محمد طلحٰہ خان عطّاری (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ
خلفائے راشدین ، راولپنڈی، پاکستان)
انبیائے کرام علیہم السّلام اللہ پاک کی جمیع مخلوقات میں
سے وہ پاک ہستیاں ہیں جن کی سیرت سے ایسی نور کی کرنیں جاری ہوتی ہیں جو گمراہوں
اور بھٹکے ہوؤں کے لئے مشعلِ راہ ہیں۔ یہ وہ روشن ستارے ہیں جن کی ذات اوصافِ
حمیدہ سے پُر اور ان کے روشن افکار پر عمل نحوست کے سمندر میں بھٹکے ہوئے کو کمالِ
روحانیت کے ساحل پر پہنچاتا ہے۔ یہ وہ عظیم عطار ہیں کہ جس کسی کو ان کی صحبت مل جائے
تو اسے نہ صرف زندگی بھر خوشبو دار بنا دیتے ہیں بلکہ قبر میں بھی اور قبر سے حشر
تک اور حشر سے جنت تک کے لئے خوشبوؤں کا مرکز بنا دیتے ہیں۔
انہیں اعلٰی حضرات میں سے ایک حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کی
ذاتِ بابرکت ہے کہ اللہ پاک نے انہیں بھی اعلٰی اوصافِ حمیدہ سے نوازا جن کو قراٰن
مجید میں بھی ذکر فرمایا۔ قراٰن مجید میں ذکر کردہ اوصافِ موسیٰ علیہ السّلام
مندرجہ ذیل ہیں: (1،2)
چنے ہوئے اور نبی رسول : اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ چنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی
رسول تھا ۔(پ 16، مریم:51)اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو ان صفات کے ساتھ
نوازا کے آپ کو چنا ہوا اور برگزیدہ بندہ بنایا اور صرف نبی نہیں بلکہ رسالت بھی
عطا فرمائی۔
(3,4) کلیم اللہ
اور قربِ الٰہی: وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ
الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کیلئے مقرب بنایا۔
(پ16،مریم ،52)تفسیر صراط الجنان میں ہے: اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ
السّلام سے (کوہِ طور پر) بلاواسطہ کلام فرمایا اور آپ علیہ السّلام ”
کلیمُ اللہ “ کے شرف سے نوازے گئے ۔آپ علیہ السّلام کو مرتبۂ قرب عطا فرمایا گیا
، حجاب اٹھا دئیے گئے یہاں تک کہ آپ نے قلموں کے چلنے کی آواز سنی اور آپ علیہ
السّلام کی قدر و منزلت بلند کی گئی۔(صراط الجنان، 6/119)
(5)مستجاب الدعواة: وَ وَهَبْنَا لَهٗ
مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا
جو نبی تھا۔(پ16،مریم:53) صراط الجنان میں
ہے : یعنی جب حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے اللہ پاک سے دعا کی کہ میرے گھر
والوں میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنا تو اللہ پاک نے ان کی یہ دعا
قبول فرمائی اور اپنی رحمت سے حضرت ہارون علیہ السّلام کو نبوت عطا کی۔(
صراط الجنان، 6/120)
(6) وجاہت: وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور موسیٰ
اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔(پ22،الاحزاب:69)یعنی حضرت موسیٰ علیہ
السّلام اللہ پاک کے نزدیک بہت بلند و بالا مقام رکھتے ہیں۔ (7)کامل الایمان: اِنَّهُمَا مِنْ
عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے
بندوں میں سے ہیں ۔ (پ23، الصّٰٓفّٰت :122)حضرت موسیٰ علیہ اسلام کو یہ وصف بھی حاصل تھا کہ آپ علیہ
السّلام اور آپ کے بھائی ہارون علیہ السّلام دونوں کامل ایمان والے ہیں جو کہ سب
سے بڑی فضیلت اور سب سے بڑا شرف ہے۔
صفاتِ مذکورہ پر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ
پاک نے حضرت موسیٰ علیہ اسلام کو بہت اعلٰی و عرفہ مقام و مرتبہ عطا فرمایا اور
کیوں نہ ہو کہ وہ تو نہ صرف نبی بلکہ رسولوں میں بھی اولوالعزم رسول( بلند رتبہ
رسل) ہیں۔ یہاں کچھ صفات ایسی ذکر ہوئیں جو انبیا کے ساتھ خاص ہیں۔ جیسے اللہ پاک
کے ساتھ کلام کرنا اور کچھ ایسی صفات ہیں جو عام مؤمن اپنے درجے کے مطابق ان صفات
کا حامل ہو سکتا ہے۔ جیسے یہاں ذکر ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کامل ایمان
والے تھے اور مستجاب الدعوات، قربِ الہی پانے والے اور وجاہت والے تھے۔ ان تمام
صفات سے کا حامل شخص صرف و صرف کامل ایمان والا ہی ہو سکتا ہے۔ اسی لئے ہمیں بھی
علمِ دین سیکھتے ہوئے اور گناہوں سے بچ کر نیکیاں کرتے ہوئے اپنی زندگی گزارنی
چاہیے تو ان شاء اللہ ہم بھی کامل ایمان والے بن جائیں گے اور بقیہ صفات کے حامل
بھی۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں علمِ دین سیکھنے اور گناہوں سے
بچتے ہوئے نیکیوں والی زندگی گزارنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم