اللہ پاک کے پیارے نبی حضرت موسیٰ علیہ السّلام اِنتہائی
شان و شوکت والے نبی ہیں۔ قراٰنِ کریم کے کئی پاروں اور آیاتِ مقدَّسہ میں بڑے
شاندار انداز کے ساتھ آپ کا ذِکْرِ خیر و صفات مبارکہ بیان ہوئی ہیں۔ آپ کا نامِ
مبارک قراٰنِ کریم میں 136 بار ذِکْر کیا گیا ہے۔ آپ کو اللہ پاک کی طرف سے ایک
آسمانی کتاب تَورات عطا کی گئی۔ آپ نے اللہ پاک سے کئی مرتبہ کلام کرنے کا شرف
پایا اِسی لئے آپ کو کلیمُ اللہ بھی کہا جاتا ہے۔
مختصر تعارف: حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے والد کا نام عمران ہے۔ آپ حضرت
اِبراہیم علیہ السّلام کی اولاد میں سے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام حضرت یوسف علیہ
السّلام کے وِصال سے چار سو (400) سال اور حضرت اِبراہیم علیہ السّلام سے سات
سو(700) سال بعد پیدا ہوئے۔ آپ نے ایک سو بیس (120)سال عمر پائی۔ (البدایہ
والنہایہ ، ذکر قصۃ موسی الکلیم علیہ الصلاۃ والتسلیم ، 1/326 -تفسیرِ صاوی ، الاعراف
، تحت الآیۃ : 103 ، 2/696 ، ملتقطاً)۔
(1)چنے ہوئے برگزیدہ بندے: حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السّلام اللہ
پاک کے چُنے ہوئے برگزیدہ بندے نبی اور رسول تھے۔ جیسا کہ اللہ پاک نے قراٰنِ پاک
کے پارہ 16 سورہ مریم کی آیت نمبر 51 میں ارشاد فرمایا: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ
مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بیشک وہ چنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا ۔(پ 16،
مریم:51)
(2️) وجاہت
والے پیغمبر: حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السّلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت
یعنی بڑے مقام والے اور مستجاب الدعوات تھے۔ جیسا کہ اللہ پاک نے پارہ 22 سورۃُ
الاحزاب آیت نمبر 69 میں ارشاد فرمایا: وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ
وَجِیْهًاؕ(۶۹) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور موسیٰ
اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔(پ22،الاحزاب:69) آیت کے اس حصے میں حضرت موسیٰ علیہ
السّلام کی شان بیان فرمائی گئی کہ آپ اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت والے تھے
یعنی بڑے مقام والے تھے اور اِس مقام میں یہ بات بھی داخل ہے کہ آپ علیہ السّلام مُسْتَجَابُ
الدَّعْوَات تھے یعنی آپ کی دعائیں قبول ہوتی تھیں۔(خازن، الاحزاب،
تحت الآیۃ: 69، 3/513)
️(3)
ہم کلامی کی صفت: حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السّلام کو اللہ پاک نے کسی واسطے کے بغیر
ہم کلام ہونے کا شرف عطا فرمایا اسی لئے آپ کو کلیمُ اللہ کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ قراٰن
مجید میں ہے: وَ كَلَّمَ اللّٰهُ
مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور
اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔(پ6،النساء:164)
وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ: اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا ۔) طور ایک
پہاڑ کا نام ہے جو مصر اور مَدْیَن کے درمیان ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو مدین
سے آتے ہوئے طور کی اس جانب سے جو حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے دائیں طرف تھی ایک
درخت سے ندا دی گئی: یّٰمُوْسٰۤى
اِنِّیْۤ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۳۰) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے موسیٰ میں ہی اللہ ہوں ، تمام
جہانوں کا پالنے والا ۔
اس کے بعد اللہ پاک
نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے بلاواسطہ کلام فرمایا اور آپ علیہ السّلام کلیمُ اللہ
کے شرف سے نوازے گئے ۔آپ علیہ السّلام کو مرتبۂ قرب عطا فرمایا گیا ، حجاب اٹھا
دئیے گئے یہاں تک کہ آپ نے قلموں کے چلنے کی آواز سنی اور آپ علیہ السّلام کی
قدرو منزلت بلند کی گئی۔(صراط الجنان، 6/119)
️(4)
شرم و حیا کے پیکر: حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السّلام کی صفات میں سے ہے کہ آپ بہت
زیادہ حیا فرمانے والے تھے اللہ پاک نے آپ کو بے عیب پیدا فرمایا آپ کے بے عیب
ہونے اور شرم و حیا کی گواہی ایک پتھر سے دلوائی چنانچہ: کتاب "عجائبُ القراٰن
مع غرائب ُالقراٰن “ میں لکھا ہے : ایک ہاتھ لمبا ایک ہاتھ چوڑا چوکور پتھر تھا ،
جو ہمیشہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے جھولے میں رہتا تھا۔ اُس مبارَک پتھر کے
ذریعہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے 2 معجزات کا ظُہور ہوا۔ جن کا تذکرہ قراٰنِ کریم
میں بھی ہوا ہے۔ اُس پتھر کا پہلا عجیب کارنامہ جو درحقیقت حضرت موسیٰ علیہ
السّلام کا معجزہ تھا وہ اُس پتھر کی دانشمندانہ لمبی دوڑ ہے اور یہی مُعْجِزَہ
اُس پتھر کے ملنے کی تاریخ ہے۔ اللہ پاک نے اِس واقعہ کا ذِکْر قراٰن مجید میں اِس
طرح بیان فرمایا : یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ
اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْاؕ-وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! ان لوگوں جیسے نہ
ہونا جنہوں نے موسیٰ کو ستایا تو اللہ نے موسیٰ کا اس شے سے بری ہونا دکھا دیا جو
انہوں نے کہا تھا اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔(پ22،الاحزاب:69) (عجائب
القراٰن مع غرائب القراٰن، ص 29)
(5) اُلُوا الْعَزْم رسول: حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السّلام کا شمار اُلُوا الْعَزْم یعنی
ہمت والے رسولوں میں ہوتا ہے۔ جیسا کہ قراٰن مجید میں ہے: فَاصْبِرْ
كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ ترجَمۂ
کنزُالایمان: تو تم
صبر کرو جیسا ہمت والے رسولوں نے صبر کیا۔(پ26،الاحقاق:35) صدرُا لشّریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :نبیوں کے
مختلف درجے ہیں ، بعض کو بعض پر فضیلت ہے اور سب میں افضل ہمارے آقا و مولیٰ
سیِّدُالمرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں ، حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم) کے بعد سب سے بڑا مرتبہ حضرت ابراہیم خَلِیلُ اللہ علیہ السّلام کا ہے، پھر
حضرت موسیٰ علیہ السّلام، پھر حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اور حضرت نوح علیہ السّلام
کا، اِن حضرات کو مُرْسَلِیْنِ اُلُوا الْعَزْم کہتے ہیں اور یہ پانچوں حضرات باقی تمام انبیا و مُرسَلین ،اِنس و مَلک و جن
و جمیع مخلوقاتِ الٰہی سے افضل ہیں ۔( بہار شریعت، حصہ اول، 1 / 52-54)
اللہ پاک ہمیں حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السّلام اور دوسرے
تمام انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ و السّلام کی سیرت کا مطالعہ کرنے اور ان سے سچی
پکی محبت رکھنے اور ان کی تعظیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
نوٹ: انبیائے کرام علیہم الصلاۃ و السّلام کی سیرت پڑھنے کرنے کے
لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب سیرتُ الانبیاء کا مطالعہ کیجئے۔