اللہ پاک نے حضرتِ سیِّدُنا آدم علیہ السلام کی پیدائش
کے بعد تمام فرشتوں اور شیطان کوحکم دیا کہ اِن کو سجدہ کریں تو تمام فرشتوں نے
حکمِ خداوندی کی تعمیل میں سجدہ کیا۔ فرشتوں میں سے سب سے پہلے سجدہ کرنے والے حضرتِ سیِّدُنا جبرائیل پھر حضرتِ
سیِّدُنامیکائیل ، حضرتِ سیِّدُنا اِسرافیل پھر حضرتِ سیِّدُنا عِزرَائیل پھر دیگر
مقرَّب فرشتے(علیہم السلام) تھے۔ مگر اِبلیس نے انکار کردیا اور تکبر کر کے کافِروں میں سے ہوگیا۔ جب اللہ
پاک نے اِبلیس سے اس کے اِنکار کا سبب دریافت فرمایا تو تکبر کر کہنے
لگا : اَنَا خَیْرٌ
مِّنْهُۚ-خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ(۱۲)ترجمہ کنزالایمان: میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے
بنایا اور اس ے مٹی سے بنایا (پ8،الاعراف:12) اللہ ربُّ العزت نے اِبلیس کو اپنی بارگاہ سے
دُھتکارتے ہوئے اِرشاد فرمایا : قَالَ فَاخْرُ جْ
مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِیْمٌۚۖ(۷۷) وَّ اِنَّ عَلَیْكَ لَعْنَتِیْۤ اِلٰى یَوْمِ الدِّیْنِ(۷۸) ترجمۂ کنزالایمان : فرمایا تو جنّت سے نکل جا کہ تو راندھا(لعنت کیا) گیا اور بےشک تجھ پر میری
لعنت ہے قیامت تک ۔(پ23 ، صٓ : 77، 78)
جہنم میں لے جانے والے گناہوں میں سے ایک تکبر بھی ہے جس کا عِلم سیکھنا فرض ہے چنانچہ اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد
رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فتاویٰ رضویہ جلد 23 صفحہ 624 پر لکھتے ہیں : مُحَرَّمَاتِ باطِنِیَّہ(یعنی باطنی ممنوعات) مَثَلاً تکبر و
رِیا وعُجب وحَسَد وغیرہا اور اُن کے مُعَالَجَات(یعنی عِلاج) کہ ان کا عِلم (یعنی
جاننا)بھی ہر مسلمان پر اہم فرائض سے ہے ۔(فتاوٰی رضویہ مخرجہ، 23/624)
تکبر کسے کہتے ہیں ؟: خُود کو افضل، دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے ۔چنانچہ رسولِ اکرم نُورِ
مجسّم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا : اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ
النَّاسِ یعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نا م
ہے۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبروبیانہ، حدیث : 91، ص61) اِمام
راغب اِصفہانی علیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ذٰلِکَ اَن یَّرَی الْاِنْسَانُ
نَفْسَہٗ اَکْبَرَ مِنْ غَیْرِہِ۔یعنی تکبر یہ ہے
کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے۔ (المُفرَدات للرّاغب ص697) متکبر
کا دل عاجزی جیسی نعمت سے محروم رہ جاتا
ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھتا ہے حالانکہ انسان کی اصل بھی مٹی
اور آخر بھی مٹی ہے تو پھرتکبر کس بات پر کرنا ۔
5 فرامین مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(1) بد ترین شخص: تکبر کرنے والے کو بدترین شخص قرار دیا گیا ہے چنانچہ
حضرتِ سیِّدُنا حُذَیفہ رضی اللہُ عنہ ارشاد
فرماتے ہیں کہ ہم آخری نبی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ ایک جنازے میں
شریک تھے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا : کیا میں تمہیں اللہ پاک کے بدترین بندے کے بارے میں
نہ بتاؤں ؟ وہ بداَخلاق اورمتکبر ہے، کیا میں تمہیں اللہ پاک کے سب سے بہترین بندے کے
بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ کمزور اورضَعیف سمجھا جانے والا بوسیدہ لباس پہننے والا
شخص ہے لیکن اگر وہ کسی بات پر اللہ پاک کی قسم اٹھالے تو اللہ پاک اس کی قسم ضَرور پوری
فرمائے۔(المسندللامام احمد بن حنبل، 9 / 120، حدیث: 23517)
(2)قیامت میں رُسوائی: تکبر کرنے والوں کو قیامت کے دن ذلت ورُسوائی کا
سامنا ہوگا ، چنانچِہ دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند ا ٹھایا جائے
گا، ہر جانب سے ان پر ذلّت طاری ہو گی، انہیں جہنم کے ’’ بُولَس‘‘ نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا
اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لیکر
ان پر غالب آ جائے گی، انہیں ’’طِیْنَۃُ
الْخَبَال یعنی جہنمیوں کی پیپ ‘‘پلائی جائے گی۔(جامع الترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، باب
ماجاء فی شدۃ الخ، 4/221، حدیث: 2500)
(3) ٹخنے سے نیچے پاجامہ لٹکانا:فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبندلٹکائے گا اللہ پاک قِیامت کے دن اس پر نظرِ رحمت نہ فرمائے گا۔(صحیح البخاری، کتاب
اللباس، باب من جرثوبہٗ من الخیلائ، 4 /46،
حدیث: 5788)
اسی لیے ہمیں سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنت پر عمل کرنا چاہیے وہ یہ کہ ٹخنوں سے
شلوار کو اونچا رکھے ۔امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ ایک مدنی مذاکرے میں
ارشاد فرماتے ہیں کہ تم کس کس کو بتاؤں گے کہ میں تکبر کی وجہ سے شلوار کو نیچے نہیں کر رہا لہذا سنت پر عمل کرنا چاہیے ۔
(4)جنّت میں داخِل نہ
ہوسکے گا: فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : جس کے
دل میں رائی کے دانے جتنا(یعنی تھوڑا سا) بھی تکبر ہو گا وہ جنّت میں داخل نہ
ہوگا۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبروبیانہ، ص60، حدیث : 147) حضرتِ علّامہ مُلّا علی قاری علیہ رحمۃُ اللہ الباری لکھتے ہیں : جنّت میں داخل نہ ہونے سے مُراد یہ ہے کہ تکبر کے ساتھ کوئی جنّت میں داخل نہ ہو گا بلکہ تکبر اور ہر بُری خصلت سے عذاب بھگتے گا یا اللہ پاک کے عَفْو و کرم سے پاک و صاف ہو کر جنّت
میں داخِل ہو گا۔(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الآداب، باب الغضب والکبر، 8/828، 829)
(5) اپنا ٹھکانہ جہنَّم
میں بنا لے:فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : جس کی یہ خوشی ہو کہ لوگ میری تعظیم کے لیے
کھڑے رہیں ، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنائے۔(جامع الترمذي، کتاب الادب، 4/347،حدیث
: 2764)
متکبر کو چاہیے کہ وہ شیطان کے انجام سے ہی عبرت حاصل کریں کہ بہت بڑا فرشتوں کا
استاد ہونے کے باوجود تکبر کی وجہ سے کافر ہوا اور ان روایات سے سبق حاصل کرے اور تکبر کرنے سے رک جائیے ۔
اسی درخت کو پھل زیادہ لگتا جو جھکا رہتا
ہے اسی طرح انسان کو چاہیے کہ عاجزی اختیار کرے اور رب کے ہاں خوف اور ڈر کرے تو آخرت میں جنّت میں ہمیشہ رہے ورنہ تکبر
کرنے کی وجہ جہنم میں جائے گا۔ متکبر کو اپنی پیدائش کی حقیقت کی طرف نظر کرنی چاہیے کہ انسان کی حقیقت ایک گندا پانی ہے۔
منیر حسین عطّاری مدنی(متخصص فی الفقہ،اسلامک ریسرچ سینٹر
،فیصل آباد،پاکستان)
اللہ پاک تکبر کی مذمت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ
الْمُسْتَكْبِرِیْنَ(۲۳) ترجمہ کنزالایمان: بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔(پ14،النحل:23)یاد
رہے! اپنے آپ کو دوسرے سے افضل سمجھنا تکبر ہے۔(المفردات ، ص439) مثلاً امیر کا غریب کو گھٹیا سمجھنا ، بڑے عُہدے والے کا
چھوٹے عُہدے والے کو اپنے سے کم تَر جاننا وغیرہ ۔ تکبر حرام ہے اور عظیم کبیرہ
گُنَاہ ہے ۔(فتاوی
رضویہ ،23/614) جس کی مذمت پر کئی فرامین مصطفٰے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلم وارد ہیں ، آئیے ان میں سے پانچ
ملاحظہ کیجئے!
پہلی
روایت: اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلی اُمتوں میں سے ایک شخص
تکبر سے اپنا تہبند گھسیٹتا ہوا چل رہا تھا کہ اسے زمین میں دھنسا دیا گیا اب وہ
قیامت تک زمین میں دھنستا ہی رہے گا۔ (سنن النسائی،کتاب الزینۃ،باب التغلیط فی جرّالازار،حدیث:5328،ص2428)
دوسری روایت: اللہ پاک کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے: اللہ کریم تکبر سے اپنا تہبند
لٹکانے والے پر نظرِ رحمت نہیں فرماتا۔(صحیح مسلم،کتاب اللباس،باب
تحریم جر الثوب خیلاء ، حدیث:2085،ص1051)
تیسری روایت: اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :جس کے دل میں رائی کے دانے
جتنا بھی تکبر ہو گا وہ جنّت میں داخل نہ ہوگا۔ عرض کی گئی : آدمی تو یہ بات پسند
کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اور جوتے اچھے ہو۔ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :بے شک اللہ پاک جمیل ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے۔
(صحیح مسلم، کتاب الایمان،باب تحریم الکبروبیانہ، حدیث:266، ص 694)
چوتھی روایت: اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ مغفرت نشان ہے :جس کے دل میں رائی
کے دانے جتنا بھی ایمان ہوگا وہ جہنم میں داخل نہ ہوگا اور جس کے دل میں رائی کے
دانے جتنا تکبر ہو گا وہ جنّت میں داخل نہ ہو گا۔ (صحیح مسلم،
کتاب الایمان،باب تحریم الکبروبیانہ،حدیث:266،ص694)
پانچویں روایت: نور کے پیکر صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے :آدمی تکبر کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے جبارین میں
لکھ دیا جاتا ہے پھر اسے بھی وہی مصیبت پہنچتی ہے جو دوسرے جبارین کو پہنچی تھی۔(جامع
الترمذی،ابواب البر والصلۃ، باب ماجاء فی الکبر،حدیث:2000،ص1852)
پیارے اسلامی بھائیو ! جس طرح تکبر کی مذمت بیان کی گئی یوں
ہی اس سے بچنے کے فضائل بھی ہے ،آیئے ایک فضیلت سنئے،حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص تکبر، خِیانت اور
دَین (یعنی قرض وغیرہ)سے بَری ہوکر مرے گا وہ جنّت میں داخل ہوگا۔(سنن
ابن ماجہ، کتاب الصدقات، باب التشدید فی الدین،3/144 ، حدیث: 2412)
اللہ پاک کی بارگاہ عالیہ میں دعا ہے کہ ہمیں تکبر سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور
عاجزی والے آقا کا صدقہ عاجزی اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
تکبر کی تعریف ؟:تکبر یہ ایک ناپسند دیدہ عمل ہے ۔جو کہ بہت ہی بُڑا سمجھا
جاتا ہے۔کہ تکبر اسے کہتے ہیں کہ اپنے آپ کو بَڑا سمجھنا اور دوسروں کو اپنے آپ سے
چھوٹا سمجھنایعنی حقیر سمجھنا۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک
روایت میں ارشاد فرمایا کہ تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ اللہ
پاک تکبر کو پسند نہیں فرماتا۔ چنانچہ تکبر کرنے والوں کی مذمت پر اللہ پاک قراٰن
مجید میں فرماتا ہے:
كَذٰلِكَ یَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ(۳۵)ترجمۂ کنزالایمان :اللہ یوں ہی مہر کر دیتا ہے متکبر سرکش کے سارے دل پر۔(پ 24، المؤمن: 35)
(1) دو جہاں کے تاجور سلطان بحربر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکا
فرمان عالیشان ہے کہ اللہ پاک قیامت کے دن تین شخصوں سے نہ کلام فرمائے گا نہ ہی
انہیں پاک کرے گا اور نہ ہی ان پر نظر رحمت فرمائے گا بلکہ ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا اور وہ تین شخص یہ ہیں: بوڑھا زانی،
متکبر فقیر، جھوٹا بادشاہ۔(جہنم میں لےجانےوالےاعمال،حدیث37 ،ص234(
(2)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بے شک
اللہ پاک اس بیس سالہ نوجوان کو پسند فرماتا جو کمزوری اور تواضع میں 80 سالہ بوڑھے جیسا ہو اور 60 سالہ بوڑھے
کو پسند نہیں فرماتا جو چال ڈھال میں 20 سالہ نوجوان جیسا ہو ۔(جہنم میں لے جانے
والے اعمال، حدیث 44،ص235)
(3) حضرت سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے ایک
مرتبہ آپ رضی اللہُ عنہ بازار سے اس حالت میں گزرے کہ آپ رضی اللہُ عنہ نے سر پر
لکڑیوں کی گٹھڑی اٹھا رکھی تھی۔ تو آپ رضی اللہُ عنہ سے پوچھا گیا جب اللہ پاک نے
آپ رضی اللہُ عنہ کو اس سے بے نیاز کردیا ہے تو پھر آپ رضی اللہُ عنہ کو گٹھڑی اٹھانے
پر کس چیز نے آمادہ کیا؟ تو آپ رضی اللہُ عنہ نے ارشاد فرمایا: میں نے آپ سے تکبر
دور کرنے کے لیے ایسا کیا کیوں کہ میں نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جس کے دل میں رائی کے برابر تکبر ہوگا وہ جنّت میں داخل
نہ ہوگا۔(جہنم میں لے جانے والے اعمال،حدیث68،ص239)
(4) سب سے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا
کہ اللہ پاک متکبرین اور ناز و نخرے سے چلنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے۔(جہنم میں
لے جانے والے اعمال، حدیث28: ، ص233)
(5) نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ بے شک قیامت کے دن تم میں سے میرے سب
سے نزدیک اور پسند دیدہ وہ شخص ہوگا جو تم میں سے اخلاق میں سب سے زیادہ اچھا
ہوگا۔ اور قیامت کے دن میرے نزدیک سے سب سے قابل نفرت اور میری مجلس سے دور وہ لوگ
ہوں گے جو واہیات بکنے والے، لوگوں سے
ٹھٹھا کرنے والے اور مُتَفَیْھِق ہیں۔صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا :یا رسول
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بے ہودہ بکواس بکنے والے اور ٹھٹھا کرنے والوں کو تو ہم
نے جان لیا مگر مُتَفَیْھِق کون ہیں؟ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اس سے مراد ہر تکبر کرنے والا شخص ہے۔(جہنم میں لے جانے والے
اعمال،حدیث75،ص241)
اللہ پاک ہمیں ان احادیث پر عمل کرنے کو توفیق عطا فرمائیں
اور تکبر جیسی گندی بیماری سے بھی محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد عرفان اشرف(درجہ رابعہ،جامعۃ المدینہ فیضان غوث
اعظم ،قصور،پاکستان)
تکبر کی تعریف:خود کو افضل اور
دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے۔چنانچہ سب سے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا۔ اَلْکِبْرُ
بَطرُ الْحَقِّ و غَمطُ النَّاسِ ترجمہ تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا
نام ہے۔ امام راغب اصفہانی رحمۃُ اللہِ علیہ
لکھتے ہیں:تکبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے۔ جس کے دل میں تکبر
پایا جائے اسے متکبر اور مغرور کہتے ہیں۔ ( المفردات للرّاغب،ص 298)
تکبر کی اقسام: تکبر کی تین اقسام ہیں۔(1) اللہ
پاک کے مقابلے میں تکبر کرنا۔
(2) نبی کے مقابلے میں تکبر کرنا۔ (3) بندے کے مقابلے میں تکبر کرنا۔ پہلی دونوں صورتوں میں تو تکبر کرنے والا شخص
کافر ہوجائے گا جب کہ تیسری صورت پہلی دونوں صورتوں کے برابر تو نہیں مگر اس کا
بھی بہت بڑا گناہ ہے ۔
اللہ پاک تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتاجیسا کہ سورۃ
نحل میں ارشاد ہوتا ہے ۔ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ
الْمُسْتَكْبِرِیْنَ(۲۳) ترجمہ کنزالایمان: بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔ (پ
14،النحل:23)
متعدد احادیث میں بھی تکبر کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ جن میں
سے پانچ ملاحظہ فرمائے۔
(1)حضرت سیدنا ابو سلمہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے ۔کہ حضرت
سیدنا عبداللہ بن عمرو اور حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہُ عنہم کی کوہِ
مروہ پر ملاقات ہوئی دونوں حضرات آپس میں
گفتگو کرنے لگے، پھر جب حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے تو
حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما رونے
لگے ۔لوگوں نے پوچھا : اے ابو عبدالرحمٰن ،آپ
رضی اللہُ عنہ کو کس چیز نے رولایا ہے ؟ تو انہوں نے ارشاد فرمایا کہ مجھے انہوں
نے یعنی حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے ،جنہیں یقین ہے کہ انہوں نے
سب سے آخری نبی محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا
کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے جتنا تکبر ہوگا ۔اللہ پاک اسے منہ کے بل جہنم میں
گرائے گا۔(جہنم میں لے جانے والے اعمال،حدیث 52،ص236)
(2) نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایاکہ تکبر اور بڑئی چاہنے والا جنّت میں
داخل نہیں ہوگا۔(سنن ابی داود ،کتابالادب،حدیث4801،ص1576)
(3) ہم بےکسوں کے مددگار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
فرمان عالیشان ہےکہ اللہ پاک ان چار لوگوں کو قطعاً پسند نہیں فرماتا۔(1) کثرت سے
قسمیں کھانے والا۔(2) متکبر فقیر (3) بوڑھا زانی (4) ظالم حکمران۔(سنن نسائی،کتاب
الزکوٰۃ،حدیث2577 ،ص 2254)
(4)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا
کہ جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہیں
ہوگا۔ اور وہ شخص جہنم میں نہیں جائے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی
ایمان ہوا۔(مسلم کتاب الایمان،باب تحریم الکبر،حدیث،148)
(5)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ
پاک ارشاد فرماتا ہے: بَرہائی (یعنی
بڑاپن) میری رداء ہے۔ لہذا جو میری ردا ء
کے معاملہ میں مجھ سے جھگڑے گا میں اسے پاش پاش کردوں گا۔(المستدرک،کتاب
الایمان،حدیث21،ص235)
جب بھی دل میں تکبر محسوس ہو تو اَعوز باللہ
من الشیطٰن الرجیم ، ایک بار پڑھنے کے بعد الٹے کندے کی طرف تین بار تھو تھو کردیجئے۔ انشاء
اللہ تکبر جاتا رہے گا ۔ اللہ پاک ہمیں تکبر سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان احادیث پر بھی عمل کرنے کی بھی
توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
تکبر کسے کہتے ہیں ؟: اپنے آپ کو بڑا
جاننا اور دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر
ہے۔ تکبر یہ بہت ناپسنددیدہ عمل ہے ۔اللہ پاک کو تکبر کرنے والا شخص بالکل بھی
پسند نہیں ۔ چنانچہ اللہ پاک تکبر کرنے
والوں کی بارے میں قراٰن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیَ الَّذِیْنَ یَتَكَبَّرُوْنَ
فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّؕ ترجمعہ ٔ کنزالایمان :اور میں اپنی آیتوں سے
انہیں پھیر دوں گا جو زمین میں ناحق اپنی بڑائی چاہتے ہیں ۔(پ9 ، الاعراف: 146)
اس آیت میں ناحق تکبر کا ثمرہ اور تکبر کرنے والوں کا انجام
بیان کیا گیا ہے ۔کہ ناحق تکبر کرنے والے اگر ساری نشانیاں دیکھ بھی لیں تو بھی
ایمان نہیں لاتے اور اگر وہ ہدایت کی راہ دیکھ لیں تو وہ اسے اپنا راستہ نہیں
بناتے اور اگر گمراہی کا راستہ دیکھ لے تو اسے اپنا راستہ بنالیتے ہیں ۔اس سے معلوم ہوا کہ تکبر وہ آگ ہے جو دل کی تمام
قابلیتوں کو جلا کر برباد کردیتی ہیں ۔خصوصاً جبکہ اللہ پاک کے مقبول بندں کے
مقابلے میں تکبر ہو۔ متعدد احادیث میں بھی تکبر کی مذمت بیان کی گئی ہے جن
میں سے پانچ ملاحظہ ہیں۔
(1)محبوب رب العٰلمین جناب صادق و امین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنّت
میں داخل نہیں ہوگا۔ تو عرض کی گئی کہ آدمی تو یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اور
جوتے اچھے ہو۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ
پاک جمیل ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے۔ جبکہ تکبر تو حق کی مخالفت اور لوگوں
کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ )جہنم میں لےجانے والے اعمال،حدیث:
6،ص230(
(2)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص تکبر
سے اپنے کپڑے گھسیٹے گا اللہ پاک قیامت کے دن اس کی طرف نظر رحمت نہیں فرمائے گا۔)جہنم میں لے جانے والے اعمال، حدیث 8،ص230(
(3)نور کہ پیکر تمام نبیوں کے سرور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایا کہ آدمی تکبر کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے جبارین میں لکھ دیا جاتا ہے پھر اسے وہی مصیبت پہنچتی ہے جو دوسرے
جبارین کو پہنچتی ہے۔(جہنم میں لے جانے والے اعمال،حدیث:11،ص231(
(4)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا
کہ متکبر فقیر ،بوڑھا زانی اور اپنے عمل سے اللہ پاک پر احسان جتانے والا جنّت میں
داخل نہ ہوگا ۔(جہنم میں لے جانے والے اعمال،حدیث: 41، ص235 (
(5) حضرت سیدنا کریب رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہ کو لے کر ابو
لہب کی بھٹی کی طرف لے کر جا رہا تھا کہ انہوں نے مجھ سے دریافت فرمایا: کیا ہم
فلاں مقام پر پہنچ گئے ہیں ؟تو میں نے عرض کی کہ آپ رضی اللہُ عنہ اب اس مقام
پر پہنچ گئے ہیں۔ تو انہوں نے ارشاد فرمایا: مجھے میرے والد عباس بن عبدالمطلب رضی
اللہُ عنہ نے بتایا :میں اس جگہ پر حضور
پاک ،صاحب لولاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ تھا ۔آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ ایک شخص دو چادریں اوڑھے متکبرانہ چال چلتا ہوا
آیا۔وہ اپنی چادریں دیکھتا ہوا اس پر اترا رہا تھا۔ اللہ پاک نے اسے اس جگہ زمین
میں دھنسا دیا اب وہ قیامت تک زمین میں
دھنستا ہی رہے گا۔(جہنم میں لے جانے والے اعمال،حدیث: 70، ص 240)
اللہ پاک ہمیں تکبر سے بچتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین
بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد طلحٰہ خان عطّاری(درجہ رابعہ،جامعۃُ المدینہ فیضان خلفائے راشدین ،راولپنڈی،پاکستان)
جہنم میں لے جانے والے اعمال میں سے ایک ”تکبر“ بھی ہے ۔ تکبر
سے مراد ”خودکو افضل ، دوسروں کو حقیر جاننا“ ہے۔ چنانچہ رسول اکرم نورِمجسم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشادفرمایا: تکبرحق
کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحريم
الكبروبيانہ، حدیث : 91، ص61)
تکبر کرنے والے کی مثال اس غلام کی سی ہے کہ جو بادشاہ کے
سامنے اس کا تاج پہن کر اس کے تخت پر بیٹھ جائے اور اس وجہ سے بادشاہ کو شدید غصہ آئے
اور وہ غلام سخت ترین سزا کا مستحق ہو جائے۔ اسی طرح اگر کوئی اللہ پاک کی صفتِ
کبریائی کو حاصل کرنے کی ناکام کوشش بھی کرے گا تو سزا کا حقدار بنے گا۔ چنانچہ
نبی اکرم نورمجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک ارشاد فرماتا
ہے: کبریائی میری چادر ہے۔ لہذا جو میری چادر کے معاملے میں مجھ سے جھگڑے گا میں
اسے پاش پاش کر دوں گا۔ (المستدرك للحاكم ، كتاب الايمان، باب اهل الجنۃ المغلوبون۔۔الخ،1/235،حدیث:
210)
تکبر عزازیل راخوار کرد
بزندان لعنت گرفتار کرد
ترجمہ : غرور و تکبر نے شیطان کو ذلیل و خوار کیا اور
لعنت کے طوق میں گرفتار کیا۔
مفسر شہیر ، حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اس کے تحت فرماتے ہیں :
کبر سے مراد ذاتی بڑائی ہے اور عظمت سے مراد صفاتی بڑائی۔ چادر فرمانا ہم کو
سمجھانے کے لئے ہے کہ جیسے ایک چادر دو آدمی نہیں پہن سکتے یوں ہی عظمت و کبریائی
سوائے میرے دوسرے کے لئے نہیں ہو سکتی۔(مرأة المناجیح، 6/ 659)
تکبر کی مذمت پر کئی احادیثِ مبارکہ موجود ہیں جن میں سے 5
فرامینِ مصطفٰےصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مندرجہ ذیل ہیں :
(1) جس شخص کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی تکبر ہو گا وہ
جنّت میں داخل نہیں ہو گا۔(مسلم، کتاب الایمان، باب تحريم الكبر وبیانہ ، ص 21 ،
حدیث : 91)
(2)آدمی اپنے نفس
کے متعلق بڑائی بیان کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے جبّار (سرکش) لوگوں میں لکھ دیا
جاتا ہے پھر اسے بھی وہی عذاب پہنچتا ہے جو ان کو پہنچتا ہے ۔(سنن الترمذی، کتاب
البر والصلۃ، باب ماجاء في الكبر، 3/ 403، حدیث: 2007)
(3)بد تر ہے وہ شخص جو تکبر کرے اور حد سے بڑھے اور سب سے
بڑے جبار کو بھول جائے۔(سنن الترمذی، کتاب صفۃ القيامۃ، 4/ 203، حدیث: 2452 بتغير
قليل)
(4)قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی
مانند ا ٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہو گی، انہیں جہنم کے ”بُولَس “نامی
قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لیکر ان پر
غالب آ جائے گی، انہیں ”طِیْنَۃُ الْخَبَّالِ “یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ ۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، 4/221، حدیث: 2500)
(5) سخت مزاج ، اترا کر چلنے والا، متکبر ، خوب مال جمع
کرنے والا اور دوسروں کو نہ دینے والا جہنمی ہے جبکہ اہل جنّت کمزور اور کم مال
والے ہیں۔(المسند للامام احمد بن حنبل، مسند عبداللہ بن عمرو بن العاص ، 2/ 272،
حدیث : 7030)
جس طرح ظاہری امراض
جان لیوا ثابت ہو جاتے ہیں اسی طرح باطنی
امراض ایمان لیوا ثابت ہو جاتے ہیں۔ انہی میں سے ایک تکبر بھی ہے اسی لیے اسکا
علاج بھی انتہائی ضروری ہے۔ تکبر کے علاج کی دو صورتیں ہیں: (1) علمی علاج: اس سے مراد انسان اللہ پاک کی معرفت حاصل کرے کہ
یہ ذات کتنی عظمت و بڑائی والی ہے اور اپنے آپ کو پہچانے کہ خود کتنا ذلیل و حقیر
ہے۔ یہ سوچ و فکر تکبر کا خاتمہ اور عاجزی و انکساری کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔(2) عملی علاج : تکبر کا خاتمہ اللہ پاک کی رضا کے لیے تمام تر عاجزی والے
اعمال کرنے میں بھی پوشیدہ ہے۔ لہٰذا ہر وہ کام جس میں تکبر کا شبہ بھی ہو تو اس
کے برعکس کام کو بطورِ عاجزی لازم کر لیا جائے یہاں تک کہ نفس عاجزی کا پابند ہو جائے
۔ان علاجوں کو اختیار کرنے سے ان شاءاللہ آہستہ آہستہ تکبر کا جڑ سے خاتمہ ہو جائے
گا۔
اللہ پاک ہمیں تکبر
اور اس جیسے تمام تر باطنی امراض سے محفوظ فرمائے اور ہمیں حقیقی عاجزی و انکساری
عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
تکبر ایک باطنی بیماری ہے، جس کے بارے علم حاصل کرنا ہر
مسلمان پر فرض ہے۔ تکبر ایسا کبیرہ گناہ ہے جس نے شیطان جیسے عابد وزاہد،جنّت
کےخزانچی اور معلّم الملکوت(یعنی فرشتوں کے استاد) کو بارگاہِ الٰہی میں مردود
بنادیا۔ دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کے مطبوعہ 96 صفحات پر مشتمل
کتاب" تکبر" کے صفحہ 16پر ہے: خود کو افضل دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر
ہے۔ تکبر حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ متکبر(یعنی تکبر کرنے والا)دنیا
و آخرت میں اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ناراضی مول لیتا ہے۔
احادیث مبارکہ میں تکبر کی شدید وعیدات بیان ہوئیں ہیں جن
میں سے پانچ درج ذیل ہیں:۔
(1)جس شخص کے دل میں رائی کے دانے برابر تکبر ہو گا وہ جنّت
میں داخل نہ ہوگا۔(صحيح المسلم ،کتاب الایمان،حدیث:147،ص60) محدّثِ کبیر مفتی احمد
یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ اس
حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتے ہیں: اس فرمانِ عالی کے چند معنیٰ ہیں: ایک یہ کہ دنیا
میں جس کے دل میں رائی برابر کفر ہو وہ جنّت میں ہرگز نہ جائے گا، تکبر سے مراد
اللہ و رسول کے سامنے غرور کرنا ہے اور یہ کفر ہے۔ دوسرے یہ کہ دنیا میں جس کے دل
میں رائی برابر غرور ہوگا وہ جنّت میں اوّلاً نہ جائے گا۔ تیسرے یہ کہ جس کے دل
میں رائی برابر غرور ہو گا وہ غرور لے کر جنّت میں نہ جائے گا پہلے رب کریم اس کے
دل سے تکبر دور کردے گا پھر اسے جنّت میں داخل فرمائے گا۔(مرآۃ المناجیح ،6 /511)
(2) قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی
مانند ا ٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہو گی، انہیں جہنم کے ”بُولَس “نامی
قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لیکر ان پر
غالب آ جائے گی، انہیں ”طِیْنَۃُ الْخَبَّالِ “یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، 4/221، حدیث: 2500)
(3)بے شک جہنم میں ایک مکان ہے جس میں متکبرین کو ڈال کر
اوپر سے بند کردیا جائے گا۔(مساوي الأخلاق للخرائطي،باب ما جاء في العجب
والكبرالخ،ص 233،حديث:577)
(4)اللہ پاک متکبرین(یعنی مغرورں) اور اِترا کر چلنے والوں
کو ناپسند فرماتا ہے۔(كنز العمال،كتاب الاخلاق،3/210، حدیث : 7727)
(5)بے شک قیامت کے
دن تم میں سے میرے سب سے زیادہ نزدیک اور پسندیدہ شخص وہ ہو گا جو تم میں سے اخلاق
میں سب سے اچھا ہوگا اور قیامت کے دن میرے نزدیک سب سے قابلِ نفرت اور میری مجلس
سے دور وہ لوگ ہوں گے جو واہیات بکنے والے،لوگوں کا مذاق اڑانے والے اور
مُتَفَيْهِقْ ہیں۔صحابہ کرام نے عرض کی،یا
رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! بے ہودہ بکواس بکنے والوں اور لوگوں کا
امذاق اڑانے والوں کو تو ہم نے جان لیا مگر یہ متفیھق کون ہیں؟تو آپ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرمایا:اس سے
مراد ہر تکبر کرنے والا شخص ہے۔(جامع الترمذي،ابواب البر والصلة،3 / 410،حدیث:2025)
پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں چاہئے کہ ہم غور کریں کہیں ہمارے
اندر یہ موذی مرض تو نہیں پایا جاتا! اگر خود کو اس باطنی بیماری میں مبتلا پائیں
تو فوراً اس کے علاج اور خاتمے کے لئے کوشاں ہو جائیں۔ تکبر کے بارے تفصیلی
معلومات،علامات و اسباب اور علاج جاننے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 96صفحات پر
مشتمل کتاب "تکبر" مطالعہ فرمائیے۔
سیف علی عطّاری(درجہ خامسہ جامعۃالمدینہ فیضان حسن و
جمال مصطفی کراچی،پاکستان)
دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 96
صفحات پر مشتمل کتاب ”تکبر“صفحہ 16 پر ہے: خُود کو افضل اور دوسرے کو حقیر جاننے
کا نام تکبر ہے۔ چنانچہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: الکبر بطر
الحق و غمط الناس یعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔
(صحیح مسلم کتاب الایمان، حدیث 91 ،ص 61 (جس کے دل میں تکبر پایا جائے اسے متکبر اور مغرور کہتے ہیں۔
(1)حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا :قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھایا جائے
گا جس کی وجہ سے ان پر ذلت طاری ہو گی اور انہیں جہنم کے
بولس نام کے قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا (گھسیٹا) اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی
لپیٹ میں لے کران پر غالب آجائے گی اور انہیں جہنم کی پیپ پلائی جائے گی۔(ترمذی ،کتاب صفۃ القیامۃ ،4/ 221حدیث:2500)
(2)سرکار عالی وقار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا : بے شک قیامت کے دن تم میں سے میرے سب سے نزدیک اور پسندیدہ شخص وہ ہو گا
جو تم میں سے اخلاق میں سب سے زیادہ اچھا ہو گا اور قیامت کے دن میرے نزدیک سب سے
قابل نفرت اور میری مجلس سے دور وہ لوگ ہوں گے جو واہيات بکنے والے ، لوگوں سے
ٹھٹھا کرنے والے اور مُتَفَیْہِق ہیں۔صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی :یا رسول
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! بے ہودہ بکواس بکنے والوں اور لوگوں سے ٹھٹھا
کرنے والوں کو تو ہم نے جان لیا مگر یہ مُتَفَیْہِق کون ہيں؟ تو آپ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اس
سے مراد ہر تکبر کرنے والا شخص ہے ۔(جامع الترمزی،ابواب البر و الصلۃ، 3 / 410،حدیث:2025)
(3)حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تا جدار
رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :جس کے دل میں رائی کے دانے
جتنا (تھوڑاسابھی) تکبر ہو گا وہ جنّت میں داخل نہ ہو گا۔(صحیح مسلم کتاب الایمان ،ص
60،حدیث 147)حضرت ملا علی قاری لکھتے ہیں اس سے مراد ( گزشتہ حدیث مبارکہ)ہر بری
خصلت سے عذاب بھگتنے کے بعد یا اللہ کے عفوو کرم سے پاک و صاف ہو کر جنّت میں داخل
ہو گا۔(مرقاۃ المفاتیح ،8/ 828تا829)
(4)مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا بیشک جہنم میں ایک مقام ہےجس میں تکبر کرنے والے کو ڈال کر اوپر سے بند کر
دیا جائے گا۔(مساویٔ الاخلاق للخرائطی، ص 234حدیث:577)
(5)اللہ کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند لٹکائے گا اللہ پاک قیامت کے دن اس پر نظر
رحمت نہیں فرمائے گا ۔(صحیح البخاری، کتاب اللباس ،4/36،حدیث: 5788)
تکبر کا علاج: اپنے رب کریم سے
دعا کریں، رب کریم کی بارگاہ میں حاضری کو یاد رکھیئے، اپنے عیوب پر نظر رکھیئے، عاجزی
اختیار کریں، اپنا سامان خود اٹھایئے،حق بات تسلیم کریں،اپنی غلطی مان لیجئے ،اپنے
کام کود سے کریئے ،غریبوں کی دعوت قبول کریں، لباس میں سادگی اختیار کریئے، دعوت
اسلامی کا مدنی ماحول اپنا لیجئے، دعوت اسلامی کے ہفتہ
وار اجتماع میں شرکت کیجیئے۔ ان
شاءاللہ اگر آپ ان تمام پر عمل کریں گے تو تکبر جیسی بری بلا سے محفوظ رہیں گے۔ اللہ
ہم تمام کو تکبر جیسی بیماری سے محفوظ فرمائے اور ہمارا خاطمہ بالخیر فرمائے ۔اٰمین
بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
امیر اہلسنت بانی دعوت اسلامی آفتاب قادریت مہتاب رضویت
حضرت علامہ مولانا أبو بلال محمد الیاس عطّار قادری دامت برکاتھم العالیہ غلامانِ
رسول کو سمجھاتےاور نیکی کی دعوت سے مالامال مدنی پھول عطاءفرماتے ہوئے اپنے
مجموعہ کلام وسائل بخشش میں فرماتے ہیں:
خوب انساں کو کرتی ہے رسوا ۔۔۔۔۔۔جب زباں بے لگام ہوتی ہے
گر تکبر ہو دل میں ذرہ بھر۔۔۔۔۔۔۔سن
لو جنّت حرام ہوتی ہے
راحیل افضل (درجہ خامسہ،مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ
مدینہ کراچی،پاکستان)
تبلیغِ قراٰن و سنت
کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ
96 صفحات پر مشتمل کتاب ”تکبر“ صفحہ 16 پر ہے: ”خود کو افضل دوسروں کو حقیر جاننے
کا نام تکبر ہے“۔ چنانچہ رسول اکرم، نور مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: تکبر حق کی مخالفت کرنے اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے ۔(مسلم،
کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ، حدیث : 91، ص61)
تکبر انتہائی مذموم وصف ہے اور اس کا تعلق دل سے ہے۔ انسان
دل ہی دل میں خود کو دوسروں سے بہتر گمان کرتا اور اس آفتِ بد میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
اب چاہے خود کو دوسروں سے بہتر گمان کرنا لباس کی وجہ سے ہو یا خوش الحانی کے سبب،
حسن وجمال کی وجہ سے ہو یا مال و دولت کی فراوانی کے سبب، زیادتئ علم کی وجہ سے ہو
یا کثرتِ عبادات و ریاضات کے سبب، سب ہی تکبر کی صورتیں اور باعثِ ہلاکت ہیں۔
تکبر کا انجام بہت ہی بھیانک ہے کہ اس کے سبب آدمی کے لئے
قبولِ حق بھی مشکل و دشوار ہو جاتا ہے۔ اسی تکبر کا نتیجہ ہے کہ ابلیس جو کہ بہت
بڑا عابد و زاہد اور ملائکہ کا استاد تھا مردودِ بارگاہِ رب الانام ہوا۔ اسی کے
سبب سے قارون کو اس کے مال و دولت سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔
احادیثِ مبارکہ میں بھی تکبر کی مذمت کو بیان کیا گیا ہے
چنانچہ:
(1)حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: آدمی
دوسرے لوگوں کے مقابلے میں اپنی ذات کو بلند سمجھتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے تکبر
کرنے والوں میں لکھ دیا جاتا ہے، پھر اسے وہی عذاب پہنچے گا جو تکبر کرنے والوں کو
پہنچا۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی الکبر، 3 / 403، حدیث: 2007)
(2)حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہُ عنہمَا سے روایت ہے، سرورِکائنات صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن تکبر کرنے والے چیونٹیوں کی طرح
آدمیوں کی صورت میں اٹھائے جائیں گے، ہر طرف سے ذلت انہیں ڈھانپ لے گی، انہیں
جہنم کے قید خانے کی طرف لے جایا جائے گا جس کا نام ’’بولس‘‘ ہے، آگ ان پر چھا
جائے گی اور انہیں ’’ طِیْنَۃُ الْخَبَالْ ‘‘ یعنی جہنمیوں کی پیپ اور خون پلایا جائے گا۔ (ترمذی،
کتاب صفۃ القیامۃ ، 4 / 221، حدیث: 2500)
(3)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ
سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو تکبر
کی وجہ سے اپنا تہبند لٹکائے گا تو قیامت کے دن اللہ پاک اس کی طرف رحمت کی نظر نہ
فرمائے گا۔ (بخاری، کتاب اللباس، باب من جرّ ثوبہ من الخیلائ، 4 /46، حدیث: 5788)
(4) حضرت عبداللہ
بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا: جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا بھی تکبر ہو گا وہ جنّت میں داخل
نہ ہو گا۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص60، حدیث: 147(
(5)حضرت حذیفہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، سیدُ المرسلین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
کیا میں تمہیں اللہ پاک کے بد ترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ بد اخلاق اور
متکبر ہے۔ (مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث حذیفۃ بن الیمان عن النبی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، 9 / 120، حدیث: 23517)
اللہ پاک ہمیں تکبر جیسے مذموم وصف سے محفوظ فرمائے اور عاجزی و انکساری عطا فرمائے۔
اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
تکبر باطنی بیماریوں میں سے ایک بیماری ہے اور افسوس کے
ساتھ یہ مرض ہم میں کثرت سے بڑھتا چلا جا رہا ہے کسی کو اپنے ہنر پر فخر و تکبر ہے
اور دوسرے کو حقیر سمجھا جاتا ہے تو کسی کو اپنے مال و دولت پر ناز ہے تو کسی اپنی
طاقت و قوت پر تکبر اور کوئی اپنے حسب و نسب پر اتراتا ہے تو کوئی اپنے منصب و
مرتبہ پر فخر و تکبر کرتا دکھائی دیتا ہے اور تو اور کسی کو اپنی عبادت و ریاضت
بڑا فخر و غرور ہے کسی کو اپنے علم پر ناز ہے اور دوسروں کو اپنے سے حقیر جانتا ہے
یاد رکھئے میرے محترم اسلامی بھائیو !!متکبر شخص اللہ پاک کو ناپسند ہے اللہ پاک قراٰن
پاک میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ
الْمُسْتَكْبِرِیْنَ(۲۳) ترجمہ کنزالایمان: بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔(پ14،النحل:23)
اور تکبر کی تعریف کے متعلق حضرت عبداللہ بن مسعود رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: تکبر حق بات کو جھٹلانے اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا نام
ہے(مسلم، حدیث: 174)
آئیے تکبر کی مذمت پر
پانچ روایات بیان کرتے ہیں:
(1) فرمان نبوی ہے: جس شخص کے دل میں
رائی کے دانہ کے برابر تکبر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہیں ہوگا اور جس شخص کے دل میں
رائی کے دانہ کے برا بر ایمان ہوگا وہ جہنم میں نہیں جائے گا۔ (مسلم، حدیث: 148)
(2) حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک فرماتا ہے کہ عظمت اور کبریائی میری چادر
میں ہیں جوان میں سے کسی کا دعوی کرے گا میں اسے جہنم میں ڈال دوں گا ، مجھے کسی
کی پروانہیں ہے۔(ابو داؤد، حديث :4090)
(3) فرمان نبوی ہے کہ
آدمی اپنے نفس کی پیروی میں برابر بڑھتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اسے متکبرین میں
لکھا جاتا ہے اور اسے انہیں کے عذاب میں مبتلا کیا جائیگا۔(ترمذى،حديث :2007(
(4) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ سرکش اور
متکبروں کو قیامت کے دن چیونٹیوں جیسی جسامت میں پیدا کیا جائے گا اللہ پاک کے
یہاں ان کی ناقدری کی وجہ سے لوگ انہیں روندتے ہوں گے۔(ترمذى، حديث: 2500)
5) ) فرمان نبوی ہے
کہ جہنم میں ایک محل ہے جس میں تمام متکبروں کو جمع کیا جائیگا اور پھر وہ محل ان
پر گرا دیا جائے گا۔(شعب الإيمان،حديث:8187)
میرے پیارے اسلامی بھائیو! صادق و مصدوق نبی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرامین سے واضح ہوتا ہے تکبر انسان کے لئے دنیا و
آخرت میں کس قدر ہلاکت و رسوائی کا سبب ہے مگر افسوس کہ آج ہم اپنے سے کم مرتبہ
شخص کو کس قدر حقارت سے دیکھتے ہیں اور ہمارے انداز اور طور طریقے کس قدر
تقسیم ہو چکے ہیں کہ ہمارا ایک امیر و مال و منصب و مرتبے والے سے ملنا کا
گفتگو کرنے کا انداز اور ہے اور کسی نادار اور کم مال و دولت والوں سے ملنے اور
گفتگو کرنے کا طور طریقہ مختلف ہے بڑے آدمی سے جھک کر سلام لیں گے، جبکہ عام شخص
سے ہاتھ ملانا گوارہ نہ کریں گیں اور بعض تو اپنے گھر کام کرنے والوں کو
اپنے برابر یا پاس بیٹھنا گوارہ نہیں کرتے۔ یاد رکھئے محترم اسلامی بھائیو ! کبریائی اور بڑائی اللہ پاک کی ذات کے لیے ہے
اور اللہ پاک متکبر شخص سے ناراض ہوتا ہے جس کا اعلان واضح طور پر اللہ پاک نے
فرمایا: اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ
الْمُسْتَكْبِرِیْنَ(۲۳) ترجمہ کنزالایمان: بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔(پ14،النحل:23)
جس کو اللہ پاک پسند نہیں فرماتا یقیناً ایسا شخص جہنم کا مستحق ہے اللہ پاک ہم سے
راضی ہو جائے اور اللہ پاک ہمیں عاجزی و انکساری نصیب فرمائے اور تکبر جیسی بری
بیماری سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
پیارے اسلامی بھائیو ! جہنم میں لے جانے والے گناہوں میں سے
ایک تکبر بھی ہے جس کا علم سیکھنا فرض ہے۔
تکبر ایسا خطرناک باطِنی مرض ہے جس کی وجہ سے ’’معلم الملکوت یعنی فِرِشتوں کے اس تاذ
‘‘ کا رُتبہ پانے والے اِبلیس (شیطان) نے خدائے رحمٰن کی نافرمانی کی اور اپنے
مقام ومَنصَب سے محروم ہوکر جہنمی قرار پایا۔
آئیے پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ تکبر کسے کہتے ہیں:
تکبر کی تعریف: خود کو افضل، دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے ۔ چنانچہ رسول اکرم نور مجسم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا
نام ہے۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبروبیانہ، حدیث
: 91، ص61)
اِس باطِنی گناہ کے کثیر دنیوی واُخرَوی نقصانات ہیں، رب
کائنات عزوجل تکبر کرنے والوں کو پسند
نہیں فرماتا جیسا کہ سورۂ نحل میں اِرشاد ہوتا ہے : اِنَّهٗ لَا
یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ(۲۳) ترجمہ کنزالایمان: بے شک وہ
مغروروں کو پسند نہیں فرماتا ۔ (پ14، النحل:23)
شہنشاہ خوش خصال، پیکر حسن وجمال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے : اللہ پاک متکبرین (یعنی مغروروں) اور اترا کر
چلنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے ۔(کنزالعمال، کتاب الاخلاق ، قسم الاقوال،3/210، حدیث : 7727)
تکبر کی مذمت کے بارے میں اور بھی کئی آیات ہیں بہرحال ان
پر اکتفا کرتے ہوئے اب احادیثِ مبارکہ سے اس کی مذمت بیان کی جائے گی۔
تکبرکی مذمت پر
احادیثِ مبارکہ
(2)تکبر کرنے والوں کو قیامت کے دن ذلت و رسوائی
کا سامنا ہوگا: چنانچہ دو جہاں کے تاجور، سلطان بحرو بر صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے :
قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھایا جائے گا، ہر
جانب سے ان پر ذلت طاری ہو گی، انہیں جہنم کے ’’بولس‘‘ نامی قید خانے کی طرف ہانکا
جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ
میں لیکر ان پر غالب آجائے گی، انہیں ’’طینۃ الخبال یعنی جہنمیوں کی پیپ‘‘ پلائی جائے گی۔(جامع الترمذی، کتاب
صفۃ القیامۃ، باب ماجاء فی شدۃ الخ، 4/221، حدیث: 2500)
(3) رسول اکرم، شہنشاہ بنی آدم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے : ایک شخص دو چادریں اوڑھے
ہوئے جا رہا تھا، تکبر کے مارے اس کا تہبند لٹک رہا تھا تو اللہ پاک نے اسے زمین میں دھنسا دیا اب وہ قیامت تک
اس میں دھنستا رہے گا۔(المطالب العالیۃ لابن حجر، باب الزجرعن الخیلاء ،4/568، حدیث: 5546)
(4)سرکار والا
تبار، ہم بے کسوں کے مددگار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے : اللہ پاک ان چار لوگوں کو
قطعاً پسند نہیں فرماتا: (1) کثرت سے قسمیں کھانے والا تاجر (2) متکبر فقیر (3) بوڑھا زانی اور (4) ظالم حکمران۔(سنن النسائی، کتاب الزکاۃ،
باب الفقیر المختال، حدیث: 2577،ص2254)
(5)رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں جہنمیوں کے بارے
میں خبر نہ دوں۔ ہر ناحق جھگڑا کرنے والا، اَکڑ کر چلنے والا اور تکبر کرنے والا
جہنمی ہے۔(مسلم،کتاب الجنۃ الخ،باب النار
یدخلھا الجبارونالخ ،ص1527، حدیث : 2853) یہ حدیث بخاری و مسلم دونوں میں ہے۔
اللہ پاک سے دعا ہے وہ ہمیں نیک اعمال کرنے، گناہوں سے بچنے
کی توفیق عطا فرمائے، ہمیں تکبر جیسے موذی مرض سے نجات عطا فرمائے، جہنم سے آزادی
اور جنّت میں داخلہ نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
محمد بلال رضا عطّاری(درجہ رابعہ،جامعۃ المدینہ فیضان غوث اعظم قصور،پاکستان)
تکبر کسے کہتے ہیں ؟:خود کو افضل اور دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے۔ امام
راغب اصفہانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: تکبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے
افضل سمجھے۔ جس کے دل میں تکبر پایا جائے اسے متکبر اور مغرور کہتے ہیں۔ تکبر کرنے
والوں کے بارے میں اللہ پاک قراٰن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ
سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ۠(۶۰)ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک وہ
جو میری عبادت سے اونچے کھنچتے(تکبر کرتے) ہیں عنقریب جہنم میں جائیں گے ذلیل ہوکر
۔(پ24، المؤمن:60)
متعدد احادیث میں بھی تکبر کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ جن میں
سے پانچ ملاحظہ فرمائے۔
(1)سب سے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: مجھ پر جہنم میں سب سے پہلے داخل ہونے والے تین افراد پیش کئے گئے جو یہ
ہیں:(1) زبر دستی حکمران بننے والا،(2) اپنے مال سے اللہ پاک کا حق ادا نہ کرنے
والا، (3) متکبر فقیر(جہنم میں لے جانے والے اعمال،حدیث39،ص235)
(2) حضرت سیدنا سلیمان بن داؤد علیٰ نبینا وعلیہما الصلوۃ
والسلام نے ایک دن جن وانس،درندوں اور پرندوں کو باہر نکلنے کا حکم دیا تو دولاکھ
انسان اور دولاکھ جن حاضر خدمت ہوگئے پھر آپ علیٰ نبینا وعلیہما الصلوۃ والسلام
اتنے بلند ہوئے کہ آپ علیٰ نبینا وعلیہما
الصلوۃ والسلام نے آسمانوں کے فرشتوں کی تسبیح کرنے کی آواز سن لی۔ پھر آپ علیٰ
نبینا وعلیہما الصلوۃ والسلام نیچے تشریف لائے ۔یہاں تک کہ آپ علیٰ نبینا وعلیہما
الصلوۃ والسلام کے قدم مبارک سمندر سے مل گئے کہ اچانک آپ علیٰ نبینا وعلیہما
الصلوۃ والسلام نے ایک آواز سنی ”اگر
تمہارے ساتھی کے دل میں رائی کے دانے جتنا
تکبر ہوتا تو میں اسے اس سے بھی دور تک زمین میں دھنسا دیتا جتنا اسے بلندی پر لے گیا تھا“۔(جہنم میں لے جانے
والے اعمال،حدیث54،ص237)
(3) مدینے کےتاجدار
ہم بے کسوں کے مددگار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے کہ ظالم اور متکبر لوگ قیامت کے دن چیونٹیوں
کی طرح اٹھائے جائیں گے ۔لوگ انہیں اللہ پاک کے معاملے کو ہلکا جاننے کی وجہ سے اپنے قدموں تلے روندتے ہوں گے۔(جہنم میں
لے جانے والے اعمال، حدیث13 : ، ص 231)
(4) سب سے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کا فرمان عالیشان ہے : قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں
چیونٹیوں کی مانند ا ٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہو گی، انہیں جہنم
کے ”بُولَس “نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ
میں لیکر ان پر غالب آ جائے گی، انہیں ”طِیْنَۃُ الْخَبَّالِ “یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ ۔(جہنم میں لےجانے
والے اعمال،حدیث12،ص231(
(5)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ۔
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے کہ بڑائی میری چادر ہے اور عظمت میرا تہبند ہے۔ جو کوئی
ان میں سے کسی ایک کے بارے میں کبھی بھی مجھ سے جھگڑے گا تو میں اس جہنم میں ڈال
دو گا۔(سنن ابن ماجہ کتاب الزھد،حدیث،4174)
اللہ پاک ہمیں ان احادیث پر عمل کرتے ہوئے تکبر سے بچنے کی
توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم