دنیا بھر میں اسلامی بہنوں کےدرمیان ہونے والے دینی
کاموں کی کارکردگی کی رپورٹ
دعوت
اسلامی دینی و فلاحی کاموں کی ایسی منفرد تحریک ہے جو دنیا بھر میں نہ صرف اسلامی
بھائیوں میں بلکہ اسلامی بہنوں میں بھی دینی کاموں کو فروغ دے رہی ہے۔ اس تحریک میں
اسلامی بھائیوں کے 12 دینی کاموں کی طرح اسلامی بہنوں میں دینی کام کرنے کے لئے
آٹھ دینی کاموں کو وضع کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی بھائیوں کے شعبہ جات کی طرح
اسلامی بہنوں کے لئے بھی کئی شعبہ جات قائم ہیں جو 56 ممالک میں اپنی
دینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
دعوت
اسلامی کا بنیادی اصول ہے کہ یہ اپنے ذمہ داران سے ان کی ذمہ داریوں کی کارکردگی
کا فالو اپ کرتی ہے اور ان کی کارکردگی میں ہونے والے کمی و زیادتی کا جائزہ لیتی ہے۔
اسی
طرح اپنے محارم کے ذریعے اسلامی بہنوں میں دینی کاموں کو سرانجام دینے والے ذمہ
داران کی کارکردگی بھی تیار کی گئی ہے جس
میں دسمبر 2021ء سے جون2022ء تک ہونے والے دینی کام اور شعبہ جات کی کارکردگی پر
رپورٹ بنائی گئی ہے ۔اس رپورٹ میں شعبہ
جات اور آٹھ دینی کاموں کے ذریعےہونے والے دینی کاموں کا تقابلی جائزہ لیا گیا۔
آٹھ
دینی کاموں کا تقابلی جائزہ دسمبر 2021ء تا جون 2022:
کارکردگی میں اضافہ
٭نئی منسلک ہونے والی اسلامی بہنیں:1%٭ہفتہ
وار اجتماع کی تعداد: 7%٭ہفتہ
وار اجتماع میں اسلامی بہنوں کی تعداد: 8%٭مدرسۃ المدینہ بالغات کی تعداد: 10%٭مدرسات
کی تعداد: 9%٭طالبات
کی تعداد: 11%
شعبہ
جات کے دینی کاموں کا تقابلی جائزہ دسمبر
2021ء تا جون 2022:
کارکردگی میں اضافہ
٭شعبہ روحانی علاج:76% ٭شارٹ کورسز ڈیپارٹمنٹ:184% ٭شعبہ تعلیم:213% ٭رابطہ برائے شخصیات:220% ٭مکتبۃ المدینہ:31% ٭محفل نعت:132% ٭ڈونیشن بکس:1% ٭کفن دفن:44% ٭تقسیم رسائل:92% ٭فنانس ڈیپارٹمنٹ:109% ٭فیضان آن لائن اکیڈمی (مدنی عملہ):78% ٭جامعۃ
المدینہ گرلز (طالبات
کی کاکردگی):7% ٭دار
المدینہ گرلز (دینی
کاموں کی کارکردگی):361% ٭مدرسۃ المدینہ گرلز:72%
دنیا
بھرمیں مختلف زبانوں میں ہونے والے دینی کاموں کی کارکردگی:
20
ممالک میں بنگلہ، کچھی میمن، ٹمل، انگلش،
ہندی، عربی، بلوچی، فرنچ اور سواہلی زبان میں 21 مقامات پر سنتوں
بھرے اجتماعات کا انعقاد کیا گیا جن میں
شریک ہونے والی اسلامی بہنوں کی تعداد422 رہی۔
اس کے
علاوہ بنگلہ زبان میں کلکتہ اور ساؤتھ افریقہ میں شارٹ کورسز ہوئے، اس کے ساتھ
ساتھ نارتھ امریکہ میں تین، کلکتہ میں دو اور مزید یوکے اور فاریسٹ میں مدرسۃ
المدینہ بالغات بھی لگائے جارہے ہیں۔
سالانہ ڈونیشن کارکردگی2021 تا 2022:
اس
سال اسلامی بہنوں کی جانب سے کی جانے والی ڈونیشن میں 35%کا
اضافہ ہوا۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنط اَمَّا بَعْدُ!
فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمط بِسْمِ
اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمط
دُرُود شریف کی فضیلت
اللہ
پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے
ہیں: قیامت کے دن لوگوں میں میرے قریب تَر وہ ہوگا جس نے مجھ پر زیادہ دُرُودِ پاک
پڑھے ہوں گے۔ ([1])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب صَلَّی
اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
ہمارے لئے
یہ بات قابلِ فخر ہے کہ ہماری تاریخ ایسی جلیل ا لقدر شخصیات سے مُزَیَّن ہے جن کی علمی وَجاہت کا شُہرہ
اَطرافِ عالَم میں پھیلا ہوا ہے۔جن کی کوششوں اور شبانہ روز محنتوں کی وجہ سے
مستندد دینی احکامات مسلمانوں تک منتقل
ہوتے رہے ہیں، ان ہی جلیل ا لقدر شخصیات میں سے ایک نام حضرت علّامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ
اللہ علیہ کا بھی ہے۔
نام و نسب اور ولادت
آپ
کی ولات 1198ھ مطابق 1784ء میں ملکِ شام کے دار الخلافہ دمشق میں ہوئی۔ آپ
کا نام سید محمد امین بن عمر بن عبد العزیز ہے۔ آپ کا نسب انتیس (29) واسطوں سے نواسہ
ٔرسول حضرت امامِ حسین رضی اللہُ عنہ
سے جاملتا ہے۔ آپ کا خاندان فضل و شرف میں
مشہور تھا۔([2])
آپ کا حلیہ مبارک
آپ رحمۃ اللہ علیہ کا قد دراز، انگلیاں و اعضاء چوڑے
تھے، رنگ سفید اور بال سیاہ تھے، سفید بال بہت کم تھے کہ اگر کوئی گننا چاہے تو
باآسانی گن سکتا تھا ۔ ([3])
ابن ِعابدین سے شہرت
آپ”
ابنِ عابدین “کے نام سے مشہور ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے جدِ اعلیٰ محمد
صلاح الدین کثرتِ عبادت و ریاضت اور زہد و تقوی کی وجہ سے ”عابدین“ کے لقب
سے معروف تھے اور آپ ہی اس خاندان کی
شہرت کی اساس اور بنیاد ہیں چنانچہ اسی نسبت سے علامہ شامی ”ابنِ عابدین“ کہلاتے
ہیں ۔
ولادت سے پہلے بشارت
صاحبِ کشف
ولی شیخ صالح رحمۃ اللہ علیہ علامہ
شامی کے ماموں تھے،آپ نے اپنی بہن کو علامہ شامی کے پیدا ہونے کی بشارت دی اور پیدائش کے بعد نام بھی ماموں نے رکھا۔
ماموں
جان بچپن میں علامہ شامی کو گود میں لے کر کہتے: میں نے تمہارے سر پر بزرگی و
سیادت کا تاج رکھ دیا ہے ۔ ([4])
تعلیم و تربیت
علامہ
شامی رحمۃ
اللہ علیہ نے اپنے والد سید عمر عابدین رحمۃ اللہ
علیہ کے سائے میں تربیت پائی ۔ آپ نے بہت
چھوٹی سی عمر میں قرآنِ پاک حفظ کر لیا تھا ۔ پھر حفظِ قرآن کے بعد اپنے والد کی
دکان پر بیٹھ گئے ۔([5])
علمِ دین کی طرف میلان کا سبب
ایک
دفعہ آپ دکان پر بیٹھےقرآنِ پاک کی تلاوت کر رہے تھے اتنے میں ایک بزرگ پاس سے گزرے۔ انہوں نے آپ کی قرأت کو ناپسند کیا اور کہا : ایک تو تم قراٰن
صحیح نہیں پڑھ رہے اور پھر بھرے بازار میں پڑھ رہےہوجس کی وجہ سے دوسرے لوگ بھی
گناہ گار ہو رہے ہیں۔ یہ سن کرآپ نے درست قراٰن پڑھنے کا ارادہ کیا اور حضرت سعید
حموی شافعی رحمۃ
اللہ علیہ سے فنِ قرأت و تجوید سیکھی یہاں تک کہ
اس فن میں ماہر ہوگئے۔ پھر مزید شوق بڑھا
تو نحو ، صرف اور فقہ شافعی پڑھی۔
فقہِ حنفی کی طرف توجہ
آپ کے ابتدائی شیخ سعید حموی رحمۃ اللہ علیہ شافعی
تھے اسی لیےابتداءً آپ کا میلان بھی فقہ
شافعی کی طرف ہی تھا،پھرجب شیخ محمد شاکر بن علی العقاد حنفی رحمۃ اللہ علیہ سے فقہ حنفی کے اصول اور ان کے
جزئیات پڑھے اورآپ نے فقہ حنفی کو اختیار
کیا۔ ([6])
سلسلہ قادریہ سے نسبت
علامہ
شامی رحمۃ
اللہ علیہ نے اپنے استاذِ محترم شیخ شاکر العقاد
رحمۃ
اللہ علیہ سے نہ صرف علمِ دین کے موتی سمیٹے اور
ان کی تربیت میں رہ کر وقت کے امام بنے بلکہ آپ رحمۃ اللہ
علیہ ان سے سلسلہ قادریہ میں مرید بھی ہوئے
اور ان سے خلافت بھی حاصل کی ۔ ([7])
استاذ کا ادب
علامہ
شامی رحمۃ
اللہ علیہ کے صاحبزادے سید علاؤالدین رحمۃ
اللہ علیہ بیان کرتے ہیں: میرے والد اپنے شیخ
محمد شاکر العقاد رحمۃ
اللہ علیہ کے ہمراہ دمشق میں شیخ محمد عبد النبی
رحمۃ
اللہ علیہ سے ملاقات کے لیے گئے جب دونوں حضرات
ان کے پاس پہنچے تو ان کے استاد تو وہاں
بیٹھ گئے لیکن میرے والد اپنی عادت کے مطابق شیخ کے جوتے اٹھا ئےچوکھٹ پر کھڑے رہے، یہ دیکھ کر شیخ محمد عبد النبی نے
شیخ شاکر العقاد سے کہا : اس سید زادے سے کہو کہ بیٹھ جائیں،یہ جب تک نہیں بیٹھیں گے میں بھی نہیں بیٹھوں گا، اس پر آلِ
نبوت کا نور ہے اور بہت جلد اس کے علم و فضل سے تمام شہر فیض یاب ہوں گے ۔ تب استاذ نے انہیں بیٹھنے کا کہاتو آپ بیٹھ گئے۔ ([8])
آپ کے شیوخ و اساتذہ
آپ نے علمِ تجوید شیخ سعید الحموی رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل
کیا ۔ علمِ تفسیر ، حدیث، فقہ و اصولِ فقہ
اور دیگر علوم شیخ محمد شاکر السالمی رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کئے ۔ آپ نے شیخ امیر المصری رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ
محمد الکزبری رحمۃ اللہ علیہ سے بھی علوم و اجازت حاصل کیں۔ آپ نے شامی، مصری، حجازی، عراقی اور رومی مشائخ
سے بھی علوم حاصل کئے۔ ([9])
مشہور تلامذہ
علامہ
شامی رحمۃ
اللہ علیہ سے کثیر علماء نے فیض حاصل کیا جن میں سے مشہور یہ ہیں : (1) شیخ عبد الغنی میدانی (2) شیخ
حسن البیطار (3) احمد آفندی (4) سید
محمد آفندی۔([10])
والدِ محترم کی شفقت
حصولِ
علم کے لیے کتاب طالبِ علم کا حسن اور خوبی ہے اس کے بغیر عروج و بلندی کے زینے طے
نہیں کر سکتا۔ علامہ
شامی رحمۃ
اللہ علیہ کے والد بہت ہی نیک سیرت اور پارسا آدمی تھے ۔ آپ تجارت کے پیشے سے منسلک
تھے۔ ایک
دفعہ اپنے صاحب زادے سے شفقت و محبت کا اظہار اس طرح فرمایا : تمہیں جس کتاب کی
بھی حاجت ہو خرید لو پیسے میں دوں گا کیونکہ تم نے میرے اسلاف کی سیرت کا وہ
پہلو زندہ کیا ہے جسے
میں نے فوت کر
دیا۔ اے میرے بیٹے! تمہیں اللہ پاک بہتر جزا عطا فرمائے۔ ([11])
والدِ محترم کے لیے ایصالِ ثواب
علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ کے والدِ محترم کا 1237ھ میں وصال ہوا۔ وصال کے بعد علامہ
شامی کا معمول تھا کہ ہر رات سونے سے پہلے کچھ قراٰنِ کریم پڑھ کر ان کی روح کو
ایصال کرتے تھے۔ایک مہینہ ہی گزرا تھا کہ
مرحوم والد خواب میں آکر فرمانے لگے: اے میرے بیٹے اللہ پاک تجھے اس خیرات پر
جزائے خیر دے جو ہر رات مجھے ہدیہ کرتا ہے۔ ([12])
آپ کی والدہ بھی انتہائی نیک سیرت اور پارسا خاتون تھیں ۔ علامہ شامی کے وصال کےدو سال
بعد تک زندہ رہیں۔ بیٹے کے انتقال کے بعد
آپ کا معمول تھا کہ ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک ایک لاکھ مرتبہ سورہ اخلاص پڑھتیں
اور اس کا ثواب اپنے لختِ جگر کو ایصال کرتی تھیں ۔ ([13])
آپ کے شب و روز کی تقسیم
آپ نے تدریس و
افتاء اور تصنیف و تالیف کے لیے اوقات تقسیم کر رکھے تھے، عموماً رات کے وقت تصنیف و تالیف کرتے اور دن تدریس،
فتاویٰ اور مطالعہ کے لیے وقف تھے ۔ آپ انتہائی پرہیزگار اور متقی تھے،بہت کم
سوتے، رمضان میں ہر رات ختم قراٰن کرتے تھے ۔اللہ پاک نے آپ کو قبولِ عامہ عطا کیا تھا جس کی وجہ سےلوگ آپ کی بات مان لیتے تھے اور جس کو جو لکھ
کر دیتے وہ یقینا اس کے لیے باعثِ نفع
ثابت ہوتا ۔ ([14])
علمی و تحقیقی خدمات
آپ
رحمۃ
اللہ علیہ نے اپنی زندگی دینِ متین کی خدمت و اشاعت
کے لیے وقف کر رکھی تھی ۔ تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کے میدان میں کارہائے
نمایاں سر انجام دیئے اور قابلِ فخر کتب، حواشی اور شروحات تصنیف فرمائیں ۔آپ نے
فقہ حنفی سے متعلق تیس کتابیں تالیف فرمائیں ان میں سے چند کے نام یہ ہیں : (1)حاشِیہ رَدُّ المُحْتَار
علی الدرِ المُخْتَار (2)حاشِیہ مِنْحَۃُ الخَالِق علی البَحْرِ الرَّائِق (3)عُقُودُ رسمِ المُفتِی (4)نَظمُ الکَنْز (5)رَفْعُ التَّرَدُّد فی
عَقْدِ الاَصَابِعِ عند التَّشَہُّد مع ذَیلِہَا ۔
اصولِ فقہ
پر چار کتابیں تحریر کیں: (1)نَشرُ
العُرف فی بَناءِ بَعضِ الاَحکامِ عَلی العُرف (2) نَسماتُ
الاَسحَار عَلی شَرح ِالمَنَار (3)حاشیہ
کُبری عَلی شَرح ِاِفَاضَۃ الاَنوَار (4)حاشِیہ عَلی شَرح
ِالتَقْرِیرِ وَ التَعْبِیْر۔
علمِ تفسیر
پر حاشِہ عَلی تَفْسِیرِ البَیْضَاوِی لکھا ۔
علمِ کلام
و عقائد پر تین کتابیں لکھیں : (1)رَفْعُ
الاِشْتِبَاہ عَنْ عِبَارَۃِ الاَشْبَاہ (2)تَنْبِیہُ الوُلاۃِ وَ
الحُکَّامِ عَلی اَحکامِ شَاتِمِ خَیْرِ الاَنَامِ اَوْ اَحَدِ اَصْحَابِہ (3)اَلعِلمُ الظَّاہِر فیِ
نَفْعِ النَّسَبِ الطَّاہِر ۔
تصوف میں
دو کتابیں لکھیں : (1)اِجَابَۃُ
الغَوْثِ فیِ بَیانِ حَالِ النُّقَبَاء (2)سل الحسام الہندی لنصرۃ مولانا خالد النقشبندی
علومِ عربیہ
پر سات کتابیں لکھیں جن میں سے چند کے نام یہ ہیں : (1)الفوائدُ العجیبۃُ فی
اعراب الکلمات الغربیۃِ ، یہ علمِ نحو پر مشتمل ہے ۔ (2)شرح ُالکافی فی العُروض
و القَوافی ، یہ علمِ عروض پرمشتمل ہے۔ (3)مقامات
فی مدح الشیخ شاکر العَقاد ، یہ ادب پر مشتمل ہے ۔ (4)حاشِیہ علی المُطول ، یہ علمِ
بلاغت پر مشتمل ہے۔ سیرت پر قِصۃ
المولد النبوی لکھی ۔ تاریخ سے متعلق ذیل
سلک الدرر تحریر فرمائی اور علمِ حساب و ہیٔیت پر مناہل
السرور لمبتغی الحساب بالکسور لکھی ۔ ([15])
وصالِ پُر ملال
علامہ
شامی
رحمۃ اللہ علیہ کا
انتقال بروز بدھ 21 ربیع الاول 1252ھ میں ہوا ۔وصال کے وقت آپ کی عمر مبارک 54
سال تھی ۔ آپ رحمۃ اللہ
علیہ کوشہرِ دمشق کے قبرستان باب صغیر میں
دفنایا گیا ۔ ([16])
آپ اپنے وقتِ وصال سے آگاہ تھے
آپ رحمۃ
اللہ علیہ اپنے وصال سے بیس دن پہلےشیخ علاؤ
الدین حصکفی صاحب در مختار اور محدثِ کبیر شیخ صالح الجینینی رحمۃ اللہ علیہما کی
مزاروں کے قرب میں اپنے لیے ایک قبر بنوائی تھی، پھر آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو وہیں دفن کیا گیا ۔ ([17])
نمازِ جنازہ
آپ
رحمۃ
اللہ علیہ کے جنازے میں اتنے لوگ تھے کہ ان سے
پہلے کے جنازوں میں ایسا نہ دیکھا گیا یہاں تک کہ لوگوں کے ہجوم، نقصان اور لوگوں
کا ایک دوسرے کو ایذا رسانی کی وجہ سے آپ کا جنازہ لوگوں کی انگلیوں کے پوروں پر
اٹھا یا گیا تھا،کثرتِ ہجوم کی وجہ سے حاکمِ شہر اور پولیس لوگوں کو دور کرنے لگی
۔ ([18])
آپ
کا جنازہ جامع سنان پاشا میں پڑھا
گیا،مسجد بھر جانے کےسبب باہر سڑک پر بھی جنازہ ادا کیا گیا ۔ آپ کا جنازہ شیخ سعید الحلبی رحمۃ
اللہ علیہ نے پڑھایا۔([19])
آپ کے مزار کی برکات
آپ
رحمۃ
اللہ علیہ کی قبر مبارک کی برکت کو بیان کرتے
ہوئے لکھا گیا: وَ
قَبَرُہُ مَشْہُوْرٌ ھُنَاکَ، عَلَیْہٖ
جَلَالَۃٌ یُقْصَدُ لِطَلَبِ الحَوائِجِ
وَ یُزَارُ یعنی آپ کی
قبر مبارک وہاں مشہور ہے، قبر مبارک پر
ہیبت و جلالت ظاہر ہوتا ہے ۔ پریشانیوں کے حل کے لئے آپ کی قبر کی زیارت کی جاتی
ہے ۔ ([20])
[1]:
ترمذی ، 2/27، حدیث : 484
[2]:
تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار
، 11/ 10 ماخوذاً
[3]:
تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار ،
11/ 14 ملتقطاً
[4]:
تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار
، 11/17
[5]:
تکملۃ رد
المحتار علی الدر المختار ، 11/
11
[6]:
حلیۃ
البشر فی تاریخ القرن الثالث عشر،
ص 1238ملتقطاً
[7]: تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار ، 11/ 13
[8]: حلیۃ البشر فی تاریخ القرن الثالث عشر، ص 1239
[9]: تکملۃ
رد المحتار علی الدر المختار ، 11/ 17
[10]:تکملۃ رد المحتار علی
الدر المختار ، 11/ 18ملتقطاً
[11]:
تکملۃ رد
المحتار علی الدر المختار ، 11/
14
[12]:
تکملۃ رد
المحتار علی الدر المختار ، 11/
15
[13]:
تکملۃ رد
المحتار علی الدر المختار ، 11/
15ماخوذاً
[14]:
تکملۃ رد
المحتار علی الدر المختار ، 11/
14ملتقطاً
[15]:
تکملۃ رد
المحتار علی الدر المختار ، 11/
12ملتقطاً
[16]:
تکملۃ رد
المحتار علی الدر المختار ، 11/
20
[19]:
حلیۃ البشر فی تاریخ القرن الثالث
عشر، ص 1239
[20]:
حلیۃ البشر فی تاریخ
القرن الثالث عشر، ص 1239
حدثنا عمرو بن سواد المصري قال: حدثنا عبد الله بن وهب، عن عمرو بن الحارث،
عن سعيد بن أبي هلال، عن زيد بن أيمن، عن عبادة بن نسي، عن أبي الدرداء، قال: قال رسول
الله صلى الله عليه وسلم: ”أكثروا الصلاة علي يوم الجمعة؛
فإنه مشهود، تشهده الملائكة، وإن أحدا لن يصلي علي، إلا عرضت علي صلاته، حتى يفرغ
منها“قال: قلت: وبعد الموت؟ قال: ”وبعد الموت، إن الله حرم
على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء، فنبي الله حي يرزق“
سرکارِ مدینہ، راحتِ قلب و سینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ باقرینہ ہے:’’اَکْثِرُوا الصَّلَاۃَ عَلَیَّ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ فَاِنَّہٗ مَشْہُوْدٌ
تَشْہَدُہُ الْمَلَائِکَۃُ وَاِنَّ اَحَدًا لَنْ یُّصَلِّیَ عَلَیَّ اِلَّا عُرِضَتْ
عَلَیَّ صَلَا تُہُ حَتَّی یَفْرُغَ مِنْہَا“
”یعنی جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے دُرُود بھیجا کرو کیونکہ یہ یومِ مشہود (یعنی میری بارگاہ میں فِرِشتوں کی خُصُوصی حاضِری کا دن)ہے، اس دن فِرِشتے (خُصُوصی طور پر کثرت سے
میری بارگاہ میں ) حاضِر
ہوتے ہیں، جب کوئی شخص مجھ پر دُرُود بھیجتا ہے تو اس کے فارغ ہونے تک اس کا
دُرُود میرے سامنے پیش کردیا جاتا ہے ۔“ حضرتِ سَیِّدُنا ابُو دَرْداء رضی اللّٰہ عَنْہ کا بیان ہے کہ میں نے عرض کی: ’’(یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم!) اور آپ کے وصال کے بعد
کیا ہوگا؟‘‘ارشاد فرمایا:’’ہاں (میری
ظاہری) وَفات کے بعد بھی (میرے سامنے اسی طرح پیش
کیا جائے گا)“۔ ”اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَاْکُلَ اَجْسَادَ
الْاَنْبِیَاءِ،یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے زمین کے لئے اَنبیائے کرام علیھم الصَّلوۃ والسَّلام کے جسموں کا کھانا حرام کر دیا ہے۔“ فَنَبِیُّ اللّٰہِ حَیٌّ یُرْزَقُ،”پس
اللہ عَزَّوَجَلَّ کا نبی زِندہ ہوتا ہے اور
اسے رِزْق بھی عطا کیا جاتا ہے۔‘‘ (سنن ابن
ماجه،کتاب الجنائز،باب ذكر وفاته ودفنه صلى الله عليه وسلم،
جلد 1،صفحہ 519،حدیث:1637(
ہمیں کوشش کرکے بالخُصُوص جمعۃالمبارک
کے دن دُرُود شریف کی کثرت کرنی چاہئے کہ اَحادیثِ مُبارَکہ میں اِس روز کثرتِ دُرُود کی خاص طور پر تاکید کی
گئی ہے اور زَمین اَنبیائے کرام عَلَیْھِمُ الصَّلٰوۃُوالسَّلام کے مُبارک جسموں کو
کیوں نہیں کھاتی ، اس کی اِیمان اَفروز تَوجِیہ بیان
کرتے ہوئے حضرتِ علَّامہ عبدالرؤف مَنَاوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ
اللّٰہ الْقَوی ارشاد فرماتے ہیں: ’’لِاَنَّہَا
تَتَشَرَّفُ بِوَقْعِ اَقْدَامِہِمْ عَلَیْہَا وَتَفْتَخِرُ بِضَمِّہِمْ اِلَیْہَا
فَکَیْفَ تَأْکُلُ مِنْہم،اس
لئے کہ زمین اَنبیائے کرام عَلَیْھِمُ الصَّلٰوۃ والسَّلام کے مُبارک قَدموں کے بوسے سے مُشرَّف ہوتی ہے اور اسے یہ
سَعادت ملتی ہے کہ َانبیائے کرام کے مُبارک اَجسام زمین سے مَس ہوتے
ہیں تو یہ اِن کے جسموں کو کیسے کھا سکتی ہے ۔ (فیض القدیر،حرف الھمزۃ،جلد 2،صفحہ
535،تحت الحدیث 2480)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تمام حضرات انبیاء عَلَیْھِمُ
الصَّلٰوۃ والسَّلام کے مقدس اجسام ان کی مبارک قبروں میں سلامت رہتے ہیں اور زمین پر
حضرت حق جل جلالہ نے حرام فرما دیا ہے کہ ان کے مقدس جسموں پر کسی قسم کا تغیر و
تبدل پیدا کرے۔ جب تمام انبیا عَلَیْھِمُ
الصَّلٰوۃ والسَّلام کی یہ شان ہے تو پھر بھلا حضور سید الانبیاء و سید المرسلین
اور امام الانبیاء و خاتم النبییّن صلى الله عليه وسلم کے مقدس جسم انور کو زمین کیونکر کھا سکتی ہے؟
اس لئے تمام علماء امت و اولیاء امت کا یہی عقیدہ ہے کہ حضورِ اقدس صلى الله عليه وسلم اپنی
قبر اطہر میں زندہ ہیں اور خداعزوجل کے حکم سے بڑے بڑے تصرفات فرماتے رہتے ہیں اور اپنی خداداد پیغمبرانہ قوتوں
اور معجزانہ طاقتوں سے اپنی امت کی مشکل کشائی اور ان کی فریاد رسی فرماتے رہتے
ہیں۔
خوب یاد رکھئے !کہ جو شخص اس کے خلاف عقیدہ
رکھے وہ یقینا بارگاہِ اقدس کا گستاخ بد عقیدہ، گمراہ اور اہل سنت کے مذہب سے خارج
ہے۔ (سیرتِ
مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم،صفحہ 645)
حضراتِ انبیاء عَلَیْھِمُ الصَّلٰوۃ والسَّلام بالخصوص حضرت سیدالانبیاء صلى الله عليه وسلم اپنی
اپنی قبر میں لوازمِ حیات جسمانی کے ساتھ زندہ ہیں اور ہر گز ہرگز ان کے جسموں کو
مِٹی نہیں کھاسکتی کیوں کہ اللہ پاک نے زمین پر حرام ٹھہرادیا ہے کہ وہ انبیاء
کرام عَلَیْھِمُ الصَّلٰوۃ والسَّلام کے جسموں کو کھاسکے۔
اس حدیث کا آخری فقرہ کہ ” فَنَبِیُّ
اللہِ حَیٌّ یُّرْزَقُ“ یعنی اللہ عزوجل کے نبی زندہ ہیں اور انہیں روزی دی جاتی ہے۔اس کا کیا مطلب ہے؟ تو اس بارے
میں صاحبِ مرقاۃ کا بیان ہے کہ ("يرزق"):رزقا معنويا فإن الله تعالى قال في حق الشهداء من أمته (بل أحياء عندربهم يرزقون) [آل عمران: 169]
فكيف سيدهم بل رئيسهم۔۔۔۔ ولا ينافيه أن يكون هناك رزق حسي أيضا، وهو الظاهر المتبادر۔
(مرقاة المفاتيح شرح
مشكاة المصابيح،جلد
3،صفحہ 1020،تحت الحدیث 1366)
یعنی انہیں رزقِ معنوی دیا جاتا ہے اس لیے کہ
اللہ پاک نے آپ کی امت کے شہیدوں کے بارے میں فرمایا کہ ”بلکہ وہ زندہ ہیں اور
روزی دیئے جاتے ہیں۔“ تو پھر کیا حال ہوگا ان شہیدوں کے سردارکابلکہ رئیس کا اور
یہ جو ہم نے لکھ دیا ہے کہ رزق معنوی دیاجاتا ہے تو یہ اسکے منافی نہیں ہے کہ اللہ
پاک انہیں رزق حسی بھی عطا فرمائے اور یہاں یہی رزق حسی مراد لینا ظاہر ہے جو جلد
ذہنوں میں آجاتا ہے۔ (یعنی ظاہری طور
پر کھانا پینا)۔ (بہشت
کی کنجیاں،صفحہ 149)
از: مولانا سید کامران عطاری مدنی
توجہ فرمائیں:
مضمون کے تمام مندرجات (حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح،پروف ریڈنگ، فارمیشن ودیگر کا م) مؤلف
کے ذمے ہیں، ادارہ اس کاذمہ دار نہیں، الغرض شرعی تفتیش ادارے کی جانب سے کروائی جاچکی ہے۔راقم کی جانب
سےمضمون کو ہر طرح کی اغلاط سے پاک کرنے کی مقدوربھرکوشش کی گئی ہے تاہم پھر بھی مضمون میں اگر کہیں غلطی پائیں تو مذکورہ
میل آئی ڈی پر رابطہ فرمائیں:
مقالے
کا عنوان :امام
المحدثین کی اسانید مع
تعارف شیوخ اسانید،قسط
:01
مقالے کی PDF کے
لئے ڈاؤن لوڈ پر کلک کریں Download PDF
اسلام میں اسانید کی اہمیت
دین اسلام میں علم حاصل کرنے کی بھرپورترغیب ہے
اللہ پاک نے اپنے پیارے محبوب،دانائے غیوب صلی
اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے علم دین میں اضافے کی دعاکرنے کاحکم ارشادفرمایا ([1]) نبی کریم صلی
اللہ علیہ والہ وسلم نے بھی علم حاصل کرنے کی اہمیت اجاگرکرتے ہوئے
فرمایا : طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَۃ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ۔یعنی
علم حاصل کرنا ہرمسلمان پرفرض ہے۔([2])
یہی وجہ ہے مسلمانوں کی ایک تعداد علم حاصل کرنے کی جستجومیں رہتی
ہے،صحابہ کرام ،اہل بیت اطہاراورہمارے اسلاف نے طلب علم کے لیے نہ صرف اپنے وطن
میں کوشش کی بلکہ دیگرممالک وشہروں میں جاکر علم حاصل کیا،انہیں جب معلوم ہوتا ہے
کہ فلاں مقام پر فلاں فن کے عالم موجودہیں
وہ سفرکی صعوبتیں برادشت کرتے ہوئے وہاں پہنچ جاتے،ان کی صحبت میں رہ کر
خوب استفادہ کرتے اوران سے اس فن کی زبانی یا تحریری سند واجازت حاصل کرتے،کئی
بزرگوں نے ان کو اجازات ، برنامج، ثبت، فہرست، مرویات،
مسلسلات، مشیخات اورمعاجم کی صورت میں جمع فرمایا۔
اسلام اوراسانید :
اسلام میں سندکی خاص اہمیت اورمقام ومرتبہ ہے، سند سے مراد امت کا صحابہ کرام اورصحابہ کرام کا
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اورآپ
کا اللہ پاک سے بلواسطہ یا بلاواسطہ دین حاصل کرنا ہے۔ سند مومن کا ہتھیار اور عالم
کی سیڑھی ہے،چنانچہ حضرت سفیان ثوری)[3](رحمۃ
اللہ علیہ
فرماتے ہیں: سند مؤمن کا ہتھیار ہے۔( ([4]حضرت
عبداللہ بن مبارک)[5]( رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
:اموردینیہ کو بغیراسنادکے طلب کرنے والے
شخص کی مثال اُس شخص کی سی ہے جوبغیرسیڑھی کے چھت پر چڑھنا چاہتاہے۔(([6]
امام مسلم رحمۃ
اللہ علیہ
نے صحیح مسلم میں ’’ بَيَانِ اَنَّ الْاِسْنَادَ مِنَ الدِّينِ ‘‘
کے عنوان سے مستقل باب قائم کیا ہے،(([7]
جس سےسند کی اہمیت واضح ہوتی ہے، احادیث وفقہ کے علاوہ دیگراسلامی علوم بھی اپنے کہنے والے کے ساتھ سند کے ذریعے
قائم اور مربوط ہیں، اسی امتیازی خصوصیت کی بنیاد پر علومِ اسلامیہ کی استنادی
حیثیت نہایت مضبوط ہے، اسنادکا یہ انداز صرف مسلمانوں کی خصوصیت ہے، جس سے اللہ پاک
نے اس اُمت کو نوازا ہے، کسی اور امت کے ہاں اس کا تصور بھی نہیں۔ اسناد کی مذکورہ
بالا اہمیت کے پیش نظر علامہ ابن حجر عسقلانی([8]) رحمۃ
اللہ علیہ نے (سند
قرآن وحدیث وفقہ) کا
جاننا فرضِ کفایہ قرار دیا ہے۔([9]) امام المحدثین
مفتی سیدمحمددیدارعلی شاہ الوری رحمۃ اللہ علیہ سند کافائدہ
یوں بیان فرماتے ہیں: مشہور کتابوں کی روایتوں کا ثبوت ہر (فقہی) مذہب
کے ائمہ مجتہدین تک مثل ثبوت خبرمتواترہے، جو یقین فائدہ کا دیتی ہے۔([10]) مزیدتحریر فرماتے
ہیں :کاتب الحروف کویہیں لازم ہواکہ اپنی سندفقہ وحدیث کو جناب رسالت مآب صلی
اللہ علیہ وسلم تک
بلکہ جناب باری عزاسمہ تک لکھ کردکھادے اوریہ ثابت کردکھائے کہ ہرسنی حنفی عالم
معتبرکی سند اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک
برابر پہنچتی ہے۔([11])
اس کے بعد امام لمحدثین نے اپنی تمام اسنادکو
تفصیلابیان فرمایاہے۔
امام
المحدثین کی اسانید: امام
المحدثین مفتی سید محمددیدارعلی شاہ رحمۃ
اللہ علیہ جیدعالم دین
،محدث وقت، مُسنِدالعصراوراستاذالعلما تھے ،آپ نے اکابرعلمائے اہل سنت سے خوب
استفادہ کیا، عالی اسنادحاصل کیں اوراشاعت علوم وفنون میں مصروف ہوگئے، پھر وہ وقت
بھی آیا کہ آپ کا شماربھی اکابرعلمائے اہل سنت میں ہونے لگا،آپ نے
جن علما و محدثین سے عُلوم اوراسنادحاصل کیں ان کی تعداد آٹھ ہے،جن کے اسمائےگرامی
(نام )یہ ہیں،
استاذالقراءقاری قادرعلی رٹولوی ثم الوری، جامع علوم وفنون علامہ سلامت اللہ خان
رامپوری،تاج المحدثین علامہ ارشادحسین رامپوری، استاذالمحدثین علامہ احمد علی
سہارنپوری،شیخ المشائخ علامہ فضل حق گنج مرادآبادی،اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان، علامہ
عبدالغنی بہاری مہاجرمدنی اورتاج العلماعلامہ سیداولادرسول محمد میاں قادری
مارہروی رحمۃ
اللہ علیہم۔([12] )امام المحدثین نے اپنی کتاب تفسیرمیزان
الادیان میں جن اسنادکا ذکر کیا، راقم سب سے پہلے آپ کی
اسانیدقرآن وقرائت کا مختصرتعارف تحریر کرتاہے۔
امام المحدثین کی اسانیدِقرآن وقرأت
امام المحدثین مفتی سیدمحمددیدارعلی شاہ صاحب کو
پانچ علما وقراء سے قرآن و قرائت کی اسانیدحاصل ہیں، امام المحدثین کی پہلی قرآن کی سند
30،دوسری 27،تیسری28 اورچوتھی30واسطوں سے صاحبِ قرآن حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ
والہ وسلم
سے مل جاتی ہے، پانچویں سند کی مکمل معلومات نہ مل سکیں ،راقم نے آنے والے مضمون
میں اولاًامام المحدثین کی تحریرکردہ سند اور اس کے بعد اس سندمیں ذکرکردہ قراء وعلما کا مختصرتعارف تحریرکیا ہے ۔
پہلی سند قرآن :
قرآن مجید کی سند یہ ہے جو خاکسار(امام المحدثین مفتی سیدمحمددیدارعلی
شاہ رحمۃ اللہ علیہ )نے سید
اولاد رسول محمد میاں قادری برکاتی مارہروی مدَّاللہُ ظِلَّهٗ سے حاصل کی تھی، محمد میاں صاحب سید اولاد رسول صاحب نے اجازت قرآن مجید حجۃ السلف
والخلف حافظ حاجی سید شاہ ابو القاسم محمد اسماعیل حسن ملقب بشاہ جی رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل
کی۔ انہوں نے اپنے برادر مکرم سید شاہ ابوالحسین احمد نوری سے۔ انہوں نے اپنے جد
اکرم شاہ آل رسول احمدی قدس سرهٗ سے، انہوں نے مولانا شاہ عبد العزیز دہلوی علیہ الرحمہ سے۔
انہوں نے اپنے والد ماجد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے۔
وہ فرماتے ہیں: میں نے تمام قرآن مجید مِنْ اَوِّلِہ اِلیٰ آخرِہٖ بروایت حفص جو عاصم
سے روایت کرتے ہیں، پڑھا شیخ صالح اور ثقہ محمد فاضل سندھی سے 1154ھ میں۔ وہ فرماتے ہیں: میں نے اسی طرح سارا قرآن
مجید پڑھا شیخ عبد الخالق شیخ القراء دہلوی سے خاص
دہلی شہر میں۔ وہ فرماتے ہیں: کل قرآن میں نے ساتوں قرائتوں کے ساتھ پڑھا شیخ محمد
بقری( [13])سے اور اسی طرح علامہ محمد بقری نے پڑھا شیخ القراء عبدالرحمن یمنی سے اور
انہوں نے اسی طرح اپنے والد ماجد شیخ شحاذہ([14]) یمنی سے اور شیخ شحاذہ نے اسی طرح پڑھا
شیخ ابو نصر طبلاوی سے اور علامہ طبلاوی نے اسی طرح پڑھا شیخ الاسلام زکریا سے۔
انہوں نے اسی طرح برہان الدین( [15])قلقیلی
اور رضوان ابو نعیم عقبی سے اور ان دونوں نے سید نا ابوالخیر امام القراء والمحد
ثین محمد بن محمد بن علی بن یوسف الجزری صاحب کتاب النشر([16])سے
اور انہوں نے بہت سے مشائخ اور قاریوں سے، جن کا مفصل ذکر کتاب نشر میں کیا ہے مگر ان کا
خاص طریق، جو تمام طریقوں سے ممتاز ہے، بہ تسلسل تلاوت اور قرائت اور ضبط کے ساتھ
صاحب کتاب النشر تک یہ ہے۔ علامہ محمد بن محمد جوزی فرماتے ہیں: میں نے تمام قرآن
مع کتاب التیسیر)[17](
کے پڑھا شیخ امام قاضی المسلمین ابوالعباس احمد بن امام ابو عبد الله حسین بن
سلیمان بن فزارہ حنفی سے شہر دمشق میں۔ انہوں نے فرمایا میں نے تمام قرآن پڑھا اپنے والد ماجد سے۔ انہوں نے
امام ابو محمد قاسم بن احمد موفق و رقی([18]) سے۔
انہوں نے فرمایا ، میں نے تمام قرآن مجید مع کتاب تیسیر کے بہت سے امام اور مشائخ
اور قاریوں سے پڑھا ، جن کے اسماء گرامی یہ ہیں: ابوالعباس احمد بن علی بن یحییٰ
بن عون الله الحصّار([19])
اور
ابو عبد الله محمد بن سعید بن محمد المرادی اور ابو عبد الله محمد بن ایوب بن محمد
بن نوح الغافقی، جو اندلسی ہیں، ان سب نے فرمایا کہ ہم سب نے مع کتاب التیسیر پڑھا
تمام قرآن مجید امام علی ابوالحسین علی بن محمد بن ہذمل بلنسی سے۔ انہوں نے فرمایا
،میں نے مع کتاب التیسیر کے ابوداؤد سلیمان بن نجاح سے پڑھا۔ فرمایا انہوں نے، میں
نے پڑھا مع کتاب التیسیر کے مؤلف تیسیر امام ابو عَمرودَانی([20]) سے۔ فرمایا
انہوں نے، میں نے پڑھا میں نے کل قرآن بروایت حفص ابوالحسن طاہر بن غلبون ([21])مقری سے۔ فرمایا انہوں
نے، پڑھا میں نے مع قرات سبعہ ابوالحسن علی بن محمد
بن صالح ہاشمی قادری نابینا سے بصرہ میں۔ فرمایا میں نے پڑھا قرائت سبعہ کے ساتھ احمد بن سہل
اشنانی سے۔ میں نے پڑھا فرمایا انہوں ، نے اسی
طرح ابو محمد عبیداللہ ([22])بن
الصباح سے۔ انہوں نے فرمایا میں نے پڑھا اسی طرح حفص سے۔ فرمایا انہوں نے، پڑھا
میں نے اسی طرح امام عاصم سے اور عاصم رحمۃ اللہ نے پڑھا ابو
عبدالرحمن عبداللہ بن حبیب سلمی اور زربن حبیش سے اور حضرت ابو عبدالرحمن نے پڑھا
حضرت عثمان بن عفان اور حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت ابی بن کعب اور حضرت زید بن
ثابت اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضوان اللہ علیہم اجمعین سے۔
ان سب نے سرور عالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
اور حضرت زار بن حبیش نے پڑھا فقط حضرت عثمان بن عفان اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی
اللہ عنہما سے
اور ان دونوں حضرات نے سرور عالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و صحبہ و
ازواجہ وذرياتہ واولیاء امتہ وجمیع امتہ وسلم سے ہے
۔( [23])
پہلی سندقرآن کے قراء
وشیوخ کا مختصرتعارف :
امام
المحدثین مفتی سیدمحمد دیدارعلی شاہ رحمۃ
اللہ علیہ کی یہ سند قرآن 30واسطوں سے
رسول کریم حضرت محمدمصطفیٰ صلی
اللہ علیہ والہ وسلم سے
مل جاتی ہے، ذیل میں ان تمام قراء کا مختصرتعارف بیان کیا جاتاہے ،بعض سطحوں میں قراء
ایک سے زیادہ بھی آئے ہیں ان کا بھی تعارف بھی بیان کردیا گیا ہےمگرانہیں نمبرشمارنہیں دیاگیا بلکہ اسٹارلگادیا گیا
ہے :
۞امامُ الْمُحدِّثین حضرت مولانا سیِّد محمد
دِیدار علی شاہ مَشْہدی نقشبندی قادِری مُحدِّث
اَلْوَری رحمۃ اللہ علیہ، جَیِّد عالِم، اُستاذُالعُلَما، مفتیِ
اسلام تھے۔ آپ اکابرین اہل سنّت سے تھے۔ 1273ھ مطابق 1856ھ کو اَلْوَر (راجِسْتھان،
ہِند )میں پیدا ہوئے
اور لاہور 22رجب المرجب 1354ھ
بمطابق 20،اکتوبر1935ء
کو (بروزپیر)نمازعصرکے سجدے میں وصال فرمایا،جامع مسجدحنفیہ
محمدی محلہ اندرون دہلی گیٹ لاہورسے متصل جگہ
میں تدفین کی گئی۔ دارُالعُلُوم حِزْبُ الْاَحْناف لاہور([24]) اور فتاویٰ دِیداریہ([25]) آپ کی یادگار ہیں۔( [26])
(1)تاج العلما، حضرت سَیِّد شاہ اولادِ رسول محمد
میاں مارہروی رحمۃ
اللہ علیہ حافظِ قراٰن،
عالمِ باعمل، شیخِ طریقت اور صاحبِ تصنیف تھے، 1309ھ مطابق1891ء میں پیدا ہوئے اور
24 جُمادی الاُخریٰ 1375ھ مطابق 7فروری 1956ء کو مارہرہ شریف (ضلع
ایٹہ یو پی) ہند میں وصال
فرمایا،تصنیف کردہ 33 کتب و رسائل میں تاریخِ خاندانِ برکات( [27] )زیادہ مشہور ہے۔( [28])
(2)بقیۃ السلف ،شاہ جی حضرت سیدشاہ
ابوالقاسم محمد اسماعیل حسن مارہروی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 2محرم
1272ھ
کو آستانہ عالیہ مارہرہ شریف میں ہوئی،آپ حافظ قرآن، عالم دین اورشیخ طریقت تھے،سلسلہ عالیہ قادریہ کی خلافت
دیگربزرگوں کے علاوہ حضرت شاہ سیّد ابوالْحُسَین
احمد نُوری رحمۃ اللہ علیہم سے حاصل ہوئی،آپ نے سجادہ نشین ہونے
کے بعد اپنے خاندان میں دینی تعلیم عام کرنے کی مہم شروع کی، خاندانی لائبریری
اورتبرکات کی حفاظت کا اہتمام کیا،جسے بعد میں اپنے لائق وجانشین تاج العلماعلامہ
سیدشاہ اولادرسول محمدمیاں قادری رحمۃ
اللہ علیہ کے حوالے
کیا۔آپ کا وصال یکم صفر1347ھ کو مارہرہ شریف میں ہوا۔( [29])
(3)سِراجُ العَارِفِین
حضرت میاں صاحب مولانا سیّدشاہ ابوالْحُسَین
احمد نُوری رحمۃ اللہ علیہ 19شوال1255ھ
کو مارہرہ شریف میں پیدا ہوئے اور یہیں 11رجب
1324ھ
میں وِصال فرمایا، درگاہِ معلیٰ مارہرہ مُطَہَّرہ (ضلع
ایٹہ یو پی،ہِند) کے
برآمدہ ٔ جنوبی میں دفن کئے گئے۔ والدصاحب نے بچپن میں وصال فرمایا ،اس لیے جدمکرم ،خاتم الاکابرحضرت شاہ آل
رسول مارہروی نے پرورش کی اورخلافت سے بھی نوازا،آپ عالِمِ دین،شیخِ طریقت اورصاحِبِ
تصانیف ہیں۔ سراج العوارف فی الوصیا والمعارف( [30]) آپ
کی اہم کتاب ہے۔( [31])
(4)مُرشِدِ اعلیٰ حضرت، خاتِمُ الاکابِر حضرت
شاہ آلِ رسول مار ہَروی رحمۃ
اللہ علیہ عالمِ
باعمل،صاحبِ وَرَع وتقوی اورسلسلہ قادریہ رضویہ کے سینتیسویں (37) شیخِ طریقت ہیں۔ آپ کی ولادت 1209ھ
کو خانقاہ برکاتیہ مار ہرہ شریف (ضلع ایٹہ،یوپی) ہند میں ہوئی اور یہیں 18ذوالحجہ 1296ھ
کو وصال فرمایا۔( [32]) (
تاریخ خاندان برکات، ص37تا46)
(5)سِراجُ الہند حضرت شاہ عبد العزیز محدّثِ
دہلوی رحمۃ اللہ
علیہ علوم و فُنون کے جامع، استاذُ العلماء و
المحدثین، مُفَسِّرِ قراٰن، مصنّف اور مفتیِ اسلام تھے،
تفسیرِ عزیزی، بُستانُ المُحدّثین، تحفۂ اِثنا عشریہ اورعاجلہ نافعہ( [33])آپ کی مشہور کُتُب ہیں۔ 1159ہجری میں پیدا ہوئے اور 7 شوال 1239ہجری میں وِصال فرمایا،
مزار مبارک درگاہ حضرت شاہ وَلِیُّ اللہ مہندیاں، میردرد روڈ، نئی دہلی ہند میں
ہے۔([34])
(6)محدث ہندحضرت شاہ ولی اللہ احمدمحدث دہلوی
فاروقی رحمۃاللہ علیہ کی پیدائش 4 شوال 1110ھ
کو ہوئی اوریہیں29محرم 1176ھ
مطابق 1762ء
وصال فرمایا،تدفین مہندیاں، میردرد روڈ، نئی دہلی ہندمیں ہوئی،جو درگاہ شاہ ولی
اللہ کے نام سے مشہورہے،آپ نے اپنے والدگرامی
حضرت شاہ عبدالرحیم دہلوی رحمۃ
اللہ علیہ سے تعلیم حاصل کی،حفظ قرآن کی بھی سعادت پائی،
اپنے والد سے بیعت ہوئے اور خلافت بھی ملی،والد کی رحلت کے بعد ان کی جگہ درس
وتدریس اور وعظ و ارشاد میں مشغول ہو گئے۔ 1143ھ
میں حج بیت اللہ سے سرفراز ہوئے اور وہاں کے مشائخ سے اسناد
حدیث واجازات حاصل کیں۔ 1145ھ کو دہلی واپس آئے،آپ بہترین مصنف
تھے، مشہورکتب میں فتح الرحمن فی ترجمہ القرآن فارسی،الفوز الکبیرفی اصول التفسیر،مؤطاامام مالک کی دوشروحات المصفیٰ
فارسی،المسوّی عربی، حجۃ اللہ البالغہ فارسی، ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء فارسی،الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ فارسی،
انسان العين فی مشايخ الحرمين اورالارشادالی مہمات الاسنادعربی)[35] (مشہورکتب ہیں۔([36])
(7)شیخ
القراءحضرت مولانا حاجی محمدفاضل سندھی
دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت دسویں صدی ہجری میں سندھ کے ضلع
پنوعاقل کے شہرسانگی کے قبیلے پنھواری میں ہوئی ،آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے
میں حاصل کرنے کے بعد دہلی تشریف لے گئے وہاں مشائخ بالخصوص شیخ القراءحضرت شیخ عبدالخالق دہلوی رحمۃ
اللہ علیہ سے فن قرات حاصل کیا،اوروہاں تدریس کا آغازکیا،حضرت
شاہ ولی اللہ احمد بن عبدالرحیم محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ
نے 1154ھ کو آپ سے فن قرأت کی تحصیل کی چنانچہ
خودتحریرفرماتے ہیں : قال العبد الضعيف ولي الله بن عبدالرحيم عفي عنه :قرائت القران کله من
اوله الي آخره بروايته حفص عن عاصم علي الصالح الثقة حاجي محمد فاضل السندي سنه
1154ھ قال :تلوته الي آخره بروايۃحفص
علي الشيخ عبدالخالق المنوفی شيخ القراء بمحروسۃدلي
۔ ( [37])
(8)شیخ القراء عبدالخالق منوفی ازہری ثم دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مصرکے رہنے والے تھے،آپ کی ولادت 22ذوالحجہ
959ھ
کو ہوئی اور27شعبان
1078ھ
کو وفات پائی،مزارمبارک احمدآباد گجرات ہند میں ہے،آپ جیدحافظ قرآن،بہترین قاری
اور دیگرعلوم کے ساتھ فن قرات پر عبورحاصل تھا،آپ نے علوم اسلامیہ جامعۃ الازہرقاہرہ
مصر([38])سے حاصل کئےپھر مغلیہ
بادشاہ شاہجہاں دورِ
حکومت (1037ھ
تا1068ھ) میں دہلی ہند تشریف لے آئے یہاں
آپ کاپرتپاک خیرمقدم کیا گیا، عزت واکرام سے نواز کرشیخ القراء کے منصب پرفائزکیا گیا،آپ
نے ہندمیں فن قرات کوعام کرنے کے لیے بھرپورکوشش کی،آپ علامہ
جزری رحمۃ اللہ
علیہ کی کتاب النشرکا قلمی نسخہ اپنے ساتھ لائے تھے،اس کی
چرمی جلد1214ھ
کی بنی ہوئی اورخوبصورت ہے،یہ نسخہ حیدرآباداسٹیٹ لائبریری میں ہے ۔( [39])
(9)شیخ
القراءحضرت امام شمس الدین محمدبن قاسم بقری شناوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1018ھ کو دار البقر(محلۃ الکبری،صوبہ غربیہ،مصر)میں ہوئی،آپ حفظ قرآن کے بعد قاہرہ آگئے اورجامعۃ الازہرمیں داخلہ لے
لیا،یہاں اسلامی علوم بالخصوص حدیث،فقہ اور تجوید و قرآت میں مہارت
حاصل کی،تعلیم مکمل کرنے کے بعد یہیں استاذکے منصب پر فائزہوئے،آپ ماہر
استاذ،بہترین قاری اورشافعی فقیہ ہونے کے ساتھ بہترین مصنف بھی تھے، غنیۃ الطالبين
ومنیۃ الراغبین فی تجويدالقرآن العظیم)[40](آپ کی یادگار کتاب ہے، آپ کاوصال 24جمادی الاخریٰ 1111ھ کو ہوا۔آپ کے اہم شاگردوں میں شیخ
القراء عبدالخالق منوفی ازہری ثم دہلوی اور شیخ القراء حضرت علامہ ابوسماح
احمدبن رجب بقری شافعی([41])رحمۃ اللہ علیہما ہیں ۔( [42])
(10) شیخ القراء حضرت امام زین الدین عبدالرحمٰن بن شحاذۃ الیمنی شافعی مصری رحمۃ
اللہ علیہ 975ھ کو قاہرہ مصرمیں پیداہوئے،علوم اسلامیہ
والدصاحب سمیت جیدعلما،محدثین اورفقہاسے حاصل کئے،علم قرات اورفقہ میں کامل مہارت
حاصل کی، شيخ القراء، امام المجودين اورفقيہ عصرکے القابات سے شہرت ہوئی،ہمہ
وقت درس وتدریس میں مصروف رہتے تھے،حسن ظاہری اورباطنی دونوں سے مالامال تھے،آپ کا
شمارمصرکے اکابراولیا میں بھی ہوتاہے،آپ مالدارتاجربھی تھے،اپنا مال طلبہ وفقراء
پر دل کھول کرخرچ کرتے تھے،15شوال 1050ھ کووصال فرمایا۔( [43])
(11)
شیخ القراء شحاذۃ الیمنی شافعی مصری رحمۃ اللہ علیہ کی
ولادت تقریبا 910ھ میں ہوئی،آپ کا تعلق مصرکے صوبے قلیوبیہ کے علاقے کفرالیمن سے
ہے،آپ حافظ وقاری قرآن،مفتی اسلام،مدرس جامعۃ الازہرتھے،آپ نے اپنے آپ کو علم قرات
کی ترویج واشاعت کے لیے وقف کیا ہواتھا،آپ خیرواحسان،تقویٰ وپرہیزگاری اوردین میں
بہت بڑے مقام پر فائز تھے۔ ادائیگی حج کے
بعد مدینہ شریف حاضرہوئے اور وہیں محرم 978ھ یا 987ھ میں وصال
فرمایا، جنۃ البقیع میں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےبیٹے حضرت
ابراہیم رضی اللہُ
عنہ کے مزار کے قریب تدفین ہوئی۔
(12) شيخ الاسلام ،ناصرالملت والدین حضرت امام ابونصر محمد بن سالم طبلاوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت
مركز تلا(صوبہ منوفیہ،مصر)میں 866 ھ میں ہوئی اور10جمادی
الاخریٰ966 ھ کو آپ کا وصال ہوا،آپ بہت زیادہ عبادت کرتے، درس وتدریس میں مصروف
رہتے اوراپنے وقت کو فضول ضائع نہ ہونے دیتے،عالم رویہ میں انہیں کثرت سے نبی کریم
صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زیارت ہوتی تھی،آپ علوم اسلامیہ میں کامل مہارت
رکھتے تھے،علما،طلبہ اورعوام کے مرجع تھے،آپ حسن اخلاق کے مالک، عاجزی وانکساری کے
پیکراورصفات الاولیا سے متصف تھے،بلاشبہ کثیرعلمانے آپ سے استفادہ کیا،بدایۃ القاری فی ختم البخاری([44]) اور
مرشدة المشتغلين فی احكام النون الساکنۃ والتنوين([45]) آپ کی
تصانیف ہیں۔( [46])
(13)شیخ الاسلام
حضرت امام زین الدین ابویحییٰ زکریابن محمد انصاری الازہری رحمۃ
اللہ علیہ کی ولادت 826ھ کو سُنیکہ(صوبہ شرقیہ)مصرمیں ہوئی،جامعۃ
الازہرسے علوم اسلامیہ حاصل کئے،قاہرہ میں مقیم ہوگئے،آپ شافعی فقیہ،محدث وقت،حافظ
الحدیث، صوفی باصفا،قاضی القضاہ،بہترین قاری،مصنف کتب کثیرہ،لغوی ومتکلم،مؤرخ و
مدرس، مفتی اسلام اورنویں صدی ہجری کےمجدد ہیں،آپ نے 4ذوالحجہ925ھ کو قاہرہ مصرمیں وفات پائی۔ قاہرہ میں امام
شافعی کے مزارکے قریب قرافہ صغریٰ میں تدفین ہوئی،آپ کا مزارمرجع خلائق ہے۔ الدقائق المحكمة فی شرح المقدمة([47])،تحفۃالباری علی صحيح البخاری([48]) اور
اَسنى المطالب([49] ) آپ کی
مشہورکتب ہیں۔( [50])
(14) برہان الملت
والدین حضرت امام احمد بن ابوبکرقلقیلی الشہاب السکندری شافعی
رحمۃ اللہ علیہ نابلس اوررملہ کے درمیانی مقام قلقیلیاکے رہنے والے تھے،آپ کافی
عرصہ سکندریہ،قاہرہ اورشام میں مقیم رہے،آپ کی پیدائش 10رمضان 757ھ میں
ہوئی،آپ نے اپنے وقت کے بہترین قراء سے علم قرأت حاصل کیا،مدت دراز جامعۃ الازہرقاہرہ
میں خدمت قرآن وقرات میں گزاری،کثیرعلماوقراء نے استفادہ کیا،آپ کے القابات شيخ
الامام،حبر الہمام،شهاب الدين،قدوة الائمۃالقراء اورحامل لواء الاِقراء سے آپ کے
مقام ومرتبے کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔آپ کا وصال 17ذوالحجہ857ھ کو
ہوا۔( [51])
۞امام
القراء،حافظ الحدیث حضرت امام زین الدین ابونعیم رضوان بن محمد بن یوسف عقبی شافعی
کی ولادت769ھ کو مِنيہ عُقبہ (Mit
Okba،صوبہ جیزہ،مصر) میں ہوئی،آپ وہاں سے
قاہرہ آگئے،دیگرعلماکےساتھ ساتھ حافظ الحدیث علامہ ابن حجر([52])رحمۃ اللہ علیہ کی شاگردگی اختیارکی،اس کے بعدمکہ شریف میں تین مرتبہ حج کرنے حاضرہوئے
اوریہاں کے علماسے استفادہ کیا، آپ شفقت و عاجزی و شائستگی سے مالامال، مخلوق کو
خوش کرنے والے، خوش مزاج و باوقار اور ظاہری وباطنی درستی سے متصف تھے۔آپ کا وصال 3رجب 852ھ کوقاہرہ میں ہوا۔( [53])
(15) امام القراء
والمحد ثین،شمس الدین ابوالخیر محمد بن محمد بن علی بن یوسف جزری 25 رمضان 751ھ کو دمشق میں پیداہوئے، آپ نے دمشق،مکہ شریف اورقاہرہ میں علو م اسلامیہ کی
تحصیل کی،دیگرعلوم کے ساتھ قرأت سبعہ میں مہارت حاصل کی، 793ھ میں
دمشق کے قاضی مقررہوئے،انہی دنوں میں آپ نے دارالقرآن دمشق کی
بنیاد رکھی، 798ھ کے بعد آپ ہرات،خراسان،اصفہان کے شہروں میں درس وتدریس میں مصروف
ہوگئے،وفات5 ربیع الاول 833ھ کو شیرازمیں ہوئی اور اپنے تعمیر کردہ مدرسہ میں دفن کئے گئے،آپ علم تجوید
کے امام،جلیل القدرعالم دین،مفتی اسلام،تقویٰ وورع سے متصف،مصنف کتب کثیرہ
اورمؤثرشخصیت کے مالک تھے۔ آپ کی علم قرأت، علم حدیث، فقہ اور تاریخ اسلام پر کثیرتصانیف ہیں، جن میں حصن وحصین([54]) اورکتاب النشر([55])آپ کی پہچان ہیں،اعلام پر آپ کی کتا
ب غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء([56])اپنی مثال آپ ہے۔( [57])
(16)قاضی المسلمین
حضرت امام شرف الدین ابوالعباس احمدبن حسین بن سلیمان بن فزارہ حنفی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 691ھ
میں ہوئی اورآپ نے19صفر 776ھ میں وصال
فرمایا،آپ اپنے والد کے جلیل القدرشاگردتھے،طویل عرصہ دمشق کے قاضی رہے،آپ دن رات
کا اکثرحصہ تدریس،قضا،افتا،عبادت اورتلاوت قرآن میں صرف فرمایا کرتے تھے۔( [58])
(17)شیخ القراء حضرت امام شہاب الدین ابوعبداللہ حسین بن سلیمان بن فزارہ
حنفی رحمۃ اللہ علیہ دمشق کے علاقے کَفَریہ کے رہنے والے تھے،آپ کی ولادت
تقریباً637ھ کو ہوئی اور13جمادی الاولی719ھ دمشق میں وصال فرمایا،جبل قاسیون دمشق میں دفن کئے گئے،آپ امام الوقت،قاضی
شہر،مفتی اسلام،بہترین قاری اورمرجع خاص وعام تھے۔اپنی تمام زندگی، تدریس،
افتااورقضا میں گزاری۔ ([59])
(18)امام
علم الدین ابو محمد قاسم بن احمد بن موفق ورقی اندلسی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت
575ھ یا561ھ کو مرسیہ اندلس میں میں ہوئی اور 7رجب 661ھ میں وفات پائی،آپ علم نحو، قرات،فقہ اورعلم کلام میں ماہرتھے مگرعلم قرأت میں درجہ امامت پر فائز
تھے،آپ نے اندلس کے علاوہ مصر،دمشق اورحلب میں اپنی خدمات پیش کیں،مشہورتصانیف میں
المحصل فی شرح المفصل ([60])اورالمفیدفی شرح القصید([61]) ہیں۔( [62])
(19)شیخ القراء اندلس حضرت امام ابوجعفراحمد بن علی بن یحیی بن عون اللہ الحصّار
اسپین کے تاریخ شہردانیہ (Denia) کے رہنے والے تھے،آپ کی ولادت تقریباً530ھ میں ہوئی،جید علما سے علوم اسلامیہ حاصل کئے،اپنے شہر میں علم قرات
اوردیگرعلوم اسلامیہ کی تدریس میں مشغول ہوگئے،کچھ عرصے کے بعد بلنسیہ (Valencia)شہر میں منتقل ہوگئےاورتدریس کرنے لگے،کثیر علمانے آپ سے استفادکیا،آپ باعمل
عالم دین،بہترین قاری اورتقویٰ وورع کے پیکرتھے،آپ کا وصال 3صفر609ھ میں ہوا۔( [63])
۞شیخ القراء حضرت ابوعبداللہ محمد بن سعید مرادی مرسی کا تعلق یورپین ملک
اسپین (Spain)کے شہرمرسیہ (Murcia)سے ہے، آپ کی ولادت 542ھ اوروفات جمعہ کی رات 21 رمضان606ھ کو مرسیہ میں ہوئی،آپ بہترین قاری، روای حدیث، کثیرالفیض،استاذالقراء اورجیدعالم دین تھے۔( [64])
۞امام
الائمہ حضرت ابوعبداللہ محمد بن ایوب بن نوح غافقی بلنسی مالکی یورپین ملک اسپین (Spain)کے شہربلنسیہ (Valencia)کے رہنے والے تھے،آپ کی پیدائش 530ھ
اوروصال 6 شوال608ھ کو ہوا،آپ علوم وفنون میں ماہر مالکی
عالم دین،بہترین قاری،مفتی اسلام،مفسرقرآن،ادب عربی کے ماہر،جامع مسجدبلنسیہ
کےخطیب،جودوسخاکے پیکر،اخلاق حسنہ کے مالک اوراندلس کے نابغہ عصرتھے۔( [65])
(20)شیخ الامام حضرت ابوالحسن علی
بن محمدبن ہذیل بلنسی اسپین (یورپ)کے شہربلنسیہ (Valencia)کے رہنے والے تھے، آپ کی ولادت 471ھ میں ہوئی اور 7رجب 564ھ کو وصال فرمایا،آپ محدث
وفاضل،عالم وصوفی،عابدوزاہد اورتقویٰ وورع کے جامع تھے،اپنی بہترین قرات،عالی
سندقرات اورفن قرات میں انہماک کی وجہ سے
درجہ امامت پر فائز تھے،آپ زاہدزمانہ تھے، دن رات طلبہ میں رہنے کو پسند کرتے،کثیرصدقہ
دیتے، دن کو روزہ اور رات کو قیام فرماتے۔جب آپ کی وفات ہوئی تو جنازے میں لوگوں
کا اژدھام تھا، سلطان وقت بھی نمازجنازہ میں شریک ہوا۔([66])
(21) شیخ القراء حضرت علامہ امام ابوداؤد سلیمان بن ابوقاسم نجاح اموی
کے والد اندلس کے حاکم مؤیدباللہ ہشام ثانی بن حکم([67]) کے غلام تھے،آپ کی پیدائش 413ھ کو قرطبہ میں ہوئی پھرآپ دانیہ اوربلنسیہ منتقل
ہوگئے،یہاں کے جیدعلما سے علم حاصل کرکے آپ اپنے وقت کے شیخ وامام
القراءاورمفسرقرآن بن گئے،نیکی،دین،علم اوربزرگی میں آپ کا مرتبہ بہت بلندتھا،آپ
کا وصال 16رمضان 496ھ میں ہوا۔آپ کی کتابوں میں مختصر التبيين لهجاء التنزيل([68])مشہور ہے۔ ( [69])
(22)شیخ الشیوخ
حضرت امام حافظ ابن صیرفی ابوعمروعثمان بن سعیداموی دانی مالکی کی پیدائش 371ھ کوقرطبہ میں ہوئی، ابتدائی
تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کرکے قَيْرَوَان تشریف لائے اورچار ماہ تک یہاں علم حاصل کیا پھر مصراورمکہ آئے
اوریہاں کے علماسے استفادہ کیا،آپ نے مصر ،قیروان(تیونس) اورپھر دانیہ(اندلس) میں درس وتدریس کی خدمات سرانجام دیں، آپ عالم اندلس،امام
الوقت،حافظ الحدیث،مفسّر و اديب،واعظ وخطيب اورمستجاب الدعوت بزرگ تھے،مگرآپ کی
شہرت علوم قرآنیہ بالخصوص فن قراءت میں مہارت وتدریس کی وجہ سے ہے،آپ کی 22تصانیف میں التيسير فی القراءات السبع ([70])اور جامع البيان فی القرأت
السبع([71]) مشہور ہیں۔آپ کا وصال دانیہ میں 15شوال444 ھ کو ہوا، نمازجنازہ
میں سلطان الوقت سمیت کثیرلوگوں نے شرکت کی۔( [72])
(23)شیخ القراء
ابوالحسن طاہربن عبدالمنعم بن عبداللہ بن غلبون حلبی کا تعلق حلب شام سے
ہے،ابتدائی تعلیم والدگرامی علامہ امام عبدالمنعم حلبی سے حاصل کی،پھر عراق
آکرعلمائے بصرہ سے تلمذحاصل کیا،بعدتحصیل علم والدصاحب کی علمی مسند کے جانشین
بنے،پھرمصرتشریف لے گئے،بڑے بڑے علمانے آپ سے استفادہ کیا،آپ کا وصال 10 شوال 399 ھ کومصرمیں ہوا۔ فن قرأت کی مستندکتاب التذكرة فِی القر ات الثمان(
[73])آپ کی تصنیف کردہ ہے۔( [74])
(24) شیخ القراء حضرت ابوالحسن علی بن محمد بن صالح ہاشمی بصری جوخانی
رحمۃ اللہ علیہ بصرہ کے جلیل القدرمشہورعلماء سے تھے،آپ بہترین قاری،ثقہ
راوی،صاحب معرفت تھے،آپ کا وصال 368 ھ میں ہوا۔( [75])
(25) شیخ القراءحضرت شیخ ابوعباس احمد بن سہل بن فیزران اشنانی رحمۃ اللہ علیہ ثقہ عالم دین،عادل روای اورنیکی وپرہیزگاری میں مشہور
تھے،آپ نے علوم اسلامیہ میں مہارت حاصل کی اورپھر زندگی بھر اس کی تدریس میں مصروف
رہے، آپ کا شمار بغداد کے مشہورائمہ قرأت میں ہوتاہے، آپ کی وفات 14محرم 307ھ کو ہوئی۔([76])
(26)امام
القراءحضرت شیخ ابو محمد عبیداللہ بن صباح نہشلی کوفی رحمۃ اللہ علیہ عرب کے قبیلے
بنونہشل سے تعلق رکھتے تھے،آپ کوفہ کے رہنے والےتھے پھربغداد میں مقیم ہوگئے،آپ کا
شمار امام حفص بن سلیمان اسدی کوفی رحمۃ اللہ علیہ کے جلیل القدرشاگردوں میں ہوتا ہے،آپ کا وصال 219 ھ یا
235ھ میں ہوا،آپ نے بڑی احتیاط اورتوجہ کےساتھ علم قرأت حاصل کیااوراس فن کے ائمہ
میں شمارہونے لگے،آپ بہت متقی،پرہیزگاراورصالح تھے۔( [77])
(27)حضرت امام حفص بن سلیمان اسدی کوفی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 90ھ
کو بغدادمیں ہوئی،آپ امام عاصم کے ربیب (سوتیلے)بیٹے تھے،انہیں سے علوم و فنون حاصل کئے اورپھرکوفہ میں ان
کے جانشین ہوکر شیخ القراء کے منصب پر فائز ہوئے، بغداد اور مکہ شریف میں علم قرأت
کا درس دیا،تعلیم وتلاوت قرآن میں مستغرق رہا کرتے تھے،پیشے کے اعتبارسے آپ کپڑے
کے تاجر تھے،آپ کا وصال 180ھ میں ہوا، آپ قرأت امام عاصم میں زیادہ ماہر اوربڑے قاری تھے، قرأت متواترہ میں قرأت امام عاصم بروایت حفص سب
سے زیادہ مشہور اور پڑھی جاتی ہے۔( [78])
(28)حضرت
امام ابوبکرعاصم بن ابونجودعبداللہ کوفی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش کوفہ میں ہوئی،صحابی رسول حضرت حارث بن حسان بکری
ذہلی رضی اللہ عنہ کی زیارت کی سعادت پاکر تابعی ہونے کا شرف
پایا،اسلامی علوم بالخصوص علم قرأت میں مہارت حاصل کی اوررئیس القراء کے منصب
پرفائز ہوئے،امام اعظم ابوحنیفہ سمیت کئی فقہا ومحدثین رحمۃ اللہ علیہم نے آپ سے استفادہ کیا، قرأت امام عاصم سات قرأت متواترہ میں سے ایک ہے،آپ خوبصورت آوازمیں تلاوت قرآن کرتے،کثیروقت مسجدمیں گزراتے،کثیرنوافل
اداکرتے،جمعہ کی نمازپڑھ کر نماز عصر تک مسجدمیں رہتے تھے۔آپ کا وصال 127یا 128ھ کو کوفہ یا سماوہ (شام)میں ہوا۔( [79])
(29) تابعی جلیل حضرت سیدنا ابوعبدالرحمن عبداللہ
بن حبیب سُلمی کوفی رحمۃ اللہ علیہ رسول
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ظاہری میں پیدا ہوئے،آپ
کے والدگرامی حضرت ابوعبداللہ حبیب بن ربیعہ ثقفی رضی
اللہ عنہ صحابی رسول تھے،آپ نے جیدصحابہ کرام کی صحبت اختیارکی،آپ
نابینامگرحافظ القراٰن،بہترین قاری،ثقہ محدث،امام القرأت اورمدرس وامام جامع
مسجدکوفہ تھے،یہیں آپ نے مسلسل چالیس سال فی سبیل
اللہ تدریس کی،بارش میں بھی مسجدتشریف لے آتے تھے،مرض
الموت میں کسی نے عیادت کی توفرمایا مجھے اپنے رب سے کرم کی امیدہے میں نے محض
اللہ پاک کی رضا کے لیے اپنی زندگی میں آنے والے اسی رمضان المبارک کے روزے رکھے
ہیں،آپ نے 74ھ کو
کوفہ میں وصال فرمایا۔( [80])
۞حضرت اَبو مريم زر بِن حبيش الاَسدي کوفی واقعہ عام الفیل کے بعد پیدا ہوئے، جلیل القدرصحابہ کرام کی صحبت پائی،آپ
عظیم المرتبت تابعی،محدث،قاری قرآن اور ادب عربی پرگہری نظر تھی، آپ کبار تابعین
میں سے تھے اور آپ کی توثیق وجلالت پر سب کا اتفاق ہے،آپ ثقہ راوی اور کثیرالحدیث
ہیں۔آپ کوفہ میں مستقل رہائش پذیر ہوگئے تھے، واقعۂ دیرجماجم([81]) سے پہلے 122سال کی طویل عمرمیں81 یا 82 ھ میں وفات پائی۔( [82])
(30)ذُو النُّورَین حضرت سیدناعثمانِ غنی رضی اللہ عنہ عامُ الفِیل
کےچھ سال بعدمکّۂ مکرّمہ میں پیدا ہوئے، اعلان نبوت کے کچھ ہی عرصے کے بعد اسلام
قبول کرکے السابقون الاولون میں شامل ہوئے۔ رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے یکے بعد دیگرے اپنی دو صاحبزادیوں حضرت رقیہ اورحضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہما کا نکاح آپ سے
کیا، اسی وجہ سے آپ کو ذُوالنُّورین (2 نور والے)کہا جاتاہے۔ آپ نےدومرتبہ حبشہ اورپھرمدینہ شریف ہجرت
فرمائی۔جاہلیت میں بھی نہ کبھی شراب پی، نہ بدکاری کے قریب گئے، نہ کبھی چوری کی، نہ گانا گایا اور نہ ہی کبھی جھوٹ بولا۔ اَدَب،
سَخاوت، خیر خواہی، حیا، سادَگی، عاجزی، رَحْم دلی، دل جوئی،فکر ِآخرت، اتباعِ
سنّت اور خوفِ خدا آپ کی سیرتِ مبارکہ کے روشن پَہلو ہیں۔ تلاوتِ قراٰن کے عاشق
ایسے کہ ایک رکعت میں ختمِ قراٰن کرلیتے تھے۔ خود فرمایا کرتے
تھے: اگر تمہارے دل پاک ہوں تو کلامِ الٰہی سے کبھی بھی سیر نہ ہوں۔ آپ یَکُم
محرّم 24 ہجری کو مَسندِ خلافت پر فائز ہوئے اور تقریباً بارہ سال اس عظیم منصب کے
فرائض بخوبی نبھاتے رہےاور حضرت سیّدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت
کا سب سے بڑا کارنامہ جمعِ قراٰن اور تحفّظِ قراٰن ہے۔ پوری اُمَّت کو قراٰنِ مجید
کے ایک نسخے پر جمع فرما کر اُمّتِ مُسْلِمہ پر احسانِ عظیم کیا اور جامعُ القراٰن
ہونے کا اِعزاز پایا۔ آپ کو بحالتِ روزہ بروز جمعہ عصر کی نماز کے
بعد 18 ذوالحجہ سِن 35 ہجری کو شہید کردیا گیا،آپ کا مزارِ
مبارک جنّتُ البقیع میں ہے۔( [83])
۞امیرُالمؤمنین
مولائے کائنات حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم عامُ الفیل کے
تیس برس بعد پیدا ہوئے۔آپ 5سال کی عمر تک والدین کی پرورش میں رہے پھر کاشانۂ نبوت کی کَفالت میں رہ کر ظاہر و باطن کو سنوارتے رہے،اسلام کی نورانی کرنیں طلوع
ہوتے ہی دس برس کی عمر میں آپ کا دل نورِ ایمان سے جگمگا اُٹھا۔کردار و عمل کی
پختگی، وفا شعاری، رحم دلی، بُردباری اور مسلمانوں کی خیر خواہی کے اوصاف آپ میں
یکجا دکھائی دیتے ہیں۔سخاوت و شجاعت، عبادت و ریاضت، دانائی و حکمت اور زہد و
قناعت آپ کے امتیازی اوصاف ہیں۔ منصبِ خلافت پر فائز ہونے کے بعد بھی نہایت سادہ
اور عام زندگی گزارتے رہے، حکومت اور دولت آپ کی نظر میں کوئی حیثیت نہ رکھتی تھی۔
رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کو یمن کا قاضی بناکر بھیجتے ہوئے اپنا دستِ کرم آپ
کے سینے پر مارا اور دعاؤں سے نوازا۔ اس کے بعد تادمِ حیات آپ کو فریقین کے
درمیان فیصلہ کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی۔خلفائےثلاثہ کے دورِ خلافت میں جنگ، قضا، اُمورِ سلطنت، شرعی احکام اور
اسلامی سزاؤں کے نِفاذ جیسے ہر میدان میں آپ نے ان حضرات قدسیہ کی اپنے دُرُست مشوروں اور بہترین رائے کے ذریعےمددکی ۔ غزوہ ٔ تبوک
کے موقع پر مدینے میں نائبِ رسول کی حیثیت سے ٹھہرے، اس کے علاوہ ہر غزوہ میں آپ
نے سینہ سِپَر ہوکر بہادری اور شجاعت کے وہ کارنامے دکھائے کہ اپنا ہو یا پرایا ہر
ایک داد دئیے بغیر نہ رہ سکا۔ آپ اور حضرت
سیّدتُنابی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بابرکت نکاح 2 ہجری ماہِ صفر، رجب یا رمضان میں
ہوااورامام حسن([84]) اورامام حسین([85]) رضی اللہ عنہما آپ ہی کے
صاحبزادےہیں،آپ سے مروی احادیث کی تعداد 586 ہے۔ آپ 4 برس 9 ماہ چند دن منصبِ
خلافت پر رونق افروز رہے۔ سن 40 ہجری میں 17 یا 19 رمضان کو فجرکی نماز کے لئے
جاتے ہوئے آپ پر قاتلانہ حملہ ہوا تو آپ زخموں کی تاب نہ لَا کر 21 رمضانُ المبارک
اتوار کی رات اپنی زندگی کے 63 سال گزار کر جامِ شہادت نوش فرماگئے،مزارمبارک نجفِ اشرف(عراق) میں ہے۔ ( [86])
۞سید القراء والمسلمین حضرت سیدنا ابوطفیل ابی بن کعب
انصاری خزرجی رضی اللہ عنہ بیعت عقبہ ثانیہ میں اسلام لائے،غزوہ بدرسمیت سارے غزوات
میں شریک ہوئے،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان پر مکمل اعتمادتھا اسی لیے عامل زکوۃ اور کاتب وحی
مقررفرمایا،خلافت صدیقی میں اُن صحابہ کرام کے سربراہ تھے جن کے ذمے قرآن مجید کی
ترتیب و تدوین کا کام سونپاگیا،خلافت فاروقی میں درس وتدریس میں مصروف
رہاکرتے،امیرالمؤمنین مختلف امورمیں آپ سے مشورہ فر ماتے،اسی دورمیں مسجدنبوی کے
امام تراویح مقررہوئے،دورِ عثمانی میں مسلمانوں کو ایک قرائت پر جمع کرنے کے لیے
صحابہ کی جو مجلس بنائی گئی اس کے نگران بھی آپ مقررہوئے، آپ اگرچہ مختلف علوم کے
جامع تھے لیکن وہ خاص فنون جن میں آپ کو امامت اوراجتہاد کا منصب حاصل تھا، وہ
قرآن، تفسیر، شان نزول، ناسخ ومنسوخ اور حدیث وفقہ تھے،حضرت ابی کا خاص فن قرائت
ہے اس فن میں ان کو اتنا کمال تھا کہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کی تعریف فرمائی
اورانہیں صحابہ میں سب سے بڑاقاری ارشادفرمایا،آپ نے ایک قول کے مطابق 30ھ میں وصال فرمایا، بعد جنازہ
جنت البقیع میں دفن کئے گئے۔ ( [87])
۞امام الکبیرحضرت سیدناابوخارجہ زیدبن ثابت نجاری انصاری رضی اللہ عنہ مدینہ شریف میں پیدا
ہوئے،بچپن میں ہی اسلام قبول کیا،غزوۂ خندق اوراس کے بعد کے غزوات میں شرکت کی،آپ کاتب وحی،حافظ قرآن اورکئی مرتبہ
والی مدینہ بنائے گئے،خلافت صدیقی میں
جمع قرآن کرنے والےصحابہ کرام میں شامل تھے،خلافت فاروقی میں قاضی مدینہ بنائے گئے
جبکہ خلافت عثمانی میں بیت المال کے نگران مقررہوئے،علم قرائت،علم المیراث،علم قضا
اور فتویٰ میں نہایت ممتاز تھے، حضرت زید رضی اللہُ عنہ لکھنا جانتے
تھے اور اپنے زمانہ کے مشہور خطاط تھے۔آپ نےایک قول کے مطابق 45ھ میں وصال فرمایا۔( [88])
۞حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی پیدائش مکہ شریف میں ہوئی،آپ کا وصال 32ھ کو مدینہ شریف میں ہوا، امیرالمؤمنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے نمازجنازہ
پڑھائی،تدفین جنۃ البقیع میں جلیل القدرصحابی حضرت عثمان بن مظعون([89]) رضی اللہ عنہ کے پہلو میں ہوئی،اسلام لانے میں آپ چھٹے خوش نصیب ہیں
یوں آپ کا شمارالسابقون الاولون میں ہوتاہے،تمام غزوات میں شریک ہوئے،آپ نےدومرتبہ حبشہ اور پھرمدینہ شریف ہجرت فرمائی، مؤاخات مدینہ
میں آپ حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ([90]) کے بھائی بنائے گئے،20ھ میں کوفہ کے قاضی مقرر کیے
گئے،عہدہ قضاء کے علاوہ خزانہ کی افسری، مسلمانوں کی مذہبی تعلیم اوروالی کوفہ کی
وزارت کے فرائض بھی ان کے متعلق تھے، آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص
تھے، مسواک اٹھاکر رکھنا، جوتا پہنانا، سفر کے موقع پر کجاوہ کسنا اورعصالیکر آگے
چلنا آپ کی مخصوص خدمت تھی،آپ شوقِ علم سے مالامال،عالم قرآن وحدیث،اسباب نزولِ
قرآن وتفسیرکے کامل واقف،فن قرأت میں زبردست مہارت رکھنے والے، روایت حدیث میں
وسیع معلومات اورحددرجہ احتیاط کادامن پکڑنے والے،تقریباً848احادیث کے
راوی،فقہ حنفی کے مؤسس وبانی، درجہ اجتہادپرفائز،بہترین مدرس،پُرأَثَرْ وَاعِظ
ومقرر،حسن اخلاق کے مالک اورمرجع خاص وعام تھے،آپ قبیلہ بنو ہذیل سے تعلق رکھتے
تھے اورآپ کی کنیت ابوعبدالرحمن ہے۔( [91])
۞ ہمارے پیارے آقاحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت 12ربیع الاول مطابق 20اپریل 571ء
کو وادی بطحا مکہ شریف کے معززترین قبیلے
قریش میں ہوئی اور12ربیع الاول 11ھ مطابق 12 جون 632ء کو مدینہ منورہ میں وصال
ظاہری فرمایا۔آپ وجہ ٔ تخلیق کائنات،محبوب خدا،امام المرسلین ،خاتم النبیین
اورکائنات کی مؤثرترین شخصیت کے مالک تھے،آپ نے 40 سال کی عمرمیں اعلان نبوت فرمایا، 13سال
مکہ شریف اور10سال مدینہ شریف میں دین اسلام کی دعوت دی ،اللہ پاک نے آپ پر عظیم کتاب قرآن
کریم نازل فرمائی۔اللہ پاک کے آپ پر بے شمار دُرُوداورسلام ہوں ۔( [92])
دوسری سند قرآن :
خاکسار
کا تب الحروف غفراللہ لہ (امام
المحدثین مفتی سیدمحمددیدارعلی شاہ رحمۃ اللہ علیہ )کی دوسری سند
قرآن مجید کی یہ ہے کہ میں نے بعض قرآن مجىد اپنے شىخ طرىقت واقف رموز شرىعت عمدة
الفضلا سىد الکملا حضرت مولانا فضل رحمن صاحب نقشبندى گنج مراد آبادى قدس سرہ ٗسے سنا۔ انہوں نے حضرت مولانا شاہ
عبدالعزىز علىہ
رحمۃ صاحبِ
تفسىر ِعزىزى و تحفہ اثنا عشرى سے۔ انہوں نے اپنے والد ماجد
شاہ ولى اللہ علىہ
الرحمۃ سے۔
انہوں نے برواىت حفص حاجى صالح ثقہ محمد فاضل سندھى سے 1154ھ مىں، انہوں
نے شىخ القراء عبدالخالق مرحوم سے دہلى مىں، انہوں نے شىخ محمد بقرى سے([93])۔ انہوں نے شىخ عبدالرحمن ىمنى سے۔
باقى سند، سندِ مولانا اولاد رسول مارہروى سلمہٗ
مىں گزرچکى ۔ ([94])
دوسری سندقرآن کے روات کا مختصرتعارف :
امام المحدثین مفتی سیدمحمد دیدارعلی شاہ رحمۃ
اللہ علیہ کی
یہ سند قرآن 27 واسطوں سے رسول کریم حضرت محمدمصطفیٰ صلی
اللہ علیہ والہ وسلم سے مل جاتی ہے،اس سندقرآن کے قراء کا مختصرتعارف
ملاحظہ کیجئے:
۞
عارفِ کامل حضرت مولانا فضلِ رحمٰن صدیقی گنج مرادآبادی نقشبندی قادری رحمۃ
اللہ علیہ کی
ولادت1208ھ مطابق1794ء کو سندیلہ (ضلع
ہردوئی، یوپی ہند) میں ہوئی اور وصال 22ربیعُ الاوّل 1313 ھ مطابق 12ستمبر
1895ءکو فرمایا۔ مزار مبارک گنج مراد آباد (ضلع انّاؤ،یوپی ہند) میں ہے۔
آپ عالمِ باعمل، استاذ و شیخ العلما والمشائخ اور اکابرینِ اہلِ سنّت سے تھے۔آپ کی اسانیدکا عربی مجموعہ اتحاف الاخوان باسانیدمولانا فضل
الرحمن ہے ،)[95] (جَدِّ اعلیٰ حضرت مولانا رضا علی خان([96]) علیہ رحمۃ الرَّحمٰن آپ کے
ہی مرید و خلیفہ تھے۔([97])
۞حضرت
مولانا شاہ عبدالعزىز رحمۃ اللہ علیہ اوران سےآگے
تمام قراء کا تعارف پہلی سند قرآن میں ہوچکا ہے ۔
تیسری سندقرآن :
امام
المحدثین مفتی سیدمحمددیدارعلی شاہ صاحب نے اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان سے
سند قرآن حاصل کی، انھوں نے اپنے مرشد گرامی حضرت شاہ آل رسول احمدی ماررہروی سےاورانہوں
نے حضرت شاہ عبدالعزیزمحمدث دہلوی سے۔([98]) باقى سند،(پہلی) سند مولانا اولاد رسول مارہروى
رحمۃ
اللہ علیہ مىں گزرچکى۔
تیسری سندقرآن کے روات کا مختصرتعارف :
امام المحدثین مفتی سیدمحمد دیدارعلی شاہ رحمۃ
اللہ علیہ کی
یہ سند قرآن 28 واسطوں سے رسول کریم حضرت محمدمصطفیٰ صلی
اللہ علیہ والہ وسلم سے مل جاتی ہے،اس سندقرآن کے قراء کا
مختصرتعارف ملاحظہ کیجئے :
۞اعلیٰ
حضرت، مجددِدین وملّت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت
10شوال 1272ھ مطابق6جون 1856ءکو بریلی شریف(یو۔پی) ہند میں ہوئی، یہیں 25 صفر
1340 ھ ،مطابق28اکتوبر1921ءکو وصال فرمایا۔ مزار جائے پیدائش میں مرجعِ خاص وعام ہے۔آپ
حافظِ قرآن، پچاس سے زیادہ جدیدوقدیم علوم کے ماہر، فقیہ اسلام، مُحدّثِ وقت،مصلحِ
امت، نعت گوشاعر، سلسلہ قادریہ کے عظیم شیخ طریقت، تقریباً ایک ہزارکتب کے مصنف، مرجع
علمائے عرب وعجم،استاذالفقہاومحدثین، شیخ الاسلام والمسلمین، مجتہدفی المسائل اور چودہویں
صدی کی مؤثر ترین شخصیت کے مالک تھے۔ کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن،فتاویٰ رضویہ (33جلدیں)، جدّ الممتارعلی
ردالمحتار(7
جلدیں،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)اور حدائقِ بخشش آپ کی مشہور تصانیف ہیں۔([99])
۞خاتِمُ
الاکابِر حضرت شاہ آلِ رسول مار ہَروی رحمۃ اللہ علیہ اوران
سےآگے تمام قراء کا تعارف پہلی سند قرآن میں ہوچکا ہے ۔
چوتھی سند قرآن :
خاکسار(امام المحدثین مفتی
سیدمحمددیدارعلی شاہ رحمۃ اللہ علیہ )اور میرے
دونوں بیٹوں (سید
احمد ابوالبرکات)[100]( اور سید محمد احمد ابوالحسنات)[101]() نے اور اکثر اہل رىاست الور قاری
قادر علی صاحب مرحوم سے، انھوں نے بقرات سبعہ مکرره متواتره بقاعده جمع الجمع تمام
قرآن مجید پڑھا قاری قادر بخش صاحب مرحوم سے،انھوں نے قاری محمد مرحوم کے ساتھ
ملکر قاری عبدالمجید المعروف صوبۂ ہند سے مع قرات سبعہ پڑھا،قارى عبدالمجىد
المعروف صوبہ ہند سے اورقاری عبدالمجید نے
حافظ غلام مصطفىٰ اور انہوں نے مولوى محمد گجراتى سے اور انہوں نے حافظ عبدالغفور
دہلوى سے اور انہوں نے شىخ عبدالخالق سے اورانہوں نے شىخ محمد بقرى سے اورانہوں نے
شىخ عبدالرحمن ىمنى سے اور سند عبدالرحمن ىمنى رحمۃ اللہ علیہ سنداول سىد الاولاد رسول مارہروى مرحوم مىں
آنحضرت صلی
اللہ علىہ وسلم
تک گزر چکى ۔([102])
چوتھی سندقرآن کے روات کا مختصرتعارف :
امام
المحدثین مفتی سیدمحمد دیدارعلی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی یہ سند قرآن 30 واسطوں سے رسول کریم حضرت محمدمصطفیٰ صلی
اللہ علیہ والہ وسلم سے مل جاتی ہے،اس سندقرآن کے قراء کا مختصرتعارف ملاحظہ کیجئے :
(1)قاری
قادرعلی رٹولوی الوری استاذالقراءقاری قادرعلی رٹولوی ثم الوری قصبہ رٹول (Rataul۔ضلع باگپت ،اترپردیش ہند)کے باشندے
تھے، یہ قراء تِ سعبہ مکررہ متواترہ بقاعدہ جمع الجمع کے بہترین قاری تھے،قاری قادر
علی الوری صاحب سے بے شمارعلما نے استفادہ کیا۔([103])
(2)فخرہندقاری
قادربخش انصاری پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ پانی پت کے انصاری خاندان میں پیداہوئے، اولاًقاری
مصلح الدین عباسی پانی پتی)[104](
اورپھرصوبۂ ہند قاری عبدالمجیددہلوی سے فن قرائت حاصل کیا ، حضرت شاہ عبدالعزیز
محدث دہلوی([105]) سے دیگرعلوم اسلامیہ حاصل کرکے فارغ
التحصیل ہوئے اوران سے ہی بیعت کا شرف پایا ،یہ لال قلعہ( [106])کے حفاظ میں سے تھے،لال قلعہ میں مغل شہزادوں کو پڑھاتے رہے،آپ نےعلم قرأت میں ایک مختصر
رسالہ التجوید تحریر فرمایا۔اندازاً آپ کی
پیدائش 1190ھ کو اوروفات 1260ھ کوہوئی ۔([107])
۞قاری
شاہ محمدانصاری پانی پتی ، فخرہندقاری قادربخش انصاری پانی پتی
کے منجھلے بھائی اورعلامہ قاری عبدالرحمن محدث پانی پتی([108]) کے والدگرامی ہیں،علم قرائت صوبۂ ہند شاہ حاجی قاری
عبدالمجیددہلوی اوردیگرعلوم حضرت شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی سے حاصل کئے، انہیں کی
بیعت کاشرف پایا،مسائل وعقائد پر ایک رسالہ لکھا جس کانام ’’اتالیق الصبیاں‘‘ہے،
آپ کی پیدائش 1199ھ پانی پت میں اوروفات دہلی میں1240ھ کو ہوئی، باغ شیرافگن خان دہلی میں دفن کیا
گیا ۔([109])
(3)صوبہ ٔ ہند قاری عبدالمجیددہلوی کی ولادت
تقریباً1140ھ کو دہلی میں
ہوئی اوریہیں تقریباً 1210ھ کو وصال فرمایا،فن قرأت میں آپ کی
خدمات فراموش نہیں کی جاسکتیں ۔([110])
(4)شیخ القراء قاری غلام مصطفی دہلوی بن
شیخ محمد اکبرتھانیسری رحمۃ
اللہ علیہ
قاری عبدالمجیددہلوی کے قابل شاگردتھے،ان کی ولادت تقریبا 1100ھ کو
دہلی میں ہوئی اوریہیں تقریبا 1160ھ میں فوت ہوئے ۔([111])
(5)شیخ القراء قاری مولاناحافظ غلام محمدگجراتی ثم دہلوی،ان کے بارے میں معلومات نہ
مل سکیں۔
(6)شیخ القراء حضرت حافظ عبدالغفوردہلوی کی
پیدائش تقریباً 1040ھ کو دہلی ہند
میں ہوئی اور یہیں 1120ھ میں
وفات پائی،آپ کی ذات سےشمالی ہند میں فن قرأت عام ہوا۔([112])
۞ شیخ القراء قاری عبدالخالق منوفی
ازہری ثم دہلوی رحمۃ
اللہ علیہ اوران سےآگے
تمام قراء کا تعارف پہلی سند قرآن میں ہوچکا ہے ۔
پانچویں سند قرآن :
مولانا
عبدالغنی مرحوم بہاری رحمۃ اللہ علیہ سے بھی کچھ قرآن مجید ان سے سن کر اور کچھ سنا
کر خاکسار(امام
المحدثین مفتی سیدمحمددیدارعلی شاہ رحمۃ اللہ علیہ )نے سند قرآن
مجید حاصل کی اور انہوں نے سند قرآن مجید حاصل کی تھی مولانا قاری عبدالرحمن مرحوم
پانی پتی سے اور مولانا عبدالرحمن مرحوم پانی پتی نے بروایت حفص سارا قرآن مجید من
اولہ الیٰ آخرہ پڑھا اپنے والد ماجد مولانا قاری محمد پانی پتی سے اور انہوں نے
ساتوں قرائت کے ساتھ تمام قرآن مجید پڑھا تھا قاری مصلح الدین پانی پتی سے
اور انہوں نے شىخ القراءقاری عبید اللہ مدنى مرحوم سے۔([113])
پانچویں سندقرآن کے روات
کا مختصرتعارف :
امام المحدثین مفتی سیدمحمد دیدارعلی شاہ رحمۃ
اللہ علیہ
کی اس سندقرآن کے قراء کا مختصرتعارف
ملاحظہ کیجئے :
(1) مولاناقاری عبدالغنی بہاری مہاجرمدنی رحمۃ اللہ
علیہ کی امام المحدثین مفتی سید دیدارعلی شاہ
صاحب سے ملاقا ت 1326ھ مطابق 1909ء کو راجستھان کے شہر باندی کوہی(ضلع دوسا)میں
ہوئی انھوں اپنے استاذقاری عبدالرحمن پانی پتی اورتقریباً چالیس اکابرعلمائے مکہ مکرمہ اورمدینہ
طیبہ سے
ملنے والی اجازات امام المحدثین کو دیں اوروہ ثبت بھیجنے کا وعدہ فرماگئے جس میں
تمام اکابرعلمائے حرمین مکرمین کی سندیں اصحابِ کتبِ احادیث تک تھیں، مگرافسوس کہ
وہ اپنے مقام تک نہ پہنچ سکے اوراثنائےراہ ہی میں انتقال فرماگئے۔([114])
(2)علامہ قاری عبدالرحمن انصاری محدث پانی پتی رحمۃ
اللہ علیہ کی پیدائش 1227ھ مطابق 1812ءاوروفات 5ربیع
الآخر1314ھ مطابق 13ستمبر1896ء کو پانی پت (ریاست ہریانہ ،ہند)میں
ہوئی،آپ عالم دین،تلمیذ و مرید و خلیفہ شاہ اسحاق دہلوی، استاذ القرء والعلما اورمصنفِ
کتب تھے
۔([115])
(3)قاری محمدانصاری پانی پتی کا تذکر ہ چوتھی سند قرآن کےقراء کے تعارف میں
گزرچکا۔
(4) شیخ القراء
قاری مصلح الدین عباسی پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1145ھ کو
ہوئی اور1225ھ یا 1219ھ کووصال فرمایا،ابتدئی
اسلامی تعلیم،تجویدوقرائت کے بعدپانی پت
ہندسے حجازمقدس کا سفرکیا اورمدینہ شریف میں قاری عبیداللہ مدنی رحمۃ
اللہ علیہ سے علم تجویداورسند قرآن وقرأت حاصل کی،واپس
آکر اپنے وطن میں درس وتدریس میں مصروف ہوگئے،آپ شیخ القراء کے لقب سے ملقب ہوئے
اوریہ آپ کی پہچان بن گئی ۔([116])
۞شیخ
القراء قاری عبیداللہ مدنی رحمۃ
اللہ علیہ
کے حالات اوران سےآگےکی سند معلوم نہ
ہوسکی ۔
حواشی ،ماخذومراجع :
[1]... سورہ طہ،آیت
؛114
[3]
... امیرُالمؤمنین فی الحدیث حضرت سیّدُنا سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت98ھ
میں کوفہ (عراق) میں ہوئی اورشعبانُ المعظم161ھ میں وصال فرمایا۔مزاربنی کُلیب
قبرستان بصرہ میں ہے۔آپ عظیم فقیہ، محدث، زاہد، ولیِ کامل اوراستاذِ محدثین و فقہا
تھے۔(سیراعلام النبلاء، 7/229،279،
طبقات ابن سعد، 6/350)
[4]
... شرف اصحاب الحدیث للخطیب ،42
[5]
... امیرالمؤمنین فی الحدیث حضرت سیّدنا عبداللہ بن مبارک مَروَزِی علیہ رحمۃ اللہ
القَوی کی ولادت 118ھ کو مَرْو (تُرکمانستان) میں ہوئی اور وِصال 13 رمضان 181ھ کو فرمایا۔ مزارمبارک ہِیت
(صوبہ انبار) مغربی عراق میں ہے، آپ تبعِ تابعی، شاگردِ امام اعظم، عالمِ کبیر، مُحَدِّثِ
جلیل اور اکابر اولیائے کرام سے ہیں۔ ” کتابُ الزُّہْدِ وَ الرَّقائِق“ آپ کی مشہور
تصنیف ہے۔(طبقاتِ امام شعرانی، جز1، ص 84تا86، محدثینِ عظام وحیات و خدمات، ص146تا153)
[6]
... الکفایۃ فی علم الروایۃ للخطیب،393
[7]
... صحیح مسلم ،1/19
[8]
...شیخُ
الاسلام، عمدۃُ المحدثین، شہابُ الدّین، حافظ احمد بن علی ابنِ حجر عسقلانی شافعی علیہ
رحمۃ اللہ الکافی کی ولادت 773ھ کو قاہرہ مصر میں ہوئی اور یہیں 28ذوالحجہ852ھ کو
وصال فرمایا۔ تدفین قَرافہ صُغریٰ میں ہوئی۔ آپ حافظُ القراٰن، محدثِ جلیل، استاذُ
المحدثین، شاعرِ عربی اور 150سے زائد کُتُب کے مصنف ہیں۔ آپ
کی تصنیف ”فتحُ الباری شرح صحیح البخاری“ کو عالمگیر شہرت حاصل ہے۔(بستان
المحدثین، ص302، الروایات التفسیریہ فی فتح الباری، 1/39، 65)
[10]... تفسیرمیزان
الادیان،1/67
[11]...تفسیرمیزان الادیان،1/67
[13] ...تفسیرمیزان
الادیان میں یہاں شیخ احمد بقری لکھا ہے جبکہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے
فارسی ترجمہ قرآن ’’ فتح الرحمن‘‘میں آپ کی سند قرائت میں یہاں ’’الشیخ
البقری‘‘لکھا ہے،یہ سند جن دیگرکتب میں ہے وہاں شیخ بقری کانام ’’شیخ محمدبقری
‘‘لکھا ہے ،ان کا پورانام’’شمس الملت والدین شیخ ابو الاكرام محمد بن قاسم بن اسماعيل بقری ‘‘ ہے، اس لیے
یہاں شیخ احمد کے بجائے شیخ محمد کردیا ہے،مزیدتفصیل آگے آئے گی ۔
[14] ... تفسیرمیزان الادیان میں ان کا نام
’’سجادہ‘‘لکھاہےمگردرست ’’شحاذہ‘‘ہے ،اسےلیے یہا ں درستی کردی گئی ۔
[15] ...فتح الرحمن بترجمۃ القرآن میں موجود ’’سلسلہ اسانیدشاہ ولی
اللہ‘‘ اور تفسیرمیزان الادیان میں علامہ قلقیلی کا لقب برہان لکھا ہے مگرآپ’’
الشہاب السکندری‘‘سے معروف تھے۔دیکھئے: الضوء اللامع لاہل القرن التاسع للسخاوی، 1/263۔
[16] ... امام محمد
بن محمد جزری رحمۃ اللہ علیہ نے فن تجویدوقرأت میں مقبول عالم کتاب ’’النشرفی
القرأت العشر‘‘تحریرفرمائی،جس میں فن تجوید وقرأت کی ضرورت،اہمیت،حروف کے مخارج
اورانکی صفات،علم وقوف وابتدا،ادغام کبیروصغیر،ہمزات کے احکام وقواعد،فتح وامالہ
کو بیان فرمایا، رسم الخط اورختم قرآن جیسی ابحاث بھی اس کا حصہ ہیں،اس کتاب کی
اہمیت کااندازاس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ یہ صدیوں سے تجویدوقرأت کے مدارس میں
بطورنصاب رائج ہے ۔
[17] ...کتاب التيسير فی القرأت السبع حضرت
علامہ ابوعمرعثمان بن سعید دانی اندلسی رحمۃ اللہ علیہ کی مقبول زمانہ تصنیف ہے،جسے
مختلف مطابع نے اسے ایک جلد میں شائع کیا ہے،مطبعۃ الدولہ استنبول نے اسے 1930ء کو 266صفحات
میں شائع کیا ہے،جوانٹرنیٹ پر موجودہے ۔
[18] ...میزان الادیان میں یہاں ورتی لکھا تھا
،جبکہ درست ورقی ہے چنانچہ یہاں تبدیلی کردی ہے ۔
[19] ...میزان الادیان میں یہاں الحضارہ جبکہ فتح
الرحمن بترجمۃ القرآن میں الخصارتحریرہے
جبکہ درست الحصارہے اسے لیے یہاں درستی کردی ہے ۔
[20] ... میزان الادیان میں یہا ں ابوعمروانی
لکھا ہے جوکہ درست نہیں ،درست ابوعَمرو دَانی ہے چنانچہ سند میں درستی کردی ہے ۔
[21] ...میزان الادیان اورفتح الرحمن امام
ابوالحسن طاہر کے والدکا نام غلبون لکھا ہے جبکہ غلبون آپ کے والدعبدالمنعم بن
عبداللہ کے داداہیں ۔دیکھئے:غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء،1/301۔
[22] ...میزان
الادیان میں یہاں فقط عبیدلکھا ہے جبکہ آپ کا مکمل نام عبیداللہ ہے چنانچہ سند میں
درستی کردی ہے ۔
[23] ... تفسیرمیزان الادیان ،1/79،80
[24] ... امام
المحدثین نے دارُالعُلُوم حِزْبُ الْاَحْناف لاہورکو 1924ء میں
مسجدوزیرخاں اندرون دہلی گیٹ میں شروع فرمایا،پھر یہ جامع مسجدحنفیہ محمدی محلہ
اندرون دہلی گیٹ منتقل کردیا گیا،جگہ تنگ
ہونے کی وجہ سے آپ کے صاحبزادےمفتی اعظم پاکستان مفتی شاہ ابوالبرکات سیداحمدرضوی
صاحب اس کی وسیع وعریض عمارت بیرون بھاٹی گیٹ گنج بخش روڈ پر بنائی،جو اب بھی قائم ہے ۔
[25] ...فتاویٰ دیداریہ کے مرتب مفتی محمد علیم الدین نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ ہیں، اس میں 344فتاویٰ ہیں،87فتاویٰ
کے علاوہ تمام فتاویٰ مفتی سیددیدارعلی شاہ صاحب کے تحریرکردہ ہیں،اسے مکتبۃ
العصرکریالہ جی ٹی روڈ گجرات پاکستان نے 2005ء کو
بہت خوبصورت کاغذپر شائع کیا ہے، اس کے کل
صفحات 864ہیں ۔
[27] ...تاریخ خاندان برکات ،اردومیں لکھی گئی
کتاب ہے اس میں علامہ سیدشاہ اولادِ رسول میاں مارہروی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے خاندان کے بزرگوں کے مختصرحالات لکھے
ہیں،برکاتی پبلشرزکراچی نے اسے 1987ء میں
163صفحات پر شائع
کیا ہے ۔
[28] ... تاریخ
خاندانِ برکات،ص، 65تا69
[29] ... تاریخ خاندان برکات ،57،64
[30] ... سِراجُ العَارِفِین مولانا سیّد ابوالْحُسَین
احمد نُوری صاحب نے 1309ھ کو سراج العوارف فی الوصیا والمعارف کوفارسی میں
تحریرفرمایا ،اس کا موضوع تصوف ہے،اس کا اردوترجمہ ڈاکٹرپیرسیدمحمد امین میاں
برکاتی صاحب نے کیا جسے برکاتی پبلشرزکراچی نے1987ء میں 202صفحات پر شائع کیاہے ۔
[32] ... تذکرۂ
نوری، ص 146،275،218 ۔
[33] ...آپ کی یہ چاروں تصانیف تفسیرِ عزیزی،
بُستانُ المُحدّثین، تحفۂ اِثنا عشریہ اورعاجلہ نافعہ فارسی میں ہیں، تحفہ اثنا عشریہ کو بہت شہرت حاصل ہوئی ،اس
کا موضوع ردرفض ہے،تفسیرعزیزی کا نام تفسیرفتح العزیزہے،جو چارجلدوں پر مشتمل ہے
،بستا ن المحدثین میں محدثین کے مختصرحالات دیئے گئے ہیں جبکہ آپ کا رسالہ عاجلہ نافعہ فن حدیث پرہے جس میں آپ نے اپنی اسنادواجازات
کو بھی ذکرفرمایا ہے،اسکے 26صفحات ہیں ۔
[34]... الاعلام
للزرکلی، 4/ 14۔ اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ، 11/634
[35]...ان چارکتب فتح الرحمن فی ترجمہ القرآن،الفوز
الکبیرفی اصول التفسیر، مؤطاامام ملک کی دوشروحات المصفیٰ،المسوّی، کا موضوع نام سے واضح ہے ،آپ نے اپنی تصنیف حجۃ اللہ البالغہ میں احکام اسلام کی حکمتوں اورمصلحتوں کوتفصیل کے ساتھ بیان کیاہے،اس میں
شخصی اوراجتماعی مسائل کو بھی زیرِ بحث لایا گیاہے،کتاب ازالۃ الخفاء ردرفض پرہے،آپ کے رسالے الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ سے ظاہر ہوتا ہے
کہ آپ عقائدومعمولاتِ اہل سنت پر کاربند تھے،آپ کی آخری دونوں تصانیف
آپ کی اسنادواجازات اورآپ کے مشائخ کے
تذکرے پرمشتمل ہیں۔
[36]... الفوز الکبیرفی اصول التفسیر،ص7تا11، تواریخ آئینہ تصوف،217،تذکرہ علمائے ہند،458
[37] ... فتح الرحمان الرحمن فی ترجمۃ القرآن فارسی،ص،611،مطبوعہ ایران ، نزھۃ الخواطر، 6/352
[38] ...جامعۃ الازہرقاہرہ مصرعالم اسلام کے قدیم
جامعات سے ہے ،اس کی شہرت چاردانگ عالم میں ہے ،اس کاآغاز361ھ مطابق 972ءمیں ہوئی ،اب بھی دنیا میں عزت
کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے ۔کہاجاتاہے کہ اس کے طلبہ کی کل تعداد10
لاکھ ہے جن میں 50 ہزاردنیاکے 100ممالک سے آئے ہوئے طلبہ ہیں۔
[39] ... امتاع الفضلاء بتراجم القراء فيما بعد القرن الثامن الهجری،2/160،تذکرہ
قاریان ہند،178،179، تواریخ آئینہ تصوف،218
[40] ...غنیۃ الطالبين ومنیۃ الراغبین
فی تجويدالقرآن العظیم فن تجویدکی مختصرکتاب ہے جسے مختلف مطابع نے شائع کیا ہے
مثلا المکتبۃ الازہریہ مصرنے
اسے 46صفحات پر شائع کیا ہے ۔
[41] ... شیخ
القراء حضرت علامہ ابوسماح احمدبن رجب بقری شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 1074ھ کوہوئی،آپ ذہین وفطین، کثیرالعلم،فقیہ
شافعی اورمحقق تھے،گھرہویا سفربہت زیادہ تلاوت قرآن کرتے۔ راتوں کو عبادت میں
مصروف رہتے،آپ پڑھنےپڑھانے میں بہت محنت کرتے تھے،زندگی کے آخری سال میں حج کے لئے
تشریف لے گئے جب مقام نخل میں پہنچے تو 29یا 30شوال1189ھ کو وفات پائی،وہیں دفن کئے گئے۔( ہدیۃ
العارفین، 1/179، تاريخ عجائب الآثار فی التراجم والاخبار(تاریخ الجبرتی)، 1/650)
[42] ... تاريخ
عجائب الآثار فی التراجم والاخبار(تاریخ الجبرتی)، 1/650، معجم المؤلفین،3/593،
سلک الدررفی اعیان قرن الثانی عشر،جز4، 2/134، فوائد الارتحال، 1/528
[43] ...خلاصۃ الأثر،2/358، المجلۃ التاریخۃ المصریۃ، 55/137تا 166، امتاع الفضلاء بتراجم القراء، 2/172، فوائدالارتحال،4/583
[44] ... بدایۃ القاری فی ختم
البخاری 183صفحات پر مشتمل ایک کتاب ہے جس کا موضوع حدیث اوراس کی اصطلاحات ہے،دارالبشائراسلامیہ بیروت نے اسے شائع کیا ہے
۔
[45] ... مرشدة المشتغلين فی احكام
النون الساکنۃ والتنوين کا موضوع علم تجویدہے، یہ نون ساکن کے قواعدکے بارے میں ہے
، دارالافاق العربیہ نصرسٹی قاہرہ مصرنے
اسے 190صفحات پر شائع کیا ہے۔
[47]
... الدقائق المحكمة قرائت کی مشہورکتاب مقدمہ جزریہ کی
یہ ایک بہترین شرح ہے، اسے مختلف مطابع نے شائع کیا ہے ،مثلا مکتبۃ ضیاء الشام
دمشق نے اسے 248صفحات پر شائع کیا ہے ۔
[48]
... تحفۃ الباری کا دوسرانام منحۃ الباری ہے ،یہ بخاری شریف کی بہترین شرح ہے، دارالکتب
العلمیہ بیروت نے اسے 7جلدوں میں شائع کیا ہے ۔
[49]
... اسنی المطالب فقہ شافعی کی کتاب ہے، اس
کے بارے میں کہاجاتاہے کہ جس نے اس پڑھا نہیں وہ شافعی ہی نہیں ،دارالکتب العلمیہ
بیروت نے اسے 9جلدوں میں شائع کیا ہے۔
[51] ... الضوء اللامع لاہل القرن التاسع للسخاوی، 1/263
[52] ...حافظ
الحدیث علامہ ابن حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کا تعارف پہلے گزرچکا ہے ۔
[54] ...حصن
حصین،اورادو وَظائف،اذکاراوردعاؤں پر مشتمل چھ صدیوں سے علماوفقہا اورمحدثین بلکہ
عوام میں مقبول کتاب ہے،اس کوپڑھنے
کی باقاعدہ اجازت وسند لی جاتی ہے، دنیابھرکے
مکتبوں نے اسے شائع کیاہے،مختلف زبانوں میں اس کے ترجمےبھی ہوئے ،کویت کے مکتبہ غراس النشروالتوزیع نے اسے
436صفحات میں شائع کیا ہے ۔
[55] ...کتاب
النشرکاتعارف گزرچکا ہے ۔
[56] ...علامہ جزری کی کتاب’’ غایۃ النہایۃ فی طبقات
القراء‘‘حوالے کے طورپرمعروف ہے ،اسکی دوجلدیں ہیں ،کل صفحات 1072ہیں
،اسے دارالکتب العلمیہ نے شائع کیا ہے ۔
[57] ... شذرات الذھب، 7/336، الضوء اللامع
لاہل القرن التاسع للسخاوی، 9/255، الاعلام
للزرکلی، 7/45، النشر فی القراءت العشر، مقدمۃ الکتاب
[58] ... الدرر الکامنۃ، 1/125، غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، 1/49، طبقات السنیۃ
فی ترجم الحنفیۃ،1/338
[60]
... علامہ ابومحمد قاسم بن احمد اندلسی رحمۃ اللہ علیہ کی کتا ب المحصل فی شرح المفصل
کا موضوع علم النحو ہے مؤسسۃ الانتشارالعربی لبنان نے اسے ناصربن سعید کی تحقیق کے
ساتھ 818صفحات پر شائع کیا ہے،انٹر نیٹ پر اس کا مخطوطہ بھی موجودہے جس کے صفحات 206ہیں ۔
[61]
... علامہ قاسم بن احمداندلسی رحمۃ اللہ
علیہ نے امام قاسم بن فیرہ شاطبی کی کتاب
متن شاطبیہ (حرز الامانی ووجہ التہانی فی القرأت السبع)کی شرح بنام المفیدفی شرح القصیدتحریرفرمائی، یہ شرح فن علم تجویدوقرأت سے دلچسپی رکھنے والوں کے
لیے بہت مفیدہے۔ الجامعۃ الاسلامیہ مدینہ شریف نے اسے ایک جلدمیں شائع کیا ہے ۔جو
نیٹ پرپی ڈی ایف کی صورت میں موجودہے ۔
[62] ...العبر فی خبر من غبر،3/303، بغیۃ الوعاۃ،2/250شاملہ، غایۃ النہایۃ فی طبقات
القراء،2/15 ۔
[63] ... غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء،1/84، 85، سیراعلام النبلاء، 16/68، معرفۃ
القراء الکبار علی طبقات والاعصار، 3/1152
[64] ... غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء،2/129، الموسوعۃ المیسرۃ فی تراجم ائمۃ
التفسیر والاقراء و النحو واللغۃ، ص 2098، رقم:2930
[65] ... غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء،2/93، الموسوعۃ المیسرۃ
فی تراجم ائمۃ التفسیر والاقراء و النحو واللغۃ، ص 1984، رقم:2779، سیراعلام
النبلاء، 16/69
[66] ... سیراعلام النبلاء،
15/226، معرفۃ القراء الکبار علیٰ طبقات
والاعصار، 3/990تا992، شجرۃ النور
الزکیۃ فی طبقات المالکیۃ،ص174
[67] ...ابوولید
مؤیدباللہ ہشام ثانی بن حکم سلطنت اندلس بنواُمیّہ کا دسواں اورقرطبہ کا تیسراحکمران تھا،اس کا دورحکومت 976
ءتا
1009ء اوردوسرادورحکومت 1010ءتا
1013ءعرصے پر محیط ہے۔
[68] ... امام سلمان نجاح رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب
’’مختصر التبيين لهجاء التنزيل‘‘ تفسیرقرآن کے موضوع پر ہے، اسے مختلف مطابع نے
شائع کیا ہے،اس کی5 جلدیں اور1929صفحات ہیں ۔
[69] ... سیراعلام النبلاء، 14/216، الاعلام للزرکلی،3/137، غایۃ النہایۃ فی طبقات
القراء،1/287، معرفۃ القراء الکبار علی طبقات
والاعصار، 2/862
[70]
... التيسير فی القراءات السبع کامختصرتعارف پہلے ہوچکا ہے ۔
[71]
...امام ابوعمرودانی رحمۃ اللہ علیہ کی جامع البيان فی القرأت السبع کا عنوان نام سے ہی
ظاہرہے،اس مقبولیت کا اندازااس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ اسے دنیا کے کئی مطابع نے
شائع کیا ہے ،مثلا دارالحدیث قارہرہ مصرنے اسے 3جلدوں میں شائع کیا ہے ،جن کے کل
صفحات 1584ہیں ۔
[73] ...امام ابوالحسن طاہررحمۃ اللہ علیہ کی
کتاب ’’التذکرۃ فی قرأت الثمان‘‘کا موضوع علوم القرآن اورتفسیرہے ،اس کی ایک جلدہے
اورصفحات کی تعداد400ہے۔دارالکتب العلمیہ بیروت نے اسے شائع کیا
ہے ۔
[74] ...غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء،1/307، معرفۃ القراء الکبار علی طبقات
والاعصار، 2/862، ھدایۃ القاری الیٰ تجوید کلام الباری، 2/800
[75] ... ھدایۃ القاری الیٰ تجوید کلام الباری، 2/750، غایۃ النہایۃ فی طبقات
القراء، 1/501، معرفۃ القراء الکبار علی طبقات
والاعصار، 2/618
[76] ... تاريخ بغداد، 4/406، غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، 1/59، معرفۃ القراء
الکبار علی طبقات والاعصار، 1/488
[77] ... غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، 1/440، معرفۃ القراء الکبار علی طبقات
والاعصار، 1/411، النشر فی القراءت العشر، 1/157
[78] ...غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، 1/229، معرفۃ القراء الکبار علی طبقات
والاعصار، 1/287، النشر فی القراءت العشر، 1/156،الاعلام للزرکلی، 2/264
[79] ... سیراعلام النبلا،6/79تا83، تاریخ ابن عساکر، 25/220 تا 242،تہذیب التہذیب،4/131، غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء،
1/315
[80]
...سیراعلام النبلا،5/249تا252، طبقات ابن سعد، 6/212تا214، تہذیب الکمال للمزی، 5/298
[81]
...واقعہ ٔ دیرجماجم شعبان 82ھ میں پیش آیا، اہل کوفہ وبصرہ سپہ
سالارعبدالرحمن بن محمد بن اشعث اوراہل
شام حجاج بن یوسف کی سربراہی میں مقابل آئے،عبدالرحمن کے لشکرمیں کئی علما مثلا
حضرت سعید بن جبیر،حضرت عامرشعبی،حضرت عبدالرحمن ابن ابی لیلی اورحضرت کمیل بن زیادرحمۃ اللہ علیہم شامل تھے،یہ لڑائی کئی ماہ جاری رہی ،عبدالرحمن کے لشکرکی شکست پر اس جنگ کا
اختتام ہوا۔
[82] ... طبقات ابن سعد، 6/161، الاستیعاب، 2/131،تذکرۃ
الحفاظ،1/49
[83]
... معرفۃ الصحابہ لابی نعیم،1/79تا94،
3/361، معجم کبیر، 1/77، 78، 85، 87، الاصابہ، 4/377تا 379، تاریخ ابن عساکر، 39/8، 27،
225، الریاض النضرۃ،جز3، 2/5، 33، 103،
الزھد لامام احمد،ص 154، رقم: 680،سنن کبریٰ للبیہقی،2/61، حدیث:2374
[84]
... نورِچشمِ رسول، جگر گوشۂ بتول، حضرت سیدنا امام ابو محمد حسن مُجتبٰی رضی
اللہ عنہ کی ولادت 15رمضان 3ھ کو مدینۂ منوّر ہ میں ہوئی
اوریہیں 5ربیعُ الاوّل 49یا50ھ کو زہر دئیے جانے کے سبب شہادت پائی، مزارِپُرانوارجنّتُ البقیع میں ہے،
آپ حضرت علیُّ المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کےبڑے بیٹے،حضرت سیّدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ
عنہا کے شہزادے،نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مشابِہ اور جنّت کے نوجوانوں کے سردار تھے،
شجاعت، سیادت (سرداری)،سخاوت، تقویٰ و عبادت کے خوگر تھے، آپ کی شان میں کئی
فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں جن میں سے ایک یہ ہے : میرا یہ
بیٹا سردار ہے، یقیناً اللہ پاک اس کی وجہ سے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح
کرائےگا۔(بخاری، 2/546، حدیث:3746، الاصابۃ، 2/60تا65، صفۃ الصفوۃ، 1/386)
[85]
... سیّدُالشُّہداء، امامِ عالی مقام، حضرت سیّدُنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی
ولادت 5شعبانُ المعظم 4ھ کو مدینۂ منوّرہ میں ہوئی اور 10محرمُ الحرام61ھ کو کربلائے معلیٰ (کوفہ، عراق) میں
جامِ شہادت نوش فرمایا۔ آپ نواسۂ رسول، نورِ عینِ فاطمہ بتول، جگر گوشۂ علیُّ المرتضیٰ
اور پیکرِ صبر و رضا تھے۔ آپ عبادت ، زہد، سخاوت، شجاعت، شرم و حیا اور اخلاق کے
اعلیٰ درجے پر فائز تھے۔ آپ نےراہِ حق میں سب کچھ لُٹا دیا لیکن باطل کے سامنے سَر
نہ جھکایا اور شہادت کا جام پی لیا۔ آپ کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ آج اسلام زندہ
ہے۔(سیراعلام النبلاء، 4/401تا429)
[86] ... ابن ماجہ، 3/90،حدیث: 2310، طبقات ابن سعد، 2/257تا 259، 3/13تا29،تاریخ
ابن عساکر، 42/3تا589، زرقانی علی المواھب، 1/449، تاریخ الخلفاء،ص132، الریاض
النضرۃ،جز3، 2/103، 239، اتحاف السائل
للمناوی، ص33، تہذیب الاسماء،1/344تا349
[87] ... طبقات ابن سعد، 2/259، 3/378تا381، اسد الغابۃ فی معرفۃ
الصحابۃ،1/78تا80، تہذیب الکمال للمزی،
1/318تا322
[88] ... طبقات ابن سعد، 2/273تا276، سیراعلام النبلا، 4/73 تا82، الاستیعاب،
2/111تا113
[89]
... زُہد و تقویٰ کے جامِع صحابی حضرت سیّدُنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نبیِّ
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےرضاعی بھائی،قدیمُ الاسلام،حبشہ و مدینہ
دونوں جانب ہجرت کرنے والے، سادہ و نیک طبیعت کے مالک، کثرت سے عبادت کرنے اور روزے
رکھنے والے، اصحابِ صُفَّہ اور بَدری صَحابہ میں سےتھے۔شعبانُ المعظّم3ھ میں فوت ہوئے اور مُہاجرین میں سب سے پہلے جنّتُ البقیع میں دفن کئے گئے۔
(حلیۃ الاولیاء، 1/147تا151،
جامع الاصول،13/313،314)
[90]
...امامُ العلما حضرت معاذ بن جبل انصاری خزرجی رضی اللہ عنہ 17
سال کی عمرمیں بارہویں سنِ نبوت کو اسلام لائے،بیعتِ عقبہ اوربدرسمیت تمام غزوات
میں شریک ہوئے،آپ حسن وجمال کےپیکر،حلم وحياءوسخاوت سے متصف، ذہین و فطین، اَخّاذ طبیعت
کے مالک، جمعِ قراٰن کا شرف پانےوالے ،کثیراحادیث کے راوی،مرتبۂ اجتہاد پر فائز، پختگیِ
علم سے مالامال اورعظیم فقیہ تھے، یمن کے گورنر بنائے گئے، فتحِ مکہ کے وقت نومسلمین
کی تربیت کرتے، آپ نے 38سال کی عمرمیں طاعون عمواس(محرم وصفر18ھ)میں وصال فرمایا،فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم :يأتي معاذ بن جبل يوم القيامة أمام العلماء یعنی معاذبن جبل قیامت کے دن امامُ العلماہو کرآئیں گے۔(معجم الکبیر،
20/29، حدیث:40، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، 6/107، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب،
3/460)
[91] ... طبقات ابن سعد، 2/260تا 262، 3/111تا119، اسد الغابۃ فی معرفۃ
الصحابۃ،3 / 394 تا400، تذکرۃ الحفاظ، 1/16تا18
[92] ... مدارج النبوت ،2/14،آخری نبی کی پیاری سیرت ، 143تا145
[93] ... تفسیرمیزان الادیان،1/
81 میں یہ لکھا ہے : انہوں (شىخ القراء
عبدالخالق مرحوم)نے شىخ احمد بقرى سے۔ انہوں(شیخ احمد بقری ) نے شىخ محمد بقرى سے(سندقرآن حاصل کی )مگریہ درست
نہیں ،قاری عبدالخالق صاحب نے شیخ احمدبقری سے سند نہیں لی بلکہ شیخ محمد بقری سے
لی ہے ،اس میں شیخ احمد بقری کاواسطہ زائد لکھا گیا ہے اس لیے اسے حذف کردیا گیا
ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ علامہ فضل الرحمن گنج مرادآبادی کی یہ سند وہی ہے جس کا
اتصال حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ
اللہ علیہ سے ہے اورعلامہ محدث دہلوی نے اپنی سند قرآن یوں تحریرفرمائی
ہے،قال:تلوتہ الی آخرہ بروایۃ حفص علی الشیخ عبدالخالق متوفی شیخ القراء
بمحروسۃ’’دلی‘‘قال:قرأت القرأن کلہ بالقراءات السبع علی الشیخ البقری والبقری
تلابہاعلی شیخ القراءبزمانہ الشیخ عبدالرحمن الیمنی۔۔۔( فتح الرحمن بترجمۃ القرآن،ص611)اس سے معلوم ہوا کہ شیخ عبدالخالق اورشیخ عبدالرحمن یمنی کے درمیان
صرف ایک واسطہ ہے شیخ بقری کا اوریہاں شیخ بقری سے مراد شمس الملت والدين حضرت شیخ ابو الاكرام محمد بن
قاسم بن اسماعيل بقری ہیں کیونکہ
دیگراسناد میں اس نام کی صراحت ہے۔یہاں ایک اورمفید بات ذکر کرنا مناسب ہے کہ شیخ
عبدالخالق مصری دہلوی اورشیخ احمد بقری
مصری(ان کام مکمل نام شیخ ابوسماح احمدبن رجب بقری
شافعی ہے )دونوں شیخ محمد بن قاسم بقری کے
شاگردہیں،خلاصہ یہ ہے کہ دنوں استاذشاگردنہیں بلکہ کلاس
فیلوہیں ۔
[95] ... اتحاف الاخوان باسانیدمولانا فضل الرحمن
کے مؤلف حضرت شیخ احمدابوالخیرجمال العطارمکی احمدی
(ولادت ،1277ھ
مطابق1861ء،وفات تقریباً1335ھ
مطابق 1916ء)رحمۃ اللہ
علیہ ہیں ،انھوں نے اسے 28شعبان
1306ھ میں تالیف
فرمایا، اس کے 24صفحات
ہیں،پروگریسوبکس لاہورنے اسے ملفوظات شاہ فضل ِ رحمن گنج مرادآبادی کےآخرمیں 2020ء کو شائع کیا ہے ۔
[96] ... جدِّ
اعلیٰ حضرت،مفتی رضا علی خان نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ عالم، شاعر،مفتی اورشیخ طریقت تھے۔1224ھ میں
پیدا ہوئے اور 2جمادی الاولیٰ1286ھ میں
وصال فرمایا، مزار قبرستان بہاری پورنزدپولیس لائن سٹی اسٹیشن بریلی شریف (یوپی،
ہند) میں ہے۔ (معارف رئیس اتقیا،ص17، مطبوعہ دہلی)
[97]... تذکرۂ
مُحدّثِ سورتی، ص53-57،تجلیات ِ تاج الشریعہ، ص86
[98]... تفسیرمیزان
الادیان ،1/ 70،78
[99]...
حیاتِ اعلیٰ حضرت،1/58، 3/295،مکتبۃ المدینہ، تاریخِ مشائخِ قادریہ رضویہ ، ص282، 301
[100]
... مفتیِ اعظم پاکستان، سیّدُ المحدّثین حضرت علامہ ابوالبرکات سیّد احمد قادری
رَضَوی اشرفی صاحب مفتی سیددیدارعلی شاہ صاحب کے چھوٹے صاحبزادے ہیں، یہ استاذُ العلما، شیخ الحدیث، مناظرِ اسلام، بانی
و امیر مرکزی دار ُالعُلوم حِزب ُالاحناف اور اکابرینِ اہلِ سنّت سے ہیں۔ 1319
ہجری کو محلہ نواب پور اَلْوَر (راجستھان) ہند میں پیدا ہوئے اور مرکز الاولیا
لاہور میں 20شوّال 1398ہجری میں وِصال فرمایا، مزار مبارک دارُ العلوم حِزب الاحناف داتا دربار مارکیٹ
مرکز الاولیا لاہور میں ہے۔(تاریخِ مشائخِ قادریہ رضویہ برکاتیہ، ص 318-314)
[101]
... مفسرِ قراٰن حضرت علامہ سَیِّد ابوالحَسَنَات محمد احمد قادِرِی اَشْرَفی صاحب
مفتی سیددیدارعلی شاہ صاحب کے بڑے صاحبزادے ہیں،یہ 1314ھ الور (راجستھان) ہند میں پیدا
ہوئے اور 2شعبان 1380ھ میں پاکستان کے دوسرے بڑے شہر
مرکزالاولیا لاہور میں وفات پائی، مزارِ
داتا گنج بخش سیّد علی ہَجْویری کے قرب میں دفن ہونے کا شرف پایا۔ آپ حافظ، قاری،
عالمِ باعمل، بہترین واعِظ، مسلمانوں کے مُتَحَرِّک رہنما اور کئی کتب کے مُصَنِّف
تھے۔ تصانیف میں تفسیرُالحَسَنات (8جلدیں) آپ کا خوبصورت کارنامہ
ہے۔(
تذکرہ اکابراہلسنت، ص442، تفسیرالحسنات، 1/46)
[102]... تفسیرمیزان الادیان ،1/
81،80
[103]... مقدمہ تفسیرمیزان
الادیان ،ص ،80
[104]
... قاری مصلح الدین عباسی پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ کا تعارف آگے
آرہا ہے ۔
[105] ... سِراجُ الہند حضرت شاہ عبد العزیز محدّثِ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ علوم و فُنون کے جامع، استاذُ العلما و
المحدثین، مُفَسِّرِ قراٰن، مصنّف اور مفتیِ اسلام تھے، تفسیرِ عزیزی، بُستانُ
المُحدّثین ، تحفۂ اِثنا عشریہ اورعاجلہ
نافعہ آپ کی مشہور کُتُب ہیں۔ 1159ہجری میں پیدا ہوئے اور 7 شوال 1239ہجری میں
وِصال فرمایا، مزار مبارک درگاہ حضرت شاہ وَلِیُّ اللہ مہندیاں، میردرد روڈ، نئی
دہلی میں ہے۔( الاعلام للزرکلی، 4/ 14۔ اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ، 11/634)
[106]
...لال قلعہ دہلی کی ایک قدیم عمارت ہے جسے مغل بادشاہ شاہجہاں نے
اپنے دورِ حکومت ( 1628 ء تا 1658ء)میں
بنایا ہے ،اس میں تخت ِ طاؤس بھی ہے جس پربیٹھ کربادشاہ حکمرانی کیاکرتے تھے ،اب
یہ ایک تاریخ عمارت کے طورپر یادگارہے،اس کے دودروازے ہیں ،دلی دروزاہ
اورلاہوردروازہ ،اس تاریخ عمارت کودیکھنے کے لیے لوگ دوردورسے آتے ہیں ۔
[107]...
تذکرہ قاریان ہند،217،262،پانی پت کے علماومشائخ ،210
[108]
... علامہ قاری عبدالرحمن انصاری محدث پانی پتی رحمۃ اللہ
علیہ تذکرہ آگے آرہا ہے ۔
[109]...
پانی پت کے علماومشائخ ،210،211،تذکرہ رحمانیہ ،26
[110]... تذکرہ قاریان ہند،240
[111]... تذکرہ قاریان ہند،212
[112]... تذکرہ قاریان ہند ،203
[113]... تفسیرمیزان الادیان ،1/ 80
[114]... مقدمہ مِیزانُ الادیان بتفسیرالقرآن،ص،77،80
[115]... اساتذۂ امیرِملّت،ص،61تا68
رکن
شوری حاجی یعفور رضا عطاری نے گھریلو صدقہ بکس اور عطیات بکس کے ذمہ داران کا مدنی
مشورہ لیا
دعوتِ اسلامی کے تحت پچھلے دنوں رکن
مرکزی مجلس شوری و نگران لاہور ڈویژن حاجی یعفور رضا عطاری نے گھریلو صدقہ بکس اور
عطیات بکس کے ذمہ داران کا مدنی مشورہ فرمایا۔
اس
موقع پر رکن شوری نے اسلامی بھائیوں کی سابقہ کارکردگی کا جائزہ لیا اور ان کی جانب سے کئے گئے
سوالات کے جوابات دیئے نیز انہیں مزید شعبے کے دینی کام بڑھانے کے حوالے سے نکات بتاتے ہوئے اہداف دیئے اور اہداف جلد پورا کرنے کی تر غیب دلائی جس پر اسلامی بھائیوں نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔
بلوچستان
یونیورسٹی میں ایم فل اسٹوڈنٹس کے درمیان
سیکھنے سکھانے کے حلقے کا انعقاد
پچھلے دنوں بلوچستانkpk دارالحکومت شہر کوئٹہ کی بلوچستان یونیورسٹی
میں ایم فل اسکالرز اسٹوڈنٹس کے درمیان سیکھنے سکھانے کے حلقے کا انعقاد ہوا جس میں شعبہ تعلیم کے صوبائی ذمہ دار فہد وسیم عطاری
اور نورالعین عطاری نے طلبہ کو نیکی کی دعوت دی ۔
مبلغ
دعوت اسلامی نے اسٹوڈنٹس
کو دعوت اسلامی کا تعارف کرواتے ہوئے انہیں مدنی قافلے میں سفر کرنے اور ہفتہ وا ر سنتوں بھرے اجتماع میں آنے
کی دعوت دی ۔ اس کے علاوہ 16 اگست
2022ء بروز منگل سے Balochistan
University میں
اسٹوڈنٹس کے درمیان فیضانِ قرآن و حدیث
کورس کا آغاز کیا جائے گا اس میں شرکت کرنے اور 22اگست
2022ء کو نگران شوریٰ کے سنتوں بھرے بیان میں شرکت کرنے کی
دعوت دی جس پر طلبہ نے یونیورسٹی سے گاڑی
چلانے کی نیت کا اظہار کیا۔
دعوت
اسلامی کی طرف سے 15 اگست 2022ء بروز پیر ڈبہ نانک سر جامع مسجد فتح اللہ نوری
میں دعائے شفاء اجتماع کا انعقاد ہوا جس میں مقامی عاشقان رسول نے شرکت کی ۔
ڈسٹرکٹ
ذمہ دار عبد الرؤف عطاری نے دعائے شفاء اجتماع میں سنتوں بھرا بیان کیا اور حاضرین کو ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں آنے اور مدنی مذاکرہ دیکھنے کی دعوت دی نیز
شرکائے اجتماع کو 12 دینی کاموں میں حصہ لینے کا ذہن دیا ۔آخر میں مریضوں کو دم کیا گیا ، تعویذاتِ
عطاریہ دیئے گئے اور استخارے بھی کئے گئے نیز امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہم العالیہ کا دم کیا
ہوا پانی بھی دیا گیا ۔ اس مقام پر روحانی علاج کے بستے کا آغاز بھی کردیا گیا۔(رپورٹ: سمیر علی عطاری آفس ذمہ
دار ، کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)
12
اگست 2022 ء کو شعبہ مدنی کورسز کے تحت جلیل چیمبر شاہ عالم مارکیٹ لاہور
میٹرو پولیٹن میں 7 دن کے جز وقتی فیضان
نماز کورس کے اختتام پر تقسیم اسناد اجتماع ہوا جس میں کورس کے شرکا سمیت تاجر اسلامی بھائیوں اور شخصیات نے شرکت کی۔
مبلغ
دعوت اسلامی نے ’’ نماز کے طبی
فوائد ‘‘ کے موضوع پر سنتوں بھرا بیان کیا اور شرکا کی دینی و اخلاقی
اعتبار سے تربیت کی۔ اجتماع کے اختتام پر
کورس کرنے والے تاجر اسلامی بھائیوں میں اسناد تقسیم کی۔ (رپورٹ: محمد ابو بکر عطاری مدنی لاہور ڈویژن
آفس ذمہ دار ، کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)
محمد اشفاق عطّاری(درجہ رابعہ،جامعہ المدینہ فیضان
عطّار نیپال گنج، نیپال)
تکبر بہت ہی بری چیز ہے۔ اور ایسے شخص کو اللہ رب العزت
پسند نہیں فرماتا ہے۔تکبر اپنے آپ کو بڑا اور دوسرے کو اپنے سے حقیر جاننا ہے۔ اَلْکِبْرُ
بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِتکبر حق کی
مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ اور یہ ایک ایسی بیماری ہے۔ جو لوگوں
کو مال و دولت ،خوبصورتی، زیادہ طاقتور ہونے، زیادہ علم ہونے، زیادہ نماز و روزہ
کرنے ، کی وجہ سے زیادہ آتا ہے۔ تکبر انسان کو کہی کا نہیں چھوڑتا ۔ یہی تکبر انسان کو ایمان بھی چھین لیتا ہے۔ تکبر
کی وجہ سے انسان اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا۔ تبکر و غرور کی وجہ سے انسان نبی کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت سے محروم رہتا ہے۔ جبکہ انبیاء کرام علیہم
السلام کی بارگاہ میں عاجزی اور انکساری ایمان کا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ کفار لوگوں نے
کیا ہے جب بھی کسی نبی و رسول کو اللہ تبارک و ٰ دنیا میں بھیجا ہے تو کفار لوگ
اسے انکار ہی کیا ہے اور کہا ہے کہ ہم لوگ تو اس سے زیادہ مالدار ہے یہ نہایت ہی
مفلس ہے یہ نبی کیسے ہو سکتا ہے وہ انبیائے کرام کو بھی اپنے سے کمتر سمجھا اور ہمیشہ
اپنی طرح بشر ہی کہتا رہا ہے۔ تکبر و غرور
کی وجہ سے مسلمانوں کی تمام تر عبادت و ریاضت سب برباد ہو جاتا ہے ۔ آپ نے سونا
ہوگا ابلیس کتنے بڑے عابد و زاہد تھا لیکن حضرت آدم علیہ السّلام کو اپنے سے حقیر
جانا۔ اور اللہ کا فرمان ماننے سے انکار کر دیا ۔ جس کی وجہ سے اللہ نے اسے مردود کر کے جنّت سے باہر کر دیا۔ اور اس کے تمام عمال
برباد ہو گیا۔
یہ بھی یاد رہے کہ جس طرح بہت سے اسباب ایسے ہیں جن سے بندے کو اللہ پاک کی رحمت و مغفرت حاصل
ہو تی ہے اسی طرح بہت سے اسباب ایسے بھی ہیں جن سے بندہ اللہ پاک کے شدید اور دردناک عذاب میں مبتلا ہو جاتا ہے ،ان میں سے ایک سبب تکبر بھی
ہے جس کی وجہ سے انسان اللہ کی رحمت سے محروم اور عذاب میں مبتلا ہو جائے
گا۔چنانچہ اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے : اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ
الْمُسْتَكْبِرِیْنَ(۲۳) ترجمہ کنزالایمان: بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔(پ14،النحل:23) تفسیر صراط الجنان میں ہے : یعنی حقیقت یہ ہے کہ اللہ پاک ان کے دلوں کے انکار اور ان کے غرور
و تکبر کو جانتا ہے، بے شک اللہ پاک مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔ (روح البیان، النحل، تحت الآیۃ: 23، 5 / 24)
تکبر کی تعریف: یاد رہے کہ تکبر کرنے والا مومن ہو یا کافر، اللہ پاک اسے
پسند نہیں فرماتا اور تکبر سے متعلق حضرت
عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا :تکبر حق بات کو جھٹلانے اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان،
باب تحریم الکبر وبیانہ، ص60، حدیث: 147(
تکبر کرنے والوں کا انجام:قرآن و حدیث میں تکبر
کرنے والوں کا بہت برا انجام بیان کیا گیا
ہے ،چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیَ الَّذِیْنَ یَتَكَبَّرُوْنَ فِی
الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّؕ ترجمعہ ٔ کنزالایمان :اور میں اپنی آیتوں سے
انہیں پھیر دوں گا جو زمین میں ناحق اپنی بڑائی چاہتے ہیں ۔(پ9 ، الاعراف: 146) اور ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ
سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ۠(۶۰)ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک وہ
جو میری عبادت سے اونچے کھنچتے(تکبر کرتے) ہیں عنقریب جہنم میں جائیں گے ذلیل ہوکر
۔(پ24، المؤمن:60)
اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہُ عنہمَا سے روایت ہے ،
رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : تکبر کرنے والے لوگ قیامت
کے دن مردوں کی صورت میں چیونٹیوں کی طرح
جمع کیے جائیں گے اور ہر جگہ سے ان پر ذلت
چھا جائے گی ،پھر انہیں جہنم کے بُوْلَس نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور
بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غالب آجائے گی، انہیں طِیْنَۃُ
الْخَبال یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی ( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ،
4/221، حدیث: 2500)
حضرت ابو ہر یرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :قیامت کے دن تکبر کرنے والوں کو چیونٹیوں کی شکل میں اٹھایا جائے گا اور لوگ
ان کوروندیں گے کیوں کہ اللہ پاک کے ہاں ان کی کوئی قدر نہیں ہوگی۔ (رسائل ابن ابی دنیا، التواضع والخمول، 2/ 578، حدیث: 224)
حضرت محمد بن واسع رحمۃُ
اللہِ علیہ فرماتے ہیں :میں حضرت بلال بن ابو بردہ رضی اللہُ عنہ کے پاس گیا
اور ان سے کہا :اے بلال ! آپ کے والد نے مجھ سے ایک حدیث بیان کی ہے وہ اپنے والد
(حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہُ عنہ) سے اور وہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :
بے شک جہنم میں ایک وادی ہے جسے ہبہب کہتے
ہیں ، اللہ پاک کا فیصلہ ہے کہ وہ اس میں تمام تکبر کرنے والوں کو ٹھہرائے گا۔ اے بلال! تم اس میں ٹھہرنے والوں میں سے نہ ہونا۔ (مسند ابو یعلی،
حدیث ابی موسی الاشعری، 6 / 207، حدیث: 7213)
تکبر کی بہت بڑی قباحت یہ ہے کہ آدمی جب تکبر کا شکار ہوتا
ہے تو نصیحت قبول کرنا اس کیلئے مشکل ہوجاتا ہے ،چنانچہ قرآنِ پاک میں ایک جگہ
منافق کے بارے میں فرمایا گیا: وَ اِذَا قِیْلَ لَهُ اتَّقِ اللّٰهَ اَخَذَتْهُ
الْعِزَّةُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُهٗ جَهَنَّمُؕ-وَ لَبِئْسَ الْمِهَادُ(۲۰۶) ترجمۂ کنزالعرفان: اور جب اس سے کہا جائے کہ اللہ سے
ڈرو تو اسے ضد مزید گناہ پر ابھارتی ہے توایسے کو جہنم کافی ہے اور وہ ضرور بہت
برا ٹھکاناہے۔(پ2،البقرۃ:206)
امام محمد غزالی رحمۃُ
اللہِ علیہ فرماتے ہیں : تکبر کی تین قسمیں ہیں: (1)وہ تکبر جو اللہ پاک کے مقابلے میں ہو جیسے ابلیس، نمرود
اور فرعون کا تکبر یا ایسے لوگوں کا تکبر جو خدائی کا دعویٰ کرتے ہیں اور اللہ پاک
کے بندوں سے نفرت کے طور پر منہ پھیرتے ہیں۔(2)وہ تکبر جو اللہ پاک کے رسول کے مقابلے میں ہو ،جس طرح
کفارِ مکہ نے کیا اور کہا کہ ہم آپ جیسے بشر کی اطاعت نہیں کریں گے ،ہماری ہدایت
کے لئے اللہ پاک نے کوئی فرشتہ یا سردار کیوں نہیں بھیجا، آپ تو ایک یتیم شخص ہیں۔(3)وہ تکبر جو آدمی عام انسانوں
پر کرے، جیسے انہیں حقارت سے دیکھے ،حق کو نہ مانے اور خود کو بہتر اور بڑا جانے۔
(کیمیائے سعادت، رکن سوم: مہلکات، اصل نہم، پیدا کردن درجات کبر، 2 / 707)
تکبر کی تینوں اقسام
کا حکم: اللہ پاک اور اس کے رسول کی جناب میں تکبر کرنا کفر ہے جبکہ
عام بندوں پر تکبر کرنا کفر نہیں لیکن اس کا گناہ بھی بہت بڑا ہے۔
تکبر کا ثمرہ اور
انجام:اس آیت میں نا حق تکبر کا ثمرہ اور تکبر کرنے والوں کا جو
انجام بیان ہوا کہ ناحق تکبر کرنے والے اگر ساری نشانیاں دیکھ لیں تو بھی وہ ایمان
نہیں لاتے اور اگر وہ ہدایت کی راہ دیکھ لیں تو وہ اسے اپنا راستہ نہیں بناتے اور
اگر گمراہی کا راستہ دیکھ لیں تو اسے اپنا راستہ بنا لیتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ
غرور وہ آگ ہے جو دل کی تمام قابلیتوں کو جلا کر برباد کر دیتی ہے خصوصاً جبکہ
اللہ پاک کے مقبولوں کے مقابلے میں تکبر ہو۔ اللہ پاک کی پناہ۔ قرآن و حدیث سے ہر
کوئی ہدایت نہیں لے سکتا، اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یُضِلُّ بِهٖ
كَثِیْرًاۙ-وَّ یَهْدِیْ بِهٖ كَثِیْرًاؕ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اللہ بہت سے لوگوں کو اس کے ذریعے گمراہ کرتا ہے اور بہت سے لوگوں
کو ہدایت عطا فرماتا ہے۔(پ1،البقرۃ:26)
اللہ پاک سے تکبر کرنا۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ
یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ۠(۶۰)ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک وہ جو میری عبادت سے اونچے
کھنچتے(تکبر کرتے) ہیں عنقریب جہنم میں جائیں گے ذلیل ہوکر ۔(پ24، المؤمن:60)
اترا کر چلنے والے کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تُصَعِّرْ
خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا
یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍۚ(۱۸) ترجمۂ کنز الایمان: اور کسی
سے بات کرنے میں اپنا رخسارہ کج نہ کر اور زمین میں اِتراتا نہ چل بےشک اللہ کو
نہیں بھاتا کوئی اِتراتا فخر کرتا(پ21،لقمٰن:18)
آیت میں اکڑ کر
چلنے سے منع فرمایا گیا ،اس مناسبت سے یہاں اکڑ کر چلنے کی مذمت پر مشتمل دو اَحادیث ملاحظہ ہوں :
(1) حضرت عبد اللہ
بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت
ہے،حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو آدمی اپنے آپ
کو بڑا سمجھتا ہے اور اکڑکر چلتا ہے،وہ اللہ پاک سے اس طرح ملاقات کرے گا کہ وہ اس
پر ناراض ہو گا۔( مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہما،
2 / 461، حدیث: 6002) (2)حضرت عبد اللہ بن عمر رضی
اللہُ عنہما سے روایت ہے،حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا:جب میری امت اکڑ کر چلنے لگے گی اور ایران و روم کے بادشاہوں کے بیٹے ان کی خدمت کرنے لگیں گے تو اس وقت شریر لوگ اچھے لوگوں پر مُسَلَّط کر دئیے جائیں گے۔( ترمذی، کتاب الفتن، 4 / 115، حدیث: 2268)
اسی آیت سے معلوم ہو اکہ مال و دولت کی کثرت فخر ،غرور اور
تکبر میں مبتلا ہونے کاایک سبب ہے۔امام
محمد غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ تکبر کے
اسباب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : تکبر کا پانچواں سبب مال ہے اور یہ بادشاہوں کے درمیان ان کے خزانوں اور تاجروں کے درمیان ان کے سامان کے سلسلے میں ہوتا ہے، اسی طرح دیہاتیوں میں زمین اور آرائش والوں میں لباس اور سواری میں ہوتا ہے۔
مالدار آدمی، فقیر کو حقیر سمجھتا اور اس پر تکبر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تو مسکین
اور فقیر ہے، اگر میں چاہوں تو تیرے جیسے لوگو ں کو خریدلوں ، میں تو تم سے اچھے لوگوں سے خدمت لیتا ہوں ، تو کون ہے؟ اور تیرے ساتھ کیا
ہے؟ میرے گھر کا سامان تیرے تمام مال سے بڑھ کر ہے اور میں تو ایک دن میں اتنا خرچ کردیتا ہوں جتنا تو سال
بھر میں نہیں کھاتا۔
وہ
یہ تمام باتیں اس لیے کرتا ہے کہ مالدارہونے
کی وجہ سے اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے جب کہ اس شخص کو فقر کی وجہ سے حقیر جانتا ہے
اور یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کہ وہ فقر کی فضیلت اور مالداری کے فتنے سے بے خبر
ہوتا ہے۔ الله تعالیٰ نے اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:فَقَالَ لِصَاحِبِهٖ وَ هُوَ یُحَاوِرُهٗۤ
اَنَا اَكْثَرُ مِنْكَ مَالًا وَّ اَعَزُّ نَفَرًا ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو اس نے اپنے ساتھی
سے کہا اور وہ اس سے فخر و غرور کی
باتیں کرتا رہتا تھا۔ (اس سے کہا) میں تجھ سے
زیادہ مالدار ہوں اور افراد کے اعتبار سے
زیادہ طاقتور ہوں ۔(پ15،الکھف:34)
حتّٰی
کہ دوسرے نے جواب دیا:اِنْ
تَرَنِ اَنَا اَقَلَّ مِنْكَ مَالًا وَّ وَلَدًاۚ(۳۹)فَعَسٰى
رَبِّیْۤ اَنْ یُّؤْتِیَنِ خَیْرًا مِّنْ جنّتكَ وَ یُرْسِلَ عَلَیْهَا حُسْبَانًا
مِّنَ السَّمَآءِ فَتُصْبِحَ صَعِیْدًا زَلَقًاۙ(۴۰)اَوْ
یُصْبِحَ مَآؤُهَا غَوْرًا فَلَنْ تَسْتَطِیْعَ لَهٗ طَلَبًاترجمۂ کنزُالعِرفان: اگر تو مجھے اپنے مقابلے میں مال اور اولاد میں کم دیکھ رہا ہے۔ تو قریب ہے کہ میرا
رب مجھے تیرے باغ سے بہتر عطا فرما دے اور
تیرے باغ پر آسمان سے بجلیاں گرادے تو وہ چٹیل میدان ہوکر رہ جائے۔ یا اس باغ کا
پانی زمین میں دھنس جائے پھر تو اسے ہرگز تلاش نہ کرسکے۔(پ15،الکھف:39 تا 41)
تو اس پہلے شخص کا قول مال اور اولاد
کے ذریعے تکبر کے طور پر تھا، پھر الله پاک
نے اس کے انجام کا یوں ذکر فرمایا:یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُشْرِكْ بِرَبِّیْۤ
اَحَدًا ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے کاش!میں نے اپنے رب کےساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہوتا۔(
پ15،الکھف:42) قارون کا تکبر بھی اسی انداز کا تھا۔( احیاء
علوم الدین، کتاب ذم الکبر والعجب، بیان ما بہ التکبر، 3 / 432)
تکبر کے دو علاج: تکبر کے برے انجام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتنا خطرناک باطنی مرض ہے ،اس لئے جو
اپنے اندر تکبر کا مرض پائے اسے چاہئے کہ وہ اس کا علاج کرنے کی خوب کوشش کرے
،اَحادیث میں تکبر کے جو علاج بیان کئے
گئے ان میں سے دو علاج درج ذیل ہیں ۔
(1)اپنے کام خود کرنا: چنانچہ حضرت ابو امامہ رضی اللہُ عنہ سے
روایت ہے، حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :جس نے
اپنا سامان خود اٹھایا وہ تکبر سے بری ہو گیا۔(شعب الایمان، السابع والخمسون من شعب
الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی التواضع، 6 / 292، حدیث: 8201)
(2) عاجزی اختیار کرنا اور مسکین کے ساتھ بیٹھنا: چنانچہ حضرت عبداللہ
بن عمر رضی اللہُ عنہمَاسے روایت ہے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: عاجزی اختیار کرو اور مسکینوں کے ساتھ بیٹھا کرو، اللہ پاک کی بارگاہ میں تمہارا مرتبہ بلند ہو جائے گا اور تکبر سے بھی
بری ہو جاؤ گے۔(کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، 2 / 49، حدیث: 5722، الجزء الثالث)
مال و دولت کی وجہ سے
پیدا ہونے والے تکبر کا علاج:امام محمد غزالی رحمۃُ
اللہِ علیہ فرماتے ہیں : (مال و دولت،پیرو کاروں اور مددگاروں کی کثرت کی وجہ سے تکبر کرنا) تکبر کی سب سے بری قسم ہے ،کیونکہ مال پر تکبر
کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جو اپنے گھوڑے اور مکان پر تکبر کرتا ہے اب اگر اس کا
گھوڑا مرجائے یا مکان گرجائے تو وہ ذلیل و رُسوا ہوتاہے اور جو شخص بادشاہوں کی طرف سے اختیارات پانے پر تکبر کرتاہے اپنی
کسی ذاتی صفت پر نہیں ، تو وہ اپنا معاملہ
ایسے دل پر رکھتا ہے جو ہنڈیا سے بھی زیادہ جوش مارتا ہے، اب اگر اس سلسلے میں کچھ تبدیلی آجائے تو وہ مخلوق میں سے سب سے زیادہ ذلیل ہوتا ہے اور ہر وہ شخص جو
خارجی اُمور کی وجہ سے تکبر کرتاہے اس کی جہالت ظاہر ہے کیونکہ مالداری پر تکبر
کرنے والا آدمی اگر غور کرے تو دیکھے گا کہ کئی یہودی مال و دولت اور حسن وجمال میں اس سے بڑھے ہوئے ہیں ، تو ایسے شرف پر افسوس ہے
جس میں یہودی تم سے سبقت لے جائیں اور ایسے شرف پر بھی افسوس ہے جسے چور ایک لمحے
میں لے جائیں اور اس کے بعد وہ شخص ذلیل اور مُفلِس ہوجائے۔(
احیاء علوم الدین، کتاب ذم الکبر والعجب، بیان الطریق فی معالجۃ الکبر واکتساب
التواضع لہ، 3 / 444)
اللہ پاک سب مسلمانوں کو مال و دولت کی وجہ سے پیدا ہونے والے تکبر سے بچنے کی توفیق عطا
فرمائے،اٰمین۔
تکبر اور عاجزی سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے لئے کتاب
’’احیاء العلوم (مترجم)‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ) جلد تین سے تکبر کا بیان ،اور
کتاب ’’تکبر‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کا مطالعہ بہت مفید ہے۔
اویس افضل
(درجہ خامسہ، جامعۃُ المدینہ فیضان امام غزالی فیصل آباد پاکستان)
گناہ عموماً دو طرح کے
ہوتے ہیں: ظاہری یا باطنی اور ان میں سے باطنی گناہ زیادہ ہلاک کن ہے۔ کیونکہ آدمی
عموماً ظاہری گناہ کو تو جان لیتا ہے لیکن
باطنی بیماری کو محسوس بھی نہیں کرتا لہذا ہمارے لیے ان گناہوں کی معلومات ضروری
ہے تاکہ ہم ان سے بچ سکیں۔ ویسے تو باطنی گناہ بہت سے ہیں مگر ان میں سے تکبر بہت ہلاک
کن ہے آئیے پہلے تکبر کو جاننے کے لیے پہلے اس کی تعریف ملاحظہ کیجیے پھر اس کی
مذمت میں احادیث کا مطالعہ کیجیے تاکہ ہم اس باطنی گناہ سے بچنے میں کامیاب ہو سکیں۔
تعریف: خود کو افضل ، دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے ۔ اللہ
پاک کے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : الکبر
بطر الحق و عمط الناس یعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے ۔(صحیح مسلم
کتاب الایمان باب تحریم الکبر و بیانہ ،حدیث 91 ،ص 61) جس کے دل میں تکبر ہو اسے
متکبر کہتے ہیں۔
(1) بد ترین شخص: حضرتِ سیِّدُنا حُذَیفہ رضی اللہُ عنہ اِرشاد فرماتے
ہیں کہ ہم دافِعِ رنج و مَلال، صاحِب ِجُودو نَوال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کے ساتھ ایک جنازے میں شریک تھے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے اِرشاد
فرمایا : کیا میں تمہیں اللہ پاک کے بدترین بندے کے بارے میں
نہ بتاؤں ؟ وہ بداَخلاق اورمتکبر ہے، کیا میں تمہیں اللہ پاک کے سب سے بہترین بندے کے
بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ کمزور اورضَعیف سمجھا جانے والا بَوسیدہ لباس پہننے والا
شخص ہے لیکن اگر وہ کسی بات پر اللہ پاک کی قسم اٹھالے تو اللہ پاک اس کی قسم ضَرور پوری
فرمائے۔(المسندللامام احمد بن حنبل، 9 / 120، حدیث: 23517)
(2) شَہَنْشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کافرمانِ عبر ت نشان ہے : اللہ پاک مُتکبرین (یعنی مغروروں )اوراِتراکرچلنے
والوں کو ناپسند فرماتا ہے ۔(کنزالعمال، کتاب الاخلاق ، قسم الاقوال،3/210، حدیث :
7727)
(3) قیامت میں
رُسوائی: سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ
عالیشان ہے : قیامت کے دن متکبرین کو
انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند ا ٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلّت طاری
ہو گی، انہیں جہنم کے ’’ بُولَس‘‘ نامی
قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لیکر ان پر غالب آجائے گی، انہیں ’’طِیْنَۃُ
الْخَبَال یعنی جہنمیوں کی پیپ ‘‘پلائی جائے گی۔(جامع الترمذی، کتاب
صفۃ القیامۃ، باب ماجاء فی شدۃ الخ، 4/221، حدیث: 2500)
(4)جنّت میں داخلہ نہ
ہو سکے گا: حضرت سیدنا عبد
اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں کہ تاجدار رسالت، شہنشاہ نبوت، مصطفےٰ
جان رحمت، شمع بزم ہدایت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا
(یعنی تھوڑا سا) بھی تکبر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہ ہوگا۔(صحیح مسلم، کتاب
الایمان، باب تحریم الکبروبیانہ،ص60، حدیث : 147) حضرت علامہ ملا علی قاری علیہ
رحمۃ اللہ الباری لکھتے ہیں : جنّت میں
داخل نہ ہونے سے مُراد یہ ہے کہ تکبر کے
ساتھ کوئی جنّت میں داخل نہ ہو گا بلکہ تکبر اور ہر بُری خصلت سے عذاب بھگتنے کے ذریعے یا اللہ پاک
کے عفو و کرم سے پاک و صاف ہو کر جنّت میں داخل ہو گا۔(مرقاۃ المفاتیح، کتاب
الآداب، باب الغضب والکبر ، 8/828، 829)
(5) خِنزیر سے بدتر: فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:جواللہ پاک کے لئے عاجِزی اختیار
کرے،اللہ پاک اس ے بُلندی عطا فرمائے گا، وہ خود کو کمزور سمجھے گا مگر لوگوں کی
نظروں میں عظیم ہوگااور جو تکبر کرے اللہ پاک اس ے ذلیل کر دے گا، وہ لوگوں کی
نظروں میں چھوٹا ہوگا مگر خُود کو بڑا سمجھتاہوگا یہاں تک کہ وہ لوگوں کے نزدیک
کُتّے اور خِنزِیر سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔(کنزالعمال کتاب الاخلاق ، قسم الاقوال،
2/50، حدیث:5734)
محمد مدثر عطّاری (درجہ رابعہ، جامعۃُ المدینہ فیضان
فاروق اعظم لاہور پاکستان)
اللہ پاک نے ہمیں پیدا فرمایا کہ ہم اس کی عبادت کریں اس کی
اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی فرمانبرداری کریں، نیکیوں کو بجا لائیں، ظاہری اور باطنی گناہوں
سے اجتناب کریں ۔جس طرح ظاہری گناہ ہوتے ہیں اسی طرح گناہ باطِنی بھی ہوتے ہیں جیسے
حسد، ریاکاری،بغض و کینہ۔ انہیں میں سے ایک تکبر بھی ہے۔ خود کو افضل ، دوسروں کو
حقیر جاننے کا نام تکبر ہے ۔(تکبر،ص16) اللہ پاک نے قراٰن مجید فرقانِ حمید کے
اندر ارشاد فرمایا: اِنَّهٗ لَا
یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ(۲۳) ترجمۂ کنزالایمان:بے شک وہ
مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔(پ14،النحل:23) حدیثوں میں بھی تکبر کی کافی مذمت بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ تکبر کی
مذمت پر پانچ احادیث گوش گزار ہیں:۔
(1) مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت صلَّی اللہ علیہ واٰلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے
:''مگر تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کی تحقیر کا نام ہے۔ (المستدرک ،کتاب الایمان،
باب اللہ جمیل و یحب الجمال،1/181،حدیث:77)
(2) مَحبوبِ رَبُّ العزت، محسنِ انسانیت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :جو شخص تکبر
سے اپنے کپڑے گھسیٹے گا اللہ پاک قیامت کے دن اس پر نظرِ رحمت نہ فرمائے گا۔(صحیح
مسلم، کتاب اللباس،باب تحریم جر الثوب خیلاء ،حدیث:5455،ص1051)
(3) حضور نبی رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ مغفرت نشان ہے :جس کے دل میں رائی کے
دانے جتنا بھی ایمان ہوگا وہ جہنم میں داخل نہ ہوگا اور جس کے دل میں رائی کے دانے
جتنا تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہ ہو گا۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان،باب تحریم
الکبروبیانہ،حدیث:266،ص694)
(4) نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ
وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''آدمی تکبر کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے جبار ین
میں لکھ دیا جاتاہے پھر اسے بھی وہی مصیبت پہنچتی ہے جو دوسرے جبارین کو پہنچی تھی۔(جامع
الترمذی،ابواب البر والصلۃ، باب ماجاء فی الکبر،حدیث: 2000، ص 1852،بدون''یتکبر'')
(5)حضور صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے
:اللہ عزوجل تکبر سے اپنا تہبند لٹکانے والے پر نظرِ رحمت نہیں فرماتا۔(صحیح
مسلم،کتاب اللباس،باب تحریم جر الثوب خیلاء ، ص 1051، حدیث:5463)
مبشر رضا عطّاری (درجہ ثانیہ ،جامعۃ المدینہ فیضان
فاروق اعظم، لاہور،پاکستان)
اللہ پاک نے ہم کو پیدا فرمایا اور ہم میں سے ہر ایک کو اس
دنیا میں اپنے اپنے حصے کی زندگی گزار کرجہانِ آخِرت کے سفر پر روانہ ہوجانا ہے
۔اس سفر کے دوران ہمیں قبروحشر اور پُلْ
صِراط کے نازُک مرحلوں سے گزرنا پڑے گا، اس کے بعد جنت یا دوزخ ٹھکانہ ہوگا ۔ کامیابی
اللہ پاک کی اطاعت ، نیکیوں کو بجا لانے اور گناہوں سے بچنے میں ہے ۔جس طرح کچھ
گناہ ظاہری ہوتے ہیں جیسے قتل اور اسی طرح کچھ گناہ باطِنی بھی ہوتے ہیں جیسے حسد،
ریاکاری۔ اسی باطنی گناہوں میں سے تکبر بھی ہے۔ خود کو افضل ، دوسروں کو حقیر
جاننے کا نام تکبر ہے ۔ اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا : الکبر بطر الحق و عمط الناس یعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے ۔(صحیح مسلم
کتاب الایمان باب تحریم الکبر و بیانہ ،حدیث 91 ،ص 61) اور تکبر کی مذمت پر قراٰن
پاک میں ارشاد ہوتا ہے : اِنَّهٗ لَا
یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ(۲۳) ترجمۂ کنزالایمان:بے شک وہ
مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔ (پ14،النحل:23) حدیثوں میں بھی تکبر کی کافی مذمت
فرمائی گئی ہے۔ اس میں سے پانچ حدیثیں گوش گذار ہیں:۔
(1)حضرت حذیفہ رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے سیّد المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا : کیا میں تمہیں اللہ پاک کے بدتریں بندے کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ بداخلاق اور متکبر ہیں۔(مسند امام احمد،9/120،حدیث:23517)
(2) حضور نبی اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند ا ٹھایا جائے گا، ہر جانب سے
ان پر ذلّت طاری ہو گی، انہیں جہنم کے ’’ بُولَس‘‘ نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لیکر ان پر غالب آ جائے
گی، انہیں ’’طِیْنَۃُ الْخَبَال یعنی
جہنمیوں کی پیپ ‘‘پلائی جائے گی۔(جامع الترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، باب ماجاء فی
شدۃ الخ، 4/221، حدیث: 2500)
(3)
تاجدارِ رسالت حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
فرمانِ عبرت نشان ہے : متکبر اور برائی چاہنے والا جنّت میں داخل نہ
ہوگا۔(سنن ابی داؤد،ص1076،حدیث:4801)
(4) حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ روایت کرتے
ہیں کہ تاجدار رسالت، شہنشاہ نبوت، مصطفےٰ جان رحمت، شمع بزم ہدایت صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس کے دل
میں رائی کے دانے جتنا (یعنی تھوڑا سا) بھی تکبر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہ
ہوگا۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبروبیانہ،ص60، حدیث : 147)
(5)امُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا سے روایت ہے کہ سرورِ عالم نورِ مجسّم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے عائشہ ! عاجزی اپناؤ کہ اللہ پاک عاجزی کرنے والوں
سے محبّت اور تکبر کرنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے۔(کنزالعمال،2/50،حدیث:5731)
اللہ پاک ہمیں عاجزی اپنانے اور تکبر جیسی مذموم وصف سے بچنے
کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم