حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے
فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن پانچ قسموں پر
اترا، (1) حلال(2) حرام(3)محکم اور (4) متشابہ(5) اور پانچ مثالیں، لہذا حلال کو حلال جانو اور حرام کو حرام
مانو، محکم پر عمل کرو اور متشابہ پر
ایمان لاؤ، مثالوں سے عبرت پکڑو۔( مشکوۃ المصابیح ، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، حدیث 172،اسلامی کتب خانہ)
قرآن کی بہت ساری مثالوں میں سے
ایک مثال قومِ عاد بھی ہے۔
قومِ عاد دو ہیں، عادِ اولٰی:یہ
حضرت ہود علیہ السلام کی قوم ہے اور یہ یمن میں آباد تھے اور عادِ ثانیہ:یہ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ہے، اسی کو ثمود کہتے ہیں، ان دونوں کے درمیان سو برس کا فاصلہ ہے۔( تفسیر
صراط الجنان، جلد سوم، ص 351)
میرا موضوع عادِ اولٰی ہے۔قرآن
میں بہت جگہوں پر اس کی نافرمانیوں اور اس قوم پر آنے والے عذاب کا تذکرہ ہے، اس کا واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے قوم عاد کی
ہدایت کے لئے ان کے ہم قوم حضرت ہود علیہ السلام کو ان کے طرف بھیجا، حضرت ہود علیہ السلام نے فرمایا: اے میری قوم!تم
اللہ تعالی کی عبادت کرو، اس کے سوا
تمہارا کوئی معبود نہیں، کیا تمہیں اللہ عزوجل
کے عذاب سے ڈر نہیں لگتا؟ اس پر قوم کے
کافر سردار بولے: ہم تو تمہیں بے وقوف سمجھتے اور جو جھوٹا گمان کرتے ہیں اور
تمہیں رسالت کے دعوے میں سچا ہی نہیں جانتے، کفارکا حضرت ہود علیہ السلام کی بارگاہ میں یہ گستاخانہ کلام کہ" تمہیں
بے وقوف سمجھتے ہیں، جھو ٹا گمان کرتے ہیں"
انتہائی درجہ کی بے ادبی اور کمینگی تھی اور وہ اس بات کے مستحق تھے کہ انہیں سخت
ترین جواب دیا جاتا، مگر حضرت ہود علیہ
السلام نے اپنے اخلاق و ادب اور شانِ حلم سے جو جواب دیا، اس میں
شانِ مقابلہ ہی نہ پیدا ہونے دی اور ان کی جہالت سے چشم پوشی فرمائی، چنانچہ فرمایا: اے میری قوم! بیوقوفی کا میرے
ساتھ کوئی تعلق نہیں، میں تو ربّ العالمین
کا رسول ہوں، میں تو تمہیں اپنے ربّ کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور
تمہارے لئے قابل اعتماد خیر خواہ ہوں۔(صراط الجنان، ج سوم، 352)
مزید یہ کہ "جب آپ علیہ
السلام کے پاس وحی آتی تو قوم کے پاس آکر سنا دیتے، اس وقت قوم یہ جواب دیتی کہ
کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ عزوجل کی عبادت کریں اور جن بتوں کی عبادت
ہمارے باپ دادا کیا کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں، اگر تم سچے
ہو تو وہ عذاب لے آؤ، جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے ہو۔
حضرت ہود علیہ السلام نے
فرمایا:بے شک تم پر تمہارے ربّ کا عذاب اور غضب لازم ہو گیا۔"(صراط الجنان، ج سوم، 352)
قومِ عادجو بڑی طاقتور اور قد آور قوم تھی اور ان لوگوں کی
مالی خوشحالی بھی نہایت مستحکم تھی، کیونکہ لہلہاتی کھیتیاں اور ہرے
بھرے باغات ان کے پاس تھے، پہاڑوں کو
تراش تراش کر ان لوگوں نے گرمیوں اور سردیوں کے لئے الگ الگ محلات تعمیر کئے
تھے، ان لوگوں کو اپنی کثرت اور طاقت پر
بڑا اعتماد تھا، اپنے تمدن اور سامانِ عیش وعشرت پر بڑا ناز تھا، مگر کفر اور بداعمالیوں و بدکاریوں کی نحوست نے
ان لوگوں کو قہر ِالہی کے عذاب میں اس طرح گرفتار کر دیا کہ آندھی کے جھونکوں اور
جھٹکوں نے ان کی پوری آبادی کو جھنجھوڑ کر
چکنا چور کر دیا اور اس پوری قوم کے وجود کو صفحہ ہستی سے اس طرح مٹا
دیا کہ ان کی قبروں کا کہیں بھی نشان باقی نہ رہا، تو پھر بھلا ہم لوگوں جیسی کمزور قوموں کا
کیا ٹھکانہ ہے؟ کہ عذابِ الہی کے جھٹکوں
کی تاب لا سکیں، اس لئے جن لوگوں کو اپنی اور اپنی نسلوں کی خیریت و بقا منظور ہے، انہیں لازم ہے کہ وہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانیوں اور بد اعمالیوں سے ہمیشہ بچتے رہیں، اپنی کوشش اور طاقت بھر اعمالِ صالحہ اور
نیکیاں کرتے رہیں۔(عجائب القرآن مع غرائب
القرآن، ص 109)
دعوت ِاسلامی کے شعبہ اصلاح اعمال کے تحت گزشتہ دنوں کوئٹہ کے علاقے اے ون سٹی میں اصلاح
اعمال اجتماع ہوا جس میں 15 اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔
شعبہ
اصلاح اعمال کی زون ذمہ داراسلامی بہن نے
نیک اعمال پر عمل کرنے کے حوالے سے اسلامی
بہنوں کو مدنی پھول دیئے اوررسالہ نیک اعمال پر عمل کرنے، مدنی مذاکرہ سننے کا ذہن
دیا جس پر اسلامی بہنوں نے روزانہ اپنے
اعمال کا جائزہ لینے اورمدنی مذاکرہ سننے کی نیتوں کااظہار کیا۔
حضرت نوح علیہ السلام کے برسوں
بعد اللہ تعالی نے ایک قوم پیدا فرمائی،
جسے اس زمانے میں "قومِ عاد" کہا جاتا تھا، یہ لوگ صحت مند، طاقت ور، بڑے قد کاٹھ اور لمبی عمر والے تھے، لیکن ایمان و عمل کے اعتبار سے پستی کا شکار تھے، چنانچہ بتوں کی پوجا کرنے، لوگوں کا مذاق
اڑانا، دوسروں کو تنگ کرنا اور لمبی زندگی
کی اُمید پر مضبوط محل بنانا ان کے عام معمولات تھے۔(بحوالہ سیرت الانبیاء)
نعمتوں کی بہتات کے باوجود میں
کفر و شرک کی اور فسق و فجور کی وبا پھیلی ہوئی تھی، چنانچہ یہ لوگ توحیدِ الہی، عبادتِ خداوندی اور اطاعتِ رسول چھوڑ کر مختلف
ناموں سے موسوم اپنے ہی تراشیدہ بتوں کی پوجا میں مشغول تھے، اس کے علاوہ یہ سرِ راہ چھوٹی چھوٹی عمارتیں
بناتے، ان پر بیٹھ کر لوگوں سے چھیڑخانی
اور مذاق مسخری کرتے اور زندگی کی موج مستیوں سے لُطف اندوز ہونے کے لئے مضبوط محل
تیار کرتے تھے، ان کے طرزِ عمل سے یہ لگتا
تھا جیسے انہیں کبھی مرنا نہیں ہے، بلکہ
ہمیشہ زندہ رہنا ہے۔(سیرت الانبیاء)
قو مِ عاد نے ایک موقع پر انہی الفاظ میں یہ کہہ کر بھی حضرت ہود علیہ السلام (جو کہ اس
قوم کے نبی علیہ السلام تھے) کی رسالت کا انکار کر دیا کہ اگر ہمارا ربّ کوئی رسول
بھیجنا چاہتا تو وہ فرشتوں کو اُتار دیتا، چونکہ تم فرشتے نہیں ہو، اس لئے ہم تمہیں انکار کرتے ہیں، یعنی تمہاری رسالت کا انکار کرتے ہیں ، قرآن عظیم
میں ہے:
قَالُوْا لَوْ شَآءَ رَبُّنَا لَاَنْزَلَ
مَلٰٓىٕكَةً فَاِنَّا بِمَاۤ اُرْسِلْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ۔
ترجمہ کنزالایمان:" بولے ہمارا رب چاہتا تو فرشتے اُتارتا تو جو کچھ تم لے کر بھیجے گئے ہم اُسے نہیں مانتے ۔( پارہ 24، حٰم السجدہ، آیت14)
قومِ عاد نے حضرت ہود علیہ السلام کی دعوت قبول کرنے سے
انکار کر کے شرک اور گناہوں پر اصرار کو
ترجیح دی۔
قومِ عاد کے بُرے
افعال، نافرمانیاں:
1۔کفر کرنا۔
2۔ بتوں کی پوجا کرنا۔
3۔ کفر و شرک اور گنا ہوں میں
اپنے آباؤ اجداد کی پیروی کرنا۔
4۔ گناہوں پر اصرار۔
6۔توبہ استغفار سے انکار۔
7۔سرکش و نافرمان لوگوں کو اپنا
پیشواء ماننا۔
8۔اللہ تعالی کے
9۔ نبی اور مسلمانوں کو اذیت دینا۔
10۔ان کی تحقیر کرنا اور انہیں بُرا
بھلا کہنا۔
11۔خدا کی قدرت کے مقابلے میں
اپنی طاقت و قوت پر مغرور ہونا۔
12۔لوگوں پر ظلم و ستم۔
13۔بڑی بے دردی کے ساتھ لوگوں کی
گرفت کرنا۔
14۔راہ گیروں کو ستانا۔
15۔لمبی لمبی امیدیں رکھنا۔
16۔ نعمتوں کی ناشکری کرنا، وغیرہ
قومِ عاد حضرت ہود علیہ
السلام کی قوم کو کہا جاتا ہے، یہ قوم مقامِ "احقاف" میں رہتی
تھی، جو عمان و حضر الموت کے درمیان ایک
بڑا ریگستان ہے، ان کے مورثِ اعلی کا نام
عادبن عوص بن ارم بن سام بن نوح تھا، پوری قوم کے لوگ ان کو مورثِ اعلٰی
"عاد"کے نام سے پکارنے لگے۔(عجائب القرآن، ص106)
چنانچہ حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دی، آپ نے اپنی قوم سے فرمایا:
قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ
مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اَفَلَا تَتَّقُوْنَ۔
ترجمۂ کنزالایمان:"کہا اے میری قوم اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا
کوئی معبود نہیں تو کیا تمہیں ڈر نہیں۔"(پ8،اعراف: 65)
قومِ عاد کی
نافرمانیاں:
پیغامِ الہی سن کر قومِ عاد نے آپ
علیہ السلام کو جھٹلایا اور نافرمانیوں کا
سلسلہ شروع کر دیا، دینِ حق کی دعوت سن کر کافر سردار بولے:
اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ سَفَاهَةٍ وَّ اِنَّا
لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ۔
ترجمۂ کنزالایمان:" بے شک ہم تمہیں بے وقوف سمجھتے ہیں، بے شک ہم تمہیں
جھوٹوں میں گمان کرتے ہیں۔"(پ8،اعراف:66)
ان کی اس طرح سخت کلامی اور بے
ادبی کے باوجود آپ علیہ السلام نے انتہائی
حلم اور تحمل کے ساتھ جواب دیا:" مجھے بے وقوفی سے کیا علاقہ ہے، میں تو اللہ کا رسول ہوں۔"
لیکن قومِ عاد نے پھر بھی آپ کی
رسالت کا انکار کیا، آپ کے معجزات کے منکر ہو گئے، چنانچہ کہا:
قَالُوْا یٰهُوْدُ مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَةٍ وَّ
مَا نَحْنُ بِتَارِكِیْۤ اٰلِهَتِنَا عَنْ قَوْلِكَ وَ مَا نَحْنُ لَكَ
بِمُؤْمِنِیْنَ۔
ترجمۂ کنزالایمان:" بولے اے
ہود! تم کوئی دلیل لے کر ہمارے پاس نہ آئے اور ہم خالی تمہارے کہنے سے اپنے خداؤں
کو چھوڑنے کے نہیں نہ تمہاری بات پر یقین لائیں ۔ " ( پ 1 2 ، ہود:53)
آخر کار قومِ عاد نے آپ کو جھٹلا
دیا اور اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑ کر ایمان لانے سے انکار کر دیا اور کہنے
لگے:لاؤ اگر تم سچے ہو جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے ہو۔" حضرت ہود علیہ
السلام نے فرمایا:بے شک تم پر تمھارے ربّ
کا عذاب اور غضب لازم ہو گیا۔
عذابِ الہی:
اس قوم کی مستقل نافرمانیوں اور
دینِ حق کو جھٹلانے کی وجہ سے ان پر عذابِ الہی آیا، تین سال تک قحط سالی اور بارش نہ ہوئی، اس قوم کے کچھ لوگ مکہ گئے اور دعا کی تو اللہ
نے تین قسم کے بادل بھیجے، انہوں نے اس سے
سیاہ بادل کو اختیار کیا کہ سیاہ بادل خوب
برسے گا، مگر اس با دل سے ایسی ہوا چلی کہ
اُونٹوں اور آدمیوں کو اُڑا کر کہیں سے
کہیں لے جاتی تھی، یہ دیکھ کر وہ گھروں میں داخل ہوگئے، مگر ہوا کی تیزی سے نہ بچ سکے، اُس نے
دروازے بھی اُکھیڑ دئیے اور ان لوگوں کو ہلاک و برباد کر دیا۔حضرت ہود علیہ السلام
اور مؤمنین کو قوم سے جدا ہو گئے تھے، اس
لئے سلامت رہے اور آخر عمر شریف تک مکہ میں اللہ کی عبادت کرتے رہے۔اللہ کریم سے
دعا ہے کہ وہ ہمیں پچھلی قوموں سے عبرت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے
دین کے احکامات کو بجا لانے کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین
قومِ عاد احقاف میں رہتی
تھی، جو عمان و حضر موت کے درمیان ایک بڑا
ریگستان ہے، یہ لوگ بت پرست اور بہت
بداعمال و بد کردار تھے، اللہ تعالی نے
اپنے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام کو ان لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا، مگر اس قوم نے
اپنے تکبر اور سر کشی کی وجہ سے حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلایا اور اپنے کفر پر
اڑے رہے، حضرت سیّدنا ہود علیہ السلام بار بار ان سرکشوں کو عذابِ الٰہی سے ڈراتے
رہے، مگر گناہوں کی حرص میں مبتلا اس قوم
نے نہایت ہی بے باکی اور گستاخی کے ساتھ اپنے نبی سے یہ کہہ دیا کہ
ترجمۂ کنزالایمان:"کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کو
پوجیں اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے انھیں چھوڑ دیں تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دیتے ہو اگر سچے ہو۔"(پ8،
اعراف: 70)
آخر عذابِ الہی کی جھلکیاں شروع
ہوگئیں، تین سال تک بارشیں نہیں ہوئی اور
ہر طرف قحط و خشک سالی کا دور دورہ ہو
گیا، چنانچہ یہ قوم مکۂ معظمہ دعا مانگنے گئی، اس قوم میں حضرت مرثد بن سعد بھی تھے، جو مؤمن تھے، جب انہوں نے اپنا ایمان ظاہر کر دیا تو قومِ عاد
کے غنڈوں نے ان کو مار پیٹ کر الگ کر دیا اور دعائیں مانگنے لگے، اس وقت اللہ نے سفید، سرخ اور سیاہ رنگ کی تین بدلیاں بھیجیں، آسمان سے ایک آواز آئی
کہ"اے قومِ عاد! تم لوگ اپنے لئے ان میں سے کسی ایک بدلی کو پسند کر لو۔"تو ان لوگوں نے کالی بدلی کو پسند کر لیا اور یہ لوگ
اس خیال میں مگن تھے کہ کالی بدلی خوب بارش دے گی، چنانچہ وہ ابرِ سیاہ
قومِ عاد کی آبادیوں کی طرف چل پڑا، قومِ
عاد کے لوگ کالی بدلی کو دیکھ کر خوش ہوئے، حضرت ہود علیہ السلام نے فرمایا:" اے میری قوم! دیکھ لو! عذابِ الہی
اَبر کی صورت میں تمہاری طرف بڑھ رہا ہے۔"مگر قوم کے گستاخوں نے اپنے نبی کو
جھٹلا دیا اور کہاکہ کہاں کا عذاب اور کیسا عذاب؟
ترجمۂ کنزالایمان:"یہ بادل ہے، جو کہ ہم پر برسے گا۔"(پ26، احقاف:24)
اس آندھی سے یہ لوگ ہلاک و برباد
ہو گئے، یہ آندھی آٹھ دن تک چلتی رہی، یہاں تک کہ قومِ عاد کا ایک شخص بھی نہ بچا، پھر قدرتِ خداوندی سے کالے رنگ
کے پرندوں کا ایک غول نمودار ہوا، جنہوں
نے ان کی لاشوں کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا۔
ہمیں بھی چاہئے کہ اللہ و رسول
عزوجل وصلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانیوں اور بد اعمالیوں سے ہمیشہ
بچتے رہیں، اپنی زندگی اطاعتِ الہی میں
بسر کریں، ورنہ قرآن مجید کی آیتیں ہمیں
جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر یہ درس دے رہی ہیں کہ
نیکی کی تاثیر آبادی اور بدی کی تاثیر بربادی ہے۔
زمین بوجھ سے میرے پھٹتی نہیں ہے
یہ تیرا ہی تو ہے کرم یا الہی
(وسائلِ بخشش)
(حرص، المدینۃ العلمیہ، ص 56
تا60)
دعوت ِاسلامی کے شعبہ علاقائی دورہ کے تحت گزشتہ دنوں زون ساؤتھ 2 کابینہ اورنگی ٹاون میں مدنی مشوروں کاانعقادہوا جس میں علاقائی دورہ کی
ذیلی تا کابینہ مشاورت کی تقریباً 58 اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔
زون مشاورت ذمہ دار اسلامی بہن نے مدنی مشورے
میں شریک اسلامی بہنوں کو ہدف بنا کر مدنی کام کرنے کا طریقہ بتاتے ہوئے جدول کارکردگی سمجھائی اور علاقائی دورہ ،محفل ِنعت اور ماہانہ مدنی حلقہ نکات
کے مطابق کرنے کاذہن دیا جس پر اسلام
بہنوں نے اچھی اچھی نیتوں کااظہار کیا۔
وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا ؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا
اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ ؕ-اَفَلَا تَتَّقُوْنَ(۶۵)
ترجمۂ کنز العرفان: اور قومِ عاد کی طرف ان کے ہم قوم ہود کو بھیجا ۔ ( ہود نے)
فرمایا: اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ۔ تو
کیا تم ڈرتے نہیں ۔
عاد سے کون مرادہے؟
تفسیر صراط الجنان
{ وَ اِلٰى عَادٍ : اور قومِ عاد کی طرف۔} قوم عاد دو ہیں : عادِ اُوْلیٰ یہ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ہے اور یہ یمن میں آباد تھے اور
عادِثانیہ،یہ حضرت صالح عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم ہے، اسی کو ثمود کہتے ہیں ان دونوں کے
درمیان سو برس کا فاصلہ ہے۔ یہاں عادِ
اُولیٰ مراد ہے۔ ( جمل، الاعراف، تحت الآیۃ: ۶۵ ، ۳ / ۵۸ ،
روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۶۵ ، ۳ / ۱۸۵ )
عاد اولی کی نافرمانیاں
حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی
قوم کا واقعہ:
اس آیت اور
اگلی چند آیات میں جو واقعہ بیان ہوا اس
کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قومِ عاد کی ہدایت کے لئے ان کے ہم قوم حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی طرف بھیجا ۔ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا:’’ اے میری قوم ! تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، کیا تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے ڈر نہیں لگتا ؟اس پرقوم کے کافر
سردار بولے: ہم توتمہیں بیوقوف سمجھتے اور جھوٹا گمان کرتے ہیں اور تمہیں رسالت
کے دعویٰ میں سچا ہی نہیں جانتے ۔کفار کا حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بارگاہ میں یہ گستاخانہ کلام کہ’’ تمہیں بے
وقوف سمجھتے ہیں ‘ جھوٹا گمان کرتے ہیں
‘‘انتہا درجہ کی بے ادبی اور کمینگی تھی اور وہ اس بات کے مستحق تھے کہ انہیں سخت
ترین جواب دیا جاتا مگر حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے
اپنے اخلاق و ادب اور شانِ حلم سے جو جواب دیا اس میں شانِ مقابلہ ہی نہ پیدا ہونے دی اور اُن کی جہالت سے چشم پوشی فرمائی
چنانچہ فرمایا :اے میری قوم ! بے وقوفی کامیرے ساتھ کوئی تعلق نہیں میں تو ربُّ
العالمین کا رسول ہوں۔ میں توتمہیں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے پیغامات پہنچاتا
ہوں اور تمہارے لئے قابلِ اعتماد خیرخواہ ہوں اور کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ
تمہارے پاس تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف
سے تمہیں میں سے ایک مرد کے ذریعے نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے ڈرائے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے یہ احسان یاد کرو کہ اس نے تمہیں قومِ نوح کے بعد ان کا جانشین بنایا
اور تمہیں عظیم جسمانی قوت سے نوازا کہ قد کاٹھ اور قوت دونوں میں دوسروں سے ممتاز
بنایا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے احسانات یاد کرو، اس پرایمان لاؤ اور
اطاعت و بندگی کا راستہ اختیار کرو۔ حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چونکہ
اپنی قوم کی بستی سے علیحدہ ایک تنہائی کےمقام میں عبادت کیا کرتے تھے، جب آپ کے
پاس وحی آتی تو قوم کے پاس آکر سنادیتے ، اس وقت قوم یہ جواب دیتی کہ کیا تم
ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کریں اور جن بتوں کی عبادت ہمارے باپ
دادا کیا کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں۔ اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب لے آؤ جس کی تم
ہمیں وعیدیں سناتے ہو۔ حضرت ہود عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: بیشک
تم پر تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کا عذاب اور غضب لازم ہوگیا۔
(حوالہ صراط الجنان جلد سوم صفحہ
351سورہ اعراف آیہ نمبر 65)
عاد ثانی(قوم ثمود)
کی نافرمانی
وَ
یٰقَوْمِ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰیَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ فِیْۤ اَرْضِ
اللّٰهِ وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِیْبٌ(۶۴)
ترجمۂ کنز العرفان :اور اے میری قوم! یہ تمہارے لئے نشانی
کے طور پر اللہ کی اونٹنی ہے تو اسے چھوڑ دو تاکہ یہ اللہ کی زمین میں کھاتی رہے
اور اسے برائی کے ساتھ ہاتھ نہ لگانا ورنہ قریب کا عذاب تمہیں پکڑ لے گا۔(پ12،ھود:64)
تفسیر صراط الجنان
{ وَ یٰقَوْمِ هٰذِهٖ نَاقَةُ
اللّٰهِ لَكُمْ اٰیَةً :
اور اے میری قوم! یہ تمہارے لئے نشانی کے طور پر اللہ کی اونٹنی ہے۔} قومِ ثمود نے
حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے معجزہ طلب کیا تھا۔
آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو پتھر سے
بحکمِ الٰہی اونٹنی پیدا ہوئی ، یہ اونٹنی ان کے لئے حضرت صالح عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صداقت پر نشانی اور حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کا معجزہ تھی۔ اس آیت میں اس اونٹنی کے متعلق اَحکام ارشاد فرمائے گئے
کہ اسے زمین میں چرنے دو اور کوئی تکلیف نہ پہنچاؤ ورنہ دنیا ہی میں گرفتار ِعذاب
ہوجاؤگےاور مہلت نہ پاؤ گے۔(خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۶۴ ، ۲ / ۳۶۰ ،
ملخصاً )
فَعَقَرُوْهَا فَقَالَ تَمَتَّعُوْا فِیْ دَارِكُمْ ثَلٰثَةَ
اَیَّامٍ ؕ-ذٰلِكَ وَعْدٌ غَیْرُ مَكْذُوْبٍ(۶۵)
ترجمۂ کنز
العرفان: تو انہوں نے اس کے پاؤں کی پچھلی
جانب کے اوپر والی ٹانگوں کی رگیں کاٹ دیں تو صا لح نے فرمایا: تم اپنے گھرو ں میں
تین دن مزید فائدہ اٹھالو۔ یہ ایک وعدہ ہے جو جھوٹا نہ ہوگا۔(پ12،ھود: 65)
تفسیر صراط الجنان
{ فَعَقَرُوْهَا : تو انہوں نے اس کے پاؤں کے اوپر
ٹانگوں کی رگیں کاٹ دیں۔} قومِ ثمود نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کی اور بدھ کے دن انہوں نے اس اونٹنی کی ایڑیوں کے
اوپر ٹانگوں کی رگیں کاٹ دیں۔ اس کے بعد حضرت صالح عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا: اپنے گھروں میں تین دن یعنی جمعہ
تک جو کچھ دنیا کا عیش کرنا ہے کرلو، ہفتے کے دن تم پر عذاب آجائے گا اورا س کی
علامت یہ ہے کہ پہلے دن تمہارے چہرے زرد ہوجائیں گے ، دوسرے دن سرخ اور تیسرے دن
یعنی جمعہ کو سیاہ ہو جائیں گے، پھر ہفتے کے دن عذاب نازل ہوگا۔یہ ایک وعدہ ہے جو
جھوٹا نہ ہوگا ، چنانچہ ایسے ہی ہوا۔ ( خازن،
ہود، تحت الآیۃ: ۶۵ ، ۲ / ۳۶۰ ، مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۶۵ ، ص ۵۰۴ ، ملتقطاً ) (
صراط الجنان جلد 4 سور ھودآیت 64 اور 65)
دعوتِ اسلامی کے شعبہ مکتبۃ المدینہ کے تحت گزشتہ
دنوں لاہور ریجن میں بذریعہ اسکائپ مدنی
مشورے کاانعقادہوا جس میں لاہور ریجن مکتبۃالمدینہ ذمہ دار اور دفتر ذمہ داراسلامی
بہنوں نے شرکت کی ۔
پاکستان
ذمہ دار اسلامی بہن نے دفتری کاموں کے حوالے سے تربیتی نکات بتائے اور دفتری نظام کو مضبوط کرنے کےحوالےسےمدنی
مشوروں میں شعبہ ذمہ داراسلامی بہنوں کو
شرکت کروانے ،ذمہ دار اسلامی بہنوں کا فالو اپ کرنے اور پینڈنگ کاموں کو بروقت اور
احسن انداز میں مکمل کرنے کا طریقہ بتایا جس پر ذمہ داراسلامی بہنوں نے اچھی اچھی نیتیں پیش کی
۔
دعوتِ اسلامی کے شعبہ اصلاح اعمال کے تحت گزشتہ
دنوں حیدرآباد ریجن لاڑکانہ کابینہ میں اصلاح اعمال اجتماع کا انعقاد ہوا جس میں 34اسلامی بہنوں نے شرکت کی ۔
اصلاح اعمال زون سطح کی ذمہ
داراسلامی بہن نے نیک اعمال رسالہ کے حوالےسے نکات بتاتے ہوئے اسلامی بہنوں کو رسالہ نیک اعمال کا روزانہ جائزہ کرنے کاذہن دیا اور
مدنی مذاکرہ سننے کی ترغیب دلائی جس پر
اسلامی بہنوں نےاچھی نیتوں کااظہار کیا۔
کراچی کے علاقے رنچھوڑ لائن ،کوئٹہ زون اور کراچی زون ساؤتھ 2 میں دینی حلقوں کا سلسلہ
دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام گزشتہ دنوں کراچی کے علاقے رنچھوڑ
لائن میں ماہانہ دینی حلقہ کا انعقاد ہوا جس میں صاحبزادیِ عطار سلمھاالغفار اور زون نگران سمیت 37 اسلامی بہنوں نے شرکت کی
۔
زون نگران اسلامی بہن نے ’’ذمہ دار کو کیسا
ہونا چاہیے ‘‘کے موضوع پر بیان کیا
اور صاحبزادئی عطار سلمھاالغفار نے ڈونیشن جمع کر نے پر اسلامی بہنوں میں تحائف
بھی تقسیم کئے ۔
اسی طرح کوئٹہ زون اور کراچی زون ساؤتھ 2 میں 29 مقامات پر ماہانہ دینی حلقوں کا انعقاد ہوا جن 849 اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔ دینی حلقوں میں مبلغات اسلامی بہنوں نے مختلف موضو عات پر ترغیبی بیانات کئےاور اسلامی
بہنوں کو اجتماع میں کیسے لایا جائے اس کےحوالے سے اسلامی بہنوں کو نکات بتائے اوراسلامی
بہنوں کو پابندی سے مدنی مذاکرہ سننے ،نیک اعمال کا رسالہ ہر ماہ اپنے ذیلی حلقوں میں
جمع کروانے کی ترغیب دلائی ۔
اللہ ربُّ العزت ارشاد فرماتا ہے:
وَ تِلْكَ عَادٌ ﳜ جَحَدُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ وَ عَصَوْا رُسُلَهٗ وَ
اتَّبَعُوْۤا اَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ(۵۹)
وَ اُتْبِعُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا لَعْنَةً وَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-اَلَاۤ اِنَّ عَادًا كَفَرُوْا
رَبَّهُمْؕ-اَلَا بُعْدًا لِّعَادٍ قَوْمِ هُوْدٍ۠(۶۰)
ترجمۂ کنز الایمان: اور یہ عاد ہیں کہ اپنے رب کی آیتوں سے منکر ہوئے اور
اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر بڑے سرکش ہٹ دھرم کے کہنے پر چلےاور ان کے
پیچھے لگی اس دنیا میں لعنت اور قیامت کے دن سن لو بےشک عاد اپنے رب سے منکر ہوئے
ارے دور ہوں عاد ہود کی قوم۔
(پ12، ہود، 59-60)
قومِ عاد دو ہیں:
عادِ اولیٰ:حضرت ہود علیہ السلام
کی قوم ہے۔
عادِ ثانیہ:حضرت صالح علیہ السلام
کی قوم ہے، اسی کو ثمود کہتے ہیں۔
یہاں عادِ اولیٰ مراد ہے۔
قومِ عاد احقاف میں رہتی تھی، احقاف عمان اور حضرِموت کے درمیان علاقہ یمن میں
ایک ریگستان ہے، یہ لوگ بت پرست تھے،
مندرجہ بالا آیت میں اِس قوم کی کچھ
نافرمانیاں بیان کی گئی ہیں۔(صراط الجنان،
ج3، ص 351)
ربّ کی آیتوں کے
منکر:
اللہ تعالی نے حضرت ہود علیہ
السلام کو مبعوث فرمایا، آپ علیہ السلام
نے انہیں توحید کا حکم دیا، شرک و بت
پرستی اور ظلم وجفا کاری سے روکا، لیکن وہ
نہ مانے اور آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو جھٹلانے لگے۔(صراط الجنان، ج3، ص355)
نبی کی نافرمانی
اور توہین:
حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم
سے فرمایا:اے میری قوم!تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، کیا تمہیں اللہ کے عذاب سے ڈر نہیں لگتا؟ اس پر
قوم کے سردار بو لے:"ہم تو تمہیں بے وقوف سمجھتے اور جھوٹا گمان کرتے ہیں اور
تمہیں رسالت کے دعویٰ میں سچا ہی نہیں جانتے۔"(صراط الجنان، ج3، ص352)
اپنے ربّ کا انکار:
یہ لوگ بت پرست تھے ، ان کے ایک
بت کا نام "صُداء" اور ایک کا" صُمُود"اور ایک
کا"ہباء" تھا، اس قوم نے سرکشی کی، حضرت ہود علیہ السلام کی تکذیب کی اور زمین میں فساد پھیلایا اور ستم گاریوں
میں زیادتی کی۔(صراط الجنان، ج3، ص356)
غرضیکہ اس قوم نے اپنے نبی علیہ
السلام کو اذیت پہنچائی اور اُن کی دعوت کو قبول کرنے کی بجائے ہٹ درمی اور سرکشی
میں اندھے ہوگئے، اللہ کریم نے اُن پر
عذاب نازل فرمایا، یہ عذاب ایک سیاہ بادل کی صورت میں تھا، لوگ اِس بادل کو دیکھ کر خوش تھے کہ یہ خوب بارش
برسائے گا، مگر اس سے ایک ہوا چلی جو اس
شدت کی تھی کہ اونٹوں اور آدمیوں کو اُڑا اُڑا کر کہیں سے کہیں لے جاتی تھی، یہ دیکھ کر وہ لوگ گھروں میں داخل ہوئے
اور دروازے بند کئے، مگر ہوا کی تیزی سے بچ نہ سکے اور ان کو ہلاک کر دیا، قدرتِ الہی سے سیاہ پردے نمودار ہوئے ، جنہوں
نے اُن کی لاشوں کو اُٹھا کر سمندر میں پھینک دیا۔(صراط الجنان، ج3، ص357)بے شک ایسوں کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے ، اللہ کریم ہمیں ان
سے عبرت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
قوم عاد کا مختصر تعارف
قوم عاد کا تذکرہ قرآن کریم کی متعدد سورتوں میں موجود ہے۔
تفصیلی تذکرہ سورۀ ھود اور سورۀ اعراف میں جبکہ اجمالی تذکرہ سورۀ فجر ،
سورۀ قمر اور سورۀ قآف اور دیگر سورتوں میں ھے۔ جہاں
جہاں انکا اجمالی تذکرہ آتا ھے وہاں مفسرینِ کرام قوم عاد سے مراد دو طرح کی قومیں
لیتے ہیں:
۱. قومِ عادِ اولیٰ
۲. قومِ عادِ ثانیہ
قوم عاد اولیٰ سے مراد
حضرت ھود علیہ السلام کی قوم ہے جبکہ عادِ ثانیہ سے مراد حضرت صالح علیہ السلام کی
قوم ھے جو کہ قومِ ثمود کے نام سے مشہور ہے ۔ ان دونوں قوموں کے درمیان ۱۰۰ سال کا تقریباً فاصلہ ہے۔ ہم یہاں
قوم عاد اولیٰ جو کہ اللہ کے پیغمبر ھود علیہ السلام کی قوم ہے کے بارے میں جانیں
گے۔
قوم عاد کا جدّامجد "عاد بن عوص بن ارم بن سام بن
نوح" ھے اور یہ قوم اپنے مورِث اعلیٰ کے نام سے مشہور ہیں۔ مقامِ احقاف جو کہ
یمن کے شہر عمّان و حضر موت کے درمیان ہے میں آباد تھے یہ لوگ طاقت و قوت میں بہت
بڑھے ہوئے تھے اسی بناء پہ سرکش و متکبّر تھے نیز بداعمال و بدکردار تھے۔ ربّ
تعالیٰ نے انکی ھدایت کیلئے ھود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا مگر اس قوم نے ان سے
بھے سرکشی کی۔ آئیے اس قوم کی بداعمالیوں کا مختصر طور پہ جائزہ لیتے ہیں:
۱۔
قوم عاد نے ربّ تعالیٰ کے ایک ہونے کو جھٹلایا اور آیات الٰہیہ کی تکذیب کی۔
۲۔قومِ
عاد نے اپنے نبی ھود علیہ السلام کی تکذیب کی اور ان سے استہزاء کیا۔
۳۔قومِ
عاد نے تکبر کیا۔
قوم عاد کا ربّ تعالیٰ
اور آیات الٰہیہ کو جھٹلانا :
قوم عاد بتوں کے پجاری تھے ان کے بتوں کے نام یہ ہیں:
1. صداء 2. صمود 3.ھباء
قرآنِ کریم میں ان کی بت پرستی اور اس سے منع کرنے کے
باوجود شرك پہ اڑے رہنے کا تذکرہ قرآن
کریم میں یوں موجود ھے:
ترجمہ
کنزالایمان: اور یاد کرو عاد کے ہم قوم کو جب اس
نے سرزمیں احقاف میں انہیں ڈرایا اور بیشک اس سے پہلے ڈر سنانے والے گزر چکےاور
اسکے بعد آئے کہ اللہ کے سوا کسی کو نہ پوجو بیشک مجھے تم پہ بڑے دن کے عذاب کا
خوف ھے۔ بولے کیا اس لئے آئے ہو کہ ہمیں ہمارے معبودوں سے پھیر دو۔ تو ہم پہ لے آؤ
جسکا ہمیں وعدہ دیتے ھو اگر تم سچّے ہو۔(پارہ 26 سورہ احقاف آیت نمبر 21)
قوم عاد جو کہ بتوں کی پجاری اور رب تعالیٰ کو ایک ماننے سے
انکاری تھی کو جب ھود علیہ السلام نے تو حید کی دعوت دی تو انہوں نے نہ مانا اور
کفر پہ اڑے رہے بلکہ عذاب الٰھی کو بھی ہلکا جانا اور وعیدِ الٰھی کو طلب کر
بیٹھے، جو کہ بذات خود بہت عظیم گناہ ہے ۔
قومِ عاد کا ھود علیہ
السلام *کو جھٹلانا اور استہزاء
حضرت ھود علیہ السلام
کو ربّ تعالیٰ نے قومِ عاد کی اصلاح وتبلیغ کیلئے مبعوث فرمایا اور آپ انکے ہم قوم
تھے لیکن جب آپ نے انہیں تبلیغِ دین فرمائی تو معاذ اللہ قومِ عاد آپ علیہ الصلوٰة
والسلام کی طرف سفاھت منسوب کرنے لگی۔ جسکا ذکر ربّ تعالی نے قرآنِ مجید پارہ 8
سورۀ اعراف میں یوں فرمایا ہے :
قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ
قَوْمِهٖۤ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ سَفَاهَةٍ وَّ اِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ
الْكٰذِبِیْنَ
ترجمۂ کنزالایمان:" اس کی قوم کے سردار بولے
بے شک ہم تمہیں بیوقوف سمجھتے ہیں اور بے شک ہم تمہیں جھوٹوں میں گمان کرتے ہیں (پ8،اعراف:66)
قوم عاد نے اپنے نپی کی شان میں گستاخی کی اور معاذالله نبی کی
عقل کو کمتر جانتے ہوئے انکی طرف سفاہت کی نسبت کی حالانکہ ایک نبی کی عقل تمام
دنیا کے لوگوں سے زیادہ ہے اور اپنے نبی کی تعظیم فرض ہے اور انکی تعظیم و تکریم
میں کمی تمام انبیا و مرسلین کی تکذیب و توہین ہے۔ جیسا کہ رب تعالیٰ فرماتا ہے :
کَذَّبَتْ
عَادُ نِ
الْمُرْسَلِیْنَ
ترجمۂ
کنز الایمان: اور عاد نے جھٹلایا رسولوں کو۔
مفسرین کرام اس کی
تفسیر میں فرماتے ہیں:
مراد یہ ہے کہ اپنے نبی کا مُکذِّب تمام۔انبیأ و مرسلین علیھم
السلام کا مُکذِّب و گستاخ ہے۔
معلوم ہوا انبیاء و مرسلین علیھم السلام کی گستاخی موجبِ غضبِ
الٰہی ہے چنانچہ رب تعالی اور اسکی آیتوں
کو جھٹلانے اور ھود علیہ السلام کی شان میں گستاخی کے سبب ھود علیہ السلام نے انہیں عذابِ الہٰی کی وعید سنائی اور
فرمایا:
قَالَ
قَدْ وَقَعَ عَلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ رِجْسٌ وَّ غَضَبٍ ؕ اَتُجَادِلُوْنَنِیْ
فِیْ اَسْمَآءٍ سَمَّیْتُمُوْاھَا أَنْتُمْ وَآبَاءُکُمْ مَّا نَزَّلَ اللّٰهُ
بِھَامِنْ سُلْطٰنٍ ؕ فَانْتَظِرُوْا اِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ
ترجمۂ
کنز الایمان: کہا ضرور تم پر تمہارے رب کا عذاب اور غضب
پڑ گیا کیا
مجھ سے خالی ان ناموں میں جھگڑرہے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے اللہ
نے ان کی کوئی سند نہ اُتاری تو راستہ دیکھو میں بھی تمہارے ساتھ دیکھتا ہوں۔(پ8،اعراف:71)
قوم عاد نے تکبر کیا :
قوم عاد کو ربّ کریم نے نہایت قوی الجثہ تخلیق فرمایا تھا اور
انہیں بہت زیادہ طاقت و قوت عطا فرمائی تھی اور یہ پتھروں سے شہر تعمیر کرتے اور
اس میں رہتے۔ اللہ عزوجل ان کے طولِ قامت ہونے کا تذکرہ پارہ30 سورہ فجر میں
فرماتا ہے:
اِرَمَ
ذَاتِ الْعَمَادِ الَّتِیْ لَمْ
یُخْلَقْ مِثْلُھَا فِی الْبِلَادِ
ترجمۂ
کنز الایمان: وہ ارم حد سے زیادہ طول والے کہ ان جیسا شہروں میں پیدا نہ ہوا۔ (پ30،الفجر:
7،8)
تفسیرجلالین میں ہے :
ان کے قد کی طوالت
400 گز تھی۔اور مفسرین کرام کے ایک قول کے مطابق ان کے تعمیر کردہ شہروں کی تعداد
700 تھی۔
نیز رب تعالی نے انہیں بہتے چشموں اور باغوں سے بھی نوازا تھا
جس کا ذکر سورۂ شعراء پارہ 19 میں یوں ہے:
اَمَدَّکُمْ
بِاَنْعَامٍ وَّ بَنِیْنَ
وَجَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍ
ترجمۂ کنزالایمان:تمہاری مدد کی چوپایوں اوربیٹوں اور
باغوں اور چشموں سے۔
(پ19، الشعراء: 133،134)
لیکن اس سب پہ شکرالٰہی کے بجائے یہ تکبر کرتے اور لوگوں
کو ستاتے۔
ان کے تکبر اور سرکشی کا تذکرہ اس طرح قرآن مجید کی سورۂ
شعرآء کی آیت نمبر 128 تا131 میں اس طرح ہے:
اَتَبْنُوْنَ بِکُلِّ رِیْعٍ اٰیَةً
تَعْبَثُوْنَ وَتَتَّخِذُوْنَ
مَصَانِعَ لَعَلَّکُمْ تَخْلُدُوْنَ
وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَ فَاتَّقُواللّٰهَ وَاَطِیْعُوْنِ
ترجمۂ
کنز الایمان: کیا ہر بلندی پر ایک نشان بناتے ہو
راہ گیروں سے ہنسنے کواور مضبوط محل چنتے ہو اس اُمید پر کہ تم ہمیشہ رہوگے اور جب
کسی پر گرفت کرتے ہو تو بڑی بیدردی سے گرفت کرتے ہوتو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم
مانو۔
مفسرین فرماتے ہیں:قوم عاد بلند مقامات پہ عمارتیں وغیرہ بناتے
اور وہاں سے راہگیروں کو ستاتے اور اپنے
محل پتھروں سے مضبوط بناتے اکثر پہاڑ کی گھاٹیوں میں ایسے گھر بناتے جنکے درمیان پانی کا حوض بھی قائم کرتے اور
سمجھتے کہ دنیا ک زندگی ہی سب کچھ ہے اور
بہت ظالم تھے کہ کمزوروں پہ ظلم ڈھاتے اور معاملات میں ان پہ گرفت مضبوط رکھتے۔
حضرت ھود علیہ السلام نے کئی سال تک قوم عاد کو تبلیغِ دین
فرمائی اور انہیں ان کی بد اعمالیوں سے باز رہتے ہوئے عذابِ الہٰی کی وعید فرماتے
رہے لیکن بجائے اس کے کہ یہ قوم دعوت دین قبول کر کے اللہ عزوجل کی توحید کا اقرار
کرتی ھود علیہ السلام کی رسالت کو مانتے اور اللہ عزوجل کی نعمتوں کا شکر بجا لاتی وہ اپنے شرك و کفر پہ
قائم رہی سوائے چند ایک کہ کوئی ایمان نہیں لایا بلکہ عذاب الہٰی کا مطالبہ کرتے
رہے ۔ تووہ عذاب جس کا انہیں وعدہ دیا جارہا تھا اور وہ سرکشی کرتے ہوئے طلب کر
رہے تھے کی جھلکیاں کی شروع ہوگئیں۔
عذاب الہٰی کی جھلکیاں :
تین سال تک بالکل بارش نہ ہوئی اور قومِ عاد اناج کے دانے دانے
کو ترس گئی اور ہر طرف قحط سالی کا دوردورہ ہو گیا ۔ بجائے اس کے کہ قوم عاد اس سے
عبرت حاصل کرتی انہوں نے ایک وفد جو کہ تین افراد پہ مشتمل تھا خانۂ کعبہ کی جانب بھیج دیا کہ اس زمانے کا دستور تھا
کہ جب کوئی مصیبت آتی تو خانۂ کعبہ جا کر مصیبت کی ردّ کی دعا کرتے ۔ مکہ
مکرمہ میں ان دنوں قوم عمالیق آباد تھی انکا سردار معاویہ بن ابو بکر نامی شخص تھا
جسکا ننھیال قوم عاد میں تھے یہ وفد اسی کے ہاں ٹھہرا اور معاویہ بن ابوبکر نے
خاطر خواہ مدارت کی یہ لوگ وہاں شراب پیتے اور باندیوں کے ناچ دیکھتے ایک ماہ اسی
لہو لعب میں گزار دیا معاویہ بن ابو بکر کو خیال آیا یہ کس مقصد کیلئے یہاں آئے
تھے اور اب قوم کو بھولے بیٹھے ہیں خود سے یاد دلاتا ہوں تو یہ ہوگا کہ مہمان
نوازی گراں ہے چنانچہ اس نے گانے والی باندی کو ایسے اشعار دئیے جس میں قوم عاد کی
مصیبت تذکرہ تھا تو جب باندی نے ان اشعار سے یاد دلایا تو انہیں اپنا مقصدِ آمد
یاد آیا اور خانۂ کعبہ کی
جانب دعا کیلئے روانہ ہونے لگے تو ان میں ایک صاحب مرثد بن سعد نامی تھے جو ایمان
لاچکے تھے اور ایمان خفیہ رکھا تھا بول اٹھے: اللّٰه کی قسم ! تمہاری دعا سے پانی نہ برسے گا مگر یہ کہ تم اپنے نبی کی
اطاعت کرو اور اللہ سے توبہ کرو انہوں نے مرثد بن سعد کو وہیں چھوڑا اور خود دعا
کیلئے روانہ ہوئے۔
عذابِ الہٰی کا نزول :
ان لوگوں نے خانۂ کعبہ جا کر دعا کی رّب تعالیٰ نے تین بادل
بھیجے سرخ،سفید،سیاہ کہ جس کو چاہے اپنی قوم کیلئے پسند کرلو۔ انہوں نے ابرِسیاہ
کو پسند کیا کہ خوب پانی برسے گا جب یہ ابر قوم کی طرف بڑھا تو بہت خوش ہوئے کہ
خوب پانی ملے گا یہ بادل پچّھم کی طرف سے بڑھا لیکن اس میں سخت آندھی تھی جو کہیں
سے کہیں اڑا کے آدمیوں کو لے جاتی تھی یہ
دیکھ کے انہوں نے گھروں میں داخل ہوکر
دروازے بند کرلئے لیکن وہ ہوا انکےگھروں کو بھی اڑا کے لے گئی یہ ہوا مسلسل سات
رات اور آٹھ دن چلتی رہی اور قوم عاد کا ایک ایک شخص فنا ہوگیا حتی کہ کوئی بچہ
بھی باقی نہ رہا۔ پھر ربّ تعالیٰ نے پرندوں کے غول بھیجے جنہوں نے انکی لاشوں کو
سمندر میں پھینک دیا اور یوں رب تعالی کی نافرمان یہ قوم جس کو اپنے زورِبازو پہ
بہت ناز تھا نیست ونابود ہوئی۔
اور حضرت ھود علیہ السلام اپنے ساتھ ان چند لوگوں کو لیکر جو
ایمان لے آئے تھے مکۂ مکرمہ میں سکونت پذیر ہوئے اور آخر عمر تک وہیں عبادت میں
مصروف رہے۔