تکبر کی تعریف: خود کو افضل ، دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر
ہے ۔ اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا : الکبر بطر الحق و عمط الناس یعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے ۔(صحیح مسلم
کتاب الایمان باب تحریم الکبر و بیانہ ،حدیث 91 ،ص 61) اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :اللہ پاک مُتکبرین (یعنی مغروروں
)اوراِتراکرچلنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے ۔(کنزالعمال، کتاب الاخلاق ، قسم
الاقوال،3/210، حدیث : 7727)
آئیے تکبر کے تعلق سے پانچ فرامینِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سنتے ہیں:۔
(1) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت
نشان ہے : قیامت کے دن متکبرین کو انسانی
شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند ا ٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلّت طاری ہو گی،
انہیں جہنم کے ’’ بُولَس‘‘ نامی قید خانے
کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لیکر ان پر غالب آ جائے گی، انہیں ’’طِیْنَۃُ
الْخَبَال یعنی جہنمیوں کی پیپ ‘‘پلائی جائے گی۔(جامع الترمذی، کتاب
صفۃ القیامۃ، باب ماجاء فی شدۃ الخ، 4/221، حدیث: 2500)
(2) اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
فرمانِ عبرت نشان ہے: جس کی یہ خوشی ہو کہ لوگ میری تعظیم کے لئے کھڑے رہیں، وہ
اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔(جامع ترمذی،4/347، حدیث: 2764)
(3) اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: موسیٰ کے زمانے میں دو آدمیوں نے باہم فخر کیا، ان میں سے ایک(جوکہ کافر
تھا)نے کہا ''میں فلاں کا بیٹا فلاں ہوں''اس طرح وہ نو پشتیں شمار کر گیا۔ اللہ
تعالیٰ نے حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ علی نبیِّنا و علیہ الصلوۃ و السلام کی طرف وحی بھیجی
کہ ''اس سے فرما دیجئے کہ وہ نو کی نو پشتیں(کفر کی وجہ سے)جہنّم میں جائیں گی اور
تم ان کے ساتھ دسویں ہو گے۔'' (المعجم
الکبیر،20/140،حدیث:285 ،ملخصًا)
(4) اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
فرمانِ عبرت نشان ہے: اللہ پاک مُتکبرین (یعنی مغروروں )اوراِتراکرچلنے
والوں کو ناپسند فرماتا ہے ۔(کنزالعمال، کتاب الاخلاق ، قسم الاقوال،3 /210، حدیث
: 7727)
(5)آقائے کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند لٹکائے گا اللہ پاک قیامت کے دن اس پر نظر
رحمت نہیں فرمائے گا ۔(تکبر،ص24)
نوٹ: مزید معلومات کے لئے مکتبۃ المدینہ کا رسالہ
"تکبر" کا مطالعہ بےحد مفید ہے۔
غلام نبی عطّاری (درجہ سابعہ،جامعۃ المدینہ آفندی
ٹاؤن حیدرآباد، پاکستان)
تکبر ایسی ہلاکت خیز باطنی بیماری ہے کہ اپنے ساتھ دیگر کئی
بُرائیوں کو لاتی ہے اور اچھائیوں سے محروم کردیتی ہے ، چُنانچِہ امام محمد بن
محمد غزالی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں : متکبر شخص جو کچھ اپنے لئے پسند
کرتا ہے اپنے مسلمان بھائی کے لئے پسند نہیں کرسکتا ، ایسا شخص عاجزی پر بھی قادر
نہیں ہوتا جو تقویٰ و پرہیزگاری کی جَڑ ہے ، کینہ بھی نہیں چھوڑ سکتا ، اپنی عزت
بچانے کے لئے جھوٹ بولتا ہے ، اس جھوٹی عزت کی وجہ سے غصہ نہیں چھوڑ سکتا ، حسد سے
نہیں بچ سکتا ، کسی کی خیرخواہی نہیں کرسکتا ، دوسروں کی نصیحت قبول کرنے سے محروم
رہتا ہے ، لوگوں کی غیبت میں مبتلا ہوجاتا ہے الغرض متکبر آدمی اپنا بھرم رکھنے کے
لئے ہر بُرائی کرنے پر مجبور اور ہر اچھے کام کو کرنے سے عاجز ہوجاتا ہے۔ (احیاء
العلوم ، 3 / 423 ملخصاً)
تکبر کی ابتدا:سب سے پہلے تکبر شیطان نے کیا۔ اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام
کی پیدائش کے بعد تمام فرشتوں اور اِبلیس (شیطان)کوحکم دیا کہ اِن کو سجدہ کریں
تو تمام فرشتوں نے حکمِ خداوندی کی تعمیل میں سجدہ کیا۔مگر اِبلیس نے انکار کردیا۔
جب اس کے اِنکار کا سبب دریافت فرمایا تو
اَکڑ کر کہنے لگا : قَالَ
اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُؕ-خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ(۷۶) ترجمہ کنزالایمان: میں اِس سے بہتر ہوں کہ تُو نے مجھے آگ
سے بنایا اور اسے مٹی سے پیدا کیا ۔(پ23 ،سورہ صٓ:76) اِس سے اِبلیس کی فاسِد مُراد یہ تھی کہ اگر حضرتِ سیِّدُنا
آدم علیہ السّلام آگ سے پیدا کئے جاتے اور میرے برابر بھی ہوتے جب بھی میں انہیں
سجدہ نہ کرتا چہ جائیکہ ان سے بہتر ہوکر اِن کو سجدہ کروں (معاذ اللہ عزوجل)۔ اِبلیس
کی اِس سرکشی، نافرمانی اور تکبر پر اس کی
حسین صورت ختم ہوگئی اور وہ بدشکل رُوسیاہ ہوگیا ،اس کی نُورانیت سَلْب کر لی گئی ۔(تفسیر خزائن
العرفان،ص824ملخصاً)
اللہ ربُّ العزت نے اِبلیس کو اپنی بارگاہ سے دُھتکارتے ہوئے اِرشاد فرمایا : قَالَ فَاخْرُ جْ
مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِیْمٌۚۖ(۷۷) وَّ اِنَّ عَلَیْكَ لَعْنَتِیْۤ اِلٰى یَوْمِ الدِّیْنِ(۷۸) ترجمۂ کنزالایمان : فرمایا تو جنّت سے نکل جا کہ تو راندھا(لعنت کیا) گیا اور بےشک تجھ پر میری
لعنت ہے قیامت تک ۔(پ23 ، صٓ : 77، 78)
تکبر واقعی بہت بری صفت ہے جو بند کو کہی کا نہیں چھوڑتی۔
تکبر کی تعریف: خود کو افضل ، دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر
ہے ۔ چنانچہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : الکبر
بطر الحق و عمط الناس یعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے ۔(صحیح مسلم
کتاب الایمان باب تحریم الکبر و بیانہ ،حدیث 91 ،ص 61)
اب آئیے موضوع کی
مناسبت سے تکبر کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ٰ پڑھتے
ہیں:۔
(1) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :ایک شخص
اپنی چادر اوڑھے اکڑ کے چل رہا تھا اور اسے اپنا آپ بڑا پسند آیا اللہ پاک نے اسے
زمین میں دھنسا دیا اور وہ قیامت تک دھنستا رہے گا۔( 2… مسلم، کتاب
اللباس، باب جرالثوب خیلا ...الخ ، ص 1155، حدیث :2085)
(2) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک دن اپنا لُعابِ
دَہَن اپنی مبارک ہتھیلی پر ڈالا پھر اس پر اپنی انگلی رکھ کر ارشاد فرمایا کہ
اللہ پاک ارشاد فرماتاہے:اے ابْنِ آدم! کیا تو مجھے عاجز کرے گا؟ حالانکہ میں نے
تجھے اس جیسی چیز (یعنی نطفے)سے پیدا فرمایا ہے، جب میں نے تجھے تندرست پیدا کیا
تو تُو دو چادروں میں(اکڑ کر)زمین کو روندھتے ہوئے چلنے لگا، تونے مال جمع کیا اور
خَرْچ کرنے سے باز رہا پھر جب رُوح حلق تک پہنچی تو کہنے لگا:میں صدقہ کرتا ہوں۔ صدقہ دینے کا یہ کون سا وقت ہے؟ (سنن
ابن ماجہ، کتاب الوصایا، باب النھی عن الامساک...الخ ،3/ 307، حدیث :2707)
(3)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : بے شک قیامت
کے دن تم میں سے میرے سب سے نزدیک اور پسندیدہ شخص وہ ہو گا جو تم میں سے اَخلاق میں
سب سے زیادہ اچھا ہو گا اور قیامت کے دن میرے نزدیک سب سے قابلِ نفرت اور میری
مجلس سے دُور وہ لوگ ہوں گے جو واہیات بکنے والے ، لوگوں کا مذاق اُڑانے والے اور مُتَفَیْہِق ہیں ۔
صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی : یا
رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! بے ہودہ بکواس بکنے والوں اورلوگوں کا مذاق اُڑانے
والوں کو تو ہم نے جان لیا مگر یہ مُتَفَیْہِق کون ہیں ؟ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا
: اِس سے مراد ہر تکبر کرنے والا شخص ہے۔(جامع الترمذی، ابواب البر
والصلۃ ،3/410، حدیث : 2025)
نہ اُٹھ سکے گا قیامت تلک خدا عزوجل کی قسم
کہ جس کو تُو نے نظر سے گرا کے چھوڑ دیا
(4) حضرت سیدنا عبد
اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں کہ تاجدار رسالت، شہنشاہ نبوت، مصطفےٰ
جان رحمت، شمع بزم ہدایت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا
(یعنی تھوڑا سا) بھی تکبر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہ ہوگا۔(صحیح مسلم، کتاب
الایمان، باب تحریم الکبروبیانہ،ص60، حدیث : 147) حضرت علامہ ملا علی قاری علیہ
رحمۃ اللہ الباری لکھتے ہیں : جنّت میں
داخل نہ ہونے سے مُراد یہ ہے کہ تکبر کے
ساتھ کوئی جنّت میں داخل نہ ہو گا بلکہ تکبر اور ہر بُری خصلت سے عذاب بھگتنے کے ذریعے یا اللہ پاک
کے عفو و کرم سے پاک و صاف ہو کر جنّت میں داخل ہو گا۔(مرقاۃ المفاتیح، کتاب
الآداب، باب الغضب والکبر ، 8/828، 829)
(5) حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان
ہے : جو اللہ عزوجل کے لئے عاجزی اختیار کرے اللہ عزوجل اسے بلندی عطا فرمائے گا،
پس وہ خود کو کمزور سمجھے گا مگر لوگوں کی نظروں میں عظیم ہو گا اور جو تکبرکرے
اللہ عزوجل اسے ذلیل کر دے گا، پس وہ لوگوں کی نظروں میں چھوٹا ہو گامگرخودکو بڑا
سمجھتاہو گا یہاں تک کہ وہ لوگوں کے نزدیک کتے اور خنزیر سے بھی بدتر ہو
جاتاہے۔(کنزالعمال، کتاب الاخلاق ، قسم الاقوال، 3/50،حدیث:5734)
غرور و تکبر نے نہ کسی کو شائستگی بخشی ہے اور نہ کسی کو
عظمت و سربلندی کی چوٹی پر پہنچایا ہے، ہاں ! ذلّت کی پستیوں میں ضرور گرایا ہے۔
حضرت سیدنا حسن
رضی اللہ عنہ نے ایک امیر کو متکبرا نہ چال چلتے ہوئے دیکھا تو اس سے فرمایا کہ اے
احمق!تکبر سے اِتراتے ہوئے ناک چڑھا کر کہا ں دیکھ رہا ہے ؟ کیا ان نعمتوں کو دیکھ
رہا ہے جن کا شکر ادا نہیں کیا گیا یاان نعمتوں کو دیکھ رہا ہے کہ جن کا تذکرہ
اللہ پاک کے احکام میں نہیں۔ جب اس نے یہ بات سنی تو عذر پیش کرنے حاضر ہوا تو آپ
رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا :مجھ سے معذرت نہ کربلکہ اللہ پاک کی بارگاہ میں
توبہ کر کیا تم نے اللہ عزوجل کا یہ فرمان نہیں سنا:﴿وَ لَا تَمْشِ فِی
الْاَرْضِ مَرَحًاۚ-اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ
طُوْلًا(۳۷)﴾ترجمۂ کنز الایمان: اور زمین میں اتراتا نہ چل بے شک ہرگز
زمین نہ چیر ڈالے گا اور ہر گز بلندی میں پہاڑوں کو نہ پہنچے گا۔(پ15، بنی اسرائیل:37)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں تکبر و غرور سے بچائے
اور عاجزی و انکساری نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی
الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
شناور غنی عطّاری (درجہ رابعہ، جامعۃُ المدینہ، فیضان
امام غزالی،فیصل آباد، پاکستان)
جہنم میں لے جانے والے گناہوں میں سے ایک تکبر بھی ہے جس کا عِلم سیکھنا فرض ہے چنانچہ اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد
رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فتاویٰ رضویہ جلد 23 صفحہ 624 پر لکھتے ہیں : مُحَرَّمَاتِ باطِنِیَّہ(یعنی باطنی ممنوعات) مَثَلاً تکبر و
رِیا وعُجب وحَسَد وغیرہا اور اُن کے مُعَالَجَات(یعنی عِلاج) کہ ان کا عِلم (یعنی
جاننا)بھی ہر مسلمان پر اہم فرائض سے ہے ۔(فتاوٰی رضویہ مخرجہ، 23/624)
آیئے سب سے پہلے تکبر کی تعریف جانتے ہیں کہ تکبر کسے کہتے
ہیں؟
تکبر کی تعریف: خود کو افضل ، دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے ۔ اللہ
پاک کے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : الکبر
بطر الحق و عمط الناس یعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے ۔(صحیح مسلم
کتاب الایمان باب تحریم الکبر و بیانہ ،حدیث 91 ،ص 61)
اِمام راغب اِصفہانی علیہ رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ذٰلِکَ اَن یَّرَی الْاِنْسَانُ
نَفْسَہ، اَکْبَرَ مِنْ غَیْرِہِ یعنی تکبر یہ ہے
کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے۔(المُفرَدات للرّاغب ص697) جس کے دل میں تکبر پایا جائے اس ے ''مُتَکَبِّر ''کہتے ہیں۔
(1) شہنشاہ خوش خصال،
پیکر حسن و جمال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے : اللہ پاک
متکبرین (یعنی مغروروں) اور اترا کر چلنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے ۔(کنزالعمال،
کتاب الاخلاق ، قسم الاقوال،3/210، حدیث : 7727)
(2) بد ترین شخص: حضرت حُذَیفہ رضی
اللہُ عنہ اِرشاد فرماتے ہیں کہ ہم
دافِعِ رنج و مَلال، صاحِب ِجُودو نَوال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ ایک
جنازے میں شریک تھے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا : کیا میں تمہیں اللہ پاک کے بدترین بندے کے بارے میں
نہ بتاؤں ؟ وہ بداَخلاق اورمتکبر ہے، کیا میں تمہیں اللہ پاک کے سب سے بہترین بندے کے
بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ کمزور اورضَعیف سمجھا جانے والا بَوسیدہ لباس پہننے والا
شخص ہے لیکن اگر وہ کسی بات پر اللہ پاک کی قسم اٹھالے تو اللہ پاک اس کی قسم ضَرور پوری
فرمائے۔(المسندللامام احمد بن حنبل، 9 / 120، حدیث: 23517)
(3) قیامت میں
رُسوائی: دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند ا ٹھایا جائے
گا، ہر جانب سے ان پر ذلّت طاری ہو گی، انہیں جہنم کے ’’ بُولَس‘‘ نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا
اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لیکر
ان پر غالب آ جائے گی، انہیں ’’طِیْنَۃُ الْخَبَال یعنی جہنمیوں کی پیپ ‘‘پلائی جائے گی۔(جامع الترمذی، کتاب
صفۃ القیامۃ، باب ماجاء فی شدۃ الخ، 4/221، حدیث: 2500)
(4)خنزیر سے بدتر: نبیِ مُکَرَّم، نُورِ مُجسَّم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا فرمانِ مُعَظّم ہے : جو اللہ پاک کے لئے عاجِزی اختیار کرے،اللہ پاک اس ے
بُلندی عطا فرمائے گا، وہ خود کو کمزور سمجھے گا مگر لوگوں کی نظروں میں عظیم
ہوگااور جو تکبر کرے اللہ پاک اس ے ذلیل کر دے گا، وہ لوگوں کی نظروں میں چھوٹا
ہوگا مگر خُود کو بڑا سمجھتاہوگا یہاں تک کہ وہ لوگوں کے نزدیک کُتّے اور خِنزِیر
سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔ (کنزالعمال کتاب
الاخلاق ، قسم الاقوال، ج ٣، ص٥٠، الحدیث ٥٧٣٤)
(5)جنّت میں داخل نہ
ہو سکے گا: حضرت سیدنا عبد
اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں کہ تاجدار رسالت، شہنشاہ نبوت، مصطفےٰ
جان رحمت، شمع بزم ہدایت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا
(یعنی تھوڑا سا) بھی تکبر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہ ہوگا۔(صحیح مسلم، کتاب
الایمان، باب تحریم الکبروبیانہ،ص60، حدیث : 147) حضرت علامہ ملا علی قاری علیہ
رحمۃ اللہ الباری لکھتے ہیں : جنّت میں
داخل نہ ہونے سے مُراد یہ ہے کہ تکبر کے
ساتھ کوئی جنّت میں داخل نہ ہو گا بلکہ تکبر اور ہر بُری خصلت سے عذاب بھگتنے کے ذریعے یا اللہ پاک
کے عفو و کرم سے پاک و صاف ہو کر جنّت میں داخل ہو گا۔(مرقاۃ المفاتیح، کتاب
الآداب، باب الغضب والکبر ، 8/828، 829)
تکبر کی تعریف: خود کو افضل ، دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے ۔
وضاحت: اِمام راغب اِصفہانی علیہ رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں
: ذٰلِکَ اَن یَّرَی الْاِنْسَانُ نَفْسَہ، اَکْبَرَ مِنْ
غَیْرِہِ یعنی تکبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے۔(المُفرَدات
للرّاغب ص697) جس کے دل میں تکبر پایا جائے اس ے ''مُتَکَبِّر ''کہتے ہیں۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات)
(1) متکبرین کے لئےقیامت
میں رُسوائی: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے
: قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں
میں چیونٹیوں کی مانند ا ٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلّت طاری ہو گی، انہیں
جہنم کے ’’ بُولَس‘‘ نامی قید خانے کی طرف
ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی
لپیٹ میں لیکر ان پر غالب آ جائے گی، انہیں ’’طِیْنَۃُ
الْخَبَال یعنی جہنمیوں کی پیپ ‘‘پلائی جائے گی۔(جامع الترمذی، کتاب
صفۃ القیامۃ، باب ماجاء فی شدۃ الخ، 4/221، حدیث: 2500)
(2)اللہ کا ناپسندیدہ
بندہ: اللہ پاک متکبرین(یعنی تکبر کرنے والے)اور اترا کر چلنے والوں کو ناپسند
فرماتاہے۔(کنزالعمال،3/210،حدیث:7727)
(3) مدنی آقا صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا متکبر کے لئے اظہارِ نفرت: سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : بے شک قیامت کے دن
تم میں سے میرے سب سے نزدیک اور پسندیدہ شخص وہ ہو گا جو تم میں سے اَخلاق میں سب
سے زیادہ اچھا ہو گا اور قیامت کے دن میرے نزدیک سب سے قابلِ نفرت اور میری مجلس
سے دُوروہ لوگ ہوں گے جو واہیات بکنے والے ، لوگوں کا مذاق اُڑانے والے اور مُتَفَیْہِق ہیں ۔
صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی : یا
رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! بے ہودہ بکواس بکنے والوں اورلوگوں کا مذاق اُڑانے
والوں کو تو ہم نے جان لیا مگر یہ مُتَفَیْہِق کون ہیں ؟ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا
: اِس سے مراد ہر تکبر کرنے والا شخص ہے۔(جامع الترمذی، ابواب البر
والصلۃ ،3/410، حدیث : 2025)
(4) بد ترین شخص: حضرتِ سیِّدُنا حُذَیفہ رضی اللہُ عنہ اِرشاد فرماتے
ہیں کہ ہم سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ ایک جنازے میں شریک
تھے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا : کیا میں تمہیں اللہ پاک کے بدترین بندے کے بارے میں
نہ بتاؤں ؟ وہ بداَخلاق اورمتکبر ہے، کیا میں تمہیں اللہ پاک کے سب سے بہترین بندے کے
بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ کمزور اورضَعیف سمجھا جانے والا بَوسیدہ لباس پہننے والا
شخص ہے لیکن اگر وہ کسی بات پر اللہ پاک کی قسم اٹھالے تو اللہ پاک اس کی قسم ضَرور پوری
فرمائے۔(المسندللامام احمد بن حنبل، 9 / 120، حدیث: 23517)
(5)اللہ کی نظرِ رحمت
سے محرومی: سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا: جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبندلٹکائے گا اللہ پاک
قِیامت کے دن اس پر نظرِ رحمت نہ فرمائے
گا۔(صحیح البخاری،کتاب اللباس،باب من جرثوبہ، من الخیلاء، 4/46،حدیث: 5788)
اللہ کریم ہمیں تکبر سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی
الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
سید زین العابدین (درجہ دورۃالحدیث،جامعۃ المدینہ
فیضان مدینہ کراچی، پاکستان)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہم سے ہر ایک کو اس دنیا میں اپنے اپنے حصے کی زندگی گذار
کر جہانِ آخرت کے سفر پر روانہ ہو جانا ہے۔ اس سفر کے دوران ہمیں قبر و حشر اور
پُل صراط کے نازک مرحلوں سے گزرنا پڑے گا۔ اس کے بعد جنّت یا دوزخ ٹھکانا ہوگا۔ اس
دنیا میں کی جانے والی نیکیاں دارِ آخرت
کی آبادی جبکہ گناہ بربادی کا سبب بنتے ہیں۔ جس طرح بعض نیکیاں ظاہری ہوتی ہیں
جیسے نماز اور کچھ باطنی مثلاً اخلاص۔ اسی طرح بعض گناہ بھی ظاہری ہوتے ہیں۔ جیسے قتل اور باطنی جیسے تکبر وغیرہ۔
آیئے آج ہم تکبر کے موضوع پر کچھ
فرامینِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم سنتے ہیں۔
تکبر کی تعریف: خود کو افضل ، دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے ۔
(1) صاحب مدینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا فرمان ہے : جس کے دل میں رائی
کے دانے جتنا (یعنی تھوڑا سا) بھی تکبر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہ ہوگا۔(صحیح مسلم،
کتاب الایمان، باب تحریم الکبروبیانہ،ص60، حدیث : 147)
(2) شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختارباِذنِ
پروردگارعزوجل صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :ظالم اور متکبر لوگ قیامت
کے دن چیونٹیوں کی صورت میں اٹھائے جائیں گے، لوگ انہیں اللہ عزوجل کے معاملے کو
ہلکا جاننے کی وجہ سے اپنے قدموں تلے روندتے ہوں گے۔ (تخریج احادیث الاحیاء)
(3) حضرت محمد بن واسع رضی
اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ میں بلال بن ابی بردہ کے ہاں گیا اور ان سے کہا کہ
تمہارے والد نے مجھے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی یہ حدیث سنائی تھی کہ جہنم میں ایک وادی ہے
جس کانام’’ ہَبْہَب ‘‘ہے، اللہ پاک اس وادی میں ہر متکبر کو داخل کرے گا، اے بلال!
خیال رکھنا کہیں اس وادی کے رہنے والوں میں سے نہ ہوجانا۔(تاریخ مدینہ دمشق ،10/517)
(4) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں کہ جہنم سے ایک گردن نکلے گی جس کے
دو کان، دو آنکھیں اور قوتِ گویائی رکھنے والی زبان ہوگی، وہ کہے گی کہ مجھے تین
شخصوں پر مقرر کیا گیا ہے، ہر سرکش متکبر کے لئے ،اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے والے
کے لئے اور تصویریں بنانے والے کے لئے۔(ترمذی ، کتاب صفۃ جہنم، باب ماجاء فی صفۃ
النار، 4/259، حدیث:2583)
(5) فرمانِ نبوی ہے: ہمیں سب سے زیادہ محبوب ہمارا سب سے زیادہ
مقرب قیامت میں وہ شخص ہوگا جو تم میں سے بہترین اخلاق کامالک ہے اور قیامت کے دن
ہمیں سب سے زیادہ ناپسند اور ہم سے سب سے زیادہ دور، لوگوں کا مضحکہ اڑانے والے، بیہودہ
گو اورمنہ بھر بھر کر باتیں کرنے والے ہوں گے پوچھا گیا: حضور! یہ کون ہوں گے؟ آپ
نے فرمایا: متکبر ہوں گے۔(تاریخ مدینہ دمشق، 37/397)
محمد جمیل الرحمٰن(درجہ ثالثہ، جامعۃُ
المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،
پاکستان)
جس طرح ظاہری بیماریاں ہوتی ہیں اسی طرح باطنی بیماریاں بھی
ہوتی ہے۔ جو بہت خطرناک اور ہلاک کرنے والی ہیں اور انسان کو عذاب نار تک لے جاتی
ہیں اور بہت زیادہ مذموم ہیں۔ یہ بیماریاں بھی بہت زیادہ ہیں جن میں سے ہم ایک بیماری جو باطن سے تعلق رکھتی ہے یعنی تکبر۔ اس کے بارے میں بحث
کرتے ہیں:۔
تعریف: خود کو افضل ، دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے ۔ نبی
پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : الکبر بطر
الحق و عمط الناس یعنی تکبر
حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے ۔(صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریم الکبر و بیانہ ، ص 61،حدیث 147
)
اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ
الْمُسْتَكْبِرِیْنَ(۲۳) ترجمہ کنزالایمان: بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔(پ14،النحل:23)
حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا : قیامت کے دن متکبرین کو انسانی
شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند ا ٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلّت طاری ہو گی،
انہیں جہنم کے ’’ بُولَس‘‘ نامی قید خانے
کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لیکر ان پر غالب آ جائے گی، انہیں ’’طِیْنَۃُ
الْخَبَال یعنی جہنمیوں کی پیپ ‘‘پلائی جائے گی۔(جامع الترمذی، کتاب
صفۃ القیامۃ، باب ماجاء فی شدۃ الخ، 4/221، حدیث: 2500)
آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ایک شخص اپنا پسندیدہ حلہ یعنی
لباس پہنے، کنگھاکرکے اِتراتا ہوا چل رہا تھا کہ اللہ پاک نے اسے زمین میں دھنسا دیا،
اب وہ قیامت تک زمین میں دھنستا رہے گا۔(صحیح البخاری ،کتاب اللباس، باب من جر
ثوبہ،۔۔۔۔۔۔الخ،ص 494،حدیث:5789)
حضور صلَّی اللہ علیہ
وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :تم سے پچھلی اُمتوں میں سے ایک شخص تکبر سے
اپنا تہبند گھسیٹتا ہوا چل رہا تھا کہ اسے زمین میں دھنسا دیا گیا اب وہ قیامت تک
زمین میں دھنستا ہی رہے گا۔(سنن النسائی،کتاب الزینۃ،باب التغلیط فی جرّالازار،ص
2428، حدیث:5328)
حضورِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :ایک شخص سرخ جوڑا پہنے اس
پر اِترا رہا تھا کہ اللہ عزوجل نے اسے زمین میں دھنسا دیا، اب وہ قیامت تک زمین میں
دھنستا ہی رہے گا۔(الترغیب والترہیب،کتاب الادب،الترغیب فی التواضع، 3/440،حدیث:4481)
آپ صلَّی اللہ علیہ
وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :اللہ پاک تکبر سے اپنا تہبند لٹکانے والے پر
نظرِ رحمت نہیں فرماتا۔(صحیح مسلم،کتاب اللباس،باب تحریم جر الثوب خیلاء ، ص 1051،حدیث:5463)
محبوبِ رب العزت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :جو شخص تکبر سے اپنے کپڑے
گھسیٹے گا اللہ پاک قیامت کے دن اس پر نظرِ رحمت نہ فرمائے گا۔(صحیح مسلم، کتاب
اللباس،باب تحریم جر الثوب خیلاء ،ص 1051،حدیث:5455)
تکبر کے اسباب:(1) علم (2)عبادت و ریاضت (3)مال و دولت (4)
حسب و نسب (5)عہدہ و منصب (6) کامیابی و
کامرانی وغیرہ۔ یہ تمام ایسی چیزیں ہے جن کی وجہ سے انسان تکبر کا شکار ہوتا ہے۔
اور پھر انسان ہر کام میں خود کو دوسروں سے افضل تصور کرتا ہے جو کہ بہت مذموم عمل
ہے، لہٰذا ہر کسی کو اس برے عمل سے بچنا چاہیئے
کیونکہ یہ انسان کو بہت سے نیک اعمال سے دور کر دیتا ہے۔ اللہ پاک تمام مسلمانوں
کو تکبر جیسی بری بیماری سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
جاوید عطّاری(درجہ دورہ حدیث، جامعۃُ المدینہ فیضان
مدینہ کراچی، پاکستان)
حدیث میں ہے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا : تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے ۔(صحیح مسلم
کتاب الایمان باب تحریم الکبر و بیانہ ،حدیث 91 ،ص 61) اور مزید تکبر کی بہت بڑی قباحت یہ ہے کہ آدمی جب تکبر
کا شکار ہوتا ہے ، تو نصیحت قبول کرنا اس کے لئے مشکل ہو جاتا ہے۔
گناہوں سے مجھ کو بچا یا الہٰی بُری خصلتیں بھی چُھڑا یاالہٰی
(وسائل بخشش)
تکبر نے ابلیس مردود کے دل میں حسد کی آگ بھڑکائی اور اس
کی تمام عبادت برباد کرکے رکھ دیئے۔ یاد رکھیئے اللہ پاک اور اس کے رسول کی جناب
میں تکبر کرنا کفر ہے جبکہ عام بندوں پر تکبر کرنا کفر نہیں لیکن اس کا گناہ بھی
بہت بڑا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی
اللہُ عنہ نے فرمایا :میں نے رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سنا، آپ فرماتے تھے: فخر اور تکبر اونٹ اور
گھوڑے رکھنے والوں میں اور عاجزی بکریاں رکھنے والوں میں ہے۔(صحیح مسلم)
حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں
کہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا : جس کے دل میں رائی کے
دانے جتنا (یعنی تھوڑا سا) بھی تکبر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہ ہوگا۔(صحیح مسلم،
کتاب الایمان، باب تحریم الکبروبیانہ،ص60، حدیث : 147)
آدمی اپنے نفس کے متعلق بڑائی بیان کرتا رہتا ہے، یہاں تک
کہ اسے جبّار (سرکش) لوگوں میں لکھ دیا
جاتا ہے پھر اسے بھی وہی عذاب پہنچتا ہے جو ان کو پہنچا ہے۔ (احیاء العلوم)
حضرت سیدنا عیسیٰ روح اللہ علیہ السّلام نے فرمایا: اس شخص کے لئے خوشخبری ہے جسے اللہ پاک نے
کتاب کا علم دیا اور وہ سرکش (متکبر) ہوکر نہیں مرا۔ (احیاء العلوم)
پیارے اسلامی بھائیو ! یقیناً وہ شخص بہت خوش نصیب ہے جو
عالم ہونے کے ساتھ ساتھ با عمل اور اخلاص کا پیکر ہو۔
میرا ہر عمل بس تیرے واسطے ہو
ہو اخلاص ایسا عطا یا الہٰی
(وسائل بخشش)
تکبر کی تعریف: خود کو افضل ، دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے ۔ جس
کے دل میں تکبر ہو اسے متکبر کہتے ہیں۔
انسان کی پیدائش بدبودار نُطفے(یعنی گندے قطرے)سے ہوتی ہے
انجامِ کار سڑا ہوا مُردہ ہے اور اس قدر بے بس ہے کہ اپنی بھوک ،پیاس، نیند، خوشی
،غم ،یاداشت،بیماری یا موت پر اسے کچھ اختیار نہیں ،اِس لئے اسے چاہے کہ اپنی اصلیّت
، حیثیت اور اوقات کو کبھی فراموش نہ کرے، وہ اس دنیا میں ترقّیوں کی منزلیں طے
کرتا ہوا کتنے ہی بڑے مقام ومرتبے پر کیوں نہ پہنچ جائے ، خالقِ کون و مکاں کے
سامنے اس کی حیثیت کچھ بھی نہیں ہے، صاحبِ عقل انسان تواضع اور عاجزی کا چلن اختیار
کرتا ہے اور یہی چلن اس کو دنیا میں بڑائی عطا کرتا ہے ورنہ اس دنیا میں جب بھی کسی
انسان نے فِرعونیت ، قارونیت اورنَمرودیت والی راہ پکڑی ہے بسا اوقات اللہ پاک نے
اسے دنیا ہی میں ایساذلیل وخوار کیا ہے کہ اس کا نام مقامِ تعریف میں نہیں بطورِ مذمت لیا
جاتا ہے ۔ لہٰذاعقل و فہم کا تقاضہ یہ ہے کہ اِس دنیا میں اونچی پرواز کے لئے
انسان جیتے جی پیوندِ زمین ہوجائے اور عاجزی و اِنکساری کو اپنا اوڑھنا بچھونا
بنالے پھر دیکھئے کہ اللہ ربُّ العزت اس کو کس طرح عزت وعظمت سے نوازتاہے ا ور اس ے دنیا
میں محبوبیت اور مقبولیت کا وہ اعلیٰ مقام عطا کرتا ہے جو اس کے فضل و کرم کے بغیر مل جانا ممکن ہی نہیں ہے۔
تکبر کی مذمت پر چند احادیث جائیں گی جن کا بغور
مطالعہ کرنے اور سمجھنے کی مدنی التجا ہے۔
(1)جنّت میں داخل نہ
ہوگا: حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ روایت کرتے
ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا : جس کے دل میں رائی کے
دانے جتنا (یعنی تھوڑا سا) بھی تکبر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہ ہوگا۔
(2) اللہ کلام نہ کرے
گا: حضرت ابو ہریرہ رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا
:تین شخص ہے جن سے قیامت کے دن اللہ کلام
نہیں کرے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ایک روایت میں ہے کہ نہ ان کی طرف نظر
کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (1) بوڑھا زانی (2) جھوٹا بادشاہ (3)متکبر
فقیر ۔
مفتی احمد یار خان رحمۃُ
اللہِ علیہ فرماتے ہیں: حکومت والوں، مال والوں کے پاس تکبر کے اسباب ہوتے
ہیں۔ اگر فقیر غرور کرے تو محض دلی خباثت کی وجہ سے ہی کرے گا۔ اس لئے اس کا تکبر
بدترین جرم ہے۔
(3) بڑائی اللہ کی چادر ہے : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :
بڑائی میری چادر ہے اور عظمت میرا تہبند ہے۔ جو ان دونوں میں سے ایک مجھ سے چھننا
چاہے گا میں اسے آگ میں داخل کروں گا۔
مفتی احمد یار خان رحمۃُ
اللہِ علیہ فرماتے ہیں: چادر اور تہبند فرمانا
ہم کو سمجھانے کے لئے ہے کہ جیسے ایک چادر، ایک تہ بند دو آدمی نہیں پہن سکتے یوں
ہی عظمت وکبریائی سوائے میرے دوسرے کے لئے نہیں ہو سکتی۔
(4)متکبر کتّے سے
زیادہ ذلیل: حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہُ عنہ نے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایااے لوگو! تواضع ( یعنی
عاجزی و انکساری) اختیار کرو میں نے حضور علیہ الصلاۃ والسلام کو فرماتے ہوئے سُنا
ہے کہ جو خد اکی رضا حاصل کرنے کے لیے تواضع کرتا ہے خدائے پاک اسے بلند فرماتا ہے
یہاں تک کہ وہ اپنے آپ کو چھوٹا سمجھتا ہے مگر لوگوں کی نظر میں وہ بڑا سمجھا جاتا
ہے ۔ اورجو گھمنڈ کرتا ہے اللہ پاک اسے پست کر دیتا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ لوگوں کی نظروں میں ذلیل و خوار
رہتا ہے اور اپنے تئیں اپنے آپ کو بڑا خیال کرتا ہے حالانکہ انجام کار ایک دن وہ
لوگوں کی نگاہ میں کتے اور سور سے بھی بدتر ہوجاتا ہے ۔
مفتی احمد یار خان رحمۃُ
اللہِ علیہ فرماتے ہیں: مؤمنوں کی نگاہ میں ذِلّت مردودیت کی دلیل ہے۔
(5) تکبر سخت تر مہلک
چیز : حضرت ابو ہریرہ رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے اللہ کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : تین
چیزیں ہلاک کرنے والی ہیں۔ وہ نفسانی خواہش ہے جسکی پیروی کی جائے اور وہ بخل ہے
جس کی اطاعت ہو اور انسان کو اپنے کو اچھا جاننا۔ یہ ان سب میں سخت تر ہے۔
مفتی احمد یار خان رحمۃُ
اللہِ علیہ فرماتے ہیں: (تکبر سب میں سخت تر ہے۔) کیونکہ ہر عیب سے پاک
ہونا، ہر خوبی سے موصوف ہونا اللہ کی صفت ہے، جو اپنے کو ایسا سمجھے وہ اپنے کو
خدا کا ہمسر سمجھتا ہے۔
تکبر کی علامات اور علاج کے بارے میں جاننے کے لئے
"تکبر" نامی کتاب بہت مفید رہے گی۔ اللہ ہمیں تکبر کے بارے میں جاننے
اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
احمر عارف عطّاری (درجہ خامسہ،جامعۃ المدینہ منڈی
بہاؤالدین پنجاب،پاکستان)
خود کو افضل ، دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے ۔ اللہ
پاک کے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : الکبر
بطر الحق و عمط الناس یعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے ۔(صحیح مسلم
کتاب الایمان باب تحریم الکبر و بیانہ ،حدیث 91 ،ص 61
تکبر ایک باطنی گناہ ہے۔ یہ انسان کی دنیا و آخرت کو برباد
کر دیتا ہے۔ اسی تکبر کی وجہ سے ابلیس (جو کہ ہزاروں سال عبادت کر کے معلّم
الملائکہ یعنی فرشتوں کا استاد بن گیا تھا) بھی تباہ و برباد ہو گیا اور جہنم اس
کا دائمی ٹھکانا قرار پایا۔ قراٰن و حدیث میں تکبر کی مذمت میں بہت کلام موجود ہے۔
انہیں میں سے آج ہم پانچ فرامین
ِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
سنتے ہیں۔ چنانچہ
(1) اللہ پاک کا
ناپسندیدہ بندہ: شَہَنْشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کافرمانِ عبر ت نشان ہے : اللہ پاک مُتکبرین (یعنی مغروروں )اوراِتراکرچلنے
والوں کو ناپسند فرماتا ہے ۔(کنزالعمال، کتاب الاخلاق ، قسم الاقوال،3/210، حدیث :
7727)
(2)جنّت میں داخل نہ
ہو سکے گا: تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے
ہیں: جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا ( یعنی تھوڑ اسا ) بھی تکبر ہوگا وہ جنّت میں
داخل نہ ہوگا۔ ( صحیح مسلم ، کتاب الایمان ،باب تحریم الکبر و بیانہ ، حدیث : 147
، ص 60 )
(3)
قیامت میں رُسوائی: سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
فرمانِ عالیشان ہے : قیامت کے دن متکبرین
کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند ا ٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلّت
طاری ہو گی، انہیں جہنم کے ’’ بُولَس‘‘
نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لیکر ان پر غالب آ جائے
گی، انہیں ’’طِیْنَۃُ الْخَبَال یعنی
جہنمیوں کی پیپ ‘‘پلائی جائے گی۔(جامع الترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، باب ماجاء فی
شدۃ الخ، 4/221، حدیث: 2500)
(4) لوگوں کی نظروں
میں ذلیل: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا: جو بڑائی (تکبر) کرتا ہے
اللہ اس کو پست کرتا ہے، وہ لوگوں کی نظر میں ذلیل ہے اور اپنے نفس میں بڑا ہے، وہ
لوگوں کے نزدیک کتے یا سوئر سے بھی زیادہ حقیر ہے۔( شعب الإیمان، باب
في حسن الخلق، فصل في التواضع،6/ 276حدیث:8140)
(5)اللہ کی نظرِ رحمت
سے محرومی: اللہ پاک کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہ وسلَّم نے اِرشاد
فرمایا: جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبندلٹکائے گا اللہ پاک قِیامت کے دن اس پر نظرِ رحمت نہ فرمائے گا۔(صحیح البخاری،کتاب
اللباس،باب من جرثوبہ، من الخیلاء، 4/42،حدیث: 5788)
اللہ کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں تکبر جیسی مہلک
باطنی بیماری سے بچائے اور عاجزی و انکساری کی لازوال دولت عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی
الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! جس طرح کچھ نیکیاں ظاہِری ہوتی
ہیں جیسے نماز اورکچھ باطِنی مثلاً اِخلاص۔اسی طرح بعض گناہ بھی ظاہری ہوتے ہیں
جیسے قتل اوربعض باطِنی جیسے تکبُّر۔امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں:ظاہری اعمال کا باطنی اوصاف کے ساتھ
ایک خاص تعلق ہے۔اگر باطن خراب ہو تو ظاہری اعمال بھی خراب ہوں گے اور اگر باطن حسد،
رِیا اور تکبُّر وغیرہ عیوب سے پاک ہو تو ظاہری اعمال بھی درست ہوتے ہیں۔ (منہاج
العابدین،ص13 ملخصاً)
تکبر کی تعریف:تكبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے
افضل سمجھے۔ (المفردات للراغب،ص421)تکبر کی اقسام اور احکام: (1)اللہ پاک کے
مقابلے میں تکبر۔تکبر کی یہ قسم کفر ہے۔ (2)اللہ پاک کے رسولوں کے مقابلے میں
تکبر۔تکبر کی یہ قسم بھی کفر ہے۔ (3)بندوں کے مقابلے میں تکبر۔یعنی اللہ پاک اور
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے علاوہ مخلوق میں سے کسی پر تکبر
کرنا،اس طرح کہ اپنے آپ کو بہتر اور دوسرے کو حقیر جان کر اس پر بڑائی چاہنا اور
مساوات یعنی باہم برابری کو ناپسند کرنا۔ یہ صورت اگرچہ پہلی دو صورتوں سے کم تر
ہے مگر یہ بھی حرام ہے۔ (احیاءالعلوم،3/425،424ماخوذاً)
احادیث میں بھی تکبر کی مذمت بیان کی گئی ہے، 5 احادیث آپ بھی ملاحظہ کیجئے:
(1) متکبّرین کے لئے رُسوائی: اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں
چیونٹیوں کی مانند ا ٹھایا جائے گا، ہرجانب سے ان پر ذلّت طاری ہو گی، انہیں جہنم
کے ”بُولَس“ نامی قید خانے کی طرف ہانکا
جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غالب آ جائے گی، انہیں”طِیْنَۃُ
الْخَبَال یعنی جہنمیوں کی پیپ“پلائی جائے گی۔(ترمذی، 4/ 221،حدیث:2500)
(2) تکبر اللہ کی صفت: نبیِّ اکرم نورِمجسم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: کبریائی میری چادر ہے۔
لہٰذا جو میری چادر کے معاملے میں مجھ سے جھگڑے گا میں اسے پاش پاش کر دوں
گا۔(مستدرك ،1/ 235، حدیث: 210) مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : کبر سے مراد ذاتی
بڑائی ہے۔ چادر فرمانا ہم کو سمجھانے کے لئے ہے کہ جیسے ایک چادر دو آدمی نہیں پہن
سکتے یوں ہی کبریائی سوائے میرے (یعنی
اللہ کے)دوسرے کے لئے نہیں ہو سکتی۔(مراٰة المناجیح، 6/ 659 ملتقطاً)
(3) ٹخنے سے نیچے پاجامہ لٹکانا: رحمتِ الٰہی سے محروم ہونے
والوں میں متکبر بھی شامل ہوگا،اللہ کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا: جو تَکبر کی وجہ سے اپنا
تہبندلٹکائے گا اللہ پاک قِیامت کے دن اُس پر نظرِ رحمت نہ فرمائے گا۔ (بخاری، 4/
46، حدیث: 5788) اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اِسبال(یعنی
تہبند اور پائنچے وغیرہ ٹخنوں سے نیچے رکھنا) اگربراہِ عُجب وتکبر ہے (تو) حرام
ورنہ مکروہ اور خلافِ اَولیٰ۔ (فتاوی رضویہ ،22/167 )
(4) جنت میں داخل نہ ہو سکے گا: تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا بھی (یعنی
تھوڑا سا بھی) تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔( مسلم، ص61، حدیث:266) حضرت
علامہ علی قاریرحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:جنت میں داخل نہ ہونے
سے مراد یہ ہے کہ تکبر کے ساتھ جنت میں کوئی داخل نہ ہوگا بلکہ تکبر اور ہر بری
خصلت کے سبب عذاب بھگتنے کے ذریعےیااللہ پاک کے عفو و کرم سے پاک و صاف ہو کر جنت
میں داخل ہو گا۔ (مرقاةالمفاتيح، 8/828، 829، تحت الحدیث: 5107 )
(5)رسولُ اللہ کی مجلس سے دور:فرمانِ آخری نبی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم:قیامت کے دن میرے نزدیک سب سے قابلِ نفرت اور میری مجلس سے
دُوروہ لوگ ہوں گے جو واہیات بکنے والے، لوگوں کا مذاق اُڑانے والے اور مُتَفَیْہِق ہیں۔
صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان نے عرض کی : مُتَفَیْہِق کون ہیں؟ تو آپ علیہ السّلام
نے اِرشاد فرمایا:اِس سے مراد ہر تَکَبُّر کرنے والا شخص ہے۔
(ترمذی،3/410،حدیث:2025)
میٹھےمیٹھےاِسلامی بھائیو!ذرا سوچئے کہ اِس تکبر کا کیا
حاصل! محض لذّتِ نفس،وہ بھی چند لمحوں کے لئے!جبکہ اس کےنتیجے میں اللہ ورسول کی
ناراضی، مخلوق کی بیزاری،میدانِ محشر میں ذلت ورُسوائی ،رب کی رحمت اور اِنعاماتِ
جنت سے محرومی اور جہنم کا رہائشی بننے جیسے بڑے بڑے نقصانات کا سامنا ہے ! غرور و
تکبر نے نہ کسی کو شائستگی بخشی ہے اور نہ کسی کو عظمت و سربلندی کی چوٹی پر
پہنچایا ہے، ہاں ! ذلّت کی پستیوں میں ضرور گرایا ہے۔
تکبر کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنے نفس کا محاسبہ کرے کہ اگر
تکبر، علم، عبادت و ریاضت، مال و دولت، حسب و نسب، عہدہ و منصب، کامیابی و
کامرانی،حسن و جمال کی وجہ سے ہےتویہ سب نعمتیں تو اللہ پاک نے دی ہیں، اس پر تکبر
کرنا کیسا ؟ اگر خدانخواستہ اس تکبر کی وجہ سے کل بروزِ قیامت رب کریم ناراض ہو گیا اور جہنم میں شدید آگ کا عذاب دیا
گیا، تو اسے کیسے برداشت کریں گے؟
اللہ پاک دیگر باطنی امراض کے ساتھ ساتھ تکبر جیسے موذی مرض
سے بھی بچائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
گناہوں کی دو قسمیں ہیں: 1۔ ظاہری،2۔ باطنی
ظاہری گناہوں کی بنسبت باطنی گناہوں سے بچنا انتہائی مشکل
ہے۔ انہی باطنی گناہوں میں سے ”تکبر“بھی ایک کبیرہ گناہ ہے۔ جس انسان میں تکبر پایا جائے وہ دنیا و
آخرت میں تباہ و برباد ہے۔
تکبر کیا ہے؟: خود کو افضل دوسروں کو حقیر جاننا تکبر کہلاتا ہے۔
تکبر کے نقصانات: تکبر کرنے والا حرام کا مرتکب ہے۔ تکبر کرنے والا اللہ پاک
کو ناراض کرنے والا ہے۔ تکبر کرنے والے کو اللہ پاک پسند نہیں کرتا۔ تکبر کرنے
والے پر نصیحت اثر نہیں کرتی۔
احادیث طیبہ:
آقائے دو جہاں ، نبی آخر الزماں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: (1) جس شخص کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی تکبر ہو وہ جنّت میں
داخل نہیں ہوگا۔(صحیح مسلم ، حدیث :147 ،
ص 60)
(2) بڑائی میری
چادر ہے اور عظمت میرا تہبند ہے۔ جو کوئی ان میں سے کسی ایک کے بارے میں کبھی بھی
مجھ سے جھگڑے گا تو میں اس جہنم میں ڈال دو گا۔(سنن ابن ماجہ کتاب
الزھد،حدیث،4174)
(3) قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹی کی
مانند اٹھایا جائے گا ، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری
ہوگی ، انہیں جہنم کے ”بَولس“نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لیکر ان پر غالب آجائے
گی ، انہیں جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔(جامع الترمذی ، حدیث: 250 ، ص221)
(4) جو تکبر کرے اللہ پاک اسے ذلیل کردے گا ، پس وہ لوگوں
کی نظروں میں چھوٹا ہوگا مگر خود کو بڑا سمجھتا ہوگا یہاں تک کہ وہ لوگوں کے نزدیک
کُتّے اور خِنزیر سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔(کنز العمال ، 3/50 ، حدیث: 5734)
(5) اللہ پاک متکبرین یعنی مغروروں اور اِترا کر چلنے والوں
کو ناپسند فرماتا ہے۔(کنز العمال ،3/210، حدیث : 7727)
تکبر سے بچنا انتہائی
ضروری ہے۔ مگر کیسے؟ مذکورہ احادیث سے معلوم ہوتا
ہے کہ اس باطنی مرض سے لازماً خود کو بچایا جائے، ورنہ ہلاکت ہی ہلاکت ہے۔ اس لیے
جو اپنے اندر یہ مرض پائے تو اس کا فوراً علاج کرے۔
احادیثِ کریمہ میں جو تکبر کے علاج بیان کیے گئے ان میں سے
دو علاج درج ذیل ہیں:(1) اپنے کام خود
کرنا۔(2) عاجزی اختیار کرنا اور مسکینوں
کے ساتھ بیٹھنا۔ ان دو نسخوں پر عمل کیا جائے تو اس مرض سے بچا جا سکتا ہے۔
اللہ پک تمام مسلمانوں کو تکبر سے نجات عطا فرمائے۔ (اٰمین
بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )
محمد وسیم عطّاری (درجہ سابعہ جامعۃُ المدینہ ،
کامونکی ضلع گوجرانوالہ،پاکستان)
تکبر : خود کو افضل ، دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے ۔ اللہ
پاک کے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : الکبر بطر الحق و عمط الناس یعنی تکبر حق کی
مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے ۔(صحیح مسلم
کتاب الایمان باب تحریم الکبر و بیانہ ،حدیث 91 ،ص 61 ( امام راغب اصفہانی رحمۃُ اللہِ علیہ المفردات للراغب میں لکھتے
ہیں:ذلک ان یّری الانسانُ نفسه اکبر من غیرہ یعنی کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے۔ (المفردات
للراغب ص 697 (
تکبر کی مذمت پر پانچ
فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(1)حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ پاک کے آخری نبی محمد
عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا (
یعنی تھوڑا سا )بھی تکبر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہ ہوگا ۔(صحیح مسلم کتاب الایمان
باب تحریم الکبر و بیانہ حدیث 147 ، ص 60 ) حضرت علامہ علی
قاری رحمۃُ الله علیہ لکھتے ہیں : جنّت میں داخل نہ ہوگا ہونے سے مراد یہ ہے کہ تکبر
کے ساتھ کوئی جنّت میں داخل نہ ہوگا بلکہ تکبر اور ہر بری خصلت سے عذاب بھگتنے کے
ذریعے یا اللہ پاک کے عفو و کرم سے پاک و صاف ہوکر جنّت میں داخل ہوگا ۔(مرقاة
المفاتیح، کتاب الاداب باب الغضب والکبر ، 8 / 828 ، 829 (
(2)رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا ، اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے ۔ بڑائی میری چادر اور عظمت میرا تہبند ہے ۔ جو
کوئی ان میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی مجھ سے جھگڑے گا میں اسے جہنم میں ڈال دوں
گا ۔ اور مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ۔(سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب البراءة من
الکبر، 4 / 457 ،حدیث: 5174 (
(3)بارگاہ رسالت میں عرض کی گئی یا رسول اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم فلاں شخص کتنا بڑا متکبر ہے ۔ ارشاد فرمایا :
کیا اس کے پیچھے موت نہیں ہے۔ (شعب الایمان باب فی حسن الخلق ،2 / 293 ،حدیث: 293 (
(4)رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا : آخرت میں تم میں سے وہ لوگ مجھے زیادہ محبوب اور میرے زیادہ قریب وہ ہوں
گے ۔ جن کے اخلاق اچھے ہوں گے اور وہ لوگ مجھے زیادہ ناپسند اور مجھ سے زیادہ دور
ہوں گے ، جو زیادہ بولنے والے ، منھ پھٹ اور متفیھقون ہوں گے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی : یا رسول اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہم زیادہ بولنے والے اور منھ پھٹ کو تو جانتے ہیں ۔
لیکن یہ متفیھقون کون ہیں ۔ ارشاد فرمایا تکبر کرنے والے۔(سنن الترمذی کتاب البر و
الصلۃ باب ما جاء فی معالی الاخلاق ، 3 / 409 ،حدیث: 2025 (
(5)سرکار دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا قیامت کے دن متکبرین کو چیونٹیوں کی صورت میں اٹھایا جائے گا ۔ اور اللہ
پاک کے ہاں ان کی قدرو قیمت نہ ہونے کے سبب لوگ انہیں اپنے قدموں تلے روندتے ہوں
گے ۔(موسوعۃ الاعلام ابن ابی الدنیا کتاب التواضح و الخمول ، 3 / 578 ،حدیث: 224 (
پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! تکبر ایک بہت ہی خطرناک باطنی
گناہ اس کی مذمت پر آپ نے فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تو پڑھ ہی
لئے ۔ اب اس گناہ کبیرہ سے خود بھی بچنا ہے اور دوسروں کو بھی بچنے کی ترغیب دینی
ہے اللہ پاک ہمیں اس کبیرہ گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم