الله پاک نے
اپنی مخلوق کی رشد و ہدایت کے لئے انبیا علیہمُ
الصّلوٰۃ ُوالسّلام کو مختلف اقوام کی طرف مبعوث فرمایا جن میں سے بعض کا تفصیلی ،
بعض کا اجمالی بیان اپنے کلامِ پاک میں ذکر بھی کیا ہے ، ان سب میں افضل و اعلیٰ ،
اللہ پاک کے آخری نبی ہمارے پیارے آقا و مولیٰ حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم ہیں ۔
انبیائے کرام علیہم السّلام پورے عالَم میں عظیم ترین ہستیاں ہیں، دنیا جہاں
میں ان کا کوئی مقابل نہ ہی ثانی ہے ، انبیائے کرام علیہم السّلام کی سیرت اور
صورت ہر انسان سے اعلی ٰ اور عمدہ ہے ۔ مخلوق میں سے جس کا چاہے جتنا بھی وصف ا
چھا ہو انبیائے کرام علیہم السّلام ان سے کروڑوں درجے اچھے اوصاف کے حامل ہیں ۔
آج جس ہستی کا ذکر کریں گے وہ ایک نبی اور رسول ہیں ،جنہیں کثیر معجزات عطا
کئے گئے ، جن کا قراٰن مجید میں کئی بار ذکر آیا ہے ،جن کو اللہ پاک سے ہم کلام
ہونے کا شرف ملا ۔میری مرادی شخصیت وہ سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علی نبینا و علیہ
الصلاۃ و السّلام ہیں ۔آئیے آپ علیہ السّلام کے اوصاف قراٰن کی روشنی میں دیکھیں
۔
(1) کتاب والے: وَ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی۔(پ 15، بنی اسرائیل: 2) ( یعنی تورات شریف)(2) چنا ہوا: اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک وہ چنا ہوا تھا۔(پ
16، مریم:51) (3) غیب بتانے والے رسول : وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا ترجَمۂ کنزُالایمان: اور
رسول تھا غیب کی خبریں بتانے والا۔(پ 16، مریم:51)
(4) آپ کی دعا کا قبول ہونا : وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ
نَبِیًّا(۵۳)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔(پ16،مریم:53)(5) غلبہ عطا ہوا : وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ دیا۔(پ6،النساء:153) تفسیر : حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو روشن غلبہ وتَسلُّط عطا فرمایا
گیا کہ جب آپ علیہ السّلام نے بنی اسرائیل کو توبہ کے لئے خود ان کے اپنے قتل کا
حکم دیا تو وہ انکار نہ کر سکے اور انہوں نے آپ علیہ السّلام کی اطاعت کی۔(تحت
الآیت ِ مذکورہ پارہ 6 سورہ النساء آیت 153، از صراط الجنان )
(6)رب سے ہم کلام : وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور
اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔(پ6،النساء:164)تفسیر: مذکورہ آیت کے تحت مفتی قاسم صاحب دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ فرماتے ہیں:آیت کے اس حصے سے دو مسئلے معلوم
ہوئے :ایک یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام انبیائے بنی اسرائیل میں بہت شان والے
ہیں کہ ان کا ذکر خصوصیت سے علیحدہ ہوا۔ دوسرا یہ کہ اللہ پاک نے بعض انبیا کو خاص
عظمتیں بخشی ہیں ، ایک نبی کی خصوصیت تمام نبیوں میں ڈھونڈنا غلطی ہے جیسے ہر نبی
کلیم اللہ نہیں ۔(پارہ 6 سورہ النساء آیت 164،تحت الآیت ِ مذکورہ )
(7)آپ کا عصا مبارک : فَاَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ
الْبَحْرَؕ-فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِۚ(۶۳) ترجمۂ
کنزُالعِرفان: تو ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ دریا پر اپنا عصا مارو تو اچانک
وہ دریا پھٹ گیا تو ہر راستہ بڑے پہاڑ جیسا ہو گیا۔ (پ19، الشعراء : 63)
وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنْ اَلْقِ
عَصَاكَۚ-فَاِذَا هِیَ تَلْقَفُ مَا یَاْفِكُوْنَۚ(۱۱۷) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم
نے موسیٰ کو وحی فرمائی کہ اپنا عصا ڈال تو ناگاہ وہ ان کی بناوٹوں کو نگلنے لگا۔(پ9،الاعراف:117) مفتی نعیم الدین مرادآبادی رحمۃُ اللہِ علیہ اس آیت کے
تحت لکھتے ہیں :جب حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے اپنا عصا ڈالا
تو وہ ایک عظیمُ الشّان اَژدہا بن گیا ۔ ابنِ زید کا قول ہے کہ یہ اجتماع
اِسکندریہ میں ہوا تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے اَژدھے کی دُم سَمُندر کے
پار پہنچ گئی تھی ، وہ جادو گَروں کی سِحر کاریوں کو ایک ایک کر کے نِگل گیا اور
تمام رَسّے و لَٹّھے جو انہوں نے جمع کئے تھے جو تین سو اُونٹ کا بار تھے سب کا
خاتِمہ کر دیا ، جب موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسّلام نے اس کو دستِ مبارَک میں لیا تو
پہلے کی طرح عصا ہو گیا اور اس کا حجم اور وَزن اپنے حال پر رہا ، یہ دیکھ کر جادو
گَروں نے پہچان لیا کہ عصائے موسیٰ سِحر نہیں اور قدرتِ بَشَری ایسا کرشمہ نہیں
دِکھا سکتی ، ضرور یہ اَمرِ سَماوی ہے ۔ یہ بات سمجھ کر وہ ’’اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ “کہتے ہوئے سجدے میں گر گئے ۔(پارہ 9 سورہ اعراف مذکورہ آیت کے تحت )
(8)نو روشن نشانیاں: وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا
مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بےشک ہم نے موسیٰ کو نو روشن
نشانیاں دیں۔(پ15،بنی اسرائیل:101)تفسیر : حضرت ابنِ عباس رضی اللہُ عنہما نے فرمایا وہ نو 9 نشانیاں
یہ ہیں: (1) عصا (2) یدِ بیضا (3) وہ عُقدہ جو
حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی زبانِ مبارک میں تھا پھر اللہ پاک نے اس کو حل فرمایا
(4) دریاکا پھٹنا اور اس میں رستے بننا (5) طوفان (6) ٹیڑی (7)گھن (8) مینڈک (9)
خون ۔ (پارہ 15 سورہ بنی اسرائیل ، آیت 101، تحت الآیت )
(9)بڑی وجاہت والے : وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) ترجَمۂ کنزُالایمان: موسیٰ اللہ کے یہاں
آبرو والا ہے ۔(پ22،الاحزاب:69)
مفتی قاسم صاحب دامت برکاتہم العالیہ اس آیت کے حصے میں فرماتے ہیں : آیت کے اس
حصے میں حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی شان بیان فرمائی گئی کہ آپ اللہ پاک کی
بارگاہ میں بڑی وجاہت والے تھے یعنی بڑے مقام والے تھے اور اِس مقام میں یہ بات
بھی داخل ہے کہ آپ علیہ السّلام مُسْتَجَابُ الدَّعْوَات تھے یعنی آپ کی دعائیں قبول ہوتی تھیں۔(پارہ 22 سورہ
الاحزاب آیت ،69،تحت الآیت )
(10)قربِ خاص: وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسے
اپنا راز کہنے کو قریب کیا۔(پ16،مریم:
52) آپ علیہ السّلام کو
مرتبۂ قرب عطا فرمایا گیا ، حجاب اٹھا دئیے گئے یہاں تک کہ آپ نے قلموں کے چلنے
کی آواز سنی اور آپ علیہ السّلام کی
قدرو منزلت بلند کی گئی۔(پارہ 16 ، سورہ مریم ، آیت 52،تحت الآیت مذکورہ از صراط
الجنان)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ان صفات پر عمل پیرا ہونے کی
توفیق عطا کرے ،ان صفات کو صحیح معنی و مفہوم میں آگے پہنچانے کی توفیق دے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم