری، 2/522،حدیث:3673)
بہارِ شریعت
میں ہے:تمام صحابۂ کرام رضی ﷲ عنہم اہلِ خیر و صلاح اور عادل ہیں۔ ان کا جب ذکر
کیا جائے تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے۔ ( بہارِ شریعت،حصہ:1)
آپ ﷺ نے ارشاد
فرمایا:جو میرے صحابہ کو برا کہے،اس پر اللہ کی لعنت اور جوان کی عزت کی حفاظت کرے
میں قیامت کے دن اس کی حفاظت کروں گا۔(ابن عساکر،44/22)یعنی اسے جہنم سے محفوظ
رکھوں گا۔ (سراج منیر شرح جامع الصغیر، 3/ 86)

صحابہ
کی تعریف:شریعت
میں ہر وہ شخص صحابی ہے جس نے حالتِ ایمانی میں سید المرسلین،رحمۃ اللعلمین، حضور
اکرم ﷺ کی ظاہری حیات میں ملاقات کی ہو اور پھر ایمان پر ہی خاتمہ ہوا ہو۔مختلف
ائمہ کرام نے مختلف انداز میں صحابی کی تعریف بیان کی ہے۔
حقوق صحابہ: صحابہ کرام
علیہم الرضوان کا مقام و مرتبہ ساری امت سے افضل و اعلیٰ ہے۔ اسی فضیلت کی بنا پر
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہم پر کچھ حقوق ہیں۔قرآنِ کریم اور احادیثِ
مبارکہ میں بھی حضرات صحابہ کرام کے کچھ حقوق و آداب بیان ہوئے ہیں جو مندرجہ ذیل
ہیں:
1-
تعظیم و توقیر:حقوق
ِصحابہ میں سب سے اہم حق صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعظیم و توقیر ہے۔
ہم پر لازم ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شایانِ شان ان کی تعظیم و
تکریم کریں۔ خود احمدِ مجتبیٰ، محمد مصطفٰے ﷺ نے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ
علیہم اجمعین کی تعظیم کا حکم دیا ہے۔حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: میرے صحابہ کا
اکرام کرو، کیونکہ صحابہ تم میں سب سے زیادہ بہتر ہیں۔ (نسائی)
2-صحابہ
کرام رضی اللہ عنہ سے محبت:صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت
ہمارے ایمان کا تقاضہ ہے اور صحابہ کرام سے محبت رضائے الہٰی کا ذریعہ ہے اور ان
سے عداوت اور بغض اللہ پاک اور رسول ﷺ کی ناراضی کا باعث ہے۔ حضورِ اقدس،رحمتِ
عالم ﷺ نے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کی تلقین اس انداز میں فرمائی
ہے:اپنی اولاد کو تین خصلتوں کی تعلیم دو:( 1) اپنے
نبی ﷺ کی محبت(2) نبی ﷺ کے اہلِ بیت کی محبت اور (3) قرآنِ مجید کی تلاوت۔(ترمذی، 2/ 219)
3-صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم کی افضیلت پر ایمان:نبوت کے بعد سب سے افضل و اعلیٰ
مقام و مرتبہ حضرات صحابہ کا ہے۔ کوئی بھی متقی و پرہیز گار،ولی،محدث،مفسر، صحابہ
جیسی شان نہیں پاسکتا۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بےشمار فضائل و کمالات رکھتے
ہیں۔قرآن و حدیث میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کثرت سےفضائل وارد ہوئے
ہیں۔ارشاد باری ہے:
وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ
الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا
عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ
فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۰۰) (پ 11،
التوبۃ: 100) ترجمہ: اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ
ان کے پیرو ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے
ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔
حضور اکرم ﷺ
نے متعدد مقامات پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت بیان فرمائی ہے،چنانچہ حضور
ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ کو بُرا نہ کہو، کیونکہ اگر تم میں کوئی احد (پہاڑ) بھر
سونا خیرات کرے تو ان کے ایک مُدکو پہنچے نہ آدھے کو۔ (بخاری، 2/ 522،حدیث:3673)
4-اِتباعِ
صحابہ:حضرات
صحابہ اُمّتِ محمدیہ کی وہ جماعت ہے جس کے ذریعے اللہ پاک نے اپنا دین اس زمین پر
نافذ فرمایا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پیروی کرتے ہوئے ہم گناہوں اور فتنوں سے
بچ سکتی ہیں۔ حدیثِ پاک میں بھی ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اِتباع کی تاکید
کی گئی ہے۔حضور اکرم ﷺ کا ارشاد پاک ہے:میری اور خلفائے راشدین کی سنت کو اختیار
کرو۔ (مؤطا امام مالک،3/108،حدیث:709)
5-
دفاعِ صحابہ:صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم سے سچی محبت رکھنے اور ان کے حقوق کی ادائیگی کا ایک اہم حصہ
یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تہمتیں لگانے والوں سے ان کا دفاع کیا
جائے اور جو کوئی ان سے بغض رکھتا اور ان کی توہین کرتا ہے اس سے بغض رکھا جائے
اور اس سے نفرت کی جائے۔اس کی دلیل رسولِ اکرم ﷺ کا یہ فرمان ہے:جس نے میرے صحابہ
کا میری وجہ سے دفاع کیا اور عزت کی تو قیامت کے دن میں اس کا محافظ ہوں گا اور جس
نے میرے صحابہ کو گالی دی تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔( فضائل الصحابہ للامام احمد،
2 /908، حدیث:1733) اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ
علیہم اجمعین کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہوئے ان کی پیروی کرنے اور محبت و عقیدت کے
ساتھ ان کا ذکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین
حقوقِ
صحابہ از بنت ِمحمد احسن،فیضان فاطمۃ الزہرا،مدینہ کلاں،لالہ موسیٰ

ارشادِ باری
ہے:رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ
جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ
الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۰۰)
(پ11، التوبہ: 100)تَرجَمۂ کنز الایمان: اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور
ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں
یہی بڑی کامیابی ہے۔
صحابی
کی تعریف:صحابی
وہ خوش نصیب مؤمن ہیں جنہوں نے ایمان اور ہوش کی حالت میں حضور ﷺ کو دیکھا،انہیں
حضور ﷺ کی صحبت نصیب ہوئی، پھر ان کا خاتمہ ایمان پر ہوا ہو۔(امیر معاویہ،ص 19 )
حق
کا مفہوم: حقوق
جمع ہے حق کی، جس کے معنیٰ ہیں:فردیا جماعت کا ضروری حصہ۔(معجم وسیط،ص188)
حق کے لغوی
معنی صحیح، مناسب، سچ، انصاف، جائز مطالبہ یا استحقاق کے ہیں۔ذیل میں صحابہ کرام
رضی اللہ عنہم کے حقوق بیان کیے گئے ہیں:
1)حضرت عمر
فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ ﷺ نے فرمایا:میرے صحابہ کی
عزت کرو کہ وہ تمہارے نیک ترین لوگ ہیں۔(مشکوٰۃ المصابیح، 2/413،حدیث: 6012)
2)ایک حدیثِ
پاک میں ہے:میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں۔تم ان میں سے جس کی بھی اقتدا کروگے
ہدایت پاجاؤ گے۔(مشکوٰۃ المصابیح،2/414،حدیث: 6018)
3)حضور ﷺنے
فرمایا: میرے صحابہ کو بُرا نہ کہو، کیونکہ اگر تم میں کوئی احد(پہاڑ) بھر سونا
خیرات کرے تو ان کے ایک مد کو پہنچے نہ آدھے کو۔( بخاری،2/522،حدیث:3673)مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ
اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہو ا!حضرات صحابہ کا ذکر
ہمیشہ خیر سے ہی کرناچاہیے۔ کسی صحابی کو ہلکے لفظ سے یاد نہ کرو۔یہ حضرات وہ ہیں
جنہیں رب نے اپنے محبو ب کی محبت کے لیے چنا۔
4)شفیعِ امت ﷺ
نے فرمایا: جو میرے صحابہ کو بُرا کہے اس پر اللہ کی لعنت اور جو ان کی عزت کی
حفاظت کر ے میں قیامت کے دن اس کی حفاظت کروں گا۔(ابن عساکر، 44/ 222)یعنی اسے
جہنم سے محفوظ رکھوں گا۔ (سراج منیر، 3/ 86)
5)میرے صحابہ
کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میرے بعد ان کو
طعن وتشنیع کا نشانہ نہ بنالینا۔پس جس شخص نے ان سے محبت کی تو اس نے میری محبت کی
وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے میرے بغض کے سبب ان سے
بغض رکھا اور جس نے انہیں ایذا پہنچائی تو اس نے ضرور مجھے ایذا پہنچائی اور جس نے
مجھے ایذا پہنچائی تو ضرور اس نے اللہ پاک کو ایذا پہنچائی تو جس نے اللہ پاک کو
ایذا پہنچائی تو قریب ہے کہ اللہ پاک اس کی پکڑ فرمائے گا۔ (ترمذی، 5/463،حدیث:3888)
اللہ پاک ہمیں
حقیقی معنوں میں تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا
فرمائے آمین یارب العالمین
جس
مسلماں نے دیکھا انہیں ِاک نظر اس
نظرکی بصارت پہ لاکھوں سلام
(حدائق
بخشش)
حقوقِ
صحابہ از بنت مصطفٰے حیدر،فیضان فاطمۃ الزہرا مدینہ کلاں لالہ موسیٰ

اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاؕ-لَهُمْ
دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ مَغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌۚ(۴) (پ 9،
الانفال: 04) ترجمہ کنز الایمان: یہی سچے مسلمان ہیں ان کے لیے درجے ہیں ان کے رب
کے پاس اور بخشش ہے اور عزت کی روزی۔
صحابی
کی تعریف: حضرت
علامہ حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:یعنی جن خوش نصیبوں نے
ایمان کی حالت میں اللہ کریم کے پیارے نبی ﷺ سے ملاقات کی ہو اور ایمان پر ہی ان
کا انتقال ہوا ان خوش نصیبوں کو صحابی کہتے ہیں۔(نخبۃ الفکر،ص111)
حق
کا مفہوم: حقوق
جمع ہے حق کی جس کا معنیٰ ہے فرد یا جماعت کا ضروری حصہ۔(معجم وسیط،ص188)
حق
کے لغوی معنی:
صحیح، مناسب، سچ یا استحقاق کے ہیں۔
تمام صحابہ کی
فضیلت کا اعتقاد رکھنا واجب ہے۔صحابہ کرام کے حقوق مندرجہ ذیل ہیں:
1)حضرت عمر
فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: حضور ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ کی عزت کرو کہ وہ
تمہارے نیک ترین لوگ ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/413، حدیث: 6012)
2)حضور ﷺ نے فرمایا: جب تم لوگوں کو دیکھو کہ
میرے صحابہ کو بُرا کہتے ہیں تو کہو:اللہ پاک کی لعنت ہو تمہارے شر پر۔(ترمذی،
5/464، حدیث: 3892)
شرح
حدیث:حضرت
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں:یعنی میرے
صحابہ کرام تو خیر ہی خیر ہیں تم ان کو برا کہتے ہو تو وہ بُرائی تمہاری ہی طرف
لوٹتی ہے اور اس کا وبال تم پر ہی پڑتا ہے۔ (مراۃالمناجیح،8/344)
3)حضور ﷺ نے فرمایا:میرے صحابہ کی جس نے میری وجہ سے عزت کی تو میں
بروزِ قیامت اس کا محافظ ہوں گا اور جس نے میرے صحابہ کو گالی دی اللہ پاک نے اس
پر لعنت کی ہے۔(
فضائل الصحابہ للامام احمد، 2 /908، حدیث:1733)
4)إذا ذكر أصحابي فأمسكوایعنی
جب میرے اصحاب کا ذکر آئے تو باز ہو (یعنی بُرا کہنے سے باز رہو)۔ (معجم کبیر، حدیث:1427)
شرح
حدیث:حضرت
علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:یعنی صحابہ کرام کو بُرا بھلا کہنے سے
باز رہو۔ قرآنِ کریم میں ان کے لئے رضائے الہٰی کا مثردہ(یعنی خوشخبری)بیان ہو چکی
ہے۔ضرور ان کا انجام پرہیزگاری اور رضائے الہٰی کے ساتھ جنت میں ہوگا۔یہ وہ حقوق
ہیں جو امت کے ذمہ باقی ہیں۔ لہٰذا جب ان کا ذکر کرو تو صرف اور صرف بھلائی اور
نیک دعاؤں کے ساتھ کرو۔(مرقاۃ،9/282)اللہ
پاک ہمیں حقیقی معنوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت عطا فرمائے۔(آمین)

وہ لوگ جنہوں
نے ایمان کی حالت میں آقا ﷺ کی صحبت ِبابرکت کا شرف حاصل کیا ہو اور ایمان ہی کی
حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے ہوں ان کو صحابہ کہتے ہیں۔انبیائے کرام کے بعد لوگوں
میں سب سے بہتر صحابہ کرام ہیں۔ان حضرات کی قدر و منزلت کا کیا کہنا کہ اللہ پاک
اور اس کے رسول ﷺ ان سے راضی ہیں۔حتی کہ ان کے جنتی ہونے کی گواہی خود قرآنِ کریم
میں بیان ہے،چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے:رَضِیَ اللّٰهُ
عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ۔ان کے تقویٰ و فضائل پر قرآن و حدیث
شاہد ہیں۔وہ لوگ جو ان کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں وہ اپنے لیے اللہ پاک اور اس
کے حبیب ﷺ کی ناراضی مول لیتے ہیں اور اپنے لیے سوائےبُرائی کے کچھ حاصل نہیں
کرتے۔امتِ محمدیہ پر ان عظیم ہستیوں کے حقوق قرآن و حدیث میں ذکر ہوئےہیں،ان میں
سے چند یہ ہیں:
1-
عزت کرو: آقا
ﷺ نے فرمایا:صحابہ کی عزت کرو کیونکہ وہ تمہارے بہترین لوگ ہیں۔(مراٰۃ المناجیح، 8/285،حدیث:5751)
اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد انسانوں میں سب
سے بہتر وہ ہی ہیں جنہوں نے آقا ﷺ کی صحبت اختیار کی ہو اور وہ صحابہ کرام ہیں۔
2-استغفار
یعنی مغفرت کی دعا کرو:بے شک صحابہ جنتی ہیں اور ان کے لیے دعائے
مغفرت کرنے میں ہمارے لیے جنت کی بشارت ہے کہ نبیِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے
تمام صحابہ سے جو محبت کرے ان کی مدد کرے اور ان کے لیے استغفار کرے( یعنی مغفرت
کی دعا کرے) تو اللہ پاک اسے قیامت کے دن جنت میں میرے صحابہ کا ساتھ نصیب فرمائے
گا۔ ( ہر صحابی نبی جنتی جنتی، ص 14)
3-محبت کرو اور بغض نہ رکھو:صحابہ کے حق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ ان سے محبت کی جائے اور اپنے دلوں
اور زبانوں پر ان کے لیے کوئی بُرائی نہ لائی جائے اور ان حضرات کے آپس کے معاملات
کو دلیل بنا کر کسی ایک کی تعریف میں اس طرح حد سے گزرنا کہ دوسرے صحابہ کی شان
میں کمی ہو نیز سب صحابہ عادل اور حق پر ہیں اور یہی عقیدۂ اہلِ سنت ہے۔مزید آقا
ﷺ نے ان کی محبت کو اپنی محبت قرار دیا اور اس ہی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
میرے صحابہ کے بارے میں اللہ پاک سے ڈرو، اللہ پاک سے ڈرو۔ میرے بعد انہیں نشانہ
نہ بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی
اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے
انہیں ستایا اس نے مجھے ستایا اور جس نے مجھے ستایا اس نے اللہ پاک کو ایذا دی
اورجس نے اللہ پاک کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ پاک اس کی پکڑ فرما لے۔ (ترمذی،
5/463، حدیث: 3888)
4۔گالی
نہ دو: جب
مشرکین کو ایمان لانے کی دعوت دی گئی تو انہوں نے نہ صرف اسلام لانے سے انکار کیا
بلکہ صحابہ کی شان میں گستاخی کی جس پر اللہ پاک نے سورۃ البقرہ آیت نمبر 13 میں
ان کو جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ
السُّفَهَآءُ وَ لٰكِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ(۱۳) ترجمہ
کنزالایمان: سنتا ہے! وہی احمق ہیں مگر جانتے نہیں۔
اسی طرح حدیثِ مبارکہ میں بھی ارشاد ہے: میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو گالی
گلوچ نہ کرو۔(ان کا مقام یہ ہے کہ )اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر
سونا(اللہ کی راہ میں) خرچ کرے تو ا س کا ثواب میرے کسی صحابی رضی اللہ عنہ کے ایک
مُد (ایک چھوٹی سی مقدار)بلکہ آدھا مُد خرچ کرنے کے برابر بھی نہیں ہو سکتا۔ (بخاری،
2/522، حدیث:3673)
5۔
بُرا نہ کہو: رسول
اللہ ﷺ صحابہ کرام کی عزت کرنے اور ان کے بارے میں غلط بات کرنے سے منع فرماتے
ہوئے ارشاد فرمایا:جس نے انہیں بُرا بھلا کہا اس پر اللہ پاک،فرشتوں اور تمام
لوگوں کی لعنت ہو۔ بروزِ قیامت اللہ پاک نہ تو اس کے نفل قبول فرمائے گا اور نہ ہی
فرض۔ ( دس اسلامی عقیدے، ص 107)
لہٰذا ہمیں
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی دل سے تعظیم کرنی چاہیے۔اللہ پاک سب مسلمانوں کو ان
کی شان میں ذرہ برابر بھی گستاخی کرنے سے محفوظ فرمائے اور ان مبارک ہستیوں کے
حقوق بجا لانے کی توفیق بخشے۔
حقوقِ
صحابہ از بنت ِمنظور احمد،فیضانِ مدینہ العطار ٹاؤن میرپور خاص سندھ

ارشادِ باری
ہے:مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ-وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ
عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُم (26،الفتح:
29) ترجمہ کنز الایمان:”محمد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت
ہیں اور آپس میں نرم دل۔“آیت کی ابتدا میں اللہ پاک اپنے حبیب ﷺ کی پہچان کروارہا
ہے کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔آیت کے اگلے جُز(وَ
الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ)میں اللہ پاک نے اپنے حبیبﷺ کے صحابہ
کرام کی شان بیان فرمائی کہ وہ کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں نرم دل۔(تفسیرصراط
الجنان)
یاد رہے!صحابہ
کرام وہ ہستیاں ہیں جنہیں اپنے اللہ پاک اور حبیب ﷺ سے بے پنا ہ عشق و محبت تھی،جس
کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ حضور ﷺکے دشمنوں سے بے حد نفرت اور حضورﷺ کے پیاروں سے بے
حد محبت کرتے۔ چونکہ حضورﷺ کی پیاری چیزوں میں سے ایک آپ کی امت بھی ہے۔لہٰذا
صحابہ کرام نے اس امت کی خیرخواہی،دینِ اسلام کی سربلندی،دین کی نصرت،حمایت اور
دنیا میں امن قائم کرنے کے لیےکئی تکالیف برداشت کیں اور قربانیاں دیں حتّٰی کہ
بعض صحابہ کرام اپنی آنکھیں کھو بیٹھے اور بعض مشرکین کی طرف سے دیئے جانے والے
مصائب کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئے۔انہی ہستیوں کے کچھ حقوق امتِ محمدیہ پر
عائد ہوتے ہیں جن میں سے چند پیشِ خدمت ہیں:
1۔
صحابہ سے محبت:
ان سے محبت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ کبھی بھی بُرائی سے تذکرہ نہ کریں نہ سنیں۔
2-عیب
جوئی نہ کریں:
مروی ہے کہ نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:میرے صحابہ کی عیب جوئی نہ کرو،اس لیے کہ اگر تم
میں کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خیرات کرے تو ان کے ایک یا آدھے مُد کے برابر
بھی نہیں ہو سکتا۔ (بخاری، 2/522،حدیث: 3673 )
3-ان
کی تعظیم و تکریم کی جائے:فرمانِ مصطفٰے ﷺ:میرے صحابہ کا احترام
کرو کیونکہ وہ تم میں سب سے افضل ہیں۔ (نسائی)
4-خیر
کے ساتھ ذکر کرنا:اہلِ
سنت وجماعت کا عقیدہ ہے کہ تمام صحابہ اہلِ خیرو صلاح اور عادل ہیں۔ لہٰذا خیر کے
ساتھ ان کا ذکر کرنا فرض ہے۔

ہمارے پیارے
آقا کریم ﷺ بے مثل و بے مثال تھے۔آپ ظاہری و باطنی تمام اوصاف میں کامل تھے۔ربِّ کریم
نے قرآن ِکریم میں آپ کے اوصاف کا ذکر جا بجا فرمایا ہے،یہاں تک کہ حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہافرماتی ہیں:كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ یعنی نبی اکرم
ﷺکا خُلق قرآن تھا۔(دلائل النبوۃ للبیہقی، 1/309)
چند اوصاف کا ذکر
درج ذیل ہے:
(1)اخلاقِ کریمہ:ارشادِ
ربانی ہے:وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴)(القلم:4)ترجمہ
کنز العرفان:اور بے شک یقیناً تم عظیم اخلاق پر ہو۔
(2)معراج:سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ
الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا (بنی اسرائیل:1) ترجمہ کنز العرفان:
پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے خاص بندے کو رات کے کچھ حصے میں مسجدِ حرام سے مسجد ِاقصیٰ
تک سیر کروائی۔
(3)تمام خوبیوں کے جامع:اِنَّاۤ
اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ(۱) (الکوثر:
1) ترجمہ کنز العرفان:اے محبوب! بےشک
ہم نے تمہیں بےشمار خوبیاں عطا فرمائیں۔
(4)شرحِ صدر:اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ
صَدْرَكَۙ(۱)(الم
نشرح:1) ترجمہ کنز العرفان:کیا ہم نے تمہاری خاطر تمہارا سینہ کشادہ نہ کر دیا۔
(5)نرم دلی:لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا
عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) (التوبۃ: 128)ترجمہ کنز العرفان:بے شک
تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لائے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت
بھاری گزرتا ہے،وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت
فرمانے والے ہیں۔
(7-6) جمالِ مصطفٰے اور گیسو مبارک:وَ الضُّحٰىۙ(۱) وَ الَّیْلِ اِذَا سَجٰىۙ(۲)(الضحیٰ:1-2)ترجمہ
کنز العرفان: چڑھتے دن کے وقت کی قسم۔ اور رات کی جب وہ ڈھانپ دے۔
بعض مفسرین
فرماتے ہیں:ضحیٰ سے جمالِ مصطفٰے کےنور کی طرف اشارہ ہے اور لیل سے مراد حضور ﷺ کے
عنبرین گیسو مبارک کی طرف اشارہ ہے۔( تفسیر صرا ط الجنان،10 /722)
(8)رحمۃاللعٰلمین:وَ مَاۤ
اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (الانبیاء:107)ترجمہ
کنز العرفان:اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کے
لیے رحمت ہی بنا کر بھیجا۔
(9)علمِ غیب ہونا:عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا
یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًاۙ(۲۶)(الجن:26-27)ترجمہ کنز العرفان: غیب کا
جاننے والااپنے غیب پر کسی کو اطلاع نہیں دیتاسوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔
(10)خاتم النبیین ہونا:مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ
اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللہ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ
كَانَ اللہ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) (الاحزاب:40) ترجمہ کنز العرفان:محمد
تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر
میں تشریف لانے والے ہیں۔
میرے نبی کے
اوصاف تو اتنے ہیں کہ ہزاروں کاتبوں کی زندگیاں ختم ہو جائیں، ہزاروں قلموں کی
سیاہی ختم ہو جائے،لیکن تب بھی میرے آقا کریم ﷺ کے اوصاف کا ایک باب بھی پورا نہ
ہو۔اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے توبالآخر یہ فرما دیا کہ
لیکن
رضانے ختمِ سخن اس پہ کر دیا خالق
کابندہ خلق کاآقاکہوں تجھے
10 اوصاف سرکار از بنتِ محمد جاوید،فیضان عبد
الرزاق نورانی بستی حیدر آباد

ہمارے پیارے
نبی،حضرت محمد مصطفٰے ﷺ کو اللہ پاک نے صرف بے مثال حسن و جمال سے ہی نہیں نوازا
تھا،بلکہ پُر اثر خصوصیات و اوصافِ مبارکہ بھی آپ کے وجودِ مبارک کو چار چاند
لگاتے تھے۔ آپ ﷺ کا ہر طریقہ کار، عمل و کردار مسلمان کے لئے عملی نمونے کی کل
ضابطہ حیات ہے۔چنانچہ اللہ پاک نے سورۃ النسآء کی آیت نمبر 59 میں ایمان والوں کے
لیے ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ترجمہ
کنز الایمان:اے ایمان والو!اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔
رسولِ اکرم ﷺ کے اوصافِ کریمہ: حضور اکرم ﷺ
کی شخصیت ایک مومن کے لیے عملی روشنی کی صورت میں ایک خزانہ ہیں۔اس لیے آپ ﷺ کے 10
اوصافِ کریمہ درجہ ذیل ہیں۔جن کا مطالعہ کرکے ہم اپنے کردار و شخصیت کو بہتر بنا
سکتی ہیں:
1- اخلاقِ مبارک:آقا ﷺ
کا اخلاقِ مبارک اس جگنوں کی طرح روشن ہے جس کا دشمن بھی اقرار کرتے تھے۔کیونکہ آپ
اخلاق کے اعلیٰ پیمانے پر فائز ہیں۔چنانچہ آپ کے اخلاقِ حسنہ کا ذکر خود قرآنِ
مجید میں خداوند قدوس نے ان سنہرے حروف میں بیان کیا ہیں: وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) ( پ
29، القلم: 4) ترجمہ کنز الایمان: یعنی اے حبیب ! بلاشبہ آپ اخلاق کے بڑے درجہ پر
ہیں۔
حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپ کے اخلاقِ مبارکہ کے بارے میں یوں
ارشاد فرماتی ہے:کان خلقہ القرآن یعنی تعلیمات قرآن پر پورا پورا عمل یہی آپ ﷺ کے اخلاق تھے۔( دلائل النبوۃ
للبیہقی، 1/309)
2 -حیا:آپ ﷺ
بڑے حیا دار اور بُرائیوں سے پاک تھے۔آپ نے اپنی زندگی میں کبھی فحش چیزوں کے بارے
میں کلام فرمایا نہ ان کی طرف رجوع کیا۔چنانچہ قرآنِ مجید میں ارشادِ ربانی ہے: اِنَّ
ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘- (پ22،
الاحزاب:53) ترجمہ: بےشک اس میں نبی کو ایذا ہوتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے
تھے۔
3- غریب لوگوں کی دعوت
قبول کرنا: حضرتِ
بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:حضور اکرم ﷺ غلاموں کی دعوت کو قبول
فرماتے، جوکی روٹی اور پُرانی چربی کھانے کی دعوت دی جاتی تو آپ ﷺ اس کو قبول فرماتے
تھے۔ مسکینوں کی بیمار پُرسی فرماتے،فقرا کے ساتھ ہم نشینی فرماتے اور اپنے صحابہ
رضی اللہ عنہم کے درمیان مل جل کر نشست فرماتے۔ ( شفا شریف، 1 / 77)
4-قناعت و سادگی: اللہ
پاک نے حضور ﷺ سے فرمایا تھا کہ اے نبی! اگر آپ چاہیں تو ہم آپ کو شاہانہ زندگی عطا
کردیں، لیکن حضور نے اپنے امتیوں کی خاطر اپنی زندگی مبارک قناعت و سادگی میں
گزارنا پسند کی۔
5-عدل:
قریشِ مکہ کا ہر فرد چاہے وہ سردار ہو یا غلام یہ ماننے پر
مجبور تھا کہ آپ جیسا عدل و انصاف کرنے والا کوئی نہیں۔ وہ آپ کو صادق و امین کے
القابات سے پکارا کرتے۔ چنانچہ ایک روایت ہے کہ قبیلہ قریش کے خاندانِ بنی مخدوم
کی ایک عورت نے چوری کی تو انہوں نے حضور اکرم ﷺ کے پاس سفارش کی درخواست حضرت
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں کی۔ آپ یہ سن کر جلال میں آ گئے اور فرمانے
لگے: اے اسامہ!تو اللہ کی مقرر کی ہوئی سزاؤں میں سے ایک سزا کے بارے میں سفارش
کرتا ہے۔ ( بخاری، 2 / 1003)
6-ذکرِ الٰہی میں
مشغول:حضرت
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ ہر وقت ہر گھڑی ہر لحاظ سے ذکرِ الٰہی
میں مصروف رہتے تھے۔ ( سیرتِ مصطفٰے، ص 598)
7-نمازِ تہجد کی
ادائیگی:آپ
ﷺ نے اپنا وقت عبادت کے لیے تقسیم کرلیا تھا۔ جس میں آپ پنج وقت نمازوں کے ساتھ
ساتھ نوافل کی ادائیگی فرماتے اور نماز تہجد بھی پابندی سے ادا فرمایا کرتے۔
8-عمامہ شریف:آپ ﷺ
ٹوپی پر عمامہ شریف باندھتے اور فرمایا کرتے کہ ہمارے اور مشرکین کے درمیان عماموں
میں یہی فرق ہے کہ ہم ٹوپیوں پر عمامہ باندھتے ہیں۔ (ابوداؤد، 4/ 209 )
9-عفو و درگزر: آپ ﷺ
کو دشمنِ اسلام نے بہت اذیتوں سے دوچار کیا۔لیکن آپ نے ہمیشہ عفوو درگزر سے کام
لیا اور انہیں معاف فرماتے رہے۔ روایت ہے کہ جنگِ اُحد میں عتبہ بن ابی وقاص نے آپ
کے دندانِ مبارک شہید کردیے تھے اور عبد اللہ بن قمیۂ نے چہرۂ انوار کو زخمی اور
خون آلود کردیا مگر آپ نے ان لوگوں کے لیے اس کے سوا کچھ نہ فرمایا کہ اے خدا !
میری قوم کو ہدایت دے کیونکہ یہ لوگ مجھے ابھی جانتے نہیں ہیں۔(حقوق ِمصطفٰے، 1 /
105)

اللہ پاک نے آپ ﷺکو طرح طرح کی نعمتوں سے نوازا۔بے شمار
فضیلتوں اور خوبیوں سے سنوارا۔دل و شکل و صورت،جسم و جاں،ظاہر و باطن کو بُری صفات
اور بُری عادتوں سے پاک و صاف اور نیک خصلتوں اور اخلاق حسنہ سے سرفراز فرمایا۔ گویا
آپ تمام اوصاف کو گھیرے ہوئے ہیں۔آپ تمام کمال والی خصلتوں کے جامع ہیں۔آپﷺ اعلیٰ
درجوں اور آخری حدوں کو پہنچے ہوئے ہیں۔
تیرے تو وَصف عیبِ تناہی سے
ہیں بَری حیراں
ہُوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے
قرآنِ کریم میں نبیِ کریم ﷺکے بہت سے اوصاف مبارکہ اللہ
پاک نے بیان فرمائے ہیں جن میں سے چند پیشِ خدمت ہیں:
1-رسول کا حکم ماننا ایسا ہی ہے جیسے اللہ کا حکم ماننا: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ
فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-(پ5،
النسآء: 80) ترجمہ:جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اس نے اللہ کا حکم مانا۔
تفسیر:سرورِ کائنات ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا:جس نے میری اطاعت
کی اُس نے اللہ پاک کی اطاعت کی۔
2-ہمارے آقا ﷺ تمام جہان کےلئے رحمت ہیں: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا
رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ
17، الانبیاء:107)ترجمہ:اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔
تفسیر:اے حبیب ﷺہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر
بھیجا ہے۔
3-ہمارے آقا ﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ
اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (پ21،
الاحزاب:21) ترجمہ:بیشک تمہیں رسولُ الله کی پیروی بہتر ہے۔
تفسیر: سیّد المرسلین ﷺ کی سیرت میں پیروی کیلئے بہترین طریقہ
موجود ہے جس کا حق یہ ہے کہ اس کی اقتدا اور پیروی کی جائے۔
4-ہمارے آقا ﷺسراج ِمنیر اور داعی ہیں: وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ
بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) (پ22،
الاحزاب:46) ترجمہ:اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا او ر چمکا دینے والا آفتاب۔
تفسیر: اور اللہ نے آپ ﷺکو چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجا۔
5:ہمارے آقا ﷺ شاہد یعنی (حاضر و ناظر)اور مبشر و نذیر ہیں: یٰۤاَیُّهَا
النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) (پ21،الاحزاب:45) ترجمہ:اے غیب
کی خبریں بتانے والے(نبی) بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور
ڈر سناتا۔
تفسیر: اللہ پاک نے آپ کو شاہد بنا کر بھیجا ہے۔شاہد کا ایک
معنی ہےحاضر و ناظر یعنی مشاہدہ فرمانے والا اور ایک معنی گواہ بھی ہے۔
6-ہمارے آقا ﷺاللہ کے رسول ہیں: مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ
اللّٰهِؕ- (پ26،الفتح:29) ترجمہ:محمد اللہ کے رسول ہیں۔
تفسیر: اس آیت میں اللہ اپنے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
کی پہچان کروا رہا ہے کہ محمد مصطفٰے ﷺاللہ کے رسول ہیں۔
7-ہمارے
آقا ﷺ خاتم النبیین ہیں: وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ
النَّبِیّٖنَؕ- (پ22، الاحزاب: 40) ترجمہ:ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب
نبیوں میں پچھلے۔
تفسیر: محمد مصطفٰے ﷺ مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن
جیسے جسمانی باپ ہوتا ہے ایسے ہی روحانی باپ بھی ہوتا ہے تو فرمادیا کہ اگرچہ یہ مَردوں
میں سے کسی کے جسمانی باپ نہیں ہیں لیکن روحانی باپ ہیں۔
8-ہمارے آقا ﷺ کا نام احمد ہے: اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ- ( پ28،الصف:06) ترجمہ:ان کا نام احمد ہے۔
تفسیر: ان کا نام احمد ہے۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:پھر جب وہ
احمد کفارکے پاس روشن نشانیاں اور معجزات لے کر تشریف لائے توانہوں نے کہا: یہ
کھلا جادوہے۔
9-باغ کا عطا کیا جانا: تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِیْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا
مَنْ كَانَ تَقِیًّا(۶۳)
(پ16، مریم:63) ترجمہ:یہ وہ باغ ہے جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے
اسے کریں گے جو پرہیزگار ہے۔
تفسیر: یہاں پرہیزگار سے مراد نبیِ کریم ﷺہیں۔
10-ہمارے آقاﷺ گواہ ہیں: وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ
عَلَیْكُمْ شَهِیْدًاؕ-
(پ2،البقرۃ:143) ترجمہ:اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ۔

عام مشاہدہ ہے کہ کسی فرد میں کوئی وصف پایا جاتا ہو تو
اس کا ذکر کبھی اس کی ماں کرتی نظر آتی ہے تو کبھی کوئی اور عزیز۔ مگر جب بات آتی
ہے اُس ہستی کے اوصاف کی جو وجہِ تخلیق کائنات ہیں، ان کے اوصاف خود ان کا مالک و
مولیٰ قرآنِ پاک میں بیان فرماتا ہے۔
آپ وہ نورِ حق ہیں کہ قرآن میں وصفِ رُخ آپ کا وَالضُّحٰی ہوگیا
(قبالۂ بخشش)
1-جہانوں کے لئے رحمت:ارشاد
ہوتا ہے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا
رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ
17، الانبیاء:107)ترجمہ:اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔ یہ آیتِ
مبارکہ تاجدارِ رسالت ﷺ کی عظمت و شان پر بہت بڑی دلیل ہے۔(تفسیر صراط الجنان،6/388)
2-رسول اللہﷺ: مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ- (پ26،الفتح:29) ترجمہ:محمد
اللہ کے رسول ہیں۔ اس آیت میں اللہ پاک اپنے حبیب ﷺکی پہچان کروارہا ہے کہ محمد
مصطفٰےﷺ اللہ پاک کے رسول ہیں۔اللہ پاک نے انہیں یہاں رسالت کے وصف سے یاد فرمایا۔(تفسیر
صراط الجنان،9/ (385
3- گواہ بنا کر
بھیجا: یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ
اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا (پ21،الاحزاب:45)
ترجمہ:اے غیب کی خبریں بتانے والے(نبی) بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر۔آیت کے
اس حصے میں نبیِ کریم ﷺکا ایک وصف بیان فرمایا گیا کہ اللہ پاک نے آپ
کو شاہد بنا کر بھیجا ہے۔شاہد کا ایک معنی ہے حاضر و ناظر یعنی مشاہدہ فرمانے والا
اور ایک معنی ہے گواہ۔(تفسیر صراط الجنان،8/(56
4-بشیر ونذیر: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ
نَذِیْرًا(۵۶) (پ18،الفرقان: 56) ترجمہ: اور
ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا۔یعنی اے حبیب ! ہم
نے آپ کو ایمان و طاعت پر جنت کی خوشخبری دینے والا اورکفرو معصیت پر جہنم کے عذاب
کا ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔(تفسیر خازن، الفرقان: 3 /377)
5- احمدمجتبیٰ: اسْمُهٗۤ
اَحْمَدُؕ- ( پ28،الصف:06) ترجمہ:ان کا نام احمد ہے۔ حضورِ ﷺکا نام
آپ کی تشریف آوری سے پہلے ہی مشہور ہو چکا تھا۔کیونکہ بنی اسرائیل کو باقاعدہ بتا
دیا گیا تھا۔(تفسیر صراط الجنان، جلد 10)
6- نگہبان و گواہ:ا وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ
عَلَیْكُمْ شَهِیْدًاؕ-
(پ2،البقرۃ:143) ترجمہ:اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ۔علامہ اسماعیل حقی رحمۃُ اللہِ علیہ
فرماتے ہیں:حضور پُر نورﷺ کی گواہی یہ ہے کہ آپ ہر ایک کے دینی رتبے اور اس کے دین
کی حقیقت پر مطلع ہیں۔ (تفسیرروح البیان،1/248)
7-مہربانِ امت: لَقَدْ جَآءَكُمْ
رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ
بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) (التوبۃ: 128)ترجمہ کنز
العرفان:بے شک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لائے جن پر تمہارا مشقت
میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے،وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر
بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔ اس
آیت میں آپ ﷺکے اَوصاف اور فضیلت و شرف کا ذکر ہوا۔(تفسیر صراط الجنان،4/271)
8- نوروالے: قَدْ
جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ (پ6،المائدہ:
15) ترجمہ: بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور آگیا۔اس آیت ِمبارکہ میں نور سے
کیا مراد ہے ؟اس بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد سرکارِ دو
عالم ﷺکی ذات والا صفات ہے۔(تفسیر صراط الجنان، 2 / 409)
9-بہترین نمونہ: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ
اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (پ21، الاحزاب:21) ترجمہ:بیشک تمہیں رسولُ الله کی پیروی بہتر ہے۔ اس آیت
کا خلاصہ یہ ہے کہ سیّد المرسَلین ﷺ کی سیرت میں پیروی کیلئے بہترین طریقہ موجود ہے۔
( تفسیر صراط الجنان، 7/ 585)
10-جنت کے وارث ہیں: تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِیْ نُوْرِثُ مِنْ
عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِیًّا(۶۳)
(پ16، مریم:63) ترجمہ:یہ وہ باغ ہے جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے
اسے کریں گے جو پرہیزگار ہے۔یعنی ہم اس جنت کا وارث محمد ﷺ کو بناتے ہیں پس ان کی
مرضی جسے چاہیں عطا فرمائیں اور جس کو چاہیں منع کریں۔دنیا و آخرت میں وہی سلطان
ہیں۔ انہی کے لیے دنیا ہے اور انہی کے لیے جنت (دونوں کے مالک وہی ہیں۔) (اخبار
الاخیار، ص216 )

نبیِ کریم ﷺ اوّل بھی ہیں،آخر بھی ہیں،ظاہر بھی
ہیں،باطن بھی ہیں اور سب کچھ جانتے ہیں۔میرے آقا، محبوبِ رب ذوالجلال ﷺ کی صفاتِ
مبارکہ درجہ کمال تک پہنچتی ہیں یعنی ہر طرح سے کامل و مکمل ہیں۔اس میں کوئی خامی
ہونا تو دور کی بات ہے،خامی کا تصور تک نہیں ہو سکتا۔ کسی نے کیا خوب فرمایا:
عقل والوں کے نصیبوں میں کہاں
ذو قِ جنوں عشق والے ہیں
جو ہر چیز لٹا دیتے ہیں
آقا ﷺ کی شان بہت ہی بلند ہے۔ اللہ پاک نے اپنے قرآن
میں آقا ﷺ کی صفات بیان فرمائی ہیں۔ ان میں سے چند پیشِ خدمت ہیں:
1-آپ کے زمانے کی قسم یاد فرمائی:وَ الْعَصْرِۙ(۱) ( العصر: 1)ترجمہ:اس زمانہ
محبوب کی قسم۔
تفسیر:زمانہ سے مخصوص زمانہ نبی ﷺ کا مراد ہے
جو بڑی خیروبرکت کا زمانہ اور تمام زمانوں میں سب سے زیادہ فضیلت و شرف والا ہے۔
اس میں شانِ محبوبیت کا اظہار ہے۔( تفسیر خزائن العرفان، ص1119)
2-آپ کو خوشخبری دینے والا بنا کر بھیجا: یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ
اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) (پ21،الاحزاب:45) ترجمہ:اے غیب
کی خبریں بتانے والے(نبی) بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور
ڈر سناتا۔
تفسیر: اے حبیب
ﷺ !بے شک ہم نے آپ کو اپنی امت کے اعمال اور احوال کا مشاہدہ فرمانے والا بنا کر
بھیجا تا کہ آپ قیامت کے دن ان کی گواہی دیں اور دنیا میں ایمان والوں اور اطاعت
گزاروں کو جنت کی خوشخبری دینے والا اور کافروں، نافرمانوں کو جہنم کے عذاب کا ڈر
سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔(تفسیرصراط الجنان،9/ 345)
3- بہت سی بھلائیاں عطا کی گئیں: اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ
الْكَوْثَرَؕ(۱) (الکوثر: 1)ترجمہ: اور اے
محبوب بے شک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں۔
تفسیر: یعنی آپ ﷺ کو نسبِ عالی،حوض ِکوثر،کثرت ِاُمّت،اعدائے
دین پر غلبہ بھی،کثرتِ فتوح بھی اور بے شمار نعمتیں اور فضیلتیں عطا فرمائی گئیں
جن کی نہایت نہیں۔ (تفسیر خزائن العرفان، ص 1122)
4- آپ کو نور سے تشبیہ دی گئی: قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ
اللّٰهِ نُوْرٌ (پ6،المائدہ: 15) ترجمہ: بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے
نور آگیا۔
تفسیر: سید عالم ﷺ کو نور فرمایا گیا کیونکہ آپ سے تاریکی کفر
دور ہوئی اور راہ حق واضح ہوئی۔ (خزائن العرفان، ص 213)کسی نے کیا خوب فرمایا:
نبی نوں رب نور کیا تے کوئی نئی حضور جیا
6-آپ کی فرمانبرداری کرنے کا حکم دیا گیا: قُلْ اِنْ
كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ ( اٰل عمرٰن:31 ) ترجمہ: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو
اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا۔
تفسیر: اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک کی محبت کا دعویٰ جب
ہی سچا ہو سکتا ہے، جب آدمی سید عالم ﷺ کا متبع ہو اور حضور کی اطاعت اختیار کرے۔ (تفسیر
خزائن العرفان، ص 110)
7-آپ خاتم النبیین ہیں: قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ
اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَا (الاعراف:
158) ترجمہ: تم فرماؤ اے لوگو میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول ہوں۔
تفسیر: یہ آیت سید عالم ﷺ کے عموم رسالت کی دلیل ہے کہ آپ تمام
خلق کے رسول ہیں اور کل جہاں آپ کی امت۔ (خزائن العرفان،ص 322)
بعد آپ کے ہر گز نہ آئے گا نبی
نیا واللہ!
ایمان ہے میرا، اے آخری نبی
8- آپ گواہ ہیں: وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًاؕ- (پ2،البقرۃ:143) ترجمہ:اور یہ
رسول تمہارے نگہبان و گواہ۔
تفسیر: حضور ﷺ کی گواہی ہی ہے کہ آپ ہر ایک کے دینی رتبے اور
اس کے دین کی حقیقت، اعمال پر مطلع ہیں۔ (تفسیر صراط الجنان، 1 / 225)
9- آپ سارے جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے: وَ مَاۤ
اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ 17، الانبیاء:107)ترجمہ:اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا
مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔
تفسیر: آقا ﷺ نبیوں، رسولوں اور فرشتوں کے لیے رحمت ہیں۔ دین و
دنیا میں رحمت ہیں۔ جنات اور انسان کے لیے رحمت ہیں۔ الغرض عالم میں جتنی چیزیں
داخل ہیں آقا ﷺ ان سب کے لیے رحمت ہیں۔ (تفسیر صراط الجنان، 6/ 386)
10-اللہ پاک سے ملاقات کا شرف آپ
کو حالتِ بیداری میں حاصل ہوا: سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا
مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا
حَوْلَهٗ ( بنی
اسرائیل: 1) ترجمہ: پاکی ہے اسے جو راتوں رات اپنے بندے کو لے گیا مسجدِ حرام سے
مسجدِ اقصیٰ تک جس کے گرد ہم نے برکت رکھی۔
تفسیر:اس سے مراد معجزہ معراج ہے۔یہ حضور ﷺ کا ایسا کمالِ
قربِ ظاہر ہے جو اور کسی کو میسر نہیں۔ ( تفسیرصراط الجنان، 5 /416)
درس: اگر ہم اپنی ساری زندگی بھی آقا ﷺ کے اوصافِ کریمہ بیان
کرنے پر لگا دیں تب بھی ہم آقا کے اوصاف بیان نہیں کر پائیں گی۔ یہ تو صرف چند
اوصافِ کریمہ قرآن پاک سے بیان کیے گیے ہیں۔ اس کے برعکس قرآنِ کریم میں اور بہت
سے اوصاف ہیں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ نبیِ کریم ﷺ کا عشق ہماری نسلوں میں اجاگر ہو
جائے اوربچہ بچہ بول اٹھے:

ہمارے پیارے آقا،مدینے والے مصطفٰے ﷺ پر اللہ پاک کا
فضلِ عظیم جلوہ گر رہا۔ مولائے کریم نے بے شمارنعمتوں سے آپ کو نوازا۔ بے شمار
فضائل و محاسن سے آپ کو سنوارا۔ جسم و جاں، ظاہر و باطن کو رذائل اور خصائلِ قبیحہ
مذمومہ سے پاک صاف کیا۔ یہی ایک ذات جامع البرکات ہے جسے اپنا محبوب خاص فرمایا۔
اوصافِ مصطفٰے:
1- آپ جنت کے وارث ہیں: تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِیْ نُوْرِثُ مِنْ
عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِیًّا(۶۳)
(پ16، مریم:63) ترجمہ:یہ وہ باغ ہے جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے
اسے کریں گے جو پرہیزگار ہے۔ یعنی ہم اس جنت کا وارث محمد ﷺ کو بناتے ہیں پس ان کی
مرضی جسے چاہیں عطا فرمائیں اور جس کو چاہیں منع کریں۔دنیا و آخرت میں وہی سلطان
ہیں۔انہی کے لیے دنیا ہے اور انہی کے لیے جنت۔ (دونوں کے مالک وہی ہیں) (اخبار
الاخیار، ص216 )
2- آپ اللہ کے رسول ہیں: مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ- (پ26،الفتح:29) ترجمہ:محمد اللہ کے رسول ہیں۔ اس آیتِ
مبارکہ میں اللہ پاک اپنے حبیب ﷺ کی پہچان کروا رہا ہے کہ محمد مصطفٰے ﷺ اللہ پاک کے
رسول ہیں۔ (تفسیرصراط الجنان،9/385)
3-آپ خاتم النبیین ہیں: وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ
النَّبِیّٖنَؕ- (پ22، الاحزاب: 40) ترجمہ:ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب
نبیوں میں پچھلے۔ محمد مصطفٰے ﷺ آخری نبی ہیں کہ اب آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے
گا اور نبوت آپ پر ختم ہو گئی ہے۔ (تفسیرصراط الجنان، 8/47)
4-آپ سراج منیر اور داعی ہیں: وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ
بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) (پ22،
الاحزاب:46) ترجمہ:اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا او ر چمکا دینے والا آفتاب۔اس
آیتِ مبارکہ میں حضور ﷺ کے اس وصف کو بیان فرمایا گیا کہ ہزاروں آفتابوں سے زیادہ
روشنی آپ کے نورِ نبوت نے پہنچائی اور کفرو شرک کے ظلماتِ شدیدہ کو اپنے نورِ
حقیقت افروز سے دور کر دیا۔ (تفسیرصراط الجنان، 8 /59)
5-آپ گواہ ہیں: وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًاؕ- (پ2،البقرۃ:143) ترجمہ:اور یہ
رسول تمہارے نگہبان و گواہ۔علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حضور ﷺ
کی گواہی یہ ہے کہ آپ ہر ایک کے دینی رتبے اور اس کے دین کی حقیقت پر مطلع ہیں آپ
لوگوں کے ایمان کی حقیقت، اعمال،نیکیاں وغیرہ کو نورِ حق سے جانتے ہیں۔ (تفسیرصراط
الجنان، 1/225)
6-آپ شاہد یعنی حاضر وناظر اور مبشرو نذیر ہیں: یٰۤاَیُّهَا
النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) (پ21،الاحزاب:45) ترجمہ:اے غیب
کی خبریں بتانے والے(نبی) بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور
ڈر سناتا۔آیت کے اس حصے میں نبیِ کریم ﷺ کا ایک وصف بیان فرمایا گیا کہ اللہ پاک
نے آپ کو شاہد بنا کر بھیجا۔ شاہد کا ایک معنیٰ حاضرو ناظر یعنی مشاہدہ فرمانے
والا اور ایک گواہ ہے۔ (تفسیرصراط الجنان، 8/56)
7-آپ کی زندگی بہترین نمونہ ہے: لَقَدْ كَانَ
لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (پ21،
الاحزاب:21) ترجمہ:بیشک تمہیں رسولُ الله کی پیروی بہتر ہے۔ اس آیتِ مبارکہ کا خلاصہ یہ ہے کہ سید المرسلین ﷺ کی
سیرت میں پیروی کے لیے بہترین طریقہ موجود ہے جس کا حق یہ ہے کہ اس کی اقتدا اور
پیروی کی جائے۔(تفسیرصراط الجنان، 7/585)
8-آپ تمام جہانوں کے لیے رحمت ہیں: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا
رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ
17، الانبیاء:107)ترجمہ:اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔تاجدارِ
رسالت ﷺ نبیوں،رسولوں اور فرشتوں علیہم الصلوۃ و السّلام کے لیے رحمت ہیں۔ دین و
دنیا میں رحمت ہیں۔جنات اور انسانوں کے لیے رحمت ہیں۔الغرض عالَم میں جتنی چیزیں
داخل ہیں سید المرسلین ﷺ ان سب کے لیے رحمت ہیں۔(تفسیرصراط الجنان،6/ 386)
9-ان کا نام ہر جگہ نامِ الٰہی کے برابر ہے: وَ مَا
نَقَمُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖۚ-(پ10،التوبہ:74) ترجمہ کنز الایمان: اور انہیں کیا بُرا لگا یہی نہ کہ
اللہ اور رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کر دیا۔ اس آیت میں غنی کی نسبت اللہ پاک
اور اس کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی طرف کی گئی ہے۔حضور ﷺ کے مدینہ
منورہ میں آنے سے پہلے منافقین تنگدستی کی زندگی گزار رہے تھے۔آپ مدینہ منورہ آئے
تو ان کے صدقے غنیمت میں مال و دولت پاکر یہ منافق خوشحال ہو گئے۔ (تفسیرصراط
الجنان، 4/185)
10-آپ کا نام احمد ہے: اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ- (
پ28،الصف:06) ترجمہ:ان کا نام احمد ہے۔ اس آیتِ مبارکہ میں بتایا گیا کہ آپ ﷺ کا
نام مبارک آپ کی تشریف آوری سے قبل ہی مشہور ہو گیا۔(تفسیرصراط الجنان،
جلد10)الغرض قرآنِ کریم آپ کی مدح و ستائش کا دفتر ہے۔آپ رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن،شَفِیْعُ الْمُذْنَبِیْن،
سُرُوْرُالْقَلْبِ الْمَحْزُوْن ہیں۔ایمان آپ کی محبت و عظمت
کا نام ہے اور مسلمان وہ جس کا کام ہے نامِ خدا کے ساتھ ان کے نام پر تمام۔
ترے
تو وَصف عیبِ تناہی سے ہیں بَری حیراں
ہُوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے