تکبر کسے کہتے ہیں ؟: خود کو افضل اور دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے۔ چنانچہ
رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اَلْکِبْرُ
بَطرُ الْحَقِّ و غَمطُ النَّاسِ ترجمہ تکبر حق
کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ امام راغب اصفہانی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: تکبر یہ ہے کہ
انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے۔ جس کے دل میں تکبر پایا جائے اسے متکبر
اور مغرور کہتے ہیں۔
یاد رہے کہ تکبر کرنے والا مؤمن ہو یا کافر، اللہ پاک اسے
پسند نہیں فرماتا اور تکبر سے متعلق حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت
ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :تکبر حق بات کو
جھٹلانے اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات ،ص:276)
قرآن و حدیث میں تکبر کرنے والوں کا بہت برا انجام بیان
کیا گیا ہے ،چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ(۲۳) ترجمہ کنزالایمان: بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔ (پ14،النحل:23)
متعدد احادیث میں بھی تکبر کی مذمت بیان
کی گئی ہے۔ جن میں سے پانچ ملاحظہ فرمائیں۔
(1)ایک شخص اپنی چادر اوڑھے اکڑ کے چل رہا تھا اور اسے اپنا
آپ بڑا پسند آیا اللہ پاک نے اسے زمین میں دھنسا دیا اور وہ قیامت تک دھنستا رہے
گا۔(مسلم باب جرالثوب خیلا،الخ حدیث،2058)
(2)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا
: جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہیں
ہوگا۔ اور وہ شخص جہنم میں نہیں جائے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی
ایمان ہوا۔(مسلم کتاب الایمان،باب تحریم الکبر،حدیث،148)
(3) سب سے آخری نبی مُحَمَّد مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جنّت اور جہنم کے درمیان مکالمہ ہوا تو جہنم نے کہا کہ
مجھے متکبروں اور ظالموں سے ترجیح دی گئی ہے۔ جنّت نے کہا کہ مجھے کیا ہے کہ مجھ
میں کمزور ،عاجز اور گرے پڑے لوگ داخل ہونگے۔ اللہ پاک نے جنّت سے ارشاد فرمایا کہ
تو میری رحمت ہے۔ میں تیرے ذریعے سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہوں گا رحم کروں گا
اور جہنم سے ارشاد فرمایا کہ تو میرا عذاب ہے تیرے ذریعے میں اپنے بندوں میں سے جس
پر چاہوں گا عذاب دوں گا اور تم دونوں کو بھر دوں گا۔(مسلم کتاب الجنہ باب النار،
حدیث،2846)
(4)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : بدتر ہے وہ شخص جو تکبر کرے اور حد سے بڑھے اور سب
سے بڑے جبار عزوجل کو بھول جائے۔(سنن الترمذی کتاب الصفۃ القیامۃ،ص،203تا204،حدیث
،2456)
(5) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ۔ اللہ
پاک ارشاد فرماتا ہے کہ بڑائی میری چادر ہے اور عظمت میرا تہبند ہے۔ جو کوئی ان
میں سے کسی ایک کے بارے میں کبھی بھی مجھ سے جھگڑے گا تو میں اس جہنم میں ڈال دو
گا۔(سنن ابن ماجہ کتاب الزھد،حدیث،4174)
اللہ پاک ہمیں ان احادیث پر عمل کرتے ہوئے تکبر سے بچنے اور
عاجزی اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم
النبین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ابو رضا اسامہ صدیقی المدنی ( جامعۃالمدینہ آفندی
ٹاؤن حیدرآباد ،پاکستان)
تکبر کبیرہ گناہوں میں سے ایک ایسا گناہ ہے کہ جس کی وجہ سے
بندے کئی گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور کفر بھی کر بیٹھتے ہیں۔ لیکن پہلے ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ تکبر کہتے کسے ہیں چنانچہ خود کو افضل، دوسروں
کو حقیرو ذلیل جاننے کا نام تکبر ہے اور شیطان جو کہ معلِّم المَلَکوت یعنی فرشتوں کا استاذ تھا وہ بھی اللہ پاک کی
بارگاہ اقدس سے اس تکبر کی وجہ سے مردود ہوا۔ جیسا کہ اللہ پاک نے جب شیطان کو حکم
دیا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کر ، تو اس نے سجدہ نہیں کیا اور کافروں میں سے
ہوگیا، پھر اللہ پاک نے اس سے پوچھا کہ تو
نے سجدہ کیوں نہیں کیا تو اس نے کہا : اَنَا خَیْرٌ
مِّنْهُۚ-خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ(۱۲)ترجمہ
کنزالایمان: میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اس ے مٹی سے بنایا (پ8،الاعراف:12)
اور یہ ایسا گناہ ہے جس کی قراٰن و حدیث میں بہت مذمت آئیں
ہیں اور قراٰن پاک میں اللہ پاک ایسے شخص کی یوں مذمت فرمائی: اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ
الْمُسْتَكْبِرِیْنَ(۲۳) ترجمہ کنزالایمان: بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔(پ14،النحل:23)
جسے اللہ پاک نا پسند کرتا ہو تو اس شخص کی دنیا و آخرت
دونوں برباد ہیں اور ایسے شخص کو رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی
پسند نہیں فرماتے۔ چنانچہ متکبر شخص کی مذمت کے بارے میں 5 فرامین مصطفیٰ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ ہوں:۔
(1) حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند لٹکائے گا اللہ پاک قیامت کے دن اس پر
نظرِرحمت نہ فرمائے گا۔(صحیح البخاری،4/46،حدیث:5788)
(2) حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا بھی تکبر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہ ہوگا۔(صحیح
مسلم،حدیث:147،ص60)
( 3) حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: اللہ پاک متکبرین(یعنی تکبر کرنے والے)اور اترا کر چلنے والوں کو ناپسند
فرماتا ہے۔(کنزالعمال،3/210،حدیث:7727)
(4)حضور اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن تکبر کرنے والوں کو
چیونٹیوں کی شکل میں اٹھایا جائے گا اور لوگ ان کو روندیں گے کیوں کہ اللہ پاک کے
ہاں ان کی کوئی قدر نہیں ہوگی(رسائل ابن ابی دنیا،التواضع و الخمول،578،حدیث224)
(5) حضور اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تکبر سے بچتے رہو کیونکہ اسی تکبر نے
شیطان کو اس بات پر ابھارا تھا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرے(ابن
عساکر،حرف القاف ذکر من اسمہ قابیل،49/40)
اللہ پاک سے دعا ہے
کہ ہمیں ہمیشہ تکبر سے بچائے رکھے اور اپنی رضا کے لئے عاجزی اختیار کرنے کی توفیق
دے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد اشفاق عطّاری(درجہ رابعہ،جامعہ المدینہ فیضان
عطّار نیپال گنج، نیپال)
جمعہ کی فضیلت کے
لئے یہی کافی ہے کہ سرکار مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :
یہ تمام دنوں کا سردار ہے۔ جمعہ کے روز
مرنے والے سے قبر میں سوالات نہیں کئے جاتے ہیں۔ روز جامعہ میں ایک ایسا وقت ہے جس میں دعا رد نہیں کی جاتی ہے۔ جمعہ کے دن ایک نیکی کا ثواب ستر گناہ زیادہ ملتا ہے
جبکہ اور دنوں میں ایک نیکی کرنے پر صرف دس نیکیاں ملتی ہے۔ جمعہ کے دن ہر گھنٹہ میں چھ لاکھ مسلمان عذاب نار سے
نجات پاتے ہیں۔ جس پر جہنم واجب ہو چکی ہوتی ہے۔ جمعہ کے دن ہر کھڑی بڑی قیمتی ہے اس لئے ہمیں اس کی
قدر کرنی چاہئے اسے اور دنوں کی طرح غفلت میں ہرگز نہیں گزارنی چاہئے۔ بلکہ اس دن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رحمت
الٰہی سے مالامال ہوتا رہے اور دوسرے کو بھی اس بارے میں بتائیں تاکہ وہ میں
جمعہ کے دن سے فیضیاب ہو سکے۔ اللہ پاک ہمیں
جمعہ کے دن کی قدر کرنے کی توفیق عطا
فرمائیں۔
جمعہ کے دن ناخن کاٹنے پر فرمان مصطفٰے صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : جسے بہار شریعت میں
صدرُ الشَّریعہ رحمۃُ اللہِ علیہ حدیثِ
پاک نقل فرماتے ہیں : جو جمعہ کے روز ناخن
تَرَشوائے اللہ پاک اس کو دو سرے جُمعے تک
بلاؤں سے محفوظ رکھے گا اور تین دن زائد یعنی دس دن تک۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ جو جمعہ کے دن ناخن تَرَشوائے تو رَحمت آ ئے گی گناہ
جائیں گے۔(بہارِ شریعت حِصَّہ16، ص226، دُرِّمُختار ورَدُّالْمُحتار، 9/668)
لہذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ ہر جمعہ کو اپنے ناخن تراشنے کی عادت ڈالے اور ثواب کا
حقدار بنیں۔ لیکن جن کے ناخن بڑے ہو گئے ہو اور چالیس دن ہونے والے ہو تو اسے
جمعہ سے قبل ہی تراش لے۔ جمعہ آنے کا انتظار نہ کرے۔ جیسا کہ صدرُ الشَّریعہ
رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جمعہ کے دِن ناخن تَرشوانا مُستحب ہے، ہاں اگر زیادہ بڑھ گئے ہوں تو جمعہ کا انتِظار نہ کرے کہ ناخن بڑا ہونا اچّھا نہیں
کیوں کہ ناخنوں کا بڑا ہونا تنگیٔ رِزق کا سبب ہے۔ (بہارِ شریعت حِصَّہ16، ص225)
عمامہ باندھنے والے
پر فرشتے درود بھیجتے ہیں: حدیث پاک میں
ہے : بے شک اللہ پاک اور اس کے فرِشتے جمعہ کے دن عمامہ با ند ھنے والوں پر
دُرُود بھیجتے ہیں ۔(مَجْمَعُ الزَّوائِد ،2/394،حدیث:3075)
اللہ پاک کے پیارے رسول، رسولِ مقبول، سیِّدہ آمِنہ رضی اللہُ
عنہا کے گلشن کے مہکتے پھول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بلاشبہ تمہارے لئے ہر جمعہ کے دن میں ایک حج اور ایک عمرہ موجود ہے، لہٰذا جمعہ کی نَماز کیلئے جلدی نکلنا حج ہے اور جمعہ کی نَماز کے بعد عَصر کی نماز کے لئے انتظار کرنا عمرہ ہے۔ (السنن الكبرى للبیہقی، 3/342،حديث: 5950)
حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن عبّاس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے کہ سرکارِ نامدار ، باِذنِ پروردگار دو عالم کے مالِک و
مختار، شَہَنشاہِ اَبرار صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اَلْجمعۃُ حَجُّ الْمَسَاکِیْن یعنی جمعہ کی نماز
مساکین کا حج ہے۔ اور دوسری روایت میں ہے
کہ اَلْجمعۃُحَجُّ الْفُقَرَاء یعنی جمعہ کی نماز غریبوں کا حج ہے۔ (جمع الجوامع لِلسُّیُوطی ، 4/84، حدیث:11108، 11109)
حجّ و عُمرہ کا ثواب:
حجۃُ الْاِسلام حضرتِ سیِّدُنا امام محمد بن محمدبن محمد
غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں
: (نَمازِ جمعہ کے بعد ) عَصرکی نَما ز پڑھنے تک مسجِد ہی میں
رہے اور اگر نَمازِ مغرِب تک ٹھہرے تو افضل ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ جس نے جامِع مسجِدمیں ( جمعہ ادا کرنے کے بعد وَہیں رُک
کر) نمازِ عَصرپڑھی اس کیلئے حج کا ثواب ہے اور جس نے (وَہیں رُک کر) مغرِب کی نَماز پڑھی اسکے لئے حج اور عمرے کا
ثواب ہے۔ (اِحیاءُ الْعُلوم ،1/249)
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان رحمت نشان
ہے : جمعہ میں ایک ایسی گھڑی ہے کہ اگر کوئی مسلمان اسے
پاکر اس وقت اللہ پاک سے کچھ مانگے تو اللہ پاک اسکو ضرور د ے گا اور وہ گھڑی
مختصر ہے۔ (صَحیح مُسلِم، ص424،حدیث:852)
نوٹ: جمعہ کے فضائل
پر مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے شیخ طریقت امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کا
رسالہ "فیضان جمعہ " کا مطالعہ فرمائیں بہت مفید ثابت ہوگا ان شاءاللہ
الکریم ۔
جمعۃُ المبارک کو بڑی فضیلت و اہمیت حاصل ہے، اللہ پاک نے
جمعہ کے نام کی ایک پوری سورت ”سورۃُ الجمعہ“ نازِل فرمائی ہے جو قراٰنِ کریم کے
اٹھائیسویں پارے میں جگمگا رہی ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں اس دن کے بہت فضائل بیان
ہوئے ہیں۔ چنانچہ سرکارِمدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ باقرینہ
ہے: جُمُعہ کا دن تمام دِنوں کا سردار ہے اور اللہ پاک کے نزدیک سب سے بڑا ہے اور
وہ اللہ پاک کے نزدیک عیدُالاضحٰی اور عیدُالفطر سےبڑا ہے، اس میں پانچ خصلتیں ہیں:(1)اللہ
پاک نے اسی میں حضرت آدم علیہ السّلام کو پیدا کیا (2)اسی میں انہیں زمین پر
اُتارا (3)اسی میں انہیں وفات دی (4)اور اس میں ایک ساعت ایسی ہے کہ بندہ اس وقت
جس چیز کا سوال کرے اللہ پاک اسے دے گا، جب تک حرام کا سوال نہ کرے (5)اور اسی دن
میں قیامت قائم ہوگی، کوئی مُقَرَّب فرشتہ، آسمان و زمین،ہوا، پہاڑ اور دریا ایسا
نہیں کہ جمعہ کے دن سے ڈرتا نہ ہو۔(ابن ماجہ، 2/8، حدیث: 1084)
دن میں پانچ نمازیں فرض ہونے کی نسبت سے نمازِ جمعہ کی فضیلت
پر 5 فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم:
(1)حضرتِ سیِّدُنا اَنس بن مالک رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے
کہ اللہ پاک کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک کسی
مسلمان کو جمعہ کے دن بے مغفرت کئے نہ چھوڑے گا۔(معجم اوسط، 5/ 109، حدیث: 4817)
(2)سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ
خوشبودار ہے: جمعہ کے دن اور رات میں چوبیس گھنٹے ہیں کوئی گھنٹہ ایسا نہیں جس میں
اللہ پاک جہنم سے چھ لاکھ آزاد نہ کرتا ہو، جن پر جہنم واجِب ہو گیا تھا۔ (مسند ابی
یعلیٰ، 3/219،حدیث:3421)
(3)حضرت عبداللہ بن عَمْرو رضی اللہُ عنہمَا سے روایت ہے کہ
حضورِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا: جو مسلمان جمعہ کے دن یا
جمعہ کی رات میں مرے گا، اللہ پاک اسے فتنۂ قبر سے بچالے گا۔ (ترمذی، 2/ 339، حدیث:
1076)
(4)تاجدارِمدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد
فرمایا: جو روزِ جمعہ یا شبِ جمعہ (یعنی جمعرات اور جُمُعہ کی درمیانی شب)مرے گا
عذابِ قبرسے بچا لیاجائے گااور قِیامت کے دن اِس طرح آئے گا کہ اُس پر شہیدوں کی
مُہر ہو گی۔(حلیۃ الاولیاء، 3 / 181، حدیث: 3629)
(5)اللہ پاک کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
فرمانِ فرحت نشان ہے: سوائے روزِ جمعہ کے جہنم(ہر روز)بھڑکایا جاتا ہے۔(ابو
داؤد،1/403،حدیث:1083)
اے عاشقان رسول! ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ اللہ پاک نے اپنے
پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے ہمیں جُمُعۃ المبارَک کی نعمت
سے سرفراز فرمایا۔ افسوس! ہم ناقدرے اس مبارک دن کو بھی عام دِنوں کی طرح غفلت میں
گزار دیتے ہیں حالانکہ جمعہ عید کا دن ہے۔ جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے: اللہ پاک نے
اِسے (یعنی جمعہ کو) مسلمانوں کے لئے عید کا دن بنایا ہے تو جو شخص جمعہ میں آئے
وہ غسل کرے اور جس کے پاس خوشبو ہو وہ خوشبو لگائے اور مسواک کرے۔(ابنِ ماجہ،
2/16،حدیث:1098)
اللہ پاک ہمیں اس مبارک دن کی برکتوں سے مالا مال فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
دین ِ اسلام کی خوبصورتیوں میں ایک اس کا نظام اخوت اور بھائی چارہ اور مساوات بھی ہے۔ یہ
اخوت و بھائی چارہ اسی صورت ممکن ہے جب لوگ آپس میں ملیں، گفتگو کریں، حال اور
احوال کا تبادلہ کریں۔ آج کے اس جدید سائنسی دور نے اس چیز کو بہت کم کر دیا ہے
لیکن اسلام کی خوبصورتی تو دیکھیے کہ اس نے ہمیں اتنے جدید دور میں بھی باہمی
تعلقات قائم رکھنے اور ملاقات کے کثیر مواقع فراہم کئے ہیں۔ جیسے باجماعت نماز، حج
کہ جس میں دنیا بھر کے مسلمان ایک جگہ جمع ہوتے ہیں۔ انہی میں ایک ہفتہ وار اجتماع
بھی ہے، جس کو ہم نمازِ جمعہ کہتے ہیں۔
قراٰن و حدیث میں اس کی بہت اہمیت و فضیلت
بیان ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ جمعہ کے ساتھ
بیع (خرید و فروخت) کو ترک کرنے کا حکم فرما دیا گیا۔ آیئے اب ہم اس سلسلے میں
پانچ فرامینِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے اپنے دل اور روح کو جلا
بخشتے ہیں۔
(1)حضرت سَلمان فارسی رضی
اللہُ عنہ سے مروی ہے، خاتمُ النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
فرمانِ عالیشان ہے: جو شخص جمعہ کے دن
نہائے اور جس طہارت ( یعنی پاکیزگی) کی
استِطاعت ہو کرے اور تیل لگائے اور گھر میں جو خوشبو ہو ملے پھر نَماز کو نکلے اور
دو شخصوں میں جُدائی نہ کرے یعنی دو شخص بیٹھے ہوئے ہوں اُنھیں ہٹا کر بیچ میں نہ
بیٹھے اور جو نَماز اس کے لئے لکھی گئی ہے
پڑھے اور امام جب خطبہ پڑھے تو چپ رہے اس کے لئے اُن گناہوں کی، جو اِس
جمعہ اور دوسرے جمعہ کے درمیان ہیں مغفِرت ہو جا ئے گی۔(صَحیح بُخاری،
1/306،حدیث:883)
(2)حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا :بہتر دن جس پر سورج نے طلوع کیا، جمعہ کا دن ہے، اسی میں حضرت آدم علیہ السّلام پیدا کیے گئے ، اسی
میں جنّت میں داخل کیے گئے اور اسی میں انہیں جنّت سے اترنے کا حکم ہوا اور قیامت جمعہ ہی کے دن قائم ہوگی۔( مسلم، کتاب الجمعۃ، باب فضل یوم الجمعۃ، ص425، حدیث: 854)
(3) حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب جمعہ کا دن
آتاہے تو مسجِد کے دروازے پر فِرشتے آ نے والے کو لکھتے ہیں ، جو پہلے آئے اس کو پہلے لکھتے ہیں ، جلدی آنے والا اس شخص کی طرح ہے جو اللہ پاک کی راہ میں ایک اُونٹ صدقہ کرتا ہے، اور اس کے بعد آنے والا اس شخص کی طرح ہے جو ایک گائے صدقہ کرتاہے، اس کے بعد والا اس شخص کی مثل ہے جومَینڈھا صدقہ کرے، پھر اِس کی مثل ہے جو مُرغی صدقہ کرے، پھر اس کی مثل ہے جو اَنڈا
صدقہ کرے اورجب امام (خطبے کے لیے) بیٹھ جاتاہے تو وہ اعمال ناموں
کو لپیٹ لیتے ہیں اورآکر خطبہ سنتے ہیں۔(صَحیح بُخاری ، 1/319،حدیث:929)
(4) حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،سیّد
المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جمعہ کے دن مجھ پر درُود کی کثرت کرو کہ یہ دن مشہود
ہے، اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور مجھ پر جو درُود پڑھے گا پیش کیا جائے گا۔
(5) حضرت ابو لبابہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا :جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار ہے اور اللہ پاک کے نزدیک سب سے بڑا
ہے اور وہ اللہ پاک کے نزدیک عیدالاضحی اورعید الفطر سے بڑا ہے۔( ابن ماجہ، کتاب
اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب فی فضل الجمعۃ، 2 / 8، حدیث: 1084)
ان فضائل کو سن کر ہمیں چاہیئے کہ اس مبارک گھڑی کی قدر کریں۔ اس میں جو اعمال
و افعال بیان کئے، عمل کریں اور سعادت دارین پائیں۔ اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ
النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مبشر رضا عطّاری (درجہ ثانیہ ،جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم ،لاہور،پاکستان)
اللہ پاک کا ہم پر کتنا کرم ہے کہ اس نے اپنے پیارے حبیب
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے ہمیں پانچ وقت کی نمازیں اور نمازِ
جمعہ کی عظیم دولت سے سرفراز فرمایا۔
افسوس ہم نا قدرے اس کو غفلت میں قضا
کر دیتے ہیں حالانکہ نمازِ جمعہ کو ادا کرنے والا جنّتی لکھ دیا جاتا ہے۔ نمازِ
جمعہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اللہ کریم
قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نُوْدِیَ
لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَ ذَرُوا
الْبَیْعَؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۹)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و
فروخت چھوڑ دو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔(پ28،الجمعۃ:09)
تفسیر صراط الجنان میں ہے اس آیت سے نمازِ جمعہ کی فرضیت خرید و فروخت وغیرہ دُنیوی مشاغل کی
حرمت اور سعی یعنی نماز کے اہتمام کا وجوب ثابت ہو اور خطبہ بھی ثابت ہوا۔(خزائن
العرفان) احادیثِ کریمہ میں بھی نمازِ
جمعہ کا ذکر آیا ہے، چنانچہ نمازِ
جمعہ کی فضیلت و اہمیت پر پانچ احادیث
ملاحظہ ہو۔
(1)
جنّت واجِب ہو گئی: حضرتِ سیِّدُناابواُمامہ رضی اللہُ عنہ سے مَروی ہے کہ سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فر مایا: جس نے جمعہ کی نَماز
پڑھی ،اس دن کا روزہ رکھا ، کسی مریض کی عیادت
کی ،کسی جنازہ میں حاضِر ہوا اور کسی نِکاح میں شرکت کی توجنت اس کے لیے واجِب
ہوگئی۔(المعجمُ الکبیر ،8/97،حدیث:7484)
(2) مغفرت
کی بشارت: حضرتِ سیِّدُنا سَلمان فارسی رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے، خاتمُ النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: جو شخص جمعہ کے دن نہائے اور جس طہارت ( یعنی پاکیزگی) کی استِطاعت ہو کرے اور تیل لگائے اور گھر میں جو خوشبو ہو ملے پھر نَماز
کو نکلے اور دو شخصوں میں جُدائی نہ کرے یعنی دو شخص بیٹھے ہوئے ہوں اُنھیں ہٹا کر
بیچ میں نہ بیٹھے اور جو نَماز اس کے لئے
لکھی گئی ہے پڑھے اور امام جب خطبہ پڑھے تو چپ رہے اس کے لئے اُن گناہوں کی، جو اِس جمعہ اور دوسرے جمعہ کے درمیان ہیں
مغفِرت ہو جا ئے گی۔(صَحیح بُخاری، 1/306،حدیث:883)
(3) 200 سال کی عبادت کا ثواب: حضرتِ سیّدنا صدیق اکبر و
عمران بن حصین رضی اللہُ عنہما روایت
کرتے ہیں کہ تاجدار مدینہ منورہ سلطان مکہ مکرمہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا :جو جمعہ کے دن نہائے اس کے گناہ اور خطائیں مٹا دی جاتی ہیں اور جب
چلنا شروع کیا تو ہر قدم پر بیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔ (المعجمُ الکبیر ، 18/139،حدیث: 292) اور
دوسری روایت میں ہے : ہر قدم پر بیس سال کا عمل لکھا جاتا ہے اور جب نَماز سے فارغ
ہو تو اس ے دو سو برس کے عمل کا اجر ملتا ہے۔(المعجمُ الْاَ وْسَط ،2/314 ،حدیث:
3397)
(4) گناہوں کا کفارہ: حضرت ابوہریرہ رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا
:پانچ نمازیں، ایک نمازِ جمعہ دوسرے نمازِ
جمعہ تک ، ایک رمضان دوسرے رمضان تک کفارہ ہےجو ان کے درمیان گناہ ہوئے جبکہ کبائر (کبیرہ گناہوں) سے اجتناب
کیا۔(مسلم،2/186)
(5) دل پر مہر : نبیِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت
نشان ہے: جو شخص تین جمعہ (کی
نَماز) سُستی کے سبب چھوڑے اللہ پاک اس کے دل پر مُہر کر دے گا۔(سنن ترمذی ، 2/38،حدیث:500)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں پانچوں نمازیں باجماعت اور نمازِ
جمعہ پابندی کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق
عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
جمعہ تمام دنوں کا
سردار ہے۔ جمعہ پڑھنا فرض ہے مقیم پر۔ جمعہ کے دن اچھے طریقے سے نہا دھوکر، غسل کرکے
جانا چاہیے۔ جمعہ کی نماز ایسی عبادت ہے کہ لوگ اس میں ذوق و شوق سے حاضر ہوتے ہیں اور
اپنے بچوں کو بھی اس میں لے آتے ہیں۔ آیئے ہم جمعہ کے بارے میں کچھ احادیثِ پاک سنتے ہیں۔
(1) حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا :جس نے جمعہ کے دن غسل کیا
پھر نماز(جمعہ ) کے لئے پہلی گھڑی گیا گویا اس نے اونٹ کی قربانی کی، جو دوسری گھڑی
میں گیا گویا اس نے گائے کی قربانی دی، جوتیسری ساعت میں گیا گویا اس نے سینگوں
والا مینڈھا قربان کیا جو چوتھی ساعت میں گیا گویا اس نے مرغی صدقہ کی جو پانچویں
ساعت میں گیا گویا اس نے انڈا صدقہ کیا اور جب امام (منبرکی طرف) نکلتا ہے تو
اعمال نامے لپیٹ دئیے جاتے ہیں اور قلم روک دئیے جاتے ہیں اور فرشتے منبر کے پاس
جمع ہو کر خطبہ سننے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔
تشریح: اس حدیث میں جو بیان ہوا وہ ترتیب سے آنے والوں کے لئے
فضیلتیں ہیں کہ جو پہلے آیا اس کو اونٹ صدقہ کرنے کا اور جو اس کے بعد آیا گائے
صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا۔اور جو اس کے بعد آیا سینگوں والا مینڈھا صدقہ کیا۔تو
اس طرح ثوابات مختلف ہیں۔ اللہ ہمیں جلدی جمعہ کے لئے جانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین
(2) حضرتِ سیِّدُناسَلمان فارسی رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایا: جو شخص جمعہ کے دن نہائے اور
جس طہارت ( یعنی پاکیزگی) کی استِطاعت ہو
کرے اور تیل لگائے اور گھر میں جو خوشبو ہو ملے پھر نَماز کو نکلے اور دو شخصوں میں
جُدائی نہ کرے یعنی دو شخص بیٹھے ہوئے ہوں اُنھیں ہٹا کر بیچ میں نہ بیٹھے اور جو
نَماز اس کے لئے لکھی گئی ہے پڑھے اور
امام جب خطبہ پڑھے تو چپ رہے اس کے لئے
اُن گناہوں کی، جو اِس جمعہ اور دوسرے جمعہ کے درمیان ہیں مغفِرت ہو جا ئے گی۔(صَحیح بُخاری،
1/306،حدیث:883)
ہفتہ بھر گناہوں کی بخشش کی سات صورتیں:(1) غسل (2) مکمل
طہارت (3) سر اور داڑھی میں تیل لگاکر گندگی کو دور کرنا۔ (4) خوشبو ہو تو لگائے
(5)مسجد میں جائے جہاں جگہ ملے وہی بیٹھ جائے۔ (6)جتنی چاہے نماز پڑھے۔ (7)خطبہ کے
وقت خاموش رہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ امیر المومنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رضی اللہُ عنہ خطبہ دے رہے تھے کہ امیر
المؤمنین حضرت سیِّدُنا عثمان غنی رضی اللہُ
عنہ مسجد میں تشریف لائے تو آپ نے ان سے فرمایا: کیا یہ آنے کا وقت ہے؟ تو امیر المومنین حضرت سیِّدُنا عثمان غنی رضی اللہُ عنہ نے عرض کی: اذان سننے کے بعد میں نے صرف وضو کیا اور چلا آیا۔ ‘‘ تو امیر المومنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رضی اللہُ عنہ نے فرمایا: کیا صرف وضو؟ حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ اللہ پاک کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیں غسل کا حکم دیا کرتے تھے۔
تشریح: جمعہ کے دن گسل
کرنا سنّت ہے، تو اس سنّت پر عمل کرتے ہوئے ہم بھی غسل کرکے مسجد میں جائیں۔
(4) حضرت سَلمان فارسی رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا:کیا تم جانتے ہو کہ جمعہ کا
دن کیا ہے؟ میں نے کہا اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ پھر دوسری بار آپ نے
ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ جمعہ کا
دن کیا ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ پھر آپ نے تیسری یا چوتھی بار ارشاد فرمایا: یہ وہ دن ہے جس میں تمہارے باپ
آدم علیہ السّلام کو جمع کیا گیا۔ اس دن جو مسلمان بھی وضو کر کے مسجد میں جائے
گا، پھر اس وقت تک خاموش بیٹھا رہے حتّی کہ امام اپنی نماز پڑھ لے، تو یہ عمل اس
جمعہ اور اس کے بعد جمعہ کے گناہوں کا کفّارہ ہو جائے گا، بشرطیکہ اس نے
خون ریزی سے اجتناب کیا ہو۔(نعمۃ الودود فی شرح ابی داؤد،3/797)
(5)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: جمعہ کے دن اور رات میں چوبیس
گھنٹے ہیں، کوئی گھنٹا ایسا نہیں جس میں اللہ پاک جہنم سے چھ لاکھ آزاد نہ کرتا ہو
جن پر جہنم واجب ہو گیا تھا۔
اللہ کریم ہمیں پاک و صاف ہوکر مسجد میں جاکر جمعہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ
النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
جمعہ کا حکم: جمعہ فرضِ عَین ہے اور اس کی فرضیّت ظُہر سے زیادہ
مُؤَکَّد (یعنی تاکیدی) ہے اور اس کا
منکِر (یعنی انکار کرنے والا) کافِر ہے۔(
بہارِ شریعت، 1/762)
جمعۃُ المُبارَک کے فضائل کے تو کیا کہنے !اللہ کریم نے
جمعہ کے متعلق ایک پوری سورت ’’ سُوْرَۃُ
الْجمعہ “ نازِل فرمائی ہے جو کہ قراٰنِ کریم کے 28ویں پارے میں
جگمگا رہی ہے۔ اللہ پاک سورۃ الجمعہ کی
آیت نمبر 9 میں ارشاد فرماتا ہے :یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نُوْدِیَ
لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَ ذَرُوا
الْبَیْعَؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۹)ترجَمۂ
کنزُالایمان: اے ایمان والو جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و
فروخت چھوڑ دو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔(پ28،الجمعۃ:09)
سب سے پہلا جمعہ : حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب ھجرت کر کے
مدینۂ طیبہ تشریف لائے تو 12 ربیع الاول پیرشریف کو چاشت کے وقت مقام قباء میں
اقامت فرمائی ۔ پیرشریف منگل،بدھ،جمعرات یہاں قیام فرمایا اور مسجد کی بنیاد رکھی
۔ روز جمعہ مدینہ طيبہ کا عزم فرمایا، بنی
سالم ابن عوف کے بطن وادی میں جمعہ کا وقت
آیا اس جگہ کو لوگوں نے مسجد بنایا۔ سرکار مدینہ منورہ،سردار مکہ مکرمہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وہاں
جمعہ ادا فرمایا اور خطبہ فرمایا۔ (خزائن
العرفان ص 884)
آپ نے مکمل کتنے جمعے ادا فرمائے: حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تقریباً
500 جمعے ادا فرمائے ہیں اس لئے کہ جمعہ بعدِ ھجرت شروع ہوا، جس کے بعد دس سال آپ کی ظاہری زندگی شریف رہی۔ اس
عرصے میں جمعے اتنے ہی ہوتے ہیں۔ (مراٰۃ لامناجیح،2/346،تحت الحدیث:1415)
(1)نمازِ جمع کی
فضیلت: صحابی ابن صحابی حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن عبّاس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اَلْجمعۃُ حَجُّ
الْمَسَاکِیْن یعنی جمعہ کی نماز
مساکین کا حج ہے۔ اور دوسری روایت میں ہے
کہ اَلْجمعۃُ حَجُّ الْفُقَرَاء یعنی جمعہ کی نماز غریبوں کا حج ہے۔ (جمع الجوامع لِلسُّیُوطی ، 4/84، حدیث:11108، 11109)
(2)جمعہ کے لئے جلدی نکلنا حج ہے: اللہ پاک کے آخری رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فر مایا :بلا شبہ تمہارے لئے ہر جمعہ کے دن میں ایک حج اور ایک عمرہ موجود ہے، لہٰذا جمعہ کی نماز کے لئے جلدی نکلنا حج ہے اور جمعہ کی نماز کے بعد عصر کی نماز کے لئے انتظار کرنا
عمرہ ہے۔ (السنن الكبرى للبیہقی، 3/342،حديث: 5950)
(3) فرشتے خوش نصیبوں
کے نام لکھتے ہیں: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کا ارشادِ گرامی ہے: جب جمعہ کا دن آتاہے تو مسجِد کے دروازے پر فِرشتے آ نے والے کو لکھتے ہیں ، جو پہلے آئے اس کو پہلے لکھتے ہیں ، جلدی آنے والا اس شخص کی طرح ہے جو اللہ پاک کی راہ میں ایک اُونٹ صدقہ کرتا ہے، اور اس کے بعد آنے والا اس شخص کی طرح ہے جو ایک گائے صدقہ کرتاہے، اس کے بعد والا اس شخص کی مثل ہے جومَینڈھا صدقہ کرے، پھر اِس کی مثل ہے جو مُرغی صدقہ کرے، پھر اس کی مثل ہے جو اَنڈا
صدقہ کرے اورجب امام (خطبے کے لیے) بیٹھ جاتاہے تو وہ اعمال ناموں
کو لپیٹ لیتے ہیں اورآکر خطبہ سنتے ہیں۔(صَحیح بُخاری ، 1/319،حدیث:929)
(4) جمعہ تا جمعہ گناھوں سے مُعافی:حضرتِ سیِّدُناسَلمان
فارسی رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ
سلطانِ دو جہاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: جو شخص
جمعہ کے دن نہائے اور جس طہارت ( یعنی پاکیزگی) کی استِطاعت ہو کرے اور تیل لگائے اور گھر میں
جو خوشبو ہو ملے پھر نَماز کو نکلے اور دو شخصوں میں جُدائی نہ کرے یعنی دو شخص بیٹھے
ہوئے ہوں اُنھیں ہٹا کر بیچ میں نہ بیٹھے اور جو نَماز اس کے لئے لکھی گئی ہے پڑھے اور امام جب خطبہ پڑھے
تو چپ رہے اس کے لئے اُن گناہوں کی، جو اِس جمعہ اور دوسرے جمعہ کے درمیان ہیں
مغفِرت ہو جا ئے گی۔(صَحیح بُخاری، 1/306،حدیث:883)
(5) 3 جمعے سستی سے چھوڑنے
سے دل پر مہر: حضور نبیِ رحمت شفیع امت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کا فرمانِ عبرت نشان ہے: جو شخص تین جمعہ (کی نَماز) سُستی کے سبب
چھوڑے اللہ پاک اس کے دل پر مُہر کر دے
گا۔(سنن ترمذی ، 2/38،حدیث:500)
لہٰذا ہمیں نمازِ جمعہ پابندی سے پڑھنا چاہیے، سستی نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ پاک نیک اعمال میں
استقامت نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! جمعہ مبارکہ کا دن بڑی فضیلت و برکت والا ہے۔ اللہ
پاک نے روزِ جمعہ کو بے شمار خوبیاں عطا
کی ہیں۔ انہی خوبیوں کی جمع ہونے کی وجہ
سے اسے جمعہ کہا جاتا ہے۔ جمعہ کا دن ، دنوں کا سردار اور مسلمانوں کے ہفتہ کی
عید کا دن ہے۔ جمعہ کے دن حضرت آدم علیہ السّلام پیدا کئے گئے ۔ جمعہ کے دن حضرت آدم علیہ السّلام کی توبہ قبول
ہوئی۔ جمعہ کے دن حضرت آدم علیہ السّلام
کا وصال ہوا۔ جمعہ کے دن ایک ایسی ساعت
آتی ہے کہ بندہ جو سوال کرے اللہ پاک اسے دے گا، بشرطیکہ کے حرام کا سوال نہ ہو۔
جمعہ کے روز نمازِ جمعہ فرض ہے۔ قراٰن مجید میں اللہ پاک نے نمازِ
جمعہ کے پڑھنے کی بڑی سخت تاکید فرمائی
ہے۔
پانچ فرامینِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(1) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقائے
کائنات ، بزمِ محشر کے دولہا، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: بہتر دن کہ آفتاب نے اس پر طلوع کیا،
جمعہ کا دن ہے، اسی میں آدم علیہ الصّلوٰۃ
والسلام پیدا کيے گئے اور اسی میں جنت میں داخل کيے گئے اور اسی میں جنت سے اترنے
کا انھيں حکم ہوا۔ اور قیامت جمعہ ہی کے
دن قائم ہوگی۔(مسلم، کتاب الجمعۃ، باب فضل یوم الجمعۃ، ص425، حدیث: 854)
(2) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ شافع
محشر، محبوب داور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک کسی مسلمان
کو جمعہ کے دن کے بغیر مغفرت کیے نہ چھوڑے
گا۔(طبرانی اوسط،3/351)
(3) حضرت ابو یعلیٰ سے راویت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جمعہ کے دن اور
رات میں چوبیس گھنٹے ہیں، کوئی گھنٹا ایسا نہیں جس میں اللہ پاک جہنم سے چھ لاکھ
آزاد نہ کرتا ہو جن پر جہنم واجب ہوگیا تھا۔ اور ایک روایت میں آتا ہے کہ جو جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات میں مرے گا، عذاب قبر سے بچا لیا جائے گا اور قیامت کے دن اس طرح
آئے گا کہ اس پر شہیدوں کی مُہر ہوگی۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ جو مسلمان مرد یا
مسلمان عورت جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات میں مرے، عذاب قبر اور فتنۂ قبر سے بچا
لیا جائے گا اور خدا سے اس حال میں ملے گا کہ اس پر کچھ حساب نہ ہوگا اور اس کے
ساتھ گواہ ہوں گے کہ اس کے ليے گواہی دیں گے یا مُہر ہوگی۔ (بہارِ
شریعت،حصہ4،ص87تا 88)
(4)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ہمارے آقا
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے اچھی طرح وضو کیا اور جمعہ کے لیے آیا اور خاموشی کے ساتھ خطبہ سنا اس کے لیے اُن گناہوں کی مغفرت ہو
جائے گی جو اس جمعہ اور دوسرے جمعہ کے درمیان ہوئے ہیں اور ان کے علاوہ مزید تین دن کے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور جس نے
کنکری چھوئی اس نے لغو کیا۔(صحیح مسلم
باب من استمع اونصت فى الخطبۃ، حدیث 27، ص 857)
(5) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سید البشر
شافع محشر مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا: جمعہ میں ایک ایسی ساعت ہےکہ مسلمان بندہ اگر اسے پالے اور اس وقت اللہ پاک سے
جس بھلائی کا سوال کرے ( یعنی دعا کرے) تو اللہ پاک اس کا سوال پورا کرے گا۔
پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! ان احادیث سے معلوم ہوا کہ
نمازِ جمعہ اور جمعہ کے دن کی کتنی اہمیت و فضیلت ہے اور اللہ پاک کے ہم پر کتنے احسانات ہے کہ
اس نے ہمیں اتنا افضل ترین دن عطا فرمایا۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہم سب کو نمازِ
جمعہ کی فضیلت کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے
احادیث پر عمل کرنے اور نمازِ جمعہ کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
جمعہ کے دن اللہ
پاک نے معزز و مکرم بنایا ہے، اس کی دوسرے دنوں سے بالا تر ہے۔ قراٰن و احادیث میں
اس کے فضائل و مناقب بہت تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ اس کی شام پُرنور، رات
باعظمت، صبح بارونق اور دن بابرکت ہے،اس کے لیل و نہار اپنے دامن میں ڈھیڑ سارے
خیرات و برکات رکھتے ہیں۔ آئیے احادیث مبارکہ کی روشنی میں اس کے پانچ فضائل
سماعت کرتے ہیں۔
(1) حدیثِ پاک میں ہے: اللہ پاک نے اِسے(یعنی جمعہ کو)مسلمانوں
کے لیے عید کا دن بنایا ہے تو جو شخص جمعہ میں آئے وہ غسل کرے اور جس کے پاس خوشبو ہو وہ خوشبو لگائے اور مسواک
کرے۔(ابنِ ماجہ،كتاب إقامۃ الصلاة والسنۃ
فيها،باب ما جاء فی الزينۃ يوم الجمعة،2/16،حدیث:1098)
(2) حضور علیہ الصلوٰۃ و السّلام نے ارشاد فرمایا:جمعہ مسکینوں کا حج ہے۔(کشف الخفاء)
(3) حضور علیہ
الصلوٰۃ و السّلام فرمان ہے:لوگ جمعہ نہ پڑھنے کے عمل سے باز آ جائیں ورنہ اللہ پاک
ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا پھر وہ غافلوں میں سے ہوجائیں گے۔(صحیح مسلم،کتاب
الجمعۃ،حدیث: 2002،ص13 )
(4) حضور علیہ الصلوٰۃ و السّلام نے ارشاد فرمایا: جوشخص جمعہ کے دن غسل کرے اور جتنا ہوسکے طہارت کرے پھر تیل
اور گھر میں موجود خوشبو لگائے ، دو افراد میں جدائی نہ ڈالے، جتنی رکعتیں ہو سکيں
ادا کرے، جب امام کلام کرے تو یہ خاموش رہے تو اس کے اس جمعہ اور اگلے جمعہ کے درمیان کے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔(بخاری شریف ، کتاب الجمعہ ،باب الدھن للجمعۃ،1/306،حدیث: 883)
(5) حضرت سیّدنا ابو ہریرہ رضی
اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور پانچوں نمازیں ان کے مابین تمام صغیرہ گناہوں کا کفارہ ہیں جب کہ
گناہ کبیرہ سے بچا جائے۔ (شعب الایمان ، باب فی الصلوات، فضل الجمعۃ، 3/107،حدیث: 3020)
اللہ پاک کی بارگاہ
میں دعا ہے کہ وہ ہمیں نمازِ جمعہ کے
بابرکت دن کو نیکیوں میں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور گناہوں سے بچنے اور
دوسروں کو بچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی
الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد حسن رضا
(درجہ سادسہ،جامعۃ المدینہ فیضان عثمان غنی گلستان جوہر ،کراچی،پاکستان)
پیارے اسلا می بھائیو! ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے صدقے ہمیں جُمُعۃ المبارَک کی
نعمت سے سرفراز فرمایا۔ افسوس! ہم ناقدرے اس مبارک دن کو بھی عام دِنوں کی طرح
غفلت میں گزار دیتے ہیں حالانکہ جمعہ یومِ
عید ہے، جمعہ سیّد الایّام یعنی سب دنوں کا سردار ہے، جمعہ کے دن مرنے والا خوش نصیب مسلمان شہید کا رتبہ
پاتا اور عذابِ قبر سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
جمعہ فرضِ عین (جس
کا ادا کرنا عاقل، بالغ، مسلمان، مرد پر ضروری) ہے اور اس کی فرضیت ظہر سے زیادہ
مؤکّد (یعنی تاکیدی) ہے اور اس کا منکر (یعنی انکار کرنے والا) کافر ہے۔
کُتُبِ احادیث میں نمازِ جمعہ کی فضیلت و اہمیت پر کئی فرامینِ مصطفیٰ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیان فرمائے گئے ہیں۔ جن میں سے پانچ فرامین پیشِ خدمت
ہیں:۔
(1)غریبوں کا حج: حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن عبّاس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا: اَلْجمعۃُ حَجُّ الْمَسَاکِیْن یعنی جمعہ کی نماز
مساکین کا حج ہے۔ اور دوسری روایت میں ہے
کہ اَلْجمعۃُ حَجُّ الْفُقَرَاء یعنی جمعہ کی نماز غریبوں کا حج ہے۔ (جمع الجوامع لِلسُّیُوطی ، 4/84، حدیث:11108، 11109)
(2)جمعہ کے لئے جلدی نکلنا حج ہے: اللہ پاک کے
آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فر
مایا :بلا شبہ تمہارے لئے ہر جمعہ کے
دن میں ایک حج اور ایک عمرہ موجود ہے، لہٰذا جمعہ کی نماز کے لئے جلدی نکلنا حج ہے اور جمعہ کی نماز کے بعد عصر کی نماز کے لئے انتظار کرنا عمرہ ہے۔ (السنن الكبرى للبیہقی،
3/342،حديث: 5950)
(3) جنّت واجِب ہو گئی: حضرتِ سیِّدُناابواُمامہ رضی اللہُ عنہ سے مَروی ہے کہ سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فر مایا: جس نے جمعہ کی نَماز
پڑھی ،اس دن کا روزہ رکھا ، کسی مریض کی عیادت
کی ،کسی جنازہ میں حاضِر ہوا اور کسی نِکاح میں شرکت کی توجنت اس کے لیے واجِب
ہوگئی۔(المعجمُ الکبیر ،8/97،حدیث:7484)
(4) سب دنوں کا سردار : سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: جمعہ کا دن تمام دِنوں کا سردار ہے اور اللہ پاک کے
نزدیک سب سے بڑا ہے اور وہ اللہ پاک کے نزدیک عیدُالْاَضْحٰی اور عیدُالْفِطْر سے بڑا ہے۔ (سنن اِبنِ ماجہ، 2/8،حدیث:1084)
(5) دل پر مہر: اللہ کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت
نشان ہے: جو شخص تین جمعہ (کی
نَماز) سُستی کے سبب چھوڑے اللہ پاک اس کے دل پر مُہر کر دے گا۔(سنن ترمذی ، 2/38،حدیث:500)
محمد بلال (درجہ ثالثہ عصری،جامعۃُالمدینہ فیضان بابا
فرید پاکپتن شریف،پاکستان)
مفسرشَہیرحکیمُ الامّت حضرتِ مفتی احمد یا ر خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : چُونکہ اس دن میں تمام مخلوقات
وُجُود میں مُجْتَمَع( یعنی اکٹھی) ہوئی کہ تکمیلِ خَلق اِسی دن ہوئی نیز حضرتِ
آدم علیہ السّلام کی مِٹّی اسی دن جمع
ہوئی نیز اس دن میں لوگ جمع ہوکر نَمازِجمعہ ادا کرتے ہیں ،ان وُجُوہ سے اِسے جمعہ کہتے ہیں ۔ اِسلام سے پہلے اہلِ عَرَب اسے عَرُوبہ کہتے تھے۔ (مِراٰۃالمناجیح، 2/317)
جمعہ کی مختصر
تعارف کے بعد اب جمعہ کی فضیلت و اہمیت پر
مشتمل پانچ فرامینِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم پڑھیے:۔
(1)سرکارِ مدینہ، سلطانِ باقرینہ ، قرارِ قلب وسینہ ، فیض
گنجینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اِرشادِ رَحمت بنیاد ہے: بے شک اللہ پاک اور
اس کے فرِشتے جمعہ کے دن عمامہ با ند
ھنے والوں پر دُرُود بھیجتے ہیں
۔(مَجْمَعُ الزَّوائِد ،2/394،حدیث:3075)
(2)حضرتِ حمید بن عبدالرحمن رضی
اللہُ عنہما اپنے والِد سے روایت کرتے ہیں کہ فرمایا:جو شخص جمعہ کے دن اپنے ناخن کاٹتا ہے اللہ پاک اس سے
بیماری نکال کرشِفا داخِل کردیتا ہے۔ (مُصَنَّف ابن اَبی شَیْبہ، 2/65)
(3) سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافرمانِ نَجات
نشان ہے: جمعہ کے دن اور رات میں چوبیس
گھنٹے ہیں کوئی گھنٹا ایسا نہیں جس میں اللہ پاک جہنَّم سے چھ لاکھ آزاد نہ کرتا
ہو، جن پر جہنَّم واجِب ہو گیا تھا۔(مُسْنَد اَبِی یَعْلٰی، 3/235،حدیث:3421)
(4) تاجدارِ مدینۂ منوَّرہ ،سلطانِ مکّۂ مکرّمہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا: جو
روزِ جمعہ یا شبِ جمعہ (یعنی جُمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب) مرے گا عذاب قَبْر سے بچا لیا
جا ئے گااور قِیامت کے دن اِس طرح آ ئے گا کہ اس پر شہیدوں کی مُہرہو گی۔(حِلْیَۃُ الْاولیاء، 3/181،حدیث:3629)
(5) سرکارِ مکّۂ مکرَّمہ، سردارِمدینۂ منوَّرہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عِنایت نشان ہے: جمعہ میں
ایک ایسی گھڑی ہے کہ اگر کوئی مسلمان اسے پاکر اس وقت اللہ پاک سے کچھ مانگے تواللہ پاک اسکو ضرور د ے گا اور وہ گھڑی
مختصر ہے۔ (صَحیح مُسلِم ،ص424،حدیث:852)
اللہ پاک ہمیں پانچوں نمازیں نوافل کے ساتھ ساتھ جمعہ کی نماز بھی باجماعت ادا کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم