Under the supervision of ‘Majlis shrouding and burial (Islamic sisters)’, a ‘shrouding and burial Tarbiyyati Ijtima’ was conducted on 27th May 2021 in Santa Coloma (Badalona Division, Spain). Approximately, 16 Islamic sisters had the privilege of attending this spiritual gathering.

Kabinah responsible Islamic sister (Majlis shrouding and burial) delivered a Sunnah-inspiring Bayan and taught the attendees [Islamic sisters] the method of cutting the shroud, shrouding the deceased [Islamic sisters] and giving Ghusl to the deceased [Islamic sisters]. Furthermore, she explained the rulings regarding Mustamal water and Israf [waste].


Under the supervision of ‘Majlis short courses for Islamic sisters’, a course, ‘Blessings of Tajweed and Salah’ is continuing from 1st June 2021 in Sweden (European Union Region).

In this course, Islamic sisters will the opportunity to learn about Wudu, method of Ghusl, rulings of Salah, supplications of Salah, Madani Qaida with Tajweed and other essential Shara’i rulings. The period of this course is one month.

The interested candidates (Islamic sisters) should immediately contact the respective responsible Islamic sisters.


Under the supervision of Dawat-e-Islami, an online Sunnah-inspiring Ijtima’ was conducted in Belgium in the last week of May 2021. Approximately, 29 Islamic sisters from Antwerp and Brussel had the privilege of attending this great Ijtima’.

Kabinah responsible Islamic sister delivered a Sunnah-inspiring Bayan on the topic ‘excellence of the blessed Kaabah’ and explained the attendees [Islamic sisters] the parables and blessings regarding this. Furthermore, she gave them the information about the religious activities of Dawat-e-Islami and encouraged them to keep associated with the religious environment of Dawat-e-Islami and take part in the religious activities.


Under the supervision of Dawat-e-Islami, a Sunnah-inspiring Ijtima’ was conducted on 27th May 2021 in Holland via Skype. Approximately, 14 Islamic sisters from Den Haag, Rotterdam and Amsterdam had the privilege of attending this great Ijtima’.

Responsible Islamic sister (Majlis Islah-e-A’maal) delivered a Sunnah-inspiring Bayan on the topic ‘blessings of Imam Bukhari’ and gave the attendees [Islamic sisters] the points regarding his blessed life and enthusiasm of worship. Moreover, she mentioned the recognition of Sahih Bukhari in the blessed court of the Holy Prophet and motivated them to read and listen to it. She also encouraged them to do the khatam of Sahih Bukhari.


Under the supervision of Majlis Islah-e-A’maal, an Islah-e-A’maal Ijtima’ was conducted in Holland via Skype in previous days. Approximately, 23 Islamic sisters from Den Haag, Rotterdam and Amsterdam had the privilege of attending this great Ijtima’.

Kabinah responsible Islamic sister (Majlis Islah-e-A’maal) delivered a Sunnah-inspiring Bayan on the topic ‘modesty’ and gave the attendees [Islamic sisters] the mindset of doing the worship of Allah, saving the precious time of life from worthless things and obscene conversation and nurturing modesty and righteous qualities within you. Moreover, she motivated them to spend their time according to ‘Nayk A’maal’ and making accountability of their deeds daily.


03جون 2021ء کو دنیا بھر میں دعوت اسلامی کے زیرِ اہتمام ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع کا انعقادکیا جائیگا۔ان اجتماع میں اراکینِ شوریٰ اور دیگر مبلغین دعوت اسلامی سنتوں بھرے بیانات فرمائیں گےجبکہ تلاوت، نعت، اجتماعی ذکر اور رقت انگیز دعاکا بھی سلسلہ ہوگا۔

تفصیلات کے مطابق مدنی چینل پر 9:30 بجے ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع کا آغاز ہوگاجس میں جانشینِ امیرِ اہلِ سنت حضرت مولانا عبید رضا عطاری مدنی مُدَّظِلُّہُ الْعَالِی ”تین پسندیدہ صفات“کے موضوع پر سنتوں بھرا بیان فرمائیں گے۔

تمام عاشقان رسول سے اپنے مقامی شہر میں ہونے والے سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کرنے کی درخواست ہے۔


امیراہل سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی جانب سے عطاکردہ

ہفتہ وار رسالہ

بادشاہ کی سڑی ہوئی لاش

اِس رسالے کی چندخصوصیات:

٭دیدہ زیب ودِلکش سرورق (Title) وڈیزائننگ (Designing) ٭عصرحاضرکے تقاضوں کے پیشِ نظرجدید کمپوزنگ وفارمیشن ٭عبارت کے معانی ومفاہیم سمجھنے کیلئے ’’علاماتِ ترقیم‘‘(Punctuation Marks) کا اہتمام ٭اُردو، عربی اور فارسی عبارتوں کو مختلف رسم الخط (Fonts)میں لکھنے کا اہتمام ٭پڑھنے والوں کی دلچسپی برقرار رکھنے کیلئے عنوانات (Headings) کا قیام ٭بعض جگہ عربی عبارات مع ترجمہ کی شمولیت ٭آیات کے ترجمہ میں کنزالایمان کی شمولیت ٭حسب ضرورت مشکل اَلفاظ پر اِعراب اور بعض پیچیدہ اَلفاظ کے تلفظ بیان کرنے کا اہتمام ٭قرآنی آیات مع ترجمہ ودیگر تمام منقولہ عبارات کے اصل کتب سے تقابل(Tally) کا اہتمام ٭آیات، اَحادیث،توضیحی عبارات، فقہی جزئیات کےحوالوں (References) کا خاص اہتمام ٭ اغلاط کوکم سے کم کرنے کےلئے پورے رسالے کی کئی بار لفظ بہ لفظ پروف ریڈنگ۔

17صفحات پر مشتمل یہ رسالہ 2021ءمیں اردو زبان کے1st ایڈیشن میں45ہزار کی تعداد میں پرنٹ ہو چکا ہے۔

مکتبۃ المدینہ کی کسی بھی شاخ سے16روپے ہدیۃ پر حاصل کیجئے اوردوسرو ں کو بھی ترغیب دلائیے۔

اس رسالے کی PDF دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ سے مفت ڈاؤن لوڈ بھی کی جاسکتی ہے۔

Download Now



قوم عاد کی نافرمانیاں

Wed, 2 Jun , 2021
3 years ago

قوم عاد کون ہیں؟ قوم عاد دوہیں یعنی یہ دو قوموں کا نام ہے۔ (1)۔عاد اولی، اور (2)۔عاد ثانیہ۔ ان دونوں قوموں میں سو سال کا فاصلہ تھا۔ عاد ثانیہ کو "قوم ثمود" بھی کہتے ہیں۔ مضمون ہذا میں "قوم عاد اولٰی" مراد ہے۔ جوکہ اللہ کے نبی، حضرت سیدنا ہود علیہ السّلام کی قوم ہے۔تفسیر صراط الجنان میں ہے: "قوم عاد دو ہیں:عادِ اُوْلیٰ یہ حضرت ہودعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ہے اور یہ یمن میں آباد تھے اور عادِثانیہ،یہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ہے، اسی کو ثمود کہتے ہیں ان دونوں کے درمیان سو برس کا فاصلہ ہے۔ یہاں عادِ اُولیٰ مراد ہے۔" (جمل، الاعراف، تحت الآیۃ: ٦٥، ۳ / ۵۸، روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ٦٥، ۳ / ۱۸۵)

قرآن مجید، برہان رشید میں اللہ تبارک وتعالی نے اس قوم کے تعارف اور اپنے نبی، حضرت ہود علیہ السّلام کی دعوت دین بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اَفَلَا تَتَّقُوْنَ(۶۵) ترجمہ کنزالعرفان: اور قومِ عاد کی طرف ان کے ہم قوم ہود کو بھیجا۔( ہود نے) فرمایا: اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ۔ تو کیا تم ڈرتے نہیں؟ ۔ (اعراف : 65)

آیت مذکورہ بالا سے "قوم عاد کا تعارف" بھی واضح ہوگیا کہ وہ کون تھے؟ وہ اللہ کے نبی، حضرت سیدنا ہود علیہ السّلام کے ہم قوم تھے۔ اور ساتھ ہی "اللہ کے نبی کی دعوت دین" بھی واضح ہوگئی کہ آپ نے انہیں اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت اور اس کے غیر کی پوجا یعنی بت پرستی سے روکا اور کہا کہ "کیا وہ اپنے رب سے نہیں ڈرتے؟" قارئین کرام!قوم عاد بھی ایک نافرمان قوم تھی۔ چنانچہ آیت مذکورہ بالا اور اگلی چند آیت اللہ کے نبی، حضرت سیدنا ہود علیہ السّلام اور ان کی قوم "قوم عاد" کے درمیان واقع مکالمہ کو بیان کر رہی ہیں۔ لیکن ان آیات کو پیش کرنے سے پہلے اس پورے واقعے کا خلاصہ قارئین کرام کی نظر ہے۔ چنانچہ مفتی اہلسنت، شیخ الحدیث والتفسیر مولانا مفتی قاسم عطاری زید مجده اپنی تفسیر قرآن بنام تفسیر صراط الجنان میں قصے کی منظر کشی کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

اس آیت اور اگلی چند آیات میں جو واقعہ بیان ہوا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قومِ عاد کی ہدایت کے لئےان کے ہم قوم حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی طرف بھیجا ۔ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا:’’ اے میری قوم ! تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، کیا تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے ڈر نہیں لگتا ؟اس پرقوم کے کافر سردار بولے: ہم توتمہیں بیوقوف سمجھتے اور جھوٹا گمان کرتے ہیں اور تمہیں  رسالت کے دعویٰ میں سچا ہی نہیں جانتے ۔

کفار کا حضرت ہودعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بارگاہ میں یہ گستاخانہ کلام کہ’’ تمہیں بے وقوف سمجھتے ہیں ‘ جھوٹا گمان کرتے ہیں ‘‘انتہا درجہ کی بے ادبی اور کمینگی تھی اور وہ اس بات کے مستحق تھے کہ انہیں سخت ترین جواب دیا جاتا مگر حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے اخلاق و ادب اور شانِ حلم سے جو جواب دیا اس میں شانِ مقابلہ ہی نہ پیدا ہونے دی اور اُن کی جہالت سے چشم پوشی فرمائی چنانچہ فرمایا :اے میری قوم ! بے وقوفی کامیرے ساتھ کوئی تعلق نہیں میں تو ربُّ العالمین کا رسول ہوں۔ میں توتمہیں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور تمہارے لئے قابلِ اعتماد خیرخواہ ہوں اور کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ تمہارے پاس تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے تمہیں میں سے ایک مرد کے ذریعے نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے ڈرائے ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ کے یہ احسان یاد کرو کہ اس نے تمہیں قومِ نوح کے بعد ان کا جانشین بنایا اور تمہیں عظیم جسمانی قوت سے نوازا کہ قد کاٹھ اور قوت دونوں میں دوسروں سے ممتاز بنایا تواللہ عَزَّوَجَلَّ کے احسانات یاد کرو، اس پر  ایمان لاؤ اور اطاعت و بندگی کا راستہ اختیار کرو۔

حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چونکہ اپنی قوم کی بستی سے علیحدہ ایک تنہائی کے مقام میں عبادت کیا کرتے تھے، جب آپ کے پاس وحی آتی تو قوم کے پاس آکر سنادیتے ، اس وقت قوم یہ جواب دیتی کہ کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کریں اور جن بتوں کی عبادت ہمارے باپ دادا کیا کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں۔ اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب لے آؤ جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے ہو۔ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: بیشک تم پر تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کا عذاب اور غضب لازم ہوگیا۔ قومِ عاد پر آنے والے عذاب کی کیفیت کا بیان چند آیات کے بعد مذکور ہے اور اس کے علاوہ یہ واقعہ سورہ ہود آیت نمبر50تا 60میں بھی مذکور ہے۔" (تفسیر صراط الجنان)

قوم عاد کی نافرمانیاں:

تفسیر صراط الجنان کی مذکورہ بالا عبارت سے قوم عاد کی نافرمانی اور ہٹ دھرمی کا خوب اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن سامان راحت اور تشفی قلب کی خاطر یہاں ان نافرمانیوں کا تفصیلی ذکر کیا جاتا ہے تاکہ میری یہ تحریر اہل عقل و فہم کیلئے سامان عبرت اور ذریعۂ اصلاح و نجات آخرت بن سکے۔ چنانچہ جب اللہ کے نبی، حضرت سیدنا ہود علیہ السلام نے اپنی قوم "قوم عاد" سے کہا: "اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، تو کیا تم ڈرتے نہیں؟" تو معاذ اللہ ان عقل کے اندھوں نے اللہ کے نبی کو بیوقوف کہ ڈالا۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن مجید، برہان رشید میں فرماتا ہے:

قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖۤ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ سَفَاهَةٍ (۶۶) ترجمہ کنزالعرفان: اس کی قوم کے کافر سردار بولے ،بیشک ہم تمہیں بیوقوف سمجھتے ہیں۔ (اعراف: 66) معاذاللہ! یہ ہود علیہ السلام کی پہلی گستاخی اور نافرمانی تھی اور اتنے ظلم پر اکتفاء نہیں کیا گیا بلکہ ان بدنصیبوں نے اللہ کے نبی، حضرت سیدنا ہود علیہ السلام کو معاذاللہ جھوٹا تک کہ دیا۔ چنانچہ قرآن حکیم میں ان جفاکاروں کا قول یوں حکایت کیا گیا۔

وَّ اِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ(۶۶)۔ ترجمہ کنزالعرفان: اور بیشک ہم تمہیں جھوٹوں میں سے گمان کرتے ہیں۔ یہ ان کی جانب سے دوسری گستاخی اور نافرمانی تھی۔

سبحان اللہ! اللہ کے نبی علیہ السلام پہ راہ خدا میں اتنے سخت جملے کسے گئے جن کے وہ قطعاً مستحق نہ تھے کیونکہ اللہ کے تمام نبی معصوم ہیں۔ مگر پھر ان کی ذات ِبابرکات سے کمال شان حلم کا ظہور ہوا چنانچہ ان کے قول کو حکایت کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالی قرآن حکیم میں ارشاد فرماتا ہے: قَالَ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ سَفَاهَةٌ وَّ لٰكِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۶۷) اُبَلِّغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ(۶۸) ترجمہ کنزالعرفان: (ہود نے) فرمایا: اے میری قوم! میرے ساتھ بے وقوفی کا کوئی تعلق نہیں ۔ میں تو ربُّ العالمین کا رسول ہوں۔ میں تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور میں تمہارے لئے قابلِ اعتماد خیرخواہ ہوں۔(تفسیر صراط الجنان)

کافروں نے گستاخی کرکے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مَعَاذَاللہ بیوقوف کہا، جس پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بڑے تحمل سے جواب دیا کہ بیوقوفی کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اورا س کی وجہ بالکل واضح ہے کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کامل عقل والے ہوتے ہیں اور ہمیشہ ہدایت پر ہوتے ہیں۔تمام جہان کی عقل نبی کی عقل کے مقابلے میں ایسی ہے جیسے سمندر کا ایک قطرہ کیونکہ نبی تو وحی کے ذریعے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے علم و عقل حاصل کرتا ہے اور اس چیز کے برابر کوئی دوسری چیز کا ہونا محال(یعنی ناممکن) ہے۔ (تفسیر صراط الجنان)

فائدہ:

اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے:

(1) جاہل اور بیوقوف لوگوں کی بد تمیزی و جہالت پر بُردباری کا مظاہرہ کرنا سنت ِ انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہے ۔

(2) اہلِ علم و کمال کو ضرورت کے موقع پر اپنے منصب و کمال کا اظہار جائز ہے ۔ (تفسیر صراط الجنان)

اللہ کے نبی حضرت سیدنا ہود علیہ السلام نے دعوت حق دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اَوَ عَجِبْتُمْ اَنْ جَآءَكُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَلٰى رَجُلٍ مِّنْكُمْ لِیُنْذِرَكُمْؕ-وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنْۢ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ زَادَكُمْ فِی الْخَلْقِ بَصْۜطَةًۚ-فَاذْكُرُوْۤا اٰلَآءَ اللّٰهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۶۹) ترجمہ کنزالعرفان: اور کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے تمہیں میں سے ایک مرد کے ذریعے نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں ڈرائے اور یاد کرو جب اس نے تمہیں قومِ نوح کے بعد جانشین بنایا اور تمہاری جسامت میں قوت اور وسعت زیادہ کی تو اللہ کی نعمتیں یاد کروتا کہ تم فلاح پاؤ۔

فائدہ :

اللہ تعالیٰ نے قومِ عاد کو سلطنت اور بدنی قوت عطا فرمائی تھی ،چنانچہ شداد ابنِ عاد جیسا بڑا بادشاہ انہیں میں ہوا۔ یہ بہت لمبے قد والے اور بڑے بھاری ڈیل ڈول والے تھے۔ (تفسیر صراط الجنان)

لیکن ان بدنصیبوں پہ اللہ کے نبی علیہ السلام کی حلم سے لبریز دعوت حق نے بھی اثر نہ کیا ، یوں ان کی سرکشی اور نافرمانی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہا چنانچہ اس اثر انگیز پھولوں کے جواب میں انہوں نے جو کہا۔ اسےحکایت کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالی قرآن حکیم میں ارشاد فرماتا ہے: قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّٰهَ وَحْدَهٗ وَ نَذَرَ مَا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۚ-فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۷۰) " ( ترجمہ کنزالعرفان: قوم نے کہا: کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کریں اور جن چیزوں کی عبادت ہمارے باپ داداکیا کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں۔ اگر تم سچے ہو تو لے آؤ وہ (عذاب) جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے ہو۔ ( اعراف : 68 )

معاذ اللہ ! ان ظالموں کو اپنے باپ، دادا کی اندھی تقلید نے کہیں کا نہ چھوڑا اور وہ اپنے نبی کو عذاب لانے کا چیلنج کرکے اللہ رب العزت اور اس کے نبی کی نافرمانی کا قبیح ارتکاب کر بیٹھے۔ بہر حال جب ان کی اس سرکشی نے طول پکڑا تو اللہ کے نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: قَالَ قَدْ وَ قَعَ عَلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ رِجْسٌ وَّ غَضَبٌؕ-اَتُجَادِلُوْنَنِیْ فِیْۤ اَسْمَآءٍ سَمَّیْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ مَّا نَزَّلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍؕ-فَانْتَظِرُوْۤا اِنِّیْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ(۷۱) " ( ترجمہ کنزالعرفان: فرمایا: بیشک تم پر تمہارے رب کا عذاب اور غضب لازم ہوگیا۔ کیا تم مجھ سے ان ناموں کے بارے میں جھگڑ رہے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں ، جن کی کوئی دلیل اللہ نے نہیں اتاری تو تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔(اعراف : 71) (تفسیر صراط الجنان)

 حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ تم پر تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کا غضب لازم ہوگیا اور تمہاری سرکشی سے تم پر عذاب آنا واجب و لازم ہوگیا۔ کیاتم فضول ناموں یعنی بتوں کے بارے میں جھگڑتے ہو جنہیں تمہارے باپ دادا نے گھڑ لیا اور انہیں پوجنے لگے اور معبود ماننے لگے حالانکہ اُن کی کچھ حقیقت ہی نہیں ہے اور وہ اُلُوہِیّت کے معنی سے قطعاً خالی و عاری ہیں۔(تفسیر صراط الجنان)

اللہ کی نافرمانیوں کا انجام :

اس کے بعد کیا ہوا؟ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قوم عاد پہ عذاب بھیجا جس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: فَاَنْجَیْنٰهُ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَ قَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ مَا كَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ۠(۷۲) ( ترجمہ کنزالعرفان: تو ہم نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو اپنی رحمت کے ساتھ نجات دی اور جو ہماری آیتیں جھٹلاتے تھے ان کی جڑ کاٹ دی اور وہ ایمان والے نہ تھے۔ اعراف:72)

حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر عذاب نازل ہونے کا واقعہ:

اس کامختصر واقعہ یہ ہے کہ قومِ عاد احقاف میں رہتی تھی، احقاف عمان اور حضر موت کے درمیان علاقہ یمن میں ایک ریگستان ہے۔ قومِ عاد نے زمین کو فِسق سے بھر دیا تھا۔ یہ لوگ بت پرست تھے ان کے ایک بت کا نام’’ صُدَائ‘‘اور ایک کا ’’صُمُوْد‘‘ اور ایک کا ’’ ہَبائی‘‘ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو معبوث فرمایا آپ نے اُنہیں توحید کا حکم دیا ،شرک وبُت پرستی اور ظلم و جفا کاری کی ممانعت کی، لیکن وہ لوگ نہ مانے اورآپ کی تکذیب کرنے لگے اور کہنے لگے ہم سے زیادہ زور آور کون ہے؟ اُن میں سے صرف چند آدمی حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لائے جو بہت تھوڑے تھے اور وہ بھی مجبوراً اپنا ایمان چھپائے رکھتے تھے۔

اُن مؤمنین میں سے ایک شخص کا نام مرثدبن سعد تھا، وہ اپنا ایمان مخفی رکھتے تھا ۔جب قوم نے سرکشی کی اور اپنے نبی حضرت ہودعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کی اور زمین میں فساد کیا اور ستم گاریوں میں زیادتی کی اور بڑی بڑی مضبوط عمارتیں بنائیں تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بارش روک دی، تین سال بارش نہ ہوئی اب وہ بہت مصیبت میں مبتلا ہوئے اور اس زمانہ میں دستور یہ تھا کہ جب کوئی بلایا مصیبت نازل ہوتی تھی تو لوگ بیتُ الحرام میں حاضر ہو کر اللہ تعالیٰ سے اس مصیبت کو دور کرنے کی دعا کرتے تھے، اسی لئے ان لوگوں نے ایک وفد بیتُ اللہ کو روانہ کیا اس وفد میں تین آدمی تھے جن میں مرثد بن سعد بھی تھا یہ وہی صاحب ہیں جو حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لائے تھے اور اپنا ایمان مخفی رکھتے تھے۔

اس زمانہ میں مکہ مکرمہ میں عمالیق کی سکونت تھی اور ان لوگوں کا سردار معاویہ بن بکر تھا، اس شخص کا ننھیال قومِ عاد میں تھا، اسی علاقہ سے یہ وفد مکہ مکرمہ کے حوالی میں معاویہ بن بکر کے یہاں مقیم ہوا۔ اُس نے اُن لوگوں کی بہت عزت کی اور نہایت خاطر و مدارت کی، یہ لوگ وہاں شراب پیتے اور باندیوں کا ناچ دیکھتے تھے۔ اس طرح انہوں نے عیش و نشاط میں ایک مہینہ بسر کیا ۔معاویہ کو خیال آیا کہ یہ لوگ تو راحت میں پڑ گئے اور قوم کی مصیبت کو بھول گئے جو وہاں گرفتار ِبلا ہے مگر معاویہ بن بکر کو یہ خیال بھی تھا کہ اگر وہ ان لوگوں سے کچھ کہے تو شاید وہ یہ خیال کریں کہ اب اس کو میزبانی گراں گزرنے لگی ہے اس لئے اُس نے گانے والی باندی کو ایسے اشعار دیئے جن میں قومِ عاد کی حاجت کا تذکرہ تھا جب باندی نے وہ نظم گائی تو ان لوگوں کویاد آیا کہ ہم اس قوم کی مصیبت کی فریاد کرنے کے لئے مکہ مکرمہ بھیجے گئے ہیں۔

اب انہیں خیال ہوا کہ حرم شریف میں داخل ہو کر قوم کے لئے پانی برسنے کی دعا کریں ، اس وقت مرثد بن سعد نے کہا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ، تمہاری دعا سے پانی نہ برسے گا، البتہ اگر تم اپنے نبی کی اطاعت کرو اوراللہ تعالیٰ سے توبہ کروتو بارش ہو گی، اس وقت مرثد نے اپنے اسلام کا اظہار کر دیا۔ اُن لوگوں نے مرثدکو چھوڑ دیا اور خود مکہ مکرمہ جا کر دعا کی اللہ تعالیٰ نے تین قسم کے بادل بھیجے، ایک سفید، ایک سُرخ اور ایک سیاہ۔ اس کے ساتھ آسمان سے ندا ہوئی کہ اے قِیْل! اپنے لئے اور اپنی قوم کے لئے ان میں سے ایک بادل اختیار کر، اُس نے اِس خیال سے سیاہ بادل کو اختیار کیا کہ اس سے بہت پانی برسے گا چنانچہ وہ بادل قومِ عاد کی طرف چلا اور وہ لوگ اس کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے مگر اس سے ایک ہوا چلی جو اس شدت کی تھی کہ اونٹوں اور آدمیوں کو اُڑا اُڑا کر کہیں سے کہیں لے جاتی تھی۔ یہ دیکھ کر وہ لوگ گھروں میں داخل ہوئے اور اپنے دروازے بند کرلئے مگر ہوا کی تیزی سے بچ نہ سکے اُس نے دروازے بھی اکھیڑ دیئے اور ان لوگوں کو ہلاک بھی کردیا اور قدرتِ الٰہی سے سیاہ پرندے نمودار ہوئے جنہوں نے اُن کی لاشوں کو اُٹھا کر سمندر میں پھینک دیا ۔

حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مؤمنین کو لے کر قوم سے جدا ہوگئے تھے اس لئے وہ سلامت رہے، قوم کے ہلاک ہونے کے بعدوہ ایمانداروں کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ تشریف لائے اور آخر عمر شریف تک وہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے رہے۔(تفسیر صراط الجنان) وماعلینا الا البلاغ المبین 


قوم عاد کی نافرمانیاں

Wed, 2 Jun , 2021
3 years ago

قوم عادمقام احقاف میں رہتی تھی جو عمان و حضر موت کے درمیان ا یک بڑا ریگستان ہے ان کے مورث اعلیٰ کا نام عادبن آدم بن سام بن نوح ہے، پوری قوم کے لوگ ان کے مور ث اعلیٰ عاد کے نام سے پکارنے لگے، یہ لوگ بت پرست اوراور بہت بد اعمال و بد کردار تھے، اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام کو ان لوگوں کی ہدایت کے لیے بھیجا اور اس قوم نے اپنے تکبر اور سرکشی کی وجہ سے حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلادیا اور اپنے کفر پرڈٹے رہے، حضرت ہود علیہ السلام بار بار ان سرکشوں کو عذاب الہی سے ڈراتے رہے، مگر اس شریر قوم نے نہایت ہی بے باکی اور گستاخی کے ساتھ ا پنے نبی سے یہ کہہ دیا کہ  :

قَالُوۡا یٰہُوۡدُ مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَۃٍ وَّمَا نَحْنُ بِتَارِکِیۡۤ اٰلِہَتِنَا عَنۡ قَوْلِکَ وَمَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤْمِنِیۡنَ ، اِنۡ نَّقُوۡلُ اِلَّا اعْتَرٰىکَ بَعْضُ اٰلِہَتِنَا بِسُوۡٓءٍؕ ۔ ترجمہ کنزالالعرفان : اے ہود تم ہمارے پاس کوئی دلیل لے کر نہیں آئے اور ہم صرف تمہارے کہنے سے اپنے خداؤں کو چھوڑ نے والے نہیں ہیں اور نہ ہی تمہاری بات پر یقین کرنے والے ہیں۔ ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود نے تم پر کوئی برائی پہنچادی ہے۔(سورہ ہود آیت : ۵۳۔۵۴)

اور سورہ اعراف میں ہے کہ انہوں نے یہ کہا: قَالُوۡۤا اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللہَ وَحْدَہٗ وَنَذَرَ مَاکَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا ۚ فَاۡتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنۡ کُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ ﴿۷۰ترجمہ کنزالعرفان : قوم نے کہا: کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کریں اور جن چیزوں کی عبادت ہمارے باپ داداکیا کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں۔ اگر تم سچے ہو تو لے آؤ وہ (عذاب) جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے ہو ۔ (سورہ اعراف آیت نمبر :70 )

سَوَآءٌ عَلَیْنَاۤ اَوَ عَظْتَ اَمْ لَمْ تَكُنْ مِّنَ الْوٰعِظِیْنَۙ(۱۳۶) ترجَمۂ کنزُ العرفان: ہمارے اوپر برابر ہے کہ آپ ہمیں نصیحت کریں یا آپ نصیحت کرنے والوں میں سے نہ ہوں ۔ ( الشعراء : 136 )

اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا خُلُقُ الْاَوَّلِیْنَۙ(۱۳۷) وَ مَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَۚ(۱۳۸) ترجمہ کنزالعرفان ، و ہ تو صرف پہلے لوگوں کی بنائی ہوئی جھوٹی باتیں ہیں، اور ہمیں عذاب نہیں دیا جائے گا۔(سورہ الشعرا ، آیت نمبر : 137)

تو رب عزوجل نے پھر قوم عاد کے لیے فرمایا: وَ تِلْكَ عَادٌ جَحَدُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ وَ عَصَوْا رُسُلَهٗ وَ اتَّبَعُوْۤا اَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ(۵۹) وَ اُتْبِعُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا لَعْنَةً وَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ ترجَمۂ کنزُالعرفان: اور یہ عاد ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیتوں کا انکار کیا اور اس کے رسولوں کی نافرمانئ كی اور ہر بڑے سرکش ہٹ دھرم کے کہنے پر چلے اور اس دنیا میں اور قیامت کے دن ان کے پیچھے لعنت لگادی گئی۔(سورہ ھود آیت نمبر: ۵۹۔۶۰)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں پچھلی قوموں کے واقعات کو پڑھ کر ان سے عبرت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور حضور علیہ الصلوة والسلام کا فرمانبردار بنائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


قوم عاد کی نافرمانیاں

Wed, 2 Jun , 2021
3 years ago

حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمان ہے، تم مجھ پر درود شریف پڑھو اللہ کریم تم پر رحمت بھیجے گا۔

قوم عاد حضرت ہود علیہ السلام کی قوم تھی، اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام کو ان کی ہدایت کے لیے بھیجا تھا، حضرت ہود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے بہت ہی پیارے نبی تھے، حضرت ہود علیہ ا لسلام ان کو بار بار اسلام کی دعوت دیتے رہے، لیکن یہ اپنے کفر پر اڑے رہے اور اسلام نہ لائے حضرت ہود علیہ السلام بار بار ان کو دین اسلام کی لیکن یہ اپنے تکبر اور سرکشی میں مست تھے، قوم عاد مقام احقاف میں رہتی تھی، جوعمان و حضر موت کے درمیان ایک بڑا ریگستان ہے ان کے مورث اعلیٰ کا نام عادبن عوض بن ارم بن سام ہے بن نوح ہے پوری قوم کے لوگ ان کو مورث اعلیٰ عاد کے نام سے پکارنے لگے، قوم عاد کے لوگ بہت زیادہ بت پرست اور بداعمال و بدکردار تھے قوم عاد اپنے غرور اور تکبر میں اڑی رہی اور حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلاتی رہی، مگر اس قوم نے نہایت ہی بے باکی اور گستاخی کے ساتھ اپنے نبی سے یہ کہہ دیا کہ تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ تعالیٰ کو پوجیں اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے ، انہیں چھوڑ دیں تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دے رہے ہو، اگر سچے ہو، آخر کار قوم عاد پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب آنا شروع ہوگیا مسلسل تین سال تک بارش ہی نہیں ہوئی، قوم عاد جو تھی وہ بڑی طاقتور اور قد آور قوم تھی ان لوگوں کی مالی خوشحالی بھی نہایت مستحکم تھی کیونکہ لہلہاتی کھیتیاں اور ہرے بھرے باغات ان کے پاس تھے، قوم عاد نے رہنے کے لیے پہاڑوں کو تراش کر گرمیوں اور سردیوں کے لیے علیحدہ علیحدہ محلات تعمیر کیے تھے گرمیوں میں علیحدہ کوٹھیوں میں اور سردیوں میں علیحدہ کوٹھیوں میں رہتی تھے ان لوگوں کو اپنی کثرت اور اور طاقت پر بڑا اعتماد اپنے مال اور سامان عیش و عشرت پر بڑا ناز تھا ، مگر کفر اور بداعمالیوں وبدکاریوں کی نحوست نے ان لوگوں کو قہر الہی میں اس طرح گرفتار کررکھا تھا کہ جھونکوں اور جھٹکوں نے ان کی پوری آبادی کو جھنجھوڑ کر چکنا چور کردیا، حضرت ہود علیہ ا لسلام کی پوری قوم صفحہ ہستی سے مٹ گئی، اور ان کی قبروں کانشان بھی باقی نہ رہا، حضرت ہود علیہا لسلام کی قوم عذاب الہی کے جھٹکوں کی تاب نہ لاسکی، تو پھر ہم جیسی کمزور قوموں کا کیا ٹھکانہ ہے؟ اس لیے جن لوگوں کو اپنی اور اپنی نسلوں کی خیریت و بقا منظور ہے انہیں لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نافرمانیوں اوربداعمالیوں سے ہمیشہ بچتے رہیں۔حضرت ہود علیہ السلام کی قوم کے لوگ اناج کے ذرہ ذرہ کو ترس گئے،ان کو کھانے کے لیے ایک دانہ بھی نہ ملا۔

اس زمانے کا یہ طر یقہ تھا کہ جب بھی کوئی مصیبت آئی تولوگ خانہ کعبہ یعنی اللہ تعالیٰ کے گھر میں جا کر دعائیں مانگتے تھے، جو بلائیں آتیں تھیں وہ ٹل جاتیں تھیں، چنانچہ ان کی ایک جماعت مکہ معظمہ گئی اس جماعت میں مرثد بن سعد نامی ایک شخص تھا جو مسلمان تھا، مگر وہ اپنے ایمان کو پوری قوم سے چھپائے ہوئے تھا، جب ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے پاک کعبہ معظمہ میں جا کر دعا مانگنی شروع کی، تو جو شخص مسلمان تھا اس کا جذبہ ایمانی بیدار ہوگیا اس نے اپنی پوری قوم سے کہا یعنی سمجھایا کہ تم لاکھ دعائیں مانگو پانی نہیں برسے گا، جب تک تم اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت ہود علیہ ا لسلام پرایمان نہ لاؤ حصرت مرثد بن سعد نامی شخص نے جب اپنا ایمان ظاہر کیا تو قوم کے لوگوں نے ان کو مارنا شروع کردیا قوم عاد کے لوگ بہت زیادہ شریر اور گناہ گار تھے، حضرت مرثد بن سعدنامی شخص کو قوم عاد کےلوگوں نے الگ کردیا، اور دعائیں مانگنے لگے، اس وقت اللہ تعالیٰ نے تین بدلیاں بھیجیں، جن کے رنگ مختلف تھے ایک سفید ایک سرخ ایک سیاہ، اس سے ایک آواز آئی کہ اے قوم عاد تم اپنے لیے ایک بدلی کو پسند کرلو، یہ آواز آسمان کی طرف سے آئی ان لوگوں نے اپنے لیے کالی بدلی کو پسند کیا، یہ لوگ اس خیال میں مگن تھے کہ کالی بدلی خوب زیادہ بارش دے گی چنانچہ وہ ابر قوم عاد کی طرف چل پڑا، قوم عاد کے لوگ کالی بدلی کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔

حضرتِ ہود علیہ ا لسلام نے فرمایا کہ اے میری قوم دیکھ لو عذابِ الہی ابر کی صورت میں تمہاری طرف بڑھ رہا ہے قوم عاد کے گستاخ لوگوں نے حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلادیااور کہا کہاں کا عذاب اور کیسا عذاب کہتے تھے ؟ کہ یہ تو بادل ہے جو ہمیں بارش دینے کے لیے آیا ہے، یہ بادل پچھم کی طرف سے آبادیوں کی طرف بڑھتا رہا، اور ایک دم ناگہانی اس میں سے ایک آندھی آئی جو اتنی شدید تھی کہ اونٹوں کو مع ان کے سوار کے اڑا کر کہیں سے کہیں پھینک دیتی تھی، پھر اتنی زوردار ہوگی کہ درختوں کو جڑوں س اکھاڑ کر لے جانے لگی، یہ دیکھ کر قوم عاد کے لوگوں نے اپنے سنگین محلوں میں داخل ہو کر دروازوں کو بند کرلیا مگر آندھی کے جھونکے نہ صرف دروازوں کو اکھاڑ کر لے گئے بلکہ پوری عمارتوں کوجھنجھوڑ کر ان کی اینٹ سے اینٹ بجادی، سات رات اور آٹھ دن مسلسل یہ آندھی چلتی رہی یہاں تک کہ قوم عاد کا ایک آدمی تک باقی نہ رہا، قوم قوم عاد کے سارے لوگ اور بچے فنا ہوگئے، سات رات اور آٹھ دن کے بعد جب یہ آندھی ختم ہوگئی تو قوم عاد کے لوگوں کی لاشیں زمین پر اس طرح پڑھیں تھیں جس طرح کھجوروں کے درخت زمین پر پڑے ہوتے ہیں۔

پھر قدرت خداوندی کا حکم اس طرح ہوا کہ کالے رنگ کے پرندوں کا ایک غول نمودار ہوا، جنہوں نے ان کی لاشوں کو اٹھا کر سمندر میں ڈال دیا، حضرت ہود علیہ ا لسلام کی قوم ایمان نہ لائی، حضرت ہود علیہ السلام نے اس بستی کو چھوڑ دیا، اور چند مومنین کو جو ایمان لائے تھے ان کو لے کر مکہ مکرمہ چلے گئے اور آخر زندگی تک بیت اللہ شریف میں عبادت کرتے رہے۔

قرآن مجید کی یہ آیتیں ہمیں جھنجھوڑ کر یہ سبق دے ر ہی ہیں کہ نیکی کی تاثیر آبادی اور بدی کی تاثیر بربادی ہے، یعنی بہت سی بستیاں اپنی بدکاریوں اور بد اعمالیوں کی وجہ سے ہلاک و برباد کردی گئیں جیسا کہ حضرت ہود علیہ السلام کی بستی تھی اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور ڈرتے توضر ور ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے، مگر انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے انہیں ان کے کیے پر گرفتار کیا۔


قوم عاد کی نافرمانیاں

Wed, 2 Jun , 2021
3 years ago

                                                        طوفانِ نوح کے بعد مسلمانوں نے جودی پہاڑ کے قریبی علاقے میں رہنا شروع کیا۔ ان کی اولاد میں اضافہ ہوا تو لوگ دور دراز کے مختلف علاقوں میں پھیل گئے۔ انہیں میں سے ایک قبیلہ جزیرہ عرب کے جنوبی طرف یمن کے ریتلے ٹیلوں والے علاقے ”احقاف“ میں قیام پذیر ہوا۔ یہ قبیلہ اپنے والد ”عاد“ یا بادشاہ ”عاد“ کی نسبت سے ”قومِ عاد“ کہلایا۔ اس قوم کے لوگ صحت مند ، طاقتور اور لمبی عمروں والے تھے لیکن ایمان و عمل کے اعتبار سے پستی کا شکار تھے چنانچہ بتوں کی پوجا، لوگوں کا مذاق اڑانا اور لمبی زندگی کی امید پر مضبوط محل بنانا ان کے عام معمولات تھے۔ اللہ تعالی نے ان کی ہدایت کے لیے حضرت ہود علیہ السّلام کو ان کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔ مگر اس قوم نے ان کی نافرمانیاں کیں۔ جن میں سے چند کا تذکرہ مندرجہ ذیل ہے۔

حضرت ہود علیہ السّلام کی قوم کو نصیحت اور ان کا گستاخانہ جواب :

حضرت ہود علیہ السّلام نے قومِ عاد کو وحدانیتِ الہی پر ایمان لانےکا حکم دیا تو قوم کے کافر سرداروں نے کہا :ہمیں تو تم واضح طور پر بے وقوف لگتے ہو کیونکہ تم اپنے باپ دادا کے دین کی بجائے دوسرے دین کو مانتے ہو۔(سیرت الانبیاء، ص 209)

قوم عاد کا انکارِ رسالت:

قومِ عاد نے ایک موقع پر واضح الفاظ میں یہ کہہ کر بھی حضرت ہود علیہ السّلام کی رسالت کا انکار کر دیا کہ اگر ہمارا رب کوئی رسول بھیجنا چاہتا تو وہ فرشتوں کو اتار دیتا اور تم چونکہ فرشتے نہیں ہو اس لیے ہم تماری رسالت کا انکار کرتے ہیں۔ (سیرت الانبیاء، ص 211-212)

سرداران کفار کا یوم حشر پر اعتراض :

حضرت ہود علیہ السّلام نے قوم کو قیامت کے دن دوبارہ زندہ ہونے کا بتایا تھا اس پر کافر سرداروں نے اپنے لوگوں کو ایک عقلی دلیل دیتے ہوئے کہا: یہ نبی تم سے یہ کہتا ہے کہ مرنے کے بعد جب تمہارا گوشت مٹی میں مل جائے گا صرف ہڈیاں باقی رہ جائیں گی، اس کے بعد پھر تمہیں زندہ کر کے قبروں سے نکالا جائے گا؟ یہ سب باتیں عقل سے بہت بعید ہیں۔ (سیرت الانبیاء، ص212-213)

قومِ عاد کا غرور و تکبر کرنا :

قبیلہ عاد کے لوگ بڑے طاقتور اور متکبر تھے، چنانچہ ایک موقع پر جب حضرت ہود علیہ السّلام نے انہیں عذاب الہی سے ڈرایا تو انھوں نے اپنی قوت پر غرور کرتے ہوئے کہا: ہم سے زیادہ طاقتور کوئی نہیں اور اگر عذاب آیا تو ہم اسے اپنی طاقت سے ہٹا سکتے ہیں۔ (سیرت الانبیاء، ص213)

نصیت کے جواب میں قوم کی ہٹ دھرمی :

قوم عاد نے حضرت ہود علیہ السّلام کی نصیحتوں کے جواب میں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا: آپ کا ہمیں نصیحت کرنا، نہ کرنا برابر ہیں، ہم ہرگز آپ کی بات نہ مانیں گے، نہ دعوت حق قبول کریں گے اور جن چیزوں کا آپ ہمیں خوف دلا رہے ہیں، یہ پہلے لوگوں کی باتیں ہیں، وہ بھی ایسی ہی باتیں کہا کرتے تھے۔ (سیرت الانبیاء، ص215)

تو ان نافرمانیوں کے نتیجے میں اللہ تعالی کا عذاب ان پر آندھی کی صورت میں نازل ہوا جس کی وجہ سے وہ تباہ ہوئے اور عبرت کا نشان بنے۔ اس سے یہ سیکھنے کو ملا کہ نیکی کی دعوت اور برائی سے ممانعت کے لیے انبیاء علیہمُ السَّلام کی سیرت کا مطالعہ بہت مفید ہے، نیکی کی دعوت دینے والوں کو ہمت کرنی چاہیے۔ کامیاب مبلغ کے لیے ضروی ہے کہ اسے قوت ایمانی، اللہپر کامل بھروسہ حاصل ہوں اور نیکی کی دعوت دیتے ہوئے لوگوں کی بد تمیزی و جہالت پر صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔


قومِ عاد کی نافرمانیاں

Wed, 2 Jun , 2021
3 years ago

وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًاؕ-   ترجَمۂ کنزُالایمان: اور عاد کی طرف انکی برادری سے ہود کو بھیجا ۔(سورة الاعراف، آیت: ٦٥)

قومِ عاد دو ہیں : عادِ اولٰی یہ حضرت ہود علیہ السّلام کی قوم ہے اور یہ یمن میں آباد تھے اور عادِ ثانیہ ، یہ حضرت صالح علیہ السّلام کی قوم ہے ، اسی کو ثمود کہتے ہیں ان دونوں کے درمیان سو برس کا فاصلہ ہے۔(صراط الجنان، ج ٣، ص ٣٥١)

قومِ عاد احقاف میں رہتی تھی۔ قوم عاد نے زمین کو فسق سے بھر دیا تھا۔یہ لوگ بت پرست تھے۔ اللہ تعالٰی نے ان میں حضرت ہود علیہ السّلام کو مبعوث فرمایا۔ آپ نے انہیں توحید کا حکم دیا ،شرک و بت پرستی اور ظلم و جفا کاری کی ممانعت کی ، لیکن وہ نہ مانے اور آپ کی تکذیب کرنے لگے اور کہنے لگے ہم سے زیادہ زورآور کون ؟(صراط الجنان ، ج ٣ ، ص ٣٥٦)

جب حضرت ھود علیہ السلام کی قوم نے نصیحت حاصل نہ کی تو قادر و قدیر اور سچے رب تعالٰی کی بارگاہ سے انکے عذاب کا حکم نافذ ہوگیا (صراط الجنان ، ج ٤، ص ٤٥٦)

دنیا اور آخرت دونوں جگہ لعنت انکے ساتھ ہے اور لعنت کا معنی ہے اللہ تعالٰی کی رحمت اور ہر بھلائی سے دوری ۔ اس کے بعد اللہ تعالٰی نے ان کے برے انجام کا اصلی سبب بیان فرمایا کہ قومِ عاد نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا اس لیے انکا اتنا برا انجام ہوا۔(صراط الجنان ، ج ٤ ، ص ٤٥٨)

وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ثمود کی طرف ان کی برادری سے صالح علیہ السلام کو بھیجا۔ (سورة الاعراف، آیت: ٧٣)

قومِ ثمود قومِ عاد کے بعد ہوئی اور حضرت صالح علیہ السّلام حضرت ہود علیہ السّلام کے بعد ہیں ۔ قومِ ثمود بھی قومِ عاد کی طرح شرک و بت پرستی اور ظلم و جفا کاری میں مبتلا تھے اور جب حضرت صالح علیہ السّلام نے انہیں ان برائیوں سے روکا تو انہوں نے اپنی طاقت کے گھمنڈ میں آ کر خوب نافرمانیاں کی۔ بالآخر قومِ ثمود کا سردار جندع بن عمرو نے حضرت صالح علیہ السّلام سے عرض کی کہ آپ پہاڑ سے فلاں فلاں صفات کی اونٹنی لے آئیں تو ہم آپ پر ایمان لیے آئیں گے۔ چنانچہ حضرت صالح علیہ السّلام نے اپنے رب سے دعا کی تو یہ معجزہ بھی پورا ہوا اور چند لوگ جندع بن عمرو کے ساتھ ایمان لے آئے اور حضرت صالح علیہ السّلام نے اپنی قوم کو اس اونٹنی کے پاس بری نیت سے جانے اور اسے نقصان پہنچانے سے خبردار کیا، لیکن آپ کی قوم باز نہ آئی اور اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ دیں اور کہنے لگے کہ لے آؤ وہ عذاب جس کا تم ہم سے وعدہ کرتے ہو۔ چنانچہ وہ لوگ ایک زوردار آواز میں گرفتار ہوئے جن سے انکے سینے پھٹ گئے اور ہلاک ہو گئے ۔

(صراط الجنان ، ج ٣ ، ص ٣٦٠ ، ملخصاً)